کشمیرمیں لکھے گئے اردو ناولوں میں خواتین کے جنسی استحصال کی عکاسی
ڈاکٹر محمد سلیمان
گورنمنٹ ڈگری کالج مہانپور،کٹھوعہ
9149580173
msuliman933@gmail.com
وجودِ زن سے اگرچہ تصویر کائنات میں رنگ ورونق،خوبصورتی اور چہل پہل قائم ہے۔عورت چراغ بن کر بزم کائنات کو روشن کرتی ہے لیکن پھر بھی چراغ کی روشنی سے مستفید ہونے والے ہی چراغ پر وار کرکے اسے بجھادیتے ہیں۔ عورت ہر دور اورہرحال میں مرد کا ساتھ دینے کے باوجودبھی طرح طرح کے مسائل اور مصائب سے دوچار ہے اورمرد عورت کا رازداں ہوکر بھی اس کوپامال اور رسوائے زمانہ کرنے کے لئے آمادہ ہے۔انسان کے تہذیبی پسِ منظر کو اگر غور سے دیکھا جائے تو عورت صدیوں سے سماجی ظلم و ستم اور جبر واستحصال کا شکار رہی ہے۔دنیا میں قدم رکھنے سے پہلے ماں کے بطن سے ہی عورت کے مسائل شروع ہو جاتے ہیںعصرِ حاضر میں مادہ پرستی کا دور دورہ ہے ،انسان اشرف المخلوق کے درجہ سے گر کر نہایت خود غرض اور مکار بن گیا ہے۔ ان حالات میں ایک عورت میں احساسِ کمتری، عدم تحفظ اور غیر یقینیت کا ایک احساس پیدا ہوا ہے۔
اٹھارہویں صدی عیسوی کے آخر میںخواتین کے مسائل کولے کر مغرب میں تانیثیت کی تحریک (Feminism)چلی۔ پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اردو ادب میں بھی تانیثیت کی تحریک کا آغاز ہوا اورخواتین کے مسائل کو اجاگر کیا گیا۔ہندوستان میں آزادی کے بعد عورتوں کی سماجی ،قانونی ،سیاسی اور تعلیمی حیثیت میں غیرمعمولی تبدیلی رونما ہوئی۔لیکن آج بھی ان کے لئے حالات حوصلہ افزا نہیں ہیں۔اگرچہ آئین میں خواتین کے لئے برابری کے حقوق اور مواقع کا ذکر کیا گیا ہے۔لیکن بعض حقوق محض رسمی اور کاغذی ہوکر رہ گئے ہیں اور ہر سطح پرخو اتین کے ساتھ نا انصافی ،حق تلفی ،نابرابری اور استحصال جاری ہے۔
کسی بھی سماج میں سماجی حیثیت کے تعین میں معاشی کرداراہم رول ادا کرتا ہے۔ہمارے سماج میں بھی عورتوں کے پچھڑے پن اور ان کے ساتھ ناروا سلوک کی سب سے اہم وجہ معاشی پسماندگی ہے۔اور ان کے اندر یہ احساس پیدا کردیا جاتا ہے کہ ان کا دائرہ عمل گھر اور اس کی چہار دیواری ہے۔روزگار میں لگی عورتوں کی حالت بھی زیادہ بہتر نہیں ہے۔اول تو روزگار کے میدان میں صرف چودہ فیصد عورتوں کو ہی روزگار حاصل ہے۔ان میں سے بھی بیشتر غیر منظم سیکٹر میں کام کرتی ہیں۔جہاں انھیں کم تنخواہ پر بدترین حالات میں کام کرنا پڑتا ہے۔
اردو ناول کے آغاز سے لے کرآج تک لکھے گئے ناولوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ اردو ناول کا ایک خاص موضوع عورت کی سماجی حیثیت اور اس سے منسوب کئی طرح کے مسائل کو ناولوں میں اجاگر کیا گیا ہے۔ڈپٹی نذیر احمد کے پہلے ہی ناول’مراۃ العروس‘ کا مقصد عورتوں کی تعلیم کے مواد کو فراہم کرنا تھا اور مجموعی طور پر عورت کو ہی موضوع بنایا۔اس ناول میں انھوں نے خاندان میں عورتوں کی اہمیت پر زور دیا ہے اور یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اچھی تعلیم و تربیت یافتہ لڑکی اپنے چاروں طرف کے ماحول کے لئے کس حد تک فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے۔ جب کہ اس کے برعکس جاہل،پھوہڑ اور بُری تربیت یافتہ لڑکی کس طرح زندگی کو جہنم بنا دیتی ہے۔عبدالحلیم شرر نے زیادہ تاریخی ناول لکھے ہیں اور ان میں عورتوں کے فعال کردار پیش کئے ہیں۔اس کے علاوہ انھوں نے جو معاشرتی ناول لکھے ہیں ان میں بھی جگہ جگہ عورتوں کے مسائل کی عکاسی کی گئی ہے۔جیسے پردہ، بے جوڑ شادی یا بغیر مرضی شادی،کثیر ازدواجی کے مضر اثرات کی نشاندہی کی گئی ہے۔
