ڈاکٹر خواجہ عبدالحمید یزدانی بطور مبصر

 نائلہ عبدالکریم

وفاقی اردویونیورسٹی اسلام آباد

nailakarim7@gmail.com

Abstract

 Dr khawaja Abdul Hameed yazdani is the beginning of his literary career, his critical insight to improve according to the philosphy of universlism and knowledge of the persion and urdu literature. Due to the transit of persion  and urdu language, he discuss  difficult , tough and literary o informative issued, into so easy particles  and that reader does get real knowledge about subject. Therefore in this article, Dr Khawaja Abdul Hameed yazdani dicussed as  commentator:

 key words:

Easy understanding , vivid behavior, leading and wise comments.

خلاصہ

 ڈاکٹر خواجہ عبدالحمیدیزدانی نے اپنی ادبی زندگی کے آغاز سے ہی اپنی تنقیدی بصیرت، عالمگیریت اور علم  پروری کے باعث اردو ، فارسی ادبیات میں مبصر کی حیثیت سے اپنا لوہا منوایا۔ اردو فارسی زبان پر عبور ہونے کی وجہ سے وہ مشکل اور دقیق علمی و ادبی مسائل کو تبصرے کے ذریعے اس قدر آسان پیرائے میں بیان کرتے ہیں کہ موضوع کی اصلیت قاری پر کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ لہٰذا اکیسویں صدی کے چند بڑے مبصرین میں سے ڈاکٹر خواجہ عبدالحمید  یزدانی کا منفرد مقام و مرتبہ ہے۔ لہٰذا اس مقالے میں ڈاکٹر خواجہ عبدالحمید یزدانی کو بطو ر مبصر زیر بحث لایا گیا ہے۔

 کلیدی الفاظ: آسان فہم اسلوب، غیر جانبدار رویہ، جامع و وقیع تبصرے۔

 ڈاکٹر خواجہ عبدالحمید یزدانی ہمہ جہت شخصیت کے حامل انسان ہیں۔ ان کی پہچان نہ صرف مبصر کی حیثیت سے ہے۔ بلکہ وہ بہترین محقق، نقاد، اقبال شناس، و غالب شناس بھی ہیں۔ اکیسویں صدی کے چند بڑے مبصرین میں ان کا شمار بھی ہوتا ہے۔ مبصرین میں ان کی فوقیت اقبال کے اردو و فارسی کلام کے شارح ہونے کی وجہ سے بھی ہے۔ کیونکہ انہوں نے اقبالیات کے موضوع پر لکھی جانے والی کتابوں پر جو تبصرے کیے۔ اس سے ان کی تحقیقی و فکری کاوش نمایاں ہوتی ہے۔ اور اسی پر انہوں نے بھر پور طریقے سے علمی حلقوں کی طرف سے داد تحسین بھی حاصل کی۔ ان کے تبصروں سے حیات و افکار اقبال کے نئے نئے گوشے سامنے آئے۔ اگر غور کیا جائے تو ڈاکٹر خواجہ عبدالحمید یزدانی کے تبصروں سے ہمیں ان کے وسعت مطالعہ کا اندازہ ہوتا ہے۔یزدانی کے تبصروں میں چار تبصرے ایسے ہیں۔ جنہیں معاصر ادبی تحقیق میں ایک زندہ تحریر کی حیثیت حاصل ہے۔ اور جن سے بحث و تمحیص کے در وا ہوئے۔ وہ اس طرح ہیں:

 (۱) میزان اقبال  پروفیسر محمد منور

 (۲) حیات اقبال کی گمشندہ کڑیاں  محمد عبداللہ قریشی

 (۳) اقبال اور مسلک تصوف  ابواللیث صدیقی

 (۴) ملفوضات اقبال مرتبہ ابواللیث صدیقی

 ان مذکورہ کتابوں پر ڈاکٹر خواجہ عبدالحمید یزدانی کے اعتراضات کم اور مثبت پہلو جن سے تحریروں کے پیچھے جو جذبہ کارفرما ہے۔ اس سچ تک رسائی زیادہ حاصل ہوتی ہے۔ انہوں نے بطور مبصر جس تحقیقی نگاہ سے حقائق کی پردہ کشائی کی ہے۔ اس سے ان کا موقف واضح ہوتا ہے۔ انہوں نے صاف اور واضح الفاظ میں لکھا ہے کہ

