اختررائے پوری کی خود نوشت کا تنقیدی جائزہ

ڈاکٹرشبنم پروین

 گرام۔ ٹولہ ہردیا کر بلا،  ڈاکخانہ ہردیا، تھانہ و بلاک بڑہریا،  ضلع سیوان ، بہار

 shabnamquaiyum@gmail.om

 ایک باشعور اور باخبر انسان کی زندگی میں واقعات و حادثات اور اس کے تجربات و مشاہدات کی کثرت ہوتی ہے۔ خاص طور سے جب وہ ایک حساس ادیب ہوتو بات کچھ اور ہی ہوتی ہے۔ جب کوئی ایدب اور دانشور اپنی خود نوشت لکھنے بیٹھتا ہے تو اس کے سامنے زدگی کے ہزاروں چھوٹے بڑے واقعات اور احساسات ہوتے ہیں۔ لیکن اسے ان میں سے اسی صحے کو بیان کرنا ہوتا ہے جو اس کے قارئین کے لیے نہ صرف معلوماتی ہوں بلکہ دلچست بھی ہوں۔ اردو میں خود نوشتوں کی کمی نہیں۔ کئی ادبا شعرا اورنقادوں نے بہت ہی بے باکی سے اپنی آپ بیتی تحریر کی ہے۔ لیکن اکثر مقامات پر خود ستائی کارویہ غالب نظر آتا ہے۔ اور یہ کوئی تعجب کی بات بھی نہیں ہے جب ادیب اپنے احوال بیان کرتا ہے تو اپنی کئی خوبیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے اور کئی خامیوں سے چشم پوشی کرجاتا ہے۔ لیکن ان میں بھی چند ادیب مستثنیٰ ہیں اور انہوں نے بلا جھجک اپنی سیاہ سفید زندگی کو پوری طرح کھول کر رکھ دیا ہے۔ اس ضمن میں یہاں صرف جوش ملیح آبادی کے نام پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے۔

 اختر حسین رائے پوری کی خود نوشت بھی خود ستائی اور بے باکی، دونوں کیفیات سے مملو ہے۔ لیکن جہاں تک اس کی دلچسپی اور readablityکا سوال ہے، اس معاملے میں یہ خود نوشت اپنے آپ میں ایک مثال ہے۔ اختر حسین رائے پوری کی اس خود نوشت پر اظہار خیال کرتے ہوئے معروف ادیب اور تاریخ نگار ڈاکٹر جمیل جالبی اس کی تقریب اشاعت پر فرمائے ہیں:

 ’’۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گردراہ‘‘ کی خوبی یہ ہے کہ ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری نے اپنے زندگی کے حالات اپنے تجربات و مشاہدات کو انہتائی دھیمے انداز میں انکسار و معروفضیت کے ساتھ، اپنا پرستی اور خود پروری سے بچ کر سادگی سے بیان کیا ہے کہ یہ خود نوشت ناول سے زیادہ دلچسپ اور زندگی سے زیادہ حقیقی بن گئی ہے۔’’گردراہ‘‘ کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ پوری کتاب میں ایک جہت ، ایک زاویے کا احساس ہوتا ہے۔ یہاں زندگی اپنے زمانے کی روح سے پیوست ہے اور زمانہ حالات سے مربوط ہے۔ ساتھ ساتھ واقعات ، حالات تجربات و مشاہدات کے مربوط بیان سے اس دور کی زندگی کے خدوخال اس طور پر ابھرے ہیں کہ زندگی اور زمانے کے رنگ نکھر کر اس تصویر کو خوبصورت بنا دیتے ہیں۔ یہ کتاب بظاہر مختلف ابواب میں تقسیم کی گئی ہے لیکن زاویہ نظر اور جہت کے سرے اس میں ایک ایسا ربط اور ایسی ترتیب پیدا کردیتے ہیں کہ شروع سے آخر تک یہ ایک دل کش اور جاذب نظر تحریر بن جاتی ہے۔ یہی ربط’’گروراہ‘‘ کو ایک خوبصورت اور دل فریب‘‘ ساخت عطا کرتا ہے اور اسے ایک باقاعدہ تصنیف و افکار بھی اور ساتھ ساتھ وہ انوکھی دلچسپی بھی جو ایک داستان میں ہوتی ہے۔ایک ایسی داستان جسے ایک بالغ نظر پختہ کار اور لفظوں کا پارکھ ادیب بیان کر رہا ہو۔’’ گردراہ‘‘ میں ایک چیز جو دل کو موہتی اور پڑھنے والے کو اپنی گرفت میں لیتی ہے، وہ سچائی کا جرأت کے ساتھ واقعاتی اظہار ہے جسے اتنی سادگی اور خلوص کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ سچائی کا اظہار قاری کو اپنے اثر کے سیلاب میں بہالے جاتی ہے۔ ادبی صحافت کے اس دور میں جب ساری زندگی اخبار کے صفحات پر اگر متبدل ہوگئی ہے۔’’گر دراہ‘‘ اپنے خالص ادبی اظہار اور ادبی رنگ کی وجہ سے ویسی ہی تازہ رہے گی جیسی آج ہے اور جسے پڑھنے والا بار بار پڑھ کر بھی اس کی معنویت سے اس کی خوشبو اور رنگوں سے لطف اندوز ہوتا رہے گا۔۔۔۔۔‘‘  ۱؎