اس کے بعد ناول نگاروں کی ایک بڑی تعداد نے عورت کے مقامStatus)) کو ہندوستان کی سماجی حالت کے تناظر میں اپنے اپنے انداز میں خاص اہمیت دے دی۔مرزا ہادی رسوا ،سجاد حسین وغیرہ نے طوائف کی زندگی کو ایک نئے زاوئے کے ساتھ پیش کیا اور یہ دکھا یا کہ ایک عورت پیدائشی طور پر طوائف نہیں ہوتی بلکہ سماج کے ستم ظریفانہ حالات ہی اُسے اس دلدل میں پھنسادیتے ہیں بعد میں سماج بھی اس کے ساتھ نفرت کرتا ہے۔عورتوں کے مصور غم راشدالخیری نے سماج کی دبی کچلی عورتوں کی حالت زار کا نقشہ اپنے ناولوں میں کھینچا اور عورت کے ساتھ ہونے والی ناانصافی اور پیش آنے والے نا خوشگوارواقعات و مسائل کو بڑے درد ناک انداز میں بیان کیاہے۔پریم چند نے ہندوستانی عورت کی زندگی کے تقریباً ہر پہلو کو اپنے ناولوں میں بڑے مؤثر انداز میں پیش کیا۔انھوں نے بیوہ،بے جوڑ شادی،طوائف ،تعلیمِ نسواں اور آزادیٔ نسواں جیسے اہم مسائل کو ضبطِ تحریر میں لایا۔اسی طرح بعد میں بہت سے فکشن نگار وں نے جیسے عصمت چغتائی، سعادت حسن منٹو،راجندر سنگھ بیدی، کرشن چندر وغیرہ اور پاکستان کی کئی خواتین فکشن نگارنے بھی اپنی تخلیقات میںخواتین کے مسائل کو موضوع بنایا،کہ کس طرح ہندوستانی اور پاکستانی تہذیب میںخواتین کو طرح طرح کے مسائل اور مشکلات کا سامناکرناپڑتاہے اور پسماندگی کا شکار ہوتی ہیں۔اردو ناولوں میں عورتوں کے مسائل کی عکاسی کے بارے میں صغرا مہدی رقمطراز ہیں۔
’’عورت سے متعلق جرائم کی تعداد روزبروز بڑھ رہی ہے۔آج کی عورت کا مسئلہ اس کا تشخص اور اس کی شناخت ہے۔اس کے باوجود کہ قانوناً ان کو ہر طرح کی آزادی ہے۔مگر ان کی راہ میں طرح طرح کی مشکلات ہیں کیونکہ قانون اور سوشل ریلیٹی میں بہت فرق ہے ان مسئلوں کو اردو ناول نگار آج بہت اچھی طرح پیش کر رہے ہیں۔‘‘(اردو ناولوں میں عورت کی سماجی حیثیت،ص ۱۴۳)
مجموعی طور پر جس طرح اردو ناول کے تناظر میں عورت کی سماجی حیثیت کو پیش کیا گیا بالکل اسی طرح سے یہاں جموں و کشمیر میں لکھے گئے بہت سے اردو ناولوں میں بھی خواتین کے مسائل کو اجاگر کیا گیا ہے اور چند ایک ناول تو مکمل طور پر عورتوں کے مسائل پر ہی محیط ہیں۔جیسے نعیمہ مہجور کا ناول ’دہشت زادی‘ اور جوتیشور پتھک کا ناول’میلی عورت‘۔نعیمہ مہجور کا ناول ایک نیم تاریخی اور سوانحی ناول ہے۔جس کے متعلق پروفیسر گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں۔
’’ اس میں رسم و رواج میں جکڑی پا بہ زنجیر عورت کا درد بھی ہے۔۔۔مجھے یقین ہے کہ اس کتاب کو فقط ایک نیم سوانحی ناول کے طور پر نہیں بلکہ عورت کی پسماندگی کے خلاف ایک پُر سوز احتجاجی دستاویز اور وادی کی انسانیت پسند روحانی میراث ’ریشیت‘کی درد میں ڈوبی فریاد کے طور پر بھی پڑھا جائے گا۔‘‘ (دہشت زادی ،ص ۳)
