پریم چند کے  افسانے  اور دیہاتی زندگی:ایک مختصر جائزہ

ڈاکٹرمحمد حسین وانی

تجھی وارہ، اچھابل، اننت ناگ

کشمیر

                منشی پریم چند۳۱ جولائی ۱۸۸۰؁ء میں  بنارس کے  قریب ایک گائوں  پانڈے  پورمیں  پیداہوئے ۔آپ کو افسانوی ادب سے  اوائل عمری سے  ہی بے  حد لگائو اور دلچسپی تھی۔ابھی آپ سات سال کے  تھے  کہ آپ کی ماں  کا سایہ سر سے  اٹھ گیا،اور پندرہ سال کی عمر میں  آپ کے  والد بھی چل بسے ۔والدین کے  انتقال کے  بعد آپ نے  انتہائی مصیبتوں ،پریشانیوں اور الجھنوں  کاسامنا کرکے  اپنے  ذوق ادب کو نکھارااور سنوارا۔

                پریم چند اردواور ہندی کے  بہترین ناول نویس اور افسانہ نگار تھے ۔آپ کی شہرت اور مقبولیت کی اصل وجہ یہ ہے  کہ آپ نے  ہندی اور اردو ادب میں  ایک انقلاب برپا کردیا۔آپ کا سب سے  بڑا کمال یہ ہے  کہ آپ نے  ہندوستانی ادب کو شہری زندگی سے  نکال کردیہاتی زندگی سے  اس طرح جوڑ دیاکہ دیہات کا پورا ماحول،رسم ورواج،غربت وافلاس،طور طریقے ،عقائد ونظریات اور پورا دیہاتی کلچر اپنی اصل شکل وصورت میں  ہماری آنکھوں کے  سامنے  آجاتاہے ۔آپ کی تحریروں  سے  دیہات کے  رہنے  والے  بے  کس وبے  بس غریبوں  کی حمایت کااظہار ہوتاہے ۔

                یہ ایک فطری عمل ہے  کہ ہر ادیب اور فن کار جس ماحول اور حالات میں  پیداہوتاہے ،پروان چڑھتاہے ،زندگی کی منزلیں  طے  کرتاہے ۔اس ماحول اور ان حالات کی پوری بوباس اس کے  رگ وریشے  میں  موجود رہتی ہے  ،اسے  اپنے  ماحول او ر معاشرے  کی صحت مند روایات سے  بے  حد پیار ومحبت ہوتی ہے  ، اور یہی جذباتی تعلق اس کی تخلیقات میں  بھی منعکس ہوتارہتاہے ۔

                پر؎؎یم چند کے  ناولوں  اور افسانوں  میں  یہ خوبی نمایاں طورپر سامنے  آتی ہے  کہ انھوں نے  زیادہ تر اپنے  افسانوں اور ناولوں  میں  دیہی معاشرے  کی خوبصورت منظرکشی کی ہے ۔انھوں نے  ایک ایسے  ماحول ومعاشرے  میں  پرورش پائی تھی ،جہاں  مہاجن غریب کسان سے  سود کھاتاتھا۔پروہت دان دھرم کے  نام پر عوام کا خون چوستاتھااور ساہوکار اور زمیندار غریب کسانوں پر ظلم وستم ڈھاتے  تھے ۔اس لیے  پریم چند نے  اپنے  ملک وقوم کودرپیش مسائل ومشکلات پر خاص طور سے  دیہاتی عوام کی ایسی زبوں  حالیوں  اور پسماندگیوں  کوہی اپنے  ناولوں  اور افسانوں  کاموضوع بنایا ۔شہزادمنظر پریم چند کی افسانہ نگاری کے  متعلق ایک جگہ لکھتے  ہیں :

’’پریم چند کاتعلق دیہات سے  تھا اور روزگار کے  سلسلہ میں  شہر منتقل ہونے  کے  باوجود انھوں نے  لکھتے  وقت دیہی زندگی کو فراموش نہیں  کیا اور ان کے  ان گنت مسائل کو اپنے  افسانوں  کا موضوع بنایا۔پریم چند نے  اردو میں  پہلی بار معاشرے  کے  بعض کرداروں  مثلاََ زمیندار، پٹواری،پولیس کاسپاہی،دارو غہ، کسان، اس کی بیوی اور اس کے  بچے  وغیرہ کو پیش کیا۔پریم چند سے  قبل اردومیں  یہ کردار ناپید تھے ۔‘‘ (شہزاد منظر۔’’ جدید اردوافسانہ‘‘، صفحہ:۱۷۱)

                منشی پریم چند اردو کے  پہلے  افسانہ نگار ہیں  جنھوں  نے  دیہات اور وہاں  کی زندگی کو اپنے  افسانوں  کا موضوع بنایا اور دیہی زندگی کی حقیقی تصویر ہمارے  سامنے  پیش کی جو کہ اردو ادب میں  ایک نئے  باب کا آغاز ہے ۔ وہ خود گاؤں  میں  ہی پلے  بڑھے  تھے  اس لئے  گاؤں  والوں  کے  حالات و مسائل سے  اچھی طرح واقفیت رکھتے  تھے ۔خصوصاً کسانوں  اور مزدوروں  پر ہونے  والے  مظالم کو انھوں  نے  قریب سے  دیکھا تھا۔ پروفیسر قمر رئیس ان کے  بارے  میں  کچھ اس طرح رقمطراز ہیں  :

