اخترالایمان کی نظمیں
نبیل مشتاق
لیکچرر اردو،گورنمنٹ ڈگری کالج کاہنہ نو،لاہور
0321-4328507
nabeelahmedasad@gmail.com
Abstract
Akhtar-ul-Iman was born in 1915 and died in 1995. He is recognized as a poet of modern poems.Ten anthologies of his poetry and one compilation have been published. His poetical anthologies include Gardaab, Sub Rung, Tareek Sayyarah, Aab-e-Joo, Yadein, Bint-e-Lamhat, Naya Ahang, Sar-o-Samaan, Zameen Zameen and Zamistan Sard Mehri Ka. His style of writing is symbolical and metaphorical and these symbols and metaphors bring precision in his poems. In this research paper, the artistic and intellectual qualities of the poems of Akhtar-ul-Iman are analyzed and
the stature of his poems in Urdu literature is also analyzed.
Keywords
Akhtar-ul-Iman, Poetical Anthologies and Compilation, Dr. Shamshad Jahan, Poem”Sub Rung”,Aqeel Ahmed Siddiqui, Dr. Shakeel-ul-Rehman,Symbols and Metaphors,The Artistic and Intellectual Qualities, Finding, Conclusion.
اخترالایمان کی نظمیں
اخترالایمان (۱۹۱۵-۱۹۹۵ء)کاشماربیسویںصدی عیسوی کے اہم اردو شعرامیں ہوتاہے۔انھوں نے اپنے شاعرانہ خیالات کے اظہار کے لیے نظم جیسی شعری صنف کاانتخاب کیاتھا۔اردوزبان وادب میں ان کی نظمیہ شاعری ہی ان کی خاص پہچان اورشہرت کاسبب ہے۔اخترالایمان نے جس زمانے میں شاعری کاباقاعدہ آغاز کیا تھا۔اس زمانے میں اردوشاعری میں موضوعات، اصناف اور اسالیب کے اعتبار سے نئے نئے تجربات ہورہے تھے۔اردوشاعری میں ان نئے تجربات کوعروج ساٹھ سے ستر کی دہائی میں نصیب ہواتھا۔اس زمانے میں نظم، غزل کے مقابلے میں زیادہ تواناصنف کے طورپرابھرکرسامنے آئی تھی۔جب کہ نظم کی روایت میں نظم معریٰ ، آزاداورنثری نظم کااضافہ بھی ہواتھا۔اس دورکی نظموں کی خاص اور اہم بات ان کاعلامتی اندازِ اسلوب تھا۔ اس زمانے کے مقبول ومعروف شعرامیں اخترالایمان کے علاوہ ن۔م راشد، مجیدامجداور میراجی کا شماربھی ہوتاتھا۔ ان شعرانے علامتی اندازِ اسلوب کی مددسے نت نئے خیالات اورموضوعات کوشاعری کی زبان عطاکی تھی۔ان شعرامیں اخترالایمان کو اپنی نظمیہ شاعری کے موضوعات اوراسلوب کی وجہ سے منفردمقام حاصل ہے۔اخترالایمان کی شاعری کے اب تک دس مجموعے اور ایک کلیات منظرعام پرآچکے ہیں۔ان مجموعوں اور کلیات میں شامل شاعری میں زیادہ تعداد معریٰ اورآزادنظموں کی ہے۔اخترالایمان کے شعری مجموعوں اورکلیات کی اشاعت کے حوالے سے ڈاکٹرشمشادجہاں لکھتی ہیں :
’’ان کی زندگی میں اوروفات کے بعداُن کے کل دس شعری مجموعوں اورایک کلیات کی اشاعت ہوچکی ہے۔ اس کے علاوہ بہت ساراکلام رسالوںکے صفحات میں موجودہے اوران کی شاعری جووقتی طورپر ہنگامی موضوعات کی گھن گرج میں دب سی گئی تھی،اب نئے اندازسے مرکز ِ توجہ بن رہی ہے۔‘‘ (۱)
اخترالایمان کی شاعری کے یہ دس مجموعے اورکلیات ان کی شاعرانہ عظمت کاپتہ دیتے ہیں۔اخترالایمان کے شعری کلیات کو سلطان ایمان اوربیداربخت نے مرتب کیاتھا۔ کلیات کا مقدمہ بھی بیدار بخت نے ہی تحریرکیاتھا۔اخترالایمان کی شاعری کو مرتبین نے کلیات میں دس فصول کی صورت میں رکھاہے۔ان فصول میں’’گرداب، فصل ۱ (اشاعت: ۱۹۴۳ )‘‘،’’ سب رنگ،فصل ۲ (سال تصنیف:۱۹۴۳)‘‘،’’ گرداب کے بعد کی ایک نظم،فصل ۳ (اشاعت: ۱۹۴۸)‘‘،’’تاریک سیارہ، فصل ۴ (اشاعت: ۱۹۵۲)‘‘،’’آب جُو،فصل ۵(اشاعت:۱۹۵۹)‘‘،’’ یادیں (اشاعت: ۱۹۶۱)‘‘ ،’’بنت لمحات، فصل۶(اشاعت: ۱۹۶۹)‘ ‘،’’نیا آہنگ ، فصل ۷ (اشاعت:۱۹۷۷)‘‘،’’ سروساماں، فصل۸ (اشاعت: ۱۹۸۳)‘‘،’’ زمین زمین، فصل۹ (اشاعت: ۱۹۹۰)‘‘ اور’’ زمستاں سرد مہری کا، فصل۱۰ (اشاعت: ۱۹۹۷)‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔ کلیاتِ اخترالایمان کو جن دس فصول میں الگ الگ عنوانات کی مددسے ترتیب دیا گیا ہے،در اصل وہ ہی اُن کے شعری مجموعوں کے عنوانات بھی ہیں۔ اخترالایمان کی شاعری کو ان کی اپنی زندگی میںتوکوئی خاص پذیرائی نصیب نہیںہوسکی تھی،کیوںکہ ان کا اندازِشاعری نیا اورمنفردنوعیت کاحامل تھا۔ اس نئے اور منفردانداز کو اپناراستہ بنانے اور اپنی اہمیت منوانے میں ایک وقت لگا تھا۔ اخترالایمان کی شاعری وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قعرِ گمنامی سے نکل کربالآخر شہرت کی بلندیوں پر پہنچنے میں کامیاب ہوگئی تھی۔
