مشرقی پنجاب کے عصری صحافت میں اخبار و رسائل کا رول
منظور احمد ملہ
ریسرچ اسکالر (اردو)
پنجابی یونیوررسٹی پٹیالہ( پنجاب)
فون نمبر 7889532300
ای میل:smanzoor0750@gmail.com
تاریخ عالم کے مختلف ادوار کا جائزہ لینے کے بعد یہ امر پایۂ ثبوت کو پہنچ چکا ہے کہ صحافت اور اہل صحافت کا درجہ بلند ہے ۔صحیح معنی میں ایک ذمہ دار صحافی اور اس کا صحیفہ اپنے زمانے کی جیتی جاگتی اور مستند تاریخ ہوتے ہیں ۔صحافی صرف ایک مورخ ہی نہیں بلکہ ایک ناقد کے طور پر بھی اس کا درجہ مسلم الثبوت ہے ۔ہر صحافی اپنے اخبار کے ذریعے اپنے گردو پیش کے حالات وو اقعات اور ماحول کو بنانے ،سنوارنے بدلنے اور بگاڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔اس معیارِ صحافت کو سامنے رکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ پنجاب کے اردو اخبارات نے اپنے ملک کی آزادی کو قریب تر لانے اور ممکن بنانے کے لیے بھاری قربانیاں دی ہیں ۔اور مادرِ ہندوستان کی غلامی اور محکومی کی زنجیروں کو کاٹنے کے لیے سینہ سپر ہو کر اپنے ہم وطنوں کی بے مثال اور ناقابل فراموش رہنمائی کی ہے ۔پنجاب کے اردو اخبارات و رسائل نے عوام کی ترجمانی کرتے ہوئے آزادی کی راہ میں بیش بہا قربانیاں دے کر پورے اہنماک سے جدوجہد میں مصروف رہ کر پیش قدمی کرتے رہئے ۔آخر کار ان کی قربانیاں رنگ لائیں اور ۱۵ اگست ۱۹۴۷ء کو اس ملک میں آزادیِ کامل کا آفتاب عالمتاب طلوع ہوا۔اور کاروانِ وطن اپنی منزل پر پہنچ گیا۔
مغلیہ دور کے خاتمہ کے بعد ہندوستان خودمختار صوبوں میں تقسیم ہوگیا تھا۔ان خود مختار صوبوں میں خبروں کی ترسیل قائم رہی۔میسور،حیدر آباد۔دکن اور اودھ کی طرح مشترکہ پنجاب میں اخباری تنظیموں سے جڑے وقائع نگار خبر رسائی کے کام میں لگے رہے ۔اگر ہم مشترکہ پنجاب میں جدید صحافت یعنی مطبوعہ اخبارات کی تاریخ پر روشنی ڈالیں تو اب تک کئی تحقیق کے مطابق ہفتہ وار’کوہِ نور‘ لاہور پنجاب پہلا مطبوعہ اخبارکے طور پر ابھر کر سامنے آتا ہے ۔ڈاکٹرطاہر مسعود نے بھی یہ کہا ہے یہ حقیقت بڑی حد تک ثابت ہو جاتی ہے کہ ’ کوہ ِ نور‘ اس خطے میں کسی بھی زبان کا پہلا مطبوعہ اخبار ہے ،اور ہفتہ وار ’کوہِ نور‘ لاہور اردو زبان میں چھپتا تھا۔اسی وجہ سے مشترکہ پنجاب کے چھاپ خانوں کی صنعت نے فروغ پایا اور پھر جیسے پنجاب میں اردو اخبارات کا سیلاب آیا۔تقسیم ِ ملک کے و قت آتے آتے مشترکہ پنجاب کے مختلف مراکز میں بہت ادبی رسائل اور اخبارات نکلتے رہے لیکن جب ملک تقسیم ہوگیا تو بہت سے اخبارات بند ہوگئے ۔