تانیثی اظہار کی معتبر آواز :ساجدہ زیدی

شبنم شمشاد

 ریسرچ اسکالر ،شعبۂ اردو، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ،علی گڑھ

 shabnamshamshadmau@gmail.com

  8320388٭٭٭

دنیائے ادب کی معروف و ممتاز ادیبہ ،شاعرہ ،ڈراما نگار ،نقاد ودانشورپروفیسر ساجدہ زیدی کانام محتاج تعارف نہیں ہے۔ شہر میرٹھ میں جنمی ساجدہ زیدی نے اپنی دانش وبینش اورعلمی بصیرت سے سرمایۂ ادب کے دامن کو وسیع کرنے کی کوشش کی ہے۔ساجدہ زیدی کی مکمل حیات تگ ودود سے عبارت ہے۔لفظ بے بسی کو انہوں نے اپنی زندگی کی لغت سے نکال پھینکا تھا۔ زندگی کی داخلی کشمکش سے متعلق ان کے افکار وخیالات کو ان کے شعری مجموعہ’’آتش سیال ‘‘ کی نظم ’’اجنبی موڑ پر ‘‘کے آئینے میں دیکھا جا سکتا ہے :

 ہے کہاں وہ سماں

درد کے نور میں …دھل کے نکھرے ہوئے جسم وجاں

بے حسی کی چٹانیں گراتی ہوئی

راہ سنگ خار ہٹاتی ہوئی

کرب تخلیق کی ندیاں …

روح کے زخم دھوتی ہوئی

تند جذبات کی بدلیاں

آبشار رواں

وہ …متاع گراں

ہے کہاں وہ سماں

ساجدہ زیدی نے عمر رفتہ میں ستم ہائے زمانہ کے کئی نشیب وفراز دیکھے مگر تیز وتند تھپیڑوں سے کبھی مات نہیںکھائی۔زندگی کی تمام صعوبتوں ، آفتوں، دشواریوں اور ہر المیۂ زندگی کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔

کب سے جس چادر تنہائی کو اوڑھے ہوئے

اس دشت پر آشوب کی دزیدہ مسافت طے کی

کھینچ لی سر سے مرے وہ بھی

زمانے کے عدو ہاتھوں نے ،

(پا برہنہ تھی …کھلے سر تھی …کہاں تک جاتی )

وہ جو ایک راہ پر اسرار مرے قلب سے

دامن افق تک تھی رواں

 چھپ گئی زرد بگولوں کی سیہ یورش میں

کور ہے منظر احساس

کوئی صبح نہیں شام نہیں

لوح محفوظ کے پردے پہ کوئی نام نہیں

معبد جاں میں کوئی گونجتی آواز نہیں

لب کشاد ردنہیں

شعلۂ رفتار کا انداز نہیں

نوعمری میں والد کا سایہ سر سے اٹھ جانا،زندگی کا ایک المیہ ہی تو ہے جس نے عہد طفلی کی معصوم آنکھوںسے خواب چھین لیئے، بے فکری سے زندگی سر کرنے کا حوصلہ چھین لیا ،بچپن کی جولانیوں سے محروم رکھا ،زندگی کے عیش و طرب کو ایک جنبش وقت کے دست ستم نے تار تار کردیا۔انہوں نے اپنے اس دردوکسک کو اپنی نظم ’’خون جگر ‘‘ میںیوں بیان کیا ہے :

 دل کے گوشوں میں سلگتے ہوئے زخموں کے چراغ

ذہن بیتاب میں سوئے ہوئے نغموں کی صدا

عمر کے سینے پہ دھکے ہوئے محرومی کے داغ

شعلۂ عشق ووفا اوڑھے فرائض کی ردا

جب کسی یاد کے آنچل کی ہوا پاتے ہیں

کیوں یہ ماضی کے دھندلکوں سے نکل آتے ہیں

ایک عورت کی زندگی کااس سے بڑھ کراور کیا المیہ ہو سکتا ہے جسے تا حیات کبھی سکون قلب اور راحت و آرام میسرہی نہ ہوا ہو۔ساجدہ زیدی اپنے والد کے انتقال کے بعد اپنے آبائی وطن کو خیرآباد کہہ کرگلستان سید ودیار سید شہر علی گڑھ میں ایک سال تک اپنے ماموں کے یہاں قیام پذیر رہیں۔ماموں کے تبادلہ کے بعد پانی پت ہجرت کر گئیں اور وہیں خالہ کے قائم کردہ اسکول میں آٹھویں جماعت تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد علی گڑھ عبداللہ کالج میں پانچ روپئے اسکالر شپ پرزندگی بسر کرنے لگیں۔

ساجدہ زیدی نے دہلی فسادات کا اپنی کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کیا تھا۔ اپنی نگاہوں کے سامنے اپنے گھر کو نذر آتش ہوتے دیکھا تھا۔ اس درد کی تپش ان کی شاعری میں محسوس کی جاسکتی ہے۔ان کے شعری مجموعہ ’’آتش زیر پا ‘‘ کی نظم ’’دل سیل خوں میں بہہ گیا ‘‘ کا یہ بند ملاحظہ ہو :