 (خطبہ صدارت۔۲۲ فروری ۱۹۸۱ء بموقع تقریب اشاعت ’’گردراہ‘‘ زیر اہتمام ہمدرد کراچی۔۱۹۸۱)

  مندرجہ بالا اقتباس سے مختصراً ہی سہی اختر حسین رائے پوری کی خود نوشت ’’گردراہ‘‘ کی خصوصیات اجاگر ہوتی ہے۔ اور اس کے بعض اہم نقات پر روشنی پڑتی ہے۔

 ’’گردراہ‘‘ ۱۹۸۱ء میں پہلی دفعہ زیور طباعت سے آراستہ ہوکر منظر عام پر آئی۔ اس کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اپنی بصارت سے محروم اختر حسین رائے پوری نے اسے سات سال میں املا کرایا تھا۔ ابتدائی چند قطیں رسالہ افکار کراچی میں شائع ہوئیں۔ اس کے بعد مکتبہ افکار نے اس کا پہلا اڈیشن شائع کیا جو صرف تین ماہ میں ختم ہوگیا۔ اس کے بعد دوسرا اڈیشن ۱۹۸۰ء میں شائع ہوا۔

 اس کتاب کا تیسرا اڈیشن ۱۹۹۳ء میں الملم پبلشرز اردو بازار، کرانچی(پاکستان) کے زیر اہتمام شائع ہوا اس کتاب کے حرف آغاز یں اختر حسین رائے پوری نے نہایت ہی فلسفیانہ انداز میں زندگی کی باریکیوں ، زندگی کی خوشیوں، مسرتوں اور موجودہ ادب کی صورت حال پر اظہار خیال کیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ تعلیم و تعلم اور اپنی عملی زندگی کی بابت بھی اظہار خیال کیا ہے۔

 اپنی خود نوشت کو اختر حسین رائے پوری نے ۲۷ ابواب میں تقسیم کیا ہے لیکن سبھی ابواب کے درمیان باہمی ربط اس قدر ہے کہ یہ ایک مکمل ناول کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ اس بابت گذشتہ سطور میں ڈاکٹر جمیل جالبی نے اشارہ بھی کیا ہے کہ گرد راہ میں ناول کی طرح دلچسپی ہے اور اس میں زندگی کی سچائی بھی بھر پور ہے۔ جمیل جالبی نے ’’گردراہ‘‘ کی تقریب اشاعت موقع سے یہ بھی فرمایا ہے کہ اس میں خود نوشت نگار نے دوسروں کی طرح خود ستائی اور خودنمائی سے کام نہیں لیا ہے۔ لیکن ’’گردراہ‘‘ کے مطالعے کے دوران کئی مقامات پر وہ اپنے نظریے اور اپنی کار کردگی کو اس طرح پیش کرتے ہیں کہ مذکورہ عناصر کسی نہ کسی طور پر اس میں در آئے ہیں۔

