اقبال اور ان کی شاعری

پشپیندر کمار نم

ریسرچ اسکالر، شعبہ اردو، دہلی یونی ورسٹی

pushpendranim0@gmail.com

9457327661

 ڈاکٹر محمد اقبال کا شمار اپنے عہد کے بڑے شعرا میں ہوتا ہے۔انہوں نے غزل اور نظم دو نوں ہی اصناف میں طبع آزمائی کی مگر ایک نظم نگار کی حیثیت سے وہ اردو ادب میں خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔

 علا مہ اقبال1877ء میں9؍ نومبر برو ز جمعہ سیال کوٹ میں پیدا ہوئے۔ آپ کشمیری پنڈتوں کے ایک قدیم اور معزز گھرا نے سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ کے والد کا نام شیخ نور محمد تھا جو سیالکوٹ میں مشہور تاجر تھے۔

 اقبال نے ابتدا ئی تعلیم دینی مدرسوں میں حاصل کی اور اس کے بعد1889ء میں اسکاش مشن ہائی اسکول سیال کوٹ سے مڈل کا امتحان وظیفہ کے ساتھ پاس کیا اور پھر یہیں سے مولا نا میر حسن کی رہنمائی میں میٹرک1893ء اور1895ء میں ایف اے پاس کیا اور وظیفہ بھی حاصل کیا۔1895ء میں انہوںنے گورنمنٹ کالج،لا ہور میںبی اے میں داخلہ لیا۔ جہاں انہوں نے آرنلڈ جیسے معلم سے استفادہ کرنے کا موقع ملا۔علامہ اپنے استاد پروفیسر آرنلڈ کی بے حد عزت کرتے تھے جس کی شان میں انہوں نے انگلستان کی واپسی پر ایک الوداعی نظم’’نالۂ فراق‘‘ تحریر کی۔جس میں آپ نے اپنے استاد کی اعلیٰ خصلت، خوش اخلاقی،محبت اور شفقت کی تعریف کی ہے۔ اس نظم سے علا مہ کے دل میں آرنلڈ کی عظمت و احترام کا اندازہ ہو تا ہے۔ اقبال لکھتے ہیں  ؎

تو کہاں ہے کلیم ذرۂ سینائے علم

 تھی تری موج نفس باد نشاط افزائے علم

اب کہاں وہ شوق رہ پیمائی صحرائے علم

تیرے دم سے تھا ہمارے سر میں بھی سودائے علم ؎

شور لیلیٰ کو کہ بار آ رائش سودا کند

خاک مجنوں را غیار خاطر صحرا کند

 اقبال نے ایم اے فلسفہ میں1899ء میں گورنمنٹ کالج ،لاہور سے ہی پاس کیا اور پورے پنجاب میں اول آئے۔فلسفہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے آپ سے1905ء میں انگلستان کا سفر کیا۔ یہاں سے جانے سے قبل علامہ نے حضرت نظام الدین اولیاؒ کے مزار پر حاضری دی اور ایک نظم’’ التجائے مسافر‘‘ لکھی  ؎

وہ شمع بار گہہ خاندان مرتضوی

رہے گا یاد مثل حرم جس کا آستاں مجھ کو

نقش سے جس کی کھلی میری آرزو کی کلی

بنایا جس کی مروت نے نکتہ داں مجھ کو

دعا یہ کر کہ خدا وند آسمان و زمیں

کرے پھر اس کی زیارت سے شادماں مجھ کو

چمن کو چھوڑ کے نکلا ہوں مثل نکہت گل

ہوا ہے صبر کا منظور امتحاں مجھ کو

چلی ہے لے کے وطن کے نگار خانے سے

شراب علم کی لذت کشاں کشاں مجھ کو

 وہاں اقبال نے کیمبرج یو نیورسٹی سے فلسفۂ اخلاق کی ڈگری حاصل کی اور اس کے بعد جرمنی کی میونخ یونیورسٹی سے1907ء میں’’ایران کا فلسفہ‘‘ پر پی ایچ ڈی کی ڈگری لی۔1908ء میں ہی اقبال کا یہ مقالہ لندن میں شا ئع ہوا جسے خوب سرا ہا گیا۔ 1908ء میں ہی وہاں سے آ پ نے بیرسٹری کا امتحان بھی پاس کیااور27؍ جولائی 1908ء کو ہندوستان آ ئے۔

 لاہور واپس آ نے کے بعد اقبال نے گو رنمنٹ کالج میں فلسفے کے پرو فیسر کی حیثیت سے دو بارہ ملا زمت شروع کردی اور1923ء میں اقبال کو’’ سر‘‘ کا خطاب برٹش گورنمنٹ کی جانب سے حاصل ہوا۔