مگر یہ تو بسری  ہوئی داستاں ہے

افق پر دھواں ہے

 دلوں میں دھواں

مساجد ،مکاں ،سائباں

جلتے دیوار در

ہر اک سمت پھیلا دھواں ہے

مگر دل کہاں ……نالۂ دل نشین بھی کہاں ہے

سماعت کے ان ریگزاروں میں

چیخوں کراہوں کی

توپوں کی ، بارود کی ،گھن گرج کی صدا ہے

سماعت بھی آزار جاں ہے

ساجدہ زیدی نے علی گڑھ کو اپنا وطن ثانی بنالیا تھا۔یہیں سے دنیائے ادب و گلستان سخن میں قدم رکھا۔پانچ شعری مجموعوں ، تنقیدی مضامین کے دو اور دو ناول وتین ڈرامے ان کی ادبی کائنات کی تفصیل ہیں۔

ساجدہ زیدی نے اپنی عمر عزیزکا بیشتر حصہ زبان وادب کی تفہیم اور ذات و کائنات کے مسائل کو سمجھنے اور ان کے حل کی کھوج میں لگا دیا اوراس طرح ۹؍مارچ  ۲۰۱۱؁ کی گھپ اندھیری شام داعیٔ اجل بن کر آئی اور زبان و ادب کی اس چہکتی ہوئی بلبل کی آواز کو ہمیشہ کے لیے خاموش کردیا نیزیہ شمع فروزاں اس دار فانی کو الوداع کہہ کر اپنے مالک حقیقی سے جا ملیں۔

ساجدہ زیدی کو اپنے وطن سے بے پناہ محبت و عقیدت تھی۔انہوں نے ہمیشہ اپنے وطن کی صدا پر لبیک کہتے ہوئے ساز دل کو آواز دیا ہے:

ہم اس کی گودی کی راحتوں کو

یہاں سے ٹھکرا کے کیسے جاتے ؟

ہم اس کی ممتا کا سوز کھوکر

سکون وآرام کیسے پاتے

اس اجنبی دیس کی فضاؤں میں دل کاآہنگ کیسے ملتا؟

ان اجنبی وادیوں کے دامن میں چاہ کے پھول کیسے کھلتے

یہ وارداتیں یہ نقش الفت اگر کہیں ہے تو بس یہیں ہے

ہم اپنے کوچوں میں اجنبی ہیں ہم اپنے ہی گھر میں مہماں ہیں !

 جنگ آزادی کی صبح فروزاں کے ساتھ ہندو مسلم فسادات نے بہت سے گھر ویران کر دیئے ، انسانیت کراہ اٹھی ، ہر ایک ذی روح بے قرار تھی،لوگوں میں کشا کشی کا عالم برپا تھا۔انہیں اپنے ہی وطن جس کی انہوں نے اپنے لہو سے آبیاری کی تھی سکون وآرام میسر نہ تھا۔عصمت ریزی و خوں ریزی کا بازار گرم تھا۔ایسے پر فتن دور کا ساجدہ اپنی نظروں سے مشاہدہ کر کے اس کے تئیں اپنی نسائی حسیت کو بیدار کرتے ہوئے’جوئے نغمہ‘میں کہتی ہیں :

 کسی بیوہ کی سیہ دکھ بھری راتوں کا خیال

مطلع زیست میں اک آگ لگا جاتا ہے…

بھوک سے روندے ہوئے سینکڑوں معصوم کے جسم

کسی بیمار کی سسکی ،کسی بیکار کی سوچ

کسی داماندۂ افلاس کے قدموں کی تھکن

 ذہن کے بند دریچوں میں بھی در آتی ہے

ساجدہ زیدی نے ستم ہائے زمانہ کی ظلم رسیدہ عورت کے کرب و الم کو محسوس کیا اورتقاضائے وقت کے تئیں اپنی عصری حسیت کو بیدار کرتے ہوئے خون تمنا کی اس روداد کو یوں زبان عطا کی :

جسم بکتے ہیں طلب بکتی ہے دل بکتے ہیں

ذہن بک جاتے ہیں ناموس وفا بکتی ہے

آرزوؤں کو کفن ملتا ہے محرومی کا

خون ارماں سے سنور جاتا ہے تہذیب کا خول

کرسیٔ عدل پہ جھک جاتا ہے انصاف کا سر

محنت سخت کا ہوجاتا ہے سستا ہی سا مول

ساجدہ زیدی اس جور زماں کے تئیں احتجاجیہ لہجہ اختیار کرتے ہوئے اپنے دل کے نہاں خانوں سے ساز کو آواز دیتے ہوئے کہتی ہیں:

یہ دل دھڑکتا رہے گاجب تک

یہ جاں سلگتی رہے گی جب تک

یہ ذہن جب تک فضائے فکر وعمل کے

شوق آشنا دھندلکوں میں رقص کرتا رہے گا یونہی

کہ جب تلک یہ حسین قطرہ

یہ جستجو کے افق کا تارہ

گریز پا یہ خوشی کا لمحہ

یہ جاں وداں بن کے مسکرائے

یہ زندگی کے افق پہ چھائے

نہ ہر ترستی نظر کی خاطر

 بہار کا گیت بن کے آئے

ساجدہ زیدی کی شاعری دنیائے بے ثبات میں ہورہی ناانصافیوں ،بدعنوانیوں ،ظلم وتشدداور استحصال پر گہرا ضرب لگاتی ہے۔ ان کی شاعری میں ایک روحانی کرب کی آنچ محسوس ہوتی ہے :

