صنف قصیدہ کو مثبت فکر و آہنگ دینے  والا شاعر:مہدی جعفر

عارفہ شبنم

پی ایچ ڈی ریسرچ اسکالر

یونیورسٹی آف حیدرآباد

قصیدہ عربی سے  فارسی اور فارسی سے  اُردو میں  مستعار لی گئی صنف ہے  اس صنف میں  عربی شعرانے  اپنے  کمالات ِ علم وفن کا بخوبی مظاہرہ کیا ہے  لیکن فارسی اور اُردو شعرا نے  اس صنف میں  صرف اور صرف بیجا مدح سرائی اور ذاتی مفاد کو ملحوظ رکھا اسی لیے  بادشاہت کے  ختم ہوتے  ہی قصیدے  کا بھی زوال شروع ہو گیا مگر یہ کہنا بھی درست نہیں کہ قصیدہ ایک زوال پذیر صنف ہے  کیوں  کہ مختلف شعرا نے   اس کی مختلف قسموں  میں  اپنے  قلم کے  جوہر دکھائے  ہیں  اور جہاں  تک قصیدے  کی قسموں  کا تعلق ہے  اس کی مختلف اعتبار سے  کئی قسمیں  ہیں  لیکن مضمون کے  اعتبار سے  اس کی قسمیں  جیسے  نعتیہ، منقبتیہ، وعظیہ، مدحیہ اور ہجویہ وغیر ہ ہیں ۔

                دکن میں  عہد بہمنی میں  بزرگان دین کی شان میں  قصیدے  کہے  گئے  اور عادل شاہی عہد میں  علی عادل شاہ ثانی شاہی نے  اور اس کے  ملک الشعرا نصرتی نے  بلند پایہ قصیدے  تخلیق کیے  ہیں  جب کہ قطب شاہی عہد میں  محمد قلی قطب شاہ، عبد اللہ قطب شاہ اور غواصیؔ وغیرہ نے  قصیدے  میں  اپنے  کمال ِ فن کا مظاہرہ کیا ہے  لیکن اس سلسلے  میں  ولی ؔاور سراجؔ کے  نام بھی اہمیت کے  حامل ہیں  کیوں  کہ ولی ؔکے  ذریعے  ریختہ کی دوسری تمام اصناف کے  ساتھ ساتھ قصیدہ بھی شمالی ہند پہنچا تو شاہ حاتمؔ، سوداؔ،میرؔ، مصحفیؔ، انشاؔ، غالبؔ ، مومنؔ، ذوقؔ ، داغؔ، محسنؔ، امیرؔاور جلیلؔ وغیرہ نے  اس مخصوص صنف میں  نہ صرف طبع آزمائی کی بلکہ مختلف طرح کے  تجربات بھی کرتے  رہے  جیسے  کسی نے  حمدیہ قصیدے  لکھے  تو کسی نے  نعتیہ، کسی نے  وعظیہ تو کسی نے  ہجویہ قصیدے  تخلیق کیے  لیکن شعرا نے  مدحیہ قصائد سب سے  زیادہ کہے  کیوں  کہ اسی سے  ان کے  ذاتی مفادات کی تکمیل ہوتی تھی اور ان کی حاجات بر آتیں  تھیں ۔ ایسے  میں  یہ دیکھنا بھی خالی از دلچسپی نہ ہوگا کہ شاعر مہدی جعفرنے  اپنے  مجموعے  ’’چشمہ ٔ فیض نور‘‘ میں  کس قسم کے  قصائد تخلیق کیے  ہیں ؟ان کے  ممدوحین کو ن کون ہیں ؟اور ان کے  قصائد کا سبب تخلیق کیا ہے ؟مذکورہ تمام سوالات کے  جوابات کے  لیے  آئیے  مہدی جعفر کے  مجموعے  ’’چشمۂ فیض نور‘‘ سے  دو منتخب قصائد کا مطالعہ کرتے  ہیں ۔