 بہر حال’’گردراہ‘‘ کی مقبولیت اپنے زمانے میں حد سے بڑھ کر ہوئی ہندو پاک کے متعدد ادیبوں اور دانشوروں نے اس کی رواں اور دلچسپ نثر کو سراہا۔ اس کتاب پر تبصرے ہوئے۔ مباحثے ہوئے اور اس خود نوشت کو ان کی تحریر’’ادب اور انقلاب‘‘ کے بعد سب سے اہم اور عہد آفریں کارنامہ ثابت کیا گیا۔ اس کتاب کی سحرانگیزی کی سب سے بڑی وجہ اس کا باہمی ارتباط اور اس کی دلکشی ہے۔ تحریر کی شگفتگی اور دلکشی کا سبب زبان کی سادگی، بیان کااختصار اور رمزیت کا حسن ہے۔ واقعات اس قدر آپس میں مربوط ہیں کہیں بھی تکرار کا عیب نظر نہیں آتا۔ عام طور سے خود نوشتوں میں جزئیات نگاری بے لطف اور ابائو ہو جاتی ہے لیکن ’’گردراہ‘‘ میں اختر صاحب نے اس کا خاص خیال رکھا ہے۔ بے جاطول طویل جملے اور واقعات سے احتراز برتتے ہوئے انہوں نے خصوصی طور پر اسے فنکار رانہ ٹچ دے کر اہم بنایا ہے۔ جیسا کہ عرض کیا گیا کہ خود نوشت پوری زندگی کا ایک خاکہ ہوتا ہے۔ یہ ادیب پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ اس خاکے کو کس طرح پیش کرے کہ یہ فن کا نمونہ بھی بن جائے اختر صاحب پوری زندگی کی پیچیدگیوں کو سادگی اور سہولت سے بیان کر جائے ہیں۔ جس سے ان کی فکر کی پختگی کا اندازہ ہوتا ہے۔ بعض مقامات پر نازک معاملات سے گریز کرتے ہوئے انہوں نے رمزو اشارہ اور تلمیح سے کام لیا ہے۔ ان کی نثر میں جو ٹھہرائو اور ضبط ،اختصار اور ایجاز ملتا ہے۔ وہ ان کے عہد میں کسی اور کے یہاں نظر نہیں آتا ’’گردِ راہ‘‘ کی خصوصیات کو اجاگر کرتے ہوئے انجم اعظمی نے لکھا ہے۔

 ’’ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری نے چھوٹی کہانیوں کے بجائے زندگی کی سچائیوں کو اس انداز سے لکھا ہے کہ قاری بڑی آسانی سے اس حقیقت تک پہنچ جاتا ہے کہ اپنے سارے اتار چڑھائو اور غم و آلام کے باوجود زندگی کی حکایت ہی سب سے دلکش اور حسین ہوتی ہے۔(۲)

 (ایک عہد آفریں کتاب۔ انجم اعظمی ص۲۲۴)

 ’’گردراہ‘‘ کے مطالعے سے مندرجہ بالا باتوں کی توثیق بہ آسانی ہوجاتی ہے۔ وہ جہاں گردتھے کئی زبانوں کے جانکار تھے۔ اپنے عہد کے معروف سیاست دانوں کی صحبت میں بیٹھتے تھے۔ بنگلہ ، ہندی ،انگریزی اور اردو کے ادبا شعراء کے درمیان وقت گزارتے تھے۔ غیر ممالک کے دانشوروں سے واقف تھے۔ یہ تمام چیزیں ان کی شخصیت کی تعمیر میں معاون ثابت ہوئیں۔ اور ان تمام شخصیات کے متعلق ’’گردراہِ‘‘ میں انہوں نے اظہار خیال بھی کیا ہے ان کے یہاں چونکہ وسعت مطالعہ تھی اس لیے ان کا ذہن کشادہ تھا۔ ان میں اور دوسرے ادیبوں میں فرق یہ ہے کہ وہ پہلے سے رائج افکار اور اصول کے پابند نہ تھے۔ ان کی اپنی فکر اور سوچ تھی۔ اور اسی کی روشنی میں وہ آگے بڑھتے تھے۔انہوں نے زندگی کو مارکس اور اپنگلز کے قلعے سے الگ ہوکر بھی دیکھا اور ان کی عینک سے بھی لیکن جو شے خالص ان کے مشاہرے میں کھری اٹری اسے ہی انہوں نے قبول کیا۔