آج کل عورت کا گھر سے باہر نکلنا بہت زیادہ دشوار ہو گیا ہے۔ عورت کی عزت و عصمت کہیں بھی محفوظ نہیں ہے۔ تقریباََہر دن کا آغاز اخبار میں چھپی سرخیوں کے ان الفاظ سے ہوتا ہے کہ کسی علاقے میں کسی عورت کے ساتھ جنسی تشدد یا اجتماعی عصمت دری کا افسوس ناک واقعہ پیش آیا۔ آج کل مبینہ طور پریا ڈرا دھمکا کربسوں،ریل گاڑیوں،ہوٹلوں،دفاتریا کھیتوں میںعورتوں کوجنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے۔ پھر یہی عورت جس کی کوئی بھی قصور نہیں ہوتا ہے ،گھر سے باہر نکل نہیں پاتی، سماج میں اس کو طرح طرح کے طعنے سُننے پڑتے ہیںغرض جتنے منہ اُتنی باتیں ہوتی ہیں۔پھرجب سماج میں ان عورتوں کا چلنا پھرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے تو کبھی کبھی یہی خواتین تنگ آکر خودکشی کرنے کے لئے مجبور ہو جاتی ہیں۔
حامدی کاشمیری کے ناول’ بلندیوں کے خواب‘ میں دو تین واقعات ایسے ہیں جن میںعورتوں کے ساتھ جنسی استحصال کی عکاسی کی گئی ہے۔ جس میںسرینگر جموں شاہراہ پر شدید برف باری اور سڑک رابطہ ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے درماندہ مسافروں کا ایک بڑا قافلہ بٹوت کے مقام پر رات گزارنے کے لئے مجبور ہوجاتے ہیں۔ ان میں سے کسی کسی کے ساتھ اپنی بیوی اور بچے بھی تھے۔مگر ان گردشِ ایام میں بھی چند بدمعاش اور بد کردار ان کی بیویوں کے ساتھ چھیڑ چھا ڑکر تے ہیں اور ان کی عزت وعصمت پر دھاوا بولنا چاہتے ہیں۔جیسے پریم کمار اور اس کی بیوی اپنی سہیلی کے پاس رات کو رُکنے کے لئے گئے تو وہاں اس کی سہیلی کے شوہر نے پریم کمار کی بیوی کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے کی کوشش کی اور وہ وہاں سے بمشکل اپنی عزت کو بچانے میں کامیاب ہوئی۔اسی طرح نامدار کی بیوی کے ساتھ بھی کچھ بد معاش منچلوں نے بہت بد تمیزی کی اور جب وہ نامدار کی بیوی کو جنسی طور پر ہراساں کر رہے تھے تو کچھ لوگوں نے اس کو بچا لیا۔ایسے ہی غلام محمد کی بیوی پر بھی ان شرابی اور بدمعاشوں کی نظر پڑی۔پیش ہے یہ اقتباس:
’’شام کو (غلام محمد) اپنے لئے اور بیوی کے لئے کھانا لانے کے لئے بازار گیا تھا اور کسی دوکان پر بیٹھا گپ بازی کر رہا تھا ،ادھر اس کی بیوی کے کمرے میں دو آدمی داخل ہوئے شراب کے نشے میں دھت ،اور لگے اس سے زبردستی کرنے،اس نے شور مچایا تو ایک آدمی نے بڑھ کر اس کے منہ میں کپڑا ٹھونسناچاہا ،عورت نے اسے کاٹ لیا۔۔۔کچھ لوگ بعد میں کہہ رہے تھے کہ انھوں نے جبراً عورت کی عصمت لوٹ لی ہے ،عورت کے چہرے پر کئی دھبے پڑ گئے تھے۔‘‘ (بلندیوں کے خواب،ص ۱۳۰ )
عمر مجید نے بھی اپنے ناول’’یہ بستی یہ لوگ‘‘ میں اس طرح کی کئی مثالیں پیش کی ہے۔جس میں اکبر اپنے محلے کی معصوم لڑکیوں کو محبت کے جال میں پھنسا کر پھر اُن کا جنسی استحصال کرتا تھا۔اکبر ان معصوم لڑکیوں کو جسم فروشی کے دھندے میں استعمال کرتا ہے۔اسی طرح اکبر نے اپنے دوست نذیر کی بہن کوبھی محبت کا جھانسا دے کر،اُس کی عزت و عصمت کا سودا جبار خان کے بیٹے نعیم کے ساتھ ایک ہزار روپئے میں طے کیا۔پیش ہے اسی ناول سے یہ اقتباس:
’’نعیم صاحب آمنہ کے لئے ایک ہزار بھی کم ہے۔چک دادا کے گلاب خان نے مجھے اس کے لئے دو ہزاردئے تھے۔تم میرے دوست ہو اسی لئے تم سے اتنا کم مانگ رہا ہوں۔۔۔اچھا جیسی تمہاری مرضی۔لیکن مجھے کب تک انتظار کرنا ہوگا۔بس۔اگلی اتوار کی رات کو آمنہ تمہارے کمرے میں پہنچ جائے گی۔‘‘ (یہ بستی یہ لوگ،ص ۱۳۶ )