کہوں کس سے ،کہ ہونٹوں پہ نام یار کی آگ

جلا چکی ہے شبستاں دل ونظر کا ،مگر

جو اس کی راکھ سے پیدا ہوئے ہیں ویرانے

حدود ان کی نہیں ،یاد یار کے بس میں

کہ وہ غریب ،شکستہ قدم ،شکستہ وجود

 بھٹک بھی سکتی نہیں اس عظیم صحرا میں

ساجدہ زیدی نے غم والم کی تیز و تند دھوپ میں بھی زیر لب مسکراتے ہوئے زندگی سر کرنے اور زندہ رہنے کا جواز تلاش کر لیا تھا یہی وجہ تھی کہ انہوںنے کبھی آفتوں سے گھبرا کے قدم پیچھے نہیں ہٹا ئے بلکہ ڈٹ کا ہر آفت کا سامنا و مقابلہ کیا اور کبھی اپنے جنبش قلم کو تھمنے نہیں دیا۔

کوئی نقش برسنگ

کب نقش بر آب کی طرح ملتا ہے

  …ہستی کے اوراق پر

خامۂ آرزو چل پڑے گر تو رکتا نہیں

ساجدہ زیدی نے عرصہ گاہ حیات میں آرزوؤں کو مسمار کرکے ،حصار زندگی کی خاموشی کو منہدم کرکے ،سوز وساز کی بے محابہ زنجیر کو توڑ کر ، ہر قطرۂ لہو سے چراغ دل کو منور کرکے ،گرداب زندگی کے اشتہاریت گزیدہ معاشرہ میںجب کہ ماورائے زماں ومکاں کے بحر ظلمات کی یلغار ہر قدر کو محو کر لیتی ہے،آواز کی آلودگی ذہن کو ماؤف کر لیتی ہے،دردکے ریگزاروں پرآرزوئیں خس وخا شاک کی مانند بہہ جاتی ہیں ،ذہن رسا کا کشف نغمۂ فسوں ونغمۂ شرر کو نغمۂ گہر بار و شرر بار کر دیتا ہے ، طوفان کی زد پر بھی شمع دل کی لوٹمٹماتی ہے ،قندیل زندگی تھرتھراتی ہے۔ایسے مخاصمانہ ،جارحانہ اور جابرانہ تشددکواپنے ذہن رسا کی پرتوں سے قطرہ قطرہ رشحات قلم کے ذریعہ صفحۂ قرطاس پر بکھیرا ہے۔ ان کے نغموں کی شعلگی میں ان کا یاس و حزن ملاحظہ ہو:

ساجدہ !

درد کے راستوں پر

کب سے محو سفر ہو …؟

 تم نے ان ریگزاروں کی بنجر زمین میں

کتنے رفتار وگفتار کے گل کھلائے

اس عقوبت کدے کی سیاہی میں

کتنے چراغ تمناجلائے …؟

کتنے زخموں پہ انساں کے مرحم لگایا

المیہ زندگی ساجدہ زیدی کی شاعری میں درد کی لہر اور غم کا عرفان پیدا کرتا ہے۔کیونکہ فن شاعری ایک ایسی گزر گاہ ہوتی ہے جہاں حسن ، صداقت،راہ خلوص ووفا ،جذبۂ خیروعزت ،امیدہجر وصال ، سکون قلب اور بالیدگیٔ ذہن کی کشادہ منزلیں یکجا ہوتی ہیں۔

شاعری جذبوں کی تہذیب کانام ہے۔جو اقدار کی پروردہ و نمائندہ ہونے کے ساتھ دہلیز ذہن کے گھپ اندھیرے میں گدازیٔ فکر کے قندیل روشن کرتی ہے۔شاعری انسان کے ضمیر اور روح دونوںکو بیدار کرکے انسان میں انسانیت کی مشعل کو فروزاں کرتی ہے۔

شاعری گرداب زندگی کو خوشیوں کے چند ایسے لمحات فراہم کرتی ہے جس کے شب و روز میں غرق ہوکر اس کے رامش ورمق میں پاسبانِ عقل کو تنہا چھوڑ سکے ،کوئی بے محابہ جذبہ جوپشیمانِ زندگی کو غروب آفتاب کے دلکش مناظر میں محو کر لے،فلک بوس کہسار کے سحر میں مسحور کر لے، چڑیوں کی چہچہاہٹ میں دم بخود کر لے ،شگوفوںکے ساتھ مسکرانے کا حوصلہ دے ،مفلسی ،بے چارگی اور درماندگی جو انسانی زندگی کا جزولاینفک بنا ہواہے کا ازالہ کردے۔ ساجدہ زیدی کی شاعری میں ایسے ہی تصورات کا ایک جہان آباد ہے۔جہاں حقیقت کی چٹانوں سے ٹکراتے ہوئے روح کی خاموش گہرائیوں میں اترکر خواب زندگانی کا اعادہ کرنے کا الگ ہی نشہ ہوتا ہے کیونکہ غم و الم کی تیز وتند آندھیوں میں مسرت کے چند لمحے زندگانی کو رقصاں کرنے اور زندگی میں دھنک رنگ بھرنے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔ساجدہ زیدی کی عمر رفتہ کی روداد اور ان کے خیالات و افکار کو ان لفظوں میںملاحظہ فرمائیں:

