بلونت سنگھ کے افسانوں میں محبت اور انسان دوستی

 عامر نظیر ڈار

ریسرچ اسکالر ،شعبہء اردو دہلی یونیورسٹی،دہلی

 E.mail.amirharnag@gmail.com

 انسان دوستی ،محبت اور امن کا پیغام جیسے موضوعات بعض تخلیق کار کے یہاں کم ہی دیکھنے کو ملیں گے۔ یہ ایسے موضوعات ہیں جن پر بہت کم ادیب اپنے قلم کو روانی دے پاتے ہیں،چونکہ ادیب آزاد ہوتا ہے اور وہ اپنے مزاج کے مطابق اپنے افسانوں کے موضوعات منتخب کر تا ہے۔ اس بات میں شک نہیں کہ فنکار اپنی تخلیقات میں وہی پیش کرتا ہے جو اس کواپنے آس پاس نظرآتا ہے۔اسی لئے کہا جاتا ہے ’کہ ادب سماج کا آئینہ ہے‘۔ اردو ادب میں پہلے داستانیں لکھیں جاتیں تھیں۔ ان میں پیار ،محبت ،عشق ،ہمدردی اوربھائی چارہ جیسی مثالیں دیکھنے کومل جاتی تھیںلیکن ان کا حقیقت سے کوئی رشتہ نہیں ہوتا تھا۔ جیسے جیسے زمانہ بدلتا گیا،ادب نے بھی کروٹیں بدلنی شروع کیں۔داستانوں کے بعد ناول اور ناول کے بعد صنف افسانہ وجود میں آیا۔اس تبدیلی کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اب لوگوں کے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ ان کو سنے یا پڑھیں۔ اب لوگ دیو ،جن،پری،بھوت وغیرہ کی کہانیاں سننا یاسناناپسند نہیں کرتے ہے بلکہ وہ حقیقت کی تلاش میں ہوتے ہیں اور اسی ادب کو زیادہ پسند کرتے ہیں جو حقیقت سے زیادہ قریب ہو۔ناول میں بھی حقیقت نگاری ہوتی ہے لیکن جیسی حقیقت نگاری عوام کو چاہیے۔ اس طرح کی حقیقت نگاری صنف افسانہ میں وجود میں آئی۔اب تک کی تحقیق کے مطابق اردو میں پہلا افسانہ نگار پریم چند کو مانا جاتا ہے۔ یہ نہ صرف اردو افسانے کے موجد ہیں بلکہ ان کو اردوادب میں حقیقت نگاری کا بھی موجد قرار دیا جاتا ہے۔کیونکہ اردو میں حقیقت نگاری کا تصور واضح طور پر ان ہی کے عہد میں سامنے آیا۔انہوں نے اپنے افسانوںمیں انسانی زندگی کی سچی کہانی اور اس کے مسائل کو موضوع بنا کر اردو افسانے کی بنیاد حقیقت نگاری پر رکھی۔