’’میری کوشش یہ رہی ہے۔ کہ موضوعات و مطالب کو فلسفیانہ  موشگافیوں میں پڑے بغیر سیدھی سادھی زبان میں پیش کیا جائے۔ تاکہ عام قاری بھی اس سے کماحقہ استفادہ کرسکے۔‘‘(۱)

 ایک ایسا محقق جس نے ہمیشہ دوسروں کو آسان فہم علم پہنچانے کے لئے سچی اور کھری بات ایسے عمدہ انداز میں بیان کی ہو۔ کہ جس سے علمی ابہام کا ازالہ ہوتا ہو اور حقیقت کے خدوخال اپنی اصلیت قائم رکھتے ہوں۔ ایسی بصیرت کا اعتراف کر لینا ہی ضروری ہوتا ہے۔ چنانچہ منصورہ احمد اردو نظم کی خوبصورت شاعرہ ہیں۔ جن کا’’ فنون‘‘ کے دفتر آنا جانا رہتا تھا۔ اور ڈاکٹر خواجہ عبدالحمید یزدانی کی منصورہ احمد سے ملاقات ’’فنون‘‘ کے دفتر میں ہی ہوئی تھی: وہ ڈاکٹرخواجہ عبدالحمید یزدانی کے بارے میں کہتی ہیں:

’’ڈاکٹر صاحب بہت خوش طبع انسان ہیں۔ حس مزاح بہت زیادہ ہے۔ عمروں کے تفاوت کے باوجود دوستانہ سطح پر بات کرتے ہیں، فارسی اردو کام پر دسترس ہے۔ فاضل محقق، ادیب اور تبصرہ نگار ہیں۔ علمی و ادبی حلقوں میں ان کا بڑا نام ہے۔‘‘(۲)

 ڈاکٹر خواجہ عبدالحمید یزدانی کا ایک کمال یہ بھی ہے کہ وہ نہ تو کسی سے مرعوب ہوتے ہیں اور نہ ہی کسی کو مرعوب کرتے ہیں۔ بلکہ خاموشی سے اپنا کام کرتے چلے جاتے ہیں۔ وہ ادب میں سنسنی کے بھی قائل نہیں۔ بلکہ حقائق کی روشنی میں زیر نظر امور کا جائزہ لیتے ہیں اور واضح انداز میں اپنے فکری رویے کا اظہار کر دیتے ہیں۔ اس کی ایک مثال ’’میزان اقبال‘‘ جو کہ پروفیسر محمد منور کی تصنیف ہے۔ جس پر ڈاکٹر خواجہ عبدالحمید یزدانی نے تبصرہ کرکے کتاب کے چیدہ چیدہ پہلوئوں پر ایسے مدبرانہ انداز میں روشنی ڈالی کہ جس سے کتاب پڑھے بغیر اس میں شامل علمی و ادبی مقالات سے شناسائی حاصل ہو جاتی ہے۔ شروع میں پروفیسر محمد منور کی مختصر دو چار لائنوںمیں تعریف دے کر مذکورہ کتاب کا تعارف اور محمد منور کے تمام مقالات کا بعنوان ایسے خلاصہ بیان کیا۔ کہ جس سے پروفیسر محمد منور کے لکھنے کا مقصد اور ان کی اقبال  سے وابستگی صریح اور بلیغ طریقے سے بیان ہوگئی۔ پروفیسر محمد منور کی علمی و ادبی خصوصیات بھر پور طریقے سے اجاگر کرتے ہوئے کچھ غیر ضروری مواد کی نشاندہی ایسے عمدہ پیرائے میں کرتے ہیں کہ جس سے مصنف کو طنزیہ چبھن محسوس نہیں ہوتی۔ ڈاکٹر خواجہ عبدالحمید یزدانی نے محمد منور کی ادبی تخلیقات کے حوالے سے یو ں اظہار خیال کیا۔

