فائر ایریا مظلوم طبقے  کی ایک انوکھی داستان

ارشد احمد کوچھے

 ریسرچ اسکالر شعبۂ اردو و فارسی

 ڈاکٹر ہری سنگھ گور سنٹرل یونیورسٹی ،ساگر ،مدھیہ پردیش

 موبائل نمبر: 6005147458

                ’’ فائر ایریا ‘‘الیاس احمد گدی کا شاہکار ناول ہے  جو۱۹۹۴ ء میں  شائع ہوا ۔ اس میں  انھوں  نے  کول فیلڈ میں  کام کرنے  والے  مزدور طبقے  کی بے  کسی و بے  بسی کو موضوع بنایا ہے  جو اپنے  خوابوں  کی تکمیل کی خاطراپنی پوری زندگی محنت شاقہ میں  صرف کرتے  ہیں  لیکن پھر بھی ان کے  خواب ادھورے  رہ جاتے  ہیں  اور انہیں  پیٹ بھر کھانابھی نصیب نہیں  ہوتا۔ وہ طلوع آفتاب سے  غروب آفتاب تک زمین کے  ہزاروں  فٹ نیچے  ،شدید گرمی میں  اپنا پسینہ پانی کی طرح بہاتے  ہیں  مگر اپنے  نوشتۂ تقدیر میں  تغیر وتبدل نہیں کرپاتے ۔ وہ ایک طرف کمپنیوں  کے  مالکان ،یونین لیڈروں  اور ان کے  کارندوں کے  شکنجے  میں  جکڑ ے  ہوئے  ہوتے  ہیں  تو دوسری طرف سود خوار وں  کے  چنگل میں  گرفتار ہوچکے  ہو تے  ہیں  جو ان کے  جسم سے  اس طرح خون چوس لیتے  ہیں  کہ وہ چاہ کر بھی اپنے  پیروں  پر کھڑے  نہیں  ہو پاتے  بلکہ ہر وقت ان کی ا مداد کے  محتاج رہتے  ہیں  ۔ اس بے  بسی کے  عالم میں  وہ اپنوں  کو دن دہاڑے  قتل ہوتے  ہوئے  دیکھتے  ہیں  لیکن نہ کچھ بول پاتے  ہیں  اور نہ ہی کسی سے  انصاف مانگنے  کی جسارت کرپاتے  ہیں  بلکہ خاموش تماشائی کی طرح اپنے  اُوپر ہونے  والے  مظالم کاتماشہ دیکھتے  ہیں  ۔اگرکبھی کبھار کوئی مزدور زبان کھولنے  کی کوشش کرتا ہے  تو یونین لیڈرز اپنے  پالتو غنڈوں  سے  نہ صرف اُ س کو تشدد کا نشانہ بناتے  ہیں  بلکہ سب کے  سامنے  قتل کرکے  دوسروں  پر بھی خوف و دہشت طاری کردیتے  ہیں ۔اس ظلم و بربریت کے  عالم میں  وہ پوری طرح بے  بس نظر آتے  ہیں  یہاں  تک کہ احتجاج کا خیال ہی ان کے  دل سے  نکل گیا تھا :

’’یہاں  کول فیلڈ میں  بس دو فیکٹر کام کرتا ہے  ایک پیسہ اور دوسرا طاقت۔ کچھ خاص لوگوں  کو پیسہ سے  خرید لیا جاتا ہے ۔اور باقی کو طاقت سے  دبا دیا جاتا ہے  اور مزدور ،یہ ملکٹا لوگ اتنے  معصوم ہیں  کہ کچھ نہیں  جانتے  ۔اتنے  کمزور ہیں  ۔کہ کچھ کہہ نہیں  سکتے  ،زندہ رہنا یوں  کہہ لیں  کہ اپنے  آپ کو زندہ رکھنا ان کے  لئے  شرط ہوگیا ہے ۔بس کام کرو اور کھانا کھاؤ دیکھو ،سنومگر بولو کچھ نہیں  ۔کوئی آواز نہیں  ۔دہشت کی ایک ایسی دنیا اُن کے  چاروں  طرف کھڑی کردی گئی ہے ، اور یہ اس سے  اتنے  خائف ہیں  کہ احتجاج کا خیال تک ان کے  دماغ سے  نکل گیا ہے  اور یہ بڑا المیہ ہے  ۔بہت بڑا المیہ ہے  ان تمام کی موت سے  بھی بڑا۔‘‘ ۱؎

