آزادی کے بعد بنگال میں خواتین افسانہ نگار وں کے یہاںمختلف مسائل کی عکاسی
ریشماں خاتون
گیسٹ لیکچرار،شعبہ اردو، رانی گنج گرلس کالج،مغربی بنگال،انڈیا
Mob-9332122٭٭٭
مغربی بنگال میں بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں اردو افسانے کو فروغ حاصل ہوا۔ل۔احمد اکبر آبادی نے بنگال میں اردو افسانے کو استحکام بخشا۔اس دور میں خواتین نے بھی مرد کے شانہ بشانہ اردو افسانوں کو اپنا خون جگر دے کر سینچا۔راحت آرا بیگم،شائستہ اخترسہروردی،صالحہ بیگم مخفی اور صغریٰ سبز واری نے آزادی سے قبل اردو افسانہ نگاری میں اپنی شناخت قائم کی۔ان خواتین نے اپنے عہد کے سماجی،سیاسی اور گھریلو مسائل کا بغور مشاہدہ کیا،معاشرے کی برائیوں اور ظلم و ناانصافی کے خلاف احتجاج کی آواز بلند کی۔اس کے لئے انہوں نے اپنے افسانوں کو وسیلہ بنایا۔
اس دور میں تعلیمی ترقی بنگال میں کم تھی۔بد عقیدگی،دقیانوسی رسم و رواج،کم عمری کی شادی،بیروزگاری وغیرہ جیسی برائیاں بنگال میںعام تھیں۔لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم کا کوئی خاص انتظام نہیں تھا اس لئے اعلیٰ خاندان کی لڑکیاں ہی اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکتی تھیں۔ شراب نوشی،جوا اوردیگر برائیاں مردوںمیں عام تھیں۔چھوا چھوت کا رواج عام تھا۔سماج میں اونچے طبقے کے افراد نچلے طبقے کے افراد سے امتیازی سلوک کرتے تھے۔ان سے سماجی تعلقات،شادی بیاہ جیسے معاملات نہیں رکھتے تھے۔گائوں سے شہر میں روزگار کی تلاش میں آنے اور سکونت اختیار کرنے والوں کی بھی ایک بڑی آبادی تھی اور ان کے اپنے مسائل بھی تھے۔
جہیزکا مسئلہ ہندو اور مسلم دونوں معاشرے میں سنگین صورت میں موجود تھا۔جہیز کے لئے شادیاں ٹوٹ جاتی تھیں اور آخر جہیز کے لئے بہوئوں کو ماردیا جاتا تھا۔جو زندہ رہ جاتی تھیں زندگی بھر سسرال میں طعنے سنتی تھیں۔بیٹیوں کو بھی معاشرے میں عموماً بوجھ سمجھا جاتا تھااور بیٹی پیدا ہونے پر بہو کو منحوس قرار دیا جاتا تھا۔اسے گھر سے نکال دیا جاتا تھا۔بیٹیوں کو پیدا ہونے سے پہلے ہی مار دیا جاتا تھا۔بلکہ بیٹیوں کو پیدائش کے بعد بھی مار دیا جاتا تھا۔
فرقہ ورانہ فساد ات بھی ملک کے دوسرے علاقوں کی طرح بنگال میں بھی ہوتے رہتے تھے۔کلکتہ میں ۱۹۲۶ء اور ۱۹۴۶ء میں بھیانک ہندو مسلم فسادات ہوئے جن میں دونوں فرقوں کے ہزاروں افراد مارے گئے۔علاوہ ازیں چوری،ڈکیتی اور رہزنی بھی یہاںکے مسائل میں شامل ہیں۔
