سرسید کے بنیادی افکار
کنیز فاطمہ
ریسرچ اسکالر دہلی یونی ورسٹی،دہلی
سرسید ۱۷ اکتوبر ۱۸۱۷ء کو دہلی میں اپنے نانا خواجہ فرید کی حویلی پر پیدا ہوئے ۔جنھیں مغلیہ دربار سے دبیرالدولہ امین لملک خواجہ فرید الدین احمد خان بہادر مصلح جنگ کا خطاب ملا تھا ۔سرسید کے والد کا نام میر متقی اور والدہ کا نام عزیزا نسا بیگم تھا ۔سرسید کی والدہ بہت ہی مہذب ،نیک پرست عورت تھیں ،ہمیشہ غریبوں کی مدد کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھیں ۔ بچپن میں سرسید کی تعلیم و تربیت ان کی والدہ کے ذریعے ہوئی،انھوں نے ہی سرسید کو بچپن میں گلستان سعدی کا سبق پڑھایا ۔سرسید کے بڑے بھائی کا نام سید محمد خان تھاجنھوں نے ۱۸۳۶ میں سید ا لاخبار نکالا تھا ،سرسید کے استادوں میں مولوی فیض الحسن ، مولوی نوازش علی اور مولانا مخصوص اللہ کے نام اہم ہیں ۔سرسید نے معاش روزگار کے لئے کئی جگہ سفر بھی کیا جب یہ بجنور میں تھے تبھی ۱۸۵۷ کی بغاوت رونما ہوئی ،تب انھوں نے ’’سرکشی ضلع بجنور ‘‘لکھی ،مراداباد سے انھوں نے ۱۸۶۰ ء میں لا ئل محمڈن آف انڈیا رسالہ جاری کیا ،مراداباد میں ہی انھوں نے ضیاء ا لدین برنی کی کتاب ’’تاریخ فیروز شاہی ‘‘ترتیب دی ۔سرسید کو سی ۔ایس ۔آئی کا خطاب لندن سے ۱۸۶۹ء میں ملا ۔سرسید نے انگلستان کا بھی سفر کیا ہے اور وہاں انھوں نے ایک سال پانچ ماہ قیام کیا اس دوران انھوں نے لندن کے بہت سے علمی و ادبی اداروں کا سفر کیا اور اس سے بہت متاثر بھی ہوئے ،یہی وجہ ہے کہ جب وہ لندن سے واپس آئے تو اسپیکٹیٹر اور ٹیٹلر کے طرز پر بنارس سے ۱۸۷۰ ء میں تہذیب ا لاخلاق جاری کیا جس میں تمام طرح کے مضامین یعنی کے اصلاح معاشرہ ،قومی بیداری ،وغیرہ جیسے مضامین چھپتے تھے ۔بقول سرسید
’’اس پرچے کے اجرا سے مقصد یہ ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو کامل درجے کی
سویلزیشن یعنی تہذیب ا ختیار کرنے پر راغب کیا جائے تاکہ جس حقارت سے
سویلا ئزڈ یعنی مہذب قومیں ان کو دیکھتی ہیں وہ رفع ہو اور وہ بھی دنیا میں
معزز و مہذب قوم کہلائیں ‘‘ ص۸ ا انتخاب مضامین سرسید
حلانکہ تہذب الاخلاق تسلسل کے ساتھ نہیں نکل سکا پہلی بار سات سال تک یہ عوام کو بیدار کرنے میں کامیاب رہا مگر اس کے بعد یہ تین بار بند ہوا اور تین بار شروع کیا گیا ،لیکن اس دوران اس رسالہ نے عوام کو کافی متاثر کیا عوام کے ساتھ ساتھ خواص طبقہ بھی اس کی طرف رخ کرنے لگے ،اس کی مخالفت بھی بہت ہوئی مگر پھر بھی خوب پسند کیا جاتا تھا ۔
سرسید کے تما م مضامین کسی نہ کسی مقصد کے تحت لکھے گئے ہیں جو کہ ہماری زندگی سے قریب معلوم ہوتا ہے ،اسمعیل پانی پتی نے ان کے تمام مضامین کو اکٹھا کر کے ۱۶ جلدوں میں شائع کیا ہے ۔سرسید جس زمانے میں مضامین لکھ رہے تھے وہ زمانہ سیاسی اور معاشی طور پر بہت انتشار کا تھا ،ہر کوئی مسلم ہو یا ہندو انگریزو ں کے جبر و ظلم کا شکار تھے خصوصی طور پر مسلمانوں کی حالت بہت بری ہو گئی تھی ،مسلمانوں سے نفرت کی وجہ بغاوت تھی ،جب کہ بغاوت میں تمام قوم کے لوگ شامل تھے مگر انگریز وں کو لگتا تھا کہ اس بغاوت کی وجہ مسلم ہیں اس لئے خوب جبر و ظلم ہوا۔دوسری بات یہ ہے کہ مسلمانوں کو یہ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وقت اور حالات بدل چکے ہیں ان کو لگتا تھا کہ لڑائی اور بغاوت سے وہ واپس بادشاہت حاصل کر لیں گے ،جب کہ یہ ناممکن بات ہو چکی تھی کیوں کہ انگریز ہر طرف سے مضبوط ہو چکے تھے ،تیسری بات یہ ہے کہ اس وقت مسلمان سیاسی ،معاشی اور علمی طور پر کافی پیچھے تھا ،اس کے علاوہ مسلمانوں کے اندر کاہلی ، سستی ،مسلکی ،تنگ نظری اور ریا کاری وغیرہ جیسے معا ملات میں الجھے ہوئے تھے ۔یہی وجہ ہے کہ سرسید کو مسلمانوں کو بیدار کرنے کے لئے عام و فہم زبان میں اس طرح کے موضوعات پر مضامین لکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی جو آج تک ہمارے لئے مشعل راہ کا کام کر رہے ہیں ۔