اخترالایمان خالص نظم کے شاعرتھے اورنظم میں بھی مختصراورچھوٹی نظمیں ان کی خاص وجہ شہرت ہیں۔انھوں نے زیادہ ترمختصر نظمیں لکھی تھیں۔اس قسم کی نظموں کا تصوراخترالایمان سے پہلے اردوشاعری کی روایت میں نہ ہونے کے برابر تھا۔اگراخترالایمان کو مختصر نظموں کا موجدقرار دیا جائے،توکسی طرح بھی بے جا نہ ہوگا۔ اخترالایمان کے بعدمنیرنیازی اور شہریار نے مختصر نظموں کی روایت کو آگے بڑھایاتھا۔ اخترالایمان کی زیادہ نظمیںچار سے تیرہ مصرعوں پرمشتمل ہیں۔ انھوں نے اس قدرمختصر نظموں میں بھی کمال مہارت سے ایک جہان ِ معانی پیداکردیاتھا۔اخترالایمان کی سب سے چھوٹی نظم’’نیاز‘‘ہے، جو صرف چار مصرعوں کامجموعہ ہے۔انھوں نے مختصر نظموں کے علاوہ کچھ طویل نظمیں بھی لکھی تھیں۔لیکن ان کی طویل نظموں کے اسلوب اورموضوعات میں وہ بات نظر نہیں آتی،جوبات ان کی مختصراورچھوٹی نظموں کے اسلوب اورموضوعات میںملتی ہے۔ ان کی سب سے طویل نظم’’سب رنگ‘‘ ہے۔یہ نظم تمثیل نگاری کا مرقع ہے۔اس نظم میں انھوںنے مختلف جانوروں اور پرندوں کو انسانی کردار وںکے روپ میں دکھایاہے، جیسے سانپ، گدھا، بندر، چڑیا، گینڈا،خچر،بیل، ہُدہُد، کتااور اُلووغیرہ۔یہ نظم ڈرامائی اندازکی تمثیل کہی جا سکتی ہے، لیکن اس نظم کو ابھی تک کوئی خاص پذیرائی نصیب نہیں ہوئی۔
اخترالایمان کی مختصراورطویل دونوں قسم کی نظمیں روایتی پابند نظموں کے علاوہ معرا اورآزاد نظم کے ہیتی تجربے ہیں۔ اخترالایمان کا شمار ایسے شاعروںمیں ہوتاہے، جنھوںنے نظم کواس کے روایتی سانچے سے نکال کر نت نئے تجربات اوراختراعات کاامین بنانے میںکرداراداکیاتھا۔مگر اخترالایمان کوان شاعروں میں اپنی مختصراورچھوٹی نظموں اوران کے علامتی انداز کی وجہ سے منفردمقام حاصل تھا۔انھوںنے ایسے اہم موضوعات کو جنھیں بیان کرنے کے لیے طول طویل نظموں کی ضرورت ہوتی تھی،چارچھ مصرعوں کی نظموںمیں کمال فن سے بیان کردیاتھا۔اخترالایمان کی مختصر نظمیں لاشعوری اور طویل نظمیں شعوری کوششوںکاحاصل معلوم ہوتی ہیں۔ اخترالایمان اپنی مختصراورطویل نظموں کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’میں نے مختصرنظمیں کبھی پلان کرکے نہیں کہیں،ہمیشہ چلتے پھرتے کہی ہیں۔اس کے برعکس طویل نظمیں ہمیشہ پلان کر کے کہی ہیں۔‘‘(۲)
اخترالایمان کایہ کہنا اس حقیقت کاواضح اعتراف ہے کہ ان کی مختصر نظمیں شعوری کوششوں کا نہیں،بلکہ لاشعوری کوششوںکاحاصل تھیں اور ان کی طویل نظمیں لا شعوری نہیں ،بلکہ شعوری کوششوں کاحاصل تھیں۔قیاس غالب ہے کہ اگر اخترالایمان شعوری طور پر منصوبہ بندی کر کے مختصر نظمیں لکھتے،تو ان نظموںمیں وہ اثراورآہنگ پیدانہ ہوتا، جولاشعوری طورپرکہنے کی وجہ سے ان نظموں کی جان اورطرئہ امتیازبن گیاہے۔اخترالایمان کی مختصر نظموں کا سااثر اورآہنگ ان کی طویل نظموں میں ہرگزنہیں۔ اخترالایمان کے بعدمنیرنیازی اور شہریار نے مختصر نظموں کی روایت کو آگے بڑھانے میں کلیدی کرداراداکیاتھا۔لیکن اس میدان میں اولیت اورفضیلت ہمیشہ اخترالایمان ہی کوحاصل رہے گی،کیوں کہ منیرنیازی اورشہریار کی مختصرنظموں میں موضوعات اوراسلوب کے حوالے سے وہ تنوع،گیرائی اورگہرائی نہیں،جو اخترالایمان کی مختصرنظموں کا خاصا ہے۔ان کی ایک چھوٹی سی نظم بھی اپنے اندرایک وسیع دنیائے معانی رکھتی ہے۔جس کاثبوت ان کی نظم ’’سوگ‘‘کے یہ اشعار ہیں:
سوگ
مرنے دومرنے والوںکو،غم کاشوق فراواں کیوںہو
کس نے اپناحال سُناہے،ہم ہی کس کادردنباہیں
یہ دنیا، یہ دنیا والے اپنی اپنی فکروں میں ہیں
اپنا اپنا توشہ سب کا، اپنی اپنی سب کی راہیں