آزادی کے بعد ہندوستان میں تعلیمی اور صنعتی ترقی تیز تر ہوئی تو بنگال نے بھی تعلیمی اور صنعتی میدان میں دوسرے ریاستوں کی بہ نسبت زیادہ تیز رفتاری سے پیش رفت کی۔ریل لائن مہاراسٹر کے بعد بنگال ہی میں بچھائی گئی اور کوئلے کی صنعت کے قیام سے بنگال میں صنعتیں بھی قائم ہوئیں۔صنعتوں کے قیام کے بعد بہار اور دیگر ریاستوں کے مزد ور اس ریاست میں روزی کی تلاش میں آئے اور بس گئے۔اس طبقے نے اس ریاست کو تہذیبی،سماجی،علمی،اور ثقافتی اعتبار سے مالا مال کیا مگر اس کے ساتھ آبادی کے اضافے میں شدت آئی اور اس سے دیگر مسائل بھی پیدا ہوئے۔شہروں میں رہائش،پینے کے پانی،دیگر شہری سہولیت وغیرہ کا مسئلہ پیدا ہوا۔شہری زندگی پیچیدہ ہوتی گئی جس سے تہذیبی،سماجی اور اخلاقی اقدار میں زوال آنے لگا۔انسان مادیت پرست ہوتا گیااور دولت کی ہوس نے رشتوںکومتاثر کیا۔جنگ،فسادات،سیلاب جیسے آفات اور دیگر مسائل بھی بنگال کو متاثر کرتے رہے۔
ان تمام سماجی تبدیلیوں اور ان سے پیدا ہونے والے مسائل کا خواتین افسانہ نگاروں نے بغور مطالعہ ومشاہدہ کیااور اپنے
افسانوں میں پیش کیا۔ان افسانوں کا مقصد سماجی اصلاح اور بیداری تھا۔تیس کی دہائی میں ترقی پسند تحریک نے ان افسانہ نگاروں کو بھی متاثر کیااور صنعتی مسائل اور موضوعات بھی ان کے افسانوں میں نمایاں طور پر پیش ہونے لگے۔
بنگال کی خواتین افسانہ نگاروں نے سماجی مسائل کا بیان مختلف رنگ اور زاویوں سے کیاہے۔بھوک افلاس،جنگ کی تباہ کاریاں ،بدعنوانی،جہیز کی لعنت وغیرہ جیسے سماجی مسائل خواتین افسانہ نگاروں کے افسانوں میں نمایاں طور پر پیش ہوئے ہیں۔ان مسائل و موضوعات کے علاوہ عورتوں کی نفسیاتی کشمکش،عدم تحفظ کا احساس اور رشتوں کی ناپائیداری سے پیدا شدہ مسائل اور المیوں کا بیان بھی انکے افسانوں میں ملتا ہے ان کے افسانوں میں حقیقت نگاری کا عنصرزیادہ نمایاں ہے۔وہ اپنے گرد و پیش کے واقعات و مسائل کا باریکی اور سنجید گی سے مشاہدہ کرتی ہیں اور ذات اور معاشرے پر انکے اثرات و مضرات کو اپنے زاویہء نظر سے قاری کے سامنے پیش کر تی ہیں۔سماج میں خواتین کی ذمہ داریاں مردوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوتی ہیں۔انہیں داخلی اور خارجی محاذوں پر اپنے کنبے اور سماج کے درمیاں توازن قائم رکھتے ہوئے زندگی گزارنا ہوتا ہے۔وہ بیٹی،بہن،بیوی،بہو،ماں ،ساس اور دادی و نانی ہونے کے علاوہ خارجی سماج میں ٹیچر،افسر،گھریلو خادمہ،سیاسی لیڈر وغیرہ جیسے مختلف کردار ادا کر تی ہیں اور گھر اور سماج کی توقعات پر پورا اترنے کے لئے اپنا خون پسینہ ایک کر دیتی ہیں۔پھر بھی بسا اوقات اسے مایوسی ،ظلم وستم،محرومی اور ذلّت کے سواکچھ ہاتھ نہیں آتا۔
خواتین افسانہ نگار انہیں کرداروں اور سماج میں ان پر گزرنے والے واقعات و سانحات کی گواہ ہوتی ہیں اس لئے ان کے افسانوں میںعورت کا کرب اوراس کی نفسیات زیادہ واضح کو کر سامنے آتی ہے۔نیز انکے افسانوں میں عورتوں کے مسائل اور موضوعات مرکزی اہمیت کے حامل ہیں۔عورتوں کے موضوعات ومسائل اور ان کے حقوق کا مسئلہ کہیں تانیثیت کی عالمی تحریک کے تحت اٹھایا گیا تو کہیں ذاتی مشاہدے اور تجربات کے زیر اثر۔عورتوں کی افسانہ نگاری میں سماج کے عام مسائل بھی منعکس ہوئے ہیں مگر عورتوں کے مسائل اور انکی پریشانیاں و محرومیاں ان میں زیادہ نمایاں ہیں۔
