جدید اردو افسانے  میں  تقسیم ہند کا المیہ

سید واصفہ غنی

ریسرچ اسکالر، شعبہء اردو

ایس۔ پی۔ جین کالج، سہسرام۔ ۸۲۱۱۱۵

موبائل:۔ 8969276117

Email: wasifaghani14@gmail.com

                ہندوستا نی تاریخ میں  تقسیم ہند کاسال خصوصی اہمیت کا حامل ہے ۔ ۱۹۴۷ ؁؁؁ ء میں ہندوستان کومدتوں  بعد غلامی کی زنجیروں  سے  رہائی میسر تو ہوئی تھی مگر ساتھ ہی تقسیم ہند کے  واقعات نے  ایک عجیب سوگوار فضا قائم کر دی تھی۔ غم و غصہ کا عالم یہ تھا کہ انسان نیک و بد کی تمیز بھول بیٹھا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ صبح آزادی اپنے  دامن میں  خون و خرا بہ، ہجرت و فسادات، مذہبی منافرت اور انسانیت سوز واقعات لے  کر آئی تھی۔

                تقسیم ہند کا واقعہ بذات خود ایک عظیم سانحہ تھا، ساتھ ہی اس کا شدید رد عمل فسادات کے  طور پر سامنے  آیا اور قتل و غارت گری کی وہ داستان رقم ہوئی جن سے  تاریخ کے  اوراق چھلنی ہیں ۔ یہی و  جہ ہے  کہ فیض نے  اس’’ شب گزیدہ سحر ‘‘ کہا ہے ۔

ٍٍ          ایک قوم کے  لوگ دوسری قوم کے  لوگوں  کی عزت اور خون کے  پیاسے  ہوگئے  تھے ۔ ایک طرف ہندوستان مین بس رہے  مسلمان اپنا گھر اپنی جائداد یہاں  تک کہ اپنے  عزیزواقارب کو چھوڑ کر پاکستان ہجرت کر رہے  تھے ، دوسری جانب پاکستانی خطے  میں  بس رہے  ہندواورسکھ جائے  پناہ ڈھونڈنے  کے  لیے  عجلت میں  ہندوستان کا رخ کر رہے  تھے ۔

                ایسے  نازک حالات کا اثر انسانی زندگی کے  تمام شعبوں  میں  نظر آیا۔ ادب کے  میدان میں  بھی اس کے  گہرے  اثرات نظر آئے ۔ نظم ہویا نثر، ناول ہو، یا افسانے ، تقسیم و فسادات پر لکھنے  کا ایک سلسلہ چل نکلا۔ ہمارے  ادیب اپنے  قلم سے  ان پر خوں  داستان کو نہ صرف قلم بندکر رہے  تھے  بلکہ اپنی تحریروں  سے  ذہن سازی کا کام بھی کر رہے  تھے ۔ تقسیم ہند کے  مسائل پر لکھنے  والوں  میں  کرشن چندر ، سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی ، راجندر سنگھ بیدی حیات اللہ انصاری، قرۃالعین حیدر، رام لعل، خواجہ احمد عباس، احمد ندیم قاسمی وغیرہ اور بھی کئی نام ہیں ۔

                یوں  تو ۴۷ ۱۹؁سے  لے  کر۵۵ء تک ہجرت وفسادات سے  متعلق افسانوں  کی بہتات دیکھنے  کو ملتی ہے ۔ مگرچوں  کہ تقسیم ہند کا زخم اتناگہراہے  کہ ان زخموں  سے  آج بھی خون رس رہا ہے ۔اس لئے  گاہے  بگاہے  اس موضوع پر خامہ فرسائی ہوتی رہی ہے ۔ چونکہ ہماراموضوع ’’جدید اردو افسانے  میں  تقسیم ہند کا المیہ‘‘ ہے  اس لئے  ہم یہاں  ان ہی افسانوں  کا جائزہ لیں  گے  جو جدید افسانہ نگاروں  کے  ذریعہ یا جدید افسانے  کے  عروج کے  وقت میں  لکھے  گئے  ہیں ۔

