لداخ میں اردو زبان(ماضی اور حال)
محمد شریف
(کرگل لداخ)
ریسرچ اسکالر، شعبہ اردو پنجاب یونیورسٹی، چنڈی گڈھ
لداخ کی مختصر تاریخ :
لداخ کی تاریخ دو ہزارسال پہلے سے شروع ہوتی ہے ۔لداخ پہلے ایک خود مختار ملک تھاجو چھوٹی چھوٹی ریاستیوں پر محیط تھامور خین کے مطابق دسویں صدی سے پہلے کچھ ریاستوں پر رگیالم کیسر کی اولاد کی حکومت تھی دسویں صدی میں نیماگون نے ان تمام ریاستوں پر حملے کر کے پورے لداخ کواپنے قبضے میں لے لیا۔ عبدالغنی شیخ نیماگون کی حکومت سے متعلق یوں لکھتے ہیں :
” ِسکیت نیماگون نے یکے بعد دیگرے سارا لداخ فتح کیا اور مغربی تبت سمیت وہ ایک بڑی قلمرو کا حکمران بنا۔اس نے اپنے تین بیٹوں میں اپنی سلطنت تقسیم کی۔سپلگی گون کو رُودوق سے کشمیر کی سر حد کا علاقہ دیا جس میں زنسکار اور سپیتی شامل تھے ۔ٹشی گون کو پورانگ اور الدے سوگ گون کو کُوگے دیا۔ “ (1)
اس کے بعد لداخ پرمغلوں کی حکومت ایک صدی تک رہی ۔مغلوں کا کوئی حاکم یا نما یندہ لداخ میں نہیں رہتا تھا لیکن لداخی راجا مغل حکومت کے اقتدار اعلٰی کو تسلیم کرتے تھے ۔ اس لیے جہانگیر سے بہادر شاہ ظفر تک لداخ میں چھ راجاؤں نے حکومت کی۔ عبدالغنی شیخ مغلیہ کے دورحکومت کے متعلق یوں تحریر کیاہیں :
”مغل حکومت کی مداخلت کی شروعات جہاں گیر(1605۔1627) کے دور حکومت میں ہوئی،شاہجہان (1627۔1658 ) کے زمانے میں مغلوں کا اثر و نفود بڑھا اور اور نگز یب کے عہد میں اس کی گرفت مضبوط ہوئی جب لداخ نے مغلوں کے اقتدار اعلیٰ کو من و عن قبول کیا۔محمد شاہ کے بعدمغلیہ حکومت کو زوال آیا اور اس کے ساتھ لداخ میں مغلوں کا اثر ختم ہوا۔ “(2)
ڈوگرہ حملے کے بعد لداخ کی خود مختاری کاخاتمہ ہو اور لداخ کو تین تحصلیوں میں تقسیم کر دیا گیالہیہ ، کرگل اور اسکردو۔تقسیم ہند و پاک کے بعد لداخ کے دوتحصیل کرگل اور لہیہ ہندوستان کے قبضہ میں آئیں اور اسکردو پا کستاں کے قبضہ میں چلا گیا۔ آزادی سے لے کر 1979 ء تک لداخ ایک ضلع رہا 1979 ء کے بعد لداخ دو ضلعوں میں تقسیم ہوگیا ایک کرگل دوسرے لہیہ۔ یہاں ایک بات کہنا بہت ضروری سمجھتا ہوں کہ لداخ ایک ضلع کا نام نہیں کیو نکہ ہر کوئی یہ سوجھتااورسمجھتاہے کہ لداخ لہیہ ہے یہ بات سراسرغلط ہے لہیہ ایک ضلع کانام ہے اورلداخ ریاست جموں و کشمیر کے ایک خطہ کا نام ہیں جس میں دو ضلعے آتے ہیں ایک لہیہ دوسرا کرگل۔
31 اکتوبر 2019 کو لداخ کو مرکزی حکومت نے 5اگست 2019 کے فیصلے کے مطابق جموں و کشمیر سے الگ کر کے بھارت کا ایک یونین ٹر یٹری بنا دیا گیا ہے ۔ یہ شمال میں قراقرم اور جنوب میں ہمالیہ کے پہاڑی سلسلوں کے درمیان ہے ۔ لداخ بھارت میں سب سے کم آبادی والے علاقوں میں سے ایک ہے ۔تاریخی لحاظ سے یہ علاقہ، بلتستان، زانسکر، لاہول سپتی نوبرا وادی اور اکسیی چین پر مشتمل تھا۔ موجودہ لداخ کی سرحدیں مشرق میں چین کے علاقے تبت، جنوب میں ہماچل پردیش، مغرب میں جموں اور شمال میں چین سے اور جنوب مغرب میں پاکستان سے ملتی ہیں ۔
جغرافیائی اور تہذیبی اعتبار سے لداخ بالکل الگ خطہ ہے رقبے کے لحاظ سے 59 ہزار مربعہ کلیومیٹر پر پھیلا ہوا ہے یہاں تین بڑی قوموں مون ، درد اور منگول کے نسل سے آبادی کا آغاز ہوا۔ جو قدیم زمانے میں مختلف خطوں سے ہجرت کر کے اس ملک میں وارد ہوئی تھیں جن کا تعلق مختلف تہذیبوں سے تھا اس لیے لداخ کی موجودہ تہذیب و تمدن، رسم و رواج کی اپنی الگ سی پہچان ہے ۔اس طرح لداخ میں مذہب کی ابتدا بون مت سے ہوئی لیکن ساتویں صدی عیسویں میں بون مت کا زوال شروع ہوا اور اس کی جگہ بدھ مت نے لے لی۔ چودھویں صدی عیسویں میں یہاں اسلام کا آغاز ہوا۔ جدیددور میں لداخ کے لہیہ ضلع میں بودھوں اور کرگل ضلع میں مسلمانوں کی اکثریت ہیں ۔مذہب کے بعدلداخ کے زبانیں جو ہماری تہذیب کا اہم حصہ ہوتی ہیں ۔ لداخی میں مجموعی طور پر بودک۔ بلتی۔ شینا ۔ اور پوریک زبان بولی جاتی ہیں ۔