                 کہانی کا مرکز و محور چھوٹے  ناگپور کی کولیریوں  میں  کام کرنے  والے  ہزاروں  غریب و مفلس مزدور ہیں  جو دور و نزدیک سے  آکر یہاں  اپنے  پیٹ کی آگ بجھاتے  ہیں  ۔کہانی کا مرکزی کردار سہدیو بہار کے  گیا ڈسٹرکٹ کے  ست گانوں (جو اس کا آبائی علاقہ ہے  ) کو چھوڑ کر ننکو کے  ساتھ یہاں  سر سا کولیری میں  مزدوری کرنے  آتا ہے  ۔ جب وہ پہلی باراپنے  گاؤں  سے  باہر نکلتا ہے  تو اس کی آنکھوں  سے  آنسوؤں  کا سمندر اُمنڈ آتا ہے  اس کا دل اپنوں  خاص کر اپنی محبوبہ جلیاکی جدائی سے  چھلنی ہوجاتاہے  لیکن وہ اپنے  دل پر پتھر رکھ کر اپنی اُس منزل کی جانب قدم بڑھاتاہے  جہاں  اس کے  جسم کے  ساتھ ساتھ اس کی روح بھی مجروح ہوجاتی ہے  ۔سرسا کولیری میں  داخل ہوتے  ہی سہدیو اپنے  کام پر پوری طرح دھیان دیتا ہے  اور اپنے  اچھے  مستقبل کے  نہ صرف خواب دیکھتا ہے  بلکہ اُس کے  لئے  نہایت محنت و مشقت بھی کرتا ہے ۔تعلیم یافتہ ہونے  کی بدولت وہ چند ہی مہینوں  میں  کولیری کے  ماحو ل سے  واقف ہو جاتاہے  اوراُن وحشی انسانوں  کے  کارناموں  سے  بھی باخبر ہوجاتا ہے  جو کولیری میں  اپنی بدا فعالی اور قتل و غارت گری کی بدولت مزدوروں  پر مسلط ہوچکے  تھے  ۔ وہ نہ صرف اپنے  حقوق کی خاطر آواز بلند کرتا ہے  بلکہ دوسروں  کے  لئے  بھی آواز بلند کرنے  کی کوشش کرتا ہے  خاص کر اس وقت جب کمپنی کے  منتظمین رحمت میاں  کی نعش(جوکھاد کے  اندر ایک حادثے  میں  مرجاتا ہے ) کو چوری چھپے  کولیری کے  اند ر دفن کردیتے  ہیں  اور یہ تصور ابھارنے  کی کوشش کرتے  ہیں  کہ وہ کسی غیر عورت کے  ساتھ کمپنی چھوڑ کر بھاگ گیا ہے  تاکہ وہ اس کی فیملی کو معاوضہ دینے  سے  بچ جائیں  گے  ۔سہدیو بڑی جد و جہد کر کے  اگرچہ رحمت میاں  کی فیملی کومعاوضہ تو نہیں  دلا پاتا ہے  مگر غلط الزام سے  نجات دلانے  میں  ضرور کامیاب ہوجاتا ہے  جس کے  عوض میں  اس کو مار پیٹ کے  ساتھ ساتھ کمپنی کی نوکری سے  بھی ہاتھ دھونا پڑتا ہے ۔ سرسا کولیری سے  نکالے  جانے  کے  دوسال بعد وہ اپنے  دوست مجمدار کی سفارش پر موہنا کولیری میں  مزدوری کرنے  آجاتا ہے  اور اپنی لگن ،محنت، بہادری ودیانت داری کی بدولت دیکھتے  ہی دیکھتے  مزدوروں  کے  دلوں  پر راج کرنے  لگتا ہے  جو اس کے  لئے  یہاں  بھی مہنگا پڑتا ہے  کیوں  کہ یونین لیڈر پی این ورما مزدوروں  کے  دلوں  میں  اس کی محبت اور عزت دیکھ کراس کویونین الیکشن میں  اپنا مہرہ بنانا چاہتا ہے  لیکن سہدیو نہ خود جھکتاہے  اور نہ ہی کسی مزدور کو جھکنے  پر مجبور کرتا ہے  بلکہ اپنے  عزائم اور ایمانداری پر مضبوط و مستحکم رہتا ہے  جو کمپنی کے  ملازمین اور یونین لیڈر پی این ورما کو اس قدر کھٹکتا ہے  کہ وہ اس کو نوکری سے  ہی برطرف کردیتاہے  جس کا دکھ سہدیو کے  ساتھ ساتھ پوری کولیری کے  مزدوروں  کو ہوتا ہے  مگروہ افسوس کر نے  کے  سواکچھ بھی نہیں  کر پاتے  ہیں  ۔نوکری چھوٹ جانے  کے  بعد سہدیو کئی طرح کے  مسائل سے  دوچار ہوتا ہے  ۔ بالخصوص معاشی طور پر وہ بہت پریشان ہوجاتا ہے ۔ سخت تگ و دو کرنے  کے  باوجود جب اس کو کوئی امید نظر نہیں  آتی تووہ مجمدار کی سفارش پر پتھر کھیڑا کولیری میں  بنا پی ایف کے  صرف دو سو روپے  مہینہ پر مجبوراً نوکری کر لیتا ہے ۔اگرچہ سہدیو کو یہاں  کاغذات پر دستخط کروانے  کے  سوا کوئی کام نہیں  رہتا لیکن جب اس کو چار سو روپے  کی تنخواہ کے  خانے  میں  دستخط کرنے  کے  بعد صرف دو سو روپے  ملتے  ہیں  تواُسے  بہت دکھ ہوتا ہے  کیوں  کہ باقی دو سو روپے  کمپنی مالک کے  خاتے  میں  چلے  جاتے  ہیں :

