اکیسویں صدی میں علی گڑھ تحریک اور ہندوستانی مسلمانوں کی تعلیم
محمد علام
پوسٹ گریجویٹ ٹیچر (منٹو سرکل)
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ ۔۲۰۲۰۰۲ (انڈیا)
Email: mohammad_allam@rediffmail.com
یوں تو علی گڑھ تحریک دیکھنے میں ایک کثیرالابعاد تحریک لگتی ہے جس کا مقصد سماجی تعلیمی اور سیاسی طور پر مسلمانوں کی اصلاح کرنا تھا لیکن اس تحریک کی جو سب سے زیادہ نمایاں جہت (Dimension ) تھی وہ اس کی تعلیمی جہت تھی۔ بقول پروفیسرخلیق احمد نظامی:’’علی گڑھ تحریک کی بنیادی حیثیت تعلیمی تھی۔ اس لئے ناگزیر تھا کہ یہاں سے ماہرین تعلیم اٹھیں ملک میں تعلیم کا چرچا کریں ‘‘ ۱ ؎ اور اس تعلیمی ترقی کی بنیاد پر کئی مقاصد کو حاصل کرنے کا عزم کیاگیا تھا۔ اس تعلیمی تحریک کو شروع کرنے کے لئے دوسرے جتنے بھی سیاسی، معاشی، سماجی یا مذہبی سدھار کئے گئے وہ سب کے سب تعلیمی تحریک کو مضبوط کرنے کے لئے کئے گئے ۔ وہ تعلیم کیا تھی؟ یہ جدید تعلیم تھی جسے ہم مغربی تعلیم بھی کہہ سکتے ہیں ۔ یا یوں کہہ لیں کہ اس وقت مغرب میں رائج جو تعلیم یا تعلیمی نظام تھا وہ ہندوستان کے لئے جدید نظام تعلیم تھا بقول پروفیسررشید احمد صدیقی کے ’’ مغربی جدید تعلیم‘‘ تھی۲؎
کیا سرسید احمد خاں صرف جدید مغربی تعلیم چاہتے تھے ؟ کیا ان کے لئے مشرقی علوم یا تعلیم کوئی معنی نہیں رکھتے تھے ؟ پروفیسر شان محمد لکھتے ہیں کہ ’’ سرسید ایسے تعلیمی نظام کے حامی تھے جو مشرقی و مغربی دونوں تعلیم پر مشتمل ہو۔‘‘ ۳؎ سرسید مشرقی تعلیم کے حامی تھے لیکن جن مقاصد کے لئے وہ اپنی قوم کو تعلیم دلوانا چاہتے تھے ان مقاصد میں مشرقی تعلیم کوئی زبردست رول ادا کرنے کے قابل نہیں تھی۔ مشرقی علوم جس ناگفتہ بہ دور سے گذر رہے تھے سرسید کو اس کا احساس تھا۔ بقول سید نوراللہ اور جے پی نائیک کے ’’ انیسویں صدی کے آخر تک قدیم دینی نظام تعلیم بالکل ختم سا ہوچکا تھا اور اس کی جگہ پر ایک ایسا نظام تعلیم مُستحکم طور پر قائم ہوا جس کا مقصد انگریزی زبان کے ذریعے مغربی علوم کی اشاعت تھا۔‘‘ ۴؎ سرسید نے مشرقی تعلیم یا علوم کا انکار نہیں کیا۔ مگر وہ اس تعلیم سے اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے معاملے میں مطمئن نہیں تھے ۔ اور نہ ہی اپنی تعلیمی تحریک کی بنیاد اس پر رکھنا چاہتے تھے ، سرسید کا نقطۂ نظر مشرقی علوم کے تعلق سے صاف تھا کہ قوم کی تعمیر و تشکیل میں مشرقی تعلیم یا علوم، اخلاقی، سماجی و مذہبی قدروں کی بحالی(Revival ) میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں لیکن قوم کو معاشی طور پر طاقت ور اور سیاسی افق پر آگے لا کر اقوام عالم کی نمائندگی کرنے کیلئے کار آمد نہیں ہیں ۔ ان کے تعلیمی مشن میں اہم رول جدید تعلیم کو ہی ادا کرنا تھا انہوں نے اس کو تسلیم کیا اور کھلے ذہن سے اس تعلیمی مشن کے کارواں کو لیکر آگے بڑھے ۔
