خواجہ حسن نظامی کا نثری اسلوب

بلال احمد ڈار

 ریسرچ اسکالر

 مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد

7006566968

                خواجہ حسن نظامی کا اصل نام سید علی حسن تھا۔آپ کی پیدائش بستی حضرت نظام الدین دہلی میں  1879ء میں  ہوئی۔آپ کی ابتدائی تعلیم کا آغاز بستی نظام الدین میں  ہوئی۔مولانا اسماعیل کاندھلوی اور مولانایحییٰ کاندھلوی جیسی عظیم ہستیاں  آپ کے  اُستاد رہے  ہیں ۔مولانا رشید گنگوہی کے  مدرسہ رشیدیہ گنگوہ سے  فراغت حاصل کی۔خواجہ حسن نظامی کی زندگی بہت تکلیفوں  میں  گزر ی لیکن اس کے  باوجود بھی اردو ادب کی تاریخ میں کئی حیثیتوں  سے  یاد رکھیں  جائیں  گے ۔روزنامچہ کو باقاعدہ صنف کی حیثیت انہوں  نے  ہی دی۔قلمی چہروں  کا سلسلہ بھی انہوں  نے  ہی شروع کیا۔صحافت کے  میدان میں  بھی ان کے  کارنامے  سنہری حروف میں  لکھنے  کے  قابل ہیں ۔خواجہ حسن نظامی نے  ہر موضوع پر قلم اُٹھایا۔شاید ہی کوئی ایسا موضوع ہو جس پر انہوں  نے  نہ لکھا ہو۔انہوں  نے  آپ بیتی بھی لکھی،سفرنامے  بھی لکھے  لیکن جس صنف کی وجہ سے  ان کو زیادہ شہرت ملی وہ اردو انشائیہ اور طنزومزاح نگاری ہیں ۔

                خواجہ حسن نظامی اپنے  دور کے  انشائیہ نگاروں  اور طنزومزاح نگاروں میں  خاص مقام رکھتے  ہیں  ۔ان کی نثرسادگی اور پُرکاری کا بہترین نمونہ ہے ۔ان کے  مضامین میں  ظرافت کا رنگ نمایاں  ہے  اور ان کے  ہاں  الفاظ سے  مزاح پیدا کرنے  کا رجحان غالب ہے ۔خواجہ حسن نظامی نے  جہاں  جہاں  ذہنی اُ پج سے  کام لیا ہے  وہاں  ان کی ظرافت میں  ایک خاص شان اور انفرادیت پیدا ہوگئی ہے ۔خواجہ حسن نظامی ایک ایسے  طنزومزاح نگار ہیں  جن کے  مضامین میں  زندگی کو ایک متصوفانہ روّیے  سے  دیکھنے  کی قابل داد کوشش ملتی ہے ۔وہ ایک صوفی بزرگ تھے  لہٰذا انہوں  نے  زندگی کے  ہر گوشے  میں  صوفیانہ نقطۃٔ نظر سے  سامانِ زیست ڈھونڈنے  کی کامیاب کوشش کی ہے ۔

                خواجہ حسن نظامی نے  ایک سو سے  زیادہ کتابیں  تصنیف کی ہیں ۔ان کی ذہنی دلچسپیوں  کا دائرہ وسیع اور پُرتنوع تھا۔اردو ادب کے  بہت کم ادیبوں  کا قلم اتنا زرخیز تھا جتنا کہ خواجہ حسن نظامی کا تھا۔ان کے  مجموعے  ’’مضامینِ حسن نظامی‘‘ اور ’سیپارۂ دل‘کے  مضامین اپنے  اختصار،غیررسمی انداز،پُرلطف اسلوب کی بنا پر طنزومزاح کی بہت اچھی مثالیں  قرار پاتے  ہیں ۔خواجہ حسن نظامی کا مشاہدہ کافی وسیع اور تیز تھا۔ان کے  پاس معلومات کا ذخیرہ موجودتھا۔وہ بات بات میں  وحدت کی طرف اشارہ کرنے  کی فکر میں  رہتے  تھے ۔جن چیزوں  کی طرف کسی کی آنکھیں  کوئی ربط پیدا نہیں  کرپاتی تھی خواجہ حسن نظامی کی دورس نگاہیں  ان چیزوں  میں  رستہ تلاش کرتی تھی۔خواجہ حسن نظامی کا مشاہدہ اور تجربہ کافی وسیع تھا اور ان کی صلاحیتوں  کا اعتراف سید حامد نے  ان الفاظ میں  کیا ہے :

