۔’’یا خدا‘‘ : قدرت اللہ شہاب کا ایک شاہ کار ناولٹ۔
بلال احمد تانترے
شعبۂ اردو
جامعہ ملیہ اسلامیہ ،نئی دہلی
قدرت اللہ شہاب اردو ادب کی ایک قد آور شخصیت ہیں ۔ان کے ادبی کارنامے مختصر ہونے کے باوجود ایک طویل عرصے پر محیط ہیں ۔انھوں نے اردو ادب کی شاہراہوں پراپنے گہرے نقوش چھوڑے ہیں ۔ان کے ادب پاروں میں وہ سبھی عناصر موجود ہیں جو آنے والے کل میں بھی ان کی معنویت کو قائم رکھیں گے ۔ان کی تخلیقات فکری و فنی اعتبار سے نہ صرف اپنی پختگی کا اظہار کرتی ہیں بلکہ ان کی شخصیت کے ساتھ ساتھ ان کے وسیع اور گہرے مشاہدات کا ایک دلچسپ نچوڑ بھی پیش کرتی ہیں ۔
قدرت اللہ شہاب نے اردو ادب کی مختلف اصناف میں فن کے جوہر دکھائے ہیں ۔انھوں نے ایک مصروف زندگی گذارنے کے باوجود افسانے ،رپورتاژ ،ڈرامے اورمضامین لکھے ۔’’یا خداــ‘‘ جیسا ناولٹ لکھا اور سب سے بڑھ کر اردو ادب کو ’’شہاب نامہ‘‘ جیسی آپ بیتی سے نوازا،جس کی بازگشت ادب کے ساتھ ساتھ تاریخ اور سیاست کے شعبوں میں بھی بہت دیر تک سنائی دیتی رہے گی۔انھوں نے ان تمام اصناف ادب کو اپنے فکر وفن کی بالیدگی سے ایک نئی معنویت سے بھی روشناس کیا۔
قدرت اللہ شہاب نے اپنے معاصرین کے مقابلے میں بہت کم لکھا لیکن جو کچھ بھی لکھا وہ اردو ادب کے نثری سرمائے میں ایک اضافے کی حیثیت رکھتا ہے ۔انھوں نے ادب کی آبیاری مختلف طریقوں سے کی ۔وہ ادب شناس بھی تھے اور ادیب شناس بھی ۔انہوں نے گیسوئے ادب کو خود بھی سنوارا اور اس سے وابستہ لوگوں کی بھی خوب سرپرستی کی۔ان کے سائے میں بہت سے ادیبوں نے اپنی تخلیقی زندگی کو پروان چڑھایا ۔بانو قدسیہ،اشفاق احمد،ابن انشاء اور ممتاز مفتی خاص طور پر ایسے خوش بخت ادیبوں میں شمار ہوتے ہیں جنہیں ادبی زندگی کے ساتھ ساتھ نجی زندگی میں بھی ہر قدم پر ان کا دستِ تعاون حاصل رہا۔
قدرت اللہ شہاب نے دو افسانوی مجموعے ــ’’نفسانے ‘‘(۱۹۵۰ء)اور ’’ماں جی‘‘ (۱۹۶۸ء)،ایک ناولٹ’’یا خدا‘‘(۱۹۴۸) اور ایک ضخیم آپ بیتی ’’شہاب نامہ‘‘(۱۹۸۷) اپنی یادگار چھوڑے ہیں ۔
قدرت اللہ شہاب نے ’’یا خدا‘‘ اس زمانے میں لکھا جب وہ لارنس روڈ ،کراچی میں رہتے تھے ۔اس وقت تقسیم ِہند کی وجہ سے بر صغیر ہند و پاک کے مختلف علاقوں میں فرقہ وارانہ فسادات پھو ٹ پڑے تھے ۔سرحد کے دونوں اطراف قتل و غارت کا بازار گرم تھا اور انسانیت بے مول ہو چکی تھی۔عصمتیں لٹ رہی تھیں ،کہیں غیروں کے ہاتھوں تو کہیں اپنوں کے ہاتھوں ۔انسان اپنے اخلاقی اقدار بھول چکا تھا ۔وہ نہ مسلمان رہا تھا نہ ہندو اور نہ سکھ۔وہ پہلی بار رنگ و نسل اور مذہب و ملت کے محدود دائرے سے باہرنکلا تھا ،لیکن درندگی ،ہوس پرستی اور وحشت و بربریت برپا کرنے کی دھن میں ۔اس نے اپنے ہاتھ اپنے ہی خون سے رنگ لیے تھے ۔اس کے ہاتھوں برسوں کی محفوظ عصمتیں لٹ رہی تھیں ،بے گناہ جسم کٹ رہے تھے اور صدیوں کے مضبوط خاندان ٹوٹ کر بکھر رہے تھے ۔اس نے ہر طرف ایسا خوف ناک منظر برپا کررکھاتھا کہ جسے دیکھ کر آسمان پر فرشتے بھی لرز اٹھے ہوں گے ۔
’’یاخدا‘‘ پہلی بار ’’نیا دور ‘‘ کے فسادات نمبر میں شائع ہوا ۔اس کے بعد قدرت اللہ شہاب نے اپنے احباب کے اصرار پر اسے کتابی صورت میں ممتاز شیریں کے ایک خوبصورت دیباچہ کے ساتھ کراچی سے جون ۱۹۴۸ میں شائع کیا۔کتابی صورت میں شائع ہونے کے بعد ایک مختصر سے عرصے میں ہی اس ناولٹ کے چھ ایڈیشن شائع ہوئے ۔برصغیر ہند و پاک کے مختلف اشاعتی اداروں کی طرف سے آج تک اس ناولٹ کے بیسیوں ایڈیشن شائع ہوئے ہیں ۔’’یاخدا ‘‘ جب کتابی صورت میں شائع ہوا تو اس وقت یہ فسادات کے موضوع پر سب سے زیادہ پڑھا جانے والا ناولٹ ثابت ہوا۔عوام میں اس کو بے حد پذیرائی حاصل ہوئی۔ لوگوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔لیکن ادب کے ایک مخصوص طبقے سے وابستہ لوگوں نے اس کی بھر پور مخالفت بھی کی ۔انھوں نے اس کے خلاف مختلف ادبی رسائل و جرائد میں تنقیدی مضامین بھی لکھے ۔قدرت اللہ شہاب نے اس مخالفانہ روش کے آگے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا۔انھوں نے کسی کی تنقید کا جواب دینا مناسب نہیں سمجھا ،اس لیے نہیں کہ ان کی تخلیق میں کوئی خامی تھی یا ان میں اس مخالفت کا سامنا کرنے کی صلاحیت نہیں تھی بلکہ ان کا خیال تھا کہ :
’’یہ نقّاد اگر حق بجانب ہیں تو یہ کہانی بہت جلد مردہ ہوکر دفن ہوجائے گی‘‘ ۱؎
آج ’’یاخدا‘‘ پر تنقید کرنے والوں کی وہ تحریریں جن میں انھوں نے ایک مخصوص نقطئہ نظر کے تحت اس ناولٹ اور قدرت اللہ شہاب کے خلاف ایک طوفان برپا کردیا تھا ، قصۂ پارینہ سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتی ہیں ۔اس کے بر خلاف ’’یاخدا‘‘ادب کے گمنام گوشوں میں دفن ہونے کے بجائے آج بھی اشاعت کے پہلے دنوں کی طرح شوق کے ساتھ پڑھا جاتا ہے ۔اسے آج بھی وہی پذیرائی حاصل ہے جو پہلے تھی۔اس کی مقبولیت میں کسی بھی زمانے میں کمی نہیں آئی ۔ اردو نثر کی تاریخ میں فسادات کے موضوع پر تخلیق کیے گئے ادب میں ’’یاخدا‘‘ ایک سنگ ِمیل کی حیثیت رکھتا ہے اورجب بھی اردو ادب میں فسادات پر مبنی ادب کی تاریخ مرتب کی جائے گی تو اس میں ’’یا خدا‘‘کو اہم مقام حاصل ہوگا۔