لداخ میں اردو زبان کا آغاز
جموں وکشمیر ہندوستان کے واحد ریاست ہے جہاں اردوسرکاری زبان ہے ۔ریاست میں اردو کو سرکاری زبان کا درجہ 1889ء میں مہاراجہ پر تاب سنگھ کے دور حکومت میں ملا۔اور یہ زبان ریاست کے تین خطوں جموں ، کشمیر اور لداخ کے درمیان رابطے کی سب سے اہم زبان ہے اور ریاست کے علاوہ ملک کے دوسرے حصوں کے ساتھ تبادلہ خیال کے لیے یہی زبان استعمال ہوتی ہے ۔پروفیسر نذیر احمد ملک اس حوالے سے رقمطراز ہیں :
” لسانی اعتبار سے ریاست جموں و کشمیر کئی بو لیوں میں بٹی ہوئی ہے ۔۔۔۔ لیکن سرکاری اور تعلیمی زبان کی حیثیت سے اردو ریاست کے تینوں خطوں کے درمیان رابطے کی زبان کے طور پر کام کر رہی ہے ۔ اس طرح تینوں خطوں کے باشندوں نے اس کو ایک تہذیبی زبان کی حیثیت سے قبول کیا ہے اور اسی زبان کے ذریعے ہندوستان کے ساتھ تہذیبی رشتے قائم رکھے ہوئے ہیں ۔”(3)
لداخ ریاست جموں و کشمیر کا تیسرا خطہ ہے جو سال میں پانچ یا چھ ماہ ریاست اور ملک کے دوسرے حصوں سے منقطع رہتا ہے ۔ لیکن ریاست میں اردو کو سرکاری زبان بنانے سے دو سال پہلے لداخ کو مسلمانوں نے فارسی زبان سے روشناس کیا۔ کیوں کہ اسلامی مبلغین کا تعلق ایران اور عراق سے تھا۔اس لیے انہوں نے اپنی زبان فارسی کو تبلیغ دین اور درس و تدریس کے لیے استعمال کیا۔اس طرح لداخ کے لوگ فارسی زبان سے روشناس ہوئے ۔رقیہ بانو نے لداخ میں اردو زبان کے آغاز کے متعلق یوں تحریر کیا ہیں :
” لسانی اعتبار سے لداخی زبانوں کا اردو کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں ہے اور نہ ہی یہاں کے لوگ باہری دنیا سے منقطع ہونے کے باعث چھ سو سال قبل تک ہندآریائی ، ہند ایرانی اور عربی زبانوں سے زیادہ واقفیت رکھتے تھے ۔ لداخی زبانوں پر ان کے اثرات لداخی خود مختار راجاؤں کے آخری دور میں پڑے ۔ جب خط لداخ پر بیرونی ممالک کے یک دیگرے حملے ہونے شروع ہوئے نیز خطے میں اسلام کی آمد و اشاعت کا سلسلہ شروع ہوا اور یہاں کے بادشاہ مغل حکومت کے باجگذار بھی بن گئے ۔ لداخ میں فارسی اور عربی زبانوں کی آمد کا سلسلہ بھی اپنی مذکورہ واقعات کا نتیجہ ہے ۔لداخ کی زبانیں بھی پہلی بار عربی ،فارسی زبانوں کے اثر میں آنے لگیں ۔” (4)
1840ء میں لداخ میں ڈوگرہ حکومت قائم ہو تے ہی یہاں کی زبانوں پربھی اُردو کا اثر ہوا کیوں کہ مہاراجہ گلاب سنگھ کو لداخ میں حکومت کرنے لیے ملازمین کی ضرورت پڑی اس وقت لداخیواں کی اکثریت ناخواندہ تھی اس لیے مہاراجہ کو جموں اور شمالی ہند کے دیگر علاقوں سے ملازمین لانے پڑے جہاں پر تعلیم عام ہو چکی تھی اور ذریعہ تعلیم اُردو تھا۔ ان لوگوں کے زریعے لداخ میں اردو پہنچی۔ اس کے علاوہ تاجرواں اور سیاحوں کے ساتھ بھی لداخ کے لوگوں کو اسی زبان کا سہارا لینا پڑتا تھا اس لیے اردو کی اشاعت کے لیے ماحول زیادہ سازگار ہونے لگا۔ چناچہ ریاست میں اردو کو سرکاری زبان بنانے سے پہلے لداخیواں کو اردو کے ساتھ رابطہ قائم ہو چکا تھا۔عبدالغنی شیخ اس حوالے سے یوں تحریر کر تے ہیں :
” اردو کو سرکاری زبان بنانے سے پہلے لداخ میں اردو باہمی لین دین اور آپسی تبادلہ خیال کے لیے رابطے کی حثیت سے مقبول تھی ۔ تب لداخ ایک خود مختار خطہ تھا۔ لیہہ وسط ایشا کا ایک اہم تجارتی مرکز تھا بہت سارے پنجابی، کشمیری ، تبتی اور ترکی تاجر تجارت کے سلسلے میں لداخ آتے تھے ۔ اس لیے رابطے کی ایک زبان کی ضرورت تھی ۔ ترکی تاجروں سے لداخی ترکی زبان میں بات چیت کرتے تھے ۔ پنجابیوں اور کشمیروں کے ساتھ ٹوٹی پھوٹی سہی اردو میں ہی بات جیت کرتے تھے ۔” (5)
