مشتاق احمد یوسفی ،ایک مطالعہ
محمد زبیر
ریسرچ اسکالر،شعبہ اردو ،
یونی ورسٹی آف حیدرآباد
مشتاق احمد یوسفی ایک صاحب طرز طنز و مزاح نگار تھے ۔ان کے آبا واجداد نے کئی صدیاں پہلے قبائلی علاقہ چھوڑ کر راجستھان میں قیام کیا اور یہیں ٓباد ہو گئے ۔ان کے والد کا نام عبدالکریم یوسف زئی تھا۔بی بی سی اردو ڈاٹ کام کے ایک کالم میں ظفر سید لکھتے ہیں کہ ایک بار کسی کام کی غرض سے جب وہ پشاور گئے اور وہاں انہوں نے یوسف زئی پٹھان نام سے اپنا تعارف کرایا تو مقامی لوگ ان کی شکل و صورت ، زبان اور لہجے کو مکمل طور پر مارواڑی روپ میں دیکھ کر ہنسنے لگے ۔اس واقعہ سے متاثر ہو کر انہوں نے اپنا نام یوسف زئی سے بدل کر یوسفی کر ڈالا۔
مشتاق احمد یوسفی 4ستمبر1923ء ( بعض جگہوں پر 4اگست 1923ء درج ہے ۔)کو راجستھان کے ضلع ٹونک کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ان کے والد عبدالکریم خان یوسفی وہاں کے پہلے گریجویٹ مسلمان تھے ۔وہ جے پور بلدیہ کے چئیرمین اور بعد میں قانون ساز اسمبلی جے پورکے اسپیکر رہ چکے تھے ۔اسی علمی گھرانہ کے زیرِ اثرمشتاق احمد یوسفی کی ابتدائی تعلیم ٹونک میں ہی ہوئی ۔زرگزشت میں ابتدائی تعلیم کے متعلق اپنے مخصوص مزاحیہ انداز میں وہ لکھتے ہیں ؛ اقتباس
’’تیسری جماعت تک ٹونک ( راجستھان ) میں خود پر تعلیمی تجربے کروائے ۔وہاں اسکول میں ظہر کی نماز با جماعت ہوتی تھی جسے بے وضوع ادا کرنے یا سجدے میں ہنسنے پر انگلیوں کے درمیان نیزہ کا قلم رکھ کر دبایا جاتا تھا جو اکثر اس سزا کی تاب نہ لا کر ٹوٹ جاتا تھا۔‘‘
( مشتاق احمد یوسفی،زرگشت، ص 26)
آگرہ یونیورسٹی سے بی ۔اے کرنے کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایل ایل بی اور ایم اے فلسفہ کی ڈگری حاصل کی ۔ 1946ء میں پی سی ایس (PRVONCIAL CIVIL SERVICES)کے امتحان میں کامیاب ہو کر ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر مقرر ہوئے ۔1947 ء میں ملک کا بٹوارہ ہوا جس کے بعد مشتاق احمد یوسفی کے خاندان کے افرادایک ایک کر کے پاکستان ہجرت کرنے لگے ۔بالآخر وہ خود بھی ہجرت کر کے پاکستان کے شہر کراچی میں جا بسے ۔ہجرت کی خاص وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ جب 1949ء میں ہندستانی حکام نے اردو کو سرکاری زبان نہ رکھنے کا فیصلہ کر لیا تو تو یوسفی نے کام نہ کرنے کی ٹھان لی اور اگلے ہی برس یعنی یکم جنوری 1950ء کو ہجرت کر کے پاکستان کے شہر کراچی میں جا کر رہائش پذیر ہوئے ۔ ظفر سیداس سلسلے میں لکھتے ہیں ۔ اقتباس
’’1946ء میں پی سی ایس کر کے مشتاق احمد یوسفی ڈپٹی کمشنر اور ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر مقرر ہو گئے ۔اسی سال ان کی شادی ادریس فاطمہ سے ہوئی جو خود بھی ایم اے فلسفہ کی طالبہ تھیں ۔
اگلے ہی برس ہندوستان دو حصوں میں تقسیم ہو گیا جس کے بعدان کے خاندان کے افراد ایک ایک کر کے پاکستان ہجرت کرنے لگے ۔ یکم جنوری 1950 ء کو مشتاق احمد یوسفی نے بوریا بستر باندھا اور کھوکھرا پار عبور کر کے کراچی آ بسے ۔