سرسید نے اپنے مضامین لکھ کر مسلمانوں کو نیند سے بیدار کرنے کی کوشش کی اور بالکل سامنے کے مسائل پر مضمون لکھ کر ان کے اندر قوم کے لئے جوش و ولولہ پیدا کیا مضمون ’’کاہلی ‘‘میں کچھ اس انداز میں ہمارے سامنے آتے ہیں
’’کسی شخص کے دل کو بے کار پڑا رہنا نہ چاہئے کسی نہ کسی بات کی فکر و کوشش
میں مصروف رہنا لازم ہے تاکہ ہم کو اپنی تمام ضروریات کے انجام کرنے
کی فکر اور مستعدی رہے ۔ اور جب تک کہ ہماری قوم سے کاہلی یعنی دل کا
بے کار پڑے رہنا نہ چھوٹے گا اس وقت تک ہم کو اپنی قوم کی بہتر ی کی
توقع کچھ نہیں ۔ ‘‘ص۵۹
سرسید قوم کے فکر میں ہمیشہ لگے رہتے تھے ان کی کوشش ہی کا نتیجہ ہے کہ آج مسلمانوں کی حالت کچھ بہتر ہے ۔مضمون کاہلی اس وقت کے تقاضے کو دھیان میں رکھ لکھا گیا ہے ،کاہلی ہی کی وجہ سے کسی بھی قوم کی پستحالی شروع ہوتی ہے ،اس مضمون کے ذریعے یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ انسان کو ہمیشہ کسی نہ کسی کام میں ،فکر میں لگے رہنا چاہئے ،ہمیشہ جدوجہد کرتے رہنا چاہئے ۔آج بھی کچھ اسی طرح کا ماحول دیکھنے کو مل رہا ہے ، پھر سے سرسید کے مضامین کو پڑھنے اور غور و فکر کرنے ضرورت محسوس ہو رہی ہے ،قوم میں پھر سے کاہلی ،ناامیدی وغیرہ شروع ہو چکی ہے ،مسلمان آپسی انتشار کا شکار ہونے لگے ہیں کبھی مسلک کے نام پر تو کبھی گھریلو معاملات میں ایک دوسرے کا قتل کرنے پر آمادہ ہو گئے ہیں ،بھائی چارگی و ہمدردی ختم ہو تی جا رہی ہے ،سرسید نے مضمون ’’ہمدردی ‘‘میں ہمدردی کے فوائد و نقصانات پر بہت ہی عالمانہ و مفکرانہ گفتگو کی ہے ۔ان کے نزدیک جو لوگ دوسرے سے ہمدردی کرتے ہیں وہ حقیقت میں خود اپنی مدد کر تے ہیں ،اس مضمون میں سرسید نے تین چیزوں پر عمل کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے نظر آتے ہیں یعنی کہ رحم،موانست اور ہمدردی ۔سرسید رحم کو ایک فطری نیکی سے مثال دیتے ہیں جو انسانوں اور جانورں دونوں کے سا تھ کرنی چاہئے ،موانست کو وہ صرف ہم جنسوں میں ہی دیکھتے ہیں ۔ہمدردی کو جاننے کے لئے وہ عقل کو ضروری سمجھتے ہیں ۔اسی طرح ان کا ایک مضمون ’’دنیا بہ امید قائم ہے ‘‘میں انسانوں کو امید کی اہمیت و افادیت کے تعلق سے بات کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ان کے نزدیک زندگی بے جان چیز کا نام ہے اس میں حرکت امید کی وجہ سے ہی آتی ہے ۔ظاہر سی بات ہے کہ امید ہی انسان کو زندہ رکھتی ہے ،اس مضمون کو لکھنے کا پس منظر یہ ہے کہ کبھی بھی امید کی کرن سے نا امید نہیں ہونا چاہئے ،کیوں کو امید ہی کے وجہ سے انسانوں میں خوش مزاجی ،سنجیدگی پیدا ہوتی ہے ۔
ہر ادب اپنے دور کا آئینہ ہوتا ہے اگر ہم سرسید کے مضامین کی روشنی میں ان کے عہد کی بات کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دور میں مسلمانوں کی حالت بہت خراب تھی ،مسلمان ذہنی بیماری کا شکار ہو چکے تھے ان کے اندر ریاکاری ، تعصب ،مخالفت وغیرہ کوٹ کوٹ کر بھر ی ہوئی تھی ،مضمون ’’تعصب‘ میں وہ تعصب کے تعلق سے لکھتے ہیں