                جلاوطن:۔                جلا وطن  افسانہ میں  قرۃالعین حیدر نے  ٹوٹتے  بکھرتے  خاندان کی تصویر پیش کی ہے ۔ تقسیم نے  محض ملک کابٹوارہ نہیں  کیا تھا۔ رشتوں  کا بھی بٹوارہ کر دیا تھا۔ ایک گھر کے  باپ بیٹا الگ الگ ملکوں  کا حصہ بن  گئے  تھے ۔ ایک بیمار اور مجبور باپ جو نہ ملک کا بٹوارہ چاہتا تھا نہ ہنداستان چھوڑ کر پاکستان میں  بسنا چاہتا تھا۔ مگر اس کا بیٹا نہ صرف پاکستان ہجرت کر گیا بلکہ پاکستانی فوج میں  میجر بھی ہو گیا تھا۔ ایسے  میں  ان کے  اپنے  ہی وطن میں  ان کی حیثیت مشکوک ہو گئی تھی ۔ ایک تو اولاد کی جدائی کا غم اس پر سے  پولیس والے  کی آئے  دن کی تفتیش۔ان کی بیٹی جو والد کی علالت کے  سبب یہیں  رہ گئی تھی ورنہ وہ بھی پاکستان چلی جانا چاہتی تھی والد کی پریشانی دیکھ کر رنجیدہ ہو گئی تھی۔

                 ’’سارا جون پورعمر بھر سے  واقف ہے  کہ بابا کتنے  بڑے  نیشنلشٹ تھے ۔ تب بھی پولیس پیچھا نہیں  چھوڑتی۔ سارے  حکام اور پولیس والے  جن کے  سنگ جنم بھر کا ساتھ کا اٹھنا بیٹھنا تھا،  وہی اب جان کے  لاگو ہیں  کل ہی عجائب سنگھ چوہان نے  جو عمر بھر سے  روزانہ بابا کے  پاس بیٹھ کرشعر و شاعری کرتا تھا دو بار دوڑ بھجوا کر خانہ تلاشی لی۔ گویا ہم نے  بندوقوں  اور ہتھیاروں  کاپورا میگژین دفن کر رکھا ہے ۔‘‘۱؎

                تقسیم نے  عجیب حالت کر دی تھی ایک تو زندہ لوگوں  سے  زندگی بھرکے  لیے  بچھڑجانے  کا غم، دوسری جانب معاشی مسائل منھ کھولے  کھڑے  تھے ۔ مگر کشوری کے  لیے  ملازمت بھی ایسے  ماحول میں  آسان نہ تھی۔ کیوں کہ ان دنوں  شرنارتھیوں  کو ملازمت کے  معاملے  میں  ترجیح دی جارہی تھی اور اسے  صاف کہہ دیا گیا کہ آپ تو شائد کسی مجبوری کی وجہ سے  یہاں  رکی ہوئی ہیں  موقع ملتے  ہی آپ بھی پاکستان چلی جائیے  گا۔

                ہائوسنگ سوسائٹی:۔               قرۃالعین حیدر نے  تقسیم و ہجرت سے  متعلق ایک اہم افسانہ ہائوسنگ سوسائٹی بھی لکھا ہے ۔ بے  پناہ واقعات و حادثات کو سمیٹے  مختلف کردا ر پر مبنی یہ افسانہ بالآخر تقسیم کے  دور میں  پہنچتا ہے ۔ مشترکہ ہندوستان کی تقسیم کا ایک پہلو یہ بھی ہے  کہ اس نے  خاندانی جاہ و حشمت کے  مالکان کو عرش سے  فرش پر لا پٹکا تھا۔ انہیں  میں  سے  ایک کلکٹر صاحب کا خاندان بھی تھا ۔ وہ کلکٹر صاحب جہاں  دعوت طعام میں  روسی برتن استعمال ہوا کرتے  تھے  اور ان بلوری پیالیوں  میں  جن کے  پانی میں  سرخ گلاب کی پنکھڑیاں  تیر رہی ہوتی تھیں ، کھانے  کے  بعد انگلیاں  ڈبو کر معطر کی جاتی تھیں ، ٓج سرحد پار کسمپرسی کی زندگی گزار رہے  تھے ۔ اکلوتے  بیٹاسلمان کا کوئی پتہ نہ تھا۔ کلکٹر صاحب خود مفلوج ہو چکے  تھے  اور لاڑکانہ کے  کسی علاقے  میں  رہائش پذیرتھے ۔ ناز و نعم سے  پلی بڑھی چھوٹی بٹیا جو سرخ جوتیوں  اور فر کا کوٹ پہنے  ریشمی چھتری کے  سائے  میں  جس کے  موٹھ چاندی کے  بنے  ہوئے  تھے  مہاوت اور خدمت گار کی نگرانی میں ’’ جمبوــ‘‘ کی سواری کیا کرتی تھیں ۔ جن کی زندگی پر لوگ رشک کیا کتے  تھے  آج وہی چھوٹی بٹیا زندگی کا بوجھ اٹھانے  کے  لئے  معمولی جاب پر گزارہ کرنے  کو مجبور تھیں ۔

ٍلگ بھگ پوری کہانی ہی ہندوستان کے  بٹوارے  کے  بعد دھیرے  دھیرے  پاکستان ہجرت کر گئے  لوگوں  کی نئی زمین پر قدم جمانے  کی جد وجہد کی داستان ہے ۔

