خود نوشت سوانح نگاری کا نسائی زاویہ بری عورت کی کتھا اور جنّت سے نکالی ہوئی حوّا: ایک مطالعہ
سید وجاہت مظہر
T-116/1, دوسری منزل، اوکھلا مین مارکیٹ، جامعہ نگر، نئی دہلی-25
7217718943
ادب کی کوئی بھی صنف ہو بلکہ سارا ادب ہی اپنے آخری تجزیے میں در اصل فنکار کی آپ بیتی ہی ہوتا ہے۔محض ادب ہی نہیں بلکہ دیگر فنونِ لطیفہ، رقص،موسیقی اور مصوری کا بھی یہی حال ہے۔ آپ بیتی کا عنصر ہی تمام فنونِ لطیفہ کا محور ہے۔آپ بیتی جب ایک مستقل تصنیف کی شکل میں ہو اور جب وہ مصنف کی خود نوشتہ داستانِ حیات ہو تو اسے انگریزی میں autobiography اور اردو میں خودنوشت سوانح عمری کہتے ہیں۔بائیوگرافی دراصل لفظ biosسے بنا ہے جس کے معنی ’’زندگی ‘‘کے ہیں اور graphier کے معنی’’ لکھنا ‘‘ہے اور اس لفظ میں autoکو جوڑنے سے یہ نئی اصطلاح autobiography موردِ وجود میں آئی ہے جسے ہم اردو میں خود نوشت سوانح عمری یا خود نوشت سوانح حیات یا آپ بیتی کہتے ہیں۔کیسل کے ’’انسائیکلو پیڈیا آف لٹریچر ‘‘میں اس صنفِ ادب کی تعریف یوں بیان کی گئی ہے،’’خود نوشت انسان کی وہ روداد ہے جسے وہ خود بیان کرتا ہو۔اس میں سوانح حیات کی کسی بھی دوسری شکل سے زیادہ صداقت کی ضمانت ہونی چاہئے۔کیونکہ کتاب کی مرکزی شخصیت ایسے گواہ کے طور پر پیش ہوتی ہے جسے وہ خودقلمبند کرتا ہے۔‘‘وہاج الدین علوی نے اپنی کتاب’’اردو میں خودنوشت سوانح :فن و تجزیہ‘‘میں خودنوشت سوانح عمری کی مبسوط تعریف بیان کی ہے۔وہ لکھتے ہیں :
’’خودنوشت سوانح حیات ادب کی وہ تخلیقی صنف ہے جو کسی فرد ِ واحد کی زندگی کے اہم ادوار پر محیط ہوتی ہے اور اسی کے قلم کی رہینِ منت ہوتی ہے جسکے آئینے میں اس فرد کی داخلی اور خارجی زندگی کاعکس براہِ راست نظرآتا ہے اور اس کا عہد بھی جلوہ گر ہوتا ہے۔‘‘
(وہاج الدین علوی ، اردو میں خودنوشت سوانح : فن و تجزیہ ،مکتبہ جامعہ لمِٹیڈ،دہلی ،1989، صفحہ41 )
ڈاکٹر صبیحہ انور اپنی کتاب’’اردو میں خود نوشت سوانح حیات‘‘میں آپ بیتی کے فن کا تجزیہ پیش کرتے ہوئے یوں قم طراز ہیں:
’’در اصل ہر تخلیق، خالق کی شخصیت ،اس کے مزاج،عادات ، افکار اور عقائد کا نچوڑ ہوتی ہے۔اس کے بغیر وہ بے روح اور کھوکھلی ہوتی ہے۔فنی اعتبار سے ایک خود نوشت تاریخی ہی نہیں ادبی کارنامہ بھی ہوتی ہے۔افسانے میں افسانے کو حقیقت کے قریب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور خود نوشت سوانح حیات میں حقیقت خوبصورت الفاظ میں سامنے آتی ہے۔ آپ بیتی میں بے باک سچائی اور خلوص کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔اس کی غرض، شخصیت کو پیش کرنا ہے اور لازمی یہ ہے کہ تصنیف شخصیت کو واضح کر دے اور فن کا تقاضہ بھی یہ ہے کہ جو کچھ کہا جائے صفائی اور سچائی کے ساتھ پیش کیا جائے۔ ‘‘
(اردو میں خود نوشت سوانح حیات ،ڈاکٹر صبیحہ انور ،نامی پریس ،لکھنؤ،1982،صفحہ41)
جب ہم خواتین کی تحریر کردہ خودنوشت سوانح عمریوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں ان میںماحول و مسائل کی ایک الگ دنیا ملتی ہے۔برِ صغیرِ ہند و پاک میں زندگی کے الگ الگ میدانوں سے وابستہ خواتین نے اس صنف ادب میں خوب طبع آزمائی کی ہے۔ان آپ بیتیوں میں شعبۂ تعلیم ،صحافت اور دیگر علوم و فنون سے منسلک خواتین کی زندگیوں اور ان کے جذبات و احساسات کا عکس ملتا ہے۔یہ خود نوشتیں پدر سری نظام اور معاشرتی جبر و استحصال کے خلاف خواتین میں پائے جانے والے احتجاج کے جذبات کی ترجمانی کرتی ہیں۔خواتین آج خاموشی سے سب کچھ سہنے کے بجائے عَلمِ بغاوت بلند کرنے پر آمادہ دکھائی دیتی ہیں۔اپنی تحریروں کے توسط سے وہ اپنی خاموشی توڑنے کا جذبہ ظاہر کرنا چاہتی ہیں۔ ایسی خودنوشتیں خواتین کی بیداری کی مہم کا حصہ تسلیم کی جاتی ہیں۔خواتین نے ہر سطح پر چاہے وہ اعلیٰ طبقے سے تعلق رکھتی ہوں ،چاہے متوسط یا نچلے طبقے کی نمائندگی کرتی ہوں ، سبھی نے سماج سے اپنی جدو جہد اور سنگھرش کی داستانیں بیان کی ہیں۔وہ اپنی ذات کے توسط سے سوسائیٹی کی تعلیم وترقی کے باعث برپا ہونے والی اقدار کی اُتھل پُتھل،اذیت و جبرکو سہتے ہوئے بھی نسائی جرأت مندی کے واقعات و سانحات سے ہمیں روشناس کراتی ہیں۔