عورت کی دنیا گھر کی چہار دیواری میں قید ہوتی ہے اور اس چہار دیواری میںہی اس کی امنگیں،تمنائیں اورشخصیت پروان چڑھتی ہیںیا پھر دفن ہو جاتی ہیں۔اس چہار دیواری میں کنبے کے افراد کے درمیان جو رسہ کشی،سازشیں،مفادات و خیالات کا تصادم،محبتیں ،نفرتیں وغیرہ پلتی ہیں وہ بھی خواتین کے افسانوں میں کہیں تفصیل سے تو کہیں اختصار کے ساتھ بیان ہوتی ہیں۔اس طرح عورتوں کے خانگی مسائل بھی خواتین کے افسانوں کا ایک لازمی حصّہ ہیں۔
سماج میں کچھ طبقے ایسے ہیں جو عددی اور معاشی طور پر کمزور ہیں اورا نہیں معاشرے میں طرح طرح کے ظلم و جبر،استحصال ،محرومی اور امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اقلیتی فرقوں کے ساتھ جو امتیازی سلوک اور ظلم و جبر روا رکھا جاتا ہے اور اس امتیاز کے نتیجے میں جو مسائل پیدا ہوتے ہیں ان مسائل کا بیان بھی انکے افسانوں میں ہوتا ہے۔فرقہ ورانہ فسادات ،نوکریوں سے محرومی،علاقائی عصبیت اور مذہب کے نام پردہشت اور تجارت کا بھی نقشہ ان کے افسانوں میں ملتا ہے۔سماج کے نچلے طبقے کو نیچ ،دلت اور آدیواسی کہا جاتا ہے اورانکے ساتھ روا رکھے جانے والے چھوا چھوت اور نسلی امتیاز کا بیان بھی انکے افسانوں میں جا بجا ملتا ہے۔اس طرح خواتین کے افسانوں میں معاشرے کے تئیں اپنے ذمہ داریوں کا احساس جھلکتا ہے۔وہ محض اپنی ذات کے خول میں بند ہو کر نہیں جیتیں بلکہ ایک قلمکار کی حیثیت سے اپنی سماجی ذمہ داریوں سے عہدہ بر آہونے میں کامیاب ہوئی ہیں۔سماجی شعور انکے افسانوں میں کافی بالیدہ ہے اور انکے افسانوں سے انکی سیاسی،معاشی اور نفسیاتی بصیرت کا واضح ثبوت ملتا ہے۔ذیل میںبنگال کی چند خواتین افسانہ نگاروں کے افسانوں میں سماجی ،اقلیتی،خانگی اور مساوات کے مسائل کا تفصیلی تجزیہ پیش کیا جا تا ہے۔
وہ مسئلہ جس نے ہر زمانے میں عورتوں کو پریشان کر کے رکھا ہے جہیز کا مسئلہ ہے۔قدیم ہندوستان میں جہیز ایک سنگین مسئلہ تھا جس کے لئے نئی نویلی دلہنوں کو جلا کر یا کسی اور طریقے سے مار دیا جاتا تھا۔جدید دور میں بھی جہیز کے مسئلے کی سنگینی میں کمی نہیں آئی ہے آج بھی لڑکیاں جہیز کے لئے ہلاک کر دی جاتی ہیں یا پھر جہیز کا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے اپنے ہی گھر میں بوڑھی ہوجاتی ہیں۔کبھی کبھی جہیز کے لئے جہیز کا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے لڑکیوں کے گھر سے بارات واپس چلی جاتی ہے اور نتیجے میں لڑکی ذلّت کے احساس سے خود کشی کر لیتی ہے یا پھر لڑکی کا باپ خود کشی کر لیتا ہے۔