کرگل میں 1800 ء سے ہندستانی زبان (اردو) بولنے شروع کیا اس بات کا اندازہ یوں ہوتا ہے ۔ویلیم مورکرافٹ 1820 ء سے 1821ء تک لداخ میں تھا عبدالغنی شیخ نے ویلیم مورکرافٹ کے بیاں کو یوں نقل کیا ہیں :
” کرگل میں ہر گاوں میں ایک یا دو فارسی اور ہندوستانی جاننے والے تھے ۔” (6)
انیسویں صدی میں لداخ میں اردو کا اور زیادہ فروغ ہوا اس کی تائید اس واقعہ سے بھی ہو جاتی ہے 1874 ء میں مہارجہ رنبیر سنگھ نے لہیہ میں سنسکرت کی درس و تدریس کے لیے ایک پاٹھ شالہ کھلولااور اس میں پڑھنے کے لیے کشمیر سے ایک استاد بھیجا۔ لیکن لہیہ کے بچوں کو سنسکرت سیکھنے میں کوئی دلچسپی نہ تھی اس لیے زیادہ تر بچے اسکول سے بھا گ جاتے تھے ۔آخر کار وہ اسکول بند کر دیا گیا۔ مولوی حشمت اللہ لکھنوی نے پاٹھ شالہ کا ذکر اپنی کتاب میں یوں کیا ہیں :
” بغر ض تعلیم زبان سنسکرت قصبہ لہیہ میں ایک پاٹ شالہ قائم کیا اور طلباء کو وظیفہ دے کر حصول تعلیم کا شوق دلایا۔ غلام زادوں کو بھی حصول تعلیم کیے لیے اس پاٹ شال میں داخل کیا۔ ” (7)
1885 ء میں جرمنی مشنری موراوین مشن نے لہیہ میں ایک اسکول کھولا۔ انھوں نے اپنے اسکول میں انگریزی اور اردو کو نصاب میں رکھا ۔ 1889ء میں مہاراجہ پرتاپ سنگھ نے اردو کو عدالتی زبان بنایاتھا ۔ سرکاری سر پرستی ملتے ہی اردو کی ترقی کی راہیں مزید کھلنے لگیں ۔ ریاست کے تینوں خطوں کے دفتروں ، سرکاری ادراوں ، عدالتوں کے علاوہ محکمہ مال میں بھی اردو میں باضباطہ کام کاج ہونے لگا۔ مہاراجہ رنبیر سنگھ کے دور میں بیرونی ریاست کے شاعروں اور ادیبوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ جس سے ریاست کے تینوں خطوں میں اُردو زبان کو فروغ ہوا۔اس سے پہلے ریاست کے ادیبوں نے فارسی شعر و ادب کی طرف زیادہ توجہ دے رہے تھے اب اردو کی طرف مائل ہونے لگے بیرونی اور ریاست کے ادیبوں نے یہاں باضابطہ مشاعرے ادبی نشستیں منعقد ہوئی تھیں جس سے اردو زبان کو کافی فروغ ہوا۔
ریاست میں اردو زبان کی ترویج و اشاعت میں اخبارات کے رول کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔شخصی حکومت کے دور میں ریاست میں اخبارات کی اشاعت اور بیرون ریاست سے اخبارات کی آمد پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ لاہور ، الہ آباد اور دوسرے شہروں سے اردو اخبارات چوری چھپے ریاست میں منگائے جاتے تھے جنہوں نے ریاست میں تحریک آزادی کا بیچ بونے اور اسے بڑاھاوا دینے میں اہم رول ادا کیا۔لیکن لداخ سے کوئی اخبار نہ آزادی سے پہلے شائع ہوتا تھا اور نہ آزادی کے بعد آج تک لیکن ریاست کے دنوں خطوں کے طرح یہاں بھی لاہور، الہ آباد اور دوسرے شہروں سے اخبارات چوری چھپے آیا کرتے تھے ان اخبارات کو پڑھ کر لداخ کے لوگوں نے بھی آزادی میں حصہ لینا شروع کیا تھا۔عبدالستار لداخ کے واہد مجاہد ہے جنہیں آزادی میں حصہ لینے کے وجہ سے جیل ہوئی تھی۔اس کے بعد جب سر ینگر اور جموں سے باضابط اخبارات کی اشاعت کا سلسلہ شروع ہوا تو وہ اخبارات بھی لداخ پہنچنے لگے ۔ اس سلسلے میں عبدالغنی شیخ یوں رقمطراز ہیں :
” لداخ میں بھی لاہور سے صداقت، خلافت، زمیندار، انقلاب اور پرتاب جیسے اخبارات خفیہ طریقے سے منگائے جاتے تھے ۔۔۔۔۔ ان اخبارات کو پڑھ کر ایک لداخی منشی عبدالستار نے تحریک آزادی میں حصہ لیا اور جیل گئے ۔ وہ لداخ کے واحد مجاہد آزادی ہے ۔ مذکورہ کئی اخبارت میں کئی دفعہ لداخ میں شخصی حکومت کے مظالم کی روئداد بھی چھپتی تھی ۔ بعد میں سرینگر سے ہمدرداور صداقت نام کے اخبارات لداخ آنے لگے ۔” (8)