لیکن تقسیم وطن کے بعد مشرقی پنجاب کی اردو صحافت کا ابتدائی دور تو امید افزا رہا،متعدد روزنامہ اخبارات میدان ِ عمل میں آگئے ،مگر جب اردو زبان کا ستارہ گردش میں آگیا صحافت بھی بتدریج زوال پذیر ہونے لگی۔اس انقلابی دور میں اردو صحافت زندگی اور موت کے درمیان معلق ہے ۔بلکہ یوں کہئے کہ عالم نزع میں ہے ۔مشرقی پنجاب کے صحافتی مرکز جالندھر میں اردو کے پون درجن اخبارات کامیابی سے چل رہے تھے ۔اب سمٹ سمیٹا کر ان کی تعداد صرف ایک رہ گئی ہے ۔شمالی ہندوستان یعنی مشرقی پنجاب کا سب سے بڑا صحافی مرکز جالندھر اردو کے ماہور اور ہفتہ وار رسائل اور اخبارات کے لحاظ سے ہمیشہ کمزور رہا ہے ۔جالندھر کے ساتھ ساتھ امرتسر،ہوشیار پور،لدھیانہ،پٹھانکوٹ،مالیرکوٹلہ اور پٹیالہ وغیرہ شہروں سے بھی اخبارات و رسائل نکلتے تھے لیکن دو تین سالوں کے بعد بند ہوجاتے تھے ۔پنجاب میں جالندھر ہی ایک ایسا مرکز ہے جہاں کے روزنامے پنجاب کی سیاست پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ورنہ دوسرے شہروں کے اخبارات محض مقامی نوعیت کے ہیں اسی لیے اپنے ضلح سے باہر کے حالات و واقعات میں ان کا زیادہ عمل دخل نہیں ہوتا۔
پنجاب تقسیم کے بعد تین حصّوں میں تقسیم ہوگیا۔مغربی پنجاب ،مشرقی پنجاب اور ہماچل پردیش میں تقسیم ہوگیا۔مغربی پنجاب پاکستان کے حصے میں چلا گیا،مشرقی پنجاب ہندوستان کے حصے میں آیا۔پھر دوبارہ ۱۹۶۱ء مشرقی پنجاب کو اورایک تقسیم ہوا اس تقسیم کا نتیجہ میں ہریانہ وجود میں آیا،اس طرح سے مشرقی پنجاب کا دائرہ سُکڑ گیا۔آزادی کے بعد مشرقی پنجاب کی ادبی و ثقافتی فضاکا رول آہستہ آہستہ بدلنے لگا۔مشرقی پنجاب میں اردو کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا،آزادی کے بعد مشرقی پنجاب کے اسکولوں اور کالجوں کے نصاب میں سے اردو ختم کردی گئی تھی،جس کی وجہ سے مشرقی پنجاب میں اردو کی نئی نسل کی آمد کا سلسلہ بھی ختم ہوگیا اور مشرقی پنجاب میں موجودہ باشندے یہاں پر اردو کی آخری نسل بن گئے ۔بہرحال آزادی کے بعدمشرقی پنجاب کے بیشتر اردو صحافیوں نے جالندھر اور لدھیانہ کو اپنا مسکن بنایا۔پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ دونوں شہر اردو صحافت کے مرکز کے طور پر ابھر کر سامنے آئے ۔قابل ذکر ہے کہ آزادی سے پہلے مشرقی پنجاب سے سینکڑوں کی تعداد میں اخبارات اور رسائل شائع ہورہے تھے ،بیشتر اردو اخبار و رسائل بند ہوگئے تھے ۔۱۹۸۴ء تک مشرقی پنجاب میں کثیر تعداد میں روز نامے ،سہ روز،ہفتہ وار،پندرہ روزہ اخبارات اور ماہانہ رسائل غرض کہ اردو کے ہر طرح کے رسائل و اخبار شائع ہوئے ،۱۹۸۴ء میں حالات کی وجہ سے بہت سے صحافیوں کو جامِ شہادت نصیب ہوا اور کچھ اپنی جان بچا کر پنجاب سے ہجرت کرگئے اس طرح سے مشرقی پنجاب میں اردو صحافت آخری سانس لے رہی تھی اور دم توڑ بیٹھی۔