’’پریم چند پہلے  ادیب ہیں  جنھوں  نے  ہندوستانی گاؤں  کے  کسانوں  ،کھیت ، مزدوروں  اور ہریجنوں  کی عظمت اور انسانی وقار کو سمجھا۔ان کے  لیے  ادب کے  کشادہ دروازے  کھولے ، انھیں  ہیرو بنا کر ، ان کے  دکھ سکھ کی گاتھا سنا کر اردو کے  افسانوی ادب کو نئی وسعتوں  اور ایک نئے  احساسِ جمال سے  آشنا کیا۔‘‘ (قمر رئیس ۔’’اردو ادب میں  بیسویں  صدی کا افسانوی ادب‘‘  صفحہ:۴۶۸)

                سید وقار عظیم بھی پریم چند کے  دیہی افسانوں  کے  متعلق اپنی کتاب میں  رقمطراز ہیں  :

’’پریم چند نے  سب سے  پہلے  دیہاتی زندگی کے  انگنت مسئلوں  کو اپنے  افسانوں  کے  ذریعہ پڑھے  لکھے  لوگوں  کی زندگی سے  قریب کیا۔ پہلے  پہل لوگوں  نے  دیہاتی زندگی کو اپنے  ملک کی زندگی کا حصہ سمجھنا شروع کیا اور اسی احساس نے  رفتہ رفتہ دیہاتی زندگی اور اس زندگی کے  چھوٹے  بڑے  مسئلوں  کو سیاسی ادراک کی بنیاد بنا دیا، یہاں  تک کہ اب ہماری ساری قومی اور سیاسی تحریکوں  کا تاردیہاتی اور اس کی زندگی سے  بندھا ہوا نظر آنے  لگا۔‘‘ (سید وقار عظیم ۔ ’’نیا افسانہ‘‘  صفحہ :۱۹)

              پریم چند کا پہلا افسانوی مجموعہ’’ سوزِوطن‘‘۱۹۰۸؁ء میں  شائع ہوا جسے  انگریزوں  نے  اپنے  خلاف بغاوت سمجھ کر جلا ڈالا ،حالانکہ اس مجموعے  میں  ایسی کوئی بات نہیں  تھی بلکہ اس مجموعے  کے  سارے  افسانے  اصلاحی کہانیوں  پر مبنی تھے ۔

                پریم چند کے  بہت سارے  افسانوں  کے  مجموعے  شائع ہوکر منظر عام پرآئے  ہوئے  ہیں ،جنھیں  پڑھ کر ایسالگتاہے  کہ ہندوستان کادیہات اپنی پوری آب و تاب کے  ساتھ ہمارے  سامنے  آیاہے ۔پریم چند کے  افسانوی مجموعوں  میں  پریم پچیسی ،پریم بتیسی،پریم چالیسی ، خاک پروانہ ،آخری تحفہ،واردات،نجات،دودھ کی قیمت،زاد راہ وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔ان مجموعوں  کے  زیادہ تر افسانے  دیہاتی زندگی کی عکاسی کرتے  ہوئے  نظر آتے  ہیں ۔

                جہاں  تک پریم چند کے  افسانوں  میں  دیہاتی زندگی کی منظرکشی کاتعلق ہے ،اس سلسلے  میں  یہ بات قابل ذکر ہے  کہ پریم چند گائوں میں  پلے  بڑھے  تھے  اور ہندوستانی گائوں  ان کے  رگ وریشے  میں  رچ بس گیاتھا۔چنانچہ انھوں نے  اپنے  عہد میں  ہندوستانی دیہاتوں  کو پروہت،مہاجن ،ساہوکار اور زمیندار کے  ظالمانہ شکنجے  میں  جکڑاپایا۔انھوں نے  دیہاتی سماج میں  دیکھا کہ زمین بٹائی کے  بہانے  ساہوکار کسان کی محنت کی کمائی اپنے  گودام میں  ڈال دیتاہے ۔مزید یہ کہ ذات پات ،اونچ نیچ اور چھوت چھات کے  احمقانہ تصورنے  لوگوں کو کئی سماجی برائیوں میں  مبتلاکردیاہے ۔پریم چند نے  اس ظلم وناانصافی اور نابرابری کے  خلاف اپنا قلمی جہاد شروع کیا اور ایک اصلاح پسند اور انسان دوست ادیب ہونے  کے  ناتے  اپنے  افسانوں  میں  دیہاتی زندگی کو اسی طرح پیش کیا،جس طرح وہ انہیں  نظر آرہی تھی۔اور جس انداز سے  پریم چند نے  دیہی زندگی کو پیش کیا ہے  اس سے  ان کی دیہی زندگی کے  متعلق گہرے  مشاہدے  کی نشاندہی ہوتی ہے ۔کیونکہ وہ کسانوں  ، مزدوروں ،مہاجنوں ، ساہکاروں  اور زمینداروں سے  وابستہ مختلف طبقوں  کے  لوگوں  کی خوبیوں  اور خامیوں  سے  صرف آشنا ہی نہیں  تھے  ،بلکہ ان کی ذہنی اُلجھنوں  اور خواہشات وغیرہ کو بھی خوب اچھی طرح سے  جانتے  تھے ۔