                مہدی جعفر کے  مجموعے  ’’چشمہ ٔ فیض نور‘‘ کے  مقدمے  ’’مقدمے  منقبت‘‘میں  خود مہدی جعفر اپنے  قصائد کا سببِ محرک پروفیسر ابو محمد سحرؔ کو بتاتے  ہوئے  لکھتے  ہیں :

’’قصیدے  کی تاریخ عہد قدیم سے  ترقی یافتہ ہے  اور اس کے  تخلیقی سوتے  میں  آبِ حیات موجزن ہے ۔ پروفیسر ابو محمد سحرؔ نے  ’’اُردو میں  قصیدہ نگاری‘‘کے  عنوان سے  ایک کتاب تصنیف کی ہے  جس میں  عرب کے  دور کے  جاہلیت سے  لے  کر پچھلی صدی تک موجود قصیدے  کی تاریخ کا محاکمہ کرتے  ہوئے  اس صنف کی علمی اور ادبی خوبیوں  کو ناقدانقطۂ نظر سے  بیان کیا ہے ……….تمام خوبیوں  کے  باوصف راقم الحروف پروفیسر سحرؔ کے  اس فیصلے  سے  قطعاً مطمٔن نہیں  کہ ’’قصیدہ دراصل ختم ہو چکا ہے ‘‘جس طرح چند ناقدین کے  اس فیصلے  سے  اتفاق نہیں  کر سکتا کہ ’’کہانی مر چکی ہے ‘‘۔ مختلف اصناف فن کو پھانسی پر چڑھانے  کی سفاک روش عموماً مغربی راہوں  سے  درآئی ہے  جہاں  اکثر آوازیں  اٹھتی رہتی ہیں  کہ خدا مر چکا ہے ‘فکشن کا خاتمہ ہو چکا ہے  یا لٹریچر کا تمت بالخیر لکھ دیا گیا ہے ۔ ہمارے  یہاں  تیز رفتار راکٹ کے  دوش بدوش سائیکل کی ضرورت قائم ہے ۔ ہم نے  اپنی زمینوں  اور علاقوں  سے  اسے  خارج نہیں  کیا۔ قصیدے  اُردو ادب کی ترویج و فروغ میں  آج بھی ممدو معاون ثابت ہوتے  ہیں ۔ کہانی کی صنف کی طرح قصیدے  کی جڑیں  عہد نو کی زمین میں  پیوست ہیں  اور اس کی شاخوں  میں  نئے  کلے  پھوٹتے  نظر آتے  ہیں  ۔ بس اسے  منفی فکر و نظر سے  بچانے  کی ضرورت ہے ۔‘‘

              ( ’’چشمہ ٔ فیض نور‘‘، ص۔8,9)

  مندر جہ بالا اقتباس میں  مہدی جعفر نے  قصیدے  کو عہد قدیم سے  لے  کر عہد نو میں  پیوست بتا یا ہے  اور یہ بھی کہا ہے  کہ قصیدے  سے  متعلق منفی فکر و نظر سے  بچنا چاہیے  یا منفی طرز فکر کو بدلنے  کی ضرورت ہے ۔ مہدی جعفر کی طرح پروفیسر افتخار اجمل شاہین بھی قصیدے  سے  متعلق یوں  اپنی مثبت سوچ کا اظہار کرتے  ہیں :

’’اگر چہ محسن کاکوری کے  بعد اُردو قصیدے  کا باب ختم ہو جاتا ہے  لیکن میں  یہ ضروری سمجھتا ہوں  کہ ایسے  قصائد کو پھر رائج کیا جائے  جس میں  ملک و قوم کے  عظیم رہنماؤں ، خادموں  اور پرستاروں  کی تعریف معقول پیرائے  میں  کی جائے  اور ہم کبھی کبھی اپنے  قدیم ورثے  کی طرف بھی نظر اٹھا کر دیکھیں  کہ اس گڈری میں  کیسے  کیسے  لعل پوشیدہ ہیں ۔‘‘؎

               (اُردو میں  قصیدہ نگار، مرتبہ ڈاکٹر اُم ہانی اشرف، ص۔ 47)