یوں طشت از بام کرنے سے کیا فائدہ ؟

یہ میری متاع نظر ہے

مرے ذہن کا بے محابہ سفر ہے

مری از ازل تا ابد سرگراں

جستجوؤں کا دھندلا نشاں ہے

شب وروز کے فرو مایہ معمول سے دور

روح کی تشنگی کی ادھوری کہانی

  تلاش حق کا خواب گراں ہے

ساجدہ زیدی کی ذات شمع انجمن تھی۔ان کی شاعری ان کے وجود ذات کی عمیق گہرائیوں سے ابلتے ہوئے چشمے اور بہتے ہوئے دریا کی مانند موجزن تھی۔بقول ساجدہ زیدی:

برق احساس رواں ریت کے زروں کی طرح

لمحے لمحے میں بکھر جاتی ہے

ساعت حشر دبے پاؤں گذر جاتی ہے

در افکار پہ دستک بھی نہیں ہوتی ہے

کہ ۱لفاظ خود اظہار کا دریا امڈے

شہر دلی ہمیشہ سے دل والوں کی دنیا اور اہل ہند کے دل کی دھڑکنوں کا محور و مرکز رہا ہے۔روز ازل سے عالم میں انتخاب اس شہر بے نظیر کی تہذیب وثقافت ،علوم وفنون اور زبان وادب کو تمام ممالک کی رہنمائی ونمائندگی کا شرف حاصل ہے۔دوسرے لفظوں میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ :

’’عالم میں ہے ثبات اسی اجڑے دیار کو ‘‘

آزاد ہند کا یہ گہوارہ پورے زبان وادب کا محور ومرکز رہا ہے۔اس کے گرد ونواح میں کھڑی بولی کے بطن سے زبان دہلوی یا اردو نے جنم لیا اور یہاںکے سیاسی ،سماجی،تہذیبی ،ثقافتی اور معاشرتی تقاضوں کے زیر سایہ پروان چڑھ کر اس کے تہذیب وثقافت کی ترجمان ثابت ہوئی۔ جسے ہم گنگا جمنی تہذیب کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ساجدہ بھی اس گنگا جمنی تہذیب کی پروردہ تھیں۔ان کی شاعری میں اس گنگا جمنی تہذیب کو بخوبی دیکھا جاسکتا ہے۔ ساجدہ گنگا جمنی تہذیب کے متعلق کہتی ہیں :

ہمیں نے کالی کی شاعری میں

 سمویا شیرازاور ایراں کا لہجۂ جذب و کیف مستی

ہمیں نے اس سر زمین گوتم کو شعر کا بانکپن دیا تھا

ہمیں نے تہذیب ہند کو یہ مزاج گنگ وجمن دیا تھا

یہاں کے افکار وعلم و آئیں ہماری عظمت کے راز داں ہیں

کشمیر جو پوری دنیا میں ’’فردوس بروئے زمین‘‘کے روپ میں اپنی پہچان قائم کیے ہوئے ہے۔جس کے حسین نظارے اور ڈل جھیل کے دلکش مناظر آج بھی اپنی رعنائی سے سب کے دلوں کو لبھاتے رہے ہیں اس جنت نشاں شہر میں آج بھی انسانی زندگیاں محفوظ نہیں ہیں۔یہاں ہر قدم پر موت کے خطرات ہیں ،یہاں کی فضا آج بھی بارودکی بوسے آلودہ ہے۔ساجدہ اس فردوس زمین کے غبار آلود و آتش آلود فضا کا نقشہ اپنی نظم ’فردوس بروئے زمیں ‘کچھ اس طرح کھینچا ہے :

یہ فردوس روئے زمیں

کشافت میں بارود کے کھو گئی

کہ ہر سمت خونی ہلاکت پسندی کی یلغار ہے

سخت بوٹوں کی

توپوں کی ،بندوق کی،گھن گرج ہے

ہلاکت کا دہشت کا

اور خوف کا گرم بازار تھا

مسجدوں ،بارگاہوں ،زیارت گہوں سے

کسیلا دھواں اٹھ رہا ہے

  بستیاں آگ کے تند شعلوں میں

 جل کر بھسم ہو گئی ہیں

یہاں ساجدہ زیدی کی عصری حسیت کا بھی پتہ چلتا ہے کہ وہ زمانہ کے ہاتھوں ہورہے مظالم کے تئیں کتنی بیدار اور حساس تھیں۔ ساجدہ زیدی اس خون آلود فضا کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے کہتی ہیں :

