اردو میں  ایپک تھیٹر کا نمائندہ ڈراما ’’ آگرہ بازار‘‘

   سفینہ سماوی

  ریسرچ اسکالر

شعبۂ اردو، الہ آباد یونیورسٹی

الہ آباد، یوپی، انڈیا

حبیب تنویر کا ڈراما ’’آگرہ بازار‘‘ مارچ  ۱۹۵۴؁ء میں  لکھا گیا۔ ناقدین کی رائے  ہے  کہ ’’آگرہ بازار‘‘ بریخت کی تھیٹریکل روایت سے  متاثر ڈراما ہے  جسے  ’ایپک تھیٹر‘ کے  نام سے  موسوم کیا جاتا ہے ۔ ’’آگرہ بازار‘‘ کا تجزیاتی مطالعہ پیش کرنے  سے  پہلے  ’ایپک تھیٹر‘ کی روایت اور اس کی خصوصیات کا مختصراً ذکر کرنا ضروری ہے  تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے  کہ واقعی ’’آگرہ بازار‘‘ بِریخت کے  تھیٹر سے  متاثر ہے  یا حبیب تنویر نے  مذکورہ ڈرامے  کے  ذریعہ ایک نئے  فنی زاویے  سے  اردو ڈرامے  کو روشناس کرایا ہے ۔

مغرب میں  حقیقت پسندی (Realism)کی جو تحریک چلی تھی وہ دراصل عہد الیزابیتھ (Elizabethan Age) کے  خلاف تھی۔ عہد الیزابیتھ میں مذہبی ڈرامے ، میراکل ڈرامے ، مسٹریکل ڈرامے ، کلاسیکل ڈرامے  اور شیکسپئر سے  متاثرہ ڈرامے  لکھے  جاتے  تھے  ۔ ڈرامے  کو خواب و خیال کی دنیا سے  باہر لانے  اور زندگی کی تلخ حقیقتوں  سے  روشناس کرانے  کے  لئے  ڈرامے  میں  حقیقت پسندی کے  رجحان کو فوقیت دی گئی۔ حقیقت پسندی کی تحریک سے  قبل ڈرامے  میں  عشق و عاشقی، ہنسی مذاق اور گلو کاری و موسیقی کو بہت اہمیت حاصل تھی۔ ان کی وجہ سے  معاشرے  کی ضرورتیں  اور اس کے  مسائل پوری طرح سے  نظر انداز ہور ہے  تھے ۔ حقیقت پسندی نے  ڈرامے  اور ساتھ ہی مختلف اصناف ادب میں  اس قسم کے  غیر ضروری عناصر کے  خلاف آواز اٹھائی۔ یہیں  سے  مغرب میں جدید ڈرامے  کی ابتدا ء ہوتی ہے ۔ جدید ڈراما مکمل طور پر خود کو رومان کی خواب گاہ، عشق و عاشقی اور کسی بھی طرح کے  انسانی جذبات سے  محفوظ رکھنا چاہتا تھا جو انسان کی غور و فکر کی قوت کو متاثر کرکے  اسے  ناکارہ بنا سکتے  ہیں ۔ جدید ڈرامے  کا سروکار سماجی، سیاسی اور اقتصادی مشکلات سے  ہے  ، اور کبھی کبھی مذہبی اورسائنسی دشواریاں  بھی جدید ڈرامے  کا حصہ بن جاتی ہیں ۔ یہی وجہ ہے  کہ جدید ڈرامے  کی ایک قسم Problem Play کے  نام سے  بھی موسوم کی جاتی ہے ۔ جدید ڈراما عقل و شعور اور غور و فکر کی دعوت دیتا ہے ۔ جدید ڈراما کے  بانی انگریزی ادب میں  ہنرک ابسن (Henrik Ibsen) ہیں  جنھوں  نے  جدید ڈراما کی نہ صرف بنیاد ڈالی بلکہ اس کی ترویج و ترقی میں  بھی اہم رول ادا کیا۔ابسن کو حقیقت پسند ڈراما نگاروں  میں  اولیت حاصل ہے  اس لئے  انھیں  جدید ڈراما کا امام کہا جاتا ہے ۔ اس کے  بعد جدید ڈراما میں  جن ڈراما نویسوں  کا نام نا قابل فراموش ہے  ان میں جارج برنارڈ شا (George Bernard Shaw) اور جان گالزوردی (John Galsworthy)کا نام سر فہرست ہے ۔ ان ڈراما نگاروں  نے  صنف ڈراما میں  نئی تکنیک اور طریقۂ کار کو ایجاد کیا۔ ان کا خیال تھا کہ ڈراما دیکھتے  وقت ناظرین کے  دل اور جذبات سے  زیادہ ان کا دماغ متحرک ہونا چاہئے  تاکہ وہ اپنی روز مرہ کی زندگی میں  انفرادی یا اجتماعی طور پر جن مشکلات یا مسائل کا سامنا کر رہے  ہیں  انھیں  ڈرامے  میں  دیکھیں  اور اس پر غور و فکر کرکے  صحیح نتائج اخذ کر سکیں ۔مغرب میں  جدید ڈراما پوری طرح سے  نثر میں  لکھا جانے  لگا اور  ا س میں  کہیں  بھی شاعری کا استعمال نہیں  کیا جاتا تھا۔ حقیقت پسندی کا آغاز رومانیت سے  بیزاری اور غیر حقیقت پسندانہ عناصر کو ادب میں  جگہ دینے  کے  سبب ہوا۔ مذکورہ تحریک کے  علمبرداروں  نے  ادب برائے  ادب کے  بجائے  ادب برائے  زندگی کو فوقیت دی اور زندگی کو اس کے  اصل رنگ و روپ میں  پیش کرنے  کی سعی کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جذباتیت اور رومانیت کی جگہ عقل و شعور نے  لے  لی۔ دراصل ڈراما کا مقصد اب صرف ناظرین کی تفریح ہی نہیں  بلکہ ان میں  زندگی کا شعور بیدار کرنا بھی تھا جس کے  لئے  ڈراما میں  عام زندگی اور روزمرہ کے  مسائل کو بھی جگہ دی گئی تاکہ ڈراما کا استعمال صرف بطور تفریحی نہ ہو بلکہ اصلاحی بھی ہو۔ حقیقت پسندی کی اس تحریک کے  متعلق ذکر کرنا اس لئے  ضروری تھا کہ مذکورہ تحریک کے  رد عمل کے  طور پر جو تحریک چلی وہ اظہاریت (Expressionism) کہلائی جو جرمنی میں  بیسویں  صدی کے  آغاز میں  شروع ہوئی تھی۔ اظہاریت کی اصطلاح وضع کرنے  والا شخص جرمن زائیدہ جولیئن آگسٹ ہروے  (Julien Auguste Herve)  ہے  جس نے  اس اصطلاح کو سب سے  پہلے  مصوری اور شاعری میں  مستعمل کیا تھا۔ بعد میں یہ مقبول عام ہو کر ڈراما کو بھی متاثر کرتی ہے ۔ اظہاریت کے  معنی ہیں  کہ کوئی شخص دنیا کی کسی بھی چیز کو اپنے  ذاتی نظریے  سے  پیش کرتا ہے  تو وہ خاص اہمیت کی حامل ہوتی ہے  ، جس سے  کسی نئے  نظریے  کا جنم بھی ہوسکتا ہے  ۔ اظہار خیال کرنے  والے  کو جسمانی حقیقت کے  بجائے  جذباتی تجربات کو بھی پیش کرنے  کی آزادی ہونی چاہیے  تاکہ اس کے  تجربات و مشاہدات دوسروں  کے  کام آسکیں کیونکہ ہر ایک شخص زندگی کو مختلف زاویے  سے  دیکھتا ہے  اور اس مخصوص شخص کا زندگی کے  متعلق نظریہ نئے  تجربات و مشاہدات کو سامنے  لا سکتا ہے  اور عوام الناس اس کے  ذریعہ فائدہ اٹھا سکتے  ہیں  جو زندگی کو بہتر بنانے  میں  بھی مفید ہوگا۔