                نصیب جلی:۔           رام لعل کا افسانوی مجموعہ گلی گلی (سنہ اشاعت ۱۹۶۰ )میں  شامل افسانہ نصیب جلی ۱۹۵۹ ؁ء ایک مسلمان اور سکھ کے  بیچ نہ صرف دوستی بلکہ انسانیت کے  عظیم جذبے  کی کہانی ہے ۔

                موتا سنگھ اور غلام سرور امرتسر میں  ایک ہی ورکشاپ میں  کام کرتے  تھے ۔ اور ورکشاپ کے  قریب بنے  بیرک میں  ایک دوسرے  کے  پڑوسی تھے ۔ ان کے  بیچ دوستی کا یہ رشتہ محض دو سال کی قلیل مدت پر مبنی تھا۔

                پھر فسادات شروع ہوگئے ۔ غلام سرور کے  پیچھے  اس کے  ہی پڑوسی جان سے  مار دینے  کو پڑ گئے ۔ وہ تنہا تھا بے  یار و مددگار مگر پھر بھی اپنی جان  بچانے  کے  لیے  دیواریں  پھلانگتا ہوا کسی طرح موتا سنگھ کے  آنگن میں  کود جاتا ہے ۔ حالانکہ اسے  موتا سنگھ سے  کوئی خاص امید نہ تھی کہ اس فساد میں  اس نے  بھی اپنے  عزیز گنوائے  تھے  اور وہ چاہتا تو اس سے  بدلہ لے  بھی سکتا تھا۔ جب بھیڑ چیختی ہوئی موتا سنگھ کے  دروازے  پرپہنچی ،تب موتا سنگھ نے  وہ کام کیا جو خود اس کی حیرت کی وجہ تھی۔

                اچانک موتا سنگھ اسے  گھسیٹتا ہوا کمرے  میں  لے  گیا، اور ایک پلنگ پر پٹخ کر بولا’ مر یہاں ‘  ایک رضائی  لا کر اس کے  اوپر ڈال دی، حالانکہ اسی چارپائی پر اس کی بیوی لیٹی ہوئی تھی ۔وہ چلانے  لگی

                ’’یہ کیا کر رہے  ہو؟

                تو بکواس بند کر نہیں  تو کرپان سینے  میں  گھونپ دوں گا۔

                موتا سنگھ سچ مچ کرپان لے  کر اس کے  سر پر کھڑا ہو گیا۔  بچی کو فرش پر نیچے  گرا دیا تھا۔ جو زار و قطار بلبلا رہی تھی۔

                دونوں  لیٹے  رہوسیدھے  ایک  دوسرے  کے  ساتھ بالکل لگ کر۔ کسی کو شک نہ ہو کہ دو سوئے  ہیں ۔

                 یہ سن کر غلام سرور اور موتا سنگھ کی بیوی کی رگوں  کا خون منجمد ہو کر رہ گیا۔ دونوں  کے  جسم بالکل سن ہو کر رہ گئے ۔ بے  حس و حرکت رضائی کے  باہرصرف موتا سنگھ کی بیوی کا چہرا تھا۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں  سے  اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ سمجھ رہی تھی پاگل ہو گیا ہے ۔‘‘ ۲؎

                فسادیوں  نے  گھر کا کونا کونا چھان مارا۔ اور غلام سرور کا سراغ نہ پا کر واپس چلے  گئے ۔

                حالانکہ خود موتا سنگھ اپنی اس حرکت پر متحیر تھا کہ اس نے  اتنا بڑا قدم کیسے  اٹھا لیا ۔ یہی وجہ ہے  کہ بارہ برس بعد جب غلام سرور اس سے  ملنے  کا خواہشمند ہوتا ہے  تو وہ یہ ٹھان لیتا ہے  کہ وہ غلام سرور سے  نہیں  ملے  گا ۔ اسے  اس بات کی بڑی شرم ٓئی

                گڈریا:۔     گڈریا ایک ایسے  استاد اور شاگرد کی کہانی ہے  جو دوالگ الگ مذاہب سے  تعلق رکھتے  ہیں ۔ شاگرد گولو ایک مسلمان بچہ ہے ۔ اور استاد جو دائو جی کے  نام سے  مشہور ہیں  ہندو پنڈت ہیں ۔

                دائو جی کو نہ صرف عربی فارسی کے  علوم پر دسترس حاصل ہے ۔ بلکہ انہیں  قرآن کی بھی اچھی خاصی معلومات حاصل ہے ۔ جس کا مطالعہ وہ اکثرو بیشتر کرتے  رہتے  ہیں  اور انہیں  وہ اپنی زندگی میں  نافذ کرنے  کی بھی کوشش کرتے  ہیں