اگر چہ خطہ لداخ میں اردو زبان وادب پر آزادی سے قبل خاطر خواہ کام نہیں ہوئے لیکن آزادی کے بعد لداخ کے لوگ اردو زبان و ادب کی طرف متوجہ ہوئے ۔ بقول عبدالغنی شیخ :
“آزادی کے بعد لداخ میں اردو نے نمایاں ترقی کی۔ اردو میں کتابیں لکھی گئیں اور قارئین کی تعداد ہزاروں تک پہنچی ۔” (9)
لداخ میں اردو زبان کے فروغ میں سرکاری و غیر سرکاری اداروں کا رول
1 تعلیمی ادرے :
1885 ء میں جرمنی مشنری موراوین مشن نے لہیہ میں ایک اسکول کھول۔ اس وقت اردو سرکاری زبان نہیں بنائی گئی تھی لیکن انھوں نے اپنے اسکول میں انگریزی اور اردو کو نصاب میں رکھا جس سے لداخ میں اردو زبان کی فروغ کا آغاز ہوا۔
لداخ کے لہیہ میں پہلا پرائمری اسکول 1892ء میں کھولاگیا۔ اسکردو میں 1899ء میں جب کی کرگل میں 1900 ء میں پہلا پرائمری اسکول کھول گیا۔ 1908ء میں لہیہ کے پرائمری اسکول کو مڈل کا درجہ دیا گیا۔ڈوگرہ دور حکومت میں خطہ لداخ میں عبدالغنی شیخ کے مطابق 46 پرائمری اور 3 مڈال سکول تھے ۔ان اسکول میں اکثر استاد کشمیری مسلمان اور پنڈت ہوتے تھے جن کا تقرر کشمیر سے ہو تا تھا۔ یہ استاد نہ صرف اردو زبان پڑھنا لکھنا جانتے تھے بلکہ اردو شعر و ادب سے شغف بھی رکھتے تھے ۔ ان استادوں نے خطے میں اردو کی ترویج میں اہم رول ادا کیا۔
کچھ عرصہ کے بعد لداخ کے لوگوں کا بھی ان اسکول میں بحثیت مدرَس تقرر ہوئے ۔ جو سرینگر، علی گڑھ وغیرہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے آئے تھے ۔ اس وقت ریاست میں اردو زبان پڑھائی تو جا رہی تھی مگر اس کو باضابطہ طور پر ذریعے تعلیم نہیں بنایا گیا تھا لیکن اس وقت مہارجہ ہری سنگھ کے دور میں غلام السیدین جو محکمہ تعلیم میں ناظم اعلیٰ تھے ان کی سفارش پر اردو کوذریعہ تعلیم بنایا گیا۔عبدالغنی شیخ اس بارے میں یوں رقمطراز ہیں :
1940″ء میں والئی ریاست مہاراجہ پرتاب سنگھ کے جانشین مہاراجہ ہری سنگھ (1925-1947) کے دور حکومت میں سیدین کمیٹی کی سفارشات پر ریاست میں اردو کو ذریعہ تعلیم بنا گیا۔ تب خواجہ غلام السدین ریاست میں محکمہ تعلیم میں ناظم اعلیٰ تھے اس سے پہلے ریاست کے تمام سکولوں میں اردو پڑھائی جاتی تھی۔” (10)
ڈوگرہ دور حکومت میں لڑکیوں کی تعلیم کی طرف بھی توجہ دی گئی ۔ جمیلہ خانم کرگل کی پہلی خاتون تھی ۔ جنہوں نے کرگل میں 1917ء میں بطور استانی کام کیا۔اس طرح لہیہ کی پہلی استانی ارلیس ڈولزین تھی۔لیکن ملک کے تقسیم کے بعد لداخ میں تاریخ سا زانقلاب آیا۔ اسکول کا جال بچھ گیا اور خواندگی کی شرح بہت بڑھ گئی۔ بقول عبدالحمید تنویرؔ :
“جب ملک کے دوسرے حصوں کے ساتھ لداخ سامراجی طاقت سے آزاد ہوا تو عوامی حکومت نے سب سے پہلے تعلیم پر توجہ دی اور اسکول کا جال بچھایا گیا۔ پرانے سکول اپ گریڈ ( Up Grade )ہوئے نئے پرائمرای سکول کھولے گئے اور اب تک یہ سلسلہ جاری ہے اور سال بہ سال نئے سکول کھولے جاتے ہیں اور پرانے سکول اپ گریڈ ہوتے جاتے ہیں ۔ ان سکولوں میں باقی مظامین کے ساتھ ساتھ اردو بھی لازمی طور پڑھائی جاتی ہے ۔” (11)
(Government of jammu and kashmir directorate of school education kashmir) کے اطلاعات کے مطابق لداخ کے ضلع کرگل میں ابھی تک 16 ہائر اسکنڈری ،50 ہائی اسکول ،262 مڈال اسکول ،232 پرائمری اسکول اور 4 (KGBV)اسکول ہیں ۔اس طرح لہیہ ضلع میں بھی17ہائر اسکنڈری ، 34ہائی اسکول ،122 مڈال اسکول اور145 پرائمری اسکول اور3 (KGBV) اسکول ہیں ۔ساتھ ہی کئی پرائیوٹ سکول بھی کھولے گئے ۔ اس کے علاوہ لداخ میں ابھی تک 6 کالج ہیں ۔ ان تمال ا سکولوں ، اور کالجوں میں اردو کو نصاب میں رکھا گیا اور ذریعہ تعلیم بھی عام طور پر اردو ہی میں ہوتی ہیں ۔ جس سے اردو زبان کو کافی فروغ مل رہاہے ۔