کون اہل سیاست سے پوچھے

کہ اس ظلم وجور وتشددسے کب تک

حسین مرغ زاروں کا سبزہ

لہو رنگ ہوتا رہے گا

بے نواؤں کے جسموں کا سونا

سیاست کے دوزخ کا ایندھن بنے گا

 ساجدہ زیدی کا اسلوب سخن علامتی و استعاراتی ہے۔انہوں نے اپنی شاعری میں صنائع وبدائع اور نئی تراکیب کا کثرت سے استعمال کیا ہے۔ ان کے مجموعہ کلام ’آتش زیر پا ‘ اور ’پردہ ہے ساز کا‘ کی نظمیں اس قول کی ترجمانی کرتی ہیں۔ ان کے مجموعہ کلام ’آتش  زیر پا ‘کی نظم ’سیل وجود ‘ میں نئی تراکیب اور استعاروں کی بھرمار ہے۔ اسی طرح ان کے مجموعہ کلام ’پردہ ہے ساز کا ‘کی نظم ’کہو تم کن ہواؤں کے پرندے ہو ‘ایک طویل استعارہ ہے۔اس مجموعہ کلام کی دوسری نظم ’زندگی تو سوالوں کی زنجیر ہے ‘کاہر مصرعہ اشارتی ،علامتی استعاراتی مفہوم رکھتا ہے۔بلکہ اگر یوں کہیں کہ پوری نظم پیچیدہ علامت ہے تو بے جانہ ہوگا۔ بہر کیف ان کی شاعری رموز شاعری کے تمام لوازمات و جہات پر کھری اتر تی ہے۔

ساجدہ زیدی کی نظم ’’کلیاں…نیلا آسمان …زنجیریں ‘‘میں جہاں ایک طرف عورت کی محرومی پر افسوس کا اظہار ہے وہیں دوسری طرف بلندیٔ کردار و آرزو کی بے پناہی کا اشاریہ بھی ہے کہ عورت مجبور ومحکوم و مجہول وجود نہیں ہے بلکہ مہتاب کی ضو فشانیوں کے ہم رقص ہونے کی آرزو مند بھی ہے۔ بناوٹی لبادہ اوڑھ کر جشن حیات پر مسکرا نے کا ہنر بھی رکھتی ہے۔ان کی اس نظم کے چند بند ملاحظہ ہوں:

مرے احساس کی وادی میں کلیاں مسکراتی ہیں

مگر میں چن نہیں سکتی

مرے ہاتھوں کی ریکھاؤں میں

جانے کیسی زنجیریں پڑی ہیں

روز اول سے

میں یہ زنجیر آہن توڑ کر روز ابد تک جا نہیں سکتی

میں کلیاں چن نہیں سکتی

مرے جذبوں کے نخلستان میں سبزہ سر اٹھا تا ہے

ہوا دھیمے سروں میں گنگناتی ہے

فضائیں رقص کرتی ہیں

خدا آواز دیتا ہے

میں سر نیہوڑا کے سنتی ہوں

 دیار روح میں اک ان سنا نغمہ مچلتا ہے

میں اس نغمے کو لب تک لا نہیں سکتی

سواد وقت کی ساری طنابیں ٹوٹ جاتی ہیں

مری آنکھوں کونیلا آسماں حسرت سے تکتا ہے

کئی عمریں گزار آئی

کئی دنیائیں چھان آئی

کئی صحراؤں میں نقش قدم چھوڑے

کئی دریا لہو کے پار کر آئی

کئی آتش کدوں میں جذب دل کندن آئی

مگر اب بھی مری زنجیر آہن کھڑ کھڑاتی ہے…

مجھے جب جب بھی نیلا آسماں حسرت سے تکتا ہے

میں اپنی آتش دل سے جلا دیتی ہوں

اس زنجیر کی کڑیاں

ستاروں تک پہنچتی ہوں

مدار نور سے مہتاب کی ہم رقص ہوتی ہوں

ساجدہ زیدی کی شاعر ی کا سروکارعصری مسائل ،شکست وریخت اور حیات وکائنات کی پنہائیوں سے ہے۔ساجدہ کی شاعری مرد اساس سماج میںعورتوں سے متعلق رائج تمام منفی کلیثوں کی نفی و تردید ہے۔مرد اپنی شاعری کے سیاق میں عورت کی زندگی کے جن پہلوؤں پر اپنی توجہ مرکوز کرتا ہے ،وہ درون خانہ مظالم ،نسائی حسیت ،تانیثی نعرے،حسن وجمال چشم و لب ،زلف ورخسار ، ناز وادا وغیرہ ہے۔ مرد نے عموما ًعورت کو یا تو جنسی تسکین کے سامان کے روپ میں یا معشوقانہ اداؤں کے آئینے میں دیکھا ہے ، یا پھرتانیثیت ،نسائی حسیت ،کے فارمولے تراشے ہیں۔ساجدہ کی شاعری اس مرد اساس سماج پر عمیق ضرب ہے جس نے عورت کو کبھی اس کی شاعری کی روپ میں اس کے جذبات واحساسات ، اس کے عقل وشعوراور اس کے کشادہ دلی، ذہن کی بالیدگی کو سمجھنے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی ہے۔ساجدہ زیدی کہتی ہیں :