  مہدی جعفر اور پروفیسر افتخار اجمل شاہین دونوں  ہی قدیم قصیدوں  سے  استفادے ‘ عہد نو میں  قصیدے  سے  متعلق مثبت طرز فکر اور قصیدے  میں  تعریف کے  معقول پیرائے  پر زور دے  رہے  ہیں  لہٰذا اس سیاق و سباق میں  یہ بھی دیکھتے  چلیں  کہ مہدی جعفر اپنے  قول و فعل میں  (عملی طور پر) کتنے  کامیاب اور کتنے  نا کام ہیں ۔

 ’’چشمہ ٔ فیض نور‘‘کی ایک نعت جو ’’مدح رسولﷺ‘‘ کے  عنوان سے  ہے  جو دراصل نعتیہ قصیدہ ہے  اور یہ نعتیہ قصیدہ بظاہرتو تمہیدیہ قصیدہ ہے  جس کی تشبیب اس طرح شروع ہوتی ہے  ملاحظہ فرمائیے   ؎

عرب کی سر زمین پر تھی قصیدے  کی فراوانی

کہ یہ صنف سخن تھی شہرۂ آفاق و لا ثانی

          (ص۔14)

                شاعر نے  اس مخصوص تشبیب میں  عربی قصیدے  کی روایت ‘ عربی قصیدہ کو شعرا ، فارسی قصیدہ گو شعرا اور اُردو قصیدہ گو شعرا کے  تخلص کو بڑے  منفرد ودلچسپ انداز میں  بیان کیا ہے  لیکن اب یہاں  شاعر کو ’’گریز‘‘ کرتے  ہوئے  مدح رسولﷺ کرنی ہے  دیکھیے  شاعر’’گریز‘‘ کس طرح کرتا ہے    ؎

چلن نعت و قصیدے  کا ہوا اکثر علاقوں  میں

سر بزم چمن نغمہ سرا تھا مرغ بستانی

ہمارے  عہد میں  جعفرؔ بہت ہے  تنگ دامانی

طلب کرتی ہے  ہر ساعت یہاں  جینے  کی قبر بانی

           (ص۔15)

مہدی جعفر اس گریز کے  بعد مدح رسولﷺ کا آغاز کرتے  ہیں  اور شانِ رسول ؑ پاک بیان کرتے  کرتے  کس طرح واقعۂ معراج کا ذکر چھیڑ دیتے  ہیں  ملاحظہ کیجیے    ؎

بلا یا عرش پر خالق نے  جب خلق ؑ مجسم کو

وہاں  راز و نیاز شوق کی باہم تھی آسانی

کرن ایسی لیے  جاتی تھی کھینچے  بام سدریٰ پر

اگر انگشتری میں  ہوتو مل جائے  سلیمانی

پڑی تھی رو برو کچھ اس طرح قوسین کی چلمن

کہ دیکھے  اوٹ سے  محبوبؐ کو محبوب سلیمانی

دم معراج یوں  جلوہ فگن تھا صاحب کرسی

نظارہ کر رہی تھی مصطفیٰ کا شان ِ سبحانی

وہاں  گذرا زمانہ اور یہاں  اک پل میں  لوٹ آنا

لیے  پھر تی تھی ہر دھڑ کن ہزاروں  سال نورانی

                ان پانچ اشعار میں  شاعر نے  اللہ کی طرف سے  رسول ؐکو عرش پر بلائے  جانے  ، راز و نیاز کی باتیں  کرنے ، سدرۃ المنتھٰی کی سیر کرنے  اور عرش وزمیں  کے  فرق زمانہ کو نہایت ہنر مندی و چابکدستی سے  پیش کیا ہے  اور شاعر مدح رسولﷺ کے  بعد اپنے  مدعا پر آتے  ہوئے  کہتا ہے  دیکھیے   ؎

غبار انداز دنیا اب گٹھن کی حد پہ قائم ہے

کہ جیسے  بند ہو یا رب ہوائے  فصل گل آنی

توانائی میسر ہو اسی عہد رسالتؐ کی

ہمیں  پھر چاہیے  جعفرؔ وہی قندیل ایمانی

ٍ              (ص۔18)