تقسیم ہند اور اس کی وجہ سے برپا ہونے والے فسادادت نے برصغیر ہند و پاک میں انسانی زندگی کو بہت متاثر کیا۔ اس نے جغرافیائی سطح پر جہاں ایک ملک کو دو حصوں میں تقسیم کیاوہیں اخلاقی سطح پر دو قوموں کے درمیان نفرت کی ایک ایسی لکیربھی کھینچی جس کی مثال تاریخ کے اوراق میں بہت کم دیکھنے کو ملتی ہیں ۔یہ ایک ایسا خوف ناک واقعہ تھا جس نے اپنے عہد کی زندگی کے ہر شعبے پر اپنے اثرات مرتب کیے لیکن مثبت کم اور منفی زیادہ ۔اردو ادب بھی اس سے متاثرہوئے بغیر نہ رہ سکا ۔اردو فکشن اور شاعری پر اس نے ایسے گہرے اثرات مرتب کیے کہ بہت دیر تک تقسیم ہند اورفسادات ان کا موضوع بنا رہا۔بیسویں صدی میں اردو کا شاید ہی ایسا کوئی ادیب ملے گا جس نے اس موضوع پر کچھ نہ لکھا ہو ۔اردو میں تقسیم ہند اور اس سے پیدا ہونے والی صورت حال پر ناول ،افسانے اور بے شمار مضامین لکھے گئے ۔لیکن جہاں تک اس موضوع پر ناول ،ناولٹ یا طویل افسانے لکھنے کا تعلق ہے تو اس میں نمایاں لکھنے والوں میں قرۃالعین حیدر ،خدیجہ مستور ،کرشن چندر ،سعادت حسن منٹو ،نسیم حجازی،عبداللہ حسین ،راما نند ساگر اور ا ے حمید وغیرہ شمار ہوتے ہیں ۔ قدرت اللہ شہاب ان سب میں ایک ایسا نام ہے جنہیں فسادات کے موضوع پر لکھنے والے ادیبوں کی صف میں ہمیشہ اونچا مقام حاصل رہے گا ۔انھوں نے تقسیم ہند اور فسادات کے موضو ع پراگر چہ ایک ہی ناولٹ ’’یاخدا‘‘ کے عنوان سے اپنی یادگار چھوڑا ہے لیکن یہ ایک ایسی تحریر ہے جو متعلقہ موضوع پر ان کے معاصرین کی بیسیوں تحریروں پربھاری ہے ۔ ان کو ’’یاخدا‘‘ لکھ کر جو شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی وہ اس موضوع پر کئی ناول اور افسانے تحریر کرنے والے اردوکے کسی دوسر ے ادیب کو نصیب نہیں ہو سکی ۔
قدرت اللہ شہاب نے ’’یاخدا‘‘ کی ترتیب میں ایک ایسا طرز اختیار کیا ہے جو نہ صرف دلچسپ ہے بلکہ اس میں ایک ایسی انفرادیت بھی ہے جو اس ناولٹ کو فنی سطح پر اپنے معاصر ناولٹوں میں ایک نمایاں مقام عطا کرتا ہے ۔انھوں نے موضوع اور اس سے متعلق اپنے تجربات و احساسات نیز اپنے نقطۂ نظر کے واضح ابلاغ کے پیش نظر ناولٹ کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے :
پہلا حصہ :رب المشرقین ( تری دنیا میں محکوم و مجبور )
دوسرا حصہ : رب المغربین (مری دنیا میں تیری پادشاہی )
تیسرا حصہ : رب العالمین (مجھے فکر جہاں کیوں ہو جہاں تیرا ہے یا میرا )
قدرت اللہ شہاب نے ناولٹ کے ان تینوں ابواب کو تسبیح کے دانوں کی طرح ایک لڑی میں پرو دیا ہے ۔ ان تینوں حصوں کا مرکز ومحور ’’دلشاد‘‘ہے ،جو اس ناولٹ کا مرکزی کردار ہے ۔رب المشرقین ،رب المغربین اور رب العالمین ،ناولٹ کے یہ تینوں حصے ’’دلشاد‘‘کی زندگی اور سرحد کے دونوں اطراف میں اس کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو اس طرح سامنے لاتے ہیں کہ قاری کے دل میں ’’دلشاد‘‘ کے لیے ہمدردی کا جذبہ پیدا ہوجاتاہے ۔
’’یاخدا ‘‘کا آغاز تقسیم ِ ہندسے کچھ عرصہ قبل مشرقی پنجاب میں سکھوں کے ایک گائوں چمکور سے ہوتا ہے جہاں ’’دلشاد‘‘ اپنے باپ ملا علی بخش کے ساتھ مسجد کے حجرے میں رہا کرتی تھی۔ملا علی بخش کی وجہ سے چمکور کی مسجد آباد تھی ۔وہ پانچ وقت اذان دیتا تھا لیکن امریک سنگھ کی بیوی اور اس کی بہن کو اذان سے بڑی کوفت ہوتی تھی کیوں کہ :
’’اس نے بڑے بزرگوں سے سن رکھا تھا کہ اذان میں کالے جادو کے بول ہوتے ہیں اور جوان عورتیں اسے سن کر ’’بانگی‘‘جاتی ہیں ۔اگر بن بیاہی نو خیز لڑکی بانگی جائے تو اس کے بانجھ ہونے کا ڈر تھا۔اگر بیاہی ہوئی بیوی بانگی جائے تو اس کے حمل گرنے لگتے تھے !چناچہ امریک سنگھ کے گھر میں پشت ہا پشت سے یہ رسم تھی کہ ادھر اذان کی آواز فضا میں لہرائی ادھر کسی نے کٹورے کو چمچے سے بجانا شروع کیا ۔کسی نے چمٹے سے لڑایا ۔کوئی کانوں میں انگلیا ں ٹھونس کر بیٹھ گئی ،کوئی بھاگ کر پچھلی کوٹھری میں جا گھسی۔۔۔اور اس طرح بہادر خاندان اپنی لاڈلیوں کی کوکھ کو کالے جادو کے اثر سے بچاکر ہرا بھرا رکھتا آیا تھا‘‘ ۲؎
تقسیم ہند کے وقت چوں کہ ہندستان کے مختلف صوبوں میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے تھے تو اس کا اثر چمکورپر بھی پڑا جہاں سکھوں نے گائوں کے سبھی مسلمانوں کو بے دردی سے قتل کردیا ۔ملاعلی بخش کوسکھ خصوصاًاذان کی آواز سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا حاصل کرنے اوربقول قدرت اللہ شہاب’’ اپنی عورتوں کی کوکھ کو کالے جادو کے اثر سے بچا کر ہرا بھرا رکھنے کے لیے ‘‘جس وحشیانہ انداز میں قتل کرتے ہیں اس کا اندازہ اس اقتباس سے لگایا جاسکتا ہے :