  پریم چند نے سب سے پہلے حب الوطنی پر افسانے لکھے۔اور پہلے افسانوی مجموعے’’ سوز وطن‘‘ میں ان کو شائع کیا۔ جس پر اس وقت کی انگریز حکومت نے پابندی بھی عائد کی تھی۔ اس مجموعے کے افسانوں میں اگر چہ دیگر صفات  تھی لیکن باوجود اس کے، ان میں حب الوطنی کے جذبات اور قومی ہمدردی کے نمونے بھی تھے۔انہوں نے سوزوطن کے بعد اپنے افسانوں کا موضوع دیہات کو منتخب کیا اور مجبور کسان وکاشتکارکی بدحالی پر بے شمار افسانے لکھے ہیں۔جس میں  ان کے اوپر کئے جانے والے مظالم کو عیاں کرنے کی کوشش کی ، ساتھ ہی ساتھ ان میں پیار،محبت ،عشق،ہمدردی اور انسان دوستی کے جذبات کو ابھارنے کی کوشش بھی کی۔اس ضمن میں ان کا سب سے مشہور افسانہ ’’کفن‘‘ قابل تعریف ہیں۔ جس میں انہوں ایک ایسے پسماندہ طبقے کی کہانی بیان کی ہے ، کہ قاری پڑھ کر ان کے کرداروں سے نفرت نہیں بلکہ ہمدردی کرنے لگتا ہے اور اپنے سماج کی اندرونی حالت سے واقف ہوجاتا ہے۔پریم چند کے اور بھی کئی افسانے ہیں جن میں قوم کے غریب،مفلس،استحصال زدہ افراد اور پسماندہ طبقے سے ہمدردی اور محبت کرنے کا سبق ملتا ہے۔ ان کے اس طرح کے افسانوں میں، سواسیرگہوں،بوڑھی کاکی،پنچ پرمیشور، نجات ، دوبیل ، پوس کی رات، وغیرہ اہمیت کے حامل ہیں۔ پریم چند کے علاوہ اور جتنے ادیب ہیں۔ جنہوں نے افسانے بھی لکھے ہیں چاہے وہ ان کے ہم عصر ہوں یا ان کے بعد کی نسل کے، جن میں سدرشن ،اعظم کریوی،علی عباس حسینی،اختراورنیوی،کرشن چندر، سعادت حسن منٹو،راجندر سنگھ بیدی، عصمت چغتائی، احمد ندیم قاسمی وغیرہ ہیں۔انھوں نے بھی اپنے کے افسانوں میں انسان دوستی،پیارومحبت ، ہمدردی اور امن کا پیغام دیا ہے۔

 بلونت سنگھ کا شمار بھی اسی گروہ کے افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔انہوں نے ہندی اور اردو، دونوں زبانوں میں افسانے لکھے ہیں۔ان کے اردو افسانوں کی تعداد ۱۳۲ ہے۔انہوں نے مختلف موضوعات پر افسانے تحریر کئے ہیںبلخصوص پنجاب کے دیہات کو اپنے افسانوں میں جگہ دی۔ پنجاب کے دیہات کو کھلی کتاب کی طرح قاری کے سامنے پیش کیا۔ انہوں نے افسانوں میں نہ صرف دیہاتی عوام کے مسائل یا ان کے زندگی جینے کے طریقے کو موضوع بنایابلکہ دوسرے موضوعات کو بھی اپنی کہانیوں میں پیوست کیا۔جس سے ان کی تحریروں میں ہمیں پیارومحبت ،ہمدردی اور انسانیت کی بے پناہ مثالیںدیکھنے کو مل جائیں گئی۔ان کو مصلح قوم تو نہیں کہہ سکتے ہیں لیکن انہوں نے افسانوں کے ذریعہ قوم کے نام اشاروں و کنایوں سے کئی پیغامات چھوڈے ہیں۔