’’دو ایک جگہ انہوں نے ازراہ تفنن غالباً اپنی خوش مزاجی کے سبب کچھ ایسے جملے لکھ دیئے ہیں۔ جو اس قسم کی سنجیدہ تحریروں میں غیر ضروری معلوم ہوتے ہیں۔‘‘(۳)

 مگر ڈاکٹر خواجہ عبدالحمید یزدانی نے ان جملوں کی نشاندہی نہیں کی کہ جس سے پروفیسر محمد منور کی علمی حیثیت کے حوالے سے منفی پہلو قاری کے سامنے آئے۔ بلکہ مجموعی طور پر وہ مصنف سے متعلق ایک اچھی رائے ہی پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ حالانکہ ڈاکٹر خواجہ عبدالحمید یزدانی نے مذکورہ بالا اقتباس میں جو اعتراض کیا ہے وہ محض دعویٰ نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے ایسی سچائی ہے۔ جو اپنے لحاظ سے کافی و شافی ہے۔اور جو مصروفیت سے دور نہیں ہے مگر اس تبصرے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ امر واقع کے بہ طور ایک تلخ حقیقت کی طرف اشارہ کر دیا جائے۔ بہ نسبت تلخ لہجے کے تو زیادہ بہتر ہے اور ڈاکٹر خواجہ عبدالحمید یزدانی نے ایسا ہی کیا ہے۔ اور آخر میں اچھے تاثرات سے ہی نوازا اور ڈاکٹر خواجہ عبدالحمید یزدانی کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے یوں اظہار خیال کرتے ہیں:

’’بہرحال کتاب زیر تبصرہ مجموعی طور پر ایک بے حد دلچسپ کتاب اور مطالعہ اقبال کے لیے مفید ماخذ ہے۔ اسمیں خاص قاری کے علاوہ عام قاری اور طالب علم کے لیے بھی علامہ کے فن کے بارے میں جاننے کے واسطے مناسب مواد موجود ہے۔‘‘(۴)

 دراصل ڈاکٹر خواجہ عبدالحمید یزدانی کے ہاں انتہا پسندی اور جارحیت کا عمل دخل نہیں۔ وہ جملہ بازی کے بھی قائل نہیں۔ ان کی تنقید حیرت زدہ نہیں کرتی۔ بلکہ فکری دریچے وا کرتی ہے۔ اس لیے انکا نکتہ نظر ہمیشہ بہتر رہتا ہے۔ دوسرا تبصرہ محمد عبداللہ قریشی کی تصنیف ’’حیات اقبال کی گمشدہ کڑیاں‘‘ ہیں۔ اس تبصرے میں ڈاکٹر خواجہ عبدالحمید یزدانی نے محمد عبداللہ قریشی کو بطور اقبال شناس متعارف کروانے کے بعد جامع الفاظ میں کتاب کے اہم نکات پر روشنی ڈالی۔ کل آ ٹھ مقالات کا ایسا نچوڑ پیش کیا۔ کہ اصل کتاب پڑھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ بلکہ آسان اور مختصر انداز بیان سے مبہم اور پیچیدہ جملوں کی وضاحت کرکے مذکورہ کتاب کے لکھنے کا مقصد بیان کیا۔ اور انہوں نے اپنی تنقیدی تحریروں میں وہی کچھ بیان کیا۔ جو ان کو ٹھیک لگا۔ ان میں سچ کہنے اور لکھنے کا حوصلہ موجود ہے۔ چنانچہ وہ غیر جانبداری سے تبصرے کرتے ہوئے موضوع کو اپنی ذہنی بالیدگی اور فکری تازگی سے زندہ کر دیتے ہیں۔ لکھنے سے بیشتر خوب غور و فکر سے کام لیتے ہیں۔ اور بات کو بے جا طوالت میں الجھائے بغیر متانت اور سنجیدگی سے اپنا ماضی الضمیر اپنے قارئین تک پہنچا دیتے ہیں اور اعتراضات سے پرہیز برتتے معلوم ہوتے ہیں وہ تلخ حقیقت کو بھی مثبت انداز میں پیش کرتے ہیں۔ وہ کسی بھی فنکار کی اہمیت اور مرتبے سے متاثر ہوئے بغیر اپنا کام کرتے ہیں اور اس سلسلے میں کسی قسم کی ڈپلومیسی سے کام نہیں لیتے۔ مذکورہ کتاب کے حوالے سے تبصرے میں ان غیر دلچسپ نکات کی نشاندہی نہیں کی گئی۔ جو قاری کے لئے بوریت اور تشنگی کا باعث تھے۔ اور حسب معمول کتاب کو داد تحسین ان الفاظ میں دیتے ہیں:

’’غرض ’’حیات اقبال کی گم شدہ کڑیاں‘‘ ہر لحاظ سے ایک اہم اور مفید مستند حوالے کی کتاب ہے۔ جسے مصنف کی شگفتگی تحریر نے دلچسپ و دلپزیربنا دیا ہے۔ بزم اقبال سے یہ گزارش بے جا نہ ہوگی کہ اس قسم کی کتابوں کا اشاریہ آج کی اہم ضرورت ہے جسے پورا کرنا عین مناسب ہوگا۔‘‘(۵)

 ڈاکٹر خواجہ عبدالحمید یزدانی ایک وسیع المطالعہ شخص ہیں۔ وہ ناصرف زبان و ادب سے واقف بلکہ ادب کی گہری بصیرت بھی رکھتے ہیں۔ ایک مبصر کے لیے ضروری ہے کہ اس میں تنقیدی نگاہ کے ساتھ ساتھ محققانہ اوصاف بھی موجود  ہوں۔ اور جہاں تک اردو کی ادبی تحقیق کا تعلق ہے۔ تو اس کا بھی یہی مقصد ہے کہ جن مصنفین، جن ادوار جن علاقوں، جن کتابوں اور متفرق تخلیقات کے بارے میں کم معلوم ہے۔ ان کے بارے میں مزید معلومات حاصل کی جائیں۔ اور ان کے بارے میں اب تک جو کچھ معلوم ہے۔ اس کی جانچ پڑتال کرکے اس کی غلط بیانیوں کی تصحیح کر دی جائے۔ تاکہ غلط مواد کی بنا پر غلط فیصلے صادر نہ کر دئیے جائیں۔ ڈاکٹر خواجہ عبدالحمید یزدانی جنہو ں نے اپنی محققانہ بصیرت سے اردو ذخیرے میں اضافہ کرکے اردو زبان و ادب کی خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ان کی تحقیقی صلاحیت نے ان کو بحیثیت مبصر وہ مقام و مرتبہ عطا کیا کہ ان میں تحقیقی و تنقیدی نقطہ اتصال کے شعور سے ان کو مستند مبصر کی صف میں شامل کر دیا۔ اپنے محققانہ تبصرے سے وہ نئی معلومات اور انکشافات کرتے ہیں۔ اور پھر کوئی نمونہ پیش کرتے ہیں جو ان کی مبصرانہ عرق ریزی کا منہ بولتا ثبوت ہوتا ہے۔ اسی طرح وہ اقبال اور مسلک تصوف‘‘ ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی کی تصنیف ہے۔ اس پر ڈاکٹر خواجہ عبدالحمید یزدانی نے تبصرہ کرتے ہوئے یہ بتانے کی کوشش کی ہے۔ کہ مصنف نے  اس میں  ہندی، ایرانی، یونانی اور اسلامی پس منظر اور اقبال کے حوالے سے مسلک تصوف اور صوفیائے کرام اور نفسیاتی و فکری پہلو کے حوالے سے تصوف پربحث کی ہے۔ مبصر نے کتاب لکھنے کے اسباب اور صوفیانہ نظریہ حیات ایسے عمدہ انداز میں بیان کیا کہ جس سے کتاب کے اہم عناصر تک قاری کی رسائی ہوتی ہے، معروف ایرانی مفکر زرتشت کے بارے میں مثبت رائے سامنے لائے ہیں۔ کہ ان کی تعلیمات بھی مثبت ہیں۔ اور ان میں کچھ منفی نہیں۔ وحدت وجودی کے سلسلے میں ویدوں کا ذکر ہے۔ حکیم ابمفی ڈوکلیس کے حیات انسانی سے متعلق نظریات، ڈارون کے نقطہ نظر کے حوالے سے بات مثنوی مولانا روم سے انسان تک کے ارتقاء کی منزلیں اور پھر بعض دوسرے شارحین کی الگ توجیہہ و توضیع اور قرآنی آیات کے ترجمے کے حوالے سے تمام بحث ایسے جامع پیرائے میں شامل کی ہے۔ کہ پوری کتاب پڑھنے کی بجائے یہ تبصرہ پڑھ کر اندازہ ہو جاتا ہے کہ تصنیف کس موضوع پر ہے۔ اور کن چیزوں کو دائرہ بحث میں لایا گیا ہے۔ کچھ ایسی منفی آراء جیسے صوفیا کی خانقاہ نشینی کو عیسائی راہبوں سے مماثلت دی گئی ہے۔ کی تردید بھی دے کر تصوف کی حقیقت جو ابو اللیث صدیقی نے بیان کی ہے کو جامع اور مختصر انداز میں تحریر کرکے حقیقت کے اہم نکات پیش کیے ہیں۔ تمام صوفیا کے اقوال اور تصوف سے متعلق آراء کو مختلف ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اور بات ہر باب کا نچوڑ نکال کر پیش کی گئی ہے جہاں جہاں جس چیز کی کمی ہے۔ ڈاکٹر خواجہ عبدالحمید یزدانی نے تنقیدی نگاہ سے کام لیتے ہوئے اس کا بھی ذکر کیا ہے۔ باب اول کی فصل سوم کے بارے میں کہتے ہیں:

’’اگرچہ برصغیر پاک و ہند میں تاریخ تصوف اسلام ہے۔ لیکن اس میں مذکورہ تاریخ کا عنصر بہت کم ہے۔ البتہ فصل کا پیشتر حصہ ’’کشف المحجوب‘‘ کے مختلف ابواب کے خلاصے اور ان سے متعلق بحث پر مشتمل ہے۔ اور زیادہ تر برصغیر سے باہر کے تصوف کی تاریخ کو جس سے ماقبل فصول میں بحث کی جا چکی ہے۔ دہرایا گیا ہے۔(۶)

 لہٰذا ڈاکٹر خواجہ عبدالحمید یزدانی کے اس نقطہ نظر سے اندازہ ہوتا ہے۔ کہ ان میں مضبوط قوت اظہار کی صلاحیت موجود ہے۔ وہ بحیثیت مبصر اپنی بات ایسے ڈھنگ اور سلیقے سے کرتے ہیں کہ مشکل اور ادق علمی و تنقیدی مسائل کو آسان اور عام فہم بنا دیتے ہیں۔ قاری کو موضوع کی پیچیدگی کا ذرا سا بھی احساس نہیں ہوتا۔ وہ ایک صاف گو انسان ہیں۔ اس لیے نہ ہی کسی کی خوشامد کرتے ہیں۔ اور نہ مروتاً کسی کے بارے میں کچھ اضافی کہتے ہیں۔ بلکہ جو محسوس کرتے ہیں۔ وہی جرأت کے ساتھ نوک ـقلم پر لے آتے ہیں وہ کسی کے مرتبے یا عہدے سے متاثر ہوئے بغیر اپنا کام کرتے ہیں۔ اور اس سلسلے میں کسی قسم کی ڈپلومیسی سے کام نہیں لیتے۔ وہ بوجھل اور مشکل الفاظ کی بھرمار نہیں کرتے۔ سادگی و روانی ان کی تحریروں میں بدرجہ اتم موجود ہے۔ ’’ملفوضات اقبال‘‘ کے مرتب ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی ہیں۔ اس کتاب کی ضخامت ۴۴۱ہے۔ اس پر تبصرہ ڈاکٹر خواجہ عبدالحمیدیزدانی نے کیا ہے۔ اس کتاب کے تبصرے میں ڈاکٹر خواجہ عبدالحمید یزدانی نے معلومات زیادہ فراہم کیں ہیں۔ جبکہ بحیثیت مبصر وہ مفقود نظر آتے ہیں۔ سب سے پہلے وہ اس انجمن کا تعارف کرواتے ہیں۔ جس کے تحت ’’ملفوظات اقبال‘‘ منظر عام پر آیٔ۔ جبکہ جو ایڈیشن ڈاکٹر خواجہ عبدالحمید یزدانی کے ہاتھ لگا۔ وہ تیسرا ایڈیشن تھا۔ جو حواشی و تعلیقات کے ساتھ مرتب ہوا۔اور اسے علامہ اقبال کی صد سالہ تقریبات پر اقبال اکادمی پاکستان لاہور نے شائع کیا تھا۔ اس کے بعد وہ ان تمام شخصیات کے نام قلمبند کرتے ہیں۔ جن کے اس کتاب میں مضامین شامل تھے۔ لفظ ’’ملفوضات‘‘ کے معنی دینے کے بعد وضاحت کرتے ہیں۔ کہ اصل میں ملفوضات کا لفظ کن معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ پھر کتاب کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس میں علامہ کی شخصیت اور الفاظ کا پر تو ایسے عمدہ انداز میںملتا ہے کہ آنکھوں کے سامنے منظر گھوم جاتا ہے۔ ’’انا الحق‘‘ کا معنی و مفہوم بیان کرتے ہیں۔ اور ابن عربی، بیدل اور ہیگل کے بارے میں لکھتے ہیں کہ جو ان کے جال میں ایک دفعہ پھنس جاتا ہے۔ اس کا نکلنا مشکل ہوتا ہے۔ حضرت علامہ کے بارے میں فرماتے ہیں۔

’’حسن کے وقت تک اردو بادشاہوں میں کافی ژولیدہ بیانی پیدا ہو چکی تھی۔ یا تو کچھ کہنا ہی نہیں چاہتے تھے۔ یا کہنا چاہتے تھے تو کہہ نہیں سکتے تھے۔ بلکہ جو بزرگوار کچھ کہنا چاہتے تھے۔ ان کے کلام میں بھی ایک خاص قسم کی ژولیدہ گفتاری ہے۔ جو ذہنی ژولیدگی اور پریشان فکری کی خبر دیتی ہے۔‘‘(۷)

 ان ساری معلومات کے بعد حواشی و تعلیقات کے بارے میں دو چار لفظوں میں وضاحت دیتے ہیں۔ کہ ان میں تقریباً تمام ضروری معلومات دی گئی ہیں۔ اور حسب معمول آخر پر یہی انداز کہ یہ کتاب بہت مفید ہے۔ اور اس میں علامہ مرحوم کی تصانیف وغیرہ کا ریکارڈ بھی ملتا ہے۔ مگر ڈاکٹر خواجہ عبدالحمید یزدانی نے کسی جگہ بھی پر نہیں لکھا کہ اس کتاب میں یہ چیز ایسے نہیں ویسے ہونی چاہئے تھی۔ سب ٹھیک سب ٹھیک کہہ کر مصنف سے مکمل متفق نظر آتے ہیں۔ انہیں مصنف سے بالکل بھی اختلاف نہیں ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے۔ تو ان کا تبصرہ یکطرفہ محسوس ہوتا ہے۔ تنقیدی انداز سے کام نہیں لیا گیا۔ تاہم پھر بھی ان کی دیانت داری پر اس وجہ سے شک نہیں کیا جاسکتا کہ انہیں نوے فیصد اگر کام اچھا لگا ہے۔ تو دس فیصد جو پسند نہیں ایا ہوگا۔وہ اسے خاطر میں نہیںلائے۔ کیونکہ اکثریت ہی ہمیشہ غالب رہتی ہے۔ باقی واللہ اعلم۔