اس کی وجہ بتاتے ہو وہ کہتے ہیں کہ جون 1949ء میں انہوں نے (حکام نے ) طے کیا کہ اردو سرکاری زبان نہیں رہے گی اس کے بعد ہم نے بھی کہہ دیا کہ ہم کام نہیں کریں گیــ‘‘
(ظفر سید، اردو مزاح کا عہد ِ یوسفی ختم ہو گیا،بی بی سی اردوڈاٹ کام، 20جون2018)
مشتاق احمد یوسفی کی والدہ کی خوائش تھی کہ وہ ڈاکٹر بنیں اور سعودی عرب میں بدووئں کا مفت علاج کرین لیکن ایسا نہ ہو سکا ۔ 1950 ء میں کراچی میں جاکر انہوں نے بینک کاری نظام میں اپنی آئندہ زندگی کا آغاز کیا ۔مسلم کمرشل بینک میں ان کا تقرر بحیثیت ڈپٹی جنرل مینیجر ہوا۔1965ء میں وہ ترقی کر کے Allied Bank Ltd کے مینیجنگ ڈائریکٹر مقرر ہوئے اور تقریباً دس سال تک خدمات انجام دیتے رہے ۔ اس کے بعد 1974ء میں وہ یونائٹڈ بینک لمیٹڈ کے صدربنے ۔تقریباً تین برس تک صدارتی خدمات انجام دینے کے بعد 1977ء کو انہیں پاکستان بینکنگ کونسل کا چیئر مین بنایا گیا۔ بینکاری نظام میں نمایاں خدمات انجام دینے کے لیے انہیں قائد ِ اعظم میموریل میڈل سے نوازا گیا۔
اردو طنز و مزاح میں مشتاق احمد یوسفی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔ انہوں نے 1955 ء میں ’’صنفِ لاغر‘‘ نام سے ایک مضمون لکھ کر مزاح نگاری کا آغاز کیا ۔ ان کا یہ مضمون مشہور رسالہ ’’سویرا‘‘ میں شائع ہوا۔اس کے بعد یہ سلسلہ جاری رہا۔ 1961ء میں ا ن کی پہلی تصنیف ’’چراغ تلے ‘‘ شائع ہوئی جس کو خاص و عام میں کافی مقبولیت ملی۔ ان کی دوسری کتاب ’’خاکم بدہن‘‘ 1970ء میں ، تیسری کتاب ’’زرگزشت‘‘ 1976ء میں ، چوتھی کتاب ’’آبِ گم‘‘ 1989ء میں اور پانچویں کتاب ’’شامِ شعر یاراں ‘‘ کے نام سے 2014ء میں منظر عام آئی۔
خاکم بدہن اور زرگزشت پر مشتاق احمد یوسفی کو آدم جی ایوارڈ سے نوازہ گیا ۔علاوہ ازیں انھیں ہلالِ امتیاز، ستارہ امتیاز اورپاکستان اکیڈمی آف لیٹرز ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ مشتاق احمد یوسفی نے زرگزشت کو اپنی سوانح نو عمری قرار دیا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ نوعمری کے متعلق اس میں بہت کم معلومات دستیاب ہیں ۔ اس کتاب میں ان کے بینکنگ کیریر کے شروع سے لے کر کتاب کے مکمل ہونے تک کے حالات کا بیان ملتا ہے ۔
بینک کی ملازمت میں جہاں مالی آسودگی میسر آتی ہے وہاں اس میں کام بھی زیادہ ہوتا ہے ۔یہ ملازمت اختیار کرنے والوں کے لیے وقت کی پابند ی خاص طور پر ضروری ہوتی ہے ۔مشتاق احمد یوسفی اگر چہ لگن اور تن دہی سے کام کرتے تھے تاہم اپنے فرائض کی انجام دہی میں زیادہ مصروف رہنے کی وجہ سے سماجی فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی ہو جاتی تھی ۔بینک کی ملازمت کی ایک پریشانی یہ بھی ہے کہ اس میں چھٹیاں بہت کم ملتی ہیں ۔ موصوف کے والد کی وفات پر انہیں صرف تین دن کی چھٹیاں ہی ملی تھیں اور ان تین چھٹیوں کی تنخواہ بھی ان کی ماہانہ تنخواہ سے منہا کر دی گئی تھی۔جو کہ بعد میں انہیں دے دی گئی ۔ اپنے مخصوص مزاحیہ انداز میں اس کا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں ؛ اقتباس