کلچرل اکادمی :
جموں اینڈ کشمیر اکیڈیمی آف آرٹ، کلچر اینڈ لینگویجز ریاست میں اردو زبان وادب کی ترقی کے لیے نمایاں رول ادا کر رہی ہے ۔ اکادمی نے اردو میں تین رسالے ” شیرازہ ، ہمارا ادب اور خبر نامہ ” بھی شائع کر رہی ہے ۔ ان رسالوں میں ریاست کے تینوں خطوں کے ادیبوں اور شاعروں کے تحقیقی مضامین کو دوسرے علاقوں تک پہنچاتے ہیں ۔ اس ضمن میں عبدالغنی شیخ یوں تحریر کرتے ہیں :
” ریاستی کلچرل اکادمی کی مطبوعات خاص کر ادارہ کے جریدے ہمارا ادب اور شیرازہ کے خصوصی شمارے تاریخی طور پر دستاویزی اہمیت ہیں ۔ ان میں ریاست کے تینوں خطوں کے مشاہیر، ثقافت، فنون لطیفہ، رہن سہن، رسم وراوج،پکوان، لباس ، تاریخ، جغرافیہ، اساطیر اور دیو مالائی کتھاؤں پر تحقیق مضامین دیئے گئے ہیں ۔ اس ضمن میں تینوں اکائیوں کے قلم کاروں کی خدمات حاصل کی گئی ہیں ۔”(12)
لہیہ اور کرگل میں کلچرل اکادمی کے دفتربھی میں قائم کیے گیے ۔ لیکن وہاں سے اردو زبان کی ترقی کے لئے کوئی خاص کام نہیں کر رہ ہیں ۔ البتہ مشاعروں اور دیگر ادبی و ثقافتی محفلیں وقتا فوقتا منعقد کرتے رہتے ہیں ۔ جن میں مقامی زبانوں کے ساتھ اردو اور انگریزی زبانیں بھی شامل ہوتی ہیں ۔
محکمہ اطلاعات
ریاست میں اردو زبان کے فروغ میں محکمہ اطلاعات بھی خصوصی کارنامہ انجام دے رہاہے لیکن لداخ میں قائم کردہ محکمہ اطلاعات کے دفتروں میں صرف مقامی و سرکاری خبریں بعض اوقات ڈاکومینڑی وغیرہ اردو زبان میں نشر کرنے کے لیے سر ینگر اور جموں کے اخبارات و رسائل کے لیے بھیجتے ہیں ۔
ریڈیو، ٹیلیویژن
کرگل اور لہیہ کے ٹیلویژن اور ریڈیوسٹیشن بھی لداخ میں اردو زبان کی فروغ میں اہم کردار ادا کر رہیں ہیں ۔ ان سٹیشنوں سے وقتافوقتا اردو میں پروگرام نشر ہوتے ہیں سامعین کی فرمائش پر اردو گیت اور غزلیں بھی نشر ہوتی رہتی ہیں ۔
تصنیفات و تالیفات
لداخ میں اردو میں پہلی تاریخ کتاب منشی عبدالستار نے 1930 ء میں لکھی۔ یہ ریاست جموں وکشمیر میں لکھی جانے والی اردو کی پہلی تصنیفات میں سے ایک ہے ۔1947ء کے بعد کرگل لداخ سے کا چو سکندر خان نے اردو میں تین کتابیں ” قدیم لداخ” ، ” بربوز انگپووات ٹھوق لہامہ” ، ” افکار پرلیشان” تصنیف کیں ہیں ۔ ان کے بعد اکبر لداخی نے اردو میں کئی کہانیاں اور مضامین لکھے ہیں ۔ جو ریاست کے مشہوار رسائل ہمارا ادب اور شیرازہ میں شائع ہوتے رہے ہیں ۔
عبدالحمیدی نے پہلی بار لداخی، اردو اور انگریزی لغت مرتب کی ہے اس کے علاوہ انہوں نے ایک ہزار لداخی کہاوتوں کو اردو میں ترجمے کئے ہیں ۔ ان کے بعد لداخ کے معروف قلمکار عبدالغنی شیخ نے تاریخ، سوانح، اور فکشن نگاری پر قلم اٹھا کر اردو دنیا کو خطہ لداخ سے روشناس کیا اور ابھی بھی لوح و قلم میں مصروفیت ہے ۔ان کے ساتھ بابو عبدالقیوم نے بھی لداخ کی تاریخ پر اردو میں دو کتابیں ” لداخ پر ایک طائرانہ نطر ” اور “لداخ کی داستان ” تصنیف کی ہے ۔
دور جدید میں لکھنے والے بہت ہیں جیسے عبدالرشید راہگیر ، کاچو اسفندر خان ، رواح اللہ روحانی، عبدالحمید تنویر کے علاوہ ذین العابدین عابدی وغیرہ نے اردو کے تمام اصناف پر طبع آزمائے کر رہیں ہیں ۔ان کے علاوہ خطے لداخ میں اور بھی اردو لکھنے والے ہیں ۔ جن کے مضامین افسانے ، غزل، نظم، حمد اور دیگر تخلیقات وقتا فوقتا ریاست اور خطے کے اخبارات میں شائع ہوتے رہتے ہیں ۔
کتب خانے
لداخ میں ایسی کوئی قابل فخر لائبرایری اور کتب خانے کی سہولیت موجود نہیں ہے ، جس میں آکر ہر کوئی مطالعہ کر سکے ۔ البتہ چند چھوٹے بڑے سرکاری کتب خانے اور لائبرایری کرگل میں قائم ہیں جہان اردو زبان کی کتابیں موجود ہیں ۔