وہ بھی مُردہ، ہم بھی مُردہ، وہ آگے ہم پیچھے پیچھے
اپنے پاس دھرا ہی کیاہے، ننگے آنسو، بھوکی آہیں(۳)
اخترالایمان کی یہ نظم ایک مکمل نظم ہے،جومحض چھ مصرعوںپرمشتمل ہے۔مگریہ نظم اپنے اندر ایک وسیع جہانِ معانی رکھتی ہے۔ اخترالایمان کی یہ نظم حساس دل رکھنے والے انسانوںمیں جذباتی اضطراب پیداکرنے کے لیے محرک کاکرداراداکرتی ہے۔ ان کی چھ مصرعوں کی اس نظم میں انسانوں کا ایک دوسرے سے غافل ہوکراپنی اپنی زندگی کے معاملات میں مست ومگن ہونا،خودغرض ہونا اوربے حس ہونادکھایاگیاہے۔اخترالایمان نے اس چھوٹی سی نظم سے جو کام لیاہے ،وہ کام بہت سے شاعر حضرات طول طویل نظموں سے بھی نہیں لے پاتے۔ اخترالایمان نے انسانوں کے ایک دوسرے کے معاملات اورمسائل سے بے خبرہونے اوراپنی اپنی زندگی میں مست ہونے کو مردہ انسانوںکی صفت سے تعبیرکیاہے۔انھوں نے مردہ صفت نہ صرف دوسروں کو بلکہ خود کوبھی قراردیاہے۔ اخترالایمان کو دنیا اوراس دنیامیں بسنے والے انسانوں کی یہ حالت اپنے دلی جذبات اور احساسات کے ساتھ ساتھ قلبی اوردنیاوی دکھوں اور پریشانیوں کے اظہار سے بھی روکتی نظرآتی ہے۔نظم ’’اظہار‘‘کے یہ اشعار دیکھیے :
اظہار
دبی ہوئی ہے مرے لبوںمیں کہیں پہ وہ آہ بھی جواب تک
نہ شعلہ بن کربھڑک سکی ہے نہ اشک ِ بے سود بن کے نکلی
گھُٹی ہوئی ہے نفس کی حد میں،جلادیاجوجلاسکی ہے
نہ شمع بن کر پگھل سکی ہے ،نہ آج تک دردبن کے نکلی
دیاہے بے شک مری نظرکووہ ایک پرتوجودرد بخشے
نہ مجھ پہ غالب ہی آسکی ہے،نہ میرامسجود بن کے نکلی (۴)
اخترالایمان نے اس نظم میں معاشرتی تضادات کے ہاتھوں اپنے کڑہتے دل اورجلتے جگر کی کیفیت کارونارویاہے اوریہ صرف شاعر کی ہی نہیں بلکہ ہرحساس طبیعت انسان کی کیفیت کاروناہے۔اخترالایمان کی نظرمیںوہ خودبھی اوردوسرے حساس طبیعت انسان بھی اتنے بے بس اور مجبور ہوگئے ہیں کہ اب دنیاوی مظالم کے خلاف ردعمل میں ان کے لبوںسے ایک لفظ بھی نہیں نکل پاتااور نہ ہی ان کی آنکھوں سے آنسو اور دل سے آہیں نکل پاتی ہیں۔اخترالایمان نے ایک حساس طبیعت انسان کو خود سے الگ نہیں پایااوروہ خود کوبھی حساس طبیعت انسان کی طرح مجبوراوربے بس پاتے ہیں۔ اخترالایمان کو انسانی زندگی جذبات اوراحساسات کے اعتبار سے جمود کاشکاردکھائی دیتی ہے۔ان کی نظم ’’جمود‘‘ کے اشعاردیکھیے:
جمود
تم سے بے رنگی ِ ہستی کاگلہ کرناتھا
دل پہ انبارہے خوں گشتہ تمنائوںکا
آج ٹوٹے ہوئے تاروں کاخیال آیاہے
ایک میلہ ہے پریشان سی امیدوںکا
چند پژمردہ بہاروں کاخیال آیاہے
پائوں تھک تھک کے رہے جاتے ہیں مایوسی میں
پُرمحن راہ گزاروں کاخیال آیاہے
ساقی وبادہ نہیں، جام و لبِ جُو بھی نہیں
تم سے کہناتھاکہ اب آنکھ میں آنسوبھی نہیں!(۵)
اخترالایمان نے اس نظم کے ذریعے ماضی میں زندگی کی بے رنگی،تمنائوں اورامیدوں کی عدم تکمیل اورخوشیوںکے قتل سے مزین یادوں کو انسانی زندگی میںجمود کا بنیادی سبب قراردیاہے۔ان کے نزدیک ماضی کی یادیں انسانی زندگی میں جمود کی کیفیت پیداکرتی ہیں۔انسان ماضی کی ان یادوں سے چھٹکارا حاصل کرکے ہی آگے بڑھ سکتاہے۔مگرماضی کی یہ یادیں کسی طرح بھی انسان کاپیچھانہیں چھوڑتیں اورنہ ہی انسان ان یادوں کے دائرے سے باہر نکل پاتاہے۔اخترالایمان کی بہت سی نظمیں ایسے ہی جذبات، خیالات اوراحساسات کی ترجمان نظرآتی ہیں اوروہ ان نظموں میں ایک ماضی پرست انسان کے روپ میں جلوہ گرنظرآتے ہیں۔
اخترالایمان کی نظموں میں لفظیات، علامات اور استعاروں کی جذبات،احساسات اورخیالات سے مکمل مطابقت اورہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ان کی نظموں کا خاص پہلو ان کا علامتی اندازِاسلوب ہے۔ انھوں نے اپنی نظموں میںعلامتوں اوراستعاروں کی مددسے معنویت میں گہرائی اور تہہ داری پیداکرنے کی کوشش کی ہے۔ اخترالایمان کی شاعری بالخصوص نظموں کی معنویت کوسمجھنے کے لیے ان کی علامتوں اور استعاروں کو سمجھنابہت ضروری ہے۔ ان کی علامتوں اوراستعاروں کوسمجھے بغیران کی نظموں کی معنویت تک رسائی ممکن نہیںہوسکتی۔ عقیل احمد صدیقی،اخترالایمان کی نظموں میں علامت سازی سے متعلق لکھتے ہیں:
’’ان کی متعددنظموں میں’’علامت سازی‘‘ کی کوشش ملتی ہے ہرچندکہ یہ اکہری اورواضح علامتیں ہیں۔ اس طرح کی کوشش سے اخترالایمان کویہ فائدہ ہواہے کہ وہ فکری انتشار سے بچے ہیں اوربہت حدتک نظم کو مرکزیت عطا کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔‘‘(۶)
اگراخترالایمان کی نظموں کا مطالعہ کیا جائے، توحقیقت میں ان کی یہ علامتیں اپنے وجود میں کھردرا اور اکہرا پن لیے ہوئے ہیں۔ اس کھردرے اور اکہرے پن کے باوجود ان کی علامتوںنے ان نظموں کوخوب معنویت بخشی ہے۔اخترالایمان اور دوسرے شعراکی علامتوں میں یہ ہی بنیادی فرق نظرآتاہے۔اخترالایمان کی علامتیں دوسرے شعراکی علامتوں کی طرح آسانی سے سمجھ میں آنے والی نہیں ہوتیں۔ان کی علامتوں کی تفہیم کے لیے جستجو،زرخیزذہن، گہرے مطالعے ،لگن ،محنت،تدبر اورغوروفکر کی ضرورت ہوتی ہے۔ قاری جوں جوںدلچسپی سے ان کی علامتوں پر غور کرتا جاتاہے، ایسے ایسے ایک جہان ِمعانی اس پر واہ ہوتاجاتاہے۔ قاری کوعلامتوں کی تفہیم کے بعدایسا محسوس ہوتاہے کہ اخترالایمان نے جو بات پانچ چھ مصرعوں کی ایک مختصرسی نظم میں کہہ دی ہے،وہ بات بہت سے شاعرہزاروں اشعارمیں بھی نہیںکرپاتے۔اخترالایمان علامتوں سے بھرپوراپنی ایسی نظموں میں انسانی بے چارگی،بے بسی اور کم مائگی کی سچی تصویریں پیش کرتے ہیں۔اخترالایمان اپنی شاعری کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’یہ کھردری ، شبہات سے پُر،انتشار آمیزشاعری اس خلوص اورجذبہ محبت کے تحت وجود میں آئی ہے جو مجھے انسان سے ہے۔میں اس کے کرب ،اس کی شدتِ دردکوانتہاپرپہنچ کرمحسوس کرتا ہوں۔ مجھے اس کی بے چارگی، کم مائگی، بے بسی اورنارسی کے ساتھ ہمدردی ہے۔‘‘(۷)
اخترالایمان نے اپنی شاعری کو کھردرا،شبہات سے پُراورانتشارآمیزقراردیاہے۔انھوںنے اس کھردرے پن اورانتشار کا سبب انسانی زندگی کے انتشارکوقراردیاہے۔اخترالایمان انسانیت کادرد رکھنے والے شاعراورانسان تھے۔ ان کی بیشتر نظموںمیں انسان کی بے چارگی اوربے بسی سے متعلق مضامین کاپُردرداوردکھ بھرابیان ملتاہے۔انھیں انسان کی بے چارگی ، کم مائگی اور نارسی سے دلی ہمدردی ہے۔انھوں نے اپنی نظموں میں جو کچھ بھی بیان کیا ہے،وہ ان کی زندگی کے تجربات اوراحساسات کاحاصل اورنچوڑمعلوم ہوتاہے۔انھوں نے اپنی نظموں کے لیے موضوعات عام انسانی زندگی سے کشیدکیے تھے۔ اس حوالے سے اخترالایمان لکھتے ہیں:
’’جوکچھ میں نے لکھاہے وہ اس وقت نہیں لکھا،جب ان تجربات اور محسوسات کی منزل سے گزر رہا تھا۔انھیں اس وقت قلم بندکیاہے، جب وہ تجربات اورمحسوسات یادیں بن گئے تھے۔‘‘(۸)
اخترالایمان کی شاعری کا مطالعہ بتاتاہے کہ ان کی شاعری بالخصوص نظمیں ماضی کے تجربات اورمحسوسات کی یادیں ہیں۔ یہ یادیں تلخ اور حسین دونوں طرح کے جذبات اوراحساسات سے مزین ہیں، لیکن ان میں اکثریت تلخ تجربات اوراحساسات سے بھرپور یادوں کی ہے۔ان کی نظموں میںپائے جانی والی ایسی ہی یادوںکی وجہ سے بعض ناقدین نے ان کی شاعری کواس عہد کے المیہ کرداروں کی آواز قرار دیا ہے۔ اخترالایمان کی اپنی زندگی بھی بہت سے تلخ تجربات کاحاصل تھی۔ان کی آپ بیتی میں ان تمام تلخ تجربات کاذکرآیاہے۔ان تجربات میں ان کی یتیمی کی زندگی کے تجربات بھی شامل ہیں۔ اخترالایمان کی نظمیں ان کی اپنی زندگی اور عام انسان کی زندگی کی دردبھری تصویریں ہیں۔انھیں اپنی زندگی کا المیہ کردار ہونے کے ساتھ ساتھ عام انسان کا المیہ کردارہونے کامقام بھی حاصل ہے۔ ڈاکٹر شکیل الرحمن لکھتے ہیں:
’’ٹوٹے ہوئے اورٹوٹتے ہوئے رشتوں اوربکھرے ہوئے خوابوں اور یادوں کے ان آئینوںمیں اس عہد کے المیہ کرداروں کی پہچان ہوتی ہے۔داخلیت کی آنچ دھیمی دھیمی سی ہے۔جس سے ذہن متاثر ہوتا ہے۔ احساس تیزہے،محسوسات کی دنیاہے۔اخترالایمان کی ایسی نظموں میں اصوات کی تنظیم بھی قابل ِغورہے۔خیالات کے مطابق اصوات کی نئی تشکیل سے بھی شاعر کی انفرادیت کی پہچان ہوتی ہے۔المیہ کردار کی جذباتی اورذہنی زندگی کے تجربوں کے مطابق اصوات کی تنظیم ہوئی ہے۔‘‘(۹)