’’جس روز وہ کنوئیں کی منڈیر پر بیٹھا وضو کررہا تھا امریک سنگھ نے خود اسے نیزے کی نوک پر اچھالا،ترلوک سنگھ نے اس کواپنی تلوار پر آزمایا،گیانی دربار سنگھ نے اس کے جھنجھناتے ہوئے خون آلود جسم کو تڑاخ سے کنوئیں میں پھینک ڈالا‘‘ ۳؎
چمکور سے مسلمانوں کو ناپید کرنے کے بعد سکھوں نے ’’دلشاد‘‘ کو اسی مسجد میں رکھاجس کے گنبد کبھی ملا علی بخش کی اذانوں سے گونج اٹھتے تھے لیکن اب یہاں کوئی اذان نہیں دیتا،کوئی تلاوت نہیں ہوتی اور نہ ہی نمازیں ادا کی جاتی ہیں ۔یہ مسجدپھر بھی ،گوردواروں کے مقابلے میں چمکور کے سکھوں کی توجہ کا مرکز بنی رہتی ہے لیکن اس کی حیثیت بدل جاتی ہے ۔یہاں پہلے نمازی اپنے معبودِ برحق کے سامنے سربسجود ہونے کے لیے دوڑے چلے آتے تھے اب لوگ جنسی بھوک مٹانے کے لیے باریاں باندھ باندھ کر آتے ہیں ۔باپ ،بیٹا ،بھائی سبھی باری باری آکر ’’ دلشاد‘‘ کو بے آبرو کرتے ہیں ۔اس کو جنسی تشدد کا نشانہ بناتے ہیں ۔ مسجد میں رات دن شراب و کباب کے دور چلتے ہیں ۔بھنگ کی بالٹیاں بٹتی ہیں ۔ جب ’’دلشاد‘‘ کوجنسی ،جسمانی اور ذہنی اذیتیں پہنچائی جاتی تھی تو بقول قدرت اللہ شہاب سکھوں کو:
’’یہ فخر ہوتاکہ وہ گن گن کر ساڑھے تیرہ سو برس کی اذانوں اور نمازوں کا بدلہ چکا رہے ہیں ‘‘۳؎
سکھوں پر جب ’’دلشاد ‘‘کے حاملہ ہونے کا انکشاف ہوا تو امریک سنگھ نے اسے اغوا شدہ مسلمان عورت کی برآمد گی کے طورپر اپنے نزدیکی تھانے میں لے جاکر پولیس کے حوالے کیا جہاں اس کی کارگزاریوں کو بہت سراہا جاتا ہے اور اسے اغوا شدہ عورتوں کی تلاش میں مقامی انتظامیہ کی مدد کرنے پر ڈپٹی کمشنر سے سند دلوانے کا وعدہ بھی کیا جاتا ہے ۔اس طرح امریک سنگھ مجرم ہوکر بھی داد و تحسین حاصل کرنے اور سماج میں اپنا جھوٹا بھرم قائم کرنے میں بھی کامیاب ہوجاتا ہے ۔تھانے میں بھی ’’دلشاد‘‘ کی مشکلیں کم نہیں ہوتی ہیں ۔امریک سنگھ ،ترلوک سنگھ اور چمکور کے دوسرے سکھوں کے چنگل سے نکل کر اب وہ بہت دنوں تک تھانے دار لبھورام کے جنسی تشدد کانشانہ بنتی ہے :
’’پندرہ بیس دن کے بعد جب تھانیدار لبو رام کے گھٹنوں اور کولہوں اور کمر کا درد ذرا کم ہوا تو انہوں نے دلشاد کو چھٹی دی اور ہیڈکانسٹیبل دریودھن سنگھ کے ساتھ اسے انبالہ کیمپ بھیج دیا گیا۔راستہ میں ہیڈ کانسٹیبل دریو دھن سنگھ کے کولہوں اور گھٹنوں میں بھی کئی بار درد اٹھا ۔لیکن دلشاد بڑی تند ہی سے اس کے درد کا مداوا کرتی گئی اور دس گھنٹے کی مسافت انہوں نے دس بارہ دنوں میں بخیرو عافیت طے کر لی ‘‘۴؎
انبالہ کیمپ میں ’’دلشاد‘‘ کی طرح بہت سی ایسی لڑکیاں تھیں جن کی تنویروں پر راستے میں امریک سنگھ ،ترلوک سنگھ ،تھانے دار لبھورام اور ہیڈ کانسٹیبل دریودھن سنگھ جیسے درندوں نے کیچڑ مل دیا تھا،اب انبالہ کے کیمپ کمانڈر میجر پریتم سنگھ اور اس کے ماتحت دوسرے سپاہیوں کی جنسی ہوس کا نشانہ بنتی ہیں ۔لیکن مغرب (مغربی پنجاب)کا خوش آئند تصور ان عورتوں کو ٹوٹ کر بھی ٹوٹنے نہیں دیتا ا وراسی لیے ان کا سفر ظلم وستم سہنے کے باوجود اپنی منزل کی جانب جاری رہتا ہے ۔انہیں یقین تھا کہ مغرب میں ان پر سے ظلمت کا سایہ چھٹ جائے گا ،وہاں ان کے زخموں کا مرہم اور ان کے درد کا مداوا کرنے والے راہوں میں اپنی پلکیں بچھائے ا ن کے منتظر ہوں گے ۔مغرب کا نام آتے ہی ان پر ایسی کیفیت طاری ہوجاتی کہ وہ سر سے سر جوڑ کر گیت گانے لگتی ۔ان کے ذہنوں میں مغرب کا جو تصور تھا اس میں امید کی ایک ایسی کرن پنہاں تھی جس نے ابھی تک ان کے ٹوٹے ہوئے بدن کو زندگی سے جوڑرکھا تھا ۔مغرب کے بارے میں ان کا خیال تھا :
’’مغرب میں کعبہ ہے ۔کعبہ اللہ میاں کا اپنا گھر ہے ۔لیکن کیمپ کی دوسری عورتیں کہتی تھیں کہ مغرب میں اور بھی بہت کچھ ہے ۔وہاں ہمارے بھائی ہیں ،ہماری بہنیں ہیں ،ہمارے ماں باپ ہے ۔وہاں عزت ہے ۔وہاں آرام ہے ۔۔۔دلشاد سوچتی تھی کہ شاید وہاں رحیم خان بھی ہو !یہ خیال آتے ہی اس کے جسم کا رواں رواں مچل اٹھتا اور وہ بے چین ہوجاتی کہ پر لگا کر اڑجائے اور اپنے تھکے ہوئے ،دکھے ہوئے جسم پر اس ارض مقدس کی خاک مل لے ‘‘۵؎
مغرب پہنچنے سے پہلے ’’دلشاد‘‘ ٹرین میں بچی کو جنم دیتی ہے ۔اس لیے اس کولاہور ( مغرب )کے ریلوے اسٹیشن کی مہترانی سے چند غلیظ گالیوں کے ساتھ ساتھ ’’رانڈ‘‘ ہونے کا طعنہ بھی سننا پڑتا ہے ۔اس کی حالت خراب ہوجاتی ہے لیکن کوئی اس کی مدد نہیں کرتا ۔اس کا بدن بھوک اور پیاس سے سوکھ جاتا ہے ۔ایسے میں وہ سوچنے لگتی ہے کہ :
’’شاید وہ رات بھر سوتی ہی رہی اور مغرب کی سہانی منزل مقصود کو پیچھے چھوڑ آئی‘‘۶؎
لاہور کے ریلوے اسٹیشن پر اس وقت ’’دلشاد‘‘ کے سینے میں امید کی کرنیں پھوٹنے لگیں جب ’’انور ‘‘اور ’’رشید‘‘ اس کی مدد کے لیے آئے ۔یہ ایسے نام تھے جن کو سننے کے لیے مہینوں سے اس کے کان ترس رہے تھے ۔ اسے یو ں محسوس ہوا کہ:
’’شاید یہ خوبصورت جوان وہ مہربان بھائی ہوں ،جن کے خون کی کشش انبالہ کیمپ کی عورتوں کو ہر لمحہ اپنی طرف کھینچا کرتی تھی ۔اس خیال سے دلشاد کے دل میں خوشی کی ایک لہر سی ناچی۔۔۔‘‘۷؎
’’اب جو اس کے کانوں نے رشید اور انور کے نام سنے تو اسے یوں محسوس ہوا ،جیسے وہ آب کوثر سے نہارہی ہو ۔جیسے وہ پاک و مصفا پانی اس کے گلے ہوئے ،سڑے ہوئے جسم پر گلاب اور کافور کی خوشبوئیں چھڑک رہا ہو ۔۔۔اس کی گری ہوئی گردن میں افتخار آگیا ۔اس کے مایوس اور غم دیدہ سینے میں امید و مسرت کی کرنیں پھوٹ اٹھیں ۔۔۔‘‘۸؎
انور اور رشید نے دلشاد کو ’’ بہن‘‘ کہہ کر پکارا اس لیے وہ سادگی سے ان دونوں کو اپنے بھائی تصور کرکے خوشی کا اظہار کرتی ہے لیکن اس کو یہ معلوم نہ تھا کہ جن بھائیوں کو دیکھ کر اس کے ٹوٹے اور تھکے ہوئے بدن کوبہت دنوں کے بعد راحت محسوس ہوئی ہے وہ بھی مشرق کے ترلوک سنگھ ،امریک سنگھ ،شمشیرسنگھ ،کرتار سنگھ،پنجاب سنگھ،سورمکھ سنگھ اور دربار سنگھ کی طرح اس کو ااپنی ہوس کا نشانہ بنانا چاہتے ہیں ۔لاہور کے ریلوے اسٹیشن پر لوگوں کی طنز آمیز باتیں سننے کے بعد ’’دلشاد‘‘ ایک بزرگ کے کہنے پر وہاں کے مہاجر خانے میں چلی گئی جہاں وہ ایک افسر کے پوچھنے پر اپنے شوہر کا نام ’’رحیم خان‘‘لکھواتی ہے ۔یہ کوئی فرضی نام نہیں تھا بلکہ اس نام کے ساتھ ’’دلشاد ‘‘ کی ہزاروں یادیں وابستہ تھیں ۔رحیم خان بھی چمکور کا رہنے والا تھا لیکن تقسیم ہند کے وقت برپا ہونے والے فسادات کے بعد لاپتہ ہوگیا تھا۔اس کے بارے میں کسی کو کوئی خبر نہ تھی کہ وہ زندہ ہے یا مر گیا ہے ۔اس کی تلاش بھی ’’دلشاد‘‘کے کٹھن سفر کا ایک مقصد ہے ۔
مہاجر خانے میں بھی ’’دلشاد ‘‘ کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔اسے وہاں رضائیوں اور کمبلوں کے انبار ہونے کے باوجود کھلے آسمان تلے ٹھنڈی راتیں گذارنی پڑی ۔ مہاجر خانے کے سبھی لوگوں کا یہی حال تھا اور سردی کی وجہ سے بہت سے افراد کو موت نے اپنی آغوش میں لیا ۔ان میں سب سے دردناک واقعہ اس عورت کی موت کا تھا جواپنے بدن سے کپڑے اتار کر اپنی چارسالہ بچی کو ان میں ڈھانپ لیتی ہے لیکن دونوں ماں بیٹی سردی کی شدت کے سامنے زندگی کی جنگ ہار جاتی ہیں ۔یہ واقعہ اس قدر غم ناک اور دل کو دہلا دینے والا تھا کہ جسے دیکھ کر رات کی تاریکی میں آسمان پر چاند اور ستارے بھی بادلوں کی اوٹ میں چھپ جاتے ہیں ۔ قدرت اللہ شہاب نے اس مقام پر سٹور کیپر کی بے حسی کے پردے میں پورے نظام کو جس انداز میں اپنے طنز کا نشانہ بنایا ہے اور ایک ماں کی ممتاکو جس حقیقت نگاری کے ساتھ الفاظ کے قالب میں برتا ہے وہ ان ہی سے ممکن تھا:
’’اس کی ماں گھبراگئی ۔بے بس ہوگئی ،لاچار ہوگئی۔اس نے کھڑے ہو کر گردوپیش کا جائزہ لیا ۔زمین پر اندھیرے کا سیاہ کفن چڑھا ہوا تھا ۔کبھی کبھی چاند بھی اپنے لحافوں کی اوٹ سے جھانک کر دیکھ لیتا تھا ۔چاروں طرف سکوت پاکر وہ عورت سمٹ کر بیٹھ گئی ۔اس نے چوروں کی طرح دزدیدہ نگاہوں سے ادھر ادھر دیکھا اور ہولے ہولے جھجھکتے ہوئے ،شرماتے شرماتے اس نے اپنے کپڑے کھول کر اپنی ٹھٹھری ہوئی بیمار بچی کو ان میں لپیٹ لیا ۔اندھیرے میں ایک بجلی سی لہرائی اور اس جوان عورت کا برہنہ جسم کائنات کے ذرے ذرے کو للکارنے لگا کہ دیکھو دیکھو یہ لاجواب ساعت بیت نہ جائے ۔تم نے ارض و سما کے بہت سے راز دیکھے ہوں گے ۔لیکن تم اس ماں کے برہنہ جسم کو نہ بھول سکو گے جس کے کپڑوں میں اس کی مرتی ہوئی بیٹی لپٹی پڑی ہو اور بڑا سخت پالا پڑرہا ہو اور سٹور میں گرم کمبل اور لحافوں کے ڈھیر ہوں ۔اور سٹور بابو رضائی میں لپٹا ہوا’’شکوہ ‘‘ گا رہا ہو اور۔۔۔عورت کا عریاں جسم ایک غلیظ گالی بن کر چاروں طرف چھاگیا ۔رات کی ظلمت میں روسیاہی کی کالک اور بھی زیادہ گہری ہوگئی ۔آسمان پر جو ستارے ٹمٹمارہے تھے آنکھیں موند کر بادلوں کی اوٹ میں چھپ گئے ۔چاند بھی اپنے لحافوں کے بیچ سے جھانک کر یہ نظارہ دیکھنے کی تاب نہ لا سکا ۔ایک گھنگھور گھٹا جو آسمان پر بے پروائی سے بکھری ہوئی تھی ،سمٹ سمٹ کر اکٹھی ہوگئی ۔اور بادلوں کی پلکوں سے موٹے موٹے آنسو گرنے لگے ۔‘‘۹؎
مہاجر خانے میں زندگی اور موت کے درمیان کشمکش اسی طرح جاری رہتی ہے ۔پہلے ایک جوان عورت اور اس کی چار سالہ بیٹی ،اس کے بعد ننھے محمود اور زبیدہ کا دادا سردی کی وجہ سے اس ارض مغرب پر ،جس کی کشش نے انہیں اپنی جانب کھینچ کر لایا تھا اس طرح مو ت کی لپیٹ میں آئے جس کا انھوں نے کبھی تصور بھی نہ کیا ہوگا ۔مہاجر خانے کا میدان لاشوں سے بھر جاتا ہے ۔’’دلشاد‘‘ یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھتی ہے ۔موت اور زندگی کی کشمکش کا یہ کھیل دن رات اس کے سامنے جاری رہتا ہے ۔اس نے مہاجر خانے میں بڑے بڑے نوابوں اور رئیسوں کو آتے جاتے دیکھا اور ان کی خوبصورت بیگمات کو بے بس و بے سہارا عورتوں کی آپ بیتی سنتے اور ان کے معصوم بچوں پر شفقت کا ہاتھ پھیرتے دیکھا ،کسی کو مٹھائی لاتے ،کسی کو کپڑے بانٹتے ،کسی کو پلائو اور قورمے کی دیگیں تقسیم کرتے بھی دیکھا لیکن اس ظاہری ہمدردی اور خلوص سے عاری کارِخیر کے پردے میں جو کھیل کھیلا جارہا تھا اس کا بھی خوب تماشہ دیکھا۔ایسے میں :
