اردو اور دیگر زبانوں کی قواعدی اصطلاحات کا تنقیدی جائزہ
محمد عاطف صدیقی
ریسرچ اسکالر
مہرشی دیانند سرسوتی یونیورسٹی ،اجمیر
اللہ نے ہر انسان کو کسی نہ کسی خوبی سے نوازا ہے ۔کچھ خوبیاں ایسی ہیں جو کسی خاص شخص میں ہوتی ہیں اس کے برعکس کئی خوبیاں ایسی ہیں جو زیادہ تر انسانوں میں پائی جاتی ہیں ان میں سے ایک خوبی ہے ’’زبان ‘‘ یعنی اپنے جذبات واحساسات کو ظاہر کرنے کا وہ ذریعہ جس سے وہ اپنی بات بہ آسانی دوسروں تک پہنچا دے چاہے وہ خوشی ہو یا غم یا کوئی عام بات۔
کسی بھی کام کو صحیح ڈھنگ سے کرنے کے لیے اس کے کچھ اصول کچھ قاعدے بنائے جاتے ہیں ۔اس سے کام کم وقت میں اور بنا نقصان کے انجام تک پہنچتا ہے ۔ زبان کا بھی یہی اصول ہے ۔ اگر ہم اسے قاعدے سے بولیں گے لکھیں گے تو ہی یہ کار آمد ہوگی ورنہ کہا کچھ جائے گا اور سمجھا کچھ جائے گا ۔ اگر سننے والا ہم سے بات کر رہاہے تو ہم یہ جان سکتے ہیں کہ وہ ہماری بات سمجھا یانہیں سمجھا اس کے بر خلاف سننے والا ہمارے سامنے نہیں ہے تو وہ بات کاکچھ بھی مطلب نکال سکتا ہے ۔ اس لیے بات کو قاعدے سے ہی کہا جائے تو بہتر ہوتا ہے انھی قاعدوں کو ’’قواعد ‘‘ کہتے ہیں ۔کسی بھی زبان کی قواعد ہمیں اس زبان کو صحیح لکھنے اور بولنے کا قاعدہ سکھاتی ہے ۔
زبان اور قواعد میں گہرا تعلّق ہے ۔پہلے کوئی زبان وجود میں آتی ہے پھر بعد میں اس کی قواعد بنتی ہے یا یوں کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ قواعد زبان کو ایک طے شدہ حد میں باندھتی ہے ۔یہ بات صحیح ہے کہ زبان کبھی ایک جیسی نہیں رہتی ۔یہ وقت اور حالات کے ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہے ۔اس میں کچھ نئے لفظ ملتے جاتے ہیں اور کچھ پرانے لفظوں کا استعمال ختم ہوتاجاتاہے ۔ جن الفاظ کا استعمال ختم ہوتا جاتا ہے دھیرے دھیرے وہ اپنی پہچان کھو دیتے ہیں اور مر جاتے ہیں ۔ جب کسی پرانی عبار ت کو پڑھتے وقت ایسے لفظ آتے ہیں جو ترک کر دیے گئے ہیں تو ہمیں اسے سمجھنے کے لیے لغت کا سہارا لینا پڑتا ہے ۔وقت کے ساتھ ساتھ زبان میں جو بدلاؤ ہوتا ہے اور نئے نئے لفظ شامل ہوتے ہیں ، قواعد ان سب کی جانچ پرکھ کرتی ہے اور ان کے استعمال کے لیے اصول بناتی ہے ۔
جب ہم زبان کے لیے قاعدے مقرر کریں تو ہمیں اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیئے کہ پہلے بول چال پر خاص توجہ دی جائے کیونکہ قواعدمیں اوّل درجہ آواز کا ہے اورحروف اس کے بعد میں آتے ہیں اس لیے پہلے بول چال ہے بعد میں تحریر ۔ تحریر میں لفظ ایک ہی صورت میں رہتا ہے اس کی حالت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی لیکن بول چال میں لہجے اور موقع کے حساب سے ایک لفظ کی کئی کئی صورتیں ہو جاتی ہیں ۔اس لحاظ سے ہمیں اپنی بات بول چال کے سب سے چھوٹے جز یعنی جملے سے کرنی چاہئے اسی کے ذریعے کوئی شخص دوسرے شخص کی بات کو سمجھتا ہے کیونکہ کوئی شخص کتنی ہی کم سے کم بات کرے وہ کسی جملے سے کم نہ ہوگی ۔جملے سے الگ خالی لفظ کوئی خاص معنی نہیں دیتا اس کا صحیح مفہوم اس وقت معلوم ہوتا ہے جب وہ کسی جملے میں آئے ۔