 ’’ ہر مہینہ کی پانچ تاریخ کو جب اس کو تنخواہ کے  خانے  میں  دستخط کرنے  پڑتے  تو وہ ایک لمحہ کے  لئے  ضرور رک جاتا ۔تیس دن۔چار سو روپے ۔گوشہ میں  ایک رلونیواسٹاپ اور دستخط کرنے  کے  لئے  چھوڑی ہوئی جگہ ،ہربار وہ اپنے  آپ کو مار کر اس پر دستخط کر دیتا اور ہر بار اپنے  آپ کو کچل کر چار سو کے  بجائے  دو سو کے  نوٹ اپنی نوٹ جیب میں  ڈال لیتا ۔اس دن سارا دن وہ اس چوٹ کے  درد کو کسی نہ کسی صورت محسوس کرتا اور اس دن سارا دن اس پر ایک بے  نام غصہ اور ایک نامعلوم جھلاہٹ سوار رہتی ۔اور سارا دن منہ کا ذائقہ تلخ تلخ کچھ کڑوا کڑوا سا بنا رہتا ۔‘‘  ۲؎

                سہدیو کواس سے  بھی زیادہ تکلیف اُس وقت ہوتی ہے  جب سنٹرل گورنمنٹ کولیریوں  کو نیشنلائز کرکے  کولیریوں  کے  تمام مزدوروں  کو سرکاری نوکری فراہم کرتی ہے  اور سہدیو کوپی ایف جمع نہ ہونے  کی وجہ سے  ایک سال تک نوکری کی خاطر تمام دفاتر کی خاک چھاننی پڑتی ہے  لیکن پھر بھی جب کوئی کامیابی نہیں  ملتی تواس کو مجبوراً یونین کے  ایک خطرناک غنڈے  بھاردواج سے  مدد مانگنی پڑتی ہے  جو اس کو نوکری تو دلواتا ہے  مگرکولیری میں  اپنی یونین کی تمام ذمہ داریاں  بھی سونپ دیتا ہے  جو سہدیو کو نہ چاہتے  ہوئے  بھی قبول کرنی پڑتی ہیں ۔ سہدیو یہ بات اچھی طرح جانتا ہے  کہ بھاردواج کوئی معصوم انسان نہیں  ہے  بلکہ بہت بڑاقاتل اور مجرم ہے  لیکن پھر بھی وہ اپنے  ضمیر سے  سمجھوتا کرکے  اس کی یونین کا پورا کام چلاتا ہے ۔ جب بھی بھاردواج کسی مزدور یا اپنے  کسی حریف کو اپنے  غنڈوں  سے  کوئی گزند پہنچاتا ہے   یا قتل کر دیتا ہے  تو سہدیو کا دل پسیج جاتا ہے  مگر اپنے  لب کو جنبش نہیں  دے  پاتا کیوں  کہ وہ اس کو اپنا محسن سمجھ کراس کا احسان چکاتاہے  ۔مگر جب بھاردواج اس کے  دوست مجمدار کو اپنے  پالتو غنڈوں  سے  قتل کرواتا ہے  تو سہدیو سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اس جلوس میں  شامل ہوجاتا ہے  جو مجمدار کے  قاتلوں  کو سزا دینے  کے  لئے  نکل جاتا ہے ۔