’’دلشاد سوچتی تھی کہ جب کوئی جوان مرد محمود اور زبیدہ کا قصّہ سننے گا تو سٹور بابو کو کان سے پکڑ کر گولی سے اڑادے گا کہ اس نے اس کڑاکے کی سردی میں بھی دادا کو صرف ایک ہی کمبل دیا ۔وہ ڈرتی تھی کہ جب کوئی دبدبے والے ،طنطنے والے بلند اقبال لوگ اس کی اپنی رام کہانی سنیں گے تو ان کا خون کھول اٹھے گا ۔ان کی غیرت کو شدید چوٹ لگے گی۔اور وہ اپنی بندوقیں اٹھا کر امریک سنگھ ،ترلوک سنگھ ،کرتار سنگھ،دربار سنگھ کی تلاش میں چل نکلیں گے ۔۔۔لیکن سننے والے سنتے گئے ،سنانے والے سناتے گئے ۔دن میں مٹھائی اور پلائو بٹتا گیا رات کو زمستانی ہوا کی شمشیر اپنے وار کرتی گئی اور مہاجر خانے کا بائیسکوپ بدستور چلتا گیا ۔ایک سین کے بعد دوسرا سین ،دوسرے سین کے بعد تیسرا سین ۔۔۔‘‘۱۰؎
مہاجر خانے میں بہت سے ایسے لوگ آتے تھے جو جوان اور خوبصورت عورتوں کو بہلا پھسلاکرا پنے ساتھ لے جاتے تھے لیکن بعد میں ان کو اپنی ہوس کا نشانہ بناکر دوبارہ کیمپوں میں چھوڑجاتے تھے ۔اس طرح کے لوگ کیمپ کی عورتوں سے اپنی جنسی بھوک مٹانے کے لیے طرح طرح کے حربے استعمال کرتے تھے ۔مصطفی خاں سیمابی بھی انہی لوگوں میں سے تھاجس کی ہوس نا ک اور غلیظ نظروں کا ’’دلشاد‘‘ شکار ہوتی ہے ۔وہ ’’دلشاد‘‘ کو اپنے جال میں پھنسانے کے لیے سب سے پہلے اس کی بچی کے لیے سوئٹر لاتا ہے ۔اس کے بعد ’’رحیم خان‘‘کے مل جانے اور اس کے کمزور اور معذور ہونے کی جھوٹی خبر سناتا ہے ۔یہ ایک ایسی خبر تھی جس کو سننے کے لیے ’’دلشاد‘‘ پچھلے کئی مہینوں سے بے تاب تھی اور اس پر خوشی کی ایک ایسی کیفیت طاری ہوجاتی ہے کہ وہ مصطفی خاں سیمابی کے ساتھ اس کے بنگلے پر چلنے کو بے چین ہوجاتی ہے جہاں بنگلہ کے ہر ذرے اور اس کی فضائوں میں اسے رحیم خان کا عکس دکھائی دینے لگتا ہے اور اس کی نظروں میں بنگلے کے در و دیوار مقدس ہوجاتے ہیں ۔اس عالم بے خودی میں وہ مصطفی خاں سیمابی کی جنس آلود نظروں کو پہچان نہیں پاتی ہے کیوں کہ :
’’وہ دنیا و مافیہا سے بے خبر تھی ۔اس کی روح اپنے رحیم خان کے استقبال کے لیے سراپا انتظار بنی ہوئی تھی لیکن اس کے جسم کو ابھی تک کتے چچوڑ رہے تھے ۔۔۔مصطفی خاں سیمابی ڈریسنگ گائوں پہنے اس کے سامنے بھوکے گدھ کی طرح منڈلا رہا تھا ۔میز پر سکاچ وسکی کی بوتل جگمگا رہی تھی۔وہ اپنی بانہیں پھیلا پھیلا کر کہتا تھا ،کہ میری جان ،آکر میرے سینے سے لگ جائو۔تم بڑی غریب ہو لیکن میں ایک امیر انسان ہوں میں کچھ روز کے لیے تمہیں ملکہ بنا کے رکھوں گا ۔تمہارا رحیم خاں معلوم نہیں کہاں کھوگیا ۔شاید وہ کسی ویرانے میں مرا پڑا ہو۔لیکن تم اس فرضی ہستی کی یاد میں اپنی جوانی نہ گنوائو!میر ی جان ،آئو میرے سینے سے لگ جائو ۔اب تم اپنے آزاد وطن میں آگئی ہو ۔۔۔اب تمہیں کسی بات کا ڈر نہیں ۔یہ ہمارا وطن ہے ۔۔۔یہ ہمارا آزاد وطن ہے ۔پاکستان زندہ باد !پاکستان پائندہ باد !!۔۔۔دلشاد کے گلے میں ملا علی بخش کی تسبیح لٹک رہی تھی۔جب مصطفی خاں سیمابی کی زبان لپک لپک کر تسبیح کے دانوں کو چومتی تو دلشاد کو یہ محسوس ہوتا کہ ایک مسلمان بھائی سنگ ِ اسود کو بوسہ دے رہا ہے ‘‘۱۱؎
جب مصطفی خاں سیمابی نے اپنی جنسی بھوک مٹائی تو اس نے ’’دلشاد‘‘ کو واپس مہاجر خانے میں چھوڑدیا ۔لاہور میں جب ’’دلشاد‘‘ کو زندگی کی کوئی صورت نظر نہ آئی تو اس نے کراچی کا رخ کیا لیکن یہاں بھی اسے ظلم و جبر کے پاٹوں میں بے دردی سے پیسا گیا۔ آخرمیں مایوس و ناامید ہو کراور سب کے ہاتھوں رسوائی کے انبار اٹھا کر اس نے عید گاہ کے میدان میں ایک جھونپڑی میں جسم فروشی کا دھندہ شروع کیا۔یہاں پر ناولٹ کا اختتام ہوتاہے لیکن یہ اختتام المیے کی ایک گہری صورت مرتب کرتا ہے ۔
’’یا خدا ‘‘میں قدرت اللہ شہاب نے دو اہم موضوعات کو بنیادی اہمیت دی ہے ۔ایک فسادات کے دوران مہاجر ین کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور دوم ہجرت کرتے وقت عورت کا جنسی استحصال۔ان میں سے موخرالذکر کو نمایاں حیثیت حاصل ہے ۔کیوں کہ کہانی کا صرف آغاز و اختتام دونوں عورت پر ہی نہیں ہوتا بلکہ ہر صفحے پر عورت دیکھنے کو ملتی ہے ۔لیکن شاد و آباد کم بکھری ہوئی زیادہ ۔ یہ وہ عورت ہے جس نے ایک ایسے ماحول میں پرورش پائی تھی جہاں اس کے دل میں خدا کے غفورالرحیم ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے واحدالقہار ہونے کا بھی پختہ یقین پیدا ہوگیا تھا ۔وہ خدا کی بیش بہا رحمتوں اور اس کی لاتعداد نعمتوں پر دن رات اس کا شکر بجا لاتی اور اس کے آستانے پر کبھی نیم شب میں تو کبھی خیال ہی خیال میں اپنی جبیں کو بڑی عقیدت کے ساتھ جھکا دیتی تھی۔وہ ایک ایسی باحیا اور پاک دامن عورت تھی کہ اگر وہ اپناد امن نچوڑتی تو فرشتے وضو کرنے چلے آتے ۔اسے اپنی مذہبی و اخلاقی اقدار کا پاس ہی نہیں تھابلکہ وہ ان کی پابند بھی تھی۔لیکن فسادات کے دوران اسی عورت کے گر د ظلم و جبر کی ایسی اونچی دیواریں تعمیر کی جاتی ہیں جس کی مثالیں تاریخ کے اوراق میں بھی بہت کم دیکھنے کو ملتی ہیں ۔اسے نہ صرف غیروں کے ہاتھ نوچتے ہیں بلکہ اس کے اپنے بھی اس کو اتنی ہی جنسی و جسمانی اذیتیں پہنچاتے ہیں ۔اس کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھاکر سب نے اسے اپنی جنسی تسکین کے لیے جب چاہا ،جیسے چاہا اور جتنی بار چاہااستعمال کیا ۔