 ۱۹۴۷ء؁ کے پہلے کے آپسی بھائی چارے اور بعد کی خون ریزی کے نمونے ان کے افسانوں میں موجود ہیں۔ ان کا ایک مشہور افسانہ ’’پہلا پتھر‘‘ ہے۔اس میں اگر چہ فساد کو موضوع بنایا گیا ہے لیکن اس افسانے میں افسانہ نگار نے کئی مثالیںمحبت اور انسان دوستی کی پیش کی ہیں جس سے یہ صاف طور پر واضح ہوتا ہے کہ ہندوستانی لوگ بہت ہی معصوم اور نرم دل ہیں اگر ان سے کبھی کوئی غلطی سرزد ہوجاتی ہے لیکن وہ جلدی ہی اپنے آپ کوہوش میں لاتے ہیں اور اپنی غلطیوں کا ازالہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ افسانہ نگار نے اس افسانے میں لالہ دیو کی کہانی پیش کی ہے۔ جو فسادات کے وقت اپنی اور اپنے بچوں کی جان بچانے کے لئے پاکستان سے نکل کر ہندوستان کے مشرقی پنجاب میں ودھاواسنگھ کی حویلی میں پناہ لیتے ہیں۔لالہ دیو کی تین بیٹیاں تھی جو نہ صرف لوگوں کی بری نظروں کی شکار تھیں بلکہ ان کو بہلاپھسلا کر چمن ، جل ککڑے اور کلدیپ جیسے جنس پرست انسانوں نے اپنی ہوس کاشکاربھی بنایا، لالہ دیو کی پہلی بیٹی’’ گھلی‘‘ جس کی شادی مجبوری میں ایک بدصورت انسان کے ساتھ کی گئی اور پھروہ ایسی بیماری میں مبتلاہوگئی جس سے بچنا محال تھا۔ دوسری بیٹی ’’نکی ‘‘ جس نے خود کشی کی اور تیسری ’’سانولی‘‘ نابینا تھی۔ اس کے پیٹ میں کلدیپ کا ناجائز بچہ پل رہا تھا۔ اس طرح یہ پورا گھر برباد ہو گیااور لالہ دیو اپنے گھر کو برباد ہوتے ہوئے دیکھ کر چور چور ہوگیا۔ اب وہ لوگ بھی ان کی اس بربادی پر ترس کر رہے تھے جوان کی بیٹیوں سے اپنی جنسی خواہشات پوری کرنے کی کوشش میں تھے لیکن اچانک ان کے دل میں انسانیت جاگ جاتی ہے اوران کو اس گھر کے لوگوں کے ساتھ ہمدردی ہونے لگتی ہے جیسا کہ افسانہ نگار نے دکھانے کی کوشش کی۔افسانے کا یہ اقتباس دیکھئے:

’’ جوں جوں دن گزرتے جارہے تھے۔توں توں سانولی کے رازداں کاریگروں ، خصوصاً باج کی پریشانی میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔وہ نہیں چاہتے تھے کہ سانولی اپنی بہنوں کی طرح برباد ہو……………

بیس دن اور بیت گئے۔

پنجاب برباد ہورہا تھا۔وارث شاہ کا پنجاب ،گندم کے سنہرے خوشوں والا پنجاب، شہد بھرے گیتوں والا پنجاب ، ہیر کا پنجاب ،کونجوں اور رہٹوں والا پنجاب !! اور اس کی ایک بے نور آنکھوں والی حقیر سی بیٹی بھی برباد ہو رہی تھی۔

 ایک رات جب کہ سب کاریگر کھانے دانے سے فارغ ہوکر حسب معمول کارخانے میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے تو قدرتی طور پر سانولی کا ذکر شروع ہو گیا۔ان سب کی دلی تمنا یہی تھی کہ کاش !سانولی کا اپنی بہنوں کا ساحال نہ ہو۔ لیکن وہ اس بات کو بخوبی سمجھتے تھے کہ یہ ناممکن ہے اور یہ سوچنا پرلے درجے کی حماقت ہے۔ْ‘‘

 افسانے کے آخر پر افسانہ نگار نے سانولی کی جو دلدوز کیفیت ظاہر کی ہے،اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یا تو سانولی اپنا دماغی توازن کھو چکی ہے یا کسی نے اس کے ساتھ بے ہودہ مزاق کیا ہے۔ سانولی نے رات کی تاریکی میں باج اور اس کے دوستوں کو چلاتے ہوئے کہا تھا کہ اس کا کلدیپ واپس آگیا ہے حالانکہ ایسا کچھ نہیں تھا۔ وہ خود بھی اس بات سے واقف تھی اسی لئے وہ باج سے پوچھ رہی تھی کہ’’ ایسی خوکھشی کی بات کیسے ہوسکتی ہے۔لیکن چاچاتمہیں میری بات پر اکین ہے نا؟‘‘ سانولی کی ایسی صورت حال کو دیکھ کر باج اور اس کے ساتھیوں کو دکھ ہوا لیکن انہوں نے اس کے سامنے دکھ کا اظہار کرنے کے بجائے اس کی ہمت اور حوصلے کو برقرار رکھنے کے لئے اس کی کہی ہوئی بات کو ہاں میں جواب دیا۔جس سے یہ صاف طور واضح ہوتا ہے کہ ان کے دلوں میں سانولی کے تئیںہمدردی پیدا ہوئی تھی جو کہ افسانے کے اقتباس سے ظاہر ہوتا ہے :