  غرض عمر کی راہ سنگلاخ پر چلتے چلتے

گل و نسترن ،لالہ ویاسمن سے گزرتے

لق ودق دشت بے کاخ وکوکا

پا پیادہ سفر کرتے کرتے ،

لمحے لمحے کے قرطاس پر ہم نے

اک داستاں چھوڑ دی

رمز تخلیق کی والہانہ زباں چھوڑ دی

ساجدہ زیدی گجرات کے مسلمانوں پر ہورہے ظلم وبربریت اوراندھی سیاست سے متعلق اپنی روحانی کیفیات ،اپنے مضطرب دل ومجروح ذہن کو اپنی نظم ’’نسل کشی ‘‘میں کچھ اس طرح پیش کیا ہے :

ہمارے دل میں افغانستان کی جوالا دہکتی ہے

 یتیموں ،بے کسوں

مظلوم وناداروں کی آہیں

درد بن کر رینگتی رہتی ہیں کمروں میں

درو دیوار سے مجروح خوں بستہ

صدائیں گونجتی ہیں

خانما برباد چہرے عکس بن کر

خود اپنے ہی جسموں کے ایندھن میں سلگتے ہیں

ساجدہ زیدی گجرات میں ہو رہے مظالم کے خلاف اپنی صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے ان بے حس و بے روح بھیڑیوں ، ظالم سیاست دانوں کو دھکارتے ہوئے انہیں ملعون کیا ہے اور بے کسوں کی مجبوریوں پر کف افسو س کا اظہار کیا ہے :

عجب عیار دہشت گرد قوت کی خدائی ہے

کہ مجبوروں پہ دنیا تنگ ہے ،

دریائے خوں میں ڈوبتی ہیں

ان کی تقدیر میں

لہو انساں کا ارزاں ہے

بازار سیاست میں

فقط بارود کی قوت کا سکہ چل رہا ہے

ظلم وجبر وقتل وخوں کی حکمرانی میں …

حیات آثار سوچیں گھٹ کے رہ جاتی ہیں

مایوسی کے غاروں میں

صدائے عدل سنتا ہی نہیں کوئی

نوائے شعر ونغمہ ڈوب جاتی ہے

رموز اعتبار زندگی دم توڑ دیتے ہیں

حوالے زیست کے معدو م ہو جاتے ہیں

اک اندھی سیاست کے اندھیرے پھیل جاتے ہیں

 ساجدہ زیدی گجرات کے انسانیت سوز ،نسل کشی سے برباد زخمی و مجروح روحوں کے نالے وفغاں اور بے حس زمانہ کے تئیں اپنی عصری حسیت کو بیدار کرتے ہوئے اپنی نظم ’’میرا بھیا ‘‘ میں ایک بھائی کے سامنے اس کے سگے بھائی کی خونی حکایت کے مناظر کو ایک دکھی بھائی کی صدا میں یوں بیان کیا ہے :

وہ سامنے جل رہا ہے

آتش کدے میں گھر کے

اور اس کا ننہاسا جسم

شعلوں میں مثل ماہی تڑپ رہا ہے

میں دیکھتا ہوں …

میں کانپتا ہوں

لرز رہا ہوں

 میں جل رہا ہوں

دھوئیں میں سانسیں الجھ رہی ہیں

میں اس کی جانب قدم بڑھاؤں

تو کیسے جاؤں……کہاں میں بھیا کو اپنے پاؤں

پولیس کی سنگینیںتل رہی ہیں

یہ آگ کیسے بجھے گی یا رب !

 ظلم و جبر کی غضبناکیوں نے بھائی کے سامنے اس کے سگے بھائی کا خون کرکے صرف اتنے ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ بوڑھے ماں باپ کا سہارا چھین کر ،بھائی کے ارمانوں کاخون کرکے ،ماں کی گود سونی کرکے ،اس کے آنکھوں سے خواب زندگانی کو مسمار کرکے ،اس کی آرزوؤں کا بھی قتل کر دیا۔ ایک ماں کی نظرکے سامنے اس کی تین اولادیںقتل کر دی گئیں۔ایسے میں ایک ماں جس نے اپنی نظروں کے سامنے اپنے ارمانوں کاخوں ہوتے دیکھا ہواس کے کیا جذبات واحساسات و دلی کیفیات ہوئی ہوںگی۔ساجدہ کے لفظوں میں اس نسائی حسیت کو ملاحظہ فرمائیں :

میری نگاہوں کے سامنے

میرے نونہالوں کی تین لاشیں پڑی ہوئی ہیں

 جو ظلم وجور وجفا کی آتش میں

جل چکی ہیں

اب ان کے جسموں کا سارا کندن پگھل چکا ہے …

کہاں میری ممتا نے

جیون کا سب اثاثہ لٹا دیا ہے

کہاں گئے میرے لعل وگوہر ؟

وہ زعفرانی چتاؤں میں جل گئے

یہاں…میں اکیلی …پاپن !کہ جس نے

راتوں کا چین ،دن کا سکون

اور آنے والی صبحوںکا سارا سونا گنوا دیا ہے

ساجدہ زیدی ظلم رسیدہ قوموں پر دکھ کااظہار کرتے ہوئے ان ظالم درندوں کی سازشوں کو بے نقاب کرتی ہیں اور انسانی بھیڑیوں کی حیوانیت پر آنسو بہاتے ہوئے کہتی ہیں :

