حسین الحق کے افسانے ایک تنقیدی نظر

نام کتاب                   حسین الحق کے افسانے ایک تنقیدی نظر

مصنف                    عبدالرحیم

صفحات                   ۱۷۶                        قیمت                       ۲۰۰  روپے

ناشر                        ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی

مبصر      شاداب شمیم ، ریسرچ اسکالر ، شعبۂ اردودہلی یونی ورسٹی ، دہلی

 حسین الحق فکشن نگاری کی دنیا کا ایک معتبر اور مشہور ومعروف نام ہے ۔ اب تک ان کے سات افسانوی مجموعے اور دو ناول منظر عام پر آکر ناقدین و قارئین سے داد تحسین حاصل کرچکے ہیں ۔ فکشن کے علاوہ انہوں نے تنقیدی اور مذہبی موضوعات پر بھی بہت کچھ لکھا ہے اور تصوف کے موضوع پر میں انہیں ایک خاص مہارت حاصل ہے ۔ حسین الحق ایک اچھے فنکار کے ساتھ ساتھ ایک اچھے انسان بھی ہیں ۔ان کی تحریروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے آس پاس کے ماحول، رہن سہن، طرز زندگی ، سماجی ناانصافی اور ظلم و جور کو باریک بینی سے دیکھا  اواپنی تخلیقات میں لفظوں کے ذریعہ تصویر وں کا ایک ایسا البم بنا دیا ہے جس سے ایسا محسوس ہو تا ہے کہ ہر تصویر اور ہر کر دار بول رہا ہے اور ہر منظر تاریخ و واقعات کے ایک روشن دان سے ماضی و حال اور آس پاس رو نما ہونے والے حالات و حوادث کی سیر کر ا رہا ہے ۔

                زیر تبصرہ کتاب میں مصنف نے حسین الحق کے افسانوں کا بہت ہے خوبصورت تنقیدی تجزیہ کیا ہے اور اس تجزیے میں انہوں نے فنی مہارت اور علمی بصیرت کا ثبوت پیش کیا ہے، جس میں وہ کامیاب بھی رہے ہیں ۔ مصنف نے اس کتاب میں چار ابواب قائم کیے ہیں پہلا باب اردو افسانہ اور افسانہ کی اجزائے تر کیبی پر ہے ،اس باب میں مختلف حوالوں سے افسانے کی تعریف پیش کی گئی ہے اور ایک افسانہ کے لیے کیا کیا چیزیں ضروری ہوسکتی ہیں ان کو بھی واضح کیاگیا ہے ۔ جیسے کہ ندرت ، جدت ، سریت، جا معیت اور تجسس یہ سب افسانہ کے تشکیلی لوازم میں سے ہیں اور یہ وہ چیزیں ہیں جو قاری کو اپنے گر فت میں لیے رہتی ہیں اور انہی وجوہات سے افسانہ میں دلچسپی شروع سے اخیر تک قائم رہتی ہے ، قاری حالات و اقعات اور حادثات کے پرپیج راہوں سے گذرتا ہوا اس وحدت تاثر کو قبول کر لیتا ہے جو افسانہ کی تخلیق کا سبب ہوا ہے ،یہ سب وہ چیزیں ہیں جس کی وجہ سے ایک افسانہ کو کامیاب افسانہ کہا جاسکتا ہے ۔

                دوسرے باب میں افسانہ کی مختصر تاریخ بیان کی گئی ہے اور افسانہ ابتدا سے اب تک کن کن مر احل سے گذرا اس پر بھی نظر ڈالی گئی ہے ، نیز تر قی پسند تحریک ،جدیدیت اور مابعدجدیت کا بھی مختصر تعارف بھی پیش کیا گیا ہے ۔ افسانہ کے موضوعات میں عہد بعد کیا کیا تبدیلیاں ہوئی ہیں اسے سمجھنے کے لیے ان تحر یکات سے واقف ہونا ناگزیرہے ، اس لیے کہ ان تحریکات نے اردو زبان و ادب پرگہرا اثر ڈالا ہے خاص طور سے تر قی پسند تحر یک نے اور جب تر قی پسند تحر یک نے دم توڑا تو پھر جدیدیت اور مابعد جدیدیت نے بھی اپنے اثرات اردو زبان و ادب پرثبت کیے ، اس کتاب میں مختصر طور پر ان تحر یکات کا ذکر کر کے یہ واضح کیا گیا ہے کہ افسانہ کے موضوعات میں تنوع کا آنا انہی تحریکات کا مر ہون منت ہے ۔