تقریباً بیس (۲۰) سال بعد جب پنجاب سے دہشت و خوف کے گھنے بادل ہٹ گئے تو اس وقت تک پنجاب کے سبھی اخبار اور رسائل دم توڑ بیٹھے تھے ۔صرف ایک اخبار ’’ہند سما چار‘‘ جالندھر اور ’’پروازِ ادب‘‘ رسالہ پٹیالہ دورِ حاضر تک جاری وساری کام کررہیں ہیں ۔آزادی کے بعد ریاستی شہر مالیرکوٹلہ پنجاب میں اردو زبان وادب کے حوالے سے ادبی ثقافتی اور صحافتی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا۔اس شہر کے لوگوں نے اردو کو سینے سے لگائے رکھا اور اپنے اسکولوں اور کالجوں کی سطح تک اور نصاب میں شامل کروایا۔لیکن اس شہر سے اردو صحافت کو فروغ نہیں ملا ،اسی وجہ سے اس شہر سے اردو کے روزانہ اخبار کی خواہش کو پورا نہیں کیا جاسکا البتہ یہاں سے اردو کے ہفتہ وار۔پندرہ روزہ اور ادبی و سماجی اور دینی رسائل اور جرائد مسلسل طور پر شائع ہوتے رہے ہیں ۔
دور حاضر میں صحافت کی اہمیت روز بہ روز بڑھ رہی ہے ۔اس کی ایک وجہ یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ آج ذرائع ابلاغ میں انقلاب آچکا ہے ۔معلومات کی فراہمی اور خبر رسائی کے نئے نئے طریقے ایجاد کئے جارہے ہیں ۔اسی وجہ سے صحافت کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا جارہا ہے معلومات کی ایک مقام سے دوسرے مقام تک ترسیل کا نام صحافت ہے ۔صحافت کے مختلف ذرائع ہمارے سامنے ہیں لیکن ان میں اخباری اور رسائل صحافت کی اپنی اہمیت ہے ۔اردو زبان کے رسائل و جرائد کے علاوہ اردو اخبارات بھی ایک مدت سے اردو ادب کی نشوونما اور فروغ میں نمایاں کردار ادا کر رہئے ہیں ۔اخبارات میں اردو ادب کے مختلف اصناف پر جو مواد شائع ہوتا ہے اور عوام تک اس کی رسائی ہوتی ہے اسی کو اردو صحافت کی اصطلاح کے طور پر قبول کیا جاتا ے ۔ایک زمانہ تھا کہ ذرائع و رسائل محدود ہونے اور کتابت و طباعت کی دقتوں کی وجہ سے اکثر اخبار سہ ماہی،ماہوار،ہفتہ وار شائع ہوتے تھے ،کیونکہ ایک اخبار نکالنے کے لئے ذاتی چھاپہ خانہ ضروری ہوتا تھا۔لیکن آج یہ مسائل اخبارورسائل کے سامنے نہیں ہیں ۔مشرقی پنجاب میں چند اردو اخبارات بھی کچھ عرصے تک جاری رہے اور بعد میں بند ہوگے اس کے برعکس دور حاضر میں مشرقی پنجاب میں اردو روزنامہ’’ہند سما چار‘‘ اردو ادب کے فروغ میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔مشرقی پنجاب سے ۱۹۴۷ء سے تا حال تک تقریباً ۲۰ روز نامے اخبارات منظر عام پر آئے جن میں لدھیانہ سے ۱۳،جالندھر سے ۶ اور ایک بٹالہ سے شائع ہوئے تھے ۔