اس جہیز نے لاکھوں گھر تباہ کئے ہیں۔مگر پھر بھی اس ترقی یافتہ دور کے انسانوں میں دولت کی ہوس نے جہیز کی رسم کو ختم کرنے کے بجائے اسے پروان چڑھایا ہے۔جہاں مرد افسانہ نگاروں نے اس مسئلے پر بے شمار افسانے لکھے وہیں خواتین افسانہ نگاروں نے بھی جہیز کے مسئلے کو اپنے افسانوں میں پیش کیا ہے۔چونکہ بنگال کے ہندو مسلم دونوں معاشروں میں جہیز کامسئلہ سنگین صورت میں موجود رہا ہے اس لئے یہاں کی افسانہ نگار خواتین اس مسئلے سے آنکھیں نہیں چرا سکیں اور اسے اپنے افسانو ں کا موضوع بنایا۔
ڈاکٹر روحی قاضی ایک ایسے ہی معاشرے کی فرد ہیں جس میں کنواری لڑکیاں جہیز کے نہ ہونے کے غم میں کسی لا علاج مرض میں مبتلا ہو جاتی ہیں یا خود کشی کر لیتی ہیں۔روحی قاضی کا افسانہ ’’ نئی کہانی ‘‘ جہیز کے اسی قاتل روپ کو پیش کرتا ہے۔اس افسانے کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو :
’’ امّی امّی گوری مر گئی۔!‘‘
’’ ہائیں ! گوری مر گئی۔۔! ؟‘‘
’’ بے چاری کنواری مر گئی۔غریب جہیز کی نذر ہوگئی۔اس کی بیوہ ماں کے پاس تھا کیا جو وہ اپنی بیٹی کی شادی میں دیتی۔وہ تو اسے جیسا تیسا کر کے ایک دولہا روپئے اور جہیز کے بدلے خرید دیتی۔چلو اچھاہوا۔ادھار قرضے لیکر اس کی ماں شادی کر تی اور کچھ کم و بیش ہونے پر بعد میں اس کی زندگی بر باد ہوتی،خود کشی یا حادثہ کی نذر وہ تو ہو ہی جاتی۔اور اس کے ایک دو بچے رہ جاتے دوسروں کے رحم و کرم پر۔اس سے تو اچھا ہوا کہ کنواری مر گئی۔یہ تو اس کی ماں کو اطمینان ہو گا کہ مر کر حور بنے گی۔‘‘
سماجی مسائل کو افسانوں میں پیش کرنے میں بنگال کی نوجوان افسانہ نگا ر مسرور تمنا بھی پیچھے نہیں ہیں۔ان کے یہاں بھی جہیز کا مسئلہ اہمیت رکھتا ہے۔وہ عورتوں کی نفسیات اور انکے گہرے مسائل پر ہی زیادہ تر افسانے لکھتی ہیں اس لئے جہیز کو نظر انداز نہیں کر سکتیں۔’’ ایک نیکی ‘‘ جہیز پر مبنی افسانہ ہے جس میں جہیز کے مسئلے کو ہیجڑوں کی نظر سے پیش کیا گیا ہے۔وہ نہ صرف سنگین سماجی مسائل پر نگاہ رکھتی ہیں بلکہ چھوٹے چھوٹے مسائل کو بھی اپنے افسانوں میں پیش کر دیتی ہیں۔غربت،افلاس اور بھوک ہر زمانے میں ہر سماج کا بنیادی مسئلہ رہا ہے ان کے افسانے ’’ بھوک ‘‘ اور ’’ روٹی ‘‘ انہیں مسائل کی ترجمان ہیں۔
ڈاکٹر شاہین سلطانہ جہیز کے مسئلے کو اپنے افسانے ’’ پرورش‘‘ میں ایک نئے زاویئے سے پیش کرتی ہیں۔ان کے نزدیک کچھ لالچی افراد ایسے بھی ہیں جو جہیز کو بزنس کی ہی ایک شکل سمجھتے ہیں۔انکے نزدیک بیٹوں کی شادی آمدنی اور دولت کمانے کا ایک اچھا ذریعہ ہے۔