                پریم چندسے  پہلے  اردوکاافسانوی ادب شہری زندگی اور اس کے  مسائل تک ہی محدود تھا۔پریم چند نے  پہلی بار اردو افسانہ میں  گائوں  کی کھلی ہوئی زندگی،اس کے  میلے  ٹھیلے ،کھیت کھلیان،چوپال اور گائوں کے  سماجی رشتوں  کو پیش کیا،اور اپنے  افسانوں  کے  ذریعے  دیہاتی ماحول کی خوبصورت عکاسی کی  ہے ۔انھوں نے  اپنی کہانیوں  میں  گائوں  کے  نچلے  طبقے  کی زندگی ،اس کی مفلوک الحالی،محرومیوں  اور مجبوریوں  کی روداداس طرح موثر ڈھنگ سے  بیان کی ہے  کہ اُس دور کے  گاؤں  کی پوری تصویر ہماری آنکھوں  کے  سامنے  آجاتی ہے ۔

                 افسانہ ’’بے  غرض محسن‘‘میں پریم چند نے  پہلی بار ایک غریب کسان کو اپنے  افسانے  کا ہیرو بنایااور یہ ثابت کردیاکہ ایک معمولی کسان میں  بھی ہیرو کی ساری خصوصیات موجودہوتی ہیں ۔اس افسانے  میں  ایک غریب کسان تخت سنگھ اور اس کی بیوی کی غربت اور استحصال بھری زندگی کی جو تصویر کشی کی گئی ہے  وہ بڑی دل خراش ہے  ۔اس افسانے  میں  پریم چند نے  پہلی مرتبہ ہندوستانی دیہات کی زندگی کے  المناک ماحول کو سمیٹنے  کی ایک کامیاب کوشش کی ہے  ۔یہ وہ دور تھا جب زمینداروں  ،مہاجنوں اور ساہکاروں  کا ظلم اپنے  شباب پر تھا اور کسانوں  پر ان کے  مظالم بڑھتے  ہی جا رہے  تھے  ۔اس افسانے  میں  پریم چند نے  گاؤں  کی سچی اور جاذب نظر تصویر کشی بڑی ہنر مندی اورفنکارانہ انداز سے  کی ہے  کہ اس کی نظیر ہی نہیں  ملتی۔

                 ’’اندھیر‘‘پریم چند کاایک اہم افسانہ ہے  ،جس میں مذہبی بے  راہ روی کو موضوع بنایاگیاہے ۔اس افسانے  کی کہانی گنگا کے  کنارے  آباد دو گاؤں  کے  رہنے  والے  باشندوں  کی آپسی لڑائی جھگڑوں  سے  شروع ہوتی ہے  اور آخر کار ناگ پنجمی کے  تہوار پر یہ کہانی اپنے  اختتام کو پہنچتی ہے ۔ اس افسانے  میں  پریم چند نے  دیہاتی لوگوں  کی جہالت،داروغہ،نمبردار،پٹواری ،مکھیا اورسرپنچ جیسے  گائوں کے  سرپرستوں  کو اس طرح سے  بے  نقاب کیاہے  کہ قاری کے  سامنے  جہالت کی تاریکی اور لاعلمی کا گھوراندھیراآجاتاہے ۔افسانہ ’’اندھیر ‘‘ سے  یہ اقتباس ملاحظہ ہے  :

’’بڑھئی نے  آکر گوپال اور گورا کے  لئے  دو نئی پیڑھیاں  بنائیں  ۔ نائن نے  آنگن لیبا اور چوک بنائی دروازے  پر بندھن واریں  بندھ گئیں  ۔ آنگن میں  کیلے  کی شاخیں  گڑگئیں  ، پنڈت جی کے  لئے  سنگھاسن سج گیا فرائض باہمی کا انتظام خود بخود اپنے  مقررہ دائرے  پر چلنے  لگا ۔ یہی نظام تمدن ہے  جس نے  دیہات کی زندگی کو تکلفات سے  بے  نیاز بنا رکھا ہے  لیکن افسوس کہ اب ادنیٰ اوراعلیٰ کے  بے  معنیٰ اور بیہودہ قیود نے  ان باہمی فرائض کو امداد حسنہ کے  رُتبے  سے  ہٹا کر ان پر ذلت اور نیچے  پن کا داغ لگا دیا ہے ۔ شام ہوئی پنڈت موٹے  رام نے  کندھے  پر جھولی ڈالی ، ہاتھ میں  سنکھ لیا اور کھڑاؤں کھٹ پٹ کرتے  گوپال کے  گھر پہنچے  آنگن میں  ٹاٹ بچھا ہواتھا۔ گاؤں  کے  معززین کتھا سننے  کے  لئے  آبیٹھے  ، گھنٹی بجی ، سنکھ پھوکا گیا اور کتھا شروع ہوئی۔ گوپال بھی گاڑھے  کی چادر اوڑھے  ایک کونے  میں  دیوار کے  آسرے  بیٹھا ہوا تھا ۔ مکھیا ، نمبردار اور پٹواری نے  ازراہِ ہمدردی اس سے  کہا :