تھیٹر کی دنیا میں  اظہاریت (Expressionism) کی روایت کو لانے  والا شخص ارون پسکیٹر (Erwin Piscator) ہے  جو جرمنی کا ڈرامائی ہدایت کار اور پروڈیوسر تھا۔ پسکیٹر کا خیال تھا کہ تھیٹر کو سماجی ، سیاسی اور عوامی مسائل کے  حل کے  لئے  اس طرح استعمال کیا جائے  تاکہ تھیٹر عوامی گفتگوکا اسٹیج بن جائے  ۔اس ضمن میں  اس نے  ایک نئی تمثیلی ہیئت کو ایجاد کیا جس کو Epiches Theatre  یعنی ایپک تھیٹر (Epic Theatre) کے  نام سے  جانا جاتا ہے ۔ اپنے  اس تجربے  کو منظر عام پر لانے  کے  لئے  اس نے  سب سے  پہلے  ہیزک  کے  ناول “The good soldier schweik”  اور ٹالسٹائی کے  ناول “War and Peace”  کو بالترتیب  ۱۹۲۸؁ء اور  ۱۹۴۲؁ء میں  اسٹیج کیا۔ پسکیٹر ارسطو کے  ڈرامائی نظریات سے  قدرے  انحراف کرتے  ہوئے  ایک ایسے  تھیٹر کی بنیاد رکھنا چاہتا تھا جو وحدت زماں  و مکاں  کی قید سے  آزاد ہو اور جس میں  ناظرین کو مرکزی حیثیت حاصل ہو تاکہ وہ تفریح سے  ساتھ ہی غور و فکر کرنے  کے  بارے  میں  بھی سوچیں ۔ ڈرامے  اور تھیٹر کے  اس نئے  خیال کو عام کرنے  کے  لئے  پسکیٹر نے  ایک کتاب لکھی جس کا نام Das Politisch Theatre  (The Political Theatre) ہے ۔ ایپک تھیٹر کی دنیا میں  اس کتاب کو بہت اہمیت حاصل ہے  اور اب دنیا کی کئی اہم زبانوں  کے  اس کے  تراجم بھی کئے  جا چکے  ہیں ۔

ایپک تھیٹر کا موجد تو پسکیٹر ہے  لیکن اس کی ترویج و اشاعت میں  سب سے  نمایاں  نام بِرتھالت بِریخت (Bertolt Brecht)کا ہے ۔ جرمن نژاد بِریخت تخلیقی اسٹیج ہدایت کار اور عظیم ڈراما نویس ہونے  کے  ساتھ ہی بہت اچھا شاعر بھی تھا۔ اس نے  ڈراما کے  تعلق سے  ارسطوئی نظریات کی تردید کی اور ایک نئی تکنیک اور انوکھی تمثیلی ہیئت پر اپنے  نظریات کی بنیاد رکھی ۔ بِریخت نے  ایپک تھیٹر کی ایک ایسی مستحکم روایت قائم کی جو ڈراما کی دنیا میں  ایک نیا موڑ ثابت ہوئی۔ ارسطو کے  نظریۂ تزکیہ نفس یعنی کتھارسس (Katharsis) سے  بِریخت بالکل اتفاق نہیں  کرتا ہے  اس کا خیال ہے  کہ ناظرین کے  جذبات کو برانگیختہ کرنا ان کے  ساتھ انصاف نہیں  ہے  کیونکہ ایسا کرنے  سے  وہ ڈراما کے  غلام بن جاتے  ہیں  اور غور و فکر کی صلاحیت سے  محروم ہو کر ڈراما دیکھتے  ہیں ۔ بِریخت کا ماننا ہے  کہ ناظرین اور ڈراما کے  اداکاروں  کے  درمیان جو جذباتی ہم آہنگی پیدا ہو جاتی ہے  اس کو ختم کیا جائے ۔ اس کے  لئے  اس نے  مختلف قسم کے  آلات یا حربوں  کا استعمال کرنا ضروری سمجھا جسے ’ نظریۂ بے  تعلقی ‘یعنی Alienation Effect  کے  نام سے  موسوم کیا جاتا ہے ۔ بِریخت کا خیال یہ تھا کہ تھیٹر جادو کی طرح ناظرین کے  ہوش وحواس پر چھا جانے  والی چیز نہیں  جو انھیں  جامد کر دے  بلکہ تھیٹر زندگی کو حرکت دینے  کا نام ہے  اور زندگی کو متحرک کرنے  میں  اس کا نظریہ بہت معاون ثابت ہوا۔ بِریخت کے  نظریہ سے  روایتی تھیٹر کو کاری ضرب تو لگی لیکن تبدیلی چونکہ فطرت کا اصول ہے  اس لئے  بدلتے  وقت اور حالات کے  ساتھ ڈراما اور تھیٹر کی دنیا نے  بھی نئی کروٹ لی اور بِریخت جیسے  روایت شکن ڈراما نویس نے  ڈراما کے  ایک نئے  رخ سے  سامعین کو متعارف کرایا۔

نظریۂ بے  تعلقی کے  علاوہ بِریخت نے  ڈراما میں  المیہ اور طربیہ کی آمیزش کا بھی حامی ہے ۔ اس کا خیال ہے  کہ جب زندگی میں  غم اور خوشی برابر سے  موجود ہیں  تو ڈراما میں  اس قسم کی تقسیم کیا معنٰی رکھتی ہے ۔ اس نے  ڈراما کے  لئے  دونوں  عناصر کو ضروری بتایا ہے ۔ ایپک تھیٹر میں  حقیقت پسندی اور علامت نگاری دونوں  کا صناعانہ استعمال کیا گیا ہے  اور ان کی مدد سے  ڈراما کو اور بہتر بنانے  کی کوشش کی جاتی ہے ۔ بِریخت کے  تھیٹر کی ایک اہم بات یہ ہے  کہ ڈراما میں  پلاٹ اور کردار کی اہمیت میں  کچھ کمی دیکھنے  کو ملتی ہے  جبکہ ہدایت کار کا کردار ڈراما میں  زیادہ اہم ہے ۔ ایپک تھیٹر ہدایت کار کی فنی پختگی اور ذہنی پرواز کا ضامن ہے ۔ ہدایت کار جس فنی چابکدستی سے  پلاٹ کو اسٹیج پر پیش کرے  گا وہ اتنا ہی ناظرین کو متاثر کرتا ہے ۔ لہٰذا اداکاروں  اور پلاٹ کی اہمیت بھی تبھی مسلم ہوگی جب ڈراما ہدایت کار کے  ذہنی افق کو چھو لے  گا۔