قواعد نویسوں نے جملوں کو بہ آسانی سمجھنے کے لیے اسے تین خا ص حصوں میں تقسیم کر دیا ہے ۔ پہلے حصے میں سادہ آوازیں آتی ہیں اور ان کی تحریری علامتوں کو لیا ہے جس میں تمام طرح کے حروف آتے ہیں ، جس کو ’’ہجا ‘‘ کا نام دیا ہے ۔دوسرے حصے میں ایک سے زائد ملی ہوئی آوازیں جن کی تحریری علامتیں الفاظ کہلاتی ہیں ۔ان کی تقسیم اور ان کے ایک دوسرے کے ساتھ آنے سے ان میں جو تغیر و تبدیلی ہوتی ہے یا ان میں کچھ اضافے سے جو نئی صورت پیدا ہوتی ہے ،اسی کو ’’صرف ‘‘ نام دیاگیا ہے ۔ اسی طرح تیسرے حصے میں بحث کی جاتی ہے کہ جملے میں لفظوں کا ایک دوسرے سے باہمی تعلق کیا ہے ۔ جملے میں شامل لفظ کا ظاہر ،باطن اور مفہوم و معنی کیا ہیں ،اس کو قواعد میں ’’ نحو‘‘ کہا جاتا ہے ۔
اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہمارے بزرگوں نے زمانۂ قدیم سے قواعد کے اصولوں کو بیان کرنے میں محنت و علمیت کا ثبوت دیا ہے اور انگریز مصنفین سے لے کر فارسی اور اردو کے عالموں تک قواعد نویسی کا ایک لمبا سلسلہ ہے ۔ قواعد کی تمام کتب کا مطالعہ کرنے پر دوتین باتیں سامنے آتی ہیں ۔ ایک یہ کہ اردو کی قواعد کے اصول جس قدر ہندوستانی ہیں اس کی اصطلاحات اسی قدر فارسی و عربی پر مبنی ہیں ۔ دوسری بات یہ کہ اردو قواعد کی ابتدائی کتابیں پوری کی پوری فارسی میں لکھی گئی ہیں ۔ انشاء اللہ خاں انشاء ؔ کی ’’دریاے لطافت‘‘ سامنے کی مثال ہے ۔اس کے علاوہ قواعدکی کتابوں میں اصول تو بیان کیے گئے ہیں لیکن اصطلاحات کی تفہیم پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی ہے ۔اصطلاحات کی فرہنگ سازی کا بھی کو ئی کام میری نظر سے نہیں گزرا ۔چنانچہ قواعد کی کسی اصطلاح کے معنی اور مثا ل کی تلاش ہو تو کتب کی ورق گردانی کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ۔ اس کے علاوہ دیگر زبانوں کی قواعد سے تقابل اور ان کی اصطلاحات وغیرہ کی ادبی تحقیق بھی اردو میں کم یاب ہے ۔چونکہ ہندوستانی معاشرہ ایک کثیر لسانی معاشرہ ہے لہٰذا مختلف زبانوں کی قواعد کی اصطلاحات کا تقابل ایک نہایت مفید عمل ثابت ہو سکتا ہے ۔مثال کے لیے درج ذیل اصطلاحات پر ایک نظر ڈالیں :
مصوّتہ
Loj
Vowel
مصمّتہ
O;atu
Consonent
اسم
laKk
Noun
ضمیر
loZuke
Pronoun
صفت
fo’kss”k.k
Adjective
زمانہ
dky
Tense
فعل
fdz;k
Verb
حالت
dkjd
Case
مرکب