 ’’ گردراہ‘‘ میں دی گئی اطلاع کے مطابق اختر حسین رائے پوری ۱۲؍جون ۱۹۱۲ء کو رائے پور میں پیدا ہوئے۔ ان کے والداکبر حسین کا تعلق عظیم آباد کے ایک پرانے اور متمول خاندان سے تھا۔ اکبر حسین اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے اور رائے پور کے محکمہ آبپاشی میں افسر تھے۔ اختر حسین اوائل عمری میں ہی ماں سے محروم ہوگئے۔ ان کے بھائی مظفر حسین شمیم تھے۔ ان کے والد نے دوسرا عقد کر لیا اور نئی بیوی کے سبب اپنے دونوں لڑکوں سے دور ہوگئے،۔ ان کی پرورش و پرداخت ایک آیا کے ذمہ آئی۔ ابتدائی تعلیم کسی طرح مکمل ہوئی میٹرک کے بعد علی گڑھ روانہ ہوگئے اور وہاں ایک روز نامہ’’وشوامتر‘‘ میں ملازمت کرکے انٹر میڈیٹ کی تعلیم پوری کی تعلیم پوری کی۔ اس کے بعد علی گڑھ روانہ ہوگئے۔ علی گڑھ میں رہنے سے انہیں سب سے بڑا فائدہ حاصل یہ ہوا کہ سیاست ادب اور سماج سے متعلق بڑی بڑی ہستیوں سے ملنے تبادلہ خیال کرنے اور ان سے استفادہ کرنے کا موقع ملا۔ محمد خالد اختر کا یہ اقتباس ملاحظہ ہو۔

 ’’(گردراہ) آپ بیتی کے ساتھ جگ بیتی اور ان وقتوں کی تاریخی اور تہذیبی دستاویز بھی ہے۔ ان کی زندگی کی کہانی کا سلسلہ ان پر بصیرت دلچسپ سیاسی اور اخلاقی نوعیت کے تذکر وں سے بار بار ٹوٹتا ہے۔ مگر یہ ٹکڑے جگ بیتی  میں اس طرح گندھے ہوئے ہیں کہ اختر حسین نگاہوں سے اوجھل نہیں ہوتے۔ ان ٹکروں سے اس دور کی سیاست کا رنگ صفائی اور شوخی سے سامنے آتا ہے۔۔۔۔۔۔۔،، (۳)

(اختر حسین کی گردراہ۔ محمد خالد اختر۔ افکار کراچی ،مئی ۱۹۸۶ء ص ۲۳۵)

 اختر حسین رائے پوری تقریباً دو سال کی مدت تک بابائے اردو مولوی عبد الحق کے ساتھ حیدر آباد اور اورنگ آباد میں رہے۔ گردِ راہ میں اختر حسین رائے پوری نے ان سے متعلق واقعات بہت مزے لے کر بیان کیے ہیں۔ اختر حسین رائے پوری کی شادی کا واقعہ بھی عجیب و غریب تھا۔ اور یہ شادی مولوی عبد الحق کی وساطت سے ہی انجام پائی۔

 اختر حسین رائے پوری ایک جہاں گرد ادیب تھے۔ انہوں نے کئی ممالک کے اسفار اور اپنے قیام کا دلچسپ پیرائے میں اظہار کیا ہے۔ لیکن ان کے ذریعے انہوں نے ان ملکوں کی تہذیب ، طرز معاشرت اور ماحول کو مصور کر دیا۔

 ’’گردِراہ‘‘ میں اکثر مقامات پر اختر حسین رائے پوری کے خیالات اور ان کے نظریات سے سامنا ہوتا ہے۔ ان کے پاس عالمی سطح پر سوچنے اور نتائج اخذ کرنے والا ذہن ہے پوری کتاب پڑھنے کے بعد بھی کہیں یہ محسوس نہیں ہوتا کہ مصنف نے کسی کی دل آزاری کی ہے یا نہ ہی کہیں تعلی اور کذب گوئی سے کام لیا ہے۔ اس بابت مزید وضاحت کرتے ہوئے عبید اللہ قدسی نے لکھا ہے۔