 اقبال کو شروع سے ہی شعر و شاعری سے شغف رہا۔انہوں نے جس وقت شاعری کے میدان میں قدم رکھا تو غزل کا بول بالا تھا۔ داغ اور میر کا رنگ سخن ہر سو پھیلا ہوا تھا۔ ابتدائے فن میں اقبال نے بھی غزل کے میدان میں ہی گل کھلا ئے ،جن پر داغ کا رنگ نمایاں نظر آ تا ہے۔ مثلاً ؎

نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی

مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی

تمہارے پیامی نے سب راز کھولا

خطا اس میں بندے کی سر کار کیا تھی

تامل تو تھا ان کو آ نے میں قاصد

مگر یہ بتا طرز انکار کیا تھی

کہیں ذکر رہتا ہے اقبال تیرا

فسوں تھا کوئی تیری گفتار کیا تھی

 داغ اس وقت حیدر آبباد میں قیام پذیر تھے اور وہاں انہوں نے اصلا ح سخن کا دفتر کھول رکھا تھا،جہاں انہیں شعرا کا کلام ڈاک سے ملتا تھا اور جس میں مناسب اصلاح کر کے داغ اسے ڈاک کے ذریعے ہی واپس کردیتے تھے۔اقبال کے ساتھ بھی کچھ اسی طرح کا معاملہ تھا اور اقبال داغ کے نا دیدہ پرستار تھے۔ ان کی استادی پر اقبال کو ناز تھا۔ وہ ایک جگہ لکھتے ہیں ؎

مجھے بھی فخر ہے شاگردیِ داغِ سخن داں کا

نسیم تشنہ ہی اقبال کچھ اس پر نہیں نازاں

 لیکن داغ کا یہ رنگ جلد ہی اقبال کی شاعری سے اترتا ہوا نظر آتا ہے۔ ان کی ابتدائی شاعری میں تلاش، جستجو اور اضطراب کا رنگ واضح ہے جس پر رومان کی خاص فضا اپنا آنچل لہراتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔اقبال کو اس رومانیت ہی نے غالب کی شوخی فکر تک پہنچایا۔اقبال پر سرسیدتحریک کا خاصااثر نظر آتا ہے۔ جہاں وہ مشرقیت کا سہار ا لیتے ہوئے وطن کی محبت سے سرشار نظر آتے ہیں۔ بعد میں یہی فکر نظر شاہینی نظر میں تبدیل ہوتی ہو ئی معلوم ہوتی ہے۔

 اقبال کی ابتدا ئی غزلوں کا یہ شعر دیکھئے جو انہوںنے انجمن حمایت الاسلام، لاہور کے مشاعرے میں پڑھی تھی  ؎

موتی سمجھ کر شان کریمی نے چن لیے

قطرے جو تھے مرے عرق انفعال کے

 یہ شعر سنتے ہی ارشد گور گانی بے اختیار ہو کر سبحان اللہ کہہ اٹھے اور فر مایا’’ میاں اقبال اس عمر میں اور یہ شعر‘‘

 اس کے بعد ان کے فن کے جو ہر مزید کھلتے ہی چلے گئے۔ اقبال اپنے سینے میں ایک حساس اور وطن کی محبت سے سرشار دل رکھتے تھے۔ حالات زمانہ کے تقاضے نے ان کے دل میں ملت و قوم کی بہتری کا خیال پیدا کیا اور وہ اردو کی روا یتی شاعری سے نکل کر مقصد خاص کے لیے اس کا استعمال کر نے لگے۔ اب وہ غالب کی طرف متوجہ ہو ئے۔ کیو نکہ انہیں اپنے مقصد میں کامیاب بنانے میں اسلوب غالب ہی عمدہ معلوم ہوا جس سے متاثر ہو کر ہی کہا گیا کہ اگر غالب نہ ہو تے تو اقبال بھی نہ ہو تے۔ غالب فلسفی تو نہیں تھے البتہ حکیما نہ نظر رکھتے تھے جب کہ اقبال کو قدرت نے ایک مربوط فلسفہ عطا کیا تھا۔