شاہین سلطانہ نے اپنے افسانوں میں دیگر سماجی مسائل پر بھی روشنی ڈالی ہے۔انہوں نے شہروں میں سرکاری دفاتر میں کام کرنے والے کلرکوں کی ذہنیت اور ان دفتروں کے ماحول پر افسانہ ’’ دفتر ‘‘ لکھ کر ایک کڑوی سچائی کو قارئین کے سامنے پیش کر دیا ہے۔چونکہ شاہین شہروں کے مسائل سے اچھی طرح واقف ہیں اس لئے وہ شہری زندگی کے مختلف گوشوں کو اپنے افسانو ں میں دلچسپ انداز میں پیش کر تی ہیں۔شہروں میں ایک اور سنگین مسئلہ منا سب فلیٹ کی تلاش ہے۔اس موضو ع پر ’’ تلاش آشیانہ ‘‘ ان کا ایک دلچسپ افسانہ ہے۔افسانے کا ابتدائی اقتباس اس مسئلے کی عکاسی کرتا ہے۔
’’ ایک آشیانہ کا مسئلہ ایسا مسئلہ تھا جس کا حل وہ پندرہ بیس سالوں سے تلاش کرتے رہے تھے۔بچے جب چھوٹے تھے اسکول میں تھے تب سے ہی وہ ایک ڈھنگ کے فلیٹ کی تلاش میں تھے۔کتنے اسٹیٹ اجینٹوں کے پاس روپئے خرچ کر کے ریجسٹریشن کرا رکھا تھا۔‘‘
محترمہ پروفیسر(ڈاکٹر )شہناز نبی کو شہر ی زندگی خاص کر بستیوں کے مکینوں کی زندگی کا گہراا دراک ہے۔انہوں نے عام لوگوں کی زندگی خصوصاً بستیوں کے مکینوں کی زندگی کا گہرا مشاہدہ کیاہے اور اس کی ترجمانی افسانہ ’’ کبڑوں کی بستی ‘‘ میں خوبصورتی سے کی ہے۔وہ شہر میں کرائے کے مکان میں رہنے والوں کی حالت کی تصویر کچھ اس طرح بیان کر تی ہیں:
’’ لیکن وہ جس کمرے میں رہتی تھی وہ کونسا اچھا ہے بھلا۔اس کا کمرہ سرکاری پیخانے سے کافی دور ہونے کی وجہ سے رات میں بڑی دقّت ہو تی ہے۔اکیلی ہونے کی وجہ سے کچھ اور پریشانیاں بھی ہیں۔وہ لوٹا سنبھالے،موم بتی پکڑے یا کمرے میں تالا لگائے۔لیکن بستیوں میں اتنی سی تکلیف کوئی بڑی بات نہیں۔اسے پریشانی اس بات سے ہے کہ اس کا مالک مکان جب تب اس کے کمرے میں جھانکتا رہتا ہے۔ٹوٹے ہوئے دروازوں پر بے تحاشہ کیل لگانے کے با وجود انکی پکڑ کمزور ہوتی جارہی تھی۔دیواروں پر جہاں تہاں دراڑیں تھیں جنہیں وہ پلاسٹک کے ٹکڑوں سے ڈھکنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔اور وہ مالک مکان۔وہ تو کرائے کا بِل وِل بھی نہیں دیتا تھا۔کملا کو ہر پل یہی ڈر لگا رہتا تھا کہ جانے کب اس کے سر سے یہ چھت بھی چِھن جائے گی اور وہ کھلے آکاش کے نیچے کسی نا جائز بچے کی ماں بننے کے لئے مجبور کر دی جائے گی۔‘‘
کہکشاں پروین نے بھی اپنے افسانوں میں سماجی مسائل کو گہرائی اور فلسفیانہ نقطہء نظر سے پیش کیا ہے۔ان کا افسانہ ’’ دھوپ کا سفر ‘‘ انسانی سماج میں پھیلے ہوئے انتشار ،بے امانی،اور جار حیت کا بیان ہے۔ان کے دوسرے افسانوی مجموعے میں شامل کہانیوں کے مطالعے سے اندازہ لگایا جا سکتا کہ وہ بڑی موئثر اور حقیقی انداز میں آدی واسیوں کے مسائل کی تصویر کشی کرتی رہی ہیں۔جب کہ یاسمین اختر کا افسانہ ’’ سوغات ‘‘ ایک اہم موضوع کو روشنی میں لاتا ہے۔اس میں آزادی کے بعد زمینداری کے خاتمے سے زمینداروں کی بگڑتی ہوئی معاشی حالت کی تصویر کشی بڑے پُر اثرانداز میں کی گئی ہے۔