                 الیاس احمد گدی نے  اس مرکزی کہانی کے  اندر کئی ایسی ضمنی کہانیاں  مدغم کر دی ہیں  جو ناول کے  پلاٹ میں  وسعت اورگہرائی کے  ساتھ ساتھ کولیری کے  مزدوروں  کی طرز زندگی ،ان کی مجبوری و محکومی، سودخواروں  کا چنگل اور یونین لیڈرزکے  مظالم کی بھی بہترین عکاسی کرتی ہیں  ۔ان ہی ضمنی کہانیوں  میں  ایک کہانی کالا چند کی ہے  جو کپل سنگھ نامی سود خوار سے  سود پر ایک سو روپیہ قرضہ لے  کر بہن کو ظالم شوہر سے  نجات دلوانے  میں  کامیاب ہوجاتا ہے  لیکن خود ایک ایسے  ظالم کے  چنگل میں  پھنس جاتا ہے  جو اس کی کمائی کے  ساتھ ساتھ اس کی عزت بھی نیلام کردیتا ہے ۔آخر کارجب وہ سود دیتے  دیتے  تھک جاتا ہے  تو وہ کپل سنگھ کو پیسہ دینے  سے  انکار کرتا ہے  جس پر کپل سنگھ کے  آدمی اس کو سب کے  سامنے  کپڑے  اتار کر نہ صرف بے  عزت کردیتے  ہیں  بلکہ اس پر تشدد بھی کرتے  ہیں ۔اس منظر سے  سہدیو اس قدر رنجیدہ خاطر ہوجاتا ہے  کہ وہ کپل سنگھ کے  غنڈوں  سے  الجھ کر اس کو بچا لیتا ہے  اور پھر کالا چند سے  مار کھانے  کی وجہ پوچھتاہے  تو کالا چند اپنی مظلومیت کی جو کہانی بیان کرتاہے  اس کو پڑھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے  کہ کس بے  رحمی سے  سود خور ان غریب اور مفلس مزدور وں  کا لہونچوڑ لیتے  ہیں  :

’’تم روز دارو پیتے  ہو ۔وہی پیسہ تھوڑا تھوڑا کرکے  دے  کیوں  نہیں  دیتے  ۔

میں  عمر بھر تھوڑا تھوڑا دیتا رہوں  گا تب بھی ان کا چکتا نہیں  ہوگا ۔سالا سودی قرضہ قرضہ نہیں  گورکھ دھندا ہوتا ہے  ۔میں  نے  ایک سو روپیہ لیا تھا ۔دس روپیہ ہفتہ سود پر ،وہ بڑھ کر دو سو ہوگیا ۔اب بیس روپیہ ہفتہ سود لگتا ہے  ۔بولو بیس روپیہ ہفتہ اسی کو دے  دے  گا تو کھائے  گا کیا ؟

مگر اس کا کچھ نہ کچھ فیصلہ کرنا ہی ہوگا ۔۔۔!