                ’’سورۃ فاتحہ سنائو

                مجھے  نہیں  آتی جی۔ میں  نے  شرمندہ ہو کر کہا

                انہوں  نے  حیرانی سے  میری طرف دیکھا۔ الحمدللہ بھی نہیں  جانتے

                الحمدللہ تو میں  جانتا ہوں  جی۔ میں  نے  جلدی سے  کہا۔ وہ ذرا مسکرائے  اور گویا اپنے  آپ سے  کہنے  لگے ۔ ایک ہی بات ہے ۔۔۔ ایک ہی بات ہے ۔ پھر انہوں  نے  سر کے  اشارے  سے  کہا سنائو۔‘‘ ۳؎

                 آزادی سے  پہلے  کا مشترکہ ہندوستان تھا۔ جہاں  چھوٹے  موٹے  جھگڑے  اور اختلاف کے  باوجود لوگ آپس میں  مل جل کر ہی رہتے  تھے ۔ تب نہ تو مذہب کی فصیل اتنی اونچی تھی نہ ہی نفرت کی آندھی اتنی تیز۔ لگ بھگ پوری کہانی گولو اور دائو جی کے  بیچ الفت ، شفقت،پیار بھری خفگی اور چھوٹی موٹی مصنوعی تکرارکے  گردگھومتی ہے ۔ وقت گزرتا گیا پھر تقسیم اور فسادات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ہندوستان سے  بڑی تعداد میں  لٹے  پٹے  مہاجرین  پاکستان پہنچ رہے  تھے  اور ان لوگوں  نے  وہاں  جا کر پاکستان کی اقلیت پر وہی ظلم دھانے  شروع کر دئے  تھے  کہ لوگ اپنی اپنی جان بچا کر بھاگنے  کو مجبور ہو گئے ۔

                حالانکہ اس افسانے  میں  اشفاق احمدنے  فسادات کے  ان روح کو لرزا دینے  والے  مناظر بیان نہیں  کیے  ہیں ۔ جب ایک دوسرے  کے  خون کی ہولی کھیلی جا رہی تھی۔ جب معصوم بچے  نیزے  کی نوک پر اچھالے  جارہے  تھے  جب مائیں  اور بہن بیٹیاں  اپنی آبرو بچانے  کے  لئے  کنوئیں  میں  چلانگ لگا کر جان دینے  کو مجبور تھیں ۔ اس کہانی میں  انہوں  نے  دوسرے  رخ سے  معاشرے  کا قتل ہوتے  ہوئے  دکھایا ہے ۔ کہانی کا افسوس ناک پہلو یہی ہے  کہ تقسیم اور پھر فسادات نے  بسے  بسائے  سماج کو دیمک لگا دیا تھا۔ قلبی لگائو کو دلی منافرت میں  تبدیل کر دیا تھا۔دائو جی جیسا انسان جو مسلم سماج کے  بچے  کو قرآن اور مذہب کی تعلیم دے  بھیڑ اسے  اس طرح پکڑی ہوئی تھی۔

                ’’میں  ڈر کر دوسری جانب بھیڑ میں  گھس گیا۔ رانو کی قیادت میں  اس کے  دوست دائو جی کو گھیرے  کھڑے  تھے  اور رانو دائو جی کی ٹھوڑی پکڑ کر ہلا رہاتھا اور پوچھ رہا تھا۔ اب بول  بیٹا، اب بول،  اور دائو جی خاموش کھڑے  تھے ۔ ایک لڑکے  نے  پگڑی اتار کر کہا پہلے  بودی کاٹو بودی۔ اور رانو نے  مسواکیں  کاٹنے  والی درانتی سے  دائو جی کی بودی کاٹ دی۔ وہی لڑکا پھر بولا ، بلا دیں  جے ؟  اور رانو نے  کہا جانے  دو ، بڈھا ہے  میرے  ساتھ بکریاں  چرایا کریگا پھر اس نے  دائو جی کی ٹھوڑی اوپر اٹھاتے  ہوئے  کہا ، کلمہ پڑھ پنڈتا اور دائو جی آہستہ سے  بولے ۔

                کون؟

                رانو نے  ان کے  ننگے  سر پر ایسا تھپڑ مارا کہ وہ گرتے  گرتے  بچے ۔ بولا، سالے  کلمے  بھی کوئی پانچ سات  ہیں ‘‘۴؎

                ڈار سے  بچھڑے :۔                یہ کہانی ایک ایسے  پولیس افسر کی کہانی ہے  جو تقسیم کے  بعد اپنے  خاندان والوں  کے  س%

Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.