یاخدا میں ہم دیکھتے ہیں کہ ’’دلشاد ‘‘ کے بدن کو اس دھرتی پر بھی دن رات نوچا گیا جو اس کے تصورمیں ایک مقدس درجہ رکھتی تھی ۔فرق صر ف اتنا تھا کہ مشرق میں وہ غیروں کے ہاتھوں لٹی اور مغرب میں اسے اپنوں نے لوٹا ۔اس کے لیے سکھ اور مسلمان دونوں ایک نکلے ۔مغرب میں بھی رشید،انور اورمصطفی خاں سیمابی جیسے مسلمان بھائیوں کے پردے میں اس کے لیے امریک سنگھ ،ترلوک سنگھ ، ،شمشیرسنگھ ،کرتار سنگھ،پنجاب سنگھ،سورمکھ سنگھ اور دربار سنگھ ہر قدم پر موجود تھے ۔اس نے مغرب کے بارے میں جو تصویر اپنے ذہن کے پردوں پر نقش کی ہوئی تھی مغر ب اس کے برعکس نکلا ۔اس کے خیال میں مشرق سے لٹتے پٹتے جانے والے لوگ مغرب کی فٖضائوں میں چین کی زندگی بسر کریں گے ۔وہاں سب اپنے ہوں گے ،ان کے درد کا مداوا کرنے والے ،ان کے گہرے زخموں پر مرحم رکھنے والے اور ان پر بیتے حالات پر آنسو بہانے والے ۔۔۔لیکن اس کے یہ سبھی خواب ایک ایک کرکے ریزہ ریزہ ہوئے ۔ یہاں نہ کوئی درد کا مداوا کرنے والا تھا ،نہ کسی کے زخموں پر کوئی مرہم رکھنے والا تھا ،یہاں بھی عورت جنسی تشدد کا نشانہ بنتی ہے کہیں نوابوں ،رئیسوں اور سیا ست دانوں کے ہاتھوں تو کہیں اسے دھوکہ دے کر مصطفی خاں سیمابی جیسے لوگوں کے اونچے محلوں میں بڑی بے دردی سے لوٹا جاتا ہے ۔وہ غیروں میں جتنی مغائرت محسوس کرتی تھی اس سے کئی گنا زیادہ اسے ا پنوں میں اجنبیت کا احساس ہوتا ہے ۔اس کے جذبات یہاں بھی کسی کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتے ہیں ۔ یہاں بھی اس کی مجبوریوں اور کمزوریوں کا سب فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔اس کوشش میں لوگ کامیاب بھی ہوتے ہیں ۔اس مقام پر قدرت اللہ شہاب نے اپنے نظام پر شدید طنز کیاہے اور اپنوں کے ہاتھوں ظلم و ستم کا شکار ہونے والی عورتوں کی بے بسی پراپنے دکھ کا اظہاربڑے منفرد انداز میں کیاہے :
’’لاہور ،لاہور نہ تھا ،مدینہ تھا ۔لاہور والے ،لاہور والے نہ تھے ۔انصار تھے ۔۔۔نہیں !وہ تو شاید انصار مدینہ سے بھی کچھ درجہ افضل تر تھے ۔یہاں دلشاد کے لیے ہر روز ایک نیا رحیم خاں پیدا ہوجاتا تھا ۔۔۔زبیدہ کے لیے ہر روز ایک نیا دادا جنم لیتا تھا ۔بیٹوں کے لیے ،نئے نئے باپ تھے ۔۔۔بہنوں کے لیے نئے نئے بھائی ۔۔۔جسم کا رشتہ جسم سے ملتا تھا ،خون کا رشتہ خون سے ۔۔۔‘‘۲۱؎
’’یاخدا‘‘ کے مطالعے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ فسادات کی آڑ میں نہ معلوم کتنی بے گناہ عورتوں کوآگ کی اس بھٹی سے گذرنا پڑا ہوگا اور ایسی اور کتنی عورتیں ہوں گی جو ’’دلشاد‘‘ کی طرح لٹنے کے بعد بھی ’’دلشاد ‘‘ نہ بن سکی ہوں گی، جن کے نازک خواب پاؤں تلے بے دردی سے روندے گئے ہوں گے یا جن کو اپنے پیاروں کی تلاش نے مصطفی خان سیمابی جیسے درندوں کے اونچے بنگلوں میں رسوا کیا ہوگا ۔اس حوالے سے دیکھا جائے تو ’’دلشاد‘‘ فسادات کے وقت ظلم وستم کا شکار ہونے والی عورتوں کی سب سے بڑی ترجمان ہے ۔ اس کی ایک کہانی کے پردے میں ہزاروں مظلوم عورتوں کی درد بھر ی سسکیاں قاری کو سنائی دیتی ہیں ۔ قدرت اللہ شہاب اس مقام پر اپنے قاری کو دعوت فکر دیتا ہے اور جن بنیادوں پر ایک نو زائیدہ ملک پروان چڑھ رہا ہے اس پر خود بھی اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہیں اور اپنے وطن کے دوسرے افراد کو بھی بڑے خوبصورت انداز میں یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ جس راستے کا تم نے انتخاب کیا ہے وہ تمہار ے لیے ،تمہاری آنے والی نسلوں کے لیے اور سب سے بڑھ کر اس ملک کے لیے جس کو تم نے اسلام کے نام پر حاصل کیا ہے تباہی اور ذلت و رسوائی کا سبب بن سکتا ہے ۔’’یاخدا‘‘کے اختتام پر اس فکر مندی کا اظہار دلچسپ پیرائے میں ہوتا ہے :
’’زبیدہ نے دلشاد کو آواز دی ۔’’بہن ذرا اس طرف دھیان رکھنا محمود سورہا ہے ۔میں ذرا خان کے ساتھ جا کر دہی لے آؤ۔‘‘
اسی طرح جب دلشاد بھی اپنی پکوڑیوں کے لیے بیسن لینے کسی گاہک کے ساتھ جاتی ہے تو اپنی بچی کو زبیدہ کے سپرد کر جاتی ہے ۔دہی اور بیسن کی اس ملاوٹ پر دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ملت کا مستقبل پروان چڑھ رہا ہے ۔جب دلشاد کی بچی نرم نرم ،گرم گرم پکوڑیوں پر پل کر جوان ہوگئی ۔جب زبیدہ کا محمود دہی بڑوں کی چاٹ پر سیانا ہوگا ،تو اسلام کی برادری میں دو گرانقدر رکنوں کا اضافہ ہوجائے گا۔ایک مضبوط بھائی ،ایک خوبصورت بہن۔۔۔جسم کی مضبوطی اور جسم کی خوبصورتی !‘‘۳۱؎