اس مقالہ میں سرسید کی تعلیمی تحریک کو اکیسویں صدی کے تناظر میں مسلمانوں کی تعلیمی افادیت کی کسوٹی پر پرکھ کردیکھنا ہے ۔ یہ تعلیمی تحریک انیسویں صدی کے آخر میں شروع ہوکر آج اکیسویں صدی میں پہنچی ہے ۔ کیا آج اکیسویں صدی میں اس تعلیمی تحریک کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی اس کی ۱۹ویں صدی کے آخر یعنی اس کے شروع ہونے کے وقت تھی؟ تعلیم کے میدان میں ہندوستانی مسلمانوں کی تعلیم کے لئے یہ علی گڑھ تحریک اکیسویں صدی میں کس حدتک معاون ہوسکتی ہے ؟
مقالہ میں استعمال کئے گئے اعداد وشمار ثانوی ذرائع (Secondary Sources ) سے لئے گئے ہیں ۔ اور مقالہ کا طریقۂ کار ’’ وضاحتی تجزیاتی طریقہ(Descriptive Analytical Method ) پر رکھا گیا ہے ۔ اس طریقہ کار میں اعدادوشمار کی بنیاد پر کسی بھی مسئلہ کا تجزیاتی حل پیش کیا جاتا ہے ۔اس مقالہ کا مقصد ہے تعلیمی اعداد و شمار کی روشنی میں علی گڑھ تحریک کی افادیت کو اکیسویں صدی میں تعلیم کے میدان میں دیکھنا اور اس کی روشنی میں مسلمانوں کی تعلیم کے لئے لائحہ عمل تیارکرنا۔
علی گڑھ تحریک کے آغاز کے وقت ہندوستانی مسلمانوں کے تعلیمی حالاتـ:
سرسید احمد خاں نے جب تعلیمی تحریک شروع کی اس وقت مسلمانوں کے تعلیمی حالات کیا تھے ؟ اس کا جائزہ لئے بغیر یہ ممکن نہیں کہ علی گڑھ تحریک کی اہمیت کو سمجھا جاسکے ۔ ایجوکیشنل کانفرنس کی روداد اورسرکاری اور غیرسرکاری دستاویزوں سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کی تعلیمی ترقی میں جو تَنزُّلی آرہی تھی وہ ۱۸۵۷ء کے انقلاب کے بعد اور تیز ہوگئی تھی۔ وجہ صاف تھی کہ انگریزوں نے ہندوستانی مسلمانوں کو ۱۸۵۷ء کی بغاوت کا ذمہ دار مانتے ہوئے بڑے پیمانے پرکاروائی کرتے ہوئے ان کی سیاسی، معاشی و فوجی طاقت کو توڑ کر رکھ دیا تھا۔ اس تباہی کی زد میں مسلمانوں کا وہ طبقہ آیا جس سے ایک نظام چل رہا تھا وہ درہم برہم ہوگیا۔عوام میں تعلیمی رجحان ابتدائی تھا جبکہ خواص کا رجحان اعلیٰ تعلیم کی طرف تھا لیکن یہ نہیں کہا جاسکتا تھا کہ وہ آج کی اعلیٰ تعلیم کی طرح سے تھا۔ افسوس کا مقام یہ تھا کہ ہندوستان میں نہ ہی مشرقی علوم میں نہ ہی مغربی علوم میں وہ دانش گاہیں قائم ہوپائی تھیں جو مغرب میں قائم ہوکر مغربی اقوام کو طاقتور بنارہی تھیں اور دنیا کی حکمرانی ان کے قدموں میں ڈال رہی تھیں اور جنہیں آج کی زبان میں ہم اعلیٰ تعلیمی ادارے کہہ سکتے ہیں جیسا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہے ۔
اعداد وشمار کے ایک جائزے کے مطابق ۷۲-۱۸۷۱ء کے قریب ملک کی کل آبادی 38,330,958 ۵؎ تھی اورمسلمانوں کی آبادی 21.5فیصد لگ بھگ 40 ملین تھی۶؎ ۔