lekl
Compound
سابقہ
milxZ
Prefix
لاحقہ
izR;;
Suffix
ہم نے دیکھا کہ تینوں زبانو ں میں قواعد کے مذکورہ اصو ل کسی نہ کسی نام سے موجود ہیں لیکن ذرا گہرائی سے مطالعہ کریں تو ان اصطلاحات سے متعلق تصورات میں کچھ فرق بھی نظر آتا ہے مثال کے لیے ’’حالت‘‘ کی اصطلاح اردومیں اتنی معروف نہیں جتنی ہندی میں ’’dkjd‘‘ کی اصطلاح معروف ہے اوراس کا انگریزی مترادف Case تو شاذ ونادر ہی کسی نے سنا ہو گا ۔اس سے قطع نظر کہ قواعد کے تصورات اور ان کی اصطلاحات کا تعلق خود اس زبان کی ساخت سے ہے پھر بھی اگر بین اللسانی مطالعہ کیا جائے تو ہندی میں dkjd کو جو مرکزی اہمیت حاصل ہے وہ اردو یا انگریزی میں نہیں ۔ dkjd کی تعریف کرتے ہوئے انِل کمار شرما لکھتے ہیں :
loZuke ds ftl :i ls mldk lEca/k okD; esa fdz;k] vU; ;k laKk‘‘
laKk ;k loZuke ‘kCnksa ls tkuk tk,] mls dkjd dgrs gSaA
¼vjk/;k O;kdj.k&vfuy dqekj ‘kekZ½ ¼i`”B la[;k&69½
اب انگریزی اصطلاحCase کامطالعہ کریں تو وہاں ’’Gramatical Status of a Noun‘‘ کا فقرہ سامنے آتا ہے ۔یعنی جملے میں اسم (اور ضمیر )کی صورتِ حال ۔ اردو میں اسے حالت کہا جاتا ہے جو بہت معروف اصطلاح نہیں لیکن تینوں ہی زبانوں میں ان کے قواعدی تفاعل کی بنیادی اہمیت ہے ۔ بالکل یہی صورتِ حال مرکب ، lekl اور Compound کی ہے ۔ہندی میں lekl کی سب سے زیادہ اہمیت ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندی میں دو الفاظ اس طرح ملائے جاسکتے ہیں کہ وہ ایک ترکیب بننے کی جگہ ایک لفظ بن جاتے ہیں ۔اس عمل کو ہندی میں fU/k lکہتے ہیں مثلاً ودّیالیہ لفظ میں ودّیا اور آلیہ مل کر ودّیالیہ ہو گیا ہے ۔ یہ سندھی ہے ،سماس نہیں ۔ سماس میں الفاظ کی صورت نہیں بدلتی ۔ اردو میں سندھی کی اصطلاح کا کوئی واضح تصوّر موجود نہیں ۔یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اردو قواعد کی اصطلاحات کے مطابق مرکب اور ترکیب میں ایک واضح فرق موجود ہے ۔ اردو میں پابند صرفیوں پر مشتمل الفاظ کی اکائی ترکیب کہلاتی ہے مثلاً شمعِ حرم ،بری بات یا لکڑی کی کاٹھی وغیرہ ۔ اس کے برعکس مرکب ،الفاظ کی ایسی اکائی ہے جس کے دونوں اجزاء آزاد صرفیوں پر مشتمل ہوتے ہیں مثلاً ہاتھی دانت یا ڈاک گھر ۔ اس تفصیل سے واضح ہے کہ اردو اصطلاحات مرکب اور ترکیب میں lfU/k والا کوئی تصور موجود نہیں جبکہ اردو میں بھی ہندی اصطلاح سندھی کی طرح الفاظ کے حروف میں تبدیلی کے ساتھ ترکیبی اکائیاں بنی ہوئی ہیں جیسے مقلوبی مرکب گلاب ۔یہ اصلاً آبِ گل ہے جو قلب کے باعث گل +آب ہو گیا اور سندھی کے باعث گلاب کہلایا ۔