’’خواجہ حسن نظامی کے  آثار کی مقبولیت ،دلبرائی اور توانائی کا ایک بڑا راز ان کا مشاہدہ اور ارضیت ہے ۔جس صوفیٔ صافی کا فلک سیر تخیل عرش کی خبر لاتاتھا وہ خود زمین پر پیر گاڑے  ہوئے  کھڑاتھا۔اس کی ایک آنکھ ارض پر تھی اور دوسری عرش پر۔چنانچہ مضمون کتنا ہی متصوفانہ یا بعد الطبیعاتی ہو وہ اس کا رشتہ ارض تشبیہات اور عام انسان کے  مشاہدات اور تجربات سے  جوڑتا تھا۔اس لیے  جوبات وہ کہتا تھا ،دلنشین ہوجاتی تھی۔‘‘(نگارخانۂ رقصاں  :سید حامد،تاج کمپنی دہلی،1984،ص: 340)

                خواجہ حسن نظامی اردو کے  صاحب طرز انشاپرداز ہیں ۔ان کے  اسلوب میں  بلاکی شگفتگی اور دلکشی ہے ۔دنیا کا کوئی بھی موضوع ہو وہ اس پر سادگی اور بے  تکلفی سے  لکھے  چلے  جاتے  ہیں ۔انہوں  نے  اپنے  مضامین اور انشائیوں میں  ہر طرح کے  موضوع کو جگہ دی ہے ۔انہیں  زبان پر اتنی قدرت حاصل ہے  کہ کم لفظوں  میں  وہ بہت کچھ بیان کرتے  ہیں  اور کبھی کبھی بات سے  بات پیدا کرکے  اپنے  موضوع کو طول دیتے  ہیں ۔مولوی عبد الحق ان کے  بارے  میں  یوں  لکھتے  ہیں :

’’ان مضامین میں  خواجہ صاحب کسی سے  باتیں  کرتے  ہوئے  معلوم ہوتے  ہیں ۔کہیں  وہ اپنے  سے  ہم کلام ہیں ،کہیں  رازونیاز ہے ،کہیں  دردِدل کی داستان ہے  اور اپنا اور ہمارا دُکھڑا رورہے  ہیں ۔کہیں  تخیل کا زور عرش تک لے  گیا،کہیں  نثر میں  وہ شاعری کی شان دکھائی کہ نظم مقفیٰ ہیچ ہے ۔‘‘(مقدمہ سی پارۂ دل ،ص9,10)۔