’’انسان کی بد ترین خصلتوں میں سے تعصب بھی ایک بد ترین
خصلت ہے ،،ص۲۷
سرسید کے نزیک تعصب اخلاقی برائی ہے ،اسی کی وجہ سے انسان ہزاروں نیکیوں سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے ۔تعصب ہی کی وجہ سے ایک انسان دوسرے انسان سے نفرت کرنے لگتا ہے ،جیسا کہ پہلے عرض ہو چکا ہے کہ سرسید کے دور میں مسلمان ہر قسم کے برائیوں میں شریک ہونے لگے تھے ،آپسی لڑائی ،تعصب ،مسلکی اختلاف وغیرہ میں الجھے ہوئے تھے ۔ اس کے علاوہ ریا کاری میں بھی ملوث ہو چکے تھے یہی وجہ ہے کہ ان کو ’’ریا ‘‘پر مضمون لکھنے کی ضرورت پڑی ۔اس کے علاوہ سرسید نے مضمون ’’مخالفت‘‘ میں دشمنی ،عداوت ،جہد اور رنجش کو بد اخلاقی کا حصہ قرار دیتے ہیں ،مخالفت کرنے والوں کو سرسید یہ درس دیتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ دراصل جب آپ کسی کی مخالفت کرتے ہیں تو سب سے زیادہ نقصان آپ کو ہوتا کیوں کہ اس کی وجہ سے آپ کے اندر بد اخلاقی پیدا ہو جاتی ہے ۔اسی طرح ایک مضمون ’’خوشامد‘‘ میں خوشامد کے تعلق سے کچھ اس طرح رقم طراز ہیں ۔
’’دل کی جس قدر بیماریاں ہیں ان میں سب سے زیادہ
خوشامد کا اچھا لگنا ہے ۔‘‘
انسانی فطرت میں خود کی تعریف سننا اور اس پر خوشی کا اظہار کرنا فطری بات ہے ۔ حالانکہ سرسید کے نزدیک معاملہ کچھ اور ہے وہ کہتے ہیں کہ جب آپکی خوش آمدی ہوتی ہے تو خوش ہونے کے بجائے اپنے اندر دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا وہ صحیح میں آپ کے اندر موجود ہے یا نہیں ۔اسی طرح انھوں نے ’’بحث و تکرار ‘‘میں بحث کے وقت اپنی حد میں رہنے کی تلقین کرتے ہیں ان کا کہناہے کہ ہمیشہ بحث و تکرار میں شائستگی ہونی چاہیے ۔اگر یہ نہیں ہے تو پھر اس کی مثال انھوں نے کتوں سے دی ہے ،کیوں کہ کتے جب آپس میں ملتے ہیں تو ضرور بھوکتے ہیں اور وہ پھر بنا کسی معاہدے کے ساتھ ہی یا بنا کسی فیصلہ کے ہی ختم کرتے ہیں یہی حال انسانی بحث و تکرار کا ہے ،اگر اس کے اندر شائستگی رہے گی تو ضرور کوئی نہ کوئی مرکزی خیال سامنے آئے گا۔
مجموعی طور پر سرسید کے مضامین کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے ہندوستان اور با لخصوص مسلمانوں کی حالت حاضرہ کو سامنے رکھ کر لکھا ہے ۔تاکہ معاشرے کے اندر کی برائیوں کو دور کر کے ان کو علمی اوراخلاقی طور پربیدار کیا جا سکے ،سرسید بہت ہی حساس اور بچپن سے ہی ذہین تھے ،خدا نے ان کو کافی ذہین اور دور رس نگاہ عطا کیا تھا ،انھوں نے بہت جلد مسلمانوں کی پستحالی کو پہچان لیا اور اس پر غور و فکر کر نے کے بعد کبھی مضامین کی شکل میں تو کبھی عملی طور پر محنت شروع کر دی ۔سرسید ہی کی بدولت مسلمانوں کے اندر جدید تعلیم حاصل کرنے کی لگن شروع ہوئی ۔حالانکہ ان کی مخالفت بھی خوب ہوئی مگر ان کی سوچ اور فکر میں ایمانداری تھی یہی وجہ ہے کہ جو لوگ ان سے مخالفت کرتے تھے وہ سب ان کے کارناموں سے کافی متاثر ہوئے ۔ان کے سب سے بڑے مخالفین میں اردو کے اہم شاعر جو کہ طنزو مزاحیہ شاعری کے سب سے بڑے شاعروں میں سے ایک ہیں وہ بھی آخر میں ان سے متاثر ہو کر یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ
ہماری باتیں ہی باتیں ہیں ،سید کام کرتا تھا
نہ بھولو اس کو جو کچھ فرق ہے کہنے میں کرنے میں
یہ دنیا چاہے جوکچھ بھی کہے اکبر یہ کہتا ہے
خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں
اکبر الہ آبادی
٭٭٭
Leave a Reply
Be the First to Comment!