جوگندر پال کی افسانچہ نگاری
ڈاکٹر مُول راج
اسسٹنٹ پروفیسر ، گورنمنٹ ڈگری کالج مجالتہ، اُدھم پور، جموں و کشمیر
9419950551
جوگندر پال کی فسانچہ نگاری پربات کرنے سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ افسانچہ کیا ہے؟ ’افسانچہ‘ کہانی کی ایک نئی اور مختصر ترین شکل ہے۔ یہ ایک سطر کا بھی ہو سکتا ہے اور ایک یا دو صفحات کا بھی۔ اِس کا واقعہ انتہائی مختصر مگر تاثر گہرائی کا حامل ہوتا ہے۔ فنّی اعتبارسے افسانچے میں انکسار اور اختصارکے ساتھ ساتھ اِس کے تمام اجزا عین متناسب ہوتے ہیں۔ افسانچے کی فنّی خصوصیات سے متعلق جوگندرپال اپنی تصنیف’’بے اصطلاح‘‘ میں ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’ تحریر کے ذی جان ہونے کا انحصار درصل اس امر پر ہوتا ہے کہ اس کے وجود سے ہی اس کی ذات کا ادراک ہو جائے۔ ہمارا وجود ، بڑا یا چھٹوٹا، اسی لیے ہمیں بوجھ معلم نہیں ہوتا کہ اس کے سارے اجزاء داخلی اور مقامی ہونے کے باعث عین متناسب ہوتے ہیں۔کہانی اگراپنے اصل تناسب سے باہر نہ ہو تو ایک سطری ہو کر بھی پوری ہوتی ہے۔ ورنہ اپنی تمام تر طوالت کے باوصف ادھوری کی ادھوری۔‘‘ (ص۔۸۳)
اُردومیں افسانچہ نگاری کی روایت زیادہ پُرانی نہیںہے۔ اس کی ابتدا ۱۹۴۸ میں منٹو کے ’’سیاہ حاشیے ‘‘سے ہوئی۔ لیکن اِس کے زیادہ تر تجربے ہمیں جوگندر پال اور رتن سنگھ کے ہاں نظر آتے ہیں۔ انھوں نے افسانچہ کو جہاں میں بھی اہم رول ادا کیا۔ خاص طور پر جوگندرپال نے اِس صنف میں مختلف تجربات کیے اور اس کی ایک الگ شناخت قائم کی۔ جوگندرپال کے علاوہ شایدہی کوئی دوسرا ادیب ہوگا جس نے افسانچہ نگاری کی طرف اتنی توجہ دی ہو۔ جوگندر پال سے پہلے اردو میں لفظ افسانچہ رائج نہیں تھا۔ جوگندر پال پہلے ادیب ہیں جھنوں نے منی ِ کہانی اور مختصر ترین افسانہ جیسے الفاظ کی جگہ لفظ افسانچہ استعمال کیا۔چناچہ اردو ادب میں افسانچہ کو بطورِ صنف متعارف کرانے ،ادبی حیثیت عطا کرنے اور اُسے پروان چڑھانے کا سہرا جوگندر پال کے سر ہی بندھتا ہے۔جوگندر پال نے سینکڑوں کی تعداد میں افسانچے تخلیق کر کے زندگی کے مختلف رنگوں کو اپنے افسانچوںمیں موضوع بنایا ہے۔ اُن کے افسانچوں کے چار مجموعے شائع ہو کر منظرِ عام پر آچکے ہیں۔
’’سلوٹیں‘‘(۱۹۶۲) جوگندرپال کا پہلا افسانچوی مجموعہ ہے۔ اس میں شامل افسانچے موضوع اور مسائل کے اعتبار سے ایک وسیع دائرے کے حامل ہیں۔ افسانچوں کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ انھیں تخلیق کرنے والا شخص اپنے دل میں درد کی بے پناہ دولت لیے ہوئے ہے اور اسی درد نے افسانچوں کا روپ اختیار کرکے ایک نیا جہان آباد کردیا ہے۔ ان افسانچوں کے مطالعے سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ جوگندرپال اپنے معاشرے میں زندگی گزارتے ہوئے اِس میں اِس قدر رچ بس گئے ہیں کہ معاشرے میں ہونے والی ہر تبدیلی انھیں خود اپنی زندگی میں ہونے والی تبدیلی محسوس ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جوگندرپال عصری زندگی اور اُس کے مسائل کا گہرا شعوررکھتے ہوئے معاشرے میں پیدا ہونے والے پیچیدہ مسائل سے بخوبی واقف ہیں۔ جوگندرپال ماضی کی پُرانی اور فرسودہ روایات میں جکڑے رہنے کے عادی نہیں ہیں بل کہ وہ جدید احساس و فکر کے دلدادہ ہیں۔
جوگندرپال اس حقیقت سے بہ خوبی واقف ہیں کہ آج کا انسان صنعتی ترقی اور ٹکنالوجی کے فروغ کی وجہ سے اپنی اخلاقی اور انسانی عظمت سے محروم ہوتا جارہاہے۔وہ بھیڑ میں بھی اپنے آپ کو اجنبی اور تنہا محسوس کرتا ہے۔ انسان کی اخلاقی قدریں دن بدن زوال پذیر ہوتی جارہی ہیں اورفرد آہستہ آہستہ حیوانوں کی سی زندگی بسر کرنے لگا ہے۔ ’’سلوٹیں‘‘ کے کم وبیش تمام افسانچے انسانیت کے اِسی المیہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ اس طرز کے اہم افسانچوں میں ’’بوجھ انسانیت کا‘‘، ’’کھلم کھلا‘‘، ’’جنت‘‘، ’’مرکے بھی‘‘، ’’بھوکا‘‘، ’’انسان کی طرح‘‘، ’’لوٹ‘‘، ’’تہذیب‘‘، ’’پہچان‘‘، ’’تب‘‘، ’’تہیں‘‘، ’’شناخت‘‘، ’’قانونِ فطرت‘‘ ، ’’ضمیر‘‘ وغیرہ افسانچوں کے نام خاص اہمیت کے حامل ہیں۔
