سرسید:ہندوستانی مسلمانوں  کے  محسنِ اعظم

                ریاض احمد

                ریسرچ اسکالر،شعبۂ اردو

                 علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ،علی گڑھ

سرسیدجیسی نابغۂ روزگار شخصیت کہیں  صدیوں  میں  جاکر پیدا ہوتی ہے ، بالخصوص انیسویں  صدی میں  ان کا پید اہونا مسلمانوں  کے  لیے  نعمت عظمیٰ سے  کم نہیں  تھا۔ سرسید کا ایک بڑ اکارنامہ یہ ہے  کہ انھوں نے  نہ صرف مسلمانوں  کی سیاسی طور پر قیادت فرمائی بلکہ ان کی سماجی، مذہبی،ذہنی، فکری، تہذیبی اورتعلیمی میدان میں  بھی بھرپور رہبری ورہنمائی فرمائی ہے  اور اپنی اصلاحی کوششوں  کے  ذریعے  ان کو پستی و انحطاط سے  نکالنے  کی ہرممکن سعی کی ہے ۔ وہ اپنی قوم کے  بدترین حالات سے  بخوبی واقف تھے ۔ چنانچہ ان حالات سے  عہدہ برآ ہونے  کے  لیے  انھوں  نے  مسلم قوم کو زمانے  کے  ساتھ چلنے ، نئے  نظریات و افکار کو سمجھنے  اور اسے  قبول کرنے  کی ترغیب دی۔

چونکہ سرسید انیسویں  صدی کے  ایک ایسے  پرفتن دور میں  پیدا ہوئے  جب مغلیہ سلطنت کا چراغ ٹمٹمارہا تھا۔ ہندوستانی مسلمانوں  کی حالت بد سے  بدتر ہوچکی تھی۔ معاشرے  میں  ان کی حیثیت نہ کے  برابر تھی۔ اس وقت حکومت برطانیہ پر ہونے  والے  ہر حملے  کا ذمہ دار مسلمان ہی ٹھہرائے  جارہے  تھے ۔ ان کی جاگیریں ، عہدے  اورمناصب سب چھین لیے  گئے  تھے ۔ انگریزوں  کی نظر میں  سب سے  بڑے  مجرم مسلمان ہی تھے ۔ ایسے  ناگفتہ بہ دور میں  سرسید نے  اپنی دور اندیشی اور اعلیٰ مدبرانہ صلاحیتوں  کی مدد سے  اس بات کا بخوبی اندازہ لگالیا تھا کہ مسلمانوں  کو انگریزوں  سے  نبردآزماہونے  کے  لیے  اسلحہ کو بطور آلہ بنانے  کے  بجائے  حکمت عملی سے  کام لینا چاہیے ۔

سرسید کا نقطۂ نظر بالکل واضح تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ جو قوم عزت ووقار کے  ساتھ زندگی گزارنے  کی خواہشمند ہو اسے  چاہیے  کہ وہ زمانے  کے  ساتھ نظر سے  نظرملاکر چلے ، اسی میں  دانشمندی اوربھلائی ہے ۔ وہ قومیں  جو سکوت اختیار کرلیتی ہیں ، زمانہ بھی ان کی طرف سے  بے  اعتنائی برتنے  لگتا ہے ۔

سرسید نے  جب اپنی قوم کی اجتماعی ابتری پر غور کیا تو انھیں محسوس ہوا کہ یہاں  تو سرتاپا اصلاح کی اشدضرورت ہے ۔مذہب، رسم و رواج، تعلیم، زبان اور دین غرضیکہ کوئی ایسا میدان نہیں  تھا جو توجہ طلب نہ رہا ہو۔ چنانچہ سرسید نے  قوم کی تنزّ لی کے  تمام پہلوؤں  پر ازسرِنوغور کیا اور اپنی تمام امکانی قوتوں  کو بروئے  کار لاتے  ہوئے  ان تمام امور کو پائے  تکمیل تک پہنچایا۔ قوم کی اصلاح کی خاطر انھوں نے  کیا کیا نہیں  کیا۔ انجمنیں  قائم کیں ،مضامین لکھے ،کتابیں  تحریر کیں ، رسالے  اور میگزین نکالے ، مذہب کی نئی تعبیر وتشریح پیش کی۔ سفر کی تمام صعوبتوں  کو برداشت کرتے  ہوئے  بیرونی ممالک کا سفر بھی کیا، انگریزوں  اورمسلمانوں  کے  مابین پیداشدہ غلط فہمیوں  کو دور کرنے  اور انھیں  ایک دوسرے  کے  نزدیک لانے  میں  نمایاں  کردار ادا کیا ہے ۔ ان تمام اصلاحی کاموں  کو بحسن و خوبی انجام دینے  کے  باوجود بھی اہلِ وطن کی طرف سے  انھیں  طعن و تشنیع کا نشانہ بننا پڑا۔ مگر سرسید ان تمام چیزوں  کی پرواہ کئے  بغیر اپنے  کام میں  لگے  رہے  اور اس میں  انھیں  کامیابی بھی ملی۔