                اردو ادب کی تاریخ میں  خواجہ حسن نظامی بہت اہمیت رکھتے  ہیں ۔انہوں  نے  انشائیہ اور طنزومزاح کوبامِ فلک تک پہنچادیا۔انشائیہ کی جتنی بھی خصوصیات ہیں  وہ سب ان کے  یہاں  موجود ہیں ۔انشائیہ کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے  کہ اس میں  انکشاف ِذات کا پہلو نمایاں ہوتا ہے  اور جب خواجہ حسن نظامی کے  انشائیوں  کا مطالعہ کرتے  ہیں  تومعلوم ہوتا ہے  کہ ان کے  ہاں  ہلکے  پھلکے  انداز میں  انکشافِ ذات کا فن خوب آتا تھا۔وہ الفاظ کے  استعمال میں  کفایت شعاری سے  کام لیا کرتے  تھے ۔کم الفاظ میں  بہت کچھ کہنے  کا فن انہیں  خوب آتا تھا۔اپنے  مضامین میں  آسان اور سادہ زبان استعمال کرتے  تھے  اور کبھی مشکل ترکیبوں  کو ہاتھ نہیں  لگاتے  تھے ۔معمولی سے  معمولی باتوں  پر ان کی نگاہ رہتی تھی اور ان کے  مشاہدات میں  سمندر جیسی گہرائی تھی ۔ ان کے  طنزومزاح مضامین کی سب سے  بڑی خصوصیت ان کے  موضوعات کا نرالاپن ہے ۔ اپنے  مضامین اور اپنے  انشائیوں  میں  انسانیت کے  لیے  کوئی نہ کوئی درس ضرور دیتے  ہیں ۔ لالٹین، دیاسلائی، اُلو، مکھی، آنسو کی سرگزشت،الف خان، جھینگرکا جنازہ گلاب تمہارا کیکر ہمارا وغیرہ جیسے  بہت ہی عجیب و غریب اور بظاہر بہت ہی غیر اہم موضوعات کو انہوں  نے  اس طرح اپنے  انشائیوں  میں  جگہ دی ہے  کہ گویا خاک سونے  میں  تبدیل ہوگئی۔ان انشائیوں  کے  موضوعات کی گہرائی کا انداز اُس وقت ہوتا ہے  جب اُن کا مطالعہ کیا جاتا ہے ۔ قاری محسوس کرتا ہے  کہ خواجہ حسن نظامی نے  ان انشائیوں  میں  فکروخیال اور جذبہ و بیان کے  کیسے  کیسے  پہلو ڈھونڈ نکالے  ہیں  کہ بے  اختیار داد دینے  کو دل چاہتا ہے ۔ یہ انشائیے  اور مضامین اس بات کی طرف اشارہ کرتے  ہیں  کہ دنیا میں  کوئی بھی چیز بے  کار ، کمتر اور معمولی نہیں  ہے  بلکہ قدرت نے  ہر شیٔ میں  کوئی نہ کوئی بات پوشیدہ رکھی ہے ۔لایعنی اور معمولی معمولی باتوں  میں  مطلب کی بات نکالنا اور زندگی کے  گوہرِ تابدارڈھونڈنا خواجہ حسن نظامی کا محبوب مشغلہ رہا ہے ۔

                روزمرہ کے  بظاہر ان غیراہم اور بے  معنی چیزوں  کو خواجہ حسن نظامی نے  بہت ہی غور سے  اور قریب سے  مشاہدہ کیا اور اپنے  کمالِ فن سے  چونکا دینے  والے  نتائج اخذ کئے ۔انشائیہ نگار کے  بارے  میں  کہا گیا کہ وہ عام ڈگر سے  ہٹ کر ایک انوکھے  زاویے  سے  اشیاء کو دیکھتا ہے  اور منفی کو مثبت اور مثبت کو منفی بناکر غیر دلچسپ باتوں  میں  قاری کے  لیے  کشش کا سامان مہیا کرتا ہے ۔جب ہم خواجہ حسن نظامی کے  انشائیوں  کا مطالعہ کرتے  ہیں  تو یہی خصوصیت دیکھنے  کو ملتی ہیں ۔انہوں  نے  اپنے  انشائیوں  میں  قاری کے  لیے  کشش کا سامان پیدا کیا ہے ۔وہ ادب میں  ادب برائے  زندگی کے  نظریے  کے  قائل تھے  اور یہی وجہ ہے  کہ اپنے  منفرد طرز استدلال سے  انشائیہ کو زندگی کے  قریب لانے  کی کوشش کی ہے ۔انشائیہ لکھنے  کا مقصد خواجہ حسن نظامی خود فرماتے  ہیں :