متذکرہ بالا افسانچوں میں چند ایسے بھی ہیںجن میں جوگندرپال نے انسانی شخصیت کے گھناونے روپ کو اُجاگر کرنے کے لیے طنزیہ اسلوب اختیار کیاہے اور انھوں نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ انسان جسے قدرت نے تمام نعمتیں عطا کر کے اشرف المخلوقات بنایا، آج اپنے مرتبے سے اِس قدر گِر چکا ہے کہ وہ ایک شیطان اورخونخوار بھیڑیے کا روپ اختیار کر گیا ہے اور نہایت ہی خوش اسلوبی سے ایک دوسرے کو دھوکا دیتا پھرتا ہے۔ اس سلسلے میںجوگندرپال کا افسانچہ ’’بھوکا‘‘ کے جملے قابلِ ذکرہیں:
’’جب میری جیب پیسوں سے بھری ہوتی ہے تو میں مزے سے ہوٹل امپیریل میں جا کر نہایت تہذیب سے کھانا کھاتاہوں۔ اور جیب خالی ہوتی ہے؟
تو متمدّن لوگوں سے چھین جھپٹ کر اُن کی تہذیب کھا لیتا ہوں۔‘‘(ص۳۹)
اخلاقی طور پر انسان اتنا پست ہو چکا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے تو بے جھجک دھوکا، مکاّری، ریاکاری، فریب، دغا، چالاکی اورلوٹ کھسوٹ کرہی رہا ہے ،لیکن بخشا تو اس نے خدا کو بھی نہیںہے۔ وہ مندروں اور مسجدوںمیں بھی کھلے عام ڈاکاو چوری کرتاپھرتا ہے۔ اس سلسلے میں ’’لوٹ‘‘کے عنوان سے یہ افسانچہ ملاحظہ فرمائیے:
’’روپ مندرکے دروازے کھلے پڑے تھے۔ میرا من چورہو گیا اور میں جلدی سے دروازے بند کرکے چُپ چاپ اندر چلا آیا اور پُجاری کی چوکی پر آبیٹھا۔ اب جب کبھی میں پُجاری کی چوکی پر براجمان ہوتا اور باہر مندرکے بند کواڑ ہوا سے ہلنے لگتے تو میں بے چین ہو ہوکر سوچنے لگتا کہ ضرورکوئی چورآدھمکا ہے۔‘‘ (ص۵۴)
جدید دورمیں انسان اتنا مصروف اورخود غرض ہوچکا ہے کہ وہ چند لمحوں کے لیے بھی کسی کی خوشی و غمی میں شریک نہیں ہوپاتا۔یہ انسان کی صورتِ حال کا انتہائی درد انگیز پہلو ہے۔ لوہے کی مشینوں کے ساتھ رہتے رہتے وہ بھی بے حس اور خود غرضی کا پیکر بن گیا ہے۔ جوگندرپال نے بہت سارے افسانچوں میں انسان کی اسی ٹریجڈی کو موضوع بنایا ہے۔ مثال کے طور پر افسانچہ ’’پتھر‘‘ ملاحظہ فرمائیے:
’’ان پتھروں پر نام کنندہ کرنے سے کیا فائدہ
بھائی؟
لوگوں کے دلوں پر نام کنندہ کرو،
ایک ہی بات ہے بھائی! لوگوں کے دل بھی پتھر کے بنے ہوئے ہیں۔‘‘(ص۴۸۔۴۹)
اِس افسانچے میں جوگندرپال نے انسان کے دل کو پتھر سے تشبیہہ دی ہے۔پتھرجونہ صرف بے جان ہوتے ہیںبل کہ اُن پر زمانے کا کوئی بھی موسم اثر انداز نہیںہو سکتا۔ یہی حال انسان کا بھی ہو چکا ہے۔وہ آہستہ آہستہ اپنے گردونواح سے بے نیاز ہوتا جارہا ہے۔
جوگندر پال نے اس مجموعے کے افسانچوں میں اس بات کی طرف خاص طور پراشارہ کیا ہے کہ انسان ترقی کی راہ پر چلتے چلتے بھی پس ماندہ ہے اور وہ اس لیے کہ وہ اپنی عظمت ہی کھو بیٹھا ہے۔ معاشرے سے کٹ کروہ بڑے بڑے گھروں میں بجلی کی جگمگاہٹ کے باوجود ایک تاریک اورمایوس زندگی گزار رہا ہے۔ وہ آخرت کو بھول کردولت کے نشے میں مارا مارا پھررہا ہے۔ جوگندر پال ایک حساس مند ذہن کے مالک ہیں چناں چہ انھوں نے اپنے قلم کے ذریعے اس بے ثباتی دُنیا میں خود غرض انسان کے پیکر کواُبھارنے کی کوشش کی ہے۔ ’’بابا‘‘، ’’آگ‘‘، ’’مُردے‘‘، ’’وسعتیں‘‘، ’’تحفظ‘‘، ’’میرا تیرا‘‘، ’’موہ مایا‘‘،’’الفاظ‘‘ وغیرہ جیسے افسانچے اس کی عمدہ مثال ہیں۔جوگندر پال نے سائنس کی اعلیٰ تر پیش رفت کے باوجود انسان کے انحطاط کی داستان کو نہایت ہی پُر دردانداز میں اپنے افسانچوں میںپیش کیا ہے۔ اس ترقی یافتہ سائنسی دور میں اِنسان بھی مصنوعی بن گیا ہے۔ ٹیکنالوجی کے دور نے بیسویں صدی کے ترقی یافتہ انسان کی زندگی اِس قدر تیز اور غیر فطری بنا دی ہے کہ اسے انسانی نسل کو آگے بڑھانے کی تمنا بھی اب پریشان نہیں کرتی۔