ایپک تھیٹر کی خصوصیات کو سمجھنے  کے  لئے  چند بنیادی نکات کا جاننا ضروری ہے  جس سے  ایپک تھیٹر کو سمجھنے  میں  مدد مل سکے ۔ ایپک تھیٹر میں سماجی شعور اور معنویت کو قائم رکھتے  ہوئے  ماضی کے  کسی واقعے  یا کسی تاریخی واقعے  کو ڈراما کے  قالب میں  ڈھال دیا جاتا ہے ۔ اس میں  المیہ اور طربیہ کی آمیزش پر کوئی اعتراض نہیں  کیا جاتا ہے ۔ ڈراما میں  جو واقعات بیان کئے  جائیں  گے  وہ مختلف کڑیوں  میں  ہوں  گے  یعنی واقعات قصہ در قصہ ہوں  گے  اور اپنا مکمل وجود رکھیں  گے ۔ ڈراما کی ابتدا کورس کے  ذریعہ کی جاتی ہے  یا پھرکسی کردار کے  ذریعہ کوئی نظم پڑھی جاتی ہے  یا منظوم مکالمے  ادا کئے  جاتے  ہیں ۔ اپیک تھیٹر کے  کردار ناظرین سے  مخاطب ہوکر لمبی تقریریں  کرنے  سے  بھی احتراز نہیں  کرتے ۔ اسٹیج کے  تمام لوازمات ،اسٹیج پراپ (Stage prop) اور اسٹیج مشینری کو مسلسل ناظرین کی نظر کے  سامنے  رکھا جاتا ہے  تاکہ Alienation Effect اپنا کام کرتا رہے  اور ناظرین اداکاروں  یا قصہ کے  ساتھ جذباتی طور پر ہم آہنگ نہ ہو سکیں ۔ ایپک تھیٹر کی ایک خاص بات یہ ہے  کہ ڈراما نگار اختتام میں  خود کوئی فیصلہ صادر نہیں  کرتا بلکہ یہ عوام سے  فیصلے  کا مطالبہ کرتا ہے ۔ مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے  کہ ایپک تھیٹر ناظرین کو ڈراما دیکھنے  کے  ساتھ ہی اس کے  مرکزی خیال پر غور و فکر کرنے  کی بھی دعوت دیتا ہے  تاکہ ان کا ذہن وسیع پیمانے  پر موضوع یا ڈراما کے  نقطۂ نظر کے  متعلق کوئی فیصلہ کر سکے ۔

ڈراما ’آگرہ بازار‘ بھی ایپک تھیٹر کی روایت سے  موسوم ہے  اور اسے  اردو کے  شاہکار ایپک ڈراموں  میں  اعلیٰ مقام حاصل ہے ۔ حبیب تنویر ڈراما ’’آگرہ بازار‘‘  کے  پلاٹ کے  متعلق لکھتے  ہیں :

’’میں  نے  پڑھ رکھا تھا کہ نظیرؔ راہ چلتے  نظمیں  کہا کرتے ، اور چھوٹے  پیشے  والے  لوگ اور بھکاری اکثر ان سے  نظموں  کی فرمائش کرتے ، اور وہ ان کی بات کبھی نہ ٹالتے ۔ خواہ یہ افسانہ ہو یا حقیقت، مجھے  یہ بات بہت اچھی لگی، اس سے  میرے  ڈرامے  کو بہت مدد مل رہی تھی اور کلام نظیرؔ پڑھنے  کے  بعد میں  اس امر پر یقین لانے  کے  لئے  بالکل تیار تھا۔ چنانچہ ککڑی والے  کے  کردار نے  ڈرامے  کے  ہیرو کی شکل اختیار کر لی، اور یہاں  سے  مجھے  اپنے  پلاٹ کی بنیاد بھی مل گئی اور ڈرامے  کامنظر بھی، اور اس کا عنوان بھی!

پلاٹ کے  اعتبار سے  ڈراما افسانوی حیثیت رکھتا ہے ، کہانی من گھڑت ہے  اور بہت چھوٹی اور سیدھی سادی۔ میں  نے  زور اس بات پر دیا ہے  کہ ’کھیل‘ کو اس روپ میں  پیش کروں  کہ جو بنیادی بات نظیرؔ کے  بارے  میں  کہنا چاہتا ہوں ، وہ ٹھیک ٹھیک اور دلچسپی کے  ساتھ کہہ پائوں ۔‘‘  ۱؎

ڈراما ’آگرہ بازار‘ میں  حبیب تنویر نے  نظیرؔ کی زندگی کے  عوامی رخ پر روشنی ڈالتے  ہوئے  ان کی شخصیت کوشہر آگرہ کے  سماجی، سیاسی اور معاشی حالات کے  پس منظر میں  پیش کیا ہے ۔ ڈراما کی کہانی دو ایکٹ پر مشتمل ہے ۔ ’آگرہ بازار‘ کی ابتداء ’شہر آشوب ‘ سے  ہوتی ہے ۔ دو فقیر اسٹیج پر آتے  ہیں  اور شہر آشوب پڑھتے  ہیں ۔ اس ’شہر آشوب ‘سے  ہمیں  معلوم ہوتا ہے  کہ شہر کے  حالات بہت خراب ہیں ۔ سارے  کارخانے  بند ہیں ۔ دکانوں  میں  گاہکوں  کی کمی ہے ۔ غرض یہ کہ شہر کی اقتصادی زبوں  حالی کا نقشہ پوری طرح سے  ناظرین کے  سامنے  پیش کیا جاتا ہے ۔ ’شہر آشوب ‘کے  بعد ایک فقیر اسٹیج کے  دائیں  اور دوسرا اسٹیج کے  بائیں  جانب چلا جاتا ہے ، تب پردہ اٹھتا ہے ۔ پردہ اٹھنے  کے  بعد ناظرین کو آگرہ کے  ایک بازار کامنظر دکھائی دیتا ہے  لیکن بازار میں  جس قسم کی رونق ہونی چاہئے  وہ نہیں  دکھائی دیتی ہے  بلکہ سناٹا چھایا ہوا ہے  اور بازار کی کچھ دکانیں  بھی  بند دکھائی دیتی ہیں ۔ کتب فروش کی دکان پر کچھ گاہک کھڑے  کتابیں  دیکھ رہے  ہیں ۔ پتنگ فروش کی دکان بند دکھائی دیتی ہے  ۔اسٹیج پر تل کے  لڈو والا،تربوز والا، برف والا، ککڑی والا، کان کا میل صاف کرنے  والا اور پان والا باری باری اپنے  گاہکوں  کو آواز لگاتے  ہیں  لیکن بازار سے  گزرتا کوئی بھی شخص ان کی آوازوں  پر دھیان نہیں  دیتا۔ چھوٹے  بچے  حالانکہ خوانچوں  کی جانب للچائی ہوئی نظروں  سے  دیکھتے  ہوئے  خاموش گزر جاتے  ہیں ۔ تمام خوانچوں  میں  آپسی گفتگو کے  دوران یہ پتہ چلتا ہے  کہ ان کا کاروبار مندا چل رہا ہے ۔ اسی اثنا میں  ایک مداری بازار میں  داخل ہوتا ہے ۔ مداری کے  ذریعہ بندر کا تماشا دکھاتے  وقت جو مکالمے  ادا کئے  جاتے  ہیں  اس سے  آگرہ شہر کے  تاریخی حالات معلوم ہوتے  ہیں ۔ اس سے  ہمیں  نادر شاہ اور احمد شاہ ابدالی کے  دہلی پر حملہ کرنے  اور سورج مل جاٹ کے  آگرہ لوٹنے  پر پڑنے  والی افتاد کی داستان معلوم ہوتی ہے ۔ اس کے  بعد فرنگیوں  کا ہندوستان پر قبضہ اور پلاسی کی جنگ کا بھی ذکر ہوتا ہوا قحط بنگال پر ختم ہوتا ہے ۔ مداری جیسے  ہی اپنا تماشا ختم کرتا ہے  لوگ اس کے  بندر کو پیسہ دینے  کے  بجائے  وہاں  سے  جانا شروع کر دیتے  ہیں ۔ اسی دوران ککڑی والے  کی آواز سنائی دیتی ہے  جس پر مداری ککڑی والے  سے  ناراض ہو جاتا کہ اس کی وجہ سے  گاہکوں  نے  پیسے  نہیں  دیے  اور اس کی ککڑی کی ٹوکری اٹھا کر پھینک دیتا ہے  جس سے  اس کی ساری ککڑی زمین پر بکھر جاتی ہے ۔اس کے  بعد اس لڑائی میں  ایک کے  بعد ایک تمام سودے  والے  شامل ہو جاتے  ہیں اور سب کا نقصان ہوتا ہے ۔ اب اسٹیج پر فقیر آتے  ہیں  اور نظیرؔ کی نظم ’مفلسی‘ پڑھ کر چلے  جاتے  ہیں ۔ اس منظر کو دیکھنے  کے  بعد ناظرین سمجھ جاتے  ہیں  کہ لوگوں  کے  پاس کھانے  کے  پیسے  نہیں  ہیں  تو وہ مداری کے  تماشے  کے  لئے  پیسے  کہاں  سے  لائیں  گے ۔