’’باج نے گھوم کر اپنے ساتھیوں کی جانب سوالیہ انداز سے دیکھا سب چپ تھے۔ وہ بھی چپ رہ گیا۔

سب کو خاموش پاکر سانولی نے اپنا سوال دہرایا۔’’آپ سب کو اکین نہیں آتا؟‘‘

باج کی آنکھوں کے گوشے پر آب ہوگئے۔اس نے ہاتھ بڑھا کر سانولی کے سر پر رکھ دیا اور پھر دھیمی آواز میں بولا:

’’ہمیں اکین ہے اور دیکھو تمھیں بے بخت گھر سے باہر نہیں رکنا چاہئے اور پھر سردی پڑنے لگی ہے۔کہیں تم بیمار نہ ہو جائو۔‘‘

 فسادات پر مبنی ایک اور افسانہ ’’کالے کوس ‘‘میں بھی اس طرح کی مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔اس افسانے کی کہانی اس وقت کی ہے جب ہندوستان دو حصوں میں بٹ گیا تھا۔یہ بٹوارہ نہ صرف دو ملکوں کے بیچ ہوا بلکہ اس نے لوگوں کے دلوں کا بھی بٹوارہ کر دیا۔چاروں طرف خون خرابہ ہوا،ہزاروں کی تعداد میں عورتوں کی عصمتیں لوٹی گئیں، اس زد میں نہ صرف مسلمان عورتیں آئیںبلکہ ہندو اور سکھ عورتیں بھی اس وحشی پن کی شکار ہوئی۔ اس ماحول میں بھی افسانہ نگار نے افسانوں کے ذریعہ ایسے کرداروں کو سامنے لایا جن میں انسانیت اب بھی موجود تھی ، جو فرقوں کی بنیاد پر اپنی رائے کا اظہار نہیں کرتے تھے بلکہ وہ ہر ایک کو انسان کے روپ میں دیکھتے تھے چاہے وہ مسلم ہویا ہندو۔اس افسانے میں گاما اور پھلور سنگھ کو مرکز ی کرداربنا کر پیش کیا گیا ہے۔گاما ایک مسلمان نو جوان تھاوہ اگر چہ تندرست اور صحت مند بھی تھا لیکن فسادات برپا ہونے کے بعد اس کو بھی ڈر محسوس ہونے لگا۔ لہذا اس نے اپنی ماں، بیوی اور بہن کے ساتھ پاکستان جانے کا ارادہ کیا ہے۔پھلور غیر مسلم تھا۔ گاما اس کے بچپن کا دوست تھا ، جب گاما فسادیوں سے اپنے گھروالوں کو بچا کر پاکستان جانے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس وقت پھلورسنگھ نے اپنے آپ کو خطرے میں ڈال کر ان کو سلامتی سے سرحد پار کرنے میںکافی مدد کی۔اس طرح سے پھلور سنگھ نے نہ صرف بچپن کی دوستی نبھائی بلکہ انسانیت کا بھی فرض نبھایا۔  ساتھ ہی ساتھ انسان دوستی کی ایک بہترین مثال قائم کی۔مثال کے لئے افسانے کے یہ اقتباسات ملاحظہ ہو:

’’گامے نے مسکرا کر کہا۔’’ہم سلامت ہیں‘‘

’’لیکن تم لوگ تنہا کیوں چلے آئے تھے۔میرا انتظار کیوں نہیں کیا تم نے………‘‘

گامے نے سارا قصہ کہہ دیا۔

اس پر پھلورے نے غل مچا کر کہا۔’’یہ تو تمہیں  گھر سے نکالنے والے کی انتہائی حماقت تھی اور تمہاری بھی بے وقوفی تھی۔افوہ!وہاں پہنچ کر میں بہت پریشان تھا۔یہ درست تھا کہ خطرہ پیدا ہو چلا تھا ،لیکن تمہیں بآسانی چھپایا جاسکتا تھا۔اس دن سے تمہاری تلاش میں مارا مارا پھر رہا ہوں۔یہی فکر تھی کہ کہیں فسادیوں کے ہتھے نہ چڑھ جائیں۔‘‘

’’واہ جی واہ۔‘‘پھلورے نے شور مچاکر کہا۔’’بھلا  تمہارے دل میں اس قسم کے خیالات پیدا ہی کیوں ہوئے۔دیکھونا !تمہارے پیروں کے نشانات دیکھ کر یہاں تک آن پہنچا ہوں۔‘‘

 ’’ عمر رسیدہ ماں نے پھلورے کی طرف دیکھا اور پھر پس منظر میں چھٹکے ہوئے ستاروں پر نظر دوڑا کر دل میں کہنے لگی۔میں پانچوں وقت نماز کے بعد اللہ سے اس شخص کے حق میں دعا مانگا کروں گی۔‘‘

 ’’پھلورے کے پر خشونت چہرے پر بھدی سی مسکراہٹ پیدا ہوئی  ………. جیسے وہ کہہ رہا ہو۔گامے !تم سرزمین پاکستان سے مجھے  ملنے کے لئے واپس آئے ہو۔‘‘

 اس افسانے میں افسانہ نگار نے گاما اور پھلورے کی دوستی سے نہ صرف لفظ ’’دوستی ‘‘کے معنی ومطلب سے واقف کرایا بلکہ پھلور سنگھ جیسے ہمدرد کردار سے سماج کے ان بد اعمال لوگوں کے ذہنوں کو بیدار کرنے کی کوشش کی جو مذہب یا فرقے کی بنیاد پر معصوم عوام کو ایک دوسرے سے الگ کرنے کی سازش کرتے ہیں۔

  بلونت سنگھ نے ایک اور افسانہ’’تعمیر‘‘ میں بھی انسانیت کی ایک ایسی تصویر دکھائی ہے جو بہت کم افسانوں میں دیکھنے کو ملتی ہیں۔اس افسانے میں ایک ایسی لڑکی اور لڑکے کی کہانی کو بیان کیا گیا ہے جس میں ایک جسم کی پیاس بجھانے  اور دوسری اپنی لاچاری ،بے بسی کی وجہ سے خلوت خانہ میں ایک دوسرے کی عزت کا سودا کر رہے تھے،سودا بتیس روپیوں پر طے ہوتا ہے۔یہ دونوں مہاجر تھے ان کا سابقہ ملک کی تقسیم سے پڑا تھا۔اس وقت ملک میں کس طرح کے حالات رونما ہوئے ان کا میں پہلے ہی اظہار کر چکا ہوں۔لڑکی فسادیوں کی ہوس کا شکار ہوچکی تھی اور اس کے گھر والوں کو قتل کیا جاچکا تھا، یہ شادی شدہ تھی مگر اب حالات کے ہاتھوں مجبور ہوکر دھندے والی بن چکی تھی اور یہ لڑکا بھی شادی شدہ تھا اسکے دو بچے تھے لیکن اب بیوی تھی اور نہ بچے۔ان دونوں کی خصائل شریفانہ تھی ،یہ جو کچھ کررہے تھے یا کرنے جارہے تھے اس میں ان دونوں کو کوئی مزہ نہیں آتا تھا بلکہ حالات ان کو ایسا کرنے کے لئے مجبور کر رہے تھے۔جب لڑکے نے اس خوبصورت لڑکی سے ان کا حال جان لیا تو اس کے دل کے اندر اس کے تئیں نہ صرف ہمدردی کے جذبات پیدا ہوئے بلکہ اس نے اس کے ساتھ زندگی گزارنے کا فیصلہ کرلیا ،جیسا کہ افسانے کے ان اقتباسات سے معلوم ہوتا ہے:

’’میری اس مانگ میں سندھور پڑچکا ہے ایک مرتبہ۔‘‘

’’شاید پھر پڑے۔‘‘مرد نے غیر جذباتی آواز میں جواب دیا۔‘‘

اس بات کا لڑکی کے دل پر اور بھی خوشگوار اثر ہوا۔اس کے چہرے سے خشونت کے آثار زائل ہونے لگے۔‘‘

’’میں آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ میرے بدن کا یہ حصہ بالکل کنوارا ہے بے عیب اور پاک ہے…….‘‘

 آواز آئی۔’’شاید اب تمہارے بدن کے کسی بھی حصے کو کوئی اور مرد نہیں چھو سکے گا اب کے مرد کے آواز میں جذبات کی ہلکی سی لرزش موجود تھی۔‘‘

 اس افسانے میں ۱۹۴۷؁ء کی زد میں آئی عورتوں کے تئیں ہمدردی اور انسانیت کا پیغام ملتا ہے۔

 اسی طرح کا ایک اورافسانہ ’’حد فاضل‘‘ عشقیہ ہونے کے ساتھ ساتھ فساد کے موضوع سے متعلق بھی ہے۔  اس افسانے میں ایک تو رضیہ اور حیدر کی عشقیہ کہانی ہے وہی اس افسانے میں اس منظر کو عیاں کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ کس طرح ۱۹۴۷ء ؁میں مسلمان قوم اپنا ایک الگ ملک یعنی پاکستان بنانے کے خواہش مند تھی اور اس کے لئے ان کو بے شمار قمیتی جانوں کی قربانی بھی دینی پڑی۔ اس افسانے میں ایک ایسے گائوں کی تصویر پیش کی گئی ہے جہاں ہندو ،مسلم اور سکھ ایک خاندان کی طرح رہتے تھے جو نہ کبھی ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے تھے، اور نہ ہی کسی کے خلاف کوئی سازش رچاتے تھے بلکہ ذات پات اور مذہب کے معاملے میں بھی یہاں کے لوگ پاک تھے۔ملک کے ٹکڑے ہونے سے پہلے یہاں کے ہندو اور مسلمان کس طرح ایک دوسرے کے ساتھ بنا کسی تفریق کے اٹھتے بیٹھتے اور کھاتے پیتے تھے اور کس طرح ایک دوسرے سے پیار ومحبت سے پیش آتے تھے۔اس تصویر کو افسانہ نگار نے اپنے افسانے میں اس طرح پیش کیا ہے ، اقتباس دیکھئے :

’’ہمارے صحن میں کافی رونق رہتی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں گوشوں پر دو کنویں بنے ہوئے ہیں۔ایک ہندو کا اور ایک مسلمان کا۔یہ تقسیم ایک پڑھے لکھے انسان کو بے ہودہ سے معلوم ہوتی ہے۔لیکن ہمارے یہاں بظاہر ایسی کوئی بات نہیں ہے۔بس اس کی حیثیت ایک رواج کی سی ہے۔بے ضروررواج۔لطف یہ ہے کہ دونوں کنویں ایک مسلمان کے بنوائے ہوئے ہیں۔یعنی میرے والد صاحب کے۔سب انہیں سائیں دے کھوہ،کے نام سے پکارتے ہیں۔سچ پوچھئے تو مسلمانوں کو پانی کے معاملے میں پرہیز نہیں ہے۔جب مسلمان کنویں پر بھیڑ ہوتی ہے تو مسلمان ہندو کنویں کا پانی بخوشی قبول کر لیتے ہیں۔گو وہ کنویں پر نہیں چڑھتے کوئی ہندو ہی پانی ڈال دیتا ہے۔مسلمان ہندو کی پانی والی ضد سے پیار سے صادکر دیتے ہیں۔سکھ بھی ہندو کنویں کا پانی پیتے ہیں‘۔ _