تعلیمِ نسواں اور خواتین کے حقوق کے شعور کے ساتھ خواتین کی تحریر کردہ خودنوشتیں منظرِ عام پر آنے لگیں۔ علم کی روشنی کے ساتھ عورتوں کو گھروں کی چہار دیواری سے باہر نکلنے اور کھلی فضا میں سانس لینے کا موقع ملنے لگا۔خواتین میں ایک طرف مختلف اصنافِ سخن اور فنونِ لطیفہ میں طبع آزمائی شروع کی تو دوسری طرف سماج کی بندشوں سے چھٹکارا پانے کی جدو جہد بھی کی۔لہٰذا جب انہوں نے آپ بیتی لکھنے کے لیے قلم اٹھایا تو ان میں پدر سری سماجی ڈھانچے اور دقیانوسیت کے خلاف احتجاج کے جذبے کی کارفرمائی شعوری یا لا شعوری طور پر اجاگر ہوئی۔اکثر خودنوشت نگار خواتین نے گھٹن کے ماحول میں آنکھیں کھولیں۔ انہوں نے معاشی نقطۂ نظر سے خوشحال گھرانوں میں بھی قدامت پرستی ،لڑکیوں کی تعلیم کے تئیں عدم توجہی اور مردوں کے ساتھ متیازی برتائو کی روش عام پائی۔ لیکن برِ صغیرِ ہند و پاک میں آزادی کے بعد خواتین کے لیے حالات رفتہ رفتہ ساز گار بنتے گئے اورنتیجتاََ ان میںخود اعتمادی پیداہوئی۔ حصولِ آزادی کے بعد زندگی کے سبھی شعبوں میں سرگرمیاں بڑھیں اور ملک میں ترقی اور اعتماد کی لہر دوڑ گئی۔ آزادی کی فضا قلم کاروں کو بھی بڑی راس آئی۔ قلم کی آزادی اور صنفی مساوات سے متعلق حقوق کے آئینی تحفظات کے باوجود خواتین ،مرداساس معاشرے میں اپنے حقوق کے لیے صدائے احتجاج بلند کرنے میں اتنی کامیاب نہیں ہو سکیں جتنا ان کا حق تھا۔ انہوں نے اپنی بات کہنے میں بھی جھجھک اور سماجی بندشوں کو محسوس کیا۔خواتین قلمکارں نے دوسروں کے احساسات اور مسائل کی ترجمانی کی لیکن اپنے دکھ درد اور اپنے ساتھ پیش آنے والی زیادتیوں اوراپنے ذاتی جذبات و تجربات کو بیان کرنے میں و ہ قاصر رہیں۔
لیکن کچھ خواتین نے پہل کی۔ڈرے سہمے لہجے ہی میں انہوں نے اپنی بات کہنے کی جسارت کا سلسلہ شروع کیا۔مذہب و سماج کے خوف کے باوجود خواتین نے صنفی عدم مساوات اور حقوقِ نسواں کی لڑائی لڑنا شروع کیا۔ دنیا کی بیشتر زبانوں میں خواتین نے خود نوشت سوانح عمریاں لکھنے کی جسارت کی اور خوف کے باوجود اپنے درد کی کہانیاں رقم کیں۔انہوں نے خارجی عوامل کے ساتھ ساتھ اپنی داخلی زندگی کے حالات بھی لکھے۔خواتین نے تعلیم کے حصول کے ساتھ زندگی کے مختلف شعبوں میں دلچسپی لی اور اپنے احوال آپ بیتیوں کے توسط سے عوام الناس تک پہنچا ئے۔اعلیٰ ،درمیانی اور ذیلی طبقات کی خواتین نے اپنی زندگی کے مزاحمتی پہلو کو بھی موضوع بنایا۔اور رفتہ رفتہ یہ مزاحمت ،جہد اور بغاوت میں تبدیل ہوتی گئی۔بعض نے شعلہ زبانی کا مظاہرہ کیا تو بعض خواتین نے ایسے موضوعات منتخب کیے جو اب تک ممنوعہ تھے۔ انہوں نے جنسی جذبات سے متعلق بھی بے خوفی سے لکھا۔بیوائوں کے ساتھ سماج کی زیادتیوں ،شوہر کے ظلم و جبر وغیرہ بھی سوانحی کتب میں شامل ہونے لگے۔خواتین کی آ پ بیتیوں میں مزاحمت ، احتجاج ،افسردگی ،بیچینی، اداسی ،تنہائی ،دکھ درد اور کسک ملتی ہے۔
شبانہ سلیم اپنے مضمون بعنوان ’’خواتین کی اردو خود نوشت کا طرزِ نگارش‘‘میں برِ صغیر کی سماجی ساخت میں خواتین کی صورتِ حال کا ہمدردانہ تجزیہ پیش کرتی ہیں۔وہ متوسط طبقے کی خواتین میں گھٹن اور اضطراب کی کیفیت ان الفاظ میں بیان کرتی ہیں:
’’غرض ان عورتوں کی جرأت قابلِ داد ہے کہ گھٹے ہوئے ماحول میں آنکھ کھولی اپنے چاروں طرف قدامت کا حصار دیکھا،لڑکیوں کی تعلیم کی طرف سے اہلِ خانہ کی بے توجہی دیکھی،لڑکوں کے ساتھ امتیازی سلوک دیکھا اور مردوں کی فضیلت والے اس سماج میں وہ قطرہ قطرہ غیر محسوس طور پر زہر پیتی رہیں۔اور پھر جب آزادی کی نعمت آئی تو یہ سب ہی اپنے اپنے اس ماحول سے الگ ہونے پر مجبور ہوئیں جہاں پیدا ہوئی تھیں اور بڑی ہو رہی تھیں۔آزادی ملکوں کے لیے آئی تو آئی ہی ،ان خواتین کے لیے تو بہت با معنی بن کر آئی جن پر زندگی کی کھلی ہوا میں سانس لینے کے دروازے کُھل گئے۔ان کے قلم جاگے اور انہوں نے لکھا۔اور خوب لکھا۔شاعری۔افسانہ۔ناول۔ اور جب خود اعتمادی آگئی ،طبیعتوں میں ٹھہرائو آگیا ،بات کو کہنے کا سلیقہ آگیا ،اپنے تجربات کو ناول نگاروں کی طرح ’حدیثِ دیگراں‘کی طرح نہیں بلکہ اپنی ہی زندگی کی حقیقت کی طرح بیان کرنے کی جرأت آگئی،نہایت شائستگی کے ساتھ ادبی زبان میں اپنے بزرگوں کے رویوں پر تنقید کرنے کا سلیقہ آگیا تو ان خواتین نے خود نوشتیں قلمبند کیں اور اردو ادب میں اہم اضافہ کیا۔ ‘‘ (یک موضوعی مجلہ ’اندازِ بیاں‘،نئی دہلی،مئی 2016،صفحہ261)
امرتا پریتم کی ’رسیدی ٹکٹ ،‘پدما سچ دیو کی ’بوند باوڑی‘،کشور ناہید کی ’بُری عورت کی کتھا ‘،سعیدہ احمدکی ڈگر سے ہٹ کر‘، ادا جعفری کی ’جو رہی سو بے خبری رہی ‘،اجیت کور کی’خانہ بدوش‘،کُسُم انسل کی ’جو کہا نہیں گیا‘،کرشنااگنی ہوتری کی’لگتا نہیں ہے دل مرا‘ اور نفیس بانو شمع کی ’جنت سے نکالی ہوئی حوا‘بڑی منفرد سوانح عمریاں ہیں۔ان سوانح عمریوں میں ہمیں خواتین کی تخلیقی اظہارِ ذات وکائنات کے علاوہ ان پر کیے جانے والے ظلم و جبر کے خلاف احتجاجی آواز کی باز گشت بھی سنائی دیتی ہے۔