لیکن یہ سارے اخبارات رفتہ رفتہ اپنا دم توڑ بیٹھے صرف ایک روزنامہ ’’ہند سماچار‘‘ جالندھر نے اردو صحافت کی بے لوث خدمت کی لالہ جگت نارئن اس کے ایڈیٹر تھے ان کے زمانے میں ’ ہند سمار چار‘ہندوستان کے اردو کا سب سے زیادہ چھپنے والا اخبار تھا ۔اس کے علاوہ اخبار ملاپ،پرتاپ اور اجیت بھی اس دور میں نکلتے تھے ۔لیکن ان اخبارات نے زیادہ شہرت حاصل نہیں کی۔آج ان کے قلمی نسخے بھی نایاب ہوچکے ہیں ۔اس کے برعکس مشرقی پنجاب سے ہند سما چار آج بھی نکلتا ہے مشرقی صحافت کے حوالے سے اس اخبار کا سرسری جائزہ لیا جائے گا۔ہند سماچار روزانہ ۱۹۴۸ء میں جالندھر سے شائع ہو تھا جو پچھلے ۷۰ سالوں سے مسلسل شائع ہورہا ہے ۔بیسویں صدی کے ساتویں آٹھویں دہائی میں ہند سما چارشمالی ہند کے بڑے اخباروں میں شمار کیا جاتا تھا۔اس کے تعداد ِ اشاعت تقریباً ایک لاکھ کے قریب تھی۔مشرقی پنجاب کے علاوہ ہریانہ،ہماچل، جموں و کشمیر اور دہلی تک پہنچنے والے روزانہ ہند سماچار کی تعداد تقریباً ستائیس ۲۷ ہزار کے قریب ہے ۔اگر موجودہ دور کی بات کریں تو یہ اخبار جدید طرز کا خوبصورت ملٹی کلر اخبار ہے ۔جو اس وقت انٹرنیٹ پر بھی دستیاب ہے ۔دس صفحات کے اس اخبار کی قیمت صرف ۳ روپیہ ہے ،جمعرات کو خصوصی فلم ایڈیشن اور اتوار کو سنڈے ایڈیشن چار رائد صفحات پر شائع ہوتے ہیں ۔عام شماروں میں پہلے صفحے پر سوموار کو کوئی خاص ایڈیشن شائع ہوتا،منگلوار کو شکتی ایڈیشن،بدھ وار کو طنز و مزاح ایڈیشن،شکر وار کو صحت ایڈیشن اور سنیچر وار کو افسانہ ایڈیشن بھی شائع ہوتے ہیں ۔اس کے ساتھ اخبارات کے صفحات کو خبروں کی نوعیت کے لحاظ سے مختلف زمروں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔جیسے کہ قومی خبریں ،دیش بدیش خبریں عالمی نظارہ وغیرہ کے عنوانوں سے تقسیم کیا گیا ہے ۔ہند سماچار میں زیادہ تر مواد ترجمہ کرکے شائع کیا جاتا ہے ۔اردو الفاظ کے ساتھ ساتھ ہندی اور پنجابی کے الفاظ کثیر تعداد میں استعمال کیا ہوئے ہیں ۔
’ہند سما چار ‘اخبار کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ایک خبری اور دوسرا غیر خبری،غیر خبری میں ادبی مضامین،سماجی اور سائنسی و کتابوں کے تبصرے وغیرہ شائع ہوتے ہیں ۔دور حاضر میں یہ اخبار ادبی میٹریل بھی فراہم کرتا ہے کہ اس میں مسلسل باقاعدہ طور پر ادبی ایڈیشن،طنز و مزاح ایڈیشن،افسانہ ایڈیشن اور سنڈے ایڈیشن کے ساتھ ساتھ مختلف قسم کے انٹرویوز بھی شائع ہوتے رہئے ہیں ۔جہاں تک رہی ’ہند سما چار‘اخبار کے ادبی ایڈیشن کی بات تو اس میں جہاں قدیم و جدید ادباء شعراء مختلف ادبی تحریکات و رجحانات پر مختلف زاویوں سے سر کردہ تنقید نگاروں کے مضامین بھی شائع کئے جاتے ہیں ۔