’’ستیہ نارائن کی مہما تھی کہ تم پر کوئی آنچ نہ آتی۔ ‘‘

 گوپال نے  انگڑائی لے  کر کہا ستیہ نارائن کی مہما نہیں  یہ اندھیرہے ۔‘‘ (’’پریم چند کے  سو افسانے ‘‘،ترتیب و انتخاب:پریم گوپال متّل، صفحہ :۱۳۸ )

                پریم چند سماجی انصاف کے  بڑے  قائل تھے ،لیکن ان کے  دور میں  اونچ نیچ اور چھوت چھات کا ناسور سماج کواندر ہی اندر کھوکھلا کررہاتھا۔اس لئے  ا نھوں نے  جہاں  انسانیت کو مجروح ہوتے  دیکھا،ان کا دل تڑپ اٹھااور اس کے  خلاف آواز بلند کی۔افسانہ ’’صرف ایک آواز‘‘کا مرکزی کردار ٹھاکر درشن سنگھ اپنی بوڑھی ٹھکرائن کے  ساتھ گنگا جی جاتے  ہیں  تو پورے  گاؤں  کے  لوگ ان کو رخصت کرنے  آتے  ہیں  ۔ جب وہ گنگا جی پہنچتے  ہیں  تو وہاں  پر شیریں  بیاں  سنیاسی کی پُر اثر تقریر سنتے  ہیں  جو چھوت چھات کے  خلاف ہوتی ہے  ۔ سنیاسی سامعین حضرات سے  کہتا ہے  کہ آج سے  ہم اچھوتوں  کے  ساتھ برادرانہ سلوک کریں  گے  اور ان کو اپنے  گلے  لگائیں  گے ۔ لیکن کوئی بھی شخص کچھ نہیں  کہہ سکا اتنے  میں  ٹھاکر درشن سنگھ کھڑے  ہوتے  ہوئے  کہتے  ہیں  کہ میں  اس کے  لئے  تیار ہوں  لیکن سارا مجموعہ اُن پر ہنستا ہے ۔ افسانہ’’صرف ایک آواز‘‘ میں  پریم چندنے  بڑی فنکارانہ مہارت کے  ساتھ یہ دکھایاہے  کہ اس دورمیں  چھوت چھات نہ صرف چھوٹی ذات کے  لوگوں  کے  ساتھ کی جاتی تھی،بلکہ اس کادائرہ کافی وسیع پیمانے  پرتھا،اور اس طرح اس افسانے  کے  ذریعے  انھوں نے  اچھوتوں کے  المناک زندگی کے  حوالے  سے  ہندوسماج کی بے  حسی کے  خلاف صدائے  احتجاج بلند کی ہے ۔ افسانہ ’’صرف ایک آواز ‘‘ میں  پریم چند نے  دیہاتی ماحول کی جو عکاسی کی ہے  وہ قابلِ دید ہے ۔ایک اقتباس ملاحظہ ہے :

’’جب دوپہر ہوتے  ہوئے  ٹھاکر اور ٹھکرائن گاؤں  سے  چلے  تو سینکڑوں  آدمی ان کے  ساتھ تھے ۔ اور پختہ سڑک پر پہنچے ۔ توجاتریوں  کا ایسا تانتا لگا ہوا تھا گویا کوئی بازار ہے ۔ ایسے  ایسے  بوڑھے  لاٹھیاں  ٹیکتے  یا ڈولیوں  پر سوار چلے  جاتے  تھے  جنہیں تکلیف دینے  کی ملک الموت نے  بھی ضرورت نہ سمجھی تھی۔ اندھے  دوسروں  کی لکڑی کے  سہارے  قدم بڑھائے  آتے  تھے ۔ بعض آدمیوں  نے  اپنی بوڑھی ماتاؤں کو پیٹھ پر لاد لیا تھا۔ کسی کے  سر پر کپڑوں  کا بقچہ ، کسی کے  کندھے  پر لوٹا ، ڈور کسی کے  کندھے  پر اور کتنے  ہی آدمیوں  نے  پیروں  پر چیتھڑے  لپیٹ لیے  تھے ، جوتے  کہاں  سے  لائیں ۔ مگر مذہبی جوش کی یہ برکت تھی کہ من کسی کا میلا نہ تھا۔‘‘ (’’پریم چند کے  سو افسانے ‘‘، پریم گوپال متّل، صفحہ: ۱۴۰ )

                پریم چند نے  اپنے  افسانوں  میں  کسانوں  کی زندگی کی جس طرح عکاسی کی ہے ،شاید ہی کوئی دوسرا افسانہ نگار اس طرح پیش کرسکاہو۔پریم چند کے  دور میں  کسان اپنی زمین کے  مالک نہ تھے ،بلکہ انھیں  زمیندارانہ اور جاگیردارانہ نظام میں  بے  دخلی کی دھمکی،خوف،توہین آمیز انکساری،خوشامد،چاپلوسی اور نذرانہ دینے  پر مجبورکیاجاتاتھااور زمیندار اپنے  جبروتشدد سے  پورے  گائوں  میں  ظلم وتشدد برپاکیے  رہتے  تھے ۔ افسانہ’’بانکا زمیندار‘‘ میں  ان کے  ظلم وتشدد کی جیتی جاگتی تصویریں  دیکھی جاسکتی ہے ۔اس افسانے  میں  پریم چند نے  یہ دکھانے  کی کامیاب کوشش کی ہے  کہ زمیندارانہ نظام میں  زمیندار، جاگیردار،ساہوکار وغیرہ کس طرح کسانوں کی فصلوں پر ٹوٹ پڑتے  تھے ۔پریم چند کے  دور میں  چونکہ کسانوں  پر بہت ہی زیادہ ظلم و جبرکیا جاتا تھا، جس کی بھر پور عکاسی انہوں  نے  اپنے  اسی افسانے  میں  کی ہے  ۔ملاحظہ ہو یہ اقتباس:

’’شام کے  وقت ٹھاکر صاحب نے  اپنے  اسامیوں  کو بلایا اور تب باآواز بلند بولے   ’’میں  نے  سنا ہے  کہ تم لوگ بڑے  سرکش ہو اور میری سرکشی کا حال تم کو معلوم ہی ہے ۔ اب اینٹ اور پتھر کا سامنا ہے ۔بولو کیا منظور ہے ۔‘‘

ایک بوڑھے  کسان نے  بید لرزاں  کی طرح کانپتے  ہوئے  جواب دیا ’’سرکار آپ ہمارے  راجہ ہیں  ہم آپ سے  اینٹھ کر کہاں  جائیں  گے ۔‘‘

ٹھاکر صاحب تیور بدل کر بولے  ’’تو تم لوگ سب کے  سب کل صبح تک تین سال کا پیشگی لگان داخل کردو اور خوب دھیان دے  کر سُن لو کہ حکم کو دہرانا نہیں  جانتا۔ ورنہ میں  گاؤں  میں  ہل چلوادوں گااور گھروں  کو کھیت بنادوں گا ۔‘‘سارے  گاؤں  میں  کہرام مچ گیا ۔ تین سال کا پیشگی لگان اور اتنی جلدی فراہم ہونا غیر ممکن تھا۔ رات اسی حیض بیض میں  کٹی۔ ابھی تک منت سماجت کی برقی تاثیر کی اُمید باقی تھی ۔ صبح بہت انتظار کے  بعد آئی تو قیامت بن کر آئی۔ ایک طرف تو جبر و تشدد اور ظلم و تحکم کے  ہنگامے  گرما گرم تھے ۔ دوسری طرف دیدۂ گریاں  اور آہ سرد اور نالۂ بیداد کے  غریب کسان اپنے  اپنے  بقچے  لادے  بیکسانہ انداز سے  تاکتے  آنکھوں  میں  التجا بیوی بچوں  کو ساتھ لئے  روتے  بلکتے  کسی نامعلوم دیارِ غربت کو چلے  جاتے  تھے  ۔ شام ہوئی تو گاؤں  شہر خموشاں  بنا ہوا تھا۔‘‘ (’’پریم چند کے  سو افسانے  ‘‘، صفحہ ۱۴۸:۱۴۹)

                افسانہ’’خون سفید‘‘میں  ایک قحط زدہ کسان جادورائے  اس کی بیوی دیوکی اور اس کے  بچے  سادھو کی مایوس کن زندگی کو موضوع بنایاگیاہے ۔اس افسانے  میں پریم چند نے  ہندوسماج میں  چھوت چھات کی رسم ورواج پربہت گہری چوٹ کی ہے ۔ گاؤں  کے  ایک قحط زدہ کسان کابچہ سادھو گھرسے  بھاگ کر ایک پادری موہن داس کے  یہاں  پناہ لیتاہے  اور جب جوان ہوکر اپنے  گائوں لوٹتاہے  تو اسے  اچھوت سمجھا جاتاہے ۔اس کی برادری یہ فیصلہ سناتی ہے  کہ وہ اپنے  ماں  باپ کے  ساتھ اپنے  گھر پررہ سکتاہے ،لیکن اچھوت بن کر۔لیکن سادھو یہ ذلت آمیز فیصلہ قبول نہیں  کرتاہے  اور مجبوراََ اپنے  ماں  باپ اورگائوں  چھوڑکر پھرعیسائی مشنری میں  داخل ہوجاتاہے ۔وہ اپنے  گائوں والوں  کے  اس فیصلے  کے  خلاف آوازبلند کرتاہے  اور فیصلے  کاجواب دیتے  ہوئے  کہتاہے :

’’اپنوں میں  غیربن کر رہوں ؟ذلت اٹھائوں ،مٹی کاگھڑا بھی میرے  چھونے  سے  ناپاک ہوجائے ،نہ! یہ میری ہمت سے  باہر ہے ۔میں  اتنا بے  حیا نہیں  ہوں ،۔۔۔۔۔۔ میں  اپنے  گھر میں  رہنے  آیا ہوں ۔ اگر یہ ممکن نہیں  ہے  تو میرے  لیے  اس کے  سوا اور کوئی چارہ نہیں  کہ جس قدرجلد ہوسکے  یہاں  سے  بھاگ جاؤں ۔ جن کے  خون سفید ہوگئے  ہیں  ان کے  درمیان رہنا فضول ہے ۔‘‘ (’’پریم چند کے  سوافسانے ‘‘، پریم گوپال متّل، صفحہ: ۱۶۰)