خود نوشت سوانح عمریوں کا مجموعی طور پر جائزہ لیں تو ہنسا واٹکر ،پاربتی ایچ ویل ،بہینہ بائی نے مراٹھی زبان میں اوراجیت کور وامرتا پریتم نے پنجابی میں ،بینو دیوی گاسی ،بینا داس ،سرلا بیدی ،اشوکا گپتا اورکنّن دیوی نے بنگالی زبان میں قابلِ ذکر آپ بیتیاںلکھیں۔ان کے علاوہ کملا داس ،شوبھا ڈے ،مِرنال پانڈے ،دلیپ ٹُوانا،کرن بیدی ،اندرا گوسوامی ،سیتا دیوی ،لکشمی بائی تلک ،لیلا سیٹھ ،شرن جیت ،آشا میرو ،دینا نائیڈو کی خود نوشت سوانح عمریوں کے میدان میں اپنی منفرد شناخت قایم ہوئی۔ عربی زبان میں خواتین خودنوشت نگاروں میں نوال السعداوی کی آپ بیتی’’مذکراتِ طبیبہ‘‘اولین آپ بیتی تسلیم کی جاتی ہے۔یہ کتاب 1965میں شائع ہوئی۔ اس کے بعد خواتین نے یکے بعد دیگرے کئی اہم سوانحی کُتب قلمبند کیںجن میں معروف فلسطینی ادیبہ و شاعرہ فدوی طوقان کی کتاب’’رحلۃ جبلیۃ‘‘،’’رحلۃ صعبۃ‘‘اور عراقی شاعرہ نازک ملائکہ کی زندگی کے احوال پر مبنی کتاب ’’سیرۃ من حیاۃ نازک الملائکۃ‘‘بڑی اہمیت کی حامل سوانحی کتب تسلیم کی جاتی ہیں۔ ان تمام آپ بیتیوں میں خواتین کے مسائل کی بھرپور ترجمانی ملتی ہے۔
رشیدہ عیاں نے ’’میری کہانی‘‘عنوان سے حمایت علی شاعر کے انداز میں منظوم خود نوشت سوانح عمری لکھنے کی بھی کامیاب سعی کی۔ رشیدہ عیاں نے اپنی اس خودنوشت کے دیباچے میں آپ بیتی لکھتے وقت عورتوں کے جذبات و احساسات کو اس طرح بیان کیا ہے :
’’دنیا میں کہی سنی بات یہی ہے کہ اپنی داستانِ حیات لکھنا آسان کام نہیں ،انگاروں پر چلنے کے مترادف ہے۔صداقت کے پتھروں پر جب زندگی کے قدم پڑتے ہیں تو پائوں سے روح تک چھِل کر زخمی ہو جاتے ہیں اور جب لہو بہتا ہے۔۔تو وہی لکیریں تحریر بن جاتی ہیں۔۔میں تو یہ دیکھتی ہوں کہ دنیا چھوٹی کہانیاں اتنی دلچسپی سے پڑھتی ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔۔تو پھر سچی داستانیں۔۔ان کی بات ہی کیا ہے۔۔ان میں تو زندگی کی جھلک صاف نظر آتی ہے۔اب گر سچ کی راہ پر پائوں زخمی بھی ہوں تو ہم جیسوں کو کیا فرق پڑتا ہے۔سوچتی ہوں ہم عورتیں تو زمانۂ قدیم سے پتھریلی راہوں پر چلتی آئی ہیں اور آگ پر چل کر اگنی پریکشا دیتی رہی ہیں۔ہم جیسوں کے لیے کیا پتھر ، کیا انگارے۔ یہ زندگی تو سب سے بڑی معلمہ ہے۔پتھروں پر چلنا ، کڑوے گھونٹ پینا ،حصارآتشیں ماحول سے گزرنا سکھا دیتی ہے۔اس کی قمچی کی ساڑھ جسم پر نہیں ،روح پر پڑتی ہے۔جسم تو بظاہر سجا سنورا اور خوبصورت تاج محل نظر آتا ہے لیکن روح میں تمنائوں اور جذبوں کے قبرستان کی ویرانی ہُو ہُو کرتی ہے۔ ‘‘
(میری کہانی،رشیدہ عیاں،ماخوذ از ’دیباچہ‘ ،اشارات ،کراچی ،2004)
اول الذکر خودنوشتوں کے علاوہ بھی بڑی تعداد میں خودنوشت سوانح عمریاں منظرِ عام پر آئیں۔ ان میں زہرا دائودی کی کتاب ’گرداب کی شناوری اور لذتِ صحرا نوردی‘ ، عصمت چغتائی کی کتاب ’کاغذی ہے پیرہن‘ ،ادا جعفری کی کتاب ’جو رہی سو بے خبری رہی ‘ ،صوفیا انجم کی کتاب ’یادوں کی دستک‘سعیدہ بانوکی کتاب ’ڈگر سے ہٹ کر ‘،بیگم انیس قدوائی کی کتاب ’غبارِ کارواں‘ ،صالحہ عابد حسین کی کتاب ’سلسلۂ روز و شب‘ ،ثریا حسین کی کتاب ’آب رود ِ گنگا ‘ ، عذرا عباس کی کتاب ’’میرا بچپن‘‘، صغرہ مہدی کی کتاب’حکایتِ ہستی‘،شائستہ سہروردی اکرام اللہ کی کتاب ’پردے سے پارلیمنٹ تک‘ ،تہمینہ درانی کی کتاب’مینڈا سائیں‘ اورکشور ناہید کی کتاب ’بُری عورت کی کتھا ‘انتہائی اہمیت کی حامل خود نوشت سوانح عمریاں مانی جاتی ہیں۔
حقوقِ نسواں و حقوقِ انسانی کی سر گرم کارکن اور جدید اردو شاعرہ کشور ناہیدکے نام اور سرگرمیوں سے برِ صغیر ہند و پاک کے اہلِ اردو اور اربابِ حل و عقد اچھی طرح واقف ہیں۔انہوں نے معاشیات میں ایم اے کیا تھا اور معروف شاعر یوسف کامران سے ان کی شادی ہوئی تھی۔ وہ ہمیشہ تانیثی خیالات و مذہبی کٹر پن کی مخالفت کے لیے سرگرمِ عمل رہی ہیں۔ ترقی پسند خیالات کی حامی کشور ناہید کو ستارۂ امتیاز سے سرفراز کیا گیا تھا۔ انہوں نے اپنی شاعری میں بھی مرد اساس معاشرے میں خواتین پر ڈھائے جانے والے ظلم و جبر کو اپنا موضوعِ سخن بنایا۔ان کا شعری مجموعہ’’لبِ گویا‘‘1991میں شائع ہوا۔’’بے نام مسافت ‘ ‘ ان کی نظموں کا مجموعہ ہے۔ان کی نظموں ،نثری نظموں اور غزلوں پر مبنی ایک اور مجموعہ ’’گلیاں، دھوپ، دروازے‘‘ ہے۔ حقوقِ نسواں کی تحریک کے علاوہ انہوں نے خواتین کے لیے کئی تعلیمی اداروں کی تشکیل میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ وہ ادبی رسالہ ’’ماہِ نو‘‘کے مدیر کی حیثیت سے بھی کام کرتی رہی ہیں۔