’’یاخدا‘‘ میں عورت کو جسم فروش بنانے میں اس کے سماج کا ہر فرد برابر کا شریک ہے ۔ اس میں کسی کو کوئی استثناء حاصل نہیں ہے ۔سٹور بابو جو اقبال کا شکوہ گا رہا ہے ، کمبلوں اور رضائیوں کے ڈھیر ہونے کے باوجود کسی کو کمبل نہیں دیتا اور اس کی بے حسی ایک عورت کو اپنے کپڑے اتارنے پر مجبور کرتی ہے ۔لاہور کے ریلوے اسٹیشن پر دو نوجوان، انور اور رشید جو ایک بے سہارا اور درد سے کراہتی ہوئی عورت کو اپنی ہوس کا نشانہ بناناچاہتے ہیں ،وہیں اسٹیشن پر موجود دو بزرگ جن میں سے ایک کی داڑھی سفید تھی اور دوسرے کی حنائی ،جومشرق سے آئی ہوئی ایک مہاجر عورت کی خود تو کوئی مدد نہیں کرتے لیکن ایک انگریز نے جب اس کو پانچ روپے دیے تو اس میں ان کو اپنی تذلیل محسوس ہوتی ہے ۔رئیس مصطفی خان سیمابی جوکیمپ کی عورتوں کو دھوکہ دے کر ان کا جنسی استحصال کرتاہے ،کراچی کے چار جوان جن کو دلی کی بی چاند جان کے بالاخانے کا تصور ابھی تک اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے تھا ۔خوشی محمد دلال اور چیلا رام دلال جو مہاجر عورتوں کی ٹرینوں کا انتظار کرتے ہیں اور جب پنجاب اور جموں میں فسادات پھوٹنے کی خبر سنتے ہیں تو وہ خوشی سے جھوم اٹھتے ہیں اور مہاجر عورتوں کی آمد کے بعد آپس میں حساب کرتے ہیں کہ کس کے حصے میں کتنی عورتیں آئیں اور بعض اوقات کم عورتیں ملنے پر کفِ افسوس بھی ملتے ہیں ۔سیٹھ قائم علی دائم علی کی بے رحمی اور سنگ دلی کی مثال ملنا مشکل ہے جس نے کشمیر سے آئی ہوئی ایک اندھی دوشیزہ سے کشتی میں بڑی بے دردی سے اس کی بہاریں لوٹیں ۔ان کے علاوہ ’’یاخدا‘‘ میں اور بھی اس طرح کے بہت سے لوگوں کی طرف اشارہ کیاگیا ہے جنہوں نے عورت کا جنسی استحصال کیا ۔ان میں سیاست دان،مولوی اور خود کو خدام خلق کہلانے والے افراد بھی شامل ہیں ۔قدرت اللہ شہاب نے ان سب کوآئینہ دکھا یا ہے ۔ ا نھوں نے اپنے سیاسی ،سماجی ،مذہبی اورحکومتی نیز شعبہ زندگی کے دوسرے طبقوں سے وابستہ ان سب لوگوں کو حدف ملامت بنایا ہے جنہوں نے ،جن کی وجہ سے یا جن کے زیر سایہ عورت پر ظلم و جبر کے پہاڑ ڈھائے گئے ۔ا ن کے قلم نے اس کار ِبد میں شامل لوگوں کی سچی تصویریں کھینچی ہیں ۔یہ تصویریں اخباری رپورٹوں ،سنی سنائی باتوں اور سات سمندر پارسے مشاہدے کی بنیادپر نہیں بلکہ براہ راست دیکھے گئے حالات و واقعات سے اخذ کی گئی ہیں ۔ یہ محض فن اور تخیل کی آمیزش بھی نہیں ہیں ۔اسی لیے ان کے در وبست سے شدت تاثیر کی ایسی پردرد بوندیں ٹپکتی ہیں جو قاری کے سخت سے سخت دل کو بھی پگھلا دیتی ہیں ۔ یہ سچے اور حقیقی واقعات کے ایسے تلخ لفظی پیکرہیں جن کو ایک ذی حس انسان دیکھنے کی تاب نہیں لاسکتا ۔ان تصویروں کو دیکھ کر اس پر ایسی کیفیت طاری ہوجاتی ہے کہ وہ اپنے آپ سے نظریں چرانے لگتا ہے ۔
’’یاخدا ‘‘ کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں ظالم کو ظالم اور مظلوم کو مظلوم دکھایا گیا ہے اور یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ان دونوں کا کوئی دھرم نہیں ہوتا۔ظالم مسلمان بھی ہوسکتا ہے ،ہندو بھی اور سکھ بھی ۔جیسا کہ اس ناولٹ میں ان تینوں کو ایک کمزور، مظلوم اور مجبور عو رت پر ظلم کے پہاڑ ڈھاتے دکھایا گیا ہے لیکن قدرت اللہ شہاب نے فسادات کے دوران عورت پر ہونے والے استحصال کے ذیل میں غیروں سے زیادہ اپنوں کو قصور وار ٹھہرایاہے اوران سب کوا پنے گریبان میں جھانکنے اور اپنے محاسبے کی دعوت دی ہے جواپنی زمینوں پر ہونے والے انسانیت سوز تشدد سے آنکھیں چرا کر سرحد کے اس پارہونے والے ظلم وستم کی تصویریں کھینچنے میں پورا ذور لگاتے ہیں اور وہاں بسے اپنے ہم مذہب لوگوں کو ہر قدم پر ظلم کی آگ میں جلتا دکھاتے ہیں لیکن جب یہی لوگ آگ کے دریاؤں کو پار کرکے امن و سکون کی تلاش میں ان کے ہاں ہجرت کرکے چلے آتے ہیں تو ان کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے اس پردانستہ ان کی نگاہ نہیں جاتی ۔قدرت اللہ شہاب نے غیروں سے زیادہ اپنوں کو، اپنوں پر جس طرح سے بجلیاں گراتے دکھایا ہے وہ ان کی بے باکی کاآئینہ دار ہے ۔لیکن انھوں نے کسی مصلحت کے تحت اپنوں کو طنز کا نشانہ نہیں بنایا ہے بلکہ سچائی اور حقیقت کے ایسے تلخ جام چھلکائے ہیں جن کو نوش فرمانا سب کے بس کی بات نہیں ۔ بقول ابوالفضل صدیقی:
’’یاخدا ،فسادات پر لکھے ہوئے افسانوں کا بادشاہ ہے ۔اس کے اندر وہ بے پناہ حقیقت نگاری اور ایسی شدید روح ملتی ہے کہ بعض مصلحت اندیش لکھنے والے اس پر ارتدادو کفر کا فتویٰ صادر کر بیٹھے ‘‘۴۱؎