وادی کشمیر میں عسکریت پسند تحریک کے دوران عورت سب سے زیادہ ظلم و زیادتی کا شکار ہوئی۔ عورت گھر کے اندر بھی اور باہر بھی اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتی تھی۔ ۱۹۹۰ء عسکریت پسند تحریک کے دوران آزادی کی لڑائی لڑنے والوں میں کچھ ایسے لوگ بھی شامل تھے جنھوں نے بندوق کا غلط استعمال کرکے ،’تحریک آزادی‘ کا ناجائز فائدہ اٹھا کر گھنائونی حرکتیں کرنا شروع کردیں،لاچار اور بے بس معصوم لڑکیوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنایا گیا،کسی نے لڑکی کو اغوا کرکے اس کے ساتھ شادی رچا لی، اسی طرح بھارتی سیکورٹی فورسز کے حمایت یافتہ حکومت نواز بندوق برداروں کی جانب سے کشمیر میںلوٹ مار،اغوا کاری،ہراساں کرنے اور روپے مانگنے کے سینکڑوں واقعات پیش آئے۔ انھوں نے بھی کسی لڑ کی کے گھر والوں کو تنگ کرکے ،ان کی لڑکی کے ساتھ زبردستی شادی کرلی۔جیسے ناول ’دہشت زادی‘ میں ایک اخوانی نے حمیدہ کی زندگی برباد کرکے اس کو چھوڑدیا،فائزہ کو اخوانیوں کے ایک سرغنہ کے ڈرکی وجہ سے جموں بھیجا گیا کیونکہ وہ بار بار ان کو تنگ کر رہا تھا ۔اسی طرح ۱۶ سالہ ایک معصوم جواں سال لڑکی پاشا جو اسد کے گھر میں کام کرتی اور گھر کے ہر فرد کا خیال رکھتی تھی ،صبح سے لے کر شام تک ان کی خدمت کیاکرتی تھی۔اس گھر میں لوگوں کا تانتا لگا رہتا تھا،اس گھر میں عسکریت پسند بھی اکثر آتے جاتے تھے اور ان میں سے کسی نے پاشا کی عصمت کو تار تار کر دیااور اسد اس برے فعل پر پردہ ڈالنا چاہتا تھا۔لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ بقولِ ناول نگار جس گھر میں عورتوں کو تعلیم حاصل کرنے پر پابندی عائد کی جاتی تھی اسی گھر میں اتنا بڑا گناہ ہوگیا کہ رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ناول نگار اس دل دوزواقعہ کو ان الفاظ میں بیان کرتی ہے:
’’کتنا تضاد ہے ہمارے قول و فعل میں جس گھر میں لڑکیوں کو حصولِ تعلیم سے روکا جاتا رہاہے اسی گھر میں سولہ برس کی غریب اور لاچار لڑکی پیٹ میں کسی کا بچہ پال رہی ہے اور گھر والے کہتے ہیں کہ زور زبردستی کرنے والے کا پتہ نہیں۔۔۔‘‘ (دہشت زادی ،ص۱۹۹)
جان محمد آزد نے بھی اپنے ناولوں میں عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں کے واقعات پیش کی عکاسی کی ہے۔جیسے آپ کے ناول’کشمیر جاگ اٹھا‘ میںجاگیردارانہ دور کے زمیندار کے کارندہ’ حشمت خان‘ کو ایک وحشی کردار کے طور پر پیش کیا ہے جو ایک درندہ صفت انسان ہے، ماہتاب کو یک و تنہا اور لاچار و بے بس پا کر اس کا جنسی استحصال کرتا رہا۔ حشمت خان نے اسے موسلا دھار بارش میں ایک حیوان کی طرح دبوچ لیا،اس کا بچہ روتا رہا ،ماہتاب بھی آہ و زاری کرتی رہی لیکن حشمت خان سارے ماحول سے بے خبر ماہتاب کی عصمت کو تار تار کرنے میں مصروف رہا۔پیش ہے اسی ناول سے یہ اقتباس:
’’حشمت خان نے اسے بانہوں میں کس لیا۔گردن،گال،آنکھیں ،ناک،ہونٹ ہر اعضاء پر بوسوں کی بارش کی ماہتاب فریاد کرتی رہی ’مجھے مار ڈالو۔لیکن مجھے اس طرح تباہ نہ کرو !‘ لیکن حشمت خان پاگل بنا ہوا تھا۔یہ ساری باتیں تو اس کا معمول تھیں۔اس نے بے قابو ہوکربے دردی سے اس کا گریباں کھینچا۔پھرن پھٹ گیااور سنگ مرمر سے تراشا ہوا بُت اس کے سامنے عریاں ہوگیا۔اس نے اسے اپنی مضبوط بانہوں میں اٹھا لیا اور ٹھنڈی ٹھنڈی زمین پر لٹا دیا!‘‘ (کشمیر جاگ اٹھا،ص ۵۲)