انسان نے جدید ٹیکنالوجی سے ایسی ایسی تباہ کن مشینیں ایجاد کردی ہیں جو پلک جھپکنے میں پوری دُنیا کانقشہ بدل سکتی ہیں۔ ان مشینوں کے ساتھ کام کرنے والا شخص اگر کہیں غلطی سے ہی اُن کا بٹن دبا دے تو ساری دُنیا میں قیامت بپا ہو جائے۔ افسانچہ ’’خدارا‘‘ انسان کی اِسی تباہی و بربادی کو موضوع بناتا ہے:
’’آدمی غلطی کا پُتلا ہے۔
خدارا اب یہ محاورہ بھول جاؤ، آج کل کا آدمی ذراسی غلطی سے اپنی کسی تخریبی مشین کا بٹن دبا دے تو آناً فاناً ساری دُنیا میںقیامت بپا ہوجائے۔‘‘(ص۳۴)
’’سانپ‘‘ اور ’’عمرِ حیات‘‘ جیسے افسانچوںمیں جوگندر پال نے وقت کیگردش کو موضوع بنایاہے۔ وقت جو ایک ناقابلِ تسخیر قوت ہے ہرشے کو تباہ و برباد کرتا، روندتا، کچلتا چلا جاتاہے۔ بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ آدمی سوچتا ہے کہ وہ بڑا ہو رہا ہے لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہوتی ہے۔ ہر گزرتاہوا لمحہ اُسے عدمِ وجودسے قریب تر کرتا چلا جاتا ہے۔ بقول عابدؔ ؎
بڑے ہو رہے ہیں جہاں کی نظرمیں
مگر زندگی مختصر ہو ر ہی ہے
جوگندر پال اپنی زندگی کے تجربات کو افسانچوں میںپیش کرکے قاری کو اس حقیقت سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں کہ ہرانسان دنیا میں آنے کے بعد فطری طورپر اپنے مستقبل کی تلاش میں کوشاں رہتاہے اوراُس کی نگاہیں اس کی منتظر رہتی ہیں کہ کل کیا ہوگا۔ لیکن مستقبل کی جستجو میں اُسے اپنے ماضی کا عکس نظر آتاہے۔ اُس کا واسطہ ماضی کے ایسے فرسودہ رسم و رواج سے پڑا ہوا ہے جو آخر تک اُس کا ساتھ نہیں چھوڑتے۔ چناں چہ وہ مایوس ہو کر پھر انھیں بُرائیوں میں مبتلا ہوجاتاہے۔
’’کتھا نگر‘‘ (۱۹۸۲)جوگندرپال کے افسانچوں کا دوسرا مجموعہ ہے۔اس مجموعے کے افسانچوں میںجوگندر پال نے غزل کی سی تکنیک اپنانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔جس طرح غزل کے اشعار دل کی گہرائی میں اُتر جاتے ہیں۔ اسی طرح جوگندر پال کے افسانچوں کی روشنی بھی ذہن کو روشن کرتے ہوئے دل میں اُتر جاتی ہے۔ اِن افسانچوں کی تخلیق سے متعلق جواز پیش کرتے ہوئے جوگندر پال مجموعے کے پیش لفظ میں رقم طراز ہیں:
’’میرے ساتھ کئی بار ایسے ہوتا ہے کہ رنگ برنگے پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ اڑتے اڑتے کہیں سے آنکلتے ہیں اور تھوڑی دیر میرے ذہن کی شاخوں پر بیٹھ کر جھولتے ہیں اور پھر ایک دم کھلنڈری سی فکر مندی سے میرے افسانچوں میں اُتر آتے ہیں اورانھیں لکھ کر میں گویا پھر انھیں آکاش کیطرف پرواز بھرنے کو چھوڑ دیتا ہوں۔‘‘
گویا اِس اقتباس سے بات واضح ہو جاتی ہے کہ معاشرے میں پھیلی ہوئی خرابیوں اور ناہمواریوں کو جوگندر پال نے کھلنڈری نظرسے دیکھا ہے۔ اُن کے یہاں یہ ناہمواریاں پوری حقیقت کے ساتھ نمایاں ہوتی ہیں۔ جوگندر پال کا یہ مجموعہ اپنے اندر سماج کے صدہا دُکھ درد سمیٹے ہوئے ہے۔
زیرِ نظرمجموعے میں شامل افسانچوں میں جوگندرپال نے انسان کے اندر چھپے ہوئے لالچ،ہوس، نفرت،درندگی، ریاکاری، دھوکے بازی، تعصب اور عداوت وغیرہ کی عکاسی کی ہے اور یہ بتانے کی کوشش بھی کی ہے کہ بشر کی ان بُرائیوں اور کمزوریوں نے معاشرتی فضا کو آلودہ کردیا ہے، انسان کی زندگی کو جہنم بنادیاہے۔ آج کے دور کا انسان اپنے ہی پیدا شدہ مسائل میں اِس طرح گرفتار ہو گیا ہے کہ جسے اپنے آگے پیچھے صرف بربادی کے آثار نظر آتے ہیں اور کچھ نہیں۔ انسان کی اِس پسماندہ صورتِ حال کو جوگندرپال نہ صرف اپنی تخلیقی نظر سے دیکھتے ہیں بل کہ فن کارانہ انداز سے افسانچوں میںپیش بھی کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں مندرجہ ذیل افسانچے خاص اہمیت کے حامل ہیں۔