کوئی فیصلہ نہیں  کرنا ۔میں  ان لوگوں  کو پیسہ نہیں  دوں  گا ۔کیا کرے  گا اور لوگ ،مارے  گا ،بس تو کوئی جان تو نہیں  ماردے  گا ۔اب تک میں  ،تین سو روپیہ دے  چکا ہوں  ،اب کچھ نہیں  دے  گا ۔ایک پیسہ نہیں  ۔ ‘‘   ۳؎

                یہ کمزور اور بے  زبان لوگ جہاں  سود خواروں  کے  چنگل میں  بری طرح پھنس جاتے  ہیں  وہیں  یونین لیڈرز اور ان کے  کارندوں  کے  ہاتھوں  سے  بھی بار بار لٹتے  رہتے  ہیں  ۔اگر چہ کولیریوں  کے  سبھی مزدور اپنے  چھوٹے  چھوٹے  خوابوں  کی تکمیل کی خاطردن رات بے  جا حبس میں  اپنا پسینہ بہاتے  ہیں  لیکن اپنے  قرب وجوار کے  سود خوار اوریونین لیڈرکی وجہ سے  اپنے  ارمانوں  اور خوابوں کو کبھی پورا نہیں  کر پاتے  کیوں  کہ جو پیسہ وہ اپنے  خوابوں  کی تکمیل کے  لئے  بچانے  کی کوشش کرتے  ہیں  وہ پیسہ سود خواراور یونین لیڈرکی جیبوں  میں  بطور کمیشن چلا جاتا ہے  ۔ وہ اپنے  آپ کو اس ظلم و جبر سے  آزاد کرنے  کی خواہش تو کرتے  ہیں  لیکن اظہارِ افسوس کے  سوا کچھ بھی نہیں  کرپاتے  کیوں  کہ مافیاا ن کے  وجود پر اس طرح مسلط ہوچکا ہوتا ہے  کہ وہ نہ احتجاج ،نہ شکایت اور نہ ہی کمیشن دینے  سے  انکار کر سکتے  ہیں  ۔ جب بھی یونین لیڈرز اور ان کے  وحشی غنڈے  ان کو کمیشن جمع کرنے  کا حکم صادر کرتے  ہیں  تو تمام مزدورخاموشی سے  اپنے  اپنے  حصے  کا کمیشن ادا کرتے  ہیں ۔ کولیریوں  کے  تمام غنڈے  بغیر محنت کے  عیش و عشرت کی زندگی بسر کرتے  ہیں  وہ نہ صرف بڑی بڑی حویلیوں  میں  رہتے  ہیں  بلکہ آرام دہ کاروں  میں  بھی سفر کرتے  ہیں  جبکہ دن رات خون پسینہ نکالنے  والا مزدوربڑی مشکل سے  اپنے  اہل و عیال کو دو وقت کا کھانا کھلاپاتا ہے  اوراتنی محنت کے  باوجود اُسے  دن بھر کی تھکان کے  بعد رات کو جھونپڑی کے  اندر ایک پھٹی پرانی چادر پرہی سونا پڑتاہے  :