 سن1899 ء کے آس پاس اقبال کی شاعری ہمیں قوم کی اصلاح اور وطن پرستی سے رچی بسی نظر آتی ہے۔1900ء میں انجمن حمایت الاسلام، لاہور میں اقبال نے اپنی نظم’’ نالۂ یتیم‘‘ پڑھی جسے سن کر ہاں موجود لوگوں کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور اقبال کو خوب سرا ہا گیا۔اس کے بعد1901ء میں انجمن حما یت الاسلام کے جلسے میں ہی اقبال نے’’ یتیم کا خطاب ہلال عید سے‘‘1904ء میں ’’ہندوستان ہما را‘‘ پڑھی۔ پھر اس کے بعد’’ ہما لہ‘‘،’’نیا شوالہ‘‘ اور بہت سی نظمیں ہمیں وطن سے اقبال کی والہانہ محبت کا احساس دلاتی ہیں۔’’مثلاً وہ اپنی نظم’’ ہندو ستانی بچوں کا قومی گیت‘‘ میں فر ماتے ہیں  ؎

چشتی نے جس زمیں پر پیغام حق سنایا

نانک نے جس چمن میں وحدت کا گیت گایا

 تاتاریوں نے جس کو اپنا وطن بنایا

جس نے حجا زیوں سے دشت عرب چھڑایا

میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے

 اقبال کو جب یورپ جانے کا مو قع ملا تو وہاں بھی وطن پرستی کے گیت گنگناتے رہے۔1905ء سے لے کر1908ء تک کا زمانہ قیام یو رپ کا زمانہ ہے،جہاں اقبال کی شاعری ہمیں ایک نئے رنگ میں نظر آتی ہے۔ اس پر فارسی کا غلبہ زیادہ ہے مگر خیال خاصا مو ثر اور تحریر پرکشش اور خوش رنگ ہے۔وہاں ٹیگور کے فلسفیانہ خیالات نے اقبال کو فکری اور نظری اصولوں کو سائنٹفک طرز عطا کیا اور انہوں نے اے بی برائون کے ساتھ ڈاکٹر نکلسن سے بھی استفادہ کیا۔ اسی سر زمین نے علامہ اشعار میں فلسفیا نہ فکر پیدا کی۔

 وہ ایک جگہ لکھتے ہیں  ؎

وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے

 ہزار سجدوں سے دیتا ہے آ دمی کو نجات

  جہاں یورپ کے طور طریقوں، رہن سہن اور فکر و خیال کو متاثر کیا وہیں ان کی باریک بینی سے وہاں کی خامیاں اور کھوکھلا پن بھی پو شیدہ نہیں رہ پایا جنہیں دیکھ کر مسلمان اقبال کے اندر ایک پکا مسلمان بیدار ہوا اور وہ دل سے اسلامی تعلیم اور اصولوں کے قائل ہو گئے۔ ان کے دل میں اسلام کے متعلق احترام و عقیدت کا جذبہ پرورش پانے لگا جس کی حیثیت جان کر علامہ نے اہل یو رپ کے متعلق کہا کہ  ؎

دیار مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے

کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زر کم عیار ہو گا

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی

جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا نا پائیدار ہو گا

 اور1908ء ہندوستان واپس آنے کے بعد ان کا فن اور بھی پختہ ہو گیا، جس میں اسلامیت کا عنصر پہلے سے بھی زیادہ نمایاں ہے۔’’ شمع و شاعر‘‘ جیسی اعلیٰ پایہ کی نظم اسی دور کی دین ہے جو مجمو عہ’’ بانگ درا‘‘ میں دل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ’’ فاطمہ‘‘ ،’’ شکوہ جواب شکوہ‘‘،’’خضر راہ‘‘،’’ طلوع اسلام‘‘،’’ ملی ترانہ‘‘،’’ہسپانیہ طارق کی دعا‘‘ اور’’ مسجد قرطبہ‘‘ جیسی شاہکار نظمیں لکھیں۔

 اقبال نے اپنی نظم’’مسجد قرطبہ‘‘ اسی مسجد کے صحن میں بیٹھ کر تحریر کی۔ اقبال نے اندلس میں بہت کچھ دیکھا۔ وہاں کے کھنڈر اور بو سیدہ محلات شاہی کو دیکھ کر اقبال نے جذباتی انداز میں اس نظم کو لکھا۔ وہاں کی تاریخ نے انہیں ایک داستان سنائی تھی جس کو علامہ نے اپنے فن و قلم سے کچھ اس طرح سے قید کر لیا تھا۔ نظم کے شروع میں وہ لکھتے ہیں ؎

سلسلۂ روز و شب نقش گر حادثات

سلسلۂ روز و شب اصل حیات و ممات

سلسلۂ روز و شب تارِ حریر دو رنگ

جس سے بنا تی ہے ذا ت اپنی قیائے صفیات

 نظم’’ ساقی نامہ‘‘ بھی اقبال کی بہترین نظموں میں شمار کی جاتی ہے۔ حسن جعفری نے اس نظم کو مجمو عے ’’بال جبرئیل‘‘ میں جسم میں روح کی مانند اہمیت دی ہے۔ سا قی نامہ کا پہلا بند ملا حظہ فر مائیں  ؎