ہند سماچار کے اس ادبی ایڈیشن سے بخوبی اندازہ لگا جاسکتا ہے کہ یہ حصہ اردو تنقید نگاری ،شاعری،تبصرہ نگاری کو بڑھاوا دینے میں کسی حد تک معاون ثابت ہو رہا ہے ۔ہند سماچار کے ادبی ایڈیش کے ساتھ اس میں غزلیں ،نظمیں ،سفرنامے ،افسانچے اور ناول بھی مسلسل طور پر شائع ہوتے رہئے ہیں ۔اس کے علاوہ بھی آئے دن کی خبروں کے کالم کسی افسانوی نشست کی رو داد کسی مشاعرے کے انعقاد کا اعلان یا کسی شاعر یا ادیب کو سنمانت کئے جانے کی رپورٹ شائع ہوتی رہتی ہیں ۔مختصراً اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ آزادی کے بعد پنچاب میں اردو زبان و ادب شوق محسوس ہورہا ہے اس کا کریڈیٹ ہند سماچار کو ہی جاتا ہے ۔ اس لحاظ سے مستقبل میں بھی ہند سما چار کا ذکر کسی نہ کسی صورت میں ہوتا رہے گا۔روزانہ ہند سماچار جالندھر پنجاب سے چھپنے والا اردو کا واحد اخبار رہ گیا ہے جو آج بھی اردو کے لئے بنجر ہو رہی پنجاب کی سر زمیں کو شاداب کرنے کے لئے کوشاں ہیں ۔
مشرقی پنجاب میں ہند سماچار اخبار کے ساتھ یہاں کے ادبی رسائل و جرائد کا بھی ایک طائرانہ جائزہ لیا جائے گا۔مشرقی پنجاب کی سر زمین سے آزادی کے بعد بھی مختلف قسم کے رسائل و جرائد کی اشاعت کا سلسلہ جاری رہا لیکن آہستہ آہستہ پنجاب میں اردو پڑھنے کی تعداد کم ہوتی رہی اور رسائل پڑھنے والوں کا دائرہ بھی محدود ہونے لگا۔۱۹۷۲ء تک مشرقی پنجاب سے برابر اردو رسائل نکلتے تھے لیکن اس کے بعد مشرقی پنجاب میں اردو رسائل کی اشاعت تقریباً بند ہوگی۔آج دورِ حاضر میں مالیرکوٹلہ کو چھوڑ کر پنجاب کے دوسرے شہروں میں اردو بولنے اور پڑھنے والے تو ملتے ہی نہیں ۔اگر ملتے ہیں تو بزرگ لوگ ملتے ہیں جن کے ہونٹوں سے پنجاب میں اردو کے سنہری دور کی داستان بھی سننے کو ملتی ہے ۔اور پنجاب میں اردو کے مستقبل کو لے کر مایوسی بھی نظر آتی ہے ۔دور حاضر میں مشرقی پنجاب سے صرف دو ادبی رسالے ’’پروازِ ادب‘‘ پٹیالہ اور’’ پیج آب‘‘ مالیر کوٹلہ کے جانب سے شائع ہو رہئے ہیں ۔’پروازِ ادب ‘بھاشا وبھاگ پٹیالہ سے شائع ہوتا رہا ہے ۔جو پچھلے ۴۰ سالوں سے پنجاب کو ادبی فضا کو رونق بخشے رہئے ہیں ۔ماہنامہ’پروازِ ادب‘ مارچ ۱۹۷۹ء میں محکمہ السنہ پٹیالہ(پنجاب) کی جانب سے شائع کیا گیا ہے اس رسالے کے پہلے مدیر اعلیٰ رجنیش کمار اور پہلے مدیر ڈاکٹر کرم سنگھ کپورتھے ۔اور موجودہ نگران چیتن سنگھ اور مدیر اشرف محمود نندن ہیں ۔یہ ادبی رسالہ A4سائز کے ۸۸ صفحات پر مشتمل ہیں ۔شروعات میں اس کی تعداد ِ اشاعت ۲ ہزار تھی جو اب گھٹ کر ۶۰۰ سو ہوگئی ہے ۔