ڈاکٹرشکیل الرحمن نے ایک طرف تو اخترالایمان کی نظموں کو ان کے عہدکے المیہ کرداروں کے ٹوٹے ہوئے خوابوں اوررشتوں کی نمایندہ نظمیں قرار دیا ہے ،تودوسری جانب ان نظموں کوان کی داخلیت کی دھیمی دھیمی آنچ کے اظہارکاذریعہ بھی بتایاہے۔ڈاکٹرشکیل الرحمن نے اپنے تجزیے میں ایک اور اہم بات بھی کہی ہے، اور وہ بات یہ ہے کہ اخترالایمان کی نظموں میں اصوات کی تنظیم ان کے المیہ کرداروں کے جذباتی اورذہنی تجربوں سے مکمل مطابقت اورہم آہنگی رکھتی ہے۔ڈاکٹرشکیل الرحمن کا یہ تجزیہ حقیقت کادرجہ رکھتاہے ،کیوںکہ اخترالایمان نے اپنی نظموں کے المیہ کرداروں کے جذبات اور خیالات کے اظہارکے لیے ایسے ہی اسلوب کاانتخاب کیا ہے۔ اخترالایمان کی ایسی نظموں میں ان کی اپنی ذات سے لے کر عام انسانوں تک کا داخلی اورخارجی کرب اوردکھ بیان ہواہے اوران المیہ کرداروں کی ذہنی اورجذباتی زندگی کے تجربات کا یہ کرب اورغم ان کی اصواتی تنظیم کے عین مطابق نظرآتاہے۔ نظم ’’خود فریبی‘‘میں زندگی کے تجربات اورا صوات کاگہرارچائو ملتا ہے۔اس نظم کے اشعاردیکھیے:
خودفریبی
رفتگاں بچھڑے نہیں، وقفہ ہے اک تھوڑاسا
وصل اورہجر کے مابین ،ابھی ثانیہ بعد
جس کو گر سوچیے بن جاتاہے صدیوں کافراق
اُن سے مل جائیں گے ہم جن کی ملاقات ہے سعد
حشر کچھ دُور نہیں،وقت ہے کوندے کی لپک
اوریہ دُوری،یہ اک کرب سا بے حدوحساب
دائمی وصل میں،قُربت میں،بدل جائے گا
یوں بھی بہلاتے ہیں وارفتہ طبیعت جی کو
ایساہوتاہے کہ غم یُوں بھی غلط کرتے ہیں(۱۰)
اخترالایمان نے اس نظم کے ذریعے زندگی میں بچھڑ جانے والے عزیزواقارب کے محشر کے دن ملنے کی نوید سنائی ہے۔ان کے نزدیک جو پیارے لوگ دنیا میں کسی وقت بچھڑجاتے ہیں،وہ محشرکے دن ضرور ملیں گے۔ ان کے نزدیک یہ زندگی عارضی ہے اوراصل زندگی محشر کے بعد شروع ہوگی۔ان کے خیال میں زندگی اور موت کے درمیان بس تھوڑاساوقفہ اورفاصلہ ہے۔انھوںنے گزرتے وقت کو’’وقت ہے کوندے کی لپک‘‘سے تعبیر کیاہے۔ ان کی نظموں میں زندگی کی بے ثباتی کاذکربہت تواترسے آیاہے۔اس ذکر میں اداسی اورغم کی ملی جلی کیفیت بھی ہے۔انھوںنے زندگی کے دوران نصیب ہونے والے انسانی وصل اور ہجر کو عارضی اور محشر کے بعد کے وصل کودائمی وصل قراردیاہے۔انسان کاسفرازل سے اپنی حتمی منزل موت یعنی ابد کی طرف جاری ہے۔ انسان اس سفرمیں غموں اوردکھوں سے بھرپور زندگی بسر کررہاہے۔ انسانی زندگی کا یہ المیہ ہے کہ موت کے آنے تک ایک انسان کی بہت سی آرزوئیں ادھوری رہتی ہیں،جس کے نتیجے میں ا س کی زندگی کافی حدتک غمگین رہتی ہے۔اخترالایمان نے ایسے ہی انسانی جذبات کواپنی نظموں کاخاص موضوع بنایاہے۔جس کی وجہ سے ان کی نظموں پر افسردگی، غم اوردکھ کی گہری فضا چھائی ہوئی ہے اور اس فضا کوان کے بعض ناقدین نے ان کی گہری افسردگی اور قنوطیت سے تعبیرکیاہے۔ اس حوالے سے ڈاکٹر شکیل الرحمن لکھتے ہیں :
’’اردوکے بعض نقادجسے اخترالایمان کی گہری افسردگی، گریزاورقنوطیت سے تعبیر کررہے تھے وہ ان کی رومانیت ہی توتھی۔اخلاقی اور معاشرتی قدروں کے ٹکرائو اورتصادم اوراورسیاسی عقیدوں اور اصولوںکی کشمکش میں سچائی کی تلاش وجستجو کے لیے فن کارخارجی حقیقتوںسے بہت سے تاثرات لے کر گریز کرتاہے، ماضی کی یادیں سہارا دیتی ہیں۔اخترالایمان کی شاعری اس رومانی گریز کی عمدہ مثال ہے۔‘‘(۱۱)
ڈاکٹرشکیل الرحمن نے جہاں ایک طرف اخترالایمان کی گہری افسردگی اورقنوطیت کوان کی رومانیت کانام دیاہے،وہاں انھوں نے یہ بھی تسلیم کیاہے کہ اخترالایمان کی شاعری سیاسی اورمعاشرتی اقدار کے تصادم کی سچی داستان ہے اور انھوں نے اپنی شاعری کے لیے ماضی کی یادوں اور خارجی حالات وواقعات سے بہت کچھ حاصل کیاتھا۔اخترالایمان کی نظموںمیں اداسی اور افسردگی کی جوفضا ہے ،اس کا سبب حقیقت میں کافی حدتک ان کی اپنی زندگی اورگردوپیش کے معاشرتی حالات تھے۔ اخترالایمان اپنی نظموں کے ذریعے انسانی زندگی میں غموں اور دکھوں کے پیچھے چھپی سچی حقیقتوں اورمحرکات کاسراغ لگاتے نظرآتے ہیں۔اخترالایمان کی شاعری میں جذباتی،سماجی،اخلاقی اورسیاسی سطح پر ہونے والے تصادم کی بازگشت بھی سنائی دیتی ہے۔ ان کی نظم’’عذاب‘‘کے اشعاردیکھیے:
عذاب
یہ جسم میرانہیں ہے،تمام عمر مجھے
یہی خلش رہی،اورجسم ہے اگرمیرا
توروح میری نہیں،قید کردیاہے اسے
کسی اک ایسے بدن میں جوہے قفس اس کا
یہ سال اورمہینے، یہ دن گئے لمحات
اک ایسے کرب میں گزرے جوبے ثمرنکلا
مگر یہ میرامقدرہے اپنے آپ کومیں
عذاب جاں سہی، اس سے چھڑانہیں سکتا(۱۲)
اخترالایمان کی اس نظم میں داخلی کرب اورجذباتی تصادم کاملاجلااحساس ملتا ہے۔انھوںنے ایک ایسے انسان کے کرب اورجذباتی کشمکش کا نقشہ کھینچاہے ،جو اپنے جسم کو روح کی قید سے آزاد دیکھناچاہتاہے ،مگر وہ اپنی مرضی سے ایسا نہیں کرپاتا،کیوں کہ معاشرتی اوراخلاقی رکاوٹیں اس کی راہ میں حائل ہیں۔وہ دنیاوی مصائب سے تنگ آکر زندگی سے نجات حاصل کرناچاہتاہے اور غموں اوردکھوں سے بھرپوراس زندگی کو ’عذاب جاں‘ سے تعبیرکرتاہے،مگراس سب کے باوجودجسم کوروح کی قید سے آزادی دلانااس کے بس کی بات نہیں ہے۔اخترالایمان نے اپنی نظموںمیں جہاں اپنے اور دیس میں بسنے والے دوسرے انسانوں کے کرب اوردکھ کااظہارکیا ہے، وہاں دیارِغیر میں بسنے والے انسانوں کی دلی کیفیت اور ذہنی حالت کاالمیہ بھی بیان کیاہے۔اپنے دیس سے دورپردیس میں بسنے والے انسانوں کی جذباتی اورذہنی کیفیت اور حالت کیا ہوتی ہے۔اس کیفیت اور حالت کی تصویر اخترالایمان نے نظم’’اتفاق‘‘میں دکھائی ہے۔ اس نظم کے یہ اشعاردیکھیے:
اتفاق
دیارِ غیر میں کوئی جہاںنہ اپناہو
شدید کرب کی گھڑیاں گزار چُکنے پر
کچھ اتفاق ہوایساکہ ایک شام کہیں
کسی اک ایسی جگہ سے ہویوں ہی میراگزر
جہاں ہجوم ِ گریزاں میں تم نظرآجائو
اورایک ایک کوحیرت سے دیکھتارہ جائے!(۱۴)
اخترالایمان نے دیارِ غیرمیں کسی اپنے سے ملنے کی خواہش اورتمنا کااظہارکیاہے۔شاید دیارِغیر میں اچانک سے کسی اپنے کاملنا ان کے دلی سکون کاسبب بن سکتاتھا۔ انھوںنے نظموں میں اپنے دلی جذبات اوراحساسات کے اظہار کے لیے مختلف تکنیکی حربے اپنائے تھے۔جن میں سے ایک حربہ نظموں میں چھوٹے بڑے مصرعوں کاباربار استعمال کرنابھی تھا۔ اس طرح مصرعوں کے استعمال سے ا ن کی نظموں میں خاص صوتی آہنگ پیدا ہو گیا ہے۔ اس حوالے سے ڈاکٹرشمشاد جہاں لکھتی ہیں:
’’ ضرورت کے مطابق مصرعوں کوتوڑنے، چھوٹایابڑاکرنے کاعمل اکثران کے یہاں ملتاہے۔‘‘(۱۳)
ان کی بہت سی نظموں میں مصرعوں کوتوڑنے اور مصرعوںکی تکرار سے کام لینے کاعنصرغالب نظرآتاہے۔اخترالایمان نے جہاں ایک جانب مصرعوں کی شکت وریخت سے کام لے کراپنے کھردرے لہجے کو پرکشش اوردلکش بنانے کاکام لیاتھا،وہاں دوسری طرف مصرعوںکی تکراراور دلکش قافیوں اور ردیفوںکے استعمال سے صوتی آہنگ بھی پیداکرنے کی کوشش کی تھی۔اخترالایمان اس کوشش میں کافی حدتک کامیاب بھی رہے تھے اور اس انداز سے ان کی نظموں کوایک خاص قسم کی غنائیت بھی نصیب ہوئی تھی،جس کے نیچے ان کا کھردرااور انتشارآمیزلہجہ تھوڑاسا دب کررہ گیا تھا۔ اس حوالے سے ڈاکٹر شکیل الرحمن لکھتے ہیں:
’’مختصر نظموںمیںمصرعوںکوتوڑکر،پہلے مصرعے کودوسرے میںمکمل کرکے اوردوسرے مصرعے کوتیسرے مصرعے کے درمیان میں ختم کرکے اور بعض مصرعوں کو دہراکے تاثرگہراکیاگیاہے۔‘‘ (۱۵)
اخترالایمان کی ایسی بہت سی نظمیں ہیں، جن میں انھوںنے اس قسم کی تکنیک سے کام لے کرخوب صورت صوتی آہنگ پیدا کیاتھا اوران کی کئی نظمیں بہترین صوتی آہنگ کی مثال ہیں۔اخترالایمان ایسی نظموں میں کھردرے لہجے اور سنگلاخ زمینوں سے دورکھڑے نظرآتے ہیں۔ ان کی یہ نظمیں دلکش اندازاسلوب لیے ہوئے ہیں۔مگراخترالایمان کے اس صوتی آہنگ پر بھی اداسی کی فضا چھائی ہوئی نظر آتی ہے۔ ایسالگتاہے جیسے ان نظموں میں کسی اداس شاعر کی روح داخل ہوگئی ہے۔ نظم ’’دستک‘‘ ایسی ہی نظم کی مثال ہے:
دستک
کھٹکھٹاتا ہے درِ خفتہ کوئی!