اس تماشے  کے  بعد ککڑی والے  کو اپنی ککڑی بیچنے  کی ایک ترکیب سوجھتی ہے  جس کووہ اپنے  دل میں  رکھتا ہے  اور کسی سے  نہیں  بتاتا ہے ۔ دراصل ککڑی والے  کو یہ خیال آتا ہے  کہ اگر اس کی ککڑی پر کوئی نظم لکھ دی جائے  تو وہ بھی نظم گا کر ککڑی بیچ سکتا ہے ۔ اس کے  لئے  وہ ایک شاعر سے  درخواست کرتا ہے  لیکن شاعر اس کا مذاق اڑاتا ہے  ۔ اس کے  بعد شاعر کتب فروش کی دکان پر پہنچ جاتا ہے  اور اپنی کتاب چھپوانے  کی بات کہتا ہے  ۔جس پر اسٹیج پر دو فقیر آتے  ہیں  اور موقع کی مناسبت سے  نظم ’خوشامد‘ پڑھتے  ہیں  اور باہر چلے  جاتے  ہیں ۔ اس حصہ میں  کتب فروش، شاعر، ہمجولی اور تذکرہ نویس کی آپسی گفتگو سے  یہ بات ظاہر ہوتی ہے  کہ ککڑی، کھیرا ، تربوز ، ہولی ،دیوالی اور عید جیسے  مضامین پر نظمیں  کہنا ادب کے  دائرے  سے  خارج ہے  اور اس سے  زبان خراب ہوتی ہے ۔ وہ لوگ میر تقی میرؔ کا بھی ذکر کرتے  ہیں  کہ کس طرح وہ دلی سے  لکھنٔو کے  سفر میں  خاموش رہے  تاکہ ان کی زبان خراب نہ ہو۔ اس کے  بعد شاہ رفیع الدین کے  قرآن کے  ترجمے  سے  لے  کر فورٹ ولیم کالج میں  لکھی جا رہی داستانوں  کا بھی ذکر ان کی گفتگو میں  آتا ہے  اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے  کہ کلکتہ میں  ادبی مرکز بن رہا ہے  اور آئندہ مشاعرے  بھی کلکتہ میں  منعقد ہوں  گے ۔میر امن کا ’قصۂ چہار درویش‘ لکھنے  اور سورج مل جاٹ کا ان کے  گھرپر قبضہ کرنے  کے  قصے  کا بھی ذکر ہوتا ہے ۔ ان کی گفتگو سے  ناظرین کو معلوم ہوتا ہے  کہ اب چھاپے  خانے  کھل رہے  ہیں  اور دلی کالج کے  بھی جلد کھلنے  کی امید ہے ۔ تذکرہ نویس کے  مکالمے  کے  ذریعہ پتہ چلتا ہے  کہ دلی اجڑ چکی ہے  اور اب لوگ دکن یا لکھنٔو کی جانب ہجرت کر رہے  ہیں ۔اسی اثنا میں  ہندوئوں  کی ایک ٹولی آتی ہے  اور نظیرؔ کی نظم ’بلدیوجی کا میلہ‘ کا چند بند گاتی ہوئی چلی جاتی ہے ۔اس دوران ککڑی والا اپنی نظم لکھوانے  کی کوشش میں  مصروف نظر آتا ہے  لیکن اس کو کامیابی نہیں  ملتی۔ پھر بازار میں  نظیرؔ کی نواسی اچار خریدنے  آتی ہے  اور وہ اس اچار کو واپس کروا دیتے  ہیں  اور ساتھ میں  کچھ اشعار بھی ساتھ لکھ بھیجتے  ہیں  جو چوہوں  کے  متعلق ہوتا ہے  جن کو سن کر کتب فروش اور شاعر میں  گفتگو ہوتی ہے  جس سے  معلوم ہوتا ہے  کہ نظیرؔ کے  معیار کلام کو ادبی حلقہ میں  پسند نہیں  کیا جاتا ۔ ادبی اصناف قصیدہ اور مثنوی کی تعریف سے  معلوم ہوتا ہے  کہ کلاسیکی غزل اور اور شاعری کی دیگر اصناف کو بہت اہمیت حاصل ہے  اور ان سب کے  سامنے  نظیرؔ کے  کلام کی کوئی وقعت نہیں  ہے  ۔ حالانکہ ادبی حلقہ نظیرؔ کی صلاحیتوں  کا منکر نہیں  ہے  لیکن ان سے  ان کے  انداز کلام اور موضوع کلام کے  سبب سب خائف ہیں ۔

دوسرے  ایکٹ کی ابتداء نظیرؔ کی نظم ’بنجارا نامہ‘ سے  ہوتی ہے ۔ جس میں  ہم دیکھتے  ہیں  کہ شاعر، کتب فروش سے  اپنے  دیوان کی اشاعت کے  لئے  سفارش کروانے  کی التجا کرتا ہوانظر آتا ہے ۔ اس کے  بعد تذکرہ نویس، شاعر اور ہمجولی کی آپسی گفتگو ہوتی ہے  جس سے  معلوم ہوتا ہے  کہ وہ تینوں  بھی نظیرؔ کے  کلام کو معیاری شاعری میں  جگہ نہیں  دیتے ۔ کچھ دیر کے  بعد کتب فروش کی دکان میں  ایک لڑکا حمید آتا ہے  اور کتب فروش تذکرہ نویس کو بتاتا ہے  کہ اس لڑکے  کو بہت اچھے  اچھے  اشعار یاد ہیں  اور استادوں  کے  دیوان حفظ ہیں ۔ یہ سن کر تذکرہ نویس حمید سے  چند اچھے  اشعار سنانے  کی فرمائش کرتا ہے  جس پر حمید نظیرؔ کی ایک ایسی غزل سناتا ہے  جو معیاری ہوتی ہے  اورمقطع کے  اختتام پر شاعر حیرت زدہ رہ جاتا ہے  اور کہتا ہے :

’’شاعر: (بڑے  تعجب سے ) یہ میاں  نظیرؔ کی غزل ہے ؟

ہمجولی: بھئی کیا کہنے  ہیں ۔ ہمیں  میں  نظیرؔ کے  اس کلام کی خبر نہ تھی۔

کتب فروش: میاں  اگر آدمی زندگی بھر مشق کرتا رہے  تو ایک آدھ شعر ہی کسی کے  ہاں  نکل آئے  گا۔ اس میں  تعجب کی کیا بات ہے ؟ ہاں  میاں  کچھ اور سنائو۔

ہمجولی: پر صاحب استادوں  کی زمین کی غزل ہے ۔

کتب فروش: استادوں  کی زمین پر ہل چلانے  والے  گھٹیا شاعر بہت ملتے  ہیں ۔

ہمجولی: لیکن صاحب اس میں  کوئی شک نہیں  کہ غزل کا رنگ بہت شستہ اور منجھا ہو اہے ۔‘‘   ۲؎