کشور ناہید کی آپ بیتی ’بُری عورت کی کتھا ‘ میں بنیادی طور پرمردوںکے ذریعہ عورتوں پر کیے جانے والے مظالم پر روشنی ڈالی گئی ہے۔معاشرے میں متوسط طبقے کی خواتین کو جن اذیتو ں اور دکھوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے،برُی عورت کی کتھا میں انہیں چیزوں کو کشور ناہید نے اپنا موضوع بنایا ہے۔ان کی یہ خود نوشت 1994میں ہندوستان میں اور 1997میں پاکستان میں منظرِ عام پر آئی۔انہوں نے اپنے سوانحی حالات ،والدین اور عزیزو اقارب کا ذکر بڑے اختصار سے کیا ہے۔کشور ناہید کی والدہ بڑی صابرہ خاتون تھیں۔کشور ناہید کی والدہ اپنے شوہر یعنی کشور ناہید کے والد کی چوتھی بیوی تھیں۔ان کے والد غیر تعلیم یافتہ اور اکھڑ مزاج آدمی تھے جنہیں بچوں کی پرورش میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔انہوں نے اپنی زندگی بچوں کی تعلیم، تربیت کے لیے وقف کر دی۔کشور ناہید نے گھر کے افراد سے بغاوت کرتے ہوئے اپنی مرضی سے شادی کی۔
کتاب میں نہ صرف انہوں نے اپنے والدین ،بھائی بہن اور شوہر کی عیاریوں کا ذکر کیا ہے بلکہ اپنے عہد کے تمام تر معاشرے ہی کی پولیں کھولی ہیں۔1971کی جنگ کے دوران مشرقی پاکستان کے عوام کے اوپر جو مظالم ڈھائے گئے اور وہاں کی خواتین کے ساتھ جو درندگی اختیار کی گئی ،اسے مصنفہ نے اپنی اس خود نوشت میںبڑی صداقت اور دردمندی کے ساتھ بیان کیا ہے۔انہوں نے برِ صغیر میں عورتوں پر کیے جانے والی زیادتیوں ہی کا تذکرہ نہیں کیا ہے بلکہ بوسنیا ،سومالیہ ،گھانا اور فلسطین میں بھی خواتین پر برپا کی جانے والی بربیت کا نقشہ کھینچا ہے۔اس خود ونوشت کی ابتدا میں کشور ناہید نے شعور کی رَو کی تکنیک اپناتے ہوئے ’’پہلی سیڑھی‘‘ عنوان کے تحت کچھ اس طرح سے کی ہے:
’’حوا نے اپنی کہانی کسے سنائی تھی!
آدم کو۔۔۔اس نے تو مشہور کر دیا ‘ میں اس کی پسلی سے نکلی تھی۔
خدا کو اس کی کتابوں نے تو مجھے ورغلانے والی اور مجازی خدا کو سجدہ کرنے والی بنا دیا۔
زمین کو ‘اس نے خود کو آنگنوں میں تقسیم کیا اور سرتابی کرنے والیوں کے بے نام بدن‘اس کی کوکھ میں اترتے گئے۔
آسمان کو ’ڈرپوک‘’بزدل چیخ‘اور آواز سے بچنے کو اس نے خو دکو نیلاہٹوں کے نظر آنے والے فریب میں چھپا لیا۔
یشودھرا نے پوچھا۔’’میں تیری اور اپنی کہانی سنائوں۔‘‘
حوا نے کہا۔’’تیری آنکھ میں زخم ہو گیا تو ہوا کے گھائو کے تیروں کی بارش کو کیسے گن سکے گی۔
قزوین کی بیٹی زریں تاج قرۃ العین نے کہا۔میں نے تیرے جیسی زندگی کرنے کی سعی کی۔میری رسم و راہ قلندری کو ہر زمانے کے شاہ قا چار‘جلاد کے حوالے کر دیتے ہیں۔
یونانی اساطیر دیوی Danceنے کہا۔’’مجھے تیری سزا بھگتنے کے لیے کشتی میں بٹھا کر سمندر میں چھوڑ دیا گیا تھا اور میری کشتی نامعلوم جزیروں سے ساری عمر ٹکراتی رہی۔‘‘میں اپنی کتھا سنائوں گی۔
سیفو اور اینو اضماتو وا نے کہا۔’’ہم سے تو ہماری شاعری کے مسودے چھینے گئے ہماری شاعری کو ملک کے لیے شرمناک سمجھا گیا۔ہمیں اپنی کہانی سنانے دو۔‘‘
اندھی صفیہ بی بی نے کہا۔’’میں نے تم سے پوچھے بنا تمہاری کہانی سنا دی۔حرام کا بچہ جننے کا قصور بھی میرا تھا اور کوڑوں کی سزا بھی میرے لیے تھی۔‘‘
حوا بلبلا اُٹھی۔’’کس نے دی تھی سزا۔کیا اس عمل میں تم اکیلی تھیں بالکل اکیلی۔‘‘
قدیم عہد ناموں میں واقعات کی تفصیل نہیں ملتی ہے۔سبق سکھانے کے لیے فیصلوں اور سزائوں کا ذکر ملتا ہے۔‘‘
(بُری عورت کی کتھا،کشور ناہید،سنگِ میل پبلی کیشنز،لاہور،2008صفحہ3)
یوسف عالمگیرین نے کشور ناہید کی شخصیت اور فن سے متعلق اپنے تبصرے میں انہیں’’دبنگ عورت‘‘کہا ہے۔ان کی بے باک شخصیت کے بارے میںوہ
رقم طراز ہیں:
’’کشور ناہید ادب میں آئیں تو ادب پر قبضہ کیے ہوئے مردوں نے انہیں خوش آمدید نہیں کہا،الٹا تنقید کے نشتر برساتے رہے۔انہوں نے عورت ہونے کے باوجود ان نشتروں کی پرو ا ہ نہیں کی اور اپنا سفر جاری رکھا۔نظم کہی،نثر لکھی،تقریریں کیں،مشتعل ہوئی،اشتعال دلایا اور اب وہ سب کچھ کر دکھایا ، جواس سے پہلے کوئی عورت کرنے کی ہمت نہیں کرتی تھی۔دیگر عورتوں نے مردوں کو ان کی جگہ پر رکھنا انہی سے سیکھا۔مردوں نے بھی جواباََ ان کے ساتھ کچھ کم نہیں کیا اور ان پر ایسے اسے الزامات لگائے کہ کوئی عورت بھی دوسری عورت پر ایسے الزامات نہیں لگاتی۔‘‘ (www.dunya.com.pk)
محمد نوشاد عالم نے اپنے مضمون ’’اردو کی باغی خواتین آپ بیتی نگار‘‘میں عام روش سے ہٹ کر لکھنے والی اردو کی اہلِ قلم خواتین کی تحریروں کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے:
’’معاشرے میں اور خاص کر مسلم متوسط طبقے کی عورتوں کو جن مشکلات اور جبر و تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کی بہترین تصویر کشی عصمت چغتائی کے بعد اگر کسی نے کی ہے تو وہ کشور ناہید ہیں۔انہوں نے اپنی خود نوشت سوانح حیات ’بُری عورت کی کتھا ‘میں عورتوں کے اوپر ہو رہے ظلم و ستم اور جبر و تشدد کو دلد وز انداز میں پیش کیا ہے۔یہ خود نوشت صرف کشور ناہید ہی کی نہیں بلکہ پوری عورت ذات کی سوانح حیات معلوم ہوتی ہے۔اس میں انہوں نے زمانۂ قدیم میںعورتوں پر ہونے والے مظالم ،انہیں کم تر گرداننے ،مردوں کا غلام بنا کر رکھنے ،یہاں تک کہ انہیں جسم فروشی پر مجبور کر دینے والی پوری صورتِ حال کو پیش کیا ہے۔‘‘ (یک موضوعی مجلہ ’اندازِ بیاں‘،نئی دہلی،مئی 2016،صفحہ274)