’’ہمیں یاد ہے جون کا مہینہ فری امپورٹ کا زمانہ تھا۔ کام بے اندازہ آدمی کم ۔ ہم چار آدمیوں کے برابر کام اور آٹھ آدمیوں کے برابر غلطیاں بڑی تن دہی سے کررہے تھے ۔ایک منحوس صبح خبر آئی کہ کہ ٹنڈو آدم میں اخبار پڑھتے پڑھتے ابا جان پر دل کا دورہ پڑا ، اور زمیں نے اپنی امانت واپس لے لی۔حیدرآباد میں ان کی تدفین کے سلسلہ میں تین دن کی رخصت اتفاقیہ لینے کی پاداش میں یعسوب الحسن غوری نے ہماری تنخواہ کاٹ لی ۔ جو کچھ عرصہ بعد انڈرسن نے اس وارننگ پرواپس دلوا دی کہ ’’ آئندہ اس واقعہ کو نہیں دہرایا جائے گا‘‘
(مشتاق احمد یوسفی ، زرگزشت ، ص 41)
کسی پیشے میں جب کوئی نو وارد ہوتا ہے تو اسے کئی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔وہاں کہ ماحول میں ڈھلنے اور اپنی ذہانت اور قابلیت کا ثبوت دینے تک ہر طرح کے طعن و تشنیع سے دوچار ہونا پڑ تا ہے ۔ موصوف کو بھی بینک کی ملازمت اختیار کرنے پر ان پریشانیوں کا شکار ہونا پڑاجن کا ذکر انہوں نے اپنی کتاب میں کیا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں ؛ اقتباس
’’ہم ریوڑمیں نئے نئے داخل ہوئے تھے ۔ ہر ایک سینگ مارتا تھا ۔ ’’کی جس سے بات اس نے ہدایت ضرور کی‘‘ یوں تو سارے جہان کی کھڑکیاں ہمارے ہی آنگن میں کھلتی تھیں لیکن یعسوب الحسن غوری کا انگوٹھا ہمارے ٹینٹوے پر ہی رہتا تھا ۔ روز روز کے طعن و تشنیع سے ہمارا کلیجہ چھلنی ہو گیا تھا۔بلکہ چھلنی میں چھید بھی ہو گئے تھے جن میں سے اب موٹے موٹے طعنے پھسل کر نکلنے لگے تھے ۔منجملہ دیگر الزامات کے ہم پر ایک الزام یہ بھی تھا کہ ہمارے دستخط گستاخانہ حد تک لمبے تھے ۔‘‘
(مشتاق احمد یوسفی، زرگزشت ص۔)
مشتاق احمد یوسفی نے زرگزشت میں جہاں اپنی زندگی کے چند برسوں کے احوال قلمبند کیے ہیں وہیں اس میں اس دور کے حالات و واقعات ، لوگون کا رہن سہن، سماج میں ترقی کے مراحل کے ساتھ ساتھ اس وقت کے رسم و رواج کا بھی ذکر ملتا ہے ۔ انہوں نے سماج میں پائے جانے والے توہمات اور کھوکھلے رسومات پر طنز و مزاح کے ذریعے کاری ضرب لگائی ہے ۔
موصوف کو ادب سے بہت لگائو تھا جس کا اندازہ ان کی تصنیفات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے ۔انہوں نے جس طرح مشہور شعراء، ادباء ، محققین اور ناقدین کے مصرعوں یا جملو ں میں تحریف کر کہ پر مزاح جملے رقم کیے ہیں اس سے ان کے وسیع مطالعہ اور ادب کے تئیں رغبت کا ثبوت ملتا ہے ۔ادب میں سرقہ کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ ہر دور میں ایسے شاعر پیدا ہوتے رہے ہیں جو دوسروں کے مصرعوں ، شعروں کو اپنا بتا کر داد بٹورنے میں ید طولیٰ رکھتے ہیں لیکن یہ بات بھی سچ ہے کہ چوری کا گڑ اسی وقت تک میٹھا لگتا ہے جب تک اس کی کسی کو خبر نہ۔مشتاق احمد یوسفی نے ایسی کئی چوریوں کا ذکر اپنی تصانیف میں کیا ہے ۔ادب میں کی جانے والی بد دیانتی پر وہ سامنے سے وار نہیں کرتے بلکہ وہ اس کا ذکر اپنے مخصوص طنزیہ اور مزاحیہ انداز میں کرتے ہیں ۔ایک شخص جو قالب تخلص کرتا تھا اور اکثر غالب کے اشعار کو اپنا بتا کر سنایا کرتا تھا۔اس کے متعلق یوسفی رقمطراز ہیں ؛ اقتباس