’’میں آواز سن کر ہی بتا سکتا ہوں کہ کون بول یا بول رہی ہے۔ان کی کار آمد اور بے کار باتیں ،ان کے پیار اور لڑائیاں ،ان کے دکھ اور سکھ سبھی سے میں واقف ہوں۔نہ جانے کیسے اور کیوں ؟کبھی کبھی تو یوں معلوم ہوتا ہے جیسے وہ سب میرا ہی خاندان ہے۔ہندو ،سکھ اور مسلمان۔عورتیں مرد ،بچے بچیاں۔ان کے دکھوں اور سکھوں سبھی میں میرا سا جھا ہے ‘‘

 بلونت سنگھ اس افسانے میں اس بات کو سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ہم سب ایک ساتھ کیوں نہیں رہ سکتے ہیں جبکہ ہم سب ایک ہی نظام کے پابند ہیں ،ایک ہی ہمارا مالک ہے مگر لوگ اس کو الگ الگ ناموں سے یاد کرتے ہیںکوئی اللہ کہتا ہے، کوئی بھگوان اور کوئی واہے گورو،اسی طرح کوئی گاڈ اور کوئی کچھ اور کہتا ہے۔یہ افسانہ اصل میں انسانیت کا درس دیتا ہے۔ اسی لئے اس افسانے میں مسلم اور ہندو کے درمیان محبت اور انسان دوستی کی کئی مثالیں مل جاتی ہیں۔جن سے اس بات کا ندازہ ہوجاتا ہے کہ جس وقت ملک کو تقسیم کرنے میں کچھ لوگ کمربستہ تھے اس وقت اس زمین پر کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو اس تقسیم کوبے ہودہ سمجھتے تھے۔وہ ہمیشہ یہ سوچتے رہتے تھے کہ اگر ہم آج تک ایک دوسرے کے ساتھ بھائی بھائی کی طرح رہ رہے تھے تو یہ اچانک تقسیم کیوں۔انہوں نے لاکھوں کوششیں کی کہ کسی طرح اس ملک کو تقسیم سے بچایا جاسکے لیکن اس وقت حالات اتنے پیچیدہ ہوچکے تھے کہ لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو چکے تھے۔افسانہ نگار ان باتوں کا ذکر خود کرنے کے بجائے رضیہ جیسی بھولی بھالی لڑکی کے قلم سے کرواتے ہیں۔رضیہ جو رقعہ شمن کے ہاتھوں حیدر کو بھیجوادیتی ہیں اس میں انہوں نے صاف صاف لکھا تھا :

’’یہ جھگڑے وگڑے جو پنجاب میں چل رہے ہیں مجھے ان سے کچھ دلچسپی نہیں ہے۔ میں کم عقل ہوں غالبًا ان معاملات کی تہہ کو نہیں پہنچ سکتی۔لیکن مجھے ہندو سکھوں سے قطعًا کوئی نفرت نہیں ہے۔وہ بھی تو اللہ کے بندے ہیں۔انہیں بھی اللہ نے پیدا کیا ہے۔وہ بھی ہماری طرح انسان ہیں۔ہوسکتا ہے میں بڑی ناسمجھی کی بات کہہ رہی ہو لیکن میری عقل میں یہ بات نہیں آتی کہ آخر سب لوگ چاہتے کیا ہیںمجھ سے کوئی پوچھے تو میں کہوں گی کہ میں آپ کو چاہتی ہوں۔میں چاہتی ہوں ہم دونوں کا ایک گھر ہو۔ہمارے اڑوس پروس بے شک ہندو بھی رہیں یاکوئی اور بھی رہے۔ہم اپنے طریقے سے رہیں وہ اپنے طریقے سے رہیں۔ہم ایک دوسرے سے محبت کریں۔ایک دوسرے سے ہمدردی رکھیں۔‘‘