مرد اساس سوسائیٹی میں جو برِ صغیرِ ہند و پاک میں یکساں طور پر قایم اور فعال ہے،عموماََ مردوں کی عادات و اطوار کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے،اس کے بر عکس خواتین جو پہلے ہی سے چہار دیواری میں مقید ہیں اور مردوں کی خدمت گزاری میں ہمہ تن مصروف ہیں،انہیں کے کردار و افعال پر شک و شبہہ کیا جاتا ہے۔کشور ناہید خود نوشت’’بُری عورت کی کتھا‘‘ میں ان تمام خواتین کی نمائندگی کرتی دکھائی دیتی ہیں:
’’ہم کس قدر رشک کرتے ہیں
بتوں کی طرح ٹانگیں آلتی پالتی مارے بیٹھے
مسلسل تاش کے پتے پھینکتے لوگوں پر
جب وہ سارا دن تاش کھیلنے کے بعد کھڑے ہوتے ہیں
اپنے ہاتھ رگڑتے ہیں اپنی پینٹوں کی بیلٹ ٹھیک کرتے ہیں
اپنی جیبوں میں بقایا ریزگاری کو گنتے ہیں
اور گھر جاکر دیکھتے ہیں ان کی غیر حاضری میں بی بیاں
نیکی اور پاکبازی پر قائم رہی ہیں۔
(بُری عورت کی کتھا،کشور ناہید،سنگِ میل پبلی کیشنز،لاہور،2008صفحہ86)
انہوں نے اپنی خود نوشت’’بُری عورت کی کتھا‘‘ میں طنزیہ لہجے میںجو اپنے آپ ہی کو بُری عورت قرار دیا ہے،دراصل مرد اساس معاشرے پر وار کیا ہے۔عورت جب بھی ہمارے گھر کی چہار دیواری سے باہر اپنی شناخت بنانے کی سعی کرتی ہے تو اسے بُری عورت تصور کر لیا جاتا ہے۔کشور ناہید نے اپنی داستانِ حیات سُنا کر معاشرے سے سوال کیا ہے۔گھریلو مسائل کے حل کی خاطر باہر نکلنے کا ناگزیر اقدام خواتین کے بُرے ہونے کا باعث ہے تو معاشرہ وہ تمام ذمے داریاں خود ہی کیوںنہیں نبھاتا ہے۔کشور ناہید نے اس کتاب میں اپنے بچپن ، جوانی، شادی،ملازمت اور زندگی کے دیگر ادوار کی تصویریں پیش کی ہیں۔اس میں انہوں نے چند خطوط اور اخباروں میں شائع شدہ مضامین کے علاوہ اپنے نکاح کا خطبہ بھی شامل کیا ہے۔کشور ناہید نے بڑی حوصلہ مندی کے ساتھ مرد اساس سوسائیٹی کا مقابلہ کیا ہے۔ انہیں آزاد خیال عورت مانتے ہوئے ان پر تہمتیں لگائی گئیں اور یہاں تک کہ انہیں’دبنگ عورت‘ کا لقب دیا گیا۔ تمام رکاوٹوں کے باوجود کشور ناہید نے سماج سے اپنی جنگ خود ،تنِ تنہا لڑی اور ادب کے ہر مورچے پر انہوں نے کامیابی حاصل کی۔یہ خو دنوشت نہ صرف کشور ناہید کی زندگی کا احاطہ کرتی ہے بلکہ برِ صغیرِ ہند و پاک کی سیاسی اور سماجی صورتِ حال کی کہانی بھی پیش کرتی ہے۔
کشور ناہید کی آپ بیتی ’’بُری عورت کی کتھا‘‘،امرتا پریتم کی آپ بیتی’’رسیدی ٹکٹ‘‘ ،سعیدہ احمد کی آپ بیتی’’ڈگر سے ہٹ کر‘‘،عصمت چغتائی کی آپ بیتی’’کا غذی ہے پیرہن‘‘اورنفیس بانو شمع کی آپ بیتی’’جنت سے نکالی ہوئی حوا‘‘ میں جن نسوانی کرداروں کو پیش کیا ہے وہ سب مظلوم و مجبور اورزمانے کی ستم ظریفیوں کا شکار ہیں۔ ان کی زندگیاں برباد ہو چکی ہیں اور ان میں خواہشات ِ زندگی ختم ہو چکی ہیں۔ اس خودنوشت میں رابعہ ،شاہجہاں ، نایاب ، افروز ،رشیدہ خاں اور ثروت بیگم جیسے سبھی کردار مردوں کے ظلم و ستم کا شکار ہیں۔ان کی خودنوشت پدر سری نظام میں صنفِ نازک کے ساتھ پیش آنے والے جبر و تشدد سے پیدا شدہ درد و الم کی حقیقی کہانیاں موجود ہیں۔
کتاب’’ جنت سے نکالی ہوئی حوّا‘‘ نفیس بانو شمع کی زندگی کے احساسات ، مشاہدات اور تجربات پر مبنی ایک دلچسپ سر گزشت ہے، جس کا بنیادی موضوع معاشرے میں عورتوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیاں اور استحصال ہے۔ اس سوانح کی اہمیت کا اندازہ اس حقیقت سے کیا جا سکتا ہے کہ اردو کے معتبر ناقدین و محققین نے اس کے مقام و مرتبے پر اپنی آرأ درج کی ہیں۔ان نامور ادیبوں میں ڈاکٹر خلیق انجم،ڈاکٹر ابو الفیض سحر ؔ ،پروفیسر قاضی عبید الرحمٰن ہاشمی ،ڈاکٹر وہاج الدین علوی،ڈاکٹر مسعود ہاشمی کے علاوہ فصیح اکمل ،ڈاکٹر تابش مہدی،حقانی القاسمی اور ڈاکٹر نوشاد عالم وغیرہ کے نام قابلِ ذکر ہیں۔مگر ضخیم رسالے ’دستاویز ‘کے آ پ بیتی نمبرمیںمحترمہ نفیس بانو شمع کی اس کاوش کو ’’بے رنگ اور غیر دلچسپ‘‘ کہہ کر قابلِ اعتنا ء ہی نہیں مانا ہے اور اس طرح اس میں ان کی اس تصنیف کے ساتھ وہی سلوک کیا گیاہے جو زمانے نے بحیثیت خاتون خود مصنفہ کے ساتھ روا رکھا تھا لیکن اس کے برعکس ’’اندازِ بیاں‘‘ کے خواتین کی خود نوشت نگاری پر خصوصی شمارے میں نفیس بانو شمع کی اس آپ بیتی کی خاطر خواہ پذیرائی کی گئی ہے اور نسائی ادب میں اس آپ بیتی کو وہ مقام دلانے کی سعی کی گئی ہے ، جس کی وہ مستحق ہے۔مجلہ ’’اندازِ بیاں‘‘میں ڈاکٹر محمد نوشاد عالم نے اپنے مضمون ’’اردو کی باغی خواتین آپ بیتی نگار‘‘میں عصمت چغتائی کی آپ بیتی’کاغذی ہے پیراہن‘،کشور ناہید کی آپ بیتی’بُری عورت کی کتھا‘ اور نفیس بانو کی آپ بیتی ’جنت سے نکالی ہوئی حوّا‘کا ادب و فن اور معاشرتی نقطۂ نظر سے تجزیہ پیش کیا ہے۔ اس سوانح حیات کے بارے میں وہ لکھتے ہیں :