                شاعر مہدی جعفر اس مدعا میں  اللہ سے  دعا گو ہیں  کہ ہمیں  اس گٹھن بھری و نا ثباتی دنیا میں  جینے  کے  لیے  رسول اللہ ﷺ کی وہی قندیل ایمانی چاہیے  جس سے  انھوں  نے  عہد جہالت کی تاریکی کو دور کرکے  اسلا م کا پرچم بلند کیا تھا۔

               مہدی جعفر کا ایک اور خطابیہ و نعتیہ قصیدہ ہے  جو ہے  تو ’’مدح رسول ﷺ‘‘کے  عنوان سے  مگر شاعرنے  اس میں  اہلِ سرائیل کو مخاطب کیا ہے  اشعار ملاحظہ ہوں   ؎

وہ دین  دین ہی کیا جس کو انتہا نہ ملے

نبی ہوں  لاکھ مگر فخر انبیا نہ ملے

نجات پاؤ گے  کیسے  تم اہلِ اسرائیل

ملے  گا رب نہ اسے  جس کو مصطفیٰ نہ ملے

          (ص۔38)

                اور آگے  شاعر اہل سرائیل کے  تصور و عقیدے  عیسٰیؑ ابن خداسے  متعلق یوں  عرض کرتا ہے  دیکھیے    ؎

کرو تصور عیسیٰؑ بہ مشکل ابن خدا

خدا کے  ساتھ ملاو بھلے  خدا نہ ملے

جمال یوسف ؑ و دست عصاودم عیسیٰ ؑ

سوائے  محمدؑ مرسل کے  ایک جا نہ ملے

          (ص۔38)

 ان اشعار میں شاعر اہل اسرائیل کو بتا رہا ہے  کہ وہ تو حضرت عیسیٰ ؑ کو ابن خدا تصور کر تے  ہیں  مگر اس تصور سے  انھیں  قرب خدا حاصل نہ ہوگا اور حضرت یوسفؑ، حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ کے  معجزات کا ذکر کرتے  ہوئے  کہتا ہے  کہ یہ معجزات ایک ساتھ صرف اور صرف محبوب خدا ، ختم الانبیا، خیر الورہ اور خیر الانعام ہی کی ذات میں  موجود ہیں  اور اس مخصوص نعتیہ قصیدے  کے  مدعا میں  شاعر یوں  دعا گو ہے  شعر ملاحظہ کیجیے   ؎

ادھر ہی جاؤ جہاں  پاؤنقش پائے  رسول

کبھی نہ ہوگا یہ جعفرؔ تمہیں  خدا نہ ملے

             (ص۔39)

  یہ مخصوص قصیدہ دراصل اہل اسرائیل اور پوری عیسائی قوم کو دعوتِ ِاسلام ہے  جو شاعر نعتیہ قصیدے  کے  ذریعے  وہ بھی بقول ناقدین کے  ’’صنف قصیدے  کے  زوال‘‘کے  بعد دے  رہا ہے ۔

  مہدی جعفر نے  ’’چشمۂ فیض نور‘‘ میں  تمہیدیہ و خطابیہ دونوں  طرح کے  قصائد تخلیق کیے  ہیں  جن کے  مطالعے  کے  بعد ہم یہ کہہ سکتے  ہیں  کہ اُردو میں  قصیدہ گو شعرا تو بہت ہیں  مگر شاید ہی کوئی ایک مخصوص شاعر ہوگا جس نے  ناقدین کی طرف سے  زوال ِ صنف قصیدہ کے  اعلان کے  بعد صنف قصیدہ میں  مختلف تجربات کیے  ہوں  جیسے  تمہیدیہ اور خطابیہ دونوں ہی اقسام کے  قصائد میں  مدح ِ رسول پاک بیان کی ہے  جس سے  مہدی جعفر کی اس صنف کے  فن پر گہری نظر، اظہار کی قدرت اور ناقدین ِ ادب سے  بغاوت کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے ۔

٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.