’’عظمتِ آدم‘‘، ’’رونے کا کارن‘‘، ’’مسخرہ‘‘، ’’اجنبی‘‘،’’عرفان‘‘،’’آدمیت‘‘، ’’نازائیدہ‘‘، ’’سانپ‘‘، ’’ٹوٹے پھوٹے لوگ‘‘، ’’رسائی‘‘، ’’آنے والے دن‘‘، ’’دوزخ‘‘، ’’جینے کے لیے‘‘، ’’چیں چیں‘‘، ’’ہم تم‘‘، ’’اُجالے‘‘، ’’سمجھ‘‘، ’’سچائی‘‘ وغیرہ۔
ان افسانچوں میں جوگندر پال نے انسان کے گرتے ہوئے معیارکی طرف جابجا اشارے کیے ہیں انھوں نے یہاں یہ بات واضح کرنے کی سعی کی ہے کہ کس طرح انسان کی انسانیت ختم ہوتی جارہی ہے اور وہ دن بدن انسانی قدروں کو بھولتا جارہا ہے وہیں اُس میں حیوانیت کے اثرات نمایاں ہو تے جارہے ہیں۔ یہ موضوع ’’کتھا نگر‘‘ کے کم و بیش ہرافسانچے میں اپنی الگ الگ صورتوں میں اُبھرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ ’’کتھا نگر‘‘ کا آغاز ہی ایک ایسے افسانچے سے ہوتا ہے جو انسانی معیار کی گراوٹ کا مظہرہے:
’’اپنی ایک حالیہ پریس کانفرنس میں شیطان کا حُلیہ بہت شریفانہ تھا اور بولنے کا لہجہ بہت مہذب۔ ’’ابھی تک انسان میری ترغیبوں کا شکارتھا۔‘‘ وہ اخباری نمائندوں کو بتا رہا تھا اس لیے وہ اپنے آپ میرے جہنم کی طرف کھینچتا چلا آیا۔ وہ اپنی ہاری ہاری مسکراہٹ سے ان کیطرف دیکھنے کے لیے رک گیا۔ لیکن اب یہ صورت ہے کہ اُس کی ترغیبوں کا شکار ہوکے میں ہی یہاں اُس کی دُنیا میں چلا آیاہوں۔‘‘(ص۷)
اِس مجموعے کے بعض افسانچوں میں اس دورکے معاشی مسائل بھی بڑی خوبی سے اُبھر کرسامنے آئے ہیں۔ خاص طورپرآج بڑے بڑے شہروں میں آکرآدمی روزگار کے حصول کے لیے اپنی عزت، خودداری اور اپنے وقار تک کو داؤ پر لگا دیتا ہے۔وہ انسان جو فطرت کی جابر قوتوں کا فاتح سمجھا جاتا تھا وہ معاش کی چکی میں پس کر کمزور ہوتا جارہا ہے۔ اس سلسلے میں ’’آدمی‘‘ اور ’’ہمارے دورکی باتیں‘‘ قابلِ قدر افسانچے ہیں۔
’’آدمی‘‘ میں وہ اس بات کو تمثیلی پیرائے میں بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب کوئی شیر شہرمیں آتاہے تو شروع میں سب لوگ اُس سے خوف زدہ ہوتے ہیں لیکن جب وہ اپنی معاشی ضروریات کو پورا کرنے کی خاطر ریستوران میں بیرے کی معمولی نوکری کرتاہے تومعمولی آدمیوں کے سامنے بھی وہ تعظیم سے سر جھکاتا اورسجدہ کرتا ہے۔
جوگندر پال نے معاشی جبر، تشدد اور نفرت کے علاوہ فرقہ واریت کیمسئلے پر بھی بہت سے افسانچے تخلیق کیے ہیں۔ مذہب کے ٹھیکیداروں نے اپنی تنگ نظری کے تحت معاشرے میں ایک نیا بُحران پیدا کردیاہے۔اِس مسئلے سے سماج کاہر انسان پریشان ہے۔ ’’کتھا نگر‘‘ میںشامل افسانچہ ’’تخلیق‘‘انسان کی اِسی صورتِ حال کی جانب ہماری توجہ مبذول کرواتا ہے:
’’بولو تمہارا خدا حق ہے اور میرا خدا باطل، بولو، ورنہ گردن اُڑا دوں گا۔ تمہارا خدا حق ہے اور میراباطل بولو، میںتمہارے خداپر ایمان لاتا ہوں، میںتمہارے خدا پر ایمان لاتا ہوں، شاباش! … آؤ، اب محبت اور اخوت کی باتیں کریں۔ہم سب ایک ہیں، ہم سب ایک ہیں… ارے! ابھی تک ڈرے ڈرے ہو؟ ڈرا ڈرا ہے تو کیا بُراہے۔ ہمارے خدا کے ڈرسے ہی اپنے پہلے خدا کا بھوت سر سے اُتارسکے گا۔‘‘(ص۲۶۔۱۲۵)
جوگندر پال نے یہاں یہ بات واضح کردی ہے کہ آدمی جتنا خداکے ناموںمیں اُلجھا رہتا ہے اورتنگ نظری سے اُسے دیکھتا ہے، خدا کا رحم و کرم بھی اُس پر اتنا ہیہوتاہے۔یعنی وہ اُس کی خدائی تک رسائی حاصل کرنے کے بجائے اُس کے ناموں کے امتیاز میں ہی الجھا رہتا ہے۔ اس سلسلے میں افسانچے کی یہ سطریں ملاحظہ کیجیے:
’’ہاں ، ہاں بے چین کیوں ہو رہے ہو؟ … ہردورکو اپنی توفیق کا خدا نصیب ہوتا ہے۔ (ص۱۲۶)
افسانچہ ’’شبہات‘‘ میں بھی اس بات کا ذکر کرتے ہوئے جوگندر پال نے انسان کی اسی ابتری کی جانب اشارہ کیا ہے۔آج کی صدی کا انسان باوجود ترقی کے جہاں تنگ نظری کا حامل ہے وہیں اخلاقی سطح سے بھی گِر چکا ہے۔ یہی نہیں وہ مذہب کے محدود دائرے میں مقید ہو کر معاشرے کے دوسرے لوگوں سے لاتعلق بھی ہوگیا ہے۔ یہاں تک کہ وہ دوسرے مذاہب کوپسند بھی نہیں کرتا۔ وہ یہ بھی برداشت نہیں کرتا کہ خدا کے بندے ایک جگہ اکٹھے بیٹھ کر اُس کی عبادت کریں۔ افسانچے سے ایک اقتباس دیکھیے:
’’میرے شہرمیں مسجدیں بھی تھیں، گرجے اور گوردوارے بھی اور مندر بھی، اورمیں اُن سبھی کی یکجائی کے لاویز منظرسے بڑا مانوس ہوچکا تھامگر گذشتہ کئی سال کے فرقہ وارانہ فسادات کیبعد آج میرے شہر میں مندرہی مندر دکھائی دیتے ہیں۔ مندر کے کلس مجھے بڑے بھلے معلوم ہوتے ہیںتاہم چاروں طرف مندروں کو ہی پاکر … خدا مجھے معاف کرے… خدا مجھے اب کوئی اجنبی سا لگتا ہے۔‘‘ (ص۶۴۔۱۶۳)
افسانچے کے مطالعے سے اس حقیقت کا انکشاف ہوتاہے کہ تنگ نظر، بداخلاق اور مفاد پرست مذہب کے علمبرداروں کی بیمار ذہنیت نے لوگوں کے اندر فرقہ وارانہ شبہات پھیلائے جو بعد ازاں فرقہ واریت کا موجب بنے اور نتیجتاً جہاں کل تک مندر، مسجد، گوردوارے، گرجے یعنی تمام عبادت گاہیں اکٹھی تھیں اورلوگ اپنے اپنے رسوم کے مطابق خدا کی بندگی کرتے تھے، آج وہاں صرف مندرہی مندر دکھائی دیتے ہیں۔ غرض لوگ مذہب کے نام پر گروہوں میں بٹ کر رہ گئے ہیں۔ جوگندر پال کا یہ افسانچہ جہاں ۱۹۴۷ء کے فرقہ وارانہ فسادات کی طرف اِشارہ کرتاہے وہیں آج کے بیمار ذہن انسان کے پست خیالات کا مظہر بھی ہے جو اپنے بُرے اخلاق کی بدولت اپنی روحانی قوت کھو بیٹھا ہے اورخدا کی ذاتِ پاک سے اُس کا رشتہ ٹوٹ گیاہے۔
جوگندرپال نے انسان کے سائنسی اور میکانکی دورکی چکی میں پِسنے کی المناک داستان کو بڑے پُراثر اندازمیں پیش کیا ہے۔ اس سلسلے میں اُن کا افسانچہ ’’پروڈکشن‘‘ پیش کیاجاسکتا ہے۔ اِس میں جوگندرپال نے اپنے مخصوص طنزیہ اندازمیں یہ ظاہر کرنے کی سعی کی ہے کہ اِس دورمیں انسان کا ذہن بھی کس قدر بناوٹی ہوگیاہے۔ چوں کہ آج سائنس نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ ٹیسٹ ٹیوب بچہ تیار کیا جاسکتا ہے اورجو بچہ سائنس کی ایجاد ہو اُس کے دل میں خلوص اور احساس نام کی چیز کا نہ ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے:
’’میرے کوئی ماں باپ ہیں نہ بھائی بہن، میراکسی سے کوئی رشتہ نہیں، مجھے کسی کا درد نہیں،میرے سارے درد، سارے آرام جسم کے ہیں، صرف اپنے جسم کے۔ میرے کوئی روح نہیں، میں کسی پائندگی کو تسلیم نہیں کرتا۔ میراکسی خداسے کوئی سروکار نہیں، میں ٹیسٹ ٹیوب کی پیدائش ہوں۔‘‘ (ص۱۲۶)
یہ ایک طنزیہ افسانچہ ہے۔ اس میںجوگندرپال نے سائنسی ڈھنگ سے پیدا شدہ بیسویں صدی کے انسان کی سوچ کو پیش کیاہے جو کہ اتنا بے حس اورایمان و اعتقاد سے عاری ہے کہ جس کے دل میں نہ توکسی رشتے کا احساس ہے اور نہ ہی کسی سے کوئی سروکار۔ یہاں تک کہ وہ اپنے آپ کو خداسے بھی الگ اور بے تعلق تصور کرتاہے جو کہ حقیقت کے بالکل برعکس ہے۔ چناں چہ اس افسانچے کے ذریعے جوگندرپال آج کے مفاد پرست انسان کو خبردار کردینا چاہتے ہیں کہ جس راستے پر وہ گامزن ہے وہ کامیابی اورفلاح وبہبود کے لیے موزوں نہیں ہے۔
’’کتھا نگر‘‘کا ہر افسانچہ کوئی نہ کوئی فلسفیانہ حقیقت لیے ہوئے ہے۔ جوگندرپال انسانی زندگی کی ٹھوس حقیقتوں سے غذا حاصل کرکے اُسے سبق آموز طریقے سے پیش کردیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کا ہر افسانچہ دل کو چھو جاتاہے۔ یہ سارا اُن کی فنّی گرفت اورانسانی زندگی سے متعلق گہرے شعور کا نتیجہ ہے۔
’’کتھا نگر‘‘ کے بعض افسانچوں میں عورت کی شخصیت کے مختلف پہلو بھی پیش کیے گئے ہیں۔ کہیں عورت شائستہ بیوی بن کر سامنے آتی ہے تو کہیں ہزار دل سے فِدا ہونے والی محبوبہ کے روپ میں نظرآتی ہے۔ اِس سلسلے میں ’’خواب و خیال‘‘ کے کچھ مکالمے ملاحظہ کیجیے:
’’جوگن‘‘
کہوبھائی۔ تمہارے پیوئے مندے مندے کیوںرہتے ہیں جوگن؟
پیتم اندرہو بھائی تو! استری نگر کے کواڑ بند ہی رکھتی ہے۔‘‘(ص۳۴)