’’نفیس بانو شمع کا بیانیہ فطری اور حقیقت سے قریب ہے۔اسلوب سادہ ،پُر اثر اندازِ بیان ،تحریر صاف اور دلنشین ہے۔خارجی اور داخلی کیفیات کا اظہار خوبصورتی کے ساتھ کیا ہے۔عشقِ مجازی سے لیکر عشقِ حقیقی تک کے اسرار و رموز ،تصوف کی اصطلاحیں ،قرآن و حدیث کے حوالے اور واقعے کے اختتام پر ایک کاٹ دار جملہ ،عیاش اور بدچلن مردوں کی بد اعمالیوں سے ابھرتی سسکیاں ،عورتوں کی کراہیں اور دلگداز چیخیں وغیرہ اس خود نوشت میں ہمیں سننے کو ملتی ہیں۔یہ کتاب اپنی بیباکی ،حق گوئی اور منفرد طرزِ نگارش کے ساتھ عورتوں کی بیداری اور حقوق کی بازیابی کا پیغام ہے۔یہ ایک کامیاب خودنوشت سوانح حیات ہے۔ ‘‘
(یک موضوعی مجلہ’اندازِ بیاں‘مرتبہ حقانی القاسمی،از مضمون ’اردو کی باغی خواتین آپ بیتی نگار‘مصنفہ ڈاکٹر محمد نوشاد عالم ،مطبوعہ امکانات پبلی کیشنز،دہلی ،2016صفحہ 280)
اسی مجلہ میں اپنے مبسوط مضمون ’’جنوں زاویہ‘‘میں حقانی القاسمی نے بھی نفیس بانو شمع کی آپ بیتی ’جنت سے نکالی ہوئی حوّا‘پر اپنے تاثرات ان الفاظ میں پیش کیے ہیں:
’جنت سے نکال ہوئی حوّا‘میں جہاں ایک طرف سماجی خبر نامہ ہے ،وہیں ادبی منظر نامہ بھی ہے۔ادب اور سماج کے گہرے ارتباط کو نفیس بانو شمع نے بڑی ہی فنی چابک دستی کے ساتھ پیش کیا ہے۔‘‘
(’اندازِ بیاں‘مرتبہ حقانی القاسمی ،از مضمون ’جنوں زاویہ‘مصنفہ حقانی القاسمی،مطبوعہ امکانات پبلی کیشنز،دہلی،2016صفحہ18)
نفیس بانو شمع اردو کی افسانہ نگار بھی ہیں اور شاعرہ بھی۔موصوفہ کے تصنیف کردہ ناول ’’سماج‘‘کی بھی اردو حلقوں میں پذیرائی ہوئی ہے۔ان کی آپ بیتی ’جنت سے نکالی ہوئی حوّا‘ 1998میں منظرِ عام پر آئی۔انہوںنے حالات و واقعات کو پیش کرتے وقت بڑی صاف گوئی اختیار کی ہے۔انہوں نے کسی قسم کی جھجھک یا خوف کو اپنے پر طاری نہیں ہونے دیا ہے۔ مصنفہ نے اپنی زندگی کے تجربات اور واقعات کو عورت ذات سے مکمل طور پر ہم آہنگ کر لیا ہے،جسے ایک اچھی خو دنوشت کی خصوصیت قرار دیا جا سکتا ہے۔نفیس بانو شمع نے اپنی اس خود نوشت کو تحریر کرنے سے پہلے چنددستیاب سوانح عمریوں کا بغور مطالعہ بھی کیا تھا اور اس فن کی تکنیک اور لوازمات کو شعوری طور پر سمجھنے ،پرکھنے اور برتنے کی سعی بھی کی تھی۔نفیس بانو شمع اپنی اس خودنوشت کے ایک باب بعنوان ’اور قلم مجبور میرا‘ میں اپنے فنکار بننے کے اسباب و عوامل کی خود احتسابی کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ وہ لکھتی ہیں کہ جب وہ شعور کی منزل پر پہنچیں تو طبیعت از خود شعر و شاعری اور کہانیوں کے مطالعہ کی طرف مائل ہو گئی۔وہ بچپن ہی سے حساس طبع رہی تھیں۔اس لیے چھوٹے چھوٹے واقعات ان کے ذہن و دل پر نقش ہو جایا کرتے تھے۔اس باب میںنفیس بانو شمع نے اپنے جن ہمعصر افسانہ نگاروں اور شاعرات کی زندگی اور فن سے متعلق اپنے تاثرات قلمبند کیے ہیں ،ان کے نام یہ ہیں قرۃ العین حیدر،امرتا پریتم،واجدہ تبسم،بشریٰ رحمٰن ،ادا جعفری،پروین شاکر اورسارا شگفتہ۔ کتاب کے ایک اور باب ’’پاسبانِ ادب‘‘میں وہ ہمعصر ادبی دنیا کے جن لوگوں سے اپنے تعلقات کا بے ساختہ ذکر کرتی ہیں ان میں جناب بیکل اتساہی،کنور مہیندر سنگھ بیدی سحرؔ ،ندا فاضلی،افتخار امام صدیقی،کیف بھوپالی،تابش مہدی،فصیح اکمل ،رفعت سروش،شاہد پرویز،پروفیسر عنوان چشتی،حاجی انیس دہلوی اور جاوید قمر ؔشامل ہیں۔
نفیس بانو شمع کی یہ خود نوشت 1947ء کے بعد کی نسل کی ایک ایسی خاتون کی داستان ہے جو اتر پردیش کے ایک آسودہ و متمول زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئی۔ان کے دادا دادی نے ان کی بڑے لاڑ و پیار کے ساتھ پرورش کی تھی۔لیکن دادا دادی کے انتقال کے بعد انہیں بڑے نا مساعد حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ان کے والد ایک فوجی افسر تھے۔ان کی والدہ معمولی پڑھی لکھی گھریلو خاتون تھیں۔ان کے تین بچے تھے۔نفیس بانو چار برس کی تھیں اور سب سے بڑی تھیں۔ان کے بعد ایک چھوٹا بھائی اور اس سے چھوٹی بہن بھی تھی۔والد گائوں کی ایک دوسری لڑکی کے عشق میں مبتلا ہو گئے اور خاندان کے افراد کے نہ چاہتے ہوئے بھی انہوں نے دوسری شادی کر لی تھی۔لہٰذا ان کی والدہ اپنے تینوں بچوں سمیت اپنے نانہال میں منتقل ہو گئیںجو اب ان کا مستقل ٹھکانہ بن گیا۔نانا نانی اور ماموں نے بڑی شفقت کے ساتھ ان کا خیال رکھا۔لیکن باپ کی کمی ایک ناسور کی طرح نفیس بانو شمع کے دل و دماغ کومتاثر کرتی رہی۔وہ اپنے بچپن کے واقعات بڑے درد انگیز انداز میں بیان کرتی ہیں۔یہ آپ بیتی سچی بھی ہے اور انتہائی دلچسپ بھی۔ان کا بیانیہ بڑا ہی پُر تاثیر ہے۔مثلاََ اپنے بچپن کے ایک بڑے حادثے کا منظر وہ ان الفاظ میںبیان کرتی ہیں:
’’ایک بزرگ کے سالانہ عرس میں شرکت کے لیے ٹرین سے سفر کر رہے تھے۔کسی نے چین کھینچ دی۔ٹرین کی رفتار کم ہوتا دیکھ کر میری نانی جو دیہات کی سیدھی سادی ،سادہ لوح خاتون تھیں، سمجھیں کہ اسٹیشن آگیا ہے۔وہ مجھے گود میں لیکر اترنے لگیں۔دفعتاََ ان کا پیر پھسلا۔میں ان کے ہاتھ سے چھوٹ کر ٹرین کے نیچے جا پڑی۔لوگوں نے سمجھا کہ میں ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر چکی ہوں گی۔مگر ایسا نہیں ہوا۔جب ٹرین کی حرکت ختم ہوئی تو ایک ہجوم نے دیکھا کہ ٹرین کے پہئیے سے میری گردن کا فاصلہ چند اِنچوں کا تھا۔ قدرت کے اس کرشمے پر سب محوِ حیرت تھے۔مگر یہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ چند انچوں پر کھڑی موت نے لوحِ محفوظ پر دیکھ لیا تھا کہ میری موت قسطوں میں لکھی ہوئی ہے۔میں بڑی سخت جان ہوں ،ایک بار کی موت میرے لیے کافی نہ ہوگی۔ ‘‘نفیس بانو شمع پر اس حادثے کا بڑا گہرا اثر ہوا تھا۔وہ اسی واقعے سے متعلق مزید لکھتی ہیں۔’’آج بھی جب کوئی ٹرین قریب سے گزرتی ہے تو مجھ سے چند فاصلے پر کھڑی موت مسکراکر میرا چہرہ دیکھتی ہے۔‘‘
(جنت سے نکالی ہوئی حوّا ،آپ بیتی،مصنفہ نفیس بانو شمع ،آبشار پبلی کیشنز ،نئی دہلی ،1998صفحہ 50-51)
نفیس بانو شمع کے پاس افسانوی ادب لکھنے کا شعور ہے۔ان کی زندگی خواتین کی تکلیفوں ،زیادتیوں اور مصیبتوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ان کا اندازِ بیان خوبصورت اور موثر ہے۔اس خود نوشت میں مصنفہ مردوں کے ظلم و ستم اور عورتوں کی لاچاری و بے بسی کی کیفیت کو شدت اور درد مندی کے ساتھ بیان کرتی ہیں۔مرد کے ذریعہ ستائی گئی عورتوں کو در بدر کی ٹھوکریں کھانی پڑتی ہیں۔ان کے احساسات و جذبات کے مجروح ہونے کا درد نفیس بانو شمع کی اس خود نوشت میں بہت نمایاں ہے۔مصنفہ نے زندگی کے واقعات ،حالات اور تاثرات کو پچاس ابواب میں تقسیم کیا ہے اورپھر بڑی باریکی اور تمام تر توجہ کے ساتھ واقعات و مناظر کے تانے بانے بُنے ہیں۔
اس خودنوشت کے مطالعہ سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ مصنفہ اپنی ازدواجی زندگی سے بڑی نا مطمئن تھیں۔وہ اپنے شوہر کی غلط کاریوں ، معاشقوں اورخود مصنفہ کے تئیں ان کی بے اعتنائی کا گلہ کرتی ہیں۔اپنی بچی کی تولید کے بعد انہیں یہ توقع ہوئی تھی کہ ان کے شوہر باپ بننے کے بعد بے راہ روی سے باز آ جائیں گے اور راہِ راست کی زندگی اپنا لیں گے لیکن ایسا ہوا نہیں۔وہ بائیس سال کی عمر میں تین بچوں کی ماں بن چکی تھیں۔دو بیٹیاں اور ایک بیٹا۔پر ان کی زندگی نا آسودگی اور بے اطمینانی کی داستان بن کر رہ گئی تھی۔ 1976میں ان کی زندگی میں ایک بڑی تبدیلی رونما ہوئی۔جب وہ ضلع رامپور کے ایک گائوں بھینسوڑی شریف کے سجادہ نشین صوفی لیاقت حسین (مُنّے میاں)سے رابطے میں آئیں ، باقاعدہ ان کے ہاتھ بیعت لی اور اس طرح سلسلۂ چشتیہ ابو العلائی میں داخل ہو گئیں۔ بقول مصنفہ تب تک وہ پیری مریدی سے واقف نہیں تھیں۔ان کے مرشد کی ہدایت کے مطابق وہ کثرت سے درود شریف پڑھنے لگیں ، جس سے ان کے دل کے تاریک گوشے منور ہو گئے۔ہدایات کے مطابق کشف المحجوب ،سیرتِ فخرالعارفین ،احیاء العلوم ،کیمیائے سعادت اور شیخ سعدی کی گلستاں و بوستاں کے مطالعے اور فضل سے بقول مصنفہ تمام زخموں کا مداوہ ہو گیا۔نفیس بانو شمع لکھتی ہیں کہ اب مجھے عشق تھا اس پوری کائنات سے ،نیلے آسمان پر تیرتے اپنے پرپھیلائے چہچہاتے آزاد پرندوں سے ،ٹھہرے ہوئے رات کے سناٹوں سے ،پگھلتی ہوئی سیال چاندنی سے ،سمندر کے سینے میں بند بپھرے ہوئے منہ زور طوفانوں سے ،اونچی پہاڑیوں کی بلندی سے گرتے ، گیت گاتے آبشاروں کی شوخی سے ،ننھے منے ستاروں کے دل میں دھڑکتی خاموشی سے اور صبح کی پہلی دستک پر کھِلنے والے شاداب پھولوں سے۔جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق صدر شعبۂ اردو ادب کے پروفیسر قاضی عبید الرحمٰن ہاشمی رقم طراز ہیں ـ:
’’ یہ خود نوشت سوانح عمری ،’’موجودہ دور میں women empowerment کی تحریک کو بھی تقویت پہنچاتی ہے۔ عورت خالقِ کائنات کی صناعی کا ایک عظیم مظہر اور انسانی زندگی میں توازن ،اعتدال اور لا زوال مسرتوں کا سر چشمہ ہے۔ جسکے گدلا ہو جانے کا تصور اندوہ ناک ہے۔نفیس بانو شمع کی کہانی میں ان کے شعلہ بار نفس کی آنچ بہت تیز ہے۔لیکن یہی آگ خود ان کی روحانی بالیدگی اور ترفع کا بھی واحد وسیلہ ہے جس کے سبب ایک بظاہر تکلیف وہ تجربہ قاری کی اپنی نجات کا بھی ضامن بن جاتا ہے۔‘‘