جموں کشمیر میں لکھے گئے ناولوں میں اس طرح کے اور بھی کئی واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں۔جیسے’ وادیاں بُلا رہی ہیں‘،’کشمیر جاگ اٹھا‘،’یہ بستی یہ لوگ‘،’اجنبی راستے‘،’بلندیوں کے خواب‘،’میلی عورت‘ ’مورتی‘وغیرہ ناولوں میں بعض ایسے واقعات بیان کئے گئے ہیں جن میںعورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی ہے۔
ترنم ریاض نے ناولٹ ’مورتی‘ میں بھی عورتوں کے جنسی استحصال کی کئی مثالیں پیش کی ہیں۔ایک بار جب فیصل زنانہ پاگل خانہ کے جیل میں قیدیوں کو کچھ کھانا لے کر گیا تو اس نے وہاں عجیب طرح کا ماحول دیکھا۔اس نے محسوس کیا کہ جیل میں پڑی عورتیں یہاں پر تعینات خدمت گاروں اور سپاہیوں کے ظلم و جبر اور ہوس کا نشانہ بنتی رہی ہیں۔یہاں تک کہ جیل کے محافظ بھی ان عورتوں کے ساتھ جنسی استحصال کرتے ہیں۔ایک عورت کے ساتھ وہیں تعینات ایک خدمت گار نے جنسی زیادتی کرکے اس کی آبرو ریزی کی۔ جس کی وجہ سے اب اُس کے پیٹ میں اسی خدمت گار کا ناجائزبچہ پل رہا تھا۔وہ چِلا چِلا کرسب کو کہتی تھی کہ یہ اسی خدمت گارکا بچہ ہے لیکن اس کی کوئی نہیں سُنتا تھا کیونکہ اُسے پاگل قراردے دیا گیا تھا۔جبکہ اس عورت کی دماغی حالت ٹھیک تھی،اس کو اپنے چچا نے زبردستی پاگل خانے میں بھرتی کروایا تھا۔اسی لئے وہ خدمت گار اپنی کرتوت چھپانے کے لئے فیصل سے کہتا تھاکہ وہ پاگل عورت ہے جو بکواس کرتی ہے۔پیش ہے یہ اقتباس:
’’وہ دیکھئے۔۔۔یہ بھی ایک نمونہ ہے۔خدمت گارنے ایک جواں سال لڑکی کی طرف اشارہ کیا جو اپنے بڑھے ہوئے پیٹ کا وزن سنبھالنے کی کوشش کرتی پاؤں دُور دُور رکھتی قریب آرہی تھی۔’’اوے۔۔۔حرام جادے۔۔۔دو جنوں کا کھانا دے نا مجھے۔۔۔نہیں تو یہ تیرا بچہ جو اٹھائے پھرتی ہوں۔۔۔مر جائے گا۔‘‘اُس نے پاس پہنچ کر زمین پر تھوک دیا۔
’جھوٹ بولتی ہے۔۔۔بے شرم جانے کس کا ہے۔۔۔اور۔۔۔‘‘
’’کس کا۔۔۔کس کا ہے یہ بچہ۔۔۔شام کو بجلی بجھانے کے بعد تو ہی تو آیا تھا میرے پاس۔۔۔(مورتی،ص ۲۷۱)
جوتیشور پتھک کے ناول ’میلی عورت ‘میں ناول نگار نے ایک دیہات کی سیدھی سادی لڑکی (چندن)کی کہانی پیش کی ہے کہ کس طرح وہ ایک معصوم لڑکی سے طوائف بن جاتی ہے۔اس ناول میں انھوں نے اس بات کا بھی انکشاف کیا ہے کہ ہر طوائف پیدائشی طور پر طوائف نہیں ہوتی۔سماج کے ستم ظریفانہ حالات بھی ان کو طوائف بننے کے لئے مجبور کر دیتے ہیں۔ ان میں سے کچھ تو طوائف کی نسل سے ہوتی ہیں اور کچھ ایسی بدنصیب اور بے سہارا لڑکیاں بھی ہو تی ہیں جو اپنی اور اپنے خاندان کی ضروریات ِ زندگی مہیا کرنے کے لئے یہ پیشہ اختیار کر نے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔چندن بھی ان ہی لڑکیوں میں سے ایک ہے ،جسے ایک مصور (راجن)نے سہارا دینے کا وعدہ کیا۔وہ مصور چندن کو اپنے ساتھ دہلی لے کے جاتا ہے لیکن مصور کے والدین نے اس لڑکی کو خوبصورت پاکر اسے طوائف سے بھی بدتر بنا دیااور اسے پیسے کمانے کا ایک ذریعہ بناکراس کے جذبات ،احساسات اور خواہشات کو کچل ڈالا۔اسے مصور(راجن) سے محبت تھی،عشق تھا اور وہ اس کی با عزت بیوی بن کے رہنا چاہتی تھی۔اس نے ایک باعزت اور خوشحال گھر میں دلہن بن کر جانے کا خواب دیکھا تھالیکن اسکے سسرال والوں اورشوہر نے تو اسے بازارکی زینت بنا دیاتھا۔چندن اس گناہوں کے دلدل سے راہِ فرار حاصل کرنے کی پیہم کوشش کرتی رہی۔جس کے لئے اُس نے راجن سے بھی مدد مانگی تھی اور رو رو کر اُسے فریاد کر رہی تھی کہ مجھے اس دلدل سے کسی طرح نکال دو۔جیسا کہ اس اقتباس سے بھی ظاہر ہو تا ہے۔