قالب تخلص کرنے کی بادی النظر میں تو یہی وجہ معلوم ہوتی تھی کہ غالب کے مقطعوں میں بغیر رندا مارے یا پچر ٹھونکے ٖفٹ ہو جاتا تھا ۔بینک میں شعر و ادب کا معیار معلوم۔غالبؔ کے شعر اپنے بتا کر سخن نا شناسوں سے داد لیتے رہتے ۔مجیب صاحب بھی اکثر یہی کرتے تھے ۔ایک دن قالب صاحب نے اپنا شعر سنایا جو ایک ہفتہ پہلے مجیب صاحب اور ایک صدی پہلے غالب اپنا کہہ کر سنا چکے تھے ۔ہم نے تخلیہ میں توجہ دلائی تو قالب صاحب نے کمال کشادہ پیشانی سے اعتراف کر لیا کہ سرقہ میں توارد ہو گیا ہے ۔‘‘
(مشتاق احمد یوسفی، زرگزشت، ص 47 )
مشتاق احمد یوسفی کی مزاح نگاری کی ایک خاص خوبی یہ ہے کہ اس میں فقرہ بازی، پھکڑ پن اور بازاری لطیفے نہیں ہیں بلکہ ان کے مزاح میں شائستہ مذاق ، شوخی اور شگفتگی پائی جاتی ہے ۔وہ اپنی تحریروں میں ایسے شستہ الفاظ استعمال کرتے ہیں جو واقعات وماحول اور صورتِ حال کو واضح کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔نیز بیان میں جامعیت بھی پائی جاتی ہے ۔ انہوں نے چست جملوں ،محاوروں ،کہاوتوں ،ضرب الامثال اور اشعار ومصرعوں کے مناسب اور بر محل استعمال سے اپنی تحریروں میں ادبی حسن پیدا کیا ہے ۔
مشتاق احمد یوسفی تحریف نگاری میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ۔حالاں کہ ان کے پیش رووئں میں بھی مزاح نگاری کا عمدہ مذاق تھا مگر شاید اس فن کی معراج یوسفی صاحب کی منتظر تھی۔لہذا اس طرزِ خاص کو یوسفی سے ہی منسوب کرنا زیادہ بہتر ہوگا ۔انہوں نے اپنی تصنیفات میں تحریفات سے بڑے خوبصورت اور نشاط انگیز فقرے تراشے ہیں ۔چند مثالیں پیش ہیں ؛
اور نہ ہمارا حافظہ اتنا چوپٹ ہوا ہے کہ جوش صاحب کی طرح ساری داستان امیر غمزہ سنانے اور اپنے دامن کو آگے سے خود ہی پھاڑنے کے بعد جب جراح کی نوبت آئے تو یہ کہہ کر اپنے اپنے دعوی ِ عصیاں سے دستبردار ہو جائیں کہ نسیان مجھے لوٹ رہا ہے یارو۔
(مشتاق احمد یوسفی، زرگزشت ،ص 107)
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ گھر جائیں گے
گھر میں بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
(چراغ تلے ، مشتاق احمد یوسفی، ص 43۔)
مشتاق احمد یوسفی نے بہت زیادہ نہیں لکھا لیکن جو لکھا وہ بہت خوب ۔ان کی چست اور نپی تلی پر مزاح تحریریں پڑھ کہ یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وہ کتنا باریک بینی اور حاضر دماغی سے کام لیتے ہوں گے اور لکھنے کے بعد کتنی بار کانٹ چھانٹ کر کے اس کی نوک پلک سنوارتے ہوں گے ۔انہوں نے بسیار نویسی سے گریز کیا اورمعیار کا خاص خیال رکھا۔ان کے معیار کے متعلق مشہور طنز و مزاح نگار جناب مجتبیٰ حسین اپنے ایک مضمون میں افتخار عارف کے حوالے سے یوں رقمطراز ہیں ۔ اقتباس