’’گردِاراہ‘‘ کے مصنف نے اپنا دامن اس گرد سے آلودہ نہیں ہونے دیا ہے۔ چنانچہ ’’گردراہ‘‘ نہ غبار خاطر ہے نہ سیاست و سفر ناموں جغرافیہ ، تاریخ اور ڈائری سے جمع کیے ہوئے تعلیمی کتابوں کے نکات کا خاصہ ہے۔ نہ معلومات عامہ اور اطلاعات کا خزانہ ہے۔

 یہ نہ کوہ پیمائی ، ہو پیمائی ، بادیہ نشین اور صحرا گردی کی داستان ہے نہ اس میں صحافت اور سیاست کے تقابل نظریات کابیان ہے، نہ بڑے لوگوں کی شناسائی اور تعارف کا فخر نامہ ہے۔ بلکہ ایک اولوالعزم، تجربہ کار، تربیت یافتہ پروفیسر، منتظم ، محقق، اور ادیب کا مشاہدہ اور تجربہ ہے جسکا پیشہ ہی اہلکاروں، محققوں اور دانشوروں کے رابطے سے علم کی خدمت انجام دینا تھا۔‘‘(۴)

(’’گردارہ ایک مطالعہ عبید اللہ قدسی۔ افکار کراچی ،مئی۱۹۸۶ء ص۔ ۲۴۴)

 محولہ بالا اقتباس سے اختر حسین رائے پوری کی خود نوشت ’’گردراہ‘‘ کی بعض ایسی خصوصیات ظاہر ہوتی ہیں جو اکثر خود نوشتوں میں نہیں ہوتی ہیں۔ اس میں نہ کوئی اپنی ذات کی مرکزیت ہے اور نہ بیجا خود ستائی اور خود نمائی حقیقت کو جس طرح دیکھا اور محسوس کیا گیا ہے فکشن کے انداز میں پیش کر دیا گیا ہے۔ اس کی سب سے بطڑی خوبی اس کی Readablityہے۔ اور یہی خاصہ گردراہ کو ابنتدا تا آخر پڑھوا بھی لیتا ہے۔

 اختر حسین رائے پوری زبان کو انسان کی سب سے بڑی ایجاد تسلیم کرتے ہیں اور ادب کو انسانی جذبات و احساسات کا بہتر ذریعہ مانتے ہیں۔ وہ نثر ہویا نظم ہو اس کے لیے تنقید کو لازمنی عنصر قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ دنیا میں اگر پسماندگی لاعلمنی اور خامیاں ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تنقید کو اہمیت نہیں دی گئی اگر تنقیدی نقطۂ نظر قائم رہے گا تو اصلاح اور خامیوں وکمیوں کو دور کرنے کا راستہ کھلا رہے گا اور ترقی کی منزلیں ہمیشہ روشن رہیں گی۔ اس ضمن میں وہ مشرقی ذہن اور بالخصوص اسلامی ذہن نیز فن شاعری کا تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ضیح پیش کرتے ہیں کہ:

 ’’مشرقی ذہن کو بالعموم اور اسلامی ذہن کو بالخصوص فقہ اور شاعری نے یوں نقصان پہنچایا کہ ایک نے تنقید کی صلاحیت کو دوسرے نے اس کے اظہار کو مسرور کر دیا۔ شاعری کی نعت محدود ہے کیونکہ یہ اصلاً بیداری کی نہیں عالم خواب کی لغت ہے۔ جب تک جہاں ایجاد قبائل اور زراعتی معاشرے تک محدود تھا اور شاعری کی نغمگی پر موسیقی کا دھوکا ہو تا تھا۔ شاعری خدائی قدرت اور فطرت کی راز دانی کا دعویٰ کر سکتی تھی لیکن جب جدید علوم کا دور چند صدیوں پہلے شروع ہوا اور اس کے ساتھ صنعت و ابلاغ کا دور دورہ ہوا تو جہان معنی میں ایسی وسطت سے لے کر اب تک دنیا کی کسی زبان میں کوئی بڑا شاعر نہیں ہوا۔