قدرت اللہ شہاب کے بارے میں یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ وہ ایک پھول کے مضمون کو سو رنگ سے باندھنے کا ہنر جانتے تھے ۔ ان کو زبان پر مکمل اور مضبوط دسترس حاصل تھی۔ واقعے کے بیان کی مناسبت سے الفاظ کو برتنے اور ان کے ذریعے سے خوبصورت پیکر تراشنے میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا۔وہ حسن وعشق ،ظلم وجبر ،سیاسی و سماجی اوردینی و دنیوی معاملات کو اسی عبارت میں رقم کرتے ہیں جس کے وہ متقاضی ہوتے ہیں ۔ان کی آپ بیتی ’’شہاب نامہ ‘‘ اس کی عمدہ مثال ہے جس میں ان کی تخلیقی صلاحیتوں کے مختلف اور دلکش نمونے موجود ہیں ۔ان میں جہاں حسن و عشق کے ذیل میں چندراتی کا واقعہ ،ظلم وجبر کے ذیل میں جموں وکشمیر کے مسلمانوں پر ڈوگرہ حکمرانوں کی زیادتیاں ،سیاسی معاملات کے ذیل میں پاکستانی سیاست کے نشیب وفراز اور دینی و دنیوی ذیل میں ’’چھوٹا منہ بڑی بات ‘‘ کے عنوان کے تحت متصوفانہ افکار کا اسلوب ِبیان قاری کو اپنی گرفت میں لیتاہے وہیں ’’بملا کماری کی بے چین روح‘‘ والا باب اس کے ذہن کو داستانوی اسلوب کے دلچسپ نمونوں سے بھی لطف و انبساظ پہنچاتاہے ۔ان مختلف واقعات کی تحریر جہاں جس پہلو کا تقاضہ کرتی ہے قدرت اللہ شہاب نے پوری شدت کے ساتھ وہاں اس کے نقش ابھارے ہیں ۔چندراوتی سے اپنے عشق کی کہانی کے بیان میں جہاں ان کا قلم قاری کے ذہن و دل کی دیواروں پر رومانویت کی لاثانی تصویریں نقش کرتا ہے وہیں سیاسی معاملات اور متصوفانہ مسائل کے تجزیے کے دور ان ان کی تحریر سنجیدگی کی ایسی خوبصورت چادر اوڑلیتی ہے جس کے ہر رنگ میں سو رنگ پنہاں ہوتے ہیں ۔
’ ’شہاب نامہ‘‘ کے بعد فکری و فنی اعتبار سے ’’یاخدا ‘‘ قدرت اللہ شہاب کا سب سے بڑا شاہکار ہے ۔اس میں بھی ان کے فکر و فن نے الفاظ کے پیکر میں ایسے لازوال نقش تراشے ہیں جو ادب کے مستقبل کی خوبصورت دیواروں پر ہمیشہ اپنی موجودگی کا احساس د لاتے رہیں گے ۔ اس کا موضوع ایک مخصوص دائرے کا حامل ہونے کے باوجود اپنے آپ میں بے پناہ وسعت رکھتا ہے ۔اس میں ایک قوم کاماضی اور حال بھی اپنی تمام تر جزئیات کے ساتھ موجود ہے اور اس کے مستقبل کی چنددھندلی سی تصویروں کے نقش بھی قاری کے سامنے ابھرتے ہیں ۔قدرت اللہ شہاب نے ان سب عناصر کو فن کے مختلف پیرائیوں کی مدد سے بیان کیا ہے ۔انھوں نے کردار نگاری ،منظر نگاری ،سراپا نگاری ،مکالمہ نگاری اورجزئیات نگاری نیزفلیش بیک تکنیک سے بھی کام لیاہے لیکن ان کے لیے اس ناولٹ میں فن کے جوہر دکھانے سے زیادہ موضوع اور اس سے متعلق اپنے مشاہدات اورجذبات و احساسات کے بھرپور نقش ابھارنابنیادی مقصد معلوم ہوتا ہے ۔اسی لیے وہ فن کی باریکیوں کو برتنے کی دھن میں اپنے اصل موضوع سے کسی بھی مقام پر بھٹکتے نہیں ہیں ۔ مگر اس کا ہر گزیہ مطلب بھی نہیں ہے کہ قدرت اللہ شہاب نے فن سے زیادہ موضوع کو اہمیت دی ہے ۔انھوں نے فن کے مختلف اور خوبصورت و سیلوں سے بھی اپنی تحریر کو زینت بخشی ہے لیکن اتنی ہی جتنی اس کی ضرورت تھی ۔اس سے ناولٹ میں بے جا طوالت بھی در نہیں آئی ہے اور موضوع اور فن میں ایک مضبوط ہم آہنگی بھی پیدا ہوئی ہے ۔
مجموعی طور پر’’یاخدا ‘‘ موضوع اور اسلوب بیان کی وجہ سے اردو میں فسادات کے المیے پر تخلیق کیے گئے ادب پاروں میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اس کے مطالعے سے فسادات کی آ ڑ میں مہاجرین کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور ناانصافیوں کے ساتھ ساتھ اس وقت کے اس منظر نامے پر بھی روشنی پڑتی ہے جس میں ایک مخصوص تہذیبی اور مذہبی اقدار کے پیروکار تاریخ کی دیواروں پر ایسی تصویریں نقش کرجاتے ہیں جنہیں دیکھ کر آج بھی انسانیت کے سر شرم سے جھک جاتے ہیں ۔ اس کے کردار ،مناظر ، واقعات اور کہانی سبھی تخیّل کے تخلیق کردہ کم اور ’’دلشاد‘‘ کے مشرق اوراس کے تصور کی اس حسین ارض مقدس (مغرب )سے زیادہ تعلق رکھتے ہیں جس نے اس کو قبولیت کا شرف بخشنے سے انکار کیا۔’’یاخدا‘‘ اردو ادب کی تاریخ میں ہی نہیں بلکہ دنیا ئے ادب کی تاریخ میں بھی سچائی اور بے باک حقیقت نگاری کا ایک ایسا بے مثال اور تلخ ادبی مرقع ہے جس کی نظیر ملنا مشکل ہے ۔
یوں بھی پہنچے ہیں کچھ افسانے حقیقت کے قریب
جیسے کعبہ سے کوئی پیر مغاں گزرے ہے
شورشؔ کاشمیری
حواشی :
۱ : کچھ یاخدا کے بارے میں مشمولہ یاخداازقدرت اللہ شہاب ،سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور ،پاکستان۲۰۱۴،ص ۸۱
۲ : یا خدا،قدرت اللہ شہاب ،سنگ میل پبلی کیشنز ،لاہور،پاکستان۲۰۱۴،ص۱۹
۳ : ایضاً ،ص۲۳
۴ : ایضاً ،ص ۲۶
۵ : ایضاً ،ص۲۷
۶ : ایضاً ،ص۳۴
۷ : ایضاً ،ص۳۵
۸ : ایضاً ،ص۳۶
۹ : ایضاً،ص۵۰
۱۰ : ایضاً ،۵۴
۱۱ : ایضاً ،۵۷
۱۲ : ایضاً،۵۸
۱۳ : ایضاً ،۷۹
۱۴ : یاخدا اور اس کا دیباچہ مشمولہ یا خدا از قدرت اللہ شہاب ،سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور ،پاکستان۲۰۱۴،ص۹۳
مضمون نگار :
بلال احمد تانترے
شعبۂ اردو
جامعہ ملیہ اسلامیہ ،نئی دہلی
رابط:Bilalahmed8130@gmail.com
Leave a Reply
Be the First to Comment!