ماہنامہ ’پرواز ادب‘ کے اجراء کا مقصد پنجاب کے اردو ادب کی ترویج و ترقی میں معاونت کرنا ہے ۔اس میں جہاں اردو کے مقتدر ادباء و شعراء کی تخلیقات کی اشاعت ہوتی ہے وہاں پنجاب کے جواں سال ادیبوں کے افسانے ،ڈرامے ،یکبابی ڈرامے ،تنقید و تحقیقی مضامین،طنزومزاح ،خاکے ،انشایئے اور نظمیں بھی اس میں مناسب جگہ پاتے ہیں تاکہ ان کی تخلیقی قوتیں کو جلا ملے ۔اس کے علاوہ اردو ادب کے کلاسکی فن پاروں کی اشاعت بھی اس کے پیش نظر ہے ۔اردو ہندی اور پنجابی ادب کے شہکاروں کے باہمی تبادلے کی حوصلہ افزائی جس سے نہ صرف ان زبانوں کے ادب کو وسعت ملے گی بلکہ قومی یکجہتی کے جذبات کو تقویت بھی ملے گی یہ اس کا مقاصد میں شامل ہیں ۔’’پروازِ ادب‘‘ نے عام شماروں کے ساتھ ساتھ مختلف موضوعات پر تقریباً ۳۵ خصوصی شمارے بھی شائع کئے ہیں ۔اس میں اردو ادب کے مختلف اصناف پر خصوصی شمارے ،پنجابی قلم کاروں پر خصوصی شمارے ،ہندوستان کے قومی لیڈروں کے شمارے ،سکھ دھرم کے متعلق شمارے اور بھاشا وبھاگ پنجاب پٹیالہ کی مجموعی خدمات پر خصوصی شمارے بھی شائع کئے ہیں ۔اس کے ساتھ اس رسالے میں کچھ ادبی انٹرویوز بھی شائع ہوتے رئیں ہیں ۔
’پروازِ ادب‘ نے جہاں اردو کی پرانی روایات کی پاسداری کی ہے وہیں اس نے نئے ادبی میلانات و رجحانات کا ہاتھ پکڑتے ہوئے ،جدیدیت،مابعد جدیدیت ،علامت اور ساختیات پر بھی مواد شائع کیا ہے ۔پروازِ ادب نے پنجاب کے اردو ادب کے ساتھ ساتھ یہاں کی تہذیب وثقافت ،یہاں کے رسم ورواج،یہاں کے باشندوں کے رہن سہن،پنجاب کی تاریخ اور سکھ دھرم کے عقائد و تعلیمات پر بھی روشنی ڈالی ہے ۔اس طرح جہاں اس رسالے نے اردو دنیا کو پنجاب کے اردو ادب سے روشناس کروایا ہے وہیں پنجاب کے دوسرے پہلوؤں سے بھی آگاہ کیا ہے ۔لیکن پروازِ ادب کے دن بہ دن کم ہورہے ،خریداروں کی تعداد قابل غور ہیں ۔ ضرورت ہے کہ اردو زبان و ادب کے چاہنے والے محض ۳۶ روپے سالانہ چندہ دے کر اپنی ادب نوازی اور اردو دوستی کا ثبوت دیں تاکہ پنجاب میں اردو کا یہ آخری چراغ اسی طرح روشن رہے ۔اس مختصر سی گفتگو میں پرواز ادب کے مختلف پہلوؤں پر سرسری نظر ڈالی گئی ہے اس ادبی جریدے کی ادبی خدمات کا تفصیلی جائزہ لینے کے لئے ایک مکمل اور بھر پور مقالہ درکار ہے ۔