تعلیمی حالات کے اعداد وشمار خاص کر مسلمانوں کے تعلیمی اعداد و شمار ایک الگ ہی دنیا کی تصویر پیش کرتے ہیں ۔ ضلع علی گڑھ کے متعلق سرسید احمد خاں نے اپنے رسالہ میں مندرجہ ذیل حقائق پیش کئے ہیں ۔ جس کی رو سے دوسرے اضلاع کا بھی جائزہ لیا جاسکتا ہے ۔ سرسید کے اس رسالہ کا نام ہے ’’ ضلع علیگڑھ کی بڑی بستیوں کی مختصر کیفیت اور مسلمان بستیوں کا مختصر حال اور ضلع کی مردم شماری‘‘ کی روسے مسلمانوں کی تعداد جسے محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے دوسرے اجلاس ۱۸۸۷ء میں پیش کیا گیا تھا۔ اس رسالہ کے اعتبار سے اس وقت علی گڑھ کی آبادی پچھلی مردم شماری کی رو سے ۱۰۲۱۱۸۷، تھی جس میں مسلمانوں کی تعدادلگ بھگ ۱۱۷۳۳۹ ،تھی۷؎ اس ضلع میں کچھ تحصیلیں ایسی تھیں جن میں مسلمانوں کی اکثریت تھی انہیں میں سے ایک تحصیل ، کول تحصیل تھی جہاں کی کل آبادی 77088 ،تھی جس میں مسلمانوں کی آبادی 26125 تھی۔ دوسری تحصیلوں میں سکندراراؤ میں مسلمانوں کی آبادی 70290 میں 11552 تھی۔ تحصیل ہاتھرس میں کل آبادی 1064 میں مسلمانوں کی آبادی 3,359 تھی ضلع اترولی میں کل آبادی 22,405 میں سے 8559، تحصیل خیر میں کل آبادی 15, 917 میں سے مسلمانوں کی تعداد 3971 تھی اور تحصیل اگلاس میں کل آبادی 4563 میں سے مسلمانوں کی تعداد 553 تھی۔۸؎
1854 ء کے گورنمنٹ ڈسپیج کے بعد ہندوستان کا جو تعلیمی خاکہ سامنے آیا اس میں تین زمرے تھے ۔ ا(۱)گورنمنٹ (۲) مشنری (۳) نجی تعلیمی ادارے ۔ اسی طرح تعلیم کے میدان میں بھی سرسید احمد خان نے کچھ اعدادو شمار مہیا کرائے ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ تعلیمی اعتبار سے بھی مسلمان پچھڑے ہوئے تھے ۔
سرسید احمد خاں گورنمنٹ ہائی اسکول علی گڑھ کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس میں کل طالب علم 318 تھے جن میں سے 40 مسلمان تھے اور یہی لڑکے محمڈن اینگلواورنٹیل کالج میں اعلیٰ تعلیم کے لئے داخلہ لیتے تھے ۔ مشنری اسکول علی گڑھ میں نہیں تھا، جبکہ پرائیوٹ طور پر محمڈن اینگلو اورنٹیل کالج علی گڑھ میں قائم تھا۔ جس کی بنیاد 1875ء میں رکھی گئی اور ترقی کرتے ہوئے 1877 ء میں کالج کی شکل میں نمودار ہوا۔ جس وقت اس کی رپورٹ پیش ہوئی تو اس وقت کے اعداد و شمار کے مطابق مندرجہ ذیل طالب علم پڑھتے تھے ۔ کالج ڈپارٹمنٹ میں کل 49 طالب علم تھے جن میں 29 ہندو اور20 مسلمان تھے ۔ اسکول ڈپارٹمنٹ میں 208 طالب علموں میں سے 140 ہندو اور67 مسلمان تھے اس میں دوپارسی اور عیسائی بھی پڑھتے تھے ۔ کل 257 طالب علموں میں سے کل 149 ہندو اور88 مسلمان تھے ۔ ۹؎
یعنی مسلمانوں کی تعداد خود علی گڑھ محمڈن اینگلواورنٹیل کالج میں 34.2 فیصد تھی جبکہ ہندوؤں کی تعداد7 65.تھی یعنی مسلمان اپنے ہم وطنوں کے مقابلے میں کافی پیچھے تھے ۔1871-72 کی رپورٹ کی بنیاد پر ملکی سطح پر 123 ملین لوگوں میں سے صرف 4 ملین لوگ پڑھنا لکھنا جانتے تھے یعنی 30 لوگوں میں سے صرف ایک آدمی پڑھنا لکھنا جانتا تھا۔۱۰؎
علی گڑھ تحریک اکیسویں صدی میں ایک جائزہ:
علی گڑھ تحریک کو تعلیمی ترقی کے اعتبار سے پانچ ادوار میں تقسیم کیاجاسکتا ہے پہلادور سرسید احمد خان کا جو 1875 ء سے شروع ہوکر 1898 ء پر ختم ہوتا ہے دوسرا دور محسن الملک کا جو 1898 ء سے شروع ہوکر1907 ء پرختم ہوتا ہے تیسرا دور صاحبزادہ آفتاب احمد خاں کا جو1907 ء سے شروع ہوکر 1917 ء میں ختم ہوتا ہے چوتھا دور1917 ء سے 1942 ء تک ہے جو نواب صدریار جنگ کا ہے اور پانچواں دور آزادی کے بعد کا ہے جو1947 ء سے 2007 ء تک کا کہاجاسکتا ہے ۔ 2007ء کے بعد کو ہم الگ دور کہہ سکتے ہیں جب علی گڑھ تحریک اپنی مقامی جگہ سے نکل کر ملک کے دوسرے علاقوں میں پھیلی۔حالیہ مقالہ کا زمانہ اکیسویں صدی کے علی گڑھ کا ہے یعنی 2000 ء کے بعد کا ہے ۔ جو علی گڑھ تحریک اور مسلمانوں کی تعلیم سے متعلق ہے ۔
2012 ء یعنی حال میں علی گرھ تحریک علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اس کے سینٹر اور اس کے ذریعے چلائے جارہے اسکولوں پر مشتمل ہے اس کے علاوہ وہ تمام ادارے جو ابنائے قدیم علی گڑھ مسلم یونیور سٹی چلا رہے ہیں اور جس کے ذریعے تعلیم مسلمانوں میں اور دوسری قوموں میں عام کیاجارہا ہے ۔ یہاں صرف علی گڑھ مسلم یونیور سٹی کے تناظر میں علی گڑھ تحریک کو دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ اور ضرورت ہے کہ ابنائے قدیم کے ذریعے جو تعلیمی ادارے چلائے جارہے ہیں اس کی بھی تفصیلی معلومات حاصل کی جائے ۔ حال میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی 13 فیکلٹیوں ، 107 ڈپارٹمنٹ 1109 کلاس روم،425 لیب، 16 سینٹر، 10 ڈی، آرایس،01 ڈی۔ ایس۔ اے ، 01سی اے ایس، 03 انسٹیوٹ،01 ویمن کالج، 02 پالیٹیکنک، 10 اسکول، 18 ہال( جن میں 84 ہاسٹل ہیں )۔ 298 تدریسی عملہ کی رہائش،719 غیر تدریسی عملہ کی رہائش، 11 کینٹین ہیں ۱۱؎ ۔ تدریسی ملازمین کی تعداد 1,601 (31-10-16 ) جس میں 1298 یونیورسٹی اور اس سے ملحق اداروں کے تدریسی ملازمین تھے ۱۲؎ ۔جس میں 303 اسکول ملازمین تھے غیر تدریسی ملازمین کی تعداد 56427 تھی۔ جس میں A 134 گریڈ،1 82 بی گریڈ اور 4707 سی گریڈ ملازمین تھے ۱۳؎۔ طلبہ کی کل تعداد 13 مارچ 2017 تک 37534 تھی۔ جس میں 22551 لڑکے اور 14983 لڑکیاں تھیں ۔ایم یو کیمپس میں 21540 تعداد تھی اسکول طلبہ کی تعداد 15183 تھی جس میں 8231 لڑکے تھے اور 6952 لڑکیاں تھیں طلبہ میں 9949 اقلیتی فرقہ سے تھے جس میں 5877 لڑکے اور4072 لڑکیاں تھیں یونیورسٹی طلبہ کی تعداد22331 تھی جس میں 14320 لڑکے اور8031 لڑکیاں تھیں ۔ تمام ریاستوں میں سے صرف میگھالیہ اور مزورم کے طلبہ نہیں تھے ۔ سب سے زیادہ یوپی کے طلباء تھے جن کی تعداد 16190 تھی ۔ دوسرے نمبر پر بہار جس کی تعداد1820 ، تیسرے نمبر پر کشمیر جس کی تعداد 723 اور ویسٹ بنگال کے 634 طلبہ تھے ۔ غیر ممالک کے کل 448 طلبہ تھے جس میں سب سے زیادہ یمن اور پھر تھائی لینڈ کے طلبہ تھے ۔NRI کی تعداد 193 تھی۔