 یہ تخلیقی نثر پر اس حد تک عائد نہیں ہوتا اگر اس کا جلوہ ہم اردو یں کم دیکھتے  ہیں تو اس کا بڑا سبب بر صغیر کی تقسیم ہے جس نے اردو کو اس وقت تقسیم کیا جب نشر کے عروج کا وقت آیا تھا۔‘‘ (۵)

(گرد راہ اختر حسین رائے پوری۔ص۔ ۱۳-۱۲)

 مندرجہ بالا سطور کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اختر حسین رائے پوری شاعری پر نثر کو اولیت دیتے ہیں۔ نچر کے بدلے شاعری کے لغت اور دائرہ اظہار کو محدود تصور کرتے ہیں۔ جبکہ اس سے پہلے تک شاعرانہ اظہار کو متنوع اور کثیر الجہت سمجھا جاتا تھا اور یہ خ

یال عام تھا کہ کہ شاعر صرف دو مصرعوں میں جو کچھ کہہ جاتا ہے نثر نگار اسے کئی صفحے سیاہ کرنے کے بعد بھی نہیں کہہ پاتا۔ اختر حسین چونکہ تخلیقی اور غیر تخلیقی دونوں طرح کی نثر سے حمایت کرتے

 اختر حسین رائے پوری ’’گروراہ‘‘ کی تمہید کے اخیر میں براہ راست اپنی افسانہ نگاری اور کود نوشت نگاری پر اظہار خیال کرتے ہیں۔ وہ بھی بہت مختصر اس لیے کہ وہ عمر کی ایسی منزل پر پہنچ گئے ہیں جہاں اعضا کم زور پڑ جاتے ہیں۔ ہاتھ میں رعشہ آجاتا ہے۔ اس لیے وہ اپنی خود نوشت املا کراتے ہیں۔ آخر میں پیش ہے اس سلسلے کا آخری پیراگراف:

’’اردو میں عین طالب علمی کے زمانے میں میرے ادبی شہرت کا آغاز بس افسانے سے ہوا (زبان بے زبانی۔ مطبوعہ نگار۔۱۹۳۳) کی ابتدا ان الفاظ سے ہوئی ہے۔ ’’ میں برگد کا ایک عمر رسیدہ درخت ہوں۔ نہ جانے کتنی مدت سے تن تنہا اور خاموش کھڑا ہوں۔ بر قرار اور بے قرار ، بے زبان اور نغمہ زن نہ جانے کتنی مرتبہ کڑ کڑاتی سردیوں میں اپنی برگ شاخوں سے کہر کی چادر کو ہٹا کر میں نے فریاد کی ہے؟ نہ معلوم کتنی مرتبہ موسم گل میں عطر بیز نسیم ، بہارن نے میرے بے حسن جسم میں سنسنی ڈال دی ہے۔ لیکن چھ دنوں سے میرے چہرے پر جھریاں پڑگئی ہیں۔ جسمانی تاثرات سے بھی بے پروا ہوگیا ہوں۔ سردیاں اور گرمیاں میرے لیے یکساں ہیں‘‘۔(۶)

(’’گردراہ‘‘۔ اختر حسین رائے پوری ص۔ ۱۴)

 ستم ظریفی دیکھئے کہ نوجوانی میں پیری کی کہانی لکھنے بیٹھ گیا تھا اب قلم سے کہہ رہا ہوں کہ بیتے ہوئے دنوں کی داستان مرقوم کر۔ معلوم نہیں میرا یہ روٹھا ہوا دوست کس حد تک میرا ساتھ دیتا ہ۔ وہ اٹکتا ہے تو میں دلاسا دیتا ہوں کہ میرے حافظے کا ساتھ دے البتہ خود فیصلہ کر کہ کیا گفسنی اور کیا ناگفتنی ہے  ؎

یادِ ماضی کے ابھی نقش بہت باقی ہیں

حافظہ دل کی طرح زور فراموش نہیں

٭٭٭

Akhar Hussain Raipuri ki Khud navisht… by: Dr Shabnam Parveen

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.