سرسید ہندوستانی مسلمانوں  کی زندگی کے  تمام جہات پر غور کرنے  کے  بعد اس نتیجے  پر پہنچے  کہ انھیں  ترقی، کامیابی اوردوسری قوموں  کے  شانہ بشانہ چلنے  کے  لیے  جدید علوم و فنون سے  آراستہ ہونا بے  حد ضروری ہے ۔ ساتھ ہی ساتھ دینی تعلیم کے  حصول میں  بھی پیچھے  نہ رہیں ۔ چنانچہ انھوں  نے  اپنے  بیشتر خطبات ومقالات میں  ہمیشہ اس نکتے  پر زور دیا کہ مسلمانوں  کو ایسی تعلیم حاصل کرنا چاہیے  جو دین و دنیا دونوں  کے  لیے  مفید و کارآمد ہو، انھوں  نے  کہا تھا کہ:

’’پس مسلمانوں  پر واجب ہے  کہ تعصب کو چھوڑدیں  اور بعد تحقیقات و مباحث کے  سلسلہ تعلیم مسلمانوں  کا ایسا قائم کریں  جو ان کے  دین و دنیا دونوں  کے  لیے  مفید ہوں ۔‘‘۱؎

یہ سچ ہے  کہ سرسید تا حیات اپنی قوم کو جدید علوم و فنون کی طرف رغبت دلاتے  رہے ۔ لیکن اس کایہ بالکل مطلب نہیں  ہے  کہ انھوں  نے  انھیں مذہبی تعلیم کے  حصول سے  منع کردیا۔ وہ پوری زندگی اس بات کی وکالت کرتے  رہے  کہ ہمارے  مذہبی تعلیم کا نصاب ایسا ہو جو کلی طور پر نہ صحیح مگر جزوی طور پر جدید علوم و فنون سے  ضرور مطابقت رکھتا ہو۔ اس بات کی وضاحت درج ذیل اقتباس سے  بھی بخوبی ہوتی ہے :

’’ہندوستانی مسلمانوں  کی تعلیم کے  لیے  سرسید کے  خیال میں  یہ بھی ضروری ہے  کہ ان کو جدید علوم و فنون کی نمائندہ تعلیم کے  ساتھ ساتھ مذہبی تعلیم سے  بھی آراستہ کریں  اورمذہبی تعلیم کے  لیے  ذی علم اور ذی فہم اصحاب یکجا ہوں  اوربحث ومباحثے  کے  بعد ایسانصاب مرتب کریں  جو بلحاظ حالاتِ زمانہ اوربنظرعلوم و فنون جدیدہ مطابقت رکھتا ہو اورجو پرانی دقیانوسی تعلیم سے  مختلف یعنی ترمیم شدہ ہو، ضروریات وقت کے  موافق ہو اور جو مذہبی مقاصد کو بھی پورا کرتا ہو۔‘‘۲؎

تعلیم کے  سلسلے  میں  سرسید کا نظریہ بالکل واضح تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلمان روایتی تعلیم کے  بجائے  وہ ان علوم و فنون کو حاصل کریں  جو نئے  عہد کے  تقاضوں  کو پورا کرنے  کے  ساتھ ساتھ ان کی زندگی میں  بھی انقلاب برپا کردے ۔ چنانچہ انھوں نے  اپنے  موقف کی وضاحت کرتے  ہوئے  کہا تھا کہ:

’’اے  دوستو! مجھ کو یہ بات کچھ زیادہ خوش کرنے  والی نہیں  ہے  کہ کسی مسلمان نے  بی۔ اے  یا ایم۔ اے  کی ڈگری حاصل کرلی۔ میری خوشی قوم کو قوم بنانے  میں  ہے ۔‘‘۳؎

سرسید نے  اپنے  افکار و خیالات اور کردار و عمل کے  ذریعے  جس طرح تہذیبی پسماندگی، فکروجمود اور علمی و ادبی تنگ نظری کا خاتمہ کیا اورپورے  ملک کے  مسلمانوں  کو جدید تقاضوں  کے  تحت عصری علوم و فنون پر توجہ دلائی وہ انھیں  کا خاصہ ہے ۔