کتب فروش اور اشاعتی ادرے
لداخ کے دونوں ضلعوں میں نہ باقاعدہ اردو کتابیں بھیجنے والے کتب فروشی ہیں اور نہ کوئی اشاعتی ادراہ جو اردو زبان کی ترویج و اشاعت کے حوالے سے نمایاں رول ادا ہوتا ہے ۔ البتہ کرگل لداخ میں چند کتب فروش ہیں جو اردو کتابیں ، اخبارات اور رسائل و جرائد فروخت کر کے اردو کو فروغ مل رہا ہے ۔
لداخ میں اردو کی موجودہ صورت حال
جموں کشمیر میں اردو کو سرکاری زبان کا در جہ ملنے کے ساتھ ہی سرکاری سرپرستی میں اردو کی ترقی و تر یج کی راہیں مزید کھل گئی۔ سرکاری اور غیر سرکاری ادارواں میں زیادہ تر کام کاج اردو میں ہونے لگا۔ قانوں ساز اسمبلی کی سالانہ رودادیں انگریزی کے علاوہ اردو میں بھی چھپنے لگیں ۔ اسمبلی کی زیادہ تر کا روائی بھی اردو میں ہونے لگی۔لیکن لداخ میں اردو کی موجودہ صورت حال مخدُوش ہے ۔کیوں کہ جدید دور میں یہاں اردو پڑھنے اور لکھنے والوں کی تعداد اتنی گر گئی ہے کہ شاید اس علاقے سے اردو زبان عنقا ہو جائے گئی۔ عبدالغنی شیخ خطہ لداخ میں اردو کی موجودہ صورت حال پر یوں خامہ فرسائی کرتے ہیں :
” اردو کا المیہ یہ ہے کہ ریاست کی سرکاری زبان ہوتے ہوئے بھی اس کی حثیت سرکاری زبان جیسی نہیں ہے ۔ کوئی پڑھے یا نہ پڑھے اس کی بلا سے ۔ اگر یہ رحجان بر قرار رہے تو وہ دن دور نہیں جب لداخ خطے میں اردو پڑھنے والے افراد کی تعداد گھٹ کر نصف یا اس سے بھی کم رہ جائے گئی” ۔ (13)
1975 ء کے لگ بھگ ایک سرکاری حکم کے نتیجے میں دسویں جماعت تک ریاست میں اردو زبان کی تعلیم حاصل کرنا ہر طالب علم کے لیے لازمی قرار دیا ۔لیکن اگر لداخ میں اردو زبان کے درس و تدریس کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ لداخ میں پرئمرای سے لے کر دسویں جماعت تک کے تمام اسکولوں میں طلباء اردو زبان کو دل و جان سے پڑھتے ہیں مگر پڑھانے والے خود اردو داں نہ ہوں تو معیار تدریس کیا ہو گا؟ یہ ایک عام سے بات ہو گئی ہے کہ اردو تو کوئی بھی پڑھا سکتا ہے اور اسی وجہ سے یہ نوبت آگئی ہے کہ لداخ کے اکثر سکولوں میں ایسے اردواساتذہ تقرر ہوئی ہیں ۔ جو اردو درس و تدریس کے آرٹ سے بالکل ناواقف ہیں ۔ موجودہ دور میں درس و تدریس کے جو نئے نئے ٹکنیک ایجاد ہوئے ہیں ان کی ہوا تک انہیں نہیں لگی ہیں ۔ لداخ کے دونوں ضلعوں میں کچھ ایسے اسکول بھی ہیں جہاں اردو کے استاد ہی نہیں ہے کرگل اور لہیہ سرکاری اور چند غیر سرکاری اسکولوں میں اردو کو دسویں تک نصاب میں رکھا تو گیا ہے لیکن اس کے درس و تدریس کے حوالے سے کوئی نیا قدم نہیں اُٹھا رہے ہیں ۔
تعلیم کا دوسرا مر حلہ ہائر سکنڈری اسکول ہے ۔ موجودہ دور میں یہاں بھی اردو پڑھنے والے بہت کم بچے د یکھنے کو ملتا ہیں لداخ کے ہائر سکنڈری اسکول کے شعبہ اردو میں پڑھانے والے ماہراساتذہ ہوتے ہیں ۔ لیکن بچوں کو اردو زبان کی اہمیت و افادیت کے بارے میں نصحیت نہیں کرتے ہیں اورکالج میں پہنچ کربچوں نے اردو کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ دیتے ہیں ۔
لداخ کے کالجوں کا بھی یہی حال ہے کچھ کالج یہاں پر ایسا بھی ہیں جہاں صرف آٹھ یا دس بچے اردو پڑھنے والے ہوتے ہیں 24 مئی 2016 ء کو ریاست جموں و کشمیرکے تمام کالجوں میں اردو مضمون کا انتخاب تمام طلباء کے لیے ضروری قرار دیا گیا، جو اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے ایک فائدہ مند قدم تھا مگر کالجوں کے لاپرواہی اور کچھ اردو کی لاعلمی استادوں کے بدولت یہ مثبت قدم منفی قدم میں تبدیل ہو گیا۔ لداخ کے پورے کالجوں میں اگر چہ ہزار میں سے آٹھ سو طلباء نے اردو کا انتخاب کیا ہے مگر صیح معلومات نہ ملنے کی وجہ سے چند طلباء نے ہی اصلی اردو کا انتخاب کیا ہے ۔ جو اردو کالجوں میں لازمی قرار دیا تھا وہ صرف پہلے دو سمسٹرروں کے لیے ضرور تھی ۔لیکن بچوں کو ناواقفیت کے وجہ سے اصلی اردو کا انتخاب چھوڈ دیاجس سے اردو زبان کے فروغ میں کافی روکاوٹ آئی۔