 ویسے تو ڈاکٹر خواجہ عبدالحمید یزدانی کا سب سے بڑا امتیاز ستائش کی تمنا اور صلے کی پروا سے بے نیاز تلاش حق میں سرگرداں رہناتھا۔ اپنے تحقیقی سفر کے آغاز سے ہی ڈاکٹر خواجہ عبدالحمید یزدانی نے ایک مشکل طریقے کو چن لیا تھا۔ اور وہ یہ کہ جس بات کو انہوں نے غلط سمجھا اس کی بروقت گرفت کی۔ اور جو درست تھا اسے خواہ مخواہ اپنی بڑائی کے چکر میں غلط نہیں کیا۔ اور اس سلسلے میں انہوں نے دیدہ دلیری سے کام لیا۔ اور کبھی مصلحت کی پرواہ کی اور نہ تعلقات کا پاس رکھا۔ ڈاکٹر خواجہ عبدالحمید یزدانی نے احتساب کی اس روایت کو قائم رکھا۔ جو ان کو اپنے جید اساتذہ ڈاکٹر سید عبداللہ اور ڈاکٹر وحید قریشی سے ملی تھی۔ یوں انہوں نے اپنے طرز تحقیق سے اس بات کا ثبوت دیا۔ کہ ہمیشہ حق بات کی حرمت کو باقی رکھا جائے۔ اس سلسلے میں دیکھا جائے تو پروفیسر محمد منور کوئی معمولی شخصیت نہیں تھی، ان کا شمار بھی ان لوگوں میں تھا۔ اردو ادب کی طنابیں جن لوگوں کے ہاتھ میں تھیں۔ لیکن وہ ان سے مرعوب ہوئے بغیر غلط کو غلط کہہ گئے۔ یہ ایک ایسی گرفت تھی جس کی کڑواہٹ اور تلخی بھی محسوس ہوسکتی تھی۔ مگر ڈاکٹر خواجہ عبدالحمید یزدانی کا تبصرہ ایسی سچائی پر مبنی ہوتا ہے۔ جو ناپسندیدگی کے باوجود بھی دل میں گھر کر جاتا ہے۔ اور سچ چاہے کڑوا ہی ہو۔ مصنف میں برداشت کا مادہ پیدا ہو جاتا ہے۔ کیونکہ ڈاکٹر خواجہ عبدالحمید یزدانی کے تبصرے سہل نگاری، کم علمی اور غلط نگاری کا بھرم کھول دیتے ہیں۔ ساتھ ہی ان تبصروں میں تحقیق کے اعلیٰ اصولوں اور اس کے صحیح طریق کار کا عرفان حاصل ہو جاتا ہے۔ کیونکہ ڈاکٹر خواجہ عبدالحمید یزدانی نے تبصروں میں پے درپے اعتراضات کی بھر مار نہیں کی۔ بلکہ یہ بھی بتایا ہے کہ جو کچھ لکھا گیا ہے وہ اگر درست نہیں ہے تو صحیح کیا ہونا تھا۔ چنانچہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ وہ ایک اچھے مبصر ہیں۔ جن میں مدبرانہ و مبصرانہ صلاحیتیں بدرجہ اتم موجود ہیں۔(۷)

حوالہ جات:

1۔ خواجہ عبدالحمیدیزدانی، ڈاکٹر ’’بیابہ مجلس اقبال‘‘ بزم اقبال لاہور، ۱۹۸۷، ص ۱

2۔ فاطمہ جبیں، مقالہ نگار ’’ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی (حیات اور ادبی کارنامہ‘‘ مقالہ برائے ایم۔ اے اردو۔ اورٹینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور، ۲۰۰۲، ۱۶۲

3۔ خواجہ عبداحمید یزدانی، ڈاکٹر ’’بیابہ مجلس اقبال‘‘ ص، ۲۶۴

4۔ ایضاً۔

5۔ ایضاً، ص، ۲۵۵

6۔ خواجہ عبدالحمید یزدانی، ڈاکٹر ’’علامہ اقبال کی پسندیدہ شخصیات‘‘ سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور ۲۰۰۸، ص ۲۴۲

7۔ ایضاً، ص: ۲۴۷

٭٭٭

Dr.Khawaja Abdul Hameed yazdani as commentator

by:Naila Abdul karim

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.