یہ کیسی سفاک قوتیں ہیں

یہ کن درندوں کی سازشیں ہیں

جنہوں نے معصوم وپیر وطفل جواں کی

لا شوں پہ اپنے مندر سجا لئے ہیں ؟

’’پوتراگنی‘‘کی لو بڑھانے کو

زندہ جسموں کے آتشیں کنڈ

نگر نگر میںجلا لیے ہیں

یہ آگ انسانیت کی قدروں کو پھونک دے گی

یقین کا سورج کبھی نہ چمکے گا اس نگر میں

ان ظالم لٹیرے بھیڑیوں کے آتش ہوس نے اتنے ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ کتنی ماں ،بہنوں کی عصمت پر ڈاکہ ڈال کران کی عفت ریزی وآبرو ریزی کرکے، ان کے ارمانوں کا خون کرکے، ان کے دامن کو داغ دار کرکے۔ان کی ناموس کو اپنی ننگی ہوس اور ظلم کا نشانہ بنا کر ،اس کی مانگ اور کلائی سونی کرکے ،اس کی شاہ راہ حیات کی امنگ کو نذر آتش کرکے، اس کو زمانے کی نظر میں رسوا کرکے ،اس کے جسم کو ریزہ ریزہ کرکے سر عام بازار میں نیلام کردیا۔ایسے پرفتن دور میں ساجدہ اپنی حسیت کوبیدار کرتے ہوئے کہتی ہیں:

مری نوجوانی ابھرتے ہوئے نرم جذبات

کچی امنگوں کا اک کارواں تھی

میری آبروو…

جس کی اماں نے سوسو جتن سے

حفاظت کری تھی

مرے واسطے، اک متاع گراں تھی

کہ اک روز …جو آگ اور خوں کی ہولی کا دن تھا

بھگوا لباسوں میں ملبوس

ترشول وبندوق سے لیس

بپھرے ہوئے بھیڑیوں نے

سر عام …میری متاع گراں لوٹ لی …

مری عصمت وآبرو…میری جاں لوٹ لی …

میری ناموس، ان کی ننگی ہوس کا نشانہ بنی

میرا کنوارا بدن

 برسر عام لوٹا گیا

مرے شہر کی شاہراہوں پہ رسوا ہوا

ریزہ ریزہ ہوا …اور انجام کار

دہکتے الاؤ میں جھونکا گیا

آسماں گیر شعلے بھڑکتے رہے

گجرات کے خوں بہا فسادات نے کتنی زندگیاں تہہ وبالا کردیں۔کتنے نومولود کو ماں کی کوکھ میں ہی مار ڈالا گیا ،کتنے نونہالوں کو دنیائے بے ثبات میں آنکھیں کھولنے سے پہلے ہی تہہ تیغ کر ڈالا،کتنے معصوموں کو زندگی کی ایک سانس پانے سے محروم رکھا گیا، کتنے محبت کی پہلی نشانی کا خوں بہایا گیا ،کتنے مستقر حمل کو ساقط کرکے جذبوں کا خوں کیا گیا،اس درد کی کسک کو ساجدہ زیدی کی نظم ’’پہلا نشان ‘‘کے ان لفظوں میں محسوس کیا جاسکتا ہے :

میری کوکھ میں میرے عشق ومحبت کا

پہلا نشاں پل رہا تھا

وہی غنچۂ ناشگفتہ

میری آتما چیر کر

مرے پیٹ سے نوچ ڈالا گیا

اسے نوک نیزہ پہ پہلے اچھالا گیا

 پھر دہکتے ہوئے آسماں گیر شعلوں میں ڈالا گیا

مرا درد آنکھوں سے ڈھلنے سے پہلے

مرے جسم کی بوٹیاں راستوں پر بکھیری گئیں

 گجرات کے خوں ریز واقعات نے کتنی ماؤں اور بہنوں کا سہاگ اجاڑ کراس کے مانگ کا سندر نوچ کر اس کے جسم کو بے گور کفن کرکے اس کو اپنی تخلیق ہستی پر کوسنے ،موت کو گلے لگانے ،خودکشی کرنے اور جام زہرآب نوش کرنے پر مجبور کردیا ساجدہ زیدی کہتی ہیں :