جب کتب فروش، شاعر ، تذکرہ نویس اور ہمجولی اور ساتھ مل بیٹھتے  ہیں  تو لکھنؤ کی بات چلتی ہے  جس میں  انشاءؔ اور مصحفیؔ کی معرکہ آرائیوں  اور نوک جھونک کا ذکر ہوتا ہے ۔ اس کے  بعد پتنگ والا اپنی پسند کے  مطابق حمید سے  نظیرؔ کی نظم سننے  کی فرمائش کرتا ہے  جس پر حمید ’’تیراکی کا میلہ‘‘ نظم سناتا ہے ۔ اس نظم کے  اختتام پر تذکرہ نویس بغیر کچھ کہے  جھنجلاہٹ میں  اٹھ کر چلا جاتا ہے  اور مولوی صاحب اس کو خاموش کراتے  ہیں  کیوں کہ اس کی آواز اور نظیرؔ کی نظم سن کر بہت سارے  لوگ وہاں  جمع ہو جاتے  ہیں ۔ مولوی صاحب کہتے  ہیں  کہ کیا یہاں  مداری کا کھیل ہو رہا ہے  جو سب لوگوں  نے  ہجوم لگایا ہوا ہے ۔ کتب فروش بھی ناگواری کا اظہار کرتے  ہوئے  کہتا ہے  کہ ہمیں  کیامعلوم تھا کہ لڑکا بازاری کلام سنانے  لگے  گا ۔ حمید پتنگ کی دکان پر جاتا ہے  اور پتنگ مانگتا ہے  لیکن پتنگ والا پہلے  اس سے  نظیرؔ کی نظم سننے  کی فرمائش کرتا ہے  جس کے  پورا ہونے  پر ہی اسے  پتنگ ملتی ہے ۔ اس واقعہ سے  طبقاتی تضاد دیکھنے  کو ملتا ہے  اور یہ ثابت ہوتا ہے  کہ ایک طبقہ(معمولی کاروباری) تو نظیرؔ کے  کلام کو سننے  کا شائق ہے  اور دوسرا طبقہ(کتب فروش، شاعر و تذکر ہ نویس) اسی کلام کو حقیر جانتا ہے ۔

آگرہ بازار میں  دکانوں  کے  اوپر کوٹھا بھی ہے  جس میں  ایک تجارتی شخص منظور حسین کا ذکر ہوتا ہے  جو گھوڑوں  کی تجارت کرتا تھا اور کچھ دنوں  سے  اس کی ایسی حالت ہوگئی ہے  کہ وہ کسی کو پہچان نہیں  رہا ہے  اور نہ ہی کسی سے  کوئی بات کرتا ہے  بعد میں  معلوم ہوتا ہے  کہ وہ ایک طوائف پر عاشق ہے ۔ کوئی کہتا ہے  کہ دکن کی طرف گئے  تھے  وہاں  مال و اسباب لوٹ لیا گیا اس لئے  ایسی حالت ہو گئی ہے  اور کوئی کہتا ہے  کہ انھوں  نے  فقیری اختیار کر لی ہے ۔ غرض یہ کہ ان کے  متعلق قسم قسم کی باتیں  ہوتی ہیں ۔ اسی اثنا میں  کچھ لوگ نظیرؔ کی نظم ’’ ہولی کی بہاریں ‘‘ گاتے  ہوئے  جاتے  ہیں ۔پتنگ والا نظم سن کر کہتا ہے  کہ بتائو بینی پرساد ہولی پر اس سے  بہتر کوئی نظم ہو سکتی ہے  ؟ اور پھر وہ اس نظم کے  حسن بیان کا ذکر کرتا ہے ۔

اس واقعہ کے  بعد دو سپاہی آتے  ہیں  اور کوٹھے  سے  کسی شخص کے  نکلنے  کا انتظار کرتے  ہیں ۔ اتنے  میں  مداری آتا ہے  اور نظیرؔ کی نظم ’’ریچھ کا بچہ‘‘  گاتا ہے ۔ پھرنظیرؔ کی نواسی اسٹیج پر آتی ہے  اور پتنگ والے  کو ایک کھلونا دکھاتے  ہوئے  کہتی ہے  کہ وہ یہ لینے  گئی تھی۔ اس پر پتنگ والا کہتا ہے  کہ تم نے  نانا سے  پیسے  لئے  ہوں  گے  لیکن وہ بتاتی ہے  کہ نانا پیسے  کو ہاتھ تک نہیں  لگاتے  ہیں  اور ایک رومال میں  باندھ کر کونے  میں  پھینک دیتے  ہیں  میں  نے  وہیں  سے  پیسے  لئے  ہیں ۔ اس واقعہ سے  نظیرؔ کی سادہ لوحی کا پتہ چلتا ہے  کہ انھیں  دولت سے  کوئی غرض نہیں  ہے ۔

 بعدازاں  پتنگ والے  کے  پاس ککڑی والا جاتا ہے  اور اس سے  نظیرؔ کا پتہ معلوم کرتا ہے  اور یہ بتاتا ہے  کہ اسے  نظیرؔ کے  ککڑی پر دو چار اشعار لکھوانے  ہیں ۔ پتنگ والا اس کو بتاتا ہے  کہ اس کام کے  لئے  نظیرؔ سے  بہتر اور کوئی شاعر نہیں  ہے  اور وہ ککڑی والے  کو ان کے  گھر کا پتہ بتاتا ہے ۔ ککڑی والے  کے  جانے  کے  بعد ایک اجنبی، کتب فروش کی دکان پر ’کلام ناسخ‘ مانگتا ہے  جس کو سن کر کتب فروش غصہ میں  کہتا ہے  کہ ناسخ ؔکل کے  چھوکرے  ہیں  اور ابھی ابھی شعر کہنا شروع کیا ہے  ان کا مجموعہ کہاں  سے  آئے  گا اور وہ بہت ناراضگی کا اظہار کرتے  ہوئے  کہتا ہے  کہ اگر ان کا کلام اتنا ہی سننے  کا شوق ہے  تو لکھنؤ چلے  جائیے  وہاں  سنئے ۔ غرض یہ کہ ہمیں  معلوم ہوتا ہے  کہ ناسخؔ نے  ابھی شاعری شروع کی ہے  جس کی وجہ سے  لوگ انھیں  ابھی کہنہ مشق شاعر نہیں  سمجھتے  اور ان کی ادبی دنیا میں  کوئی حیثیت بھی نہیں  ہے ۔

اس کے  بعد کتب فروش کی دکان پر گنگا پرشاد آتے  ہیں  جو کہ سرمایہ دار ہیں  اور اردو میں  اخبار، رسائل اور کتابیں  چھپواتے  ہیں ۔ وہ شاعر صاحب کا ذکر کرتے  ہیں  کہ انھیں کتب فروش نے  کتاب چھپوانے  کے  سرمایہ کے  لئے  کیوں  بھیجا تھا جس پر کتب فروش کہتا ہے  کہ ان کو سرمایہ کی تلاش تھی اور آپ سے  بہتر سرمایہ کہاں  ملتا۔ گنگا پرشاد تب بتاتے  ہیں  کہ وہ اب اردو اور فارسی کی کتابوں  اور اخباروں  پر سرمایہ صرف نہیں  کریں  گے  کیوں  کہ ان کو پڑھنے  والا کوئی نہیں  ہے ۔ ان کا خیال تھا کہ وہ وطن چھوڑ کر دہلی جائیں  گے  اور وہاں  سے  انگریزی میں  اخبار نکالیں  گے  ۔ یہاں  یہ بات واضح ہوتی ہے  کہ فارسی کے  ساتھ ساتھ اردو کے  قاری بھی رفتہ رفتہ کم ہو رہے  ہیں  اور کاروباری طبقہ جو اردو یا فارسی زبان وادب سے  منسلک ہے  وہ بھی اردو پر کوئی خاص توجہ نہیں  دے  رہا ہے ۔ بدلتے  ہوئے  ادبی وسماجی ماحول میں  تہذیب کی تبدیل ہوتی صورت حال کو حبیب تنویر نے  بہت ہی سادہ لیکن پر کشش انداز میں  پیش کیا ہے ۔