آزادی کے بعد خواتین افسانہ نگاروں کے فکر و فن میں نمایا ں تبدیلی اور ارتقاء کے نقوش دکھائی دیتے ہیں۔اس دور میں انسانی مسائل کو نفسیاتی سطح پر دیکھنے کا رجحان بڑھا۔عورت اور مرد کی نفسیاتی کشمکش کی عکاسی کو افسانوں میں ترجیح دیا گیا اورافسانوں میں خانگی مسائل بھی اجاگر ہونے لگے۔شہیرہ مسرور کا افسانہ ’’ تدراک ‘‘،شمع آفرین کا افسانہ ’’ ریت کا گھروندا ‘‘ ،مسرور تمنا کا افسانہ ’’ ایک شمع جل رہی ہے ‘‘،’’ اجنبی ہم سفر ‘‘،’’ اجالے کی تلاش میں‘‘ اور ’’قسمت کی رانی ‘‘ میں خانگی مسائل اور گھر کے اندر کی زندگی کو موضوع بنایا گیا ہے۔افسانہ ’’ تدراک ‘‘کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو :
’’ مجھے لگتا ہے کہ آصف میرا بیٹا نہیں ہے۔آپ کا ہو سکتا ہے لیکن میرا نہیں ہے۔مجھے اس سے ذرا بھی محبت نہیں ہے۔مجھے یاد ہی نہیں آتا کہ میں نے کبھی اسے اپنی کوکھ میں رکھا بھی تھا۔میں نے اسے اپنے آپ سے الگ نہیں کیا تو ایک دن وہ مجھے سانپ کی طرح ڈس لیگا اور پھر۔۔۔مجھ سے یہ غیر ضروری دشواری اٹھائی نہیں جاتی۔آپ یقین کیجئے آصف میرا بیٹا نہیں ہے۔
ماں کے اس رویئے سے آصف بھی بجھا بجھا سا رہنے لگا اور رفتہ رفتہ اس کی امنگیں اور ولولے بجھتے چلے گئے۔نیلم یعنی بیوی اپنے شوہر سے بار بار اصرار کرنے لگی کہ وہ اسے دور بھیج دے۔
مجبوراً شوہر اپنے بیٹے کو بورڈنگ اسکول میں داخل کرانے کا فیصلہ کرتا ہے۔حالانکہ اسے یہ سوچ کر کوفت ہوتی ہے کہ بورڈنگ میں اسے والدین کی محبت سے محروم ہو کر جینا پڑیگا۔لیکن جب آصف بورڈنگ میں جانے کی تیاری کرنے لگا اور اپنے کپڑ ے اور کتابیں سمیٹنے لگا تو نیلم کے اندر اضطرابی کیفیت پیدا ہونے لگی اور مٹھی بھینچے ہوئے آصف کے پیچھے پیچھے گھومنے لگی۔اور پھر اچانک آصف سے لپٹ کر رونے لگی اور کہنے لگی:
’’ میں نہیں جانتی تھی کہ تم بھی ایسا ہی کرو گے۔‘‘
اس افسانے میں شہیرہ مسرور نے عورت کی نفسیات کو بہت ہی خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔وہ ایک ماہر نفسیات کی طرح عورتوں کی نفسیات کی گتھی سلجھا تی ہیں۔ ترنم جمال نے بھی اپنے افسانوں میں گھریلو مسائل و موضوعات کو برتا ہے۔انکی زبان صاف ستھری ہے۔وہ اپنے افسانوں میں عورتوں کے ساتھ پیش آنے والے حالات کو سپاٹ بیانیہ میں پیش کر دیتی ہیں۔انکے افسانہ’’ لگائو‘‘ کا ایک اقتباس پیش ہے۔
’’ میں ابھی آٹو سے اتر کر چاندنی بازار اتر کر نیو مارکیٹ جانے والے راستے پر قدم بڑھایا ہی تھا کہ پیچھے سے کسی نے میرا آنچل کھینچ لیا۔پلٹ کر دیکھا تو ایک چھ ساتھ سال کی بچی تھی۔پھٹے پرانے کپڑے،بال بکھرے ہوئے اور بولی۔’’ آنٹی صبح سے بھوکی ہوں۔کھانا کھلادومیری ماں نے بھی کچھ نہیں کھایا ہے۔‘‘