انگریزی میں Compound کی اصطلاح عموماً جملے کے لیے مستعمل ہے یعنی مرکّب جملہ ۔اس مطالعے سے دو باتیں صاف طورپر سامنے آتی ہیں ۔ ایک یہ کہ اردو میں ترکیب اور مرکّب ایک ہی مادّے کے مشتقات ہونے کے باوجود قواعد کی رو سے دو الگ اصطلاحات ہیں اور ہندی کی سندھی کا تصوّر ہمارے یہاں ہندی کی طرح مرکزی اور نمایاں نہیں ہے ۔
ان مثالوں سے واضح ہے کہ زبانوں میں متعدد قواعدی اجزاء کے مشترک ہونے کے باوجود اصطلاحات کی تعریف اور ان کے معنوی تصرّفات میں بہت زیادہ فرق ہے ۔ اس اعتبار سے اصطلاحات کا مطالعہ نہ صرف دل چسپ بلکہ ضروری ہے تاکہ قواعد کے مختلف ابعاد کو بروے کار لا یا جاسکے ۔
اصطلاح سازی زبان کا ایک ضروری حصہ ہے ۔ اگر یہ نہ ہو تو ہم بہت سے علوم اور مضامین سے محروم ہو جائیں گے ۔ ایک ہی لفظ بہت سے علوم کے لیے الگ الگ معنی کا حامل ہوسکتا ہے ۔ مثال کے طور پر ’’فعل‘ ‘ کے معنی کام یا عمل کے ہیں لیکن قواعد کی اصطلاح میں ’’فعل ‘‘ کے معنی ماضی ،حال اور مستقبل میں سے کسی ایک زمانے میں کیے گئے یا پائے گئے عمل کا صیغہ ہے ۔ اسی طرح اور بہت سی اصطلاحات مختلف علوم کے لیے مختلف معنی کی حامل ہوتی ہیں ۔اصطلا ح کا ایک فائدہ یہ ہے کہ وہ کسی خاص چیز یا صورتِ حال کی پوری تعریف کو ایک دو الفاظ میں سمیٹ لیتی ہے ۔گویا یہ دریا کو کوزے میں سمیٹنے کا عمل ہے ۔
چونکہ اردو قواعد کی اصطلاحات عموماً عربی اور فارسی سے ماخوذ ہیں اس لیے ان کو صحیح صحیح سمجھنا اور بیان کرنا ایک ناگزیر عمل ہے ۔ہرچند اردو میں قواعد کی بہت سی کتابیں موجود ہیں لیکن ان میں بعض اختلافات کو دور کرنا ایک رائے پر اتفاق قائم کرنا نہایت ضروری ہے ۔اصل غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اب تک اردو میں قواعد کی اصطلاح کی کوئی فرہنگ دستیاب نہیں ہے ۔لہٰذا کسی اصطلاح کو ایک ہی کتاب میں تلاش کرنا نہایت دشوار گزار مرحلہ ہے ۔ فرہنگ سے سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ آپ کسی بھی اصطلاح کو فوراً تلاش کر سکتے ہیں اور اس کے صحیح معنی بھی بہ آسانی دستیاب ہو تے ہیں ۔ انھیں وجوہ کی بنا پر میں نے اپنی تحقیق کے لیے ’’فرہنگِ اصطلاحاتِ قواعد ‘‘ کا موضوع منتخب کیا ۔اس تحقیق کے چار باب ہیں ۔پہلے باب کو میں نے فرہنگ کے مبسوط مقدمے پر مشتمل کیا ۔اس باب میں قواعد نویسی کی ضرورت ،طریقۂ کار اس کی اہمیت اور اردو قواعد نویسی کی تاریخ پر تفصیل سے بیان کیا گیا ہے ۔ اس باب میں اردو کی روایتی اور جدید قواعد میں فرق بتایا گیا ہے ۔ساتھ ہی اردو قواعد میں علمِ لسانیات کا کتنا اور کس طرح استعمال ہوا ہے اس پر بھی اظہارِ خیال کیا گیا ہے ۔