’’ میں  نے  جو کچھ خامہ فرسائی کی ہے  وہ محض اس لیے  ہے  کہ نئی روشنی کے  لوگ جو صوفیوں  کی پرانی کتابوں  کو نہیں  پڑھتے  یا ان کتابوں  کے  قدیمی طرز تحریر کے  سبب تصوف ہی سے  غیرمانوس ہوتے  جاتے  ہیں  ،وہ میرے  نئے  انداز تحریر سے  ادھر راغب ہوں  اور کیف روحانی سے  فائدہ اُٹھائیں ۔‘‘(سی پارۂ دل ،ص:18)

                خواجہ حسن نظامی نے  اپنے  انشائیوں  اور اپنے  مضامین کے  لیے  ایسے  موضوعات کا انتخاب کیا جن پر توجہ تو درکنار بلکہ ان کو برُبادی اور نحوست کی نشانی سمجھا جاتا تھا جیسے  اُلو۔حد تو یہ ہے  کہ اسے  گالی کا درجہ دیا گیا ہے ۔خواجہ حسن نظامی نے  ناپسندیدگی کے  عمومی روّیہ کے  برعکس اُلو کے  اوصاف گنواتے  ہوئے  اس امر پر زوردیا کہ:

’’جن کو سب لوگ بھول گئے  جن کو سب نے  چھوڑدیا اُن کو الو نے  نہیں  بھُلایا اورساتھ نہیں  چھوڑا۔اُلوکی آواز کو منحوس ناحق کہتے  ہیں ،ذرا دھیان سے  سنو اللہ ہو صاف سمجھ میں  آئے  گا۔بعض دفعہ ہو ہو کہتا ہے  اور بعض اوقات پورا اللہ ہو پکارتا ہے ۔بنگالی مینا،پیراہن طوطا اوریہ ننھی منھی خوبصورت چڑیاں  میٹھی میٹھی بولیوں  سے  آپ کا جی خوش کرتی ہیں  مگر یہ اُلو اپنے  نعرۂ حق سے  آپ کے  دل کو بڑا دیتا ہے ۔اس لیے  آپ اسے  منحوس کہتے  ہیں ۔نہیں  ایسا خیال نہ کرو یہ خوش نوا پرندے  دل کو یادِحق سے  ہٹاکر مکافاتِ دنیا میں  مصروف کرتے  ہیں  اور اُلو کی جگہ خراش فریاد انجام حیات کو یاددلاتی ہے ۔‘‘ (اُلو)

                خواجہ حسن نظامی کا قصرِ حیات تصوف کے  نقش و نگار سے  آراستہ تھا۔انشائیہ کے  سبھی نقاد اس بات پر اتفاق کرتے  ہیں  کہ انشائیہ میں  انشائیہ نگار کی شخصیت اظہار پاتی ہے ۔ اسی نقطۂ نظر سے  خواجہ حسن نظامی کے  انشائیے  انشائیہ نگاری کے  فن پر پورے  اُترتے  ہیں ۔ان کی شخصیت میں  تصوف کا رنگ غالب تھا اور یہی رنگ اُن کے  انشائیوں  میں  بھی صاف نظرآتا ہے ۔خواجہ حسن نظامی کے  تقریباََ تمام انشائیوں  کا اختتام تصوف کے  کسی پہلو پر ہوتا ہے ۔ وہ عصری زندگی کے  تقاضوں  کے  مطابق وہی زبان، محاورہ، اسلوب اور انداز اختیار کرتے  ہیں  جس کے  ذریعہ ان کے  خیالات دوسروں  تک آسانی سے  پہنچ سکیں ۔اپنے  انشائیوں  میں  وہ گہرے  مشاہدے  کی بنا پر زندگی کی غواصی کرتے  نظرآتے  ہیں ۔اپنے  انشائیہ ’’جھینگر کا جنازہ‘‘میں  بے  عمل عالموں  پر یوں  طنز کرتے  ہوئے  نظرآتے  ہیں :