نیک سیرت اور باوفا عورت اپنے گھرکے دروازے صرف اپنے شوہر کے لیے ہی کھولتی ہے۔ مگر اس کے برعکس افسانچہ’’کھرسو کی کہانیاں‘‘ معاشرے کی بدنام اور بدکارعورت کو پیش کرتا ہے۔ حالاںکہ اُسے اپنی بدحالی اوربد بختی کا احساس بھی ہے اوروہ اپنے انجام سے بھی بخوبی واقف ہے لیکن پھر بھی وہ ایساکیے جا رہی ہے۔
’’پرندے‘‘ (۲۰۰۰) جوگندرپال کا تیسرا افسانچوی مجموعہ ہے۔ پرندے کے افسانچوں میں جوگندرپال نے جدید دورمیں سانس لے رہے انسان کے چال چلن، رہن سہن اور عادات و اطوار وغیرہ کو موضوع بنایا ہے۔ جوگندر پال عام انسان کے دُکھ درد میں شعوری طور پر شریک ہوتے ہیں۔ وہ اپنے چہار سو نگاہ اُٹھا کر دیکھتے ہیں اور معاشرے میں پنپ رہی تمام خرابیوں اور بدعنوانیوں تک رسائی حاصل کرکے ہلکی پھلکی مگر پُر اثر طنزیہ طریقۂ اظہار اختیار کرکے انھیں اپنے افسانچوں کے قلب میں ڈھال دیتے ہیں۔ جوگندرپال کے افسانچوں میں زندگی اورموت، شعوراور لاشعور کا فلسفہ خاص طور پر ملتا ہے۔ اِس سلسلے میں’’پانی‘‘، ’’جاگیردار‘‘، ’’درس و ہدایت‘‘، ’’ایبسرڈ‘‘ ، ’’ہیڈ لائٹس‘‘، ’’نوزائیدہ‘‘، ’’تال‘‘، ’’پارکنزڈیزیز‘‘ وغیرہ افسانچے خاص طور سے اہمیت کے حامل ہیں۔
افسانچہ ’’پانی‘‘اگرچہ تین سطروں پر مشتمل ہے مگروہ زندگی کے پورے فلسفے کو بیان کرتاہے۔ اِس افسانچے میں جوگندرپال نے بتایاہے کہ انسان جب جنم لیتاہے تو بالکل اُتھلے ہوئے پانی کی طرح صاف اور پاک ہوتا ہے۔ لیکن جیسے جیسے وہ زندگی کے گہرے سمندر میں بہتا جاتا ہے ویسے ویسے وہ کھارا اور آلودہ ہو جاتا ہے۔ افسانچے کو جوگندرپال یوں بیان کرتے ہیں:
’’نہیں جب میں اُتھلا تھا توکتنا شفاف اور میٹھا تھا، کتنا اپنا آپ! مگرگہراہونے کے چاؤ میں سمندر میں بہہ نکلا اوراتنا کھاری ہوگیاکہ کیا مجال، مجھے کوئی منہ سے لگا کرپیاس بجھائے۔‘‘(ص۱۸)
افسانچہ ’’جاگیردار‘‘ سماج کے اُن لوگوں کی طرف اشارہ کرتا ہے جو اپنی بیویوں اوربیٹیوں کے جسم بیچ کر خود عیش پرستی کی زندگی بسرکرتے ہیں۔ انسان اپنے معیار سے اتنا گرچکا ہے کہ تمام سماجی اور انسانی رشتے بھولتا جارہا ہے۔ جوگندر پال نے اپنے اور بھی کئی افسانوں میں انسان کی اس اخلاقی گرواٹ کو موضوع بنایا ہے۔
’’بھوت ناک بستیاں‘‘بھی اسی طرح کا ایک اور افسانچہ ہے۔یہاں بھی جوگندرپال نے اِسی مثبت حقیقت سے پردہ اُٹھانے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح انسان انسانیت اور ایمان کی ڈور کو اپنے ہاتھ سے چھوڑتا جارہا ہے۔دُنیا کی بھیڑمیں اُسے اپنے پرائے کی قطعاً خبر نہیں رہی۔وہ دولت کی کالی پرچھائی میں اِس قدر کھو گیا ہے کہ اُسے اُس کے بغیرکچھ بھی دکھائی نہیںدیتا۔
افسانچہ ’’بے خبر‘‘ بھی اِسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اِس افسانچے میں جوگندرپال نے انسان کی بے حسی کو موضوع بنایا ہے۔ یہاں انھوں نے یہ بتانے کی سعی بھی کی ہے کہ آج کے انسان کا ضمیر اس حد تک مرچکا ہے کہ اُسے اپنے زندہ ہونے کا احساس بھی نہیں رہا ہے۔ وہ جیتے جی مُردوں میںشمارہو گیاہے۔ افسانچے کا اقتباس ملاحظہ کیجیے:
’’مرشد نے بڑے چین سے مسکراتے ہوئے اپنے مرید کی طرف دیکھا جوابھی ابھی شہر سے لوٹا تھا۔ ’’شہر میں کیا دیکھا پسرم۔‘‘ کیا بتاوں مرشد؟ سبھوں کی موت واقع ہو چکی ہے مگر کسی کو قطعاًعلم نہیں وہ کب کا مر چکا ہے۔ اﷲ بڑاکارساز ہے پسرم۔ اسی لیے تو لوگ اپنی موت جئے جارہے ہیں۔‘‘(ص۳۳)
غربت ہمارے دیش کا ایک سنگین مسئلہ رہا ہے اور آج بھی ہے۔ یہ ایک ایسی بیماری ہے جس نے ہمارے سماج کی جڑوں کو کبھی مستحکم نہیںہونے دیا۔ کسی نے سچ ہی توکہا ہے کہ مرتاکیا نہ کرتا، بھوک سے بلکتاہوا انسان روٹی کے حصول کے لیے کچھ بھیکر گزرتا ہے۔اِسی غریبی اور تنگ دستی نے انسان کو چور، ڈاکو اور نہ جانے کیسے کیسے روپ اختیار کرنے پر مجبورکیا ہے۔ جوگندرپال نے فردکے اس مسئلے کو عمیق نظرسے دیکھا، محسوس کیا اوراپنے افسانچوں میںجگہ دی۔ ’’چور‘‘ اِسی نوعیت کا ایک اہم افسانچہ ہے:
’’کیابھاؤ ہے؟‘‘
انگور بیچنے والا غریب بچہ چونک پڑا اوراُس کے منہ کی طرف اٹھتے ہوئے ہاتھ سے انگورکے دودانے گر گئے۔’’نہیں صاحب! میں کھا تو نہیں رہا تھا صاحب!‘‘(ص۱۸)
جوگندرپال نے تیز رفتار سے بڑھتی ہوئی آبادی اوراُس سے پیداشدہ مسائل کو بھی اپنے افسانچوں میںموضوع بنایاہے۔ آج کے انسان کو زمین کی کمی کا بھی ایک مسئلہ درپیش ہے۔ قدیم زمانے میں انسان نے تنِ تنہا غاروں میں رہنا شروع کیا۔ پھر اُس نے گاؤں بسائے۔ بعد ازاں اُس نے بڑے بڑے شہر آباد کیے۔جب شہروں میں جگہ کم پڑ گئی اُس نے پھر سے جنگلوں کا رُخ کیا اور انھیں کاٹ کر بستیاں بسا لیں۔ لیکن ایک دن ایسا آجائے گا جب جنگل بھی اُس کے لیے کم پڑ جائیں گے اور یہ بات غور طلب ہے کہ آخر اُس وقت انسان کہاں جائے گا۔ انسان کے اِسی مسئلے کولے کرجوگندرپال نے افسانچہ ’’معذوری‘‘ تخلیق کیا ہے:
’’میں نے آخر دُنیا چھوڑ کر جنگلوں کی اور نکل جانے کی ٹھان لی۔ مگرکہاں جاتا؟ زمین کا چپہ چپہ تو بک چکا ہے۔ خدا کے نام کچھ بچا رہ جاتاتب نا۔‘‘(ص۳۲)
غرض یہ کہ ’’پرندے‘‘ میں شامل افسانچے خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ ان افسانچوں کے مطالعے سے یہ عیاں ہو جاتاہے کہ جوگندر پال کو افسانچہ نگاری کا فن خوب آتاہے۔ فنّی طورپر بھی اُن کے افسانچے قابلِ ذکرہیں۔ یہ مختصر ترین ہوتے ہوئے بھی قاری کے ذہن پر گہرا اثر مرتب کرتے ہیں اور اُس کے لیے غور وفکر کا بھرپور سامان فراہم کرتے ہیں۔ ہر افسانچہ کسی نہ کسی سماجی مسئلے کو اس انداز سے اُبھارتا ہے کہ وہ ایک پورا افسانہ معلوم ہوتا ہے۔ جہاں تک موضوعات کاتعلق تو جوگندرپال کے افسانچوں کے موضوعات وہی ہیں جو انھوں نے اپنے افسانوں میں برتے ہیں۔ جوگندر پال کی خوبی یہ ہے کہ انھوں نے کسی مخصوص ترقی پسندانہ آدرش کو نقطۂ ِ نظر بنائے بغیر ہی موجودہ زندگی اور اس کے تمام مثبت اور منفی پہلوؤں کو اُجاگر کرنے کی کامیاب کوششکی ہے۔ یہی سبب ہے کہ ایک خوش فکر اور کھلنڈرے ناظر کی حیثیت سے انھوں نے دُنیا کی حقیقت کو ایک نئے انداز سے دیکھا اور اپنے افسانچوں میں پیش کیاہے۔
’’نہیںرحمن بابو‘‘ (۲۰۰۵)جوگندر پال کے افسانچوں کا چوتھا اور آخری مجموعہ ہے۔ مجموعے کی ابتدا میں ایک مختصر سا پیش لفظ بھی شامل ہے جس میں جوگندر پال نے کہانی کی خصوصیت اور معنویت کو پیش کیاہے۔ کہانی کو ندی سے تعبیر کرتے ہوئے وہ رقم طراز ہیں:
’’نہیں رحمن بابو‘ کہانی توندی کی ندی ہوتی ہے، بیک وقت اپنے آگے بھی، اور پیچھے بھی۔ سو میں اُس کا پیچھا کیونکر کرتا؟ بس لاچار سا اُسے چپ چاپ دیکھتا رہ گیا۔‘‘
’’نہیں رحمن بابو‘‘ جوگندرپال کے ایسے لاتعداد افسانچوں کا مجموعہ ہے جس میں زندگی اپنی جامعیت اور اجتماعیت کے ساتھ نظر آتی ہے۔ انھوں نے معاشرے کے ہر فرد کے دُکھ درد کو اپنے افسانچوں میں سمو دیا ہے۔ وہ زندگی کے ہر پہلو کو ایک فن کار کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اُس کے مختلف رنگوں اور رُخوں کو موضوع بنا کر اپنے افسانوں میں ڈھال دیتے ہیں۔
زیرِ نظر مجموعے میں جوگندرپال موجودہ دور کی مادی ترقی کو بھی انسانکے اخلاقی زوال کی ایک وجہ تصّور کرتے ہیں۔ جدید دورکا انسان اُن کے نزدیک انھیں بدعتوں کا شکار ہوا ہے۔ اُس کی سادگی، نیکی اور معصومیت کو یہ ہی بدعتیں گھُن کی طرح چاٹ رہی ہیں۔ اُس کے ایمان و اعتقاد کو پارہ پارہ کردیا ہے۔ مال کی ہوس اور اقتدار کی خواہش نے انسان کو اندھا بنا دیا ہے۔ اِس دُنیا داری میں اُلجھ کر وہ بے ضمیر ہی نہیں وحشی بھی ہو گیا ہے۔ انسان کی اِس بزدلی اور بے ضمیری کو جوگندرپال نے اپنے اس افسانچے میں یوں پیش کیا ہے:
’’مجھے تو پُرانے وقتوں کی جادوئی کہانیاں بھی سچی لگتی ہیں… نہیں؟ … کیوں نہیں … کیا؟ … کوئی جادوگر کسی کو کھڑے کھڑے غائب کیسے کرسکتا ہے؟ کیوں نہیں کر سکتا بابو؟ … لو یہ خبر پڑھو… بعض غنڈوں نے سب کے سامنے بھرے بازار میں کسی بے گناہ کو قتل کردیا، لیکن سبھوں نے گیتا اور قرآن کی قسم کھا کر پولیس کو بتایا، انھوں نے کچھ نہیں دیکھا۔‘‘(ص۱۵)
آج کے دور میں پیارومحبت اور خلوص و وفا کے معنی بدل گئے ہیں۔انالفاظ کے صحیح معنوں سے کوئی آگاہ ہی نہیں۔ انسان نفرت کی آگ میں جل کر دھیرے دھیرے فنا ہوتا جارہا ہے اور اُسے اِس بات کی خبر بھی نہیں۔ موجودہ دورمیں پیار کرنے والا اورسچ بولنے والا انسان تنہا رہ جاتا ہے۔اُس کا ساتھ دینے کے لیے کوئی تیار نہیںہوتا۔ اِس سلسلے میں جوگندر پال کا یہ افسانچہ ملاحظہ کیجیے:
’’ہاں بابو، میںہر ایک سے نفرت کرتا ہوں… ماں باپ سے! بھائی بہن سے، دوستوںسے۔ ہر ایک سے! نہیں یہ تو تم کیا کہہ رہے ہو کہ کسی سے نفرت مت کرو۔ نہ بابو، تمہاری بات مان لوں تو اکیلا رہ جاؤں۔‘‘(ص۱۸)
جوگندرپال کا ہرافسانچہ کسی نہ کسی فلسفیانہ حقیقت کا ترجمان ہوتاہے۔ جدید دور کا انسان مذہب کے ٹھیکیداروں کے ہاتھوں کس طرح گمراہی کی جانب بڑھ رہا ہے اور کس طرح جہاد کے نام پر وہ انسان کے اندر ایک دوسرے کے خلاف نفرت کا زہر بھر رہا ہے۔ اِس حقیقت سے پردہ کشائی کرتے ہوئے اپنے ایک افسانچے میں جوگندر پال یوں رقم طراز ہیں:
’’ہاں ‘رحمن بابو،اِن سیدھے سادے افغانوںسے جب پوچھا گیا کہ تم دہشت گرد جہادیوں میں کیوں شامل ہوئے تو اُن کے سرغنہ نے جواب دیا،ہمارے مولوی ساب نے ہکم جو دیا جناب، نہیں معلوم ہے ، جہاد کیاہوتا ہے؟ یہ مالوم کرنا توہمارے مولوی ساب کا کام ہے جناب۔ مولوی ساب کا ہکم ٹال کر ہم خدا کو کیا جواب دیتے۔‘‘ (ص۴۰)
غرض یہ کہ جوگندر پال کا مجموعہ ’’نہیں رحمن بابو‘‘ عصری دور کے انسان کی ذہنی گمشدگی اور سیاہ بختی کے علاوہ انسان کے اندر چھپے ہوئے دھوکے بازی، لالچ، نفرت،مکاّری، درندگی اور اُس کے سوئے ہوئے ضمیر اور بے حسی وغیرہ جیسے جذبات کی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔ موصوف نے اِن افسانچوں کے ذریعے انسان کو اس کی اصلی صورت دکھانے کی کامیاب کوشش کی ہے اور اِس بات کو بھی ظاہر کردیا ہے کہ انسان کے تمام رنج و الم اور درد و غم اُس کی اپنی پیداوار ہیں۔
مجموعی طورپر جوگندرپال کے افسانچوں میں انسانی زندگی اورموت کے شعورکے ساتھ ساتھ انسان کی فطری، نفسیاتی کشمکش اورسیاسی و سماجی تصادم کا خوبصورت اظہار ہوا ہے۔موضوعاتی اعتبار سے اُن کے افسانچے موجودہ دور کے انتشار اورحقائقِ زندگی کی ترجمانی کرتے ہیں۔ جوگندرپال کو کم سے کم الفاظ میں ایک بڑی کہانی بیان کرنے کا فن خوب آتاہے۔ وہ اس نازک مرحلے سے بخوبی عہدہ برآ ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جوگندرپال کے افسانچے اُن کے اِس فنّی کمال کا مُنہ بولتا ثبوت ہیں۔ ان کے افسانچوں کی تخلیقی فضا اُن کے افسانوں سے مختلف ہے۔ تاہم فنّی اور تکنیکی اعتبارسے جوگندرپال کے افسانچے افسانوں سے مماثلت رکھتے ہیں۔ اُن کے وہ افسانچے جو قدرے طویل ہیں میں کہانی پن کے ساتھ ساتھ مکالمہ نگاری اورکرداروں کے حرکات و سکنات کا بیان بھی ملتا ہے۔ اُن کے ان افسانچوں میں زیادہ تر گہرے اورکاٹ دار طنزیہ جملوں کی فراوانی پائی جاتی ہے۔ مختصراًیہ کہ جوگندر پال کے یہ افسانچے نہ صرف افسانچے کے فن میں قابلِ قدر اضافہ ہیں بل کہ فنّی اعتبار سے بھی قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھنے کے قابل ہیں۔ یہ افسانچے مستقبل میں افسانچے کے تخلیقی شعور کو مزید بڑھانے میں معاون ثابت ہوں گے اور افسانچے کے خزانے میں تحسینِ اضافہ تصّور کیے جائیں گے۔
٭٭٭
Jogindr pal ki Afsanha Nigari by: Dr. Mul Raj
Leave a Reply
Be the First to Comment!