’’راجن مجھے اس گہرے کنویں سے نکال دو۔‘
’میں دلدل میں پھنس چکی ہوں‘
’میں تمہاری بیوی بن کر رہنا چاہتی ہوں ‘
مجھے ننگا نہ کرو ،بھگوان کے لئے مجھے ننگا نہ کرو‘‘ (میلی عورت،ص ۵۷ )
چونکہ جموں کشمیر کے سیاسی ،سماجی اور تاریخی حالات و مسائل ملک کی دیگر ریاستوں سے تھوڑے بہت مختلف ہیں اس لئے یہاں عورتوں کے مسائل بھی تھوڑے مختلف ہیں۔نعیمہ احمد مہجورنے اپنے ناول میں وادی کشمیرمیںعسکری تحریک کے دوران عورتوں کی پسماندگی ،بے کسی اور لاچارگی کو بڑی بے باکی کے ساتھ پیش کیا ہے۔کہ کس طرح یہاں کی عورت غلاموں جیسی زندگی گزارنے پر مجبور ہے ،کس طرح ان کے حقوق پامال کئے جاتے ہیں اور ہر قدم پر مردوں سے اجازت لینی پڑتی ہے اور ان کی خوشنودی حاصل کرنی پڑتی ہے۔ پدرانہ سماج میں مردوں کی بالا دستی سے عورت احساسِ کمتری کا شکار ہوئی ہے اور اس کی حیثیت ،عزت اور وقارکھو گیا ہے۔اس مضمون کا خاتمہ میںنعیمہ مہجور کے ناول کے اس اقتباس پر کرنا چاہتا ہوں۔:
’’ وادی میں خواتین کی شرح خواندگی پینسٹھ فی صد سے زائد ہونے کے سرکاری دعویٰ کے باوجود معاشرے میں مرد اور خاتون میں بڑی تفریق موجود ہے عورت مرد کی ذاتی جائیداد تصور کی جاتی ہے وہ کسی جائیداد کی مالک ہے نہ کوئی فیصلہ کرنے کی مجاز ہے اگرکوئی فیصلہ کربھی لے تو اس میں پہلے خاندان کے مردوں کی رضامندی لازمی ہے۔اُس کا مالک مرد ہے وہ چاہے والد ہو،بھائی ہو یا اُس کا شوہرمیں نے اپنی ساری زندگی کچھ ایسا ہی محسوس کیا۔‘‘ (دہشت زادی،ص۱۶)
تحقیق اور تخلیق میں باہمی تعلق
Tehqeeq aur Takhleeq me bahami ta’alluq
ڈاکٹررئیسہ بیگم ناز
سینٹرل یونی ورسٹی حیدرآباد
8978248068
تحقیق اور تخلیق ادب کے تینوں شعبوںتحقیق، تخلیق اور تنقید میں سے دو اہم شعبے ہیں اور ایک دوسرے سے باہم تعلق بھی رکھتے ہیںکیوں کہ تخلیق کو وجود میں آنے کے لیے کئی تحقیقی مراحل سے گذرنا پڑتا ہے اور ایک محقق کو اپنی تحقیق پیش کرنے کے لیے تخلیق بصیرت کا سہارا لینا پڑتا ہے لہٰذا تحقیق کا تخلیق سے اور تخلیق کا تحقیق سے تعلق خاطر ہے اسی لیے اس تعلق خاطر کا مختلف انداز سے مطالعہ کرنا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے۔
تحقیق لغوی معنٰی کے اعتبار سے حق کی جستجو ،کھوج ، تفتیش وغیرہ ہیں اور ڈاکٹر سید عبد اللہ کے مطابق تحقیق کے اصلاحی معنٰی یوں ہیں:
’’اصطلاحاً یہ ایک ایسے طرز مطالعہ کا نام ہے جس میں ’’موجود مواد‘‘کے صحیح یا غلط کو بعض مسلمات کی روشنی میں پرکھا جاتا ہے۔‘‘
(ادبی اور لسانی تحقیق، اصول و طریق کار،ص۔111)
بقول ڈاکٹر سید عبد اللہ تحقیق ایک طرز مطالعہ ہے جو مواد کو صحیح اور غلط جیسے مسلمات کی روشنی میں پرکھ کر حقائق دریافت کرتا ہے جس سے مواد کی بھی بازیافت ہوجاتی ہے اور نئی تحقیق کے چلتے حقائق بھی منظر عام پر آتے ہیں۔
تحقیق کے برعکس تخلیق کے لغوی معنٰی پیدا کرنا، بنانا اور خلق کرنا وغیرہ ہیں جب کہ اصطلاحی معنٰی دیکھیں تو یونگ یوں تخلیق کی تعریف کرتے نظر آتا ہے:
’’تخلیق شخصی اور اجتماعی لا شعور کے ایک کارنامے کی صورت میں ہم سے روشناس ہوتی ہے جو ذہن کی اوپری سطح اور لاشعور کی متضاد قوتوں کے اتصال سے وجود میں آتی ہے۔‘‘
(شب خون، تخلیقی عمل کیا ہے، ازمحمود ہاشمی ، شمس الرّحمٰن فاروقی، اپریل1968،ص۔7)
یونگ کے خیال میں تخلیقی عمل ایک لا شعوری عمل ہے جو ذہن کی اوپری سطح اور لا شعور کی مختلف قوتوں کے درمیان واقع ہوتا ہے جس کے نتیجے میں تخلیق وجود میں آتی ہے ‘ یہ تو ہوا تخلیقی عمل اور اس سے متعلق یونگ کا خیال، اب آئیے دیکھیں تخلیق میں پائے جانے والے مختلف عناصر کا ذکر کرتے ہوئے پروفیسر مظفر شہ میری کیا کہتے ہیں:
’’تخلیق کی ابجد یہ ہے کہ اس میں اصلیت، بصیرت ، جدت اور دلچسپی پائی جائے۔ ان چار عناصر کے بغیر تشکیل تخلیق میں نقص واقع ہوگا جو تخلیق کو بے اثر کردے گا۔‘‘
(سب رس، تدریس :ایک تخلیقی عمل، اگست2005ء،ص۔18)
پروفیسرمظفر شہ میری کی نظر میں تخلیق میں اصلیت ، بصیرت ، جدت اور دلچسپی کا ہوناضروری ہے۔
ہر فن کا کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے جس کو پانے کے لیے فنکار اس فن کو انجام دیتا ہے ٹھیک اسی طرح فن تحقیق اور فن تخلیق کے بھی کچھ مقاصد ہیں جن کو پانے کے لیے محقق اور تخلیق کار اپنے اپنے فن کو انجام دیتے ہیں۔ مقصدِ تحقیق سے متعلق پروفیسر عبد الستار دلوی کہتے ہیںدیکھیے :
’’تحقیق کا اصل مقصد فطریات یا انسانی زندگی سے متعلق مسائل کا حل تلاش کرنا ہے۔‘‘ (ادبی اور لسانی تحقیق، اصول اور طریق کار ، ص۔13)
اگر ہم تخلیق کے مقصد کے متعلق مغربی مفکر کا ڈویل کے الفاظ پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ تخلیق کامقصد زندگی کو حسین سے حسین بنانا ہے ‘تحقیق کا مقصد انسانی زندگی کے مسائل کا حل ڈھونڈنا ہے تو تخلیق کا مقصد انسانی زندگی کو حسین بنانا ہے غرض کہ دونوں ہی کا مقصد انسانی زندگی کو فائدہ پہنچانا ہے۔
پروفیسرگیان چند جین اپنی کتاب’’ تحقیق کا فن‘‘میں تحقیق اور تنقید کے رشتے پر بات کرتے ہوئے ان دونوں میں جو مماثلتیںبتاتے ہیں وہی مماثلتیں تحقیق اور تخلیق میں بھی نظر آتی ہیں ملاحظہ کیجیے :
1۔تحقیق اور تخلیق دونوں ہی ادب کے ستون ہیں۔
2۔تحقیق اور تخلیق دونوں ہی سماج کے لیے ادب کو مفید بناتے ہیں۔
3۔تحقیق اور تخلیق دونوں کا مقصد ادب میں اضافہ کرنا ہے
4۔تخلیق میں تخلیق کار اپنے جذبات اور خیالات کو پیش کرتا ہے اور تحقیق میں محقق ان جذبات و خیالات کے پس پردہ حقائق کو پیش کرتا ہے۔
آگے پروفیسر گیان چند جین نے تحقیق اور تنقید کے اختلافات بھی بتائے ہیں اگر ان پر غورکریں تو یہ اختلافات تحقیق اور تخلیق کے درمیان اختلافات معلوم ہوتے ہیں جیسے:
1۔تحقیق میں نئی دریافت پیش کی جاتی ہے۔
تخلیق میں کوئی ضروری نہیں کہ نئی دریافت ہی پیش کی جائے۔
2۔تحقیق میں روح اور آرٹ کی کھوج دوسرا درجہ رکھتی ہے۔
تخلیق میں روح اور آرٹ کی کھوج اول درجہ رکھتی ہے۔
3۔تحقیق کا عمل غیر جانبدار ہوتا ہے۔
تخلیق کا عمل جانبدار ہوتا ہے۔
4۔محقق کی اپنی کوئی پسند نہیں ہوتی ہے۔
تخلیق کار کی اپنی پسند ہوتی ہے۔
5۔تحقیق کے ذریعے محقق مسئلے کا حل دریافت کرتا ہے۔
تخلیق میں تخلیق کار کے لیے کوئی ضروری نہیں کہ وہ مسئلے کا حل دریافت کرے۔
6۔تحقیق کا موضوع پوشیدہوتا ہے۔
تخلیق کا موضوع عیا ں ہوتا ہے۔