افتخار عارف نے کہا یوسفی صاحب اپنے معیار کے معاملے میں اتنے سخت واقع ہوئے ہیں کہ ایک بار انہوں نے اپنا ایک مضموں ایک رسالہ کو بغرض اشاعت روانہ کیا ۔رسالہ چھپ کر آ گیا تو یوسفی صاحب کو احساس ہوا کہ مضمون ان کے معیار پر پورا نہیں اتررہا ہے ۔ لہذا بازار گئے رسالہ کی ساری کاپیاں خریدیں اور انہیں خود اپنے ہاتھوں نذر آتش کر دیا۔‘‘
(مجتبیٰ حسین،مشتاق احمد یوسفی،بزمِ سمت سہ ماہی، شمارہ 39،)
مشتاق احمد یوسفی ایک ایسے مزاح نگار ہیں جن کی تحریریں قاری سے غور و خوض کا مطالبہ کرتی ہیں ۔ان کی عبارت سے پورا لطف اٹھانے کے لیے ہمیں انہیں کئی بار پڑھنے کی ضرورت پڑتی ہے ۔وہ اپنی زبان دانی کا استعمال کر کے لفظوں کے ہیر پھیرسے ایسی مزاح پیدا کرتے ہیں جس کی گرفت کے لیے قاری کوخاصا ہشیار رہنا پڑتا ہے ۔ان کے مزاح سے بھرپور حظ وہی اٹھا سکتا ہے جس کی ادب پر اچھی گرفت ہے ۔شمس الرحمٰن فاروقی ان کو اس دور کا سب سے بڑا مزاح نگار مانتے ہوئے لکھتے ہیں ۔اقتباس
’’مشتاق احمد یوسفی ہمارے دور کے سب سے بڑے طنز و مزاح نگار ہیں ۔ ان کے مزاح میں شعر وادب کا علم کچھ اس طرح پیوست ہے ، اردو زبان کی وسعتوں پر انھیں ااس قدر قابو ہے کہ اس کے باعث ا نھیں پڑھنے اور ان کے فن کا پورا لطف حاصل کرنے کے لیے ہمارابالغ نظر اور وسیع مطالعہ کا حامل ہونا ضروری ہے ۔پرانی باتوں ، خاص کر زمانہ ٔ گزشتہ کے اشعار اور عبارات کو پر لطف تحریف کے ساتھ پیش کرنا یوسفی کا خاص انداز ہے ۔ قاری کی نظراگر ان پرانے حوالوں پر ہو تو وہ یوسفی کی مزاحیہ تحریف کو سمجھ سکتا ہے اور پھر وہ ان کی پہنچ اور ندرت خیال کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا ۔‘‘
(شمس الرحمن فاروقی ، حرفِ چند، مشمولہ اردو طنز و مزاح کا یوسف لاثانی، از ڈاکٹر بی بی رضا خاتون۔)
الغرض مشتاق احمد یوسفی اپنے دور کے سب سے بڑے طنز و مزاح نگار تھے ۔ان کے رشحات ِ خامہ طنز و مزاح کے ساتھ ساتھ اپنے اندر گہرائی ، گیرائی ، اصلاح اور فلسفہ جذب کیے ہوئے ہیں ۔اپنی فطری اپج ، ذہانت، لیاقت ،وسعت مطالعہ اور لسانی بازی گری کے ذریعے انہوں نے طنز و مزاح نگاری کو جس بامِ معراج پر پہنچایا ہے اس کے لیے اردو ادب ہمیشہ گراں بار رہے گا ۔ان کے طنز سے بھرپور نشتر وں کے ذریعے سماج میں پائی جانے والی برائیوں کی جو جراحی ہوتی ہے اس سے یقیناً معاشرے کے دکھوں کا علاج ہوتا رہے گا۔’’ کیا ستم کہ ہم لوگ مر جائیں گے ‘‘اپنے لطیف فقروں ،جملوں اور عبارتوں سے محفلوں کو زعفران زار بنانے والا طنز و مزاح کا یہ بے تاج بادشاہ زندگی کی 94بہاریں دیکھ کر 20جون2018ء کو راہیِ ملک عدم ہو گیا۔ کراچی پاکستان میں ان کی آخری آرام گاہ بنی۔
Address:
Mohammad Zabair
NRS Room No D-106, North Campus
University of Hyderabad, 500046.
Contact: 9469864219,6005137633
٭٭٭
Leave a Reply
Be the First to Comment!