’’ لیکن تمہاری ماں کہاں ہے۔ ‘‘ میں نے اطراف میں نظر دوڑاتے ہوئے کہا۔
’’ وہ سڑک کی دوسری طرف بیمار پڑی ہے۔‘‘
میں نے پرس سے پچاس روپئے کا نوٹ نکال کر اسے دیتے ہوئے کہا۔’’ اپنے اور ماں کے لئے کھانا لے لینا۔‘‘ اور جلدی سے آگے بڑھ گئی۔‘‘
صابرہ خاتوں حناؔروایتی موضوعات کو اپنے افسانوں کا موضوع بناتی ہی ہیں ساتھ ہی ساتھ وہ جدید دور کے مسائل کو بھی اپنے افسانوں میں پرو تی ہیں۔ان کا افسانہ ’’ لائف اسٹائل کا پیریڈ ‘‘ جدید زمانے کے تعلیمی نظام کا ایک حصہ ہے اور اسی موضوع کو انہوں نے افسانے میں پیش کیا ہے۔وہ سماج کے غریب طبقے کے موضوعات کو بھی پیش کرتی ہیں۔بیروز گاری اور اس سے پیدا ہونے والے اخلاقی مسائل کو بھی وہ اپنے افسانوں میں پیش کر تی ہیں۔افسانہ ’’ ایشور تیرا بھلا کریگا ‘‘ میں بھیکاریوں کے موضوع کو منفرد انداز میں پیش کی ہیں۔
آزادی کے بعد کی خواتین افسانہ نگاروں نے بھی اخلاقی مسائل کو اپنے افسانوں میں پیش کیا کیونکہ صنعتی دور میں اخلاقی پستی اور ذہنی دیوالیہ پن نے انسانیت کے چہرے کو مجروح کر کے رکھ دیا ہے۔رشتوں کی پائیداری،خلوص اور وفا داری،ایثار و ہمدردی،یہ سارے جذبے نئے صنعتی دور میں مفاد پرستی اور خود غرضی اور بے حسی کی دھند میں کھو گئے ہیں۔نئے دور میں بدلتے ہوئے سماجی نظام میں انسانی سوچ اور اس کی ترجیحات کافی بدل گئی ہیں اور اب وہ چیزوں کو اور رشتوں کو مفاد پرستی اور خود غرضی کی عینک سے دیکھتا ہے۔لہذا،ان مسائل نے مرد وں کے ساتھ ساتھ خواتین افسانہ نگاروں کو بھی متاثر کیا۔ڈاکٹر روحی قاضی کا افسانہ ’’ آسمان کی سیر‘‘،شاہین سلطانہ کا افسانہ ’’ احساس ‘‘ اور مسرور تمنا کا افسانہ ’’ جدّن بائی ‘‘ اور ’’ چاہ ‘‘ ایسے افسانے ہیں جن میں سماج کے مختلف طبقوں کی اخلاقیات اور انکے ذہنی رویوں کا مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔
بنگال میں خواتین افسانہ نگاروں کے اس مطالعے سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ انہوں نے اپنے عہد اور معاشرے کے تمام چھوٹے بڑے مسائل و موضوعات کا احاطہ اپنے افسانوں میں کیا ہے اور اپنے اپنے زاویئے اور نقطہء نظر سے افسانوں میں انہیں پیش کیا ہے لیکن بنگال کی خواتین افسانہ نگاروں کے یہاں سماجی شعور کا عکس تو ملتا ہے انہوں نے پورے سماج کے اجتماعی مسائل کو اپنے افسانوں کا موضوع توبنایا ہے مگر اقلیتی مسائل مثلاً فسادات،روزگار،سیاسی محرومی،اور مساوات پر شاذو نادرہی قلم اٹھایا ہے۔یہی وجہ ہے کہ بنگال میں خواتین افسانہ نگاروں کی تخلیقات میں ان کی جھلک بہت کم دکھائی دیتی ہے۔
Azadi ke Bad Bengal mein Khwateen Afsana Nigaron…by Reshma Katoon
Leave a Reply
Be the First to Comment!