                تیسرے باب میں حسین الحق کے سوانحی کوائف ، عہد ماحول اور ان کے افسانوی مجموعے کی تفصیلات پیش کی گئی ہے ، اس باب میں حسین الحق کے حسب و نسب ، تعلیم ، ماحول ،خاندان اور ذاتی زندگی کے تدریجی مراحل کو بہت ہی اچھے ڈھنگ سے پیش کیا گیا ہے ، ان کے عہد کو بیان کر تے ہوئے مصنف نے ااس عہد کے سیاسی ، سماجی اور تہذیبی منظر نامہ کا بغور جائزہ لیا گیا ہے ، اس لیے کہ آج کے معاشرہ کا منظر نامہ ماضی کے منظر نامہ سے یکسر مختلف اور جدا ہے ۔ حسین الحق کے افسانے اپنے عہد کے عکاس ہیں ۱۹۶۰ء سے انہوں نے افسانہ لکھنا شروع کیا ، اس وقت سے اب تک جس طر ح کے حالات و واقعات ، سیاسی و سماجی ، تہذیبی و اخلاقی سطح پر رو نما ہوئے ہیں ان سب کا بیان ان کے افسانوں میں ملتا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ افسانہ نگار اپنے ماحول اور آس پاس کے واقعات و حادثات کی حقیقی تر جمانی کر تا ہے اور لفظوں کے پیچ و خم سے سے ایسے ایسے راستے وا کر تا ہے کہ قارئین کا انگشت بدنداں ہونا فطر ی ہے ، اس باب کے آخر میں مصنف نے حسین الحق کے افسانوں کے مجموعے کی تفصیلات مختصر طور پر پیش کی ہے ، تاکہ اندازہ ہوسکے کہ حسین الحق کے افسانوں کی تعداد کیا ہے اور کس طر ح انہوں نے اپنے عہد اور ماحول کو لفظوں کا جامہ پہنا یا ہے ، بلاشبہ یہ باب بہت ہی اہم ہے جو حسین الحق کے عہد اور ماحول کو سمجھنے میں رہنمائی کر تا ہے۔

                ’’حسین الحق کے افسانوں کا تنقیدی جا ئزہ ‘‘ چو تھے باب کا عنوان ہے جس میں حسین الحق کے ۴۴؍افسانوں کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے ، ویسے تو خود مصنف کے مطابق حسین الحق کے ۸۵؍ افسانے ان کے پیش نظر تھے ، لیکن انہوںنے انہی افسا نوں کا انتخاب کیا جو اپنے دو ر کے رجحانات اور مسائل کے بہترین نمائندے ہیں اور جس کے مطالعے سے نئی زندگی ، نئی تازگی اور بلند حوصلگی ملتی ہے ، اس باب کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ واقعی مصنف نے بڑ ی مہارت اور چابکدستی سے افسانوں کا انتخاب کیا ہے ’’ چہر ہ پس چہرہ‘‘ میں حسین الحق نے ملک کے فرقہ وارانہ فساد ، ظلم و استبداد اور ناانصافی کو بیان کیا ہے ، ساتھ ہی انہوں نے عالمی صورتحال اور وہاں کے مسائل کو پیش کیا ہے ، مصنف نے اس افسانہ کا تجزیہ اتنے اچھوتے اور انو کھے انداز سے کیا ہے کہ مصنف کی علمی پختگی کے ساتھ ساتھ ان کے وسیع مطالعے اور حالات حاضرہ سے واقفیت کا بھی اندازہ ہوتا ہے ، اسی طر ح سوانح حیات دھند میں ایک نظارہ ، بارش میں گھرا مکان ، آشوب اور انحد وغیرہ افسانوں کا بھی مصنف نے محنت اور لگن سے تنقیدی تجزیہ کیا ہے ، بلاشبہ یہ کتاب اردو ادب کے خزانہ میں ایک قیمتی اثاثہ ہے ۔

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.