کورس کے حساب سے انڈر گریجویٹ کورسوں میں طلبہ کی تعداد 15545 تھی جس میں 7304 لڑکے اور4241 لڑکیاں تھیں ۔ اقلیتی طلبہ کی تعداد 6361 تھی جس میں 3698 لڑکے اور 2663 لڑکیاں تھیں 5 سالہ انڈر گریجویٹ کورسوں میں کل تعداد 952 تھیں جس میں 620 لڑکے اور 332 لڑکیاں تھیں ۔ اقلیتی طلبہ کی تعداد366 تھی جس میں لڑکوں کی تعداد 217 اور لڑکیوں کی تعداد 149 تھی۔
پوسٹ گریجویٹ کورسوں میں کل تعداد 5070 تھی جس میں لڑکیوں کی تعداد 3322 اور لڑکیوں کی تعداد 1745 تھی۔ اقلیتی طلبہ کی تعداد 1954 تھی جس میں 1342 لڑکے اور 612 لڑکیاں تھیں ۔پی ۔ ایچ۔ ڈی طلباء کی کل تعداد 2720 تھی جس میں 1659 لڑکوں کی اور 1061 لڑکیوں کی تھی۔ اقلیتی طلبہ کی تعداد 841 تھی جس میں 526 لڑکے اور 315 لڑکیاں تھیں ۔
ڈپلوما کورس میں طلباء کی کل تعداد 2067 تھی جس میں لڑکوں کی تعداد 1414 اورلڑکیوں کی تعداد 648 تھی۔ اقلیتی طبقے کے طلبہ کی تعداد422 تھی جس میں 94 لڑکے اور333 لڑکیاں تھیں ۱۴؎۔
باہری تین کیمپس میں سے ملا پورم سینٹر پر کل 356 طلبہ مرشدا باد میں 320 اور کشن گنج میں 135 طلبہ تھے ۱۵؎۔ اس طرح حالیہ علی گڑھ تحریک کا موازنہ اس کے آغاز سے کیا جائے تو یہ کہنا دشوار نہیں ہوگا کہ تعلیمی اعتبار سے علی گڑھ تحریک ہندوستانی مسلمانوں کی ایک قلیل تعداد کو تعلیم فراہم کرتی ہے ۔یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ علی گڑھ تحریک ابھی تک ۱۸۵۴ء سے چلی آرہی Filtration Theory پر عمل پیرا ہے ۔
تعلیمی اور اسکالرشپ کے اعتبار سے بھی اے ۔ ایم یو نے 2015 ء میں 1197 نیشنل ( ملکی) سطح پر مقالے شائع کئے ہیں ۔ عالمی سطح پر ان کی تعداد 1205 ہے ۔ 159 کتابیں شائع کی گئی ہیں ۔ 29 جنرل شائع کئے گئے ۔ یہاں کے اسکالر وں یا اساتذہ نے 1356 کانفرنسوں میں حصہ لیا اور137 سے زائد کانفرنسوں کا انعقاد کیا۱۶؎ ۔
اکیسویں صدی میں ہندوستانی مسلمانوں کی تعلیم کا جائزہ:
اکیسویں صدی کی شروعات کو 17 سال ہوگئے ہیں مسلمانوں کے حالیہ تعلیمی حالات کو جاننے کے لئے ضروری ہے کہ حالیہ اعداد وشمار کو معلوم کیا جائے ۔ مسلمانوں کی مردم شماری کو جاننے کے لئے گورنمنٹ کی جانب سے جاری کئے گئے اعداد وشمار ہیں جن اعدادوشمار کی بنیاد پر مسلمانوں کی تعلیمی حالت کا جائزہ لیاجاسکتا ہے ۔ اس کے علاوہ نجی اورسرکاری رپورٹوں کے ذریعے بھی مسلمانوں کی تعلیمی حالت کا جائزہ لیاگیا ہے ۔سب سے پہلے ہم 2001 ء کی مردم شماری رپورٹ کا جائزہ لیں گے جس کی بنیاد پر مسلمانوں کی آبادی ہندوستان میں ملک کی کل آبادی کا 13.4 فیصد تھی یعنی آبادی13.8 کروڑ تھی اور کل اقلیتی فرقوں کا 72 فیصد تھی۔ لیکن تعلیمی اعتبار سے خواندگی کی شرح 59.8 فیصد تھی جس میں خواتین کی خواندگی کی شرح 50. 01 تھی۱۷؎ ۔
حالیہ تعلیمی جائزہ لینے کے لئے اس مقالہ میں