’پروازِ ادب‘ کی اشاعت کے ساتھ ہمارے یہاں پچھلے سال یعنی اگست ۲۰۱۸ء میں ایک نیا رسالہ منظر ِ عام پر آیا ہے جس کا نام ’’پنج آب‘‘ ہے اس کے مدیر اعلیٰ ڈاکٹر رحمان اختر ہیں ۔آج اکیسویں صدی عیسوی میں مشرقی پنجاب سے صرف ایک اردو اخبار’ہند سمار چار‘ جالندھر اور ایک ادبی رسالہ’پروازِ ادب‘ پٹیالہ سے شائع ہورہے ہیں ۔یہ تو تعجب کی بات ہے کہ اتنے بڑے حصے میں صرف دو ادبی نمونے ملتے ہیں ۔لیکن اس کے برعکس سر زمینِ مالیر کوٹلہ سے یہ رسالہ ’پنج آب‘ جو کتابی سلسلہ کی صورت میں شائع ہوا ہے ۔اکیسویں صدی میں ایسا لگتا ہے کہ یہ مالیرکوٹلہ کے شائقین ِاردو اور ادبی حلقوں کے خوابوں کی تعبیر ہے اور مدیر سالک جمیل براڑ کی طویل عرصے سے ادبی رسالے شائع کرنے کی دیرینہ خواہش بھی تھی ۔اس عزیز کا یہ تمنا پچھلے سال آگست کتابی سلسلہ پنج آب کی صورت میں شائع ہوا ہے ۔کتابی سلسلہ’پنج آب‘ جس کو اردو کے نئی نسل کے نام معنون کیا گیا ہے ۔اکیسویں صدی کی بڑی کوشش ہے کہ اس میں نوجواں ادیب اور شعراء اپنے مضامین بھی شائع کرتے رہیں ۔اس شمارے میں اردو کے چند نمائندہ اور فعال نوجواں قلم کاروں کو شامل کیا گیا ہے امید ہے کہ آئندہ اس میں سبھی تنقیدی دبستان کے درخشندے ستارے ہوں گئے ،’پنج آب‘ کے مشاورتی اور ادارتی بورڈ کی طرف سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ مستقبل میں اس تحقیق و تنقید نمبر کی طرز پر ہی ،افسانچہ نمبر۔ادیب اطفال نمبر اور اداریہ نمبر بھی شائع کئے جائیں گئے ۔اور اس کے علاوہ مستقبل میں اس رسالے میں کئی کالم شروع کئے جائیں گئے جیسے انٹرویوز، تبصرے ،مذاکرے ،مباحثے ،وغیرہ اس میں شامل ہوں گئے ۔امید ہے کہ آنے والے زمانے میں ایک مفید اور کار آمد ثابت ہوگا۔
اس طرح سے آخر پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مشترکہ پنجاب میں بہت سے اخبارات و رسائل شائع ہوئے تھے لیکن حالات کی وجہ سے یہ سارے بند ہوگئے ۔اسی طرح مشرقی پنجاب میں بھی ۱۹۴۷ کے بعد بہت سے اخبارات اور رسائل کی اجراء ہوئی تھی لیکن وہ بھی رفتہ رفتہ بند ہوگئے ۔اس کے برعکس آج دور حاضر میں اخبار ’ہند سما چار‘ اور دو رسالے ’پروازِ ادب‘ اور پیج آب‘ اپنی آن بان کے ساتھ شائع ہورہے ہیں ۔یہ تینوں آب اپنی ادبی خدمات میں کوشاں ہیں ۔اگر مشرقی پنجاب میں عصری اردو صحافت کے تعلق سے بات کرئے تو یہ تینوں اردو صحافت کے آخری چراغ ہیں انہیں بجھانے کی کوشش نہ کرنا بلکہ ان چراغوں سے ہمیشہ محبت اور لگن سے پیش آنا ہمارا فرض ہے کیونک ہم ان سے ہمیشہ فیض یاب اور مستفید ہوتے ہیں ۔اگر یہ چراغ بجھ گئے تو مشرقی پنجاب میں اردو صحافت اور اردو ادب کا بھی اس کے ساتھ ہی علمی چراغ بجھ جائے گا۔ ہمیں ان کی ادبی ،سماجی،ثقافتی خدمات سے انکار نہیں کرنا چایئے اگر دور حاضر میں مشرقی پنجاب میں اردو صحافت کا رواج زندہ ہے تو وہ ان تینوں کی وجہ اور ان کی مرہوں منت سے ہیں ۔
Leave a Reply
Be the First to Comment!