’’ اس جھینگر کی داستان ہرگز نہ کہتاگردل سے  عہد نہ کیا ہوتا کہ دنیا میں  جتنے  حقیر و ذلیل مشہور ہیں ،میں  ان کو چارچاند لگا کر چمکاؤں  گا ۔ایک دن اس مرحوم کو میں  نے  دیکھا کہ حضرت ابن عربی کی فتوحاتِ مکیہ کی ایک جلد میں  چھپا بیٹھا ہے ۔میں  نے  کہاکیوں  رے  شریر! تو یہاں  کیوں  آیا؟ اُچھل کر بولاذرا اس کا مطالعہ کرتا تھا۔سبحان اللہ!تم کیاخاک مطالعہ کرتے  تھے ۔بھائی یہ تو ہم انسانوں  کا حصّہ ہے ۔بولا واہ! قرآن نے  گدھے  کی مثال دی ہے  کہ لوگ کتابیں  پڑھ لیتے  ہیں  مگر نہ ان کو سمجھتے  ہیں  اور نہ ان پر عمل کرتے  ہیں ۔لہٰذا وہ بوجھ اُٹھانے  والے  گدھے  ہیں  جس پر علم وفضل کی کتابوں  کا بوجھ لدا ہے ۔ مگر میں  نے  اس مثال کی تقلید نہیں  کی۔خدا مثال دینی جانتا ہے  تو بندہ بھی اس کی دی ہوئی طاقت سے  ایک نئی مثال پیدا کرسکتا ہے  اور وہ یہ ہے  کہ انسان مثل ایک جھینگر کے  ہے  جو کتابیں  چاٹ لیتے  ہیں  سمجھتے  بوچھتے  خاک نہیں  ۔یہ جتنی یونیورسٹیاں  ہیں  سب میں  یہی ہوتا ہے ۔ ایک شخص بھی ایسا نہیں  ملتا جس نے  علم کو علم سمجھ کر پڑھا ہو۔(جھینگر کا جنازہ مشمولہ آزادی کے  بعد دہلی میں  اردو انشائیہ ،ص:44-45)

                انشائیہ نگاری کے  ضمن میں  کہا جا تاہے  کہ انشائیہ نگار بے  معنی باتوں  میں  معنی تلاش کرتا ہے  اور وہ نگاہ کے  انوکھے  ذاویے  سے  غیر اہم چیزوں  کو اہم بناکر پیش کرتا ہے  اور تازگیٔ فکر سے  ان میں  وہ معنویت تلاش کردیتا ہے  جس کی طرف اسے  پہلے  کسی کا دھیان نہ گیا ہو اور اس ندرت سے  انشائیہ میں  حظ پیدا ہوتا ہے ۔اس معیار سے  اگر خواجہ حسن نظامی کے  اس انشائیہ جھینگر کا جنازہ کو پرکھا جائے  تو یہ خواجہ حسن نظامی کا ہی نہیں بلکہ اردوکے  چند بہترین انشائیوں  میں  شمار ہونے  کے  قابل ہے ۔

                خواجہ حسن نظامی کے  انشائیوں  کی ایک خاص خصوصیت یہ ہے  کہ وہ موضوع کے  پابند رہنے  کے  باوجود موضوع سے  الگ عصری تقاضوں  کے  مطابق بہت کچھ کہہ جاتے  ہیں ۔ انھوں  نے  اپنے  انشائیوں  میں  ایسا اسلوب اور ایسا طرز انداز اپنایا ہے  کہ تیر ٹھیک نشانے  پر بھی لگتا ہے  اور ساتھ ہی ادبی حسن بھی برقرار رہتا ہے ۔ کہیں  کہیں  ان کے  انشائیوں  میں  اُن کا لہجہ تیز بھی ہوجاتا ہے  لیکن اُن کا مقصد قاری کے  دل کو ٹھیس پہنچانا نہیں  ہوتا بلکہ اُن کے  لیے  کوئی سبق اور نصیحت آمیز بات کی تلقین ہوتی ہے ۔ ’’گلاب تمہارا کیکر ہمارا‘‘خواجہ حسن نظامی کا ایک دلکش اور دلچسپ انشائیہ ہے  جس میں  اُن کے  اسلوب بیان اور طرز بیان کی انفرادیت صاف طور پر نظر آتی ہے ۔ گلاب اور کیکر میں  بظاہر تقابل کا کوئی پہلو موجود نہیں  ہے  لیکن خواجہ حسن نظامی نے  ان دونوں  میں  مماثلتوں  اور اختلافات کے  ایسے  پہلو تلاش کیے  ہیں  کہ وہ گلاب جو پھولوں  میں  سب سے  زیادہ خوبصورت پھول تسلیم کیاجاتاہے  اور جسے  حسن ورعنائی کا پیکر تصور کیا جاتا ہے  ، اچانک لوگوں  کی نظروں  سے  گرجاتا ہے  اور گلاب کے  مقابلے  میں  خواجہ حسن نظامی کیکر کی فضیلت اور برتری ثابت کرتے  ہیں ۔ موجودہ دور کا انسان چیزوں  کو خود پرکھنے  اور جانچنے  کی کوشش نہیں  کرتا بلکہ دوسروں  کی تقلید کرنا اور دوسروں  کے  خیالات کو آنکھ بند کرکے  تسلیم کرنا اُن کا معمول بن چکا ہے ۔ انسان دوسروں  کی ہر بات دل سے  تسلیم کرنے  کا عادی بن چکا ہے  اس لیے  اُن کے  دل میں  چیزوں  کے  بارے  میں  منفی سوچ ہوتی ہے  ۔ کسی نے  کسی چیز کی تعریف کی تو وہ بھی اُس چیز کی تعریف کرنے  لگتا ہے  ،کوئی کسی چیز کے  بارے  میں  اپنی غلط رائے  پیش کرتا ہے  تو وہ بھی اُس کی حقیقت جانے  بغیر اُس کو غلط سمجھنے  لگتا ہے ۔ انسان کو خود چیزوں  کی اہمیت اور اُن کی افادیت کے  بارے  میں  غور کرنا چاہیے ۔ خواجہ حسن نظامی نے  اپنے  انشائیے  ’گلاب تمہارا کیکر ہمارا‘ میں  یہی درس دینے  کی کوشش کی ہے ۔ یہ انشائیہ اُن کے  تخلیقی ذہن کی عمدہ مثال فراہم کرتا ہے ۔ اس انشائیے  میں  خواجہ حسن نظامی نے  اپنے  طرز بیان اور طرز ادا سے  قاری کو غوروفکر کی دعوت دی ہے ۔موضوع کے  نئے  گوشوں  کو تلاش کرنا خواجہ حسن نظامی کے  انشائیوں  کی خاص پہچان ہے ۔ انشائیہ ’’گلاب ہمارا کیکر تمہارا‘‘ کا یہ اقتباس ملاحظہ کیجئے :

ان سب شاعروں  کو سامنے  سے  ہٹاؤ جو گلاب کے  پھولوں  پر مرتے  ہیں  ۔ سینکڑوں  برس سے  ایک ہی چہرے  کے  طلب گار ہیں  ، یہ سب لکیر کے  فقیر ہیں ، مقلد ہیں ، سُنی سنائی باتوں  پر جان دیتے  ہیں ۔۔۔سب نے  گلاب کے  پھول کو تختۂ مشق بنایا ہے ۔ کوئی اس کی بھینی بھینی بوُ پر فدا ہے  ،کوئی اس کی ناز ک نازک پتیوں  پر نثار ہیں ۔ کسی کو اس کے  رنگ سے  رخسار ِ محبوب کی یاد پیدا ہوتی ہے ۔۔۔بعض ہیں  کہ گلاب کے  خار سے  خار کھائے  بیٹھے  ہیں ۔ خیر یہ جتنی باتیں  ہیں ، ان میں  تو شکایت کا موقع نہیں  ہے ۔ کہنا یہ ہے  کہ انھوں  نے  خدا کی بے  شمار مخلوقات کی حق تلفی کی ہے ۔ ایک ہی دروازے  پر ڈیرے  ڈال دئیے ۔ ۔۔نصیب یہ نہ ہوا کہ جنگل میں  نکل جاتے  ، خودرو پھولوں  کو دیکھتے  جن کا مالی خدا ہے ، جن کا چمن صحرا ہے  جس کی سیرابی قدرتی سیلابی سے  ہے ۔ ان میں  ایک کیکر تھا۔‘‘(گلاب تمہارا کیکر ہمارا)

                اپنے  انشائیوں  میں  خواجہ حسن نظامی ہلکے  پھلکے  اور غیر رسمی انداز میں  باتیں  بیان کرتے  ہوئے  نظر آتے  ہیں  جن کو پڑھ کر قاری کا ذہن منطقی استدال اور فلسفیانہ تفکر کے  بغیر اس مقصد کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے  جہاں  انشائیہ نگار کا قلم پہنچانا چاہتا ہے ۔ ان انشائیوں  میں  دلچسپی اور کشش کا اتنا سامان میسر ہے  کہ قاری ایسامحسوس کرتا ہے  کہ مصنف اُن کا ہاتھ پکڑ کر ایک شیش محل کی سیر کرارہا ہے  اور قاری کو اُن گوشوں  کی طرف لے  جاتا ہے  جو ایک سیاح کی نظروں  سے  اوجھل رہے  ہوں ۔ان انشائیوں  میں  نہ صرف لطف و انبساط کا سامان میسر ہے  بلکہ ان میں  انسانیت کے  لیے  ایک پیام بھی ہے  جو دلوں  کی زنگ دور کرتا ہے  اور سوچنے  کا جذبہ بیدار کرتا ہے ۔

                خواجہ حسن نظامی کے  انشائیوں  اور مضامین کے  مطالعے  سے  ان کی تخلیقی صلاحیتوں  کا پتہ چلتا ہے ۔ ان انشائیوں  اور مضامین میں  خواجہ حسن نظامی کا طنزیہ ومزاحیہ اسلوب بیان قاری کو لطف و انبساط کا سامان مہیا کرتا ہے  ۔خواجہ حسن نظامی کی تحریروں  میں  طنزومزاح کے  اوصاف تو موجود ہیں  لیکن اس میں  پھکڑ پن نہیں  ہے  بلکہ ان میں  شگفتگی اور تازگی کا احساس ہوتا ہے ۔وہ محض ہنسانے  کے  لیے  انشائیہ اور مضامین تخلیق نہیں  کرتے  اور نہ کسی کی خامیوں  کو براہ ِ راست اپنی طنز کا نشانہ بناتے  ہیں  بلکہ وہ ایسا اسلوب روا کرتے  ہیں  کہ قاری کے  ہونٹوں  پر ہلکی سی مسکراہٹ نمودار ہوتی ہے  اور طنز کی ہلکی سی کاٹ اُن کے  اندرسوچنے  اور سمجھنے  کا حوصلہ پیدا کرتی ہے ۔شخصی ذاویۂ نگاہ اور موضوع کو اُلٹنے  پلٹنے  کا روّیہ بھی ان کے  ہاں  موجود ہے ۔ چنانچہ اپنے  منفرد اسلوب بیان کی بنا پر خواجہ حسن نظامی اردو ادب میں  اپنی الگ اہمیت اور اپنی الگ پہچان رکھتے  ہیں  جو اُن کے  علاوہ بہت کم ادیبوں  کو نصیب ہوئی ہے ۔اپنے  دلکش اور پُرکشش اسلوب اور طرز ادا سے  وہ ہمیشہ یاد رکھے  جائیں  گے ۔

٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.