انتظار،اشک،گماں،کچھ بھی نہیں
شمع، پروانے،دھواں،کچھ بھی نہیں
سوچ لوں باز کروں در، نہ کروں
شیشہ و سنگ کی جھنکار سنوں
آج کیا کہتے ہیں غم خوارسنوں
اس سے پہلے بھی یہ دروازہ کُھلا
اس سے پہلے بھی یہ دروازہ کُھلا
اس سے پہلے بھی یہ دروازہ کُھلا(۱۶)
اس نظم میں دلکش قوافی،لفظیات اورمصرعوںکی تکرار کی مددسے خوب صورت صوتی آہنگ پیداکیا گیا ہے اورایسا لگتا ہی نہیں کہ یہ اسی شاعر کی نظم ہے، جس کے کھردرے لہجے کی بازگشت ایک عرصے تک سنائی دیتی رہی۔مگر اس نظم کی فضاافسردگی اوراداسی سے بھرپورہے۔اخترالایمان نظم ’’دستک‘‘میں ’’اس سے پہلے بھی یہ دروازہ کُھلا‘‘ والے مصرعے کو تین بارلائے ہیں،جس کے نتیجے میں ایک خوب صورت صوتی آہنگ اوراثر پیدا ہو گیاہے۔ اس اثراور صوتی آہنگ کے حوالے سے ڈاکٹر شکیل الرحمن لکھتے ہیں:
’’اخترالایمان کی بعض نظموںمیں عروضی قواعد کی پابندی سے زیادہ تاثر کے تسلسل اورصوتی آہنگ کی اہمیت ہے۔‘‘(۱۷)
ڈاکٹرشکیل الرحمن کی رائے اخترالایمان کی نظموں کی روشنی میں کافی حدتک سچ اورحقیقت پر مبنی معلوم ہوتی ہے۔اخترالایمان کی کئی نظموں میںعروضی قواعد کی پابندی سے زیادہ توجہ نظم کے تاثراورصوتی آہنگ کوبرقراررکھنے کی طرف دی گئی ہے۔اخترالایمان کی اکثر نظموں میں فنی اور تکنیکی پابندیوںسے آزادی حاصل کی گئی ہے۔وہنظم’’دستک‘‘،’’قدر ِمشترک‘‘ اور’’تادیب‘‘میں عروضی قواعد کی پابندی سے زیادہ تاثراور صوتی آہنگ کو اہمیت دیتے نظر آتے ہیں۔نظم’’قدرمشترک‘‘کے یہ اشعارملاحظہ کیجیے:
قدرِ مشترک
شہرسب ایک سے ہوتے ہیں،کہیں
قحبہ خانے ہیں بہت، اور کہیں
رہ نما ڈھیر سے یالوگ جرائم پیشہ
مختصر یہ ہے کہ بے چاری یہ اللہ کی زمیں
اپنی گردش کے علاوہ بھی ہے مجبوربہت(۱۸)
اخترالایمان نے نظم’’قدرِمشترک‘‘میںسب شہروں کو ایک جیسا قراردیا ہے اوران شہروں میں رہنے والے جرائم پیشہ افرادکو برائیوںکے پھیلانے میں ایک جیسے سفاکانہ کردارکاحامل قراردیاہے۔ اخترالایمان نے اس نظم میں شہروں کوان جرائم پیشہ افراد کے آگے مجبوردکھایاہے۔انھوں نے ان شہروں کے ساتھ ساتھ اس زمین اورکائنات کوبھی ایسے جرائم پیشہ افرادکے سامنے بے بس اورمجبورقراردیاہے۔اخترالایمان کواس زمین میں بسنے والے عام انسانوں،رہنماوں اورجرائم پیشہ افراد میں ایک قدر مشترک نظرآتی ہے کہ ان میں سے ہرکوئی دوسروں کی اصلاح کا توخواہش مند ہے، مگر اپنی اصلاح سے کنارہ کش اورغافل ہے۔ اخترالایمان کاخیال ہے کہ اگر اصلاح کا عمل ہر انسان کی اپنی ذات سے شروع ہو توزیادہ بہتر نتائج حاصل ہوسکتے ہیں۔ان کی نظم’’تادیب‘‘کے اشعاردیکھیے :
تادیب
دوسروں کو سُدھارنے مت جائو
اپنی اصلاح پرنظر رکھو
لوگ کیاکررہے ہیں،چھوڑوانھیں
اپنے افعال کی خبررکھو
سرزنش اپنی خوب کرتے رہو
ایک شہداجہاں میں کم ہوگا!(۱۹)
اخترالایمان نے اس نظم میں خوداحتسابی کادرس دیاہے۔اخترالایمان کی کئی نظموںمیںحسن ومحبت اور جنسی جذبات سے لبریز خیالات اور احساسات کااظہاربھی ملتاہے۔ انھوں نے جنسی جذبات کے بیان میں بہت متوازن اندازاپنایاہے۔ان کی نظموں میں محبوب کے حسن کے جلوئوں اورمحبوب سے محبت کے لمحات کی یادوں کابیان بھی آیاہے اور جنسی تسکین اورمحبوب کے وجود کے لمس کی خواہش کااظہاربھی ہواہے،مگراخترالایمان نے جنسی جذبات کے اس بیان میں اعتدال اورتوازن کادامن کسی طور ہاتھ سے نہیں چھوڑااورپوری ہوش مندی سے جنسی تسکین کی خواہش ظاہر کردی ہے۔ نظم’’تضاد‘‘اسی قسم کے جذبات کی ترجمان ہے:
تضاد
میں کھڑکی کے نیچے کھڑاہواتھا
تم شاید کمرے میں سوئی ہوئی تھیں
چاند فضا میں دھیرے دھیرے تیررہاتھا
دن کی چیخیں سناٹے میں کھوئی ہوئی تھیں
ہوٹل کے اک کمرے سے کل جب اک لڑکا
اپنی محبوبہ کی بانہوںمیں بانہیں ڈالے نکلا
مجھ کووہ پھیکاسامنظر یادآیا(۲۰)