ہوا خیمہ زن کاروان بہار

ارم بن گیا دامن کو ہسار

گل و نرگس وسوس و نسترن

شہید ازل لالہ خونیں کفن

فضا نیلی نیلی ہوا میں سرور

ٹھہرتے نہیں آشیاں میں طیور

وہ جوئے کہستاں اچٹتی ہوئی

اٹکتی لچکتی سرکتی ہوئی

  در اصل اقبال مے خانہ، پیمانہ، مینا وغیرہ کے استعمارے میں انسان کو خودی کی شراب پلانا چاہتے ہیں جس سے اس کے جسم میں نئی جان اور توا نائی پیدا ہوجائے۔ وہ انسانی ذات ہیں پوشیدہ ان خفیہ قوتوں کو بیدار کرنا چاہتے ہیں۔ وہ عالم انسان کو زندگی کا پیغام دیتے ہوئے کہتے ہیں ؎

ذرا دیکھ اے ساقی لالہ فام

سناتی ہے یہ زندگی کا پیغام

پلادے مجھے وہ مے پردہ سوز

کہ آتی نہیں فصل گل روز روز

اٹھا ساقیا پردہ اس راز سے

لڑادے ممولے کو شہباز سے

 در حقیقت اقبال اپنی شاعری کے ذریعے پو رے عالم انسان پر خودی کے اسرارو رموز اور بے خودی کے اسرار کا بھید کھولنا چا ہتے ہیں۔ اقبال کو اس بات کا مکمل یقین تھا کہ ہر انسان میں صلا حتیں پو شیدہ ضرور ہوتی ہیں۔ اس لیے خود انسان کا فرض ہے کہ وہ اپنی ذات میں موجود ان خفیہ صلا حیتوں کو پہچاننے اور انہیں کام میں لائے۔ یہ عمل خود شناسی یا عر فان ذات کہلا تا ہے، اس کے بعد خودی کو مستحکم بنانا چاہئے، انہیں نکھارنا اور سنوارنا چاہئے جس کے لیے وہ حرکت و عمل کو ضروری سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں  ؎

گردش سے ہے زندگی جہاں کی

یہ رسم قدیم ہے یہاں کی

 ہم دیکھتے ہیں کہ اقبال کی پو ری اردو شاعری انہیں اپنے فن کا ایک بڑا مصور بنا دیتی ہے۔ ان کی کلیات کو ایک شاندار آرٹ گیلری کہا جائے تو غلط نہ ہو گا جس میں انہوں نے اپنے ہنر قلم اور جذبات شدت سے اپنے کلام میں مختلف قسم کی تصا ویر اجاگر کی ہیں جن کے ذریعے اپنی سو ئی ہوئی قوم کو بیدار کیا۔ ان کے مردہ جسم میں جان ڈالی اور ان میں جدو جہد کا جذبہ بیدار کیا اور21؍ اپریل1938ء کو اپنی ذخیرۂ شاعری کو اپنی قوم کے لیے چھوڑ کر یہ رہبر قوم ہمیشہ کے لیے مالک حقیقی سے جا ملا۔

 یوں تو اقبال کی شہرت اور مقبو لیت اردو اور فارسی زبانوں میں بہت زیادہ ہے مگر اقبال نے جو منفرد رنگ اور لب و لہجہ اردو زبان کو بخشا وہ ہما رے ادب کے لیے مثا لی ہے۔

٭٭٭

Iqbal aur unki shayeri by: Pushpendra Kumar Nim

Leave a Reply

2 Comments on "اقبال اور ان کی شاعری"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
Syed Kamal
Guest
There is no doubt in Iqbal’s greatness as an Urdu poet of British India. He was also a devout Indian Muslim who did his best to inspire Muslims of India. According to his own son’s statements Iqbal wasn’t for creation of Pakistan. The two nation theory is often erroneously attributed to him. He was prolific, his poetry is diverse, he studied and taught philosophy. Pakistanis and others exalt him to heights he neither aspired nor deserves. Titles such as “Shair eMashriq” (considering how large and diverse linguistically East is), “Hakeem ul Ummet” (Ummet or Umma is a Islamic religious concept… Read more »
Syed Kamal
Guest
اردو تحقیقی رسالہ اس جرنل کا بہتر عنوان ہوتا۔
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.