تھوڑی دیر کے  بعد سپاہی آتا ہے  اور ایک دن پہلے  ہوئے  جھگڑے  پرشہدے  کو گرفتار کرتا ہے  جس پر ایک شہدا احتجاج کرتا ہے  لیکن سپاہی اس کی کوئی بات نہیں  سنتا ہے  اور سپاہی اس کو پکڑ کر لے  جاتے  ہیں ۔ اس کے  بعد ککڑی والا آتا ہے  اور ککڑی پر نظیرؔ نے  جو نظم لکھی اس کو گا کر ککڑی بیچنا شروع کر دیتا ہے ۔ دوسری طرف سے  تربوز والاآتا ہے  اور تربوز پر اشعار پڑھتے  ہوئے  گاہکوں  کو آواز لگاتا ہے  اور ساتھ ہی لڈو والا بھی لڈو کواشعار کے  ساتھ ہی گا کر بیچتا ہے ۔

اس کے  بعد داروغہ طوائف بے  نظیر کے  کوٹھے  پر جاتا ہے  اور وہ اس کی خاطر کرتی ہے ۔ وہاں  منظور حسین کو دیکھ کر داروغہ پوچھتا ہے  کہ کیاوہ اس کا عاشق ہے  تو وہ ہاں  میں  جواب دیتی ہے  اور اس کی فقیری کے  قصہ سناتی ہے ۔ اتنے  میں  چار فقیر اسٹیج پر آتے  ہیں  اور نظیر ؔ کی نظم ’آدمی نامہ‘ گاتے  ہیں  ۔ نظم ’آدمی نامہ‘ اس بات کو ثابت کرتی ہے  کہ دنیا میں  ہر قسم کے  آدمی موجود ہیں  اور سب ہی انسان ہیں  اس لئے  تمام انسانوں  میں  برابری ہونی چاہیے ۔کورس کے  ذریعہ ناظرین کی توجہ انسانیت اور انسان کی اہمیت کی جانب مبذول کرانے  کی کوشش ڈراما نگار نے  بہت ہی فنکارانہ انداز میں  کی ہے ۔ رفتہ رفتہ سارے  فنکار اس نظم کی پیشکش میں  شامل ہوجاتے  ہیں ۔ اسی نظم کے  ساتھ ڈراما کا اختتام ہوتا ہے ۔

پلاٹ کے  مطالعہ سے  اندازہ ہوتا ہے  کہ ’’آگرہ بازار‘‘ میں  حبیب تنویر نے  تاریخی شعور سے  کام لیا ہے ۔ اس دور کی تاریخ کو مختلف طبقے  کے  لوگوں  کو اسٹیج پر لاکر مستند کرنے  کی کوشش کی ہے  اور اس میں  وہ بہت کامیاب بھی ہوئے  ہیں ۔ نظیرؔ چونکہ عوامی شاعر ہیں  اس لئے  عوامی زندگی کو اسٹیج پر پیش کرنے  سے  نظیرؔ کی زندگی کی بہت ساری جھلکیاں  خود بخود دکھائی دیتی ہیں ۔’آگرہ بازار‘ کے  پلاٹ میں  پورے  طور سے  ہمیں  کچھ سماج کے  ہر طبقے  کے  کردار نظر آتے  ہیں ۔ اس میں  مختلف قصوں  کو اس طرح پرویا گیا ہے  کہ قصہ در قصہ پلاٹ آگے  بڑھتا جاتا ہے ۔ پوری کہانی میں  ہمیں  معاشرے  کے  مختلف پہلو ئوں  کے  منفرد رنگ دیکھنے  کو ملتے  ہیں ۔ ہر رنگ کے  کردار ، ہر طبقے  کی خصوصیت،ہر انسان کی سوچ اور ساتھ میں  نفسیات مل کر ڈراما کو مکمل بنانے  میں  مدد کرتی ہے ۔ اس طرح ڈراما کا کینوس بہت وسیع ہو جاتا ہے  اور اس وسیع کینوس پر ہمارے  معاشرے  کا وہ عکس دکھائی دیتا ہے  جس کو دیکھ کر مکمل تاریخ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔

’آگرہ بازار‘ میں  جس طرح مسلسل تبدیل ہوتے  ہوئے  معاشر ے  کا عکس نظر آتا ہے  اس کو دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے  کہ اگر اس بدلتے  ہوئے  معاشرے  کو منظر عام پر نہ لایا جاتا تو نظیرؔ کے  کلام کی تشریح نہیں  ہو سکتی تھی۔نظیرؔ کا کلام اس بدلتی ہوئی تہذیبی، سماجی و سیاسی کہانی کے   ہمقدم نظر آتا ہے ۔دوسری طرف معاشرے  میں  کچھ ایسے  لوگ بھی ہیں  جنھیں  کسی بھی چیز میں  کسی بھی قسم کی کوئی تبدیلی پسند نہیں  آتی ہے ۔ یہی وجہ ہے  کہ وہ لوگ کلام نظیرؔ کو بھی حقارت کی نظر سے  دیکھتے  ہیں ۔ نظیرؔ کی شخصیت ان کی شاعری سے  قائم ہے  اور ان کی شاعری کا عوامی رنگ تبھی پوری آب و تاب کے  ساتھ سامنے  آسکتا تھا جب کہ ان عوامی روایات کو اسٹیج پر پیش کیا جائے ۔ جیسا کہ ما قبل میں  عرض کیا جا چکا ہے  کہ ایپک تھیٹر کرداروں  سے  زیادہ ڈراما نویس کے  تخیل اور اس کے  ذہنی افق کے  مطابق کام کرتا ہے  لہذا مذکورہ ڈراما میں  بھی کرداروں  کے  ذریعہ حبیب تنویر نے  ایک ایسا سماں  باندھنے  کی کوشش کی ہے  جس میں  ہم نہ صرف نظیرؔ کی زندگی اور ان کے  کلام کے  مختلف پہلوئوں  کو دیکھ اور سمجھ سکتے  ہیں  بلکہ اس تاریخی دور میں  مسلسل ہوتے  ہوئے  تغیر و تبدل کی داستان کو محسوس کر سکتے  ہیں  اور خود فیصلہ کرسکتے  ہیں  کہ کیا صحیح ہو رہا ہے  اور کیا غلط۔ یعنی پلاٹ کے  لحاظ سے  ڈراما ایپک تھیٹر کے  تقاضے  کو پورا کرتا نظر آتا ہے ۔

ڈراما میں  حبیب تنویر نے  جتنے  بھی موضوعات کو پیش نظر رکھا ہے  وہ سبھی سماجی معنویت کے  حامل ہیں ۔ سماج کے  ہر ایک حصہ کو اور مختلف طبقے  کے  لوگوں  کو اسٹیج پر ایک ساتھ پیش کرنا مشکل کام تھا اس کام کو پورا کرنے  کے  لئے  حبیب تنویر نے  جس مقام کا انتخاب کیا وہ ہے  آگرہ کا ’کناری بازار‘ہے  جہاں  مختلف قسم کے  لوگ موجود ہوتے  ہیں  تاکہ اس دور کی تصویر کشی با آسانی ہو سکے ۔ مرزا ہادی رسواؔ نے  بھی ناول ’’امرائو جان ادا ‘‘میں  طوائف کے  کوٹھے  کو مرکز بنا کر لکھنوی تہذیب کے  زوال کی جو تصویر کشی کی تھی اسی تکنیک پر حبیب تنویر نے  بھی آگرہ کے  ایک بازار کو مرکز بنا کر اپنا مقصد پورا کیا جہاں  ہمیں  نہ صرف ایک شاعر کے  کلام کو سمجھنے  میں  مدد ملتی ہے  بلکہ واضح پس منظر سامنے  ہونے  کی وجہ سے  اس کی اہمیت اور افادیت بھی ثابت ہوتی ہے ۔ اس ضمن میں  حبیب تنویر رقم طراز ہیں :