 یہ نیتا جی جن کا ذکر جوالا بار بار کرتے  ہیں  ۔بڑے  لیڈر ہیں  ۔ایک ایک بڑے  لیڈر کی عملداری میں  درجنوں  ،بلکہ بیسوں  کولیریاں  ہوتی ہیں  ۔چھوٹے  لیڈران کے  کارندوں  کی طرح چندہ اگاتے  اور کولیری کے  معاملات نبٹاتے  ہیں  ۔کبھی کبھی معاملہ زیادہ اُلجھ جاتا ہے  تو بڑے  لیڈر کی مدد لینی پڑتی ہے  ۔ جس طرح بڑے  بڑے  جاگیردار کبھی کبھی اپنی جاگیر وں  کا دورہ کرتے  تھے  ۔ویسے  ہی بڑے  بڑے  لیڈر کبھی کبھی کولیری مزدوروں  کو درشن دے  دیتے  ہیں  ۔ورنہ ان کو مطلب محض اپنے   چندے  سے  ہوتا ہے  ۔سال میں  چھ روپیہ فی مزدور جبکہ چھوٹے  لیڈر ایک روپیہ مہینہ وصول کرتے  ہیں  مزدوروں  سے ۔

یہ ایک روپیہ سال میں  لاکھوں  روپیہ بن جاتا ہے  اس میں  کمپنی کی طرف سے  بندھی رقم بھی شامل ہوتی ہیں  ۔اور ٹھیکیداروں  سے  ملنے  والی نذر انے  کی رقم بھی ،مزدوروں  کے  چھوٹے  چھوٹے  مسائل کی فیس ،اور بے  ضرر خطاؤں  کی رشوت وغیرہ تو چھوٹے  لیڈر وصول کرتے  ہیں  ۔

اسی لاکھوں  روپیہ سالانہ کی رقم ہی کی بنا پر بڑے  لیڈر بنگلوں  میں  رہتے  ہیں  ،کاروں  پر گھومتے  ہیں  ۔شراب پیتے  ہیں  ۔  ‘‘  ۴؎

                علاوہ ازیں  یہ ظالم اور درندہ صفات لوگ ان کی عورتوں  کو بھی نہیں  بخشتے  ہیں  ۔ جس لڑکی یا عورت پران کا دل آجاتا ہے  اس کو اپنی بستر کی زینت بناتے  ہیں  جو انکار کرتی ہے  اس کو سب کے  سامنے  یا تو بے  عزت کر دیتے  ہیں  یا غائب کرکے  اپنی ہوس کا نشانہ بناتے  ہیں  ۔کولیریوں  میں  کام کرنے  والی بیشتر عورتیں  باری باری ان کے  ہاتھوں  لٹ جاتی ہیں  ۔وہ عصمت لٹتے  وقت چیختی ہیں ،روتی ہیں  ، اپنے  مردوں  کوزور زور سے  آواز دیتی ہیں  لیکن کوئی محافظ بن کر سامنے  نہیں  آتاجو ان کی عصمت کو لٹنے  سے  بچالیتا بلکہ سبھی خاموش تماشائی بن کر اپنی ماؤں  ،بہنوں  اور بیٹیوں  کی عصمت کو تار تار ہوتے  ہوئے  دیکھتے  ہیں  ۔اگرچہ ایسے  بدترین مناظر سے  اُن کا کلیجہ پھٹ جاتا ہے ، انہیں  شرمندگی محسوس ہوتی ہے  لیکن وہ کچھ نہیں  کرپاتے  ہیں ، ا ن میں  نہ کوئی اتحاد ہے  اور نہ ہی ا تنی طاقت کہ وہ ان مافیازکا مقابلہ کر سکیں  ۔ وہ ان وحشی انسانوں  کونہ صرف اپنی زبان سے  روکنا چاہتے  ہیں  بلکہ پاؤں  کے  نیچے  کچل دیناچاہتے  ہیں  مگر اس کے  لئے  ان کو اپنی جان دینی پڑے  گی جس کے  لئے  وہ تیار نہیں  ہو تے  کیوں  کہ وہ ابھی مرنا نہیں چاہتے  ہیں  بلکہ زندہ رہنا چاہتے  ہیں  تاکہ وہ کم از کم اپنے  بیوی بچوں  کو دو وقت کی روٹی کھلا سکیں ۔ اقتباس دیکھئے  جس میں وہ اپنی عورتوں  کو سر عام لٹتے  ہوئے  دیکھ کر خاموشی اختیار کر لیتے  ہیں  جو ان کی بے  بسی اور یونین لیڈر کے  کارندوں  کے  وحشی پن کی ایک اورمثال ہے  :

’’اٹھ رنڈی تم کو ننگا کرکے  نچائیں  گے  میلے  میں ‘‘۔۔!