                پریم چند نے  ہندوستانی دیہی معاشرے  پر شدیداورگہری تنقید کی ہے ۔انھوں نے  اپنے  افسانوں  میں  متعدد جگہ اس خیال کااظہار کیاہے  کہ ہندوستان کے  دیہی معاشرے  میں  اوہام پرستی،تعصب،تنگ نظری اور بے  ہودہ رسم و رواج پائے  جاتے  ہیں ۔جن کا مذہب اورعقل سے  کوئی تعلق نہیں  ہے ۔انھوں نے  اپنے  افسانوں میں دیہات میں  بسنے  والے  کسانوں  کے  دکھ درد،ان کی مظلومی،سسکتے  ارمانوں ، زمینداروں کے  ظلم وتشدد ، سود خورمہاجنوں  اور زمین کا لگان وصول کرنے  والوں کی زیادتیوں  کو ایک ماہرنفسیات کی طرح ایسے  پیش کیاہے  کہ اس وقت کے  دیہات کا پورا ماحول ہماری آنکھوں  کے  سامنے  آجاتا ہے ۔اس سلسلے  میں  افسانہ ’’بیٹی کا دھن‘‘ انتہائی دلچسپ اور سبق آموز ہے ۔ اس افسانہ میں  یہ دکھایا گیا ہے  کہ ایک کسان سکھو چودھری زمیندار ٹھاکر جتن سنگھ کو لگان کی رقم وقت پر نہ دینے  کے  بعد سود کے  بوجھ تلے  دَب کر رہ جاتا ہے ۔اُس کی بیٹی گنگا جلی اُسے  اپنا سارا گہنا لگان کی رقم ادا کرنے  کے  لئے  دیتی ہے  ۔لیکن سکھو چودھری اپنی بیٹی کے  گہنے  گروی رکھنا مہاپاپ سمجھتا ہے ۔ جبکہ بالآخر بیٹی کے  بہت اصرار کرنے  پر وہ ایسا کرنے  پر خود ہی مجبور ہوجاتا ہے ۔ پریم چند نے  اس افسانے  کے  ذریعے  سے  پورے  دیہاتی ماحول کی بڑی خوبصورت عکاسی کی ہے ۔ ملاحظہ ہو یہ اقتباس:

’’قُرقی کا نوٹس پہنچا، تو چودھری کے  ہاتھ پاؤں  پھول گئے  ۔۔۔۔۔۔۔ وہ چپ چاپ اپنی کھاٹ پر بیٹھا ہوا ندی کی طرف تاکتا اوردل میں  سوچتا تھاکہ کیا میرے  جیتے  جی گھر مٹی میں  مل جائے  گا ۔ یہ میرے  بیلوں  کی خوب صورت گئوئیں  ۔ کیا ان کی گردن میں  دوسروں  کا جواپڑے  گا ۔ یہ سوچتے  سوچتے  اُس کی آنکھیں  بھر آئیں  اور بیلوں  سے  لپٹ کر رونے  لگتا ،مگر بیلوں  کی آنکھوں  سے  کیوں  آنسو جاری تھے  ۔وہ کیوں  ناند میں  منھ نہیں  ڈالتے  تھے  کیا جذبۂ درد میں  وہ بھی اپنے  آقا کے  برابر کے  شریک تھے ؟

                پھر وہ اپنے  جھونپڑے  کو مایوس نگاہوں  سے  دیکھتا ۔ کیا ہم کو اس گھر سے  نکلنا پڑے  گا، یہ بزرگوں  کی نشانی میرے  جیتے  جی مٹ جائے  گی۔‘‘ (’’پریم چند کے  سو افسانے ‘‘،  صفحہ: ۱۸۹)

                پریم چند نے  دیہات کی صاف اورسیدھی سادی عوامی زندگی کا مطالعہ بڑے  انہماک واستغراق کے  ساتھ کیا ہے ۔ہندوستان کے  دیہات اور ان کی پست حال زندگی کے  مسائل شروع ہی سے  پریم چندکے  پیش نظر رہے  ہیں ۔خصوصاََ کسانوں ،مزدوروں  ، بے  روزگاروں ،نچلے  اور پچھڑے  ہوئے  ہریجنوں کے  دکھ درد کو انھوں نے  بہت ہی قریب سے  دیکھااور محسوس کیاہے ۔ان کے  ذاتی مشاہدے  اور تجربے  میں  صدیوں  سے  دبے  کچلے  کسانوں  کی تکلیف واذیت کا احساس واضح طور پر موجود ہے ۔

                ’’پنچایت‘‘ پریم چند کا ایک ایسا افسانہ ہے  جس میں  انہوں  نے  بڑے  ہی فنکارانہ طور پر ایک گاؤں  کی بڑھیا کی کہانی کو پیش کیا ہے  ۔ بڑھیا جو کہ جمن کی خالہ ہوتی ہے  وہ اپنی ساری جائیداد جمن کے  نام اس لئے  کرتی ہے  کہ اس نے  روٹی و کپڑاوغیرہ دینے  کا وعدہ کیا ہے  ۔لیکن جمن کی بیوی اس بڑھیا سے  لڑتی جھگڑتی رہتی ہے  اس لئے  مجبور ہوکر بڑھیا آخر کار پنچایت بلاتی ہے ۔ جس کی منظر کشی پریم چند نے  اس طرح سے  کی ہے :