’’میں  ڈرامے  کی بنیاد نظیرؔ کی زندگی کو نہیں ، بلکہ اس کے  کلام کو بنانا چاہتا تھا۔ ڈراما لکھنے  کے  دوران یہ بات بھی ذہن میں  آئی کہ نظیرؔ کو اسٹیج پر نہ لانا ہی بہتر ہوگا۔ اس سے  نہ صرف میرے  موضوع کے  بہت سے  مرحلے  طے  ہوگئے ، بلکہ میری تکنیک پر بھی اس کا اچھا اثر پڑا، اور تکنیک اور موضوع کا گھتائو بڑھ گیا۔‘‘   ۳؎

 ’’آگرہ بازار‘‘ کے  کرداروں  کی بات کریں  تو ڈراما کے  کردار دو حصوں  میں  تقسیم کئے  جا سکتے  ہیں ۔ ایک دانشور طبقہ اور دوسرا عام انسانوں  کا طبقہ۔ دانشور طبقے  میں  شاعر، ادیب، کتب فروش، تذکرہ نویس اور اخبار کے  مالک جیسے  لوگ شامل ہیں  جو باشعور ہیں  اور دوسرا وہ طبقہ ہے  جو ہر چیزسے  لا علم ہے  اور اس کے  لئے  روزی روٹی کا مسئلہ سب سے  اہم ہے ۔ ڈراما کے  کردار انسانی زندگی کے  تضادات کو بخوبی پیش کرتے  ہیں  بالخصوص دانشور طبقے  کی منافقت اور تعصب کی تصویر کشی حبیب تنویر کے  بخوبی کی ہے ۔ دانشور طبقہ سماج کے  تبدیل ہوتے  منظر نامے  سے  خوفزدہ نظر آتا ہے  اور تبدیلیاں  اس کو پسند نہیں  آتی ہیں  مثال کے  طور پر نظیرؔ کا انداز کلام انھیں  بالکل نہیں  بھاتا کیونکہ وہ روایتی شاعری کے  خلاف ہے ۔چنانچہ ہمیں  کتب فروش، شاعر نما آدمی اور تذکرہ نویس کے  درمیان ہونے  والی گفتگو سے  ان کے  کھوکھلے  پن کا اندازہ ہوتا ہے ۔ وہ انھیں  اقدار کو اب تک سینے  سے  لگائے  نظر آتے  ہیں  جن کی روح پرواز کر چکی ہے  لیکن اس کے  باوجود وہ انھیں  اقدار کا دامن پکڑے  ہوئے  ہیں  اور ہر نئی چیز انھیں  ناگوار گزرتی ہے ۔دانشور طبقہ یہ بخوبی جانتا ہے  کہ اب پرانے  اقدار کی پاسداری سے  کوئی فائدہ نہیں  ہے  لیکن وہ یہ حقیقت قبول کرنے  کے  لئے  بالکل تیار نہیں  ہے  ایک مثال ملاحظہ فرمائیں :

’’تذکرہ نویس: اب یہ زمانہ دیکھئے  کہ کتب خانوں  سے  فارسی کی کتابیں  عنقا ہو رہی ہیں ۔ نثر بھی اردو میں  ہی لکھی جاتی ہے ، پھر کوئی کیا تذکرہ لکھے  اور کس کے  لئے ؟

کتب فروش: خوب یاد آیا۔ میاں  نظیرؔ کے  ایک شاگرد حال ہی میں  میرے  پاس آئے ، ان کی ایک نظم ’لیلیٰ مجنوں ‘ لے  کر کہ میں  اسے  اپنے  رسوخ سے  شائع کروا سکتا ہوں ۔ اب بھلا بتائیے ، کون پڑھے  گا میاں  نظیرؔ کا کلام!

شاعر: صاحب ایک زمانہ آنے  والا ہے  کہ یہی بازاری چیزیں  چلیں  گی۔ ہولی یا دیوالی پر کچھ تک بندی کر لیجئے ، علم و فضل کی معراج پر پہنچ جائیے  گا! یہ تو ذوق کا عالم ہے  آج کل! ابھی ابھی یہ ککڑی بیچنے  والا میرے  پاس دوڑا ہوا آیا اور کہنے  لگا صاحب میری ککڑی پرنظم کہہ دیجئے ۔ اب بھلا بتائیے ۔‘‘   ۴؎

مندرجہ بالا اقتباس سے  واضح ہوتا ہے  کہ ککڑی بیچنے  والا شاعر سے  نظم لکھوا کر ککڑی بیچنے  کا خواہشمند ہے  کیونکہ وہ جانتا ہے  کہ بدلتے  ہوئے  معاشرے  میں  کچھ نیا کام کرکے  ہی روزی روٹی کمائی جا سکتی ہے  لیکن دانشور طبقہ کسی قسم کی تبدیلی کو قبول نہیں  کرتا ہے ۔ ککڑی والا، تربوز والا، لڈو والا،مداری یہ سبھی ایسے  کردار ہیں  جو زوال آمادہ سماج میں  اپنا وجود بچانے  کی کوشش میں  جدو جہد کرتے  نظر آتے  ہیں ۔ ان میں  سے  ہر ایک اپنے  کام کے  لئے  کوشاں  ہے  اور لگن و محنت کے  ساتھ آگے  بڑھتا نظر آتا ہے ۔ یہ سبھی کردار متحرک ہیں  اور تبدیلی کو سمجھتے  ہوئے  اپنے  اپنے  کاموں  میں  مصروف ہیں ۔ دوسری جانب دانشور طبقہ افراتفری اور رجعت پسندی کا شکار دکھائی دیتا ہے  جس سے  معلوم ہوتا ہے  کہ یہ ایک زوال پذیر معاشرہ ہے ۔ شاعر، کتب فروش، تذکرہ نویس اور ہمجولی ایسے  کردار ہیں  جو وقت کا رخ پیچھے  کی جانب موڑنا چاہتے  ہیں  جو کہ ناممکن ہے ۔ یہ طبقہ اپنے  ذہنوں  کے  دروازے  بند کر چکا ہے  اور صرف نئے  زمانے  کے  عیوب تلاشنے  میں  مصروف نظر آتا ہے ۔ یہ لوگ صرف بحث کرتے  ہیں  اور گزرے  زمانے  کی باتیں  یاد کرنا ان کا کام رہ گیا ہے ۔یہ سبھی کردار جامد کردار ہیں  اور اپنی جگہ ٹھہرے  ہوئے  نظر آتے  ہیں ۔ان کرداروں  میں  مرکزی کردار ککڑی والے  کا ہے ۔ ککڑی والے  کا تعلق تو سماج کے  نچلے  طبقے  سے  ہے  لیکن اس کردار کے  ذریعہ حبیب تنویر نے  ایک ایسے  متحرک کردار کو ڈراما کا حصہ بنایا ہے  جو مسلسل جد و جہد میں  مصروف نظر آتا ہے ۔ جب اس کے  ذہن میں  یہ خیال آتا ہے  کہ اگر ککڑی پر نظم لکھواکر ککڑی فروخت کی جائے  تو آمدنی زیادہ ہو سکتی ہے  اس وقت سے  وہ نظم لکھوانے  کے  کوشش میں  لگا رہتا ہے  اور آخر تک ہار نہیں  مانتا ہے  اور بالآخر اسے  نظیرؔ کے  گھر کا پتہ حاصل ہو جاتا ہے  اور وہ ان سے  نظم لکھوا کر بازار واپس آتا ہے  اور ککڑیاں  بیچنا شروع کر دیتا ہے ۔ اس طرح یہ کردار ابتداء سے  اختتام تک ڈراما کا اہم حصہ بنا رہتا ہے  اور سماجی تبدیلی کے  ساتھ چلتا ہوا نظر آتا ہے ۔’آگرہ بازار‘ کے  سبھی کردار اپنی سماجی معنویت رکھتے  ہیں  جیسے  جیسے  معاشرے  میں  تبدیلی آتی ہے  وہ بدلتے  جاتے  ہیں ۔ چونکہ ڈراما میں  ایک زوال پذیر سماج کی عکاسی کی ہے  جس میں  ہر فرد کے  لئے  یہ ضروری ہے  کہ وہ خود کو زندہ رکھنے  کی جد و جہد کرے ۔ ڈراما کے  آخرآخر میں  ہم دیکھتے  ہیں  کہ ککڑی والا، تربوز والا، لڈو والا، پتنگ والا وغیرہ سبھی کردارجو ابتداء میں  ایک دوسرے  کے  مسائل میں  الجھے  ہوئے  دکھائی دیتے  تھے  بعد میں  وہ سبھی اپنے  کام سے  کام رکھتے  دکھائی دیتے  ہیں ۔اسی طرح کتب فروش، تذکرہ نویس، ہمجولی اور شاعر نما آدمی جو ابتداء میں  تعصب، تنگ نظری اور جہالت کی علامت نظر آتے  ہیں  وہ سب بھی تبدیلی کو نہ چاہتے  ہوئے  بھی قبول کرتے  نظر آتے  ہیں  مثلاً تذکرہ نویس فارسی کے  بجائے  اردو میں  تذکرہ لکھنے  کی بات کہتا ہے ۔ اخبار کا مالک اردو کے  بجائے  انگیزی میں  اخبار نکالنے  کا ذکر کرتا ہے ۔ غرض یہ کہ سماجی تبدیلی ہر طبقے  پر اثر انداز ہوتی ہوئی معلوم ہوتی ہے ۔