لداخ کے دونوں ضلعوں میں کشمیر یونیورسٹی کا دو سیٹلائٹ کیمپس ایک کرگل اور دوسرا لہیہ میں 21 اگست 2017ء میں قائم کیا ہیں ۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اردو سرکاری زبان ہوتے ہوے بھی دونوں کیمپس کے نصاب میں اردو نہیں رکھا ہیں ۔
1988ء میں ایک غیر سرکاری تنظیم (SECMOL) نام سے لہیہ میں بنی ہے ۔اس تنظیم نے انگریزی کو ابتداء سے ذریعہ تعلیم بنانے پر زور دیا ہے ۔ انہوں نے پرائیوٹ سکولوں کے ساتھ سرکاری سکولوں میں ابتداء سے ہی انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنایا گیا ہے ۔اس تنظیم نے اردو کو غیر ضروری قرار دے کرلہیہ کے اسکولوں کے نصاب سے ہی خراج کر دیا ہے ۔اس تنظیم نے اس تحریک کا نام Operatrion new hoper رکھا ہے اور اسے لداخ اٹونومس ہل ڈ یو لپمنیٹ کو نسل لہیہ کی تائیداور حمایت حاصل ہے ۔
عبدالغنی شیخ اس حوالے سے یوں رقم طراز ہیں :
” حال ہی میں ضلع لہیہ میں سرکاری سکولوں میں ابتدائی جماعت سے انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنایا گیاہے اورا س پر عمل ہو رہا ہے ۔ اس کا اردو کے پھیلاؤ پر منفی اثر پڑا ہے ۔ اس کی محرک ایک مقامی غیر سرکاری تنظیم SECMOL ہے ۔” (14)
اس تنظیم نے کرگل لداخ میں بھی اس تحریک کو چلانے کوشش کی لیکن کرگل لداخ کے لوگوں کی اردو سے دلی محبت نے اسے وہاں کامیاب نہیں ہونے دیا۔ ضلع لہیہ کے مقابلے میں کرگل ضلع میں اردو درس و تدریس کے مناسب انتظامات ہیں ۔ بقول عبدا لغنی شیخ:
” تنظیم نے Operation New Hope کی مہم کر گل میں بھی چلائی ۔ تاہم یہ کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوئی۔ اس کی وجہ کرگل کے لوگوں کی اردو سے جذباتی وابستگی ہے ۔ ” (15)
ریاست میں اردوکو سرکاری یا دفتری زبان کا درجہ ضرور حاصل ہے لیکن موجودہ دور میں لداخ کے تمام سرکاری یا غیر سرکاری اداروں میں اردو کے بجائے انگریزی میں دستاویز پیش طلب کیا جاتا ہیں ۔ لداخ کے سارے دفتروں میں اردو میں لکھی عر ضیاں قبول نہیں کی جاتی ہیں ۔
ان حقائق کے باوجود لداخ میں اردو آج بھی تینوں خطوں کے درمیان رابطے کی سب سے اہم اور مضبوط زبان ہے ۔ ریاست کے علاوہ بیرون ریاست کے ساتھ رابطے کے لیے یہی زبان ایک اہم سہارا ہے ۔ اردو کا اثر لداخ کی ادبی ، سیاسی اور ثقافتی زندگی پر بھی بہت زیادہ ہیں ۔ موجودہ دور میں بھی ریاست یا ملک سے جو بھی بڑی شخصیت آتی ہے تو عموما اردو میں اس کا خیر مقدم کیا جاتا ہے ۔ اردومیں ہی خطبہ استقبالیہ پڑھا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ کھیل کے میدان میں بھی کومینڑی اور دوسرے تقریریں بھی انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو زبان میں بھی ہوتی ہے ۔ مختلف اعلانات کرنے کے لیے اسی زبان کا سہارا لیا جا تا ہے ۔ سبھی اسکولوں اور کالجوں کے علاوہ سرکاری و غیر سرکاری اداروں میں بھی انگریزی کے ساتھ ساتھ بات چیت اور پڑھنے میں اردو زبان استعمال ہو رہی ہیں لیکن پڑنے لکھنے کا رواج کافی حد تک ختم ہوچکی ہیں ۔