 میں اپنے ہونے کی نوحہ گر ہوں

میں اپنی ہستی کا مرثیہ ہوں …

یہ سامنے جو جلی ہوئی لکڑیوں کا

اک ڈھیرسا پڑا ہے

یہ میرا شوہر ہے

میرے بچے ہیں

میرا دیور ہے

میری نندیں ہیں

میرا بھائی ہے …میری ماں ہے

جب ستم زمانہ کی یلغارعورت کی تمناؤں کو مجروح کر دے اس کی خواہشوںکو ماؤف کردے اور اس کی طاقت گفتار واقدار کو سلب کرلے تو ایسے پر فتن دور میں مضطر ب قلب نسواں کو کیسے قرار ملے ؟ ہوس پرستی کے گھپ اندھیرے میں امید ویاس کی کرن کہاں سے آئے ؟ اہل اقتدار کی ریشہ دوانیوں ،اہل سیاست کی بے حسی اور اہل زر کی نا انصافی سے نجات کا راستہ تلاش کرتے کرتے وہ کہاں کہاں سرگرداں پھرے ؟ ساجدہ زیدی اس صنف نازک ،ناقص العقل ،ناقص الشہادۃ،ستم زمانہ کی ستائی ، قسمت کی ماری ،نظر حقارت کی شکار، گھر کی چہار دیواری میں مقیدممتا کی بھنڈار،مرد کو ریجھانے والی ،ٹوٹ کر پیار نچھاور کرنے والی،گھر کی زینت،عفت کی پیکر ،صبر واستقلال کا مجسمہ ، وفا کی دیوی،گلشن رنگ وبو کو رعنائی عطا کرنے والی عورت جس کے بغیر گھر جہنم اور خلق کا وجود ناممکن ،جس کی آغوش رحمت کا خزانہ،جس کا آنچل سایہ سائباں اور قدم تلے جنت مقید ہے اس عورت کی بے بسی پر افسوس کا اظہار کیا ہے :

آہ! …لیکن وہ ہٹلر کے چیلے انہیں کھا گئے

مری زندگی کا اثاثہ …

سیاہ کار اندھی سیاست کا لقمہ بنا

میرا سارا کنبہ…

اپنے جسموں کے ایندھن میں خود جل رہا ہے

آسماں گیر شعلے انہیں کھا رہے ہیں

آگ کے ڈھیر پر …

سیاہ کار قاتل گیروا پرچم فتح لہرا رہے ہیں

میری آنکھوں میں آنسو نہیں

 جلتی چنگاریوں کا دھواں ہے

مرے دل میں آتش فشاں ہے

مری کوکھ میں ؍مانگ میں

راکھ ہے

نگاہوں کے آگے خلاء ہی خلاء ہے

یہی اجڑی بستی مری داستاں ہے …

مغربی سامراجیت نے ہندوستان جسے کبھی سونے کی چڑیا کہا جاتا تھاکو اپنے مظالم کا نشانہ بنا کراس کی تمام تابناکی چھین لی ، اس کی تہذیب کو مسخ کر کے ،اس کے اوراق تاریخ کو نذر آتش کرکے ،اس کے دانشگاہوں پرپابندی لگا کر ،اس کے فنکاروں کے قلم پر پہرہ بیٹھا کر،ان کے تابندہ شرارۂ افکار کو دبا کر اسے ایسا تاراج کیاکہ جس کی بربادی پر فلک نے بھی آنسو بہائے دہر نے بھی اشکباری کی اور کف زماں نے بھی حیف کیا۔ ساجدہ زیدی کہتی ہیں :

مغرب کے خداؤں نے

مشرق کے دیاروں کو

تہذیب وتمدن کو

دانش کے خزینوں کو

تاریخ کے صفحوں کو

تہذیب کے حرفوں کو

علم وفن وحکمت کے

تابندہ شراروں کو

احساس کی مضرابوں ،

افکار کے تاروں کو

تاراج کیا ایسا

سب لعل وگہر اپنے

لٹتے رہے صدیوں تک

ادیبوں کے ذہنوں پرخاموشی کے پہرے لگائے گئے ،شاعروں کے قلم توڑدیئے گئے اور انسانی روحوں کو مجروح وزخمی کردیا گیا۔ ساجدہ زیدی نے اس پر فتن دور کا عکس اس طرح کھینچا ہے :

دل میں جو فروزاں تھی

اس شمع کی تابش کو

ہر شاعر مشرق کے

 نغموں میں جو جولاں تھی

اس درد کی لرزش کو

ہر حرف مطہر کو

ہر سعی مسلسل کو

ہر سوزش پنہاں کو

ہر مرحلۂ جاں کو

افرنگ کے سوداگر

 لوٹے لیے جاتے ہیں

ساجدہ زیدی نے شعور کی نظر سے مظالم زمانہ کو دیکھنے کی کوشش کی ہے اور بحر ظلمات میں بھی امید ویاس کی کرن کو تلاش لیا ہے۔ کیونکہ:

’’جگر خوں ہوتو چشم دل میں ہوتی ہے نظر پیدا‘‘

 تاہم ساجدہ زیدی اپنے احتجاجیہ شعلہ ٔ بیا نی کے ذریعہ عصری حسیت اور نسائی جذبات واحساسات کی عکاسی میں کامیاب نظر آتی ہیں۔اس لیے یہ کہنا بجا نہ ہوگا کہ ساجدہ زیدی بیسویں صدی کے افق پر ایک کامیاب شاعرہ ،شعر وادب کے ایک تابناک ستارے کی طرح ابھریں جس کی شعاؤں سے دبستان ادب ہمیشہ تابندہ ورخشندہ رہے گا۔

٭٭٭٭٭

Taneesi Izhar ki Motabar Awaz: Sajda Zaidi: by Shabnam Shmasad

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.