’’جب پنچایت پوری بیٹھ گئی تو بوڑھی بی نے  حاضرین کو مخاطب کر کے  کہا : ’’پنچو آج تین سال ہوئے  میں  نے  اپنی سب جائیدداپنے  بھانجے  جمن کے  نام لکھ دی تھی اسے  آپ لوگ جانتے  ہوں  گے  جمن نے  مجھے  تاعین حیات روٹی کپڑا دینے  کا وعدہ کیا تھا۔ سال چھ مہینے  تو میں  نے  ان کے  ساتھ کس طرح رو دھوکر کاٹے  ،اب مجھ سے  رات دن کا رونا نہیں  سہا جاتا۔ مجھے  پیٹ کی روٹیاں  تک نہیں  ملتیں ، بیکس بیوہ ہوں  ، تھانہ کچہری کر نہیں  سکتی ، سوائے  تم لوگوں  کے  اور کس سے  اپنا دُکھ درد روؤں  ، تم لوگ جوراہ نکال دو اس راہ پر چلوں  ۔ اگر میری برائی دیکھو میرے  منھ پر تھپڑ مارو، جمن کی برائی دیکھو تو سے  سمجھاؤ، کیوں  ایک بیکس کی آہ لیتا ہے ۔‘‘ (’’پریم چند کے  سو افسانے ‘‘  صفحہ۔ ۲۰۵)

                ’’سواسیرگیہوں ‘‘پریم چندکے  شاہکارافسانوں میں سے  ایک ہے ۔اس افسانے  میں  بھی ایک غریب،ان پڑھ،سیدھے  سادے  اور محنتی کسان شنکر کے  دکھ درد کی عکاسی کی گئی ہے ۔اور یہ دکھایا گیا ہے  کہ پروہت لوگ کس طرح کسانوں  سے  اناج نہ ملنے  پر اُن سے  سارا اناج بمعہ سود وصول کرتے  تھے  ۔ اس افسانے  میں  پریم چند نے  شنکر کسان کی بے  بسی اور ساتھ میں  ہی پروہت کی مکارانہ چال کو اس طرح سے  پیش کیا ہے  کہ پورا منظر ہماری آنکھوں  کے  سامنے  آجاتا ہے ۔ ملاحظہ ہو یہ اقتباس:

’’سات سال گزرگئے  ایک دن شنکر مزدوری کرکے  لوٹا تو راستہ میں  پروہت جی نے  ٹوک کر کہا ’’شنکر کل آکے  اپنے  بیج بینک کا حساب کرلے  تیرے  یہاں  ساڑھے  پانچ من گیہوں  کب سے  باقی پڑے  ہیں  اور تو دینے  کا نام نہیں  لیتا ۔ کیاہضم کرنے  کا ارادہ ہے ؟‘‘

                شنکر نے  تعجب سے  کہا ’’میں  نے  تم سے  کب گیہوں  لئے  تھے  کہ ساڑھے  پانچ من ہوگئے ؟ تم بھولتے  ہو ، میرے  یہاں  نہ کسی کا چھٹانک بھرا اناج ہے ، نہ ایک پیسہ اُدھار۔‘‘

پروہت ’’اسی نیت کا تو یہ پھل بھوگ رہے  ہو کہ کھانے  کو نہیں  جڑتا۔‘‘

                 یہ کہہ کر پروہت جی نے  اُس سواسیر گیہوں  کا ذکر کیا جو آج سے  سات سال قبل شنکر کو دئے  تھے ۔ شنکر سنکر ساکت رہ گیا ۔ایشور! میں  نے  کتنی بار انہیں  کھلیانی دی۔ انہوں  نے  میرا کون سا کام کیا جب پوتھی پترا دیکھنے ، ساعت شگون بچارنے  دوارپر آتے  تھے  تو کچھ نہ کچھ دچھنا لے  ہی جاتے  تھے ۔ اتنا سوارتھ سواسیر اناج کو لے  کر انڈے  کی طرح لے  کر یہ بھوت کھڑا کردیا، جو مجھے  نگل ہی جائے  گا۔ اتنے  دنوں  میں  ایک بار بھی کہہ دیتے  تو میں  گیہوں  دے  ہی دیتا، کیا اسی نیت سے  چپ بیٹھے  رہے  بولا’’ مہاراج نام لے  کر تو میں  نے  اتنا اناج نہیں  دیا مگر کئی بار کھلیانی میں  سیر دودوسیر دے  دیا ہے ۔ اب آپ آج ساڑھے  پانچ من مانگتے  ہو میں  کہاں  سے  دوں  گا ۔‘‘(’’پریم چند کے  سو افسانے ‘‘ ، صفحہ:۳۳۸)