اکیسویں صدی میں بھی لداخ سے کوئی اخبار یا جریدہ نہیں نکلتا ۔کشمیر سے ” کرگل نمبر” اور ” لداخ سپیشل “دو ہفتہ روزہ اخبارات نکل رہے ہیں ۔ ان اخبارات کی بدولت لداخ کے بہت سارے تخلیق کاروں کو اپنی تخلیقات پیش کرنے کا بہترین ذریعہ میسر ہوتا ہے ۔ اگر یہ اخبارات مسلسل لداخ ہی سے نکلتے تو خطے کے قلم کاروں کے لیے یہ زیادہ فائیدہ مند ثابت ہو گئی۔ کیونکہ بہت سارے قلم کار اب بھی گوشہ گم نامہ میں جی رہے ہیں اور بعض قلم کار ایسے بھی جو ابتدائی مراحل سے ہی تصنیف و تالیف کو ترک کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔ کیونکہ انہیں اپنی تخلیق صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے کے لیے کوئی میدان میسر نہیں ہوتا ۔ کیونکہ خطے سے باہر سرینگر ، جموں یا ملک کے کسی حصے کے کسی اخبار یا رسالے میں چھپوانا ہر کسی کے لیے آسان نہیں ہوتا۔
اس تحقیق سے یہ نتیجہ بر آمد ہوتا ہے کہ لداخ میں اردو کے تحفط اور فروغ کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات اٹھا نے کی اشد ضرورت ہے :
1۔ تمام اسکولوں میں اردو کے ماہر اساتذہ کا تقرر کرناجو موجودہ دورہ کی درس و تدریس کے آرٹ سے واقف ہوں ۔
2۔ ہائراسکنڈر اسکولوں میں بچوں کو اردو کی اہمیت و افادیت کے بارے میں Counseling دینا ۔
3۔ لداخ کے کلچرل اکادمی اور کالجوں میں اردو سمیناروں ، ورک شاپوں اور کانفرنسوں کا اہتمام کرنا۔
4۔ اردو کتابت اور خوش نویسی کی تربیت کے لیے ریاست کے ہر ضلع سے امیدواروں کو موقع فراہم کر نا۔
5۔ پرائیوٹ تعلیی اداروں میں اردو پڑھانا لازمی قرار دیا جاناچاہیے ۔
6۔ لداخ کی کشمیر یونیورسٹی کے دونوں سیٹلائٹ کیمپس میں اردو کو نصاب میں شامل کر نا لازمی ہونا چاہیے ۔
7 ۔ لداخ ہی سے اردو اخبارات چھپنے کی سہو لیات فراہم کرنا بھی نہایت ضروری ہے تاکہ قلم کار اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے ان اخباروں کے لیے اردو کے تحقیق مضامیں لکھتے رہیں ۔
8۔ لداخ کے تمام سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں انگریزی کے ساتھ اردو میں دستاویز پیش طلب کرنا اور اردو میں لکھی ہوئی عرضیاں قبول کرنا عام بنایا جائے جس سے اردو زبان و ادب کا تحفظ اور فروغ ممکن ہو سکے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حواشی :۔
1: عبدالغنی شیخ ، لداخ تہذیب و ثقافت ، ص ۔95،کر یسنٹ ہاوس پبلی کیشنز جموں 2006 ء
2: ایضا۔ ص ۔105
3 : کشمیرمیں اردو ایک لسانیاتی جائزہ مشمولہ تعمیر ، ص 133، (انتخاب نمبر) محکمہ اطلاعات سر ینگر۔ بحوالہ ۔ لداخ میں اردو زبان و ادب ، رقیہ بانو
، ص ۔129۔ شاھد پبلیکیشن نئی دہلی۔2014
4: رقیہ بانو،لداخ میں اردو زبان وادب ، ص۔129، شاہد پبلیکیشن دریا گنج ، نئی دہلی 2014ء
5: عبدالغنی شیخ ، لداخ تہذیب و ثقافت ، ص ۔327-328 ، کر یسنٹ ہاوس پبلی کیشنز جموں 2006 ء
6: عبدالغنی شیخ ، لداخ تہذیب و ثقافت ، ص ۔328 ، کر یسنٹ ہاوس پبلی کیشنز جموں 2006 ء
7: مولولی حشمت اللہ لکھنوی۔ تاریخ جموں و دیگر علاقہ جات۔ ص، 387
8: عبدالغنی شیخ ، لداخ تہذیب و ثقافت ، ص ۔330 ، کر یسنٹ ہاوس پبلی کیشنز جموں 2006 ء
9: عبدالغنی شیخ ، لداخ تہذیب و ثقافت ، ص ۔327-328 ، کر یسنٹ ہاوس پبلی کیشنز جموں 2006 ء
10: ایضا ، ص۔ 330
11: حسرت محمد حسن ،بلتستان تہذیب و ثقافت ، ص ۔130 ، بلتستان بک ڈپواینڈ پبلی کیشنز ، نیا بازار، اسکردو 2007ء
12: عبدالغنی شیخ ، لداخ تہذیب و ثقافت ، ص۔ 334، کر یسنٹ ہاوس پبلی کیشنز جموں 2006 ء
13: عبدا لغنی شیخ ،لداخ میں اردو1947-1997ء، شیرازہ ۔جموں وکشمیر میں اردو ادب کے پچاس سال
(جلد : 37 ، شمارہ : 6-8 ) ، ص ۔ 109 کلچر اکادمی سر ینگر
14: ایضا ص۔ 105
15: ایضا ص۔ 106
Mohd shareef
Research Scholar Deparment of Urdu,
Panjab University Chandigarh.
Phone Number : 9478187120
shareef.sharifi786@gmail.com
Leave a Reply
Be the First to Comment!