(جنت سے نکالی ہوئی حوّا ،آپ بیتی،مصنفہ نفیس بانو شمع ،آبشار پبلی کیشنز ،نئی دہلی ،1998صفحہ 18-19)
جو نسوانی کردار اس خودنوشت کے توسط سے قارئین کے دل و دماغ کو جھنجھوڑتے ہیں ان میں شاہجہاں ،رابعہ آپا ،جولی ،زیتون ،راج کماری ،نایاب ،افروز ،رشید ہ خان،نکہت اور ثروت بیگم وغیرہ خصوصی اہمیت کی حامل ہیں اور خواتین کے کرب کی علامت بن کر ابھرے ہیں۔ ڈاکٹر مسعود ہاشمی اس کتاب کے ضمن میں فن اور تکنیک کے نقطۂ نظر سے بجا طور پر لکھتے ہیں :
’’اس میں شک نہیں کہ نفیس بانو شمع نے ’جنت سے نکالی ہوئی حوّا‘ کی شکل میں اردو میں سوانح نگاری کو ایک بالکل نئی نہج دی ہے۔ایک ایسی نہج ،جو منفرد ہی نہیں ہے ،تمام تر تخلیقی بھی ہے ،یعنی ایک ایسی تحریر جو اس حد تک سرور آگیں ہے کہ قاری کو دنیا و مافیہا سے بالکل بے خبر کر دیتی ہے۔یہی شمع کے قلم کا اور فن کا کمال ہے۔ ‘‘
(جنت سے نکالی ہوئی حوّا ،آپ بیتی،مصنفہ نفیس بانو شمع ،آبشار پبلی کیشنز ،نئی دہلی ،,1998صفحہ 24)
خودنوشت سوانح عمری ’’جنت سے نکالی ہوئی حوا ‘‘میں نفیس بانو شمع بے جھجک اس بات کا اعتراف کرتی ہیں کہ ان کا عشق ،عشقِ حقیقی نہیں تھا۔ انہیں زندگی جینے کے لیے کتنے ہی امتحانات سے گزرنا پڑا۔جب وہ صوفیانہ ڈگر پر چل نکلیں تو آستانۂ حضرتِ محبوبِ الٰہی پر بھی پہنچیں جسے انہوں نے بڑا خوبصورت عنوان دیا کہ ،’’شہرِ جاناں سے چلی اور تیرے در پر پہونچی‘‘دہلی میں کچھ دن راہبہ کے طور پر گزارنے کے بعد درگاہِ حضرتِ نظام الدین اولیاء پر پناہ گزیں ہو گئیں ،جس کا اظہا رانہوں نے اس شعر کی مثال دے کر کیا ہے کہ :
زندگی غم کی کڑی دھوپ میں دم لینے کو
آپ کے سایۂ دیوار تک آپہنچی ہے
اس باب میں انہوںنے دہلی کے اس آستانے کے تجربات و مشاہدات اور انکشافات پیش کیے ہیں۔جب بچوں کی یاد سے بیچین ہوئیں تو دوبارہ ممبئی میں اپنے گھر جا پہنچی۔شوہر نے انکا احوال جاننے کے بجائے طعنہ دیا ،’’کیا دنیا کے تمام دروازے تمہارے لیے بند ہو چکے ہیں۔کب تک میرے گھر سے چمٹی رہو گی؟‘‘اس پر نفیس بانو شمع کا جواب یہ تھا ’’اب انہیں کیا جواب دیتی کہ یہ بچے میرے پائوں کی بیڑیاں بن گئے ہیں اور انہیں کی محبت مجھے دوبارہ کھینچ لائی ہے ورنہ اس جہنم میں کون رہ سکتا ہے جہاں صرف نفرت ،ذلت،سیاست ،مصلحت پسندی اور خودغرضی کی گھٹن ہو۔‘‘
ڈاکٹر وہاج الدین علوی اس خود نوشت کا فنی نقطۂ نظر سے جائزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’اس میں بیانیہ کی تکنیک اور افسانوی انداز میں اپنی زندگی کی کہانی دہرائی گئی ہے۔واقعات کی صداقت کے پیشِ نظر مصنفہ نے مشرقی روایات کا گلا نہیں گھونٹا ورنہ بہت سے مواقع ایسے آئے تھے جہاں وہ الفاظ کے ذریعہ لذتیت کی کیفیت پیدا کر سکتی تھیں۔اس خود نوشت میں متوسط اور نچلے متوسط طبقے کی عکاسی کی گئی ہے۔خود نوشت نگار نے شعوری طور ر ان طبقات کی کمزوریوں ، محرومیوں ، ناکامیوں اور ان سے پیدا ہونے والی نفسیات کو اپنی ذات کے حوالے سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔‘‘
(جنت سے نکالی ہوئی حوّا ،آپ بیتی،مصنفہ نفیس بانو شمع ،آبشار پبلی کیشنز ،نئی دہلی ،,1998صفحہ 21 (
مرد ہر صورت میں چاہے وہ باپ ہو ،بیٹا ہو،شوہر ہو ،محبوب ہو یا دوست ہو خواتین کا استحصال کر رہا ہوتا ہے۔اسی نقطۂ نظر کو نفیس بانو شمع نے اپنی سوانح حیات میں اجاگر کرنے کی کہیں شعوری طور پر اور کہیں لا شعوری انداز میں سعی کی ہے۔اپنی داستانِ حیات بیان کرنے میں نفیس بانو شمع نے سامعین سے کوئی بات نہیں چھپائی ہے۔ اسی لیے یہاں زندگی کی تڑپ اور معاشرے کے دل کی دھڑکن واضح طور پر سنائی دیتی ہے اور اس طرح یہ کتاب مصنفہ کی زندہ تصویر پیش کرتی ہے اور خواتین کے قلم سے لکھی ہوئی خود نوشت سوانح عمریوں میں اپنی ایک منفرد پہچان بنانے کے ساتھ ساتھ خواتین میں بیداری کا جذبہ اور اپنے حقوق کی بازیابی کی امنگ پیدا کرتی ہے۔
حوالہ جاتی کتب:
1۔ ڈاکٹر صبیحہ انور اردو میں خود نوشت سوانح حیات نامی پریس لکھنؤ 1982
2۔ وہاج الدین علوی اردو میں خودنوشت سوانح : فن و تجزیہ مکتبہ جامعہ لمِٹیڈ،دہلی 1989
3۔ حقانی القاسمی یک موضوعی مجلہ’اندازِ بیاں‘ امکانات پبلی کیشنز،دہلی 2016
4۔ رشیدہ عیاں میری کہانی اشارات ،کراچی 2004
5۔ کشور ناہید بُری عورت کی کتھا سنگِ میل پبلی کیشنز،لاہور 2008
6۔ نفیس بانو شمع جنت سے نکالی ہوئی حوّا آبشار پبلی کیشنز ،نئی دہلی 1998
Khud Navisht Sawaneh Nigari ka Nisaee Zaviya by: Sayed Wajahat Mazhar
Leave a Reply
Be the First to Comment!