التباس حقیقت کو توڑنے  کے  لئے  حبیب تنویر نے  ان تمام طریقوں  کا استعمال کیا ہے  جو ایپک تھیٹر کی روایت سے  منسوبب کئے  جاتے  ہیں ۔ اس ضمن میں  ڈراما نگار نے  سب سے  زیادہ نظیرؔ کی نظموں کا  استعمال کیا ہے  جو جذباتی ہم آہنگی کو ختم کرنے  میں  کامیاب ہوئی ہیں  ساتھ ہی ناظرین کو غور و فکر کی دعوت بھی دیتی ہیں ۔ ناظرین کو حقیقت کی دنیا سے  جوڑے  رکھنے  کے  لئے  وقفہ وقفہ سے  کورس کے  ذریعہ نظیرؔکی نظموں  کی پیشکش جہاں  ایک طرف زندگی کے  تلخ حقائق کی عکاسی کرتی ہیں  وہیں  دوسری جانب کسی واقعے  پر تنقیدی نظر ڈالنے  کے  لئے  ناظرین میں  تحریک پیدا کرتی ہیں ۔ مثلاً ڈراما کی ابتداء کورس سے  ہوتی ہے  جس میں  چند فقیر اسٹیج پر آ کر نظم ’شہر آشوب‘ پڑھتے  ہیں  جس سے  تماشائی یہ اندازہ لگا سکتے  ہیں  کہ پردہ اٹھنے  کے  بعد کسی ایسے  شہر کا منظر سامنے  آسکتا ہے  جس کے  حالات ناساز ہیں ۔ اسی طرح جب شاعر کتب فروش سے  اپنا دیوان شائع کرانے  کی سفارش کرتاہے  تو اس موقع کی مناسبت سے  نظم ’خوشامد‘ پڑھی جاتی ہے  جس سے  ناظرین کی ساری توجہ اس واقعے  پر غور کرنے  کی طرف مرکوز ہو جاتی ہے ۔

کورس کے  بارہا سامنے  آنے  سے  ناظرین پر یہ بات واضح ہو جاتی ہے  کہ وہ تھیٹر میں  بیٹھ کر ماضی میں  گزرا کوئی واقعہ کرداروں  کی اداکاری کے  ذریعہ دیکھ رہے  ہیں  جس میں  زندگی کی تلخ حقیقت شامل ہے ۔ یہ احساس ہی التباس حقیقت کو توڑتاہے  اور کرداروں  سے  جذباتی ہم آہنگی پیدا نہیں  ہونے  دیتا اور اس طرح تماشائی بنا محو تماشا ہوئے  بیدار ذہن کے  ساتھ ڈراما دیکھتے  ہیں  اور غور و فکر کرکے  نتائج اخذ کرنے  کی بھی کوشش کرتے  ہیں ۔

مجموعی طور پر ’آگرہ بازار‘ کو ایک کامیاب ایپک ڈراما کہا جا سکتا ہے ۔ اردو میں ایپک تھیٹر کی روایت کو تقویت بخشنے  میں  مذکورہ ڈراما نے  ناقابل فراموش کردار ادا کیا ہے ۔ڈراما کے  تاریخی واقعات کے  مستند ہونے  پر چند ناقدین نے  سوال اٹھائے  ہیں  اور نشاندہی کی ہے  کہ تاریخی اعتبار سے  اس میں  غلطیاں  پائی جاتی ہیں  لیکن میرا خیال یہ ہے  کہ ’آگرہ بازار‘ کوئی تاریخی دستاویز نہیں  بلکہ ایک ڈراما ہے  اور ڈراما کے  واقعات کے  لئے  ضروری نہیں  وہ سو فیصد حقائق پر مبنی ہوں ۔خود ڈراما نگار نے  بھی ڈراما کے  مقدمے  میں  اس بات کو قبول کیا ہے  کہ کہانی من گھڑت ہے  لہٰذا قصہ کے  تاریخی طور سے  مستند ہونے  پر سوال اٹھاناغیر ضروری عمل معلوم ہوتا ہے ۔ حبیب تنویر کی پوری توجہ نظیرؔ اکبر آبادی کی شخصیت کو پیش کرنے  کی تھی لہٰذا انھوں  نے  نظیرؔ کی شاعری اور شخصیت کو ذہن میں  رکھ کر ہی ڈراما ہی تخلیق کیا ہے ۔ ڈراما میں  اصل چیز اس کا فن ہوتا ہے  واقعات کچھ بھی ہوں  فنی اعتبار سے  ڈراما کامیاب ہونا چاہیے ۔ایپک تھیٹر کی روایت پر ’آگرہ بازار‘ پورا اترتا ہے  اور اس لحاظ سے  ’آگرہ بازار‘ ایک کامیاب ڈراما ہے ۔

حواشی:

۱؎: حبیب تنویر، دورنگ،صفحہ: ۳۶۔۳۷، ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، دہلی،سنہ اشاعت ۲۰۰۵؁ء

۲؎: حبیب تنویر، دورنگ،صفحہ: ۹۰، ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، دہلی،سنہ اشاعت ۲۰۰۵؁ء

۳؎:حبیب تنویر، دورنگ،صفحہ: ۳۸، ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، دہلی،سنہ اشاعت ۲۰۰۵؁ء

۴؎:حبیب تنویر، دورنگ،صفحہ: ۷۱، ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، دہلی،سنہ اشاعت ۲۰۰۵؁ء

***

Safina Samavi, Research Scholar, Department of Urdu, University Of Allahabad, Email:safinascholarurdu.au@gmail.com, Ph. no. 8840047307, Postal Address: B-213, G.T.B. Nagar, Kareli, Allahabad, Pin: 211016

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.