7۔تحقیق کی زباں غیر جذباتی ہوتی ہے۔
تخلیق کی زباں جذباتی ہوتی ہے۔
8۔تحقیق میں سن او ر تاریخ کو بہت اہمیت حاصل ہوتی ہے۔
تخلیق میں سن اور تاریخ کو کوئی اہمیت حاصل نہیں ہوتی ہے۔
بہرحال تحقیق اور تخلیق میں جہاں کچھ مماثلتیں ہیں وہیں کچھ اختلافات بھی ہیں لیکن دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔
ہماری ادبی تحقیق کا بڑا حصہ تخلیقات پر مبنی ہوتا ہے اسی لیے اب تک ادبی محقیقین نے جو تحقیقی کارنامے انجام دئیے ہیں وہ تخلیقات ہی پر منحصر ہیں کیوں کہ ادبی محقیقین کا پسندیدہ موضوع ترتیب متن ہے جس سے تخلیق کی اولیت اور تحقیق کی اثانویت ظاہر ہو رہی ہے اور ڈاکٹر فرمان فتح پوری بھی تخلیق کی اولیت پر زور دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’تحقیق اور تنقید دراصل تخلیق کی فرع ہیںجو ہمیشہ اپنی اصل کی طرف راجع رہی ہیں۔ تخلیق کی بنیادی اور اساسی اہمیت ہے جب کہ تحقیق و تنقید کو ثانوی اہمیت حاصل ہے۔ ان تینوں کا باہمی تعلق لازم و ملزوم ہے۔ تحقیق و تنقید کے باوجود وقوع کا اثبات تخلیق کے وجو دسے عبارت ہے۔ اگر تخلیق نہ ہو تو تحقیق و تنقید کیسی !۔‘‘
(تحقیق و تنقید، ماڈرن پبلشرزکراچی، 1963،ص۔7,8 )
اس اقتباس سے معلوم ہوتاہے کہ تخلیق کی حیثیت بنیادی ہے اور تحقیق ثانوی ‘بہ الفاظ دیگر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ تحقیق کے لیے تخلیق لازمی ہے۔
ایک اچھی تخلیق پیش کرنے کے لیے تخلیق کار کو بھی تحقیق کرنی پڑتی ہے جب ایک تخلیق کار کسی صنف میں اپنی تخلیق پیش کرنا چاہتا ہے تو وہ پہلے اس صنف کے تمام فنی تقاضوں کے بارے میں چھان بین کرتا ہے، کھوج کرتا ہے‘یہ کھوج اور چھان بین تحقیق ہے۔ تخلیق کار تخلیق کرنے سے پہلے تحقیق کرے اور حاصل ِ تحقیق کے لحاظ سے تخلیق کرے تو تخلیق کا میاب ہوگی، مثال کے طور پر اگر کوئی تخلیق کار انشائیہ تخلیق کرنا چاہتا ہے تو پہلے فن انشائیہ کے بارے میں دریافت کریں اور دوسرے انشائیہ نگاروں کے انشائیوں کا بغور مطالعہ کرکے ان انشائیوں میں انشائیہ کے فنی لوازم تلاش کرے اور تلاش کے حاصلات کی مدد سے انشائیہ تخلیق کریں تو ایسا انشائیہ فن انشائیہ پر کھرا اتر ے گا کیوں کہ اس کی تخلیق میں تحقیق ہوئی ہے۔
اس بات کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ تخلیق کار تخلیق میں واقعات بیان کرتا ہے یہ وہ واقعات ہوتے ہیں جو پہلے پیش آچکے ہیں اور وہ بھی جو پیش آنے والے ہوتے ہیں اس کے علاوہ وہ بھی ہو سکتے ہیں جو مستقبل میں پیش آسکتے ہیں واقعے کو مستقبل میں دیکھنے کے لیے تخلیق کار کو گہری بصیرت کا حامل ہونا پڑتا ہے ورنہ واقعہ امکانی سے زیادہ تخیلی لگنے لگتا ہے لہذاِتخلیق کار کی یہ بصیرت تحقیق میں در انداز ہو جاتی ہے۔
تحقیق حقیقت کی بازیافت ہے اور تخلیق ایک لا شعوری عمل ہے ‘تحقیق کا مقصد نئے حقائق کی تلاش اور پرانے حقائق کونئے زاویے سے دیکھنا ہے توتخلیق کامقصد زندگی کو حسین سے حسین بنانا ہے اورتحقیق و تخلیق میں بہت سی خصوصیات مشترک اور بہت سی خصوصیات مختلف ہیں لیکن دونوں کاایک دوسرے سے گہرا باہمی تعلق ہے۔
٭٭٭
Kashmir men likhe gaye Navilon men Khawateen ke Jinsi estehsal ki Akkasi by: Dr. Mohd Suleman
Leave a Reply
Be the First to Comment!