اس نظم’’تضاد‘‘ میں اخترالایمان نے جنسی جذبات کوکافی سلیقے اور ڈھنگ سے بیان کردیاہے۔انھوں نے جہاں ایک طرف نوجوان لڑکے کو اپنی محبوبہ کی بانہوں میں دکھایاہے،وہاںدوسری جانب اپنی محبوبہ سے وابستہ ایسی ہی خوب صورت یادوں کاذکربھی کیاہے۔اخترالایمان دراصل خودکواپنی محبوبہ کی بانہوں میں دیکھنے کے آرزومند نظرآتے ہیں۔
اخترالایمان نے اپنی شاعری بالخصوص نظموں میں اپنی زندگی ، عہداورمعاشرے سے وابستہ ہرقسم کے موضوعات سے متعلق خیالات اور جذبات کا اظہار کیاتھا۔ان کی نظمیں داخلیت اور خارجیت کا حسین امتزاج معلوم ہوتی ہیں۔ان کی یہ نظمیں سوگ،نئی صبح،قلوبطرہ،جمود،جب اور اب،اتفاق، عہدوفا، تبدیلی،دستک، پہلی کرن، تجدید، پس و پیش،دُور کی آواز، اعتماد،ایک پرتو، سکون،پکار، گردِسفرکادامن پھیلا،سرِ راہگذارے، یوں نہ کہو، سلسلے،انتظار، چلو کہ آج، شفقی، آخر شب، رخصت،میں اورتو،رزم،جانِ شیریں، سحر،نیاشہر، دعا، مامن، کتبہ، وقت کی کہانی،بے تعلقی، ایک لڑکی کے نام، تسکین،کل کی بات، ایک بات، برندابن کی گوپی،بیٹے نے کہا،فاصلہ،بے چارگی، خودفریبی، دوپربت، نادیدہ،دوسراسوال، نیندکی پریاں، معمول، تفاوت،بیداد، رابطہ،شیشہ کا آدمی، مُداوا،قدرِ مشترک،پیمان، جلا وطن، گریز، تادیب، نیا آہنگ،مرگ ِنغمات،ایک کیفیت، لطیفہ، توکل، تضاد،دن کا سفر،حسن پرست، صبح کاذِب، الٹے پائوں والے لوگ،اوراب سوچتے ہیں،گُریزپا، کفارہ،بازگشت، خمیر، اچانک، عذاب،نہ مرنے والا آدمی، مکافات،بندکمرہ، جمالِ ہم نشیں،حرف ِتمنّاء،صریرخامہ،مداوا،نقل ِمکاں،نروان، گرم ہوا، سترویں سالگرہ، بازگشت، بچھڑاہوا آدمی، نجات، تشخیص،ماضی استمراری، پشیمانی، خلا، گرگٹ اورنیازوغیرہ ان کی زندگی،عہداورمعاشرے سے وابستہ ہرقسم کے موضوعات کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں اور ان کا اندازِ بیان انفرادی خصوصیات کا حامل ہے۔ان تمام نظموں کی طوالت چار سے تیرہ مصرعوں تک محیط ہے، لیکن معنویت کے اعتبار سے یہ نظمیں ایک وسیع جہانِ معانی اپنے اندرسموئے ہوئے ہیں۔ اخترالایمان کی نظمیں اردوشاعری میں اپنے منفرد انداز اسلوب اورمعنوی گہرائی وگیرائی کے سبب نمایاں مقام کی حامل ہیں۔اخترالایمان نے نظم کا جو فن اوراندازاسلوب اردوشاعری کو دیا تھا،وہ انھیں اردوشعر وادب کی تاریخ میں تاقیامت زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے۔
حواشی اورحوالے
(۱)۔شمشادجہاں،ڈاکٹر،اخترالایمان کی نظم نگاری،کتابی دنیا:دہلی،۲۰۰۶ء،ص۵
(۲)۔اخترالایمان،کلیاتِ اخترالایمان،مرتبین ،بیداربخت ،سلطانہ ایمان،آج: کراچی، ۲۰۰۰ء، ص۳۰
(۳)۔ایضاً، ص۵۸
(۴)۔ایضاً، ص۶۱
(۵)۔ایضاً، ص۸۴
(۶)۔عقیل احمد صدیقی،جدیداردونظم:نظریہ وعمل،بیکن بکس:لاہور،۲۰۱۴ء،ص۳۰۵
(۷)۔اخترالایمان،کلیاتِ اخترالایمان، ص۳۱
(۸)۔ایضاً، ص۳۶
(۹)۔شکیل الرحمن،ڈاکٹر،اخترالایمان..جمالیاتی لیجنڈ،اردومرکز:عظیم آباد، ۱۹۹۷ء،ص۱۸
(۱۰)۔اخترالایمان،کلیاتِ اخترالایمان،ص۳۳۳
(۱۱)۔شکیل الرحمن،ڈاکٹر،اخترالایمان..جمالیاتی لیجنڈ،ص۱۱
(۱۲)۔اخترالایمان،کلیاتِ اخترالایمان،ص۴۶۶
(۱۳)۔شمشادجہاں،ڈاکٹر،اخترالایمان کی نظم نگاری،ص۱۳۹
(۱۴)۔اخترالایمان،کلیاتِ اخترالایمان، ص۱۶۲
(۱۵)۔شکیل الرحمن،ڈاکٹر،اخترالایمان..جمالیاتی لیجنڈ،ص۴۸
(۱۶)۔اخترالایمان،کلیاتِ اخترالایمان،ص۱۶۹
(۱۷)۔شکیل الرحمن،ڈاکٹر،اخترالایمان..جمالیاتی لیجنڈ،ص۴۷
(۱۸)۔اخترالایمان،کلیاتِ اخترالایمان،ص۳۷۲
(۱۹)۔ایضاً، ص۳۹۱
(۲۰)۔ایضاً، ص۴۰۷
حوالے
(۱) (خطبہ صدارت۔۲۲ فروری ۱۹۸۱ء بموقع تقریب اشاعت ’’گردراہ‘‘
زیر اہتمام ہمدرد کراچی۔۱۹۸۱)
(۲) (ایک عہد آفریں کتاب۔ انجم اعظمی ص۲۲۴)
(۳) (اختر حسین کی گردراہ۔ محمد خالد اختر۔ افکار کراچی ،مئی ۱۹۸۶ء ۳۳۵
(۴) (’’گردارہ ایک مطالعہ عبید اللہ قدسی۔ افکار کراچی ،مئی۱۹۸۶ء
ص۔ ۲۴۴)
(۵) (گرد راہ اختر حسین رائے پوری۔ص۔ ۱۳-۱۲)
(۶) (’’گردراہ‘‘۔ اختر حسین رائے پوری ص۔ ۱۴)
Leave a Reply
Be the First to Comment!