 بلونت سنگھ کے افسانہ ’’بازگشت‘‘ میں بھی ایک مثال انسان دوستی اور ہمدردی کی مل جاتی ہے۔ جب ایک مسلمان منیر احمدجس کی شادی کو صرف آٹھ مہینے ہوئے تھے ، کو ایک دن اچانک ہندوستان سے باہر جانا پڑا۔اس دوران اس نے اپنی ایک ٹانگ کھو دی۔وہ پیشے سے ڈاکٹر تھا۔  جب وہ جنگ ختم ہونے کے کچھ دیر بعدوطن واپس لوٹتا ہے تو اس کے ارد گرد اپنے علاقے کے لوگ بنا کسی تفریق جمع ہو گئے۔جس سے کم از کم اس بات کا علم تو ہو ہی جاتا ہے کہ یہاں کے عوام میں ابھی بھی انسانیت اور پیار ومحبت باقی ہے۔افسانے کا یہ اقتباس دیکھئے:

’’آخر تانگہ اس کے چھوٹے سے گائوں تک جا ہی پہنچا۔اس نے تانگہ والے کو پیسے دئیے اورگائوں کے باہر موچیوں کے لڑکے اس کے گرد جمع ہوگئے۔چند بڑے بوڑھے بھی ٹھنک کر اس کی طرف دیکھنے لگے۔چماروں کے لڑکوں میں سے ایک نے اس کا سامان اٹھایا اور وہ اپنے گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔قاہرہ کے عظیم الشان اور بارونق قہوہ کے بعد اب یہ تنگ گلیاں کچھ عجیب سے معلوم ہو رہی تھیں۔‘‘

 ادب میں آج تک جو کچھ بھی لکھا جاچکا ہے یا لکھاجا رہاہے وہ کسی مقصد یا پیغام کے تحت لکھا جاتا ہے۔ جس سے قلم کار سماج کو آگاہ کرنا چاہتے ہیں یا اس کے بارے میںبا خبر کرتے ہیں۔اسی طرح صنف افسانہ میں بھی ابتدا سے اکیسویں صدی کی دوسری دہائی تک جتنے افسانے ضبظ تحریر میں لائے گئے ہیں۔ان کا سماج کے ساتھ ایک مضبوط رشتہ ہے ،وہ ہر زاویے سے سماج کی عکاسی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اسی طرح جب ہم بلونت سنگھ کے افسانوں مطالعہ کرتے ہیں تو ان کے افسانوں میں ایسا کوئی افسانہ نظر نہیں آیا ہے ، جس میں عوام کو کوئی پیغام نہ دیا گیا ہو۔میں اپنے مضمون کوڈاکٹر احمد طارق،بریلی کی اس بات پر مکمل کرتا ہوں جو انہوں نے بلونت سنگھ کے حوالے سے لکھی ہے:

’’بلونت سنگھ کا حقیقت نگار قلم غریبوں کے اندھیرے جھونپڑوں کی بد صورتی اور ان کی زندگی کی محرومی کو بھی حقیقت نگاری کے ساتھ پیش کرنے پر قادر ہے۔ان کی کہانیاں انجام پر قاری کو ایک راحت کے احساس سے ہم کنار کرتی ہیں۔ ان کہانیوں میں انسان دوستی اور انسانی ہمدردی کی لہر ہر جگہ موجود ہے۔‘‘

(ترقی پسند ادب کے معمار،جلداول ، پروفیسر قمر رئیس ،ص۱۷۰،۲۰۰۶ء)

٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.