                پریم چند کے  افسانوں  میں  دیہات کی عکاسی کے  حوالے  سے  ’’کفن‘‘ وہ افسانہ ہے  جو کہ فن کی لطافتوں  اور نزاکتوں  کے  لحاظ سے  بہت ہی اہم ہے ۔اس افسانے  میں  دیہاتی معاشرے  میں  پل رہی غیر انسانی حرکات وسکنات کو بڑی چابکدستی سے  پیش کیاگیاہے ۔افسانہ ’’کفن‘‘ میں  پریم چند نے  دو کرداروں گیسواور مادھو کے  ذریعے  سے  اپنی پوری کہانی کو پیش کیا ہے ۔ گیسو اور مادھو رشتے  میں  باپ بیٹا ہیں  ۔ دونوں  کام چور اور نہایت ہی آلسی اور نکمّے  قسم کے  آدمی ہیں  ۔ مادھو کی جوان بیوی بدھیا نہایت ہی محنتی اور جفاکش ہوتی ہے  ،جو کہ محنت مزدوری کر کے  ان دونوں  کا پیٹ بھرتی ہے ۔ لیکن جب وہ بیچاری دردِ زہ کی وجہ سے  جھونپڑی کے  اندر تڑپ تڑپ کر چیختی پکارتی ہے  تو ان دونوں  کے  کانوں  سے  اس کی آواز تو ٹکراتی ہے  لیکن یہ دونوں  انسانی ہمدردی سے  عاری ہوکر اُس کی طرف کوئی دھیان ہی نہیں  دیتے  اور وہ اسی طرح تڑپ تڑپ کر مر جاتی ہے ۔ پھر یہ دونوں  بدھیا کے  مر جانے  کے  بعد کفن کے  لئے  لوگوں  سے  چند روپے  جمع کرتے  ہیں  اور بازار کفن خریدنے  کے  لئے  جاتے  ہیں  ۔ لیکن کفن خریدنے  کے  بجائے  وہ دونوں  ان روپیوں  سے  شراب پیتے  ہیں  اور ساتھ میں  پوریاں  ، گوشت اور مچھلی بھی کھاتے  ہیں  اور آخر میں  وہی پر بدمست ہو کر گر پڑتے  ہیں ۔

        افسانہ ’’کفن‘‘ میں  پریم چند نے  گھیسو اور مادھو کے  ذریعے  سے  بہت اچھی طرح دیہاتی معاشرے  میں  پل رہی غیر انسانی حرکات و سکنات کو بڑے  فنکارانہ انداز میں  پیش کیا ہے ۔ گھیسو اور مادھو اُس ماحول کی نمائندگی کرتے  ہیں  جہاں  چھوت چھات ، خودغرضی ، لالچ ، لاعلمی ، نفس پرستی وغیرہ جیسے  عناصر پائے  جاتے  ہیں  ۔ افسانہ ’’کفن ‘‘ سے  ماخوز یہ اقتباس ملاحظہ ہے :

’’جھونپڑے  کے  دروازے  پر باپ اوربیٹا دونوں  ایک بجھے  ہوئے  الاوّکے  سامنے  خاموش بیٹھے  ہوئے  تھے ۔ اور اندر بیٹے  کی نوجوان بیوی بدھیا دردِ زہ سے  پچھاڑیں کھا رہی تھی اور رہ رہ کر اس کے  منھ سے  ایسی د ل خراش صدا نکلتی تھی کہ دونوں  کلیجہ تھام لیتے  تھے ۔ جاڑوں  کی رات تھی۔ فضا سناٹے  میں  غرق ، سارا گاؤں  تاریکی میں  جذب ہو گیا تھا۔

                گھیسو نے  کہا’’ معلوم ہوتا ہے  بچے  گی نہیں  ۔ سارا دن تڑپتے  ہوگیا جا دیکھ تو آ۔‘‘

                مادھو درد ناک لہجے  میں  بولا ’’ مرنا ہے  تو جلدی مر کیوں  نہیں  جاتی دیکھ کر کیا آؤں  ۔‘‘

                ’’تو بڑا بے  درد ہے  بے  سال بھر جس کے  ساتھ جندگانی کا سکھ بھوگا اسی کے  ساتھ اتنی بے  وپھائی۔‘‘

                ’’تومجھ سے  اس کا تڑپنا اور ہاتھ پاؤں  پٹکنا نہیں  دیکھا جاتا۔‘‘ (’’پریم چند کے  سو افسانے ‘‘،  صفحہ: ۸۲۷)

                مختصر اََپریم چند نے  اپنے  افسانوں  میں  دیہات کی عکاسی بڑے  خوبصورت اور متاثر کن اندازمیں  کی ہے ۔انھوں نے  دیہات میں  بسنے  والے  کسانوں ،مزدوروں ،بے  روزگاروں ،پروہتوں ، مہاجنوں ، ساہوکاروں  غرضیکہ ہر طبقے  اور پیشے  سے  تعلق رکھنے  والوں کے  علاوہ دیہات میں  ابھرنے  والے  ان سبھی مسائل ومشکلات کو سیدھی سادی ،عام فہم اور سلیس زبان میں  پیش کردیاہے ،جن سے  اکثر دیہاتی عوام متاثر ہوتے  رہتے  ہیں ۔ اگریہ کہاجائے  تو بے  جا نہ گاکہ ہندوستانی دیہاتوں کوافسانوی ادب کے  ذریعے  عوام کے  سامنے  پیش کرنے  میں  جو مہارت پریم چند کو حاصل تھی وہ کسی دوسرے  افسانہ نگار کو آج تک حاصل نہیں  ہوسکی ۔

٭٭٭٭٭

(Short Stories of Prem Chand And Rural Life:A brief review)

Postal Address :

Mohammad Hussain Wani

Thajiwara, Achabal

Dist/Teh: Anantnag Kashmir,

Pin Code: 192201

Mobile No: 7006389316

Email id: wanihussainurdu@gmail.com

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.