وہ رنڈی ،یعنی کلیا مہتائین ۔پاس ہی کے  گاؤں  کی تھی ۔اس کولیری میں  کام بھی کرتی تھی ۔سب لوگ ،یا بیشتر لوگ اس کو جانتے  تھے  ۔وہ کسی کی بہن تھی ،کسی کی بیٹی تھی ،مگر ساری بھیڑ ساکت و صامت یہ تماشہ دیکھتی رہی ۔کسی کے  من میں  نفرت کا لونڈراٹھا ہوگا ،بھی تو ہ اندر ہی رہ گیا ۔باہر کوئی رد عمل نہیں  تھا کلیا مہتائین نے  مدد کے  لئے  ،یا چھڑا ئے  جانے  کے  لئے  ،یا صدیوں  کی پاکیزگی کے  تحفظ کے  لئے  ،چاروں  طرف دیکھا ،آواز بھی لگائی ،گو ہار بھی مچایا ۔چیخی چلائی بھی مگر کسی کی رگوں  میں  جما ہوا خون نہ پگھلا۔کسی کے  کلیجے  سے  دھواں  نہ اٹھا ،کسی آنکھ نے  اس منظر پر احتجاج نہ کیا ۔ساری بھیڑ خائف بھیڑوں  کی طرح چپ چاپ سب کچھ دیکھتی رہی ۔‘‘  ۵؎

                اگرچہ مرکزی حکومت ان کی زندگی کو بہتربنانے  کی غرض سے  کولیریوں  کونیشنلائز کرتی ہے  لیکن یونین لیڈرز اور سود خوار اس میں  بھی ان سے  اپنا پیسہ وصول کرتے  ہیں ۔تمام یونین لیڈر کھاتوں  پر نام چڑھانے  کے  لئے  ان سے  فی کس دو ہزار سے  پانچ ہزار تک وصول کرتے  ہیں  اورجو مزدور پیسہ دینے  سے  عاجز ہوتا ہے  اس کا نام نہ کھاتے  پر چڑھتاہے  اور نہ ہی اس کو نوکری دی جاتی ہے ۔ بیشتر مزدور کھاتے  پر اپنا نام چڑھانے  کے  لئے  سود خواروں  سے  قرضہ لیتے  ہیں  جس کو چکاتے  چکاتے  ان کی پوری زندگی ختم ہوجاتی ہے  مگر پھر بھی قرضہ باقی رہ جاتا ہے  جو ان کی نسلوں  کو ادا کرنا پڑتا ہے  ۔سرکاری نوکری اور تنخواہ میں  دوگنا اضافہ ہونے  کے  باوجود ان کی زندگی میں  کوئی خاص نمایاں  تبدیلی نہیں  آتی کیوں  کہ ان کی زندگی صرف کولیریوں کے  قرب و جوار تک ہی محدود ہو تی ہے  وہ شہری زندگی سے  اس قدر واقف نہیں ہوتے  کہ وہ ان کا طرز عمل اپنا سکیں  ۔ وہ صرف صبح سویرے  ہزاروں  فٹ زمین کے  نیچے  اندھیری سرنگوں  میں  جانا اور شام کو واپس آکر نہانا اور پھرشراب کی دکانوں  میں  آدھی رات تک شراب سے  اپنی تھکان دور کرنا جانتے  ہیں ۔اس کے  علاوہ وہ زندگی سے  متعلق کچھ خاص نہیں  جانتے  البتہ اگر کوئی ذی شعور مزدور نئے  طرز سے  زندگی گزارنے  کی خواہش بھی کرتا ہے  تومافیاز اس کی خواہش کو کبھی پورا نہیں  ہونے  دیتے  ہیں  ۔اسی وجہ سے  کولیریوں  کے  بیشتر مزدور دن کی تھکان اورغم غلط کرنے  کے  لئے  روزانہ شام کو شراب کی دکانوں  سے  چمٹ جاتے  ہیں  اور خوب شراب پی کر اپنی اندر کی آگ کو بجھاتے  ہیں  ۔