تعلیم کے  علاوہ بھی سرسید نے  مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے  لیے  بہت سے  تعلیمی ادارے  قائم کیے ۔ متعدد رسائل وجرائد کا اجرا کیا بالخصوص ۱۸۷۵ء میں  علی گڑھ میں  ’مدرسۃ العلوم‘ کا قیام، ۱۸۶۴ء میں  غازی پور میں  سائنٹفک سوسائٹی کا قیام او رپھر ایم او کالج کی داغ بیل، سائنٹفک سوسائٹی گزٹ کی اشاعت، مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کی بنیاد اور پھر ۱۸۷۰ء میں  رسالہ تہذیب الاخلاق کا اجرا وغیرہ کاواحدمقصد قوم کو بیدار کرنا اور انھیں  علم و ہنر کے  نئے  مطالب ومفاہیم سے  بخوبی واقف کرانا تھا جیساکہ خود سرسید نے  ایم اے  او کالج کے  بنیادی مقاصد کی وضاحت کرتے  ہوئے  کہا تھا:

’’یہ ادارہ مسلمانان ہند کی تعلیم، تہذیب و ثقافت اور دانشورانہ قیادت کا مرکز بن جائے ۔یہاں  ایسے  تربیت یافتہ ذہن تیار ہوں  جو آئندہ ملک و قوم کے  لیے  سرمایۂ فلاح ثابت ہوں ۔‘‘۴؎

سرسید کے  تمام اصلاحی کارناموں  میں  سائنٹفک سوسائٹی کا قیام ایک ایسا لازوال کارنامہ ہے  جسے  رہتی دنیا تک نہیں  فراموش کیا جاسکتا ہے ۔ اس سوسائٹی کے  تحت سرسید نے  سائنسی علوم و فنون سے  متعلق بہت سی کتابوں  کا اردو ترجمہ کرواکر مغرب کے  جدید و تکنیکی علوم تک مسلمانوں  کی رسائی کو بہت حد تک آسان بنادیا تھا۔ سرسید کے  اس انقلابی قدم کی وجہ سے  مسلمان اپنے  دوسرے  ہم وطن ساتھیوں  کے  شانہ بشانہ چلنے  کے  قابل بن گئے ۔

یہ ایک تلخ حقیقت ہے  کہ جب بھی کسی قوم کے  قائد یا مصلح نے  اپنی قوم کی اصلاح اور اسے  راہ راست پر لانے  کابیڑا ٹھایا تو اسے  طرح طرح کی پریشانیوں  اور دقتوں  کا سامنا کرنا پڑاہے ۔ سرسید کے  ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ ابتداء میں  جب انھوں  نے  اپنے  اصلاحی مشن کا آغاز کیا تو اس وقت تک انھیں  اپنے  ہم وطنوں  بالخصوص مسلمانوں  کی طرف سے  سخت مخالفتوں  کا سامنا کرنا پڑا۔ انھیں  کافر،ملحد، نیچریہ اور انگریزوں  کا پٹھو غرضیکہ کیاکیا نہیں  کہا مگر سرسید اپنے  دھن کے  پکے  انسان تھے ، انھیں مسلمانوں  کی زندگی میں  جہاں  کہیں  بھی ذرہ برابر کجی دیکھنے  کو ملی اسے  اپنی ذہن رسا کے  ذریعے  دور کرنے  کی ہر ممکن کوشش کی اور وہ اپنے  اس مقصد میں  بہت حد تک کامیاب رہے ۔

بالآخر یہ بات بڑے  وثوق کے  ساتھ کہی جاسکتی ہے  کہ اگر مسلمانوں  کے  مابین سرسید جیسا عظیم مصلح، قائد اور دوراندیش انسان پیدا نہیں ہوتا تو شاید آج بھی مسلمان گمرہی، جہالت، تنگ نظری جیسی مہلک بیماری میں  مبتلا رہتے  اور انھیں  اس دلدل سے  نکالنے  والا کوئی نہیں  ہوتا۔

حواشی:

(۱)          مقالات سرسید، مرتب: شیخ اسماعیل پانی پتی، لاہور، ص:۲۸

(۲)          ایضاً،ص:۱۴۷

(۳)          سرسیداحمدخاں  فکرونظر کے  چند پہلو، ڈاکٹر مشتاق احمد، رسالہ’ادب سلسلہ‘ اعلیٰ پرنٹنگ پریس، دہلی، ۲۰۱۶ء،ص:۱۴۰

(۴)          ایضاً

٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.