اس فرہنگ میں دیگر زبانوں خاص طور پر عربی ،فارسی ،سنسکرت اور انگریزی وغیرہ کی اصطلاحات جو اردو میں استعمال ہوتی ہیں ان پر بحث کی گئی ہے ۔قواعد کی اصطلاح سازی کی نوعیت ،ان کے لغوی معنی اور اصطلاحی مفاہیم وغیرہ کے رجحانات کا احاطہ کیا گیا ہے ۔اگر کہیں کسی اصطلاح کے املا ،تلفظ اور مفہوم وغیرہ پر علماء میں اختلاف پایا گیا تو ایسے مباحث پر ضروری توجہ دینے کے ساتھ ساتھ اصطلاحات کا تنقیدی جائزہ بھی لیا گیا ہے ۔
تحقیق کا دوسرا باب اصل فرہنگ پر مشتمل ہے ۔یہ فرہنگ لغت نویسی کے تمام جدید اصولوں کے مطابق ترتیب دی گئی ہے ۔قواعد کی تمام قدیم اور جدید کتابوں سے اصطلاحات جمع کی گئی ہیں ۔پھر ان اصطلاحات کو الف بائی ترتیب سے جمایا گیا ہے ۔ اصطلاح کی املا اور تلفظ پر خاص طور سے توجہ دی گئی ہے ۔ اصطلاح کس زبان کی ہے اور اس کے لغوی معنی کیا ہیں ۔غرض یہ کہ پوری کوشش کرکے ہر اصطلاح کی صحیح اور آسان تعریف کی گئی ہے ۔ جہاں جہا ں ضرورت ہوئی اردو اصطلاحات کے ہندی اور انگریزی متبادل بھی لکھے گئے ہیں اور اردو کے مستند مصنفین کی عبارتوں سے مناسب ترین مثالیں بھی دی گئی ہیں ۔
تیسرے باب میں ہندی اور انگریزی کی بعض مشترک اصطلاحات کا ضمیمہ پیش کیا گیا ہے ۔اس حصے میں فرہنگ میں شامل اصطلاحات کے انگریزی میننگ کو A to Z یعنی ایلفابیٹیکل ترتیب سے جمایا گیا ہے ۔جو حضرات اصطلاحات کا انگریزی ترجمہ دیکھنا چاہیں تو انھیں سہولیت ہوگی ۔اسی طرح اردو کی خاص خاص اصطلاحات کو ہندی میں کیا کہا جاتا ہے اس کو بھی مختصراً پیش کیا گیا ہے ۔
چوتھے اور آخری باب میں ان تمام کتب ،رسائل ،اخبارات اور لغات و فرہنگیات کی فہرست دی گئی ہے ۔جن کا استعمال اس فرہنگ کو ترتیب دینے میں کیا گیا ہے ۔ان میں ہندی، انگریزی،اردو ،عربی اور فارسی کی وہ تمام کتب ،لغات اور فرہنگیات وغیرہ شامل ہیں جنہوں نے مجھے راستہ دکھایا ۔
آخر میں ،میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اردو یا فارسی میں قواعدی اصطلاحات سے متعلق کوئی فرہنگ میری نظر سے نہیں گزری تھی ۔لہٰذا مجھے یقین ہے کہ یہ کام اپنی نوعیت کا پہلا کام ہے بلکہ اس کی افادیت بھی مسلّم ہے ۔ میں نے اپنی تحقیق کا جو خاکہ پیش کیا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ تحقیق ایک طالبِ علم کے لیے کس قدر مشکل ہو سکتی تھی لیکن وہ تحقیق ہی کیا جو مشکل نہ ہو ۔اللہ کے حکم سے استاد کی رہنمائی اور ذی علم حضرات کی مدد سے میں اس تحقیق کو بہ آسانی تکمیل تک پہنچا سکا ہوں ۔ اور مجھے یقین ہے کہ اس کام سے اردو زبان و ادب کو خاطر خواہ فائدہ ہوگا ۔اب طلباء کا قواعد کی اصطلاح تلاش کرنے میں کتاب در کتاب بھٹکنا نہیں پڑے گا ۔اور اصطلاحات کو فرہنگ کے طور پر یکجا کرنے کی میری اس کوشش سے زبان و ادب کی ترویج و تفہیم میں آسانیاں پیدا ہوں گی ۔
محمد عاطف صدیقی
ریسرچ اسکالر
مہرشی دیانند سرسوتی یونیورسٹی ،اجمیر
Leave a Reply
Be the First to Comment!