                بالآخر ان کی زندگی میں  مجمدار محسن بن کر سامنے  آتا ہے  جو ان کو اس ظلم وجبر کے  خلاف لڑنے  کی قوت عطا کرتا ہے  ۔اگرچہ وہ کولیریوں  میں  جونئیر کلرک کی حیثیت سے  کام کرتا ہے  لیکن تعلیم یافتہ ہونے  کے  ساتھ ساتھ وہ اشتراکیت کا بہت بڑا حامی بھی ہوتا ہے  ۔ جب بھی کولیری میں  کسی غریب مزدور کے  ساتھ کوئی ظلم یا زیادتی ہوتی ہے  تو اس کا دل اس قدرتڑپتا ہے  کہ وہ نہ صرف اس کے  خلاف آواز اٹھاتا ہے  بلکہ مزدوروں  کو بھی اپنے  پیروں  پر کھڑا ہونے  کی تلقین کرتا ہے  جس کی پاداش میں  اس کو پار پیٹ کے  علاوہ کئی جگہ نوکری سے  بھی ہاتھ دھونا پڑتا ہے  لیکن وہ پھر بھی مایوس نہیں  ہوتا بلکہ ہر جگہ اور ہر کولیری میں  اپنی کوشش جاری رکھتا ہے ۔ابتدا میں  تمام مزدور اُسے  دیوانہ سمجھتے  ہیں  کیوں  کہ وہ اس کی باتوں  اور مارکس کی تھیوری کو مشکل ہی نہیں  ناممکن سمجھتے  ہیں  لیکن جب آہستہ آہستہ ان کے  ذہن میں  اس کی باتیں  بیٹھ جاتی ہیں  تو وہ خواب سے  بیدار ہوجاتے  ہیں  اور ظلم کے  خلاف اُٹھ کھڑے  ہوتے  ہیں  جس کی پہلی جھلک اس وقت دیکھنے  کو ملتی ہے  جب بھاردواج کے  کارندے  مجمدار پر گولیاں  چلا کر اس کو قتل کر دیتے  ہیں  اورتمام مزدوربے  خوف و خطر ہوکر مجمدار کے  قاتلوں  کوسزا دینے  کے  لئے  سڑکوں  پر نکل آتے  ہیں  جس کو دیکھ کر یونین لیڈرزکے  پیروں  تلے  کی زمین کھسک جاتی ہے ۔

                اس طرح الیاس احمد گدی کا یہ شاہکار ناول سماج کے  ایک ایسے  بچھڑے  طبقے  کی لوگوں  کی کسمپرسی کی عمدہ عکاسی کرتا ہے  جو مافیاز کے  چنگل میں  پوری طرح گرفتارہو چکا ہوتے  ہیں  اور اپنے  اُوپر ہونے  والے  ظلم وجبر کوآنکھیں  بند کر کے  قبول کرنے  پر مجبور ہوجاتے  ہیں  ۔لیکن جب ان کا ذہن بیدار ہوجاتا ہے  تو وہ ظالموں کے  خلاف اس طرح ایک ساتھ کھڑے  ہوجاتے  ہیں  کہ ظالموں  کا وجود ہی مٹ جاتا ہے  ۔

حواشی:

(۱)۔فائر ایریا ،الیاس احمد گدی ،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس ،دہلی ،۲۰۱۹،ص ۱۲۴

(۲)۔ ایضاً ،ص ۲۵۵

(۳)۔ ایضاً ،ص ۴۰

(۴)۔ ایضاً ، ص ۳۱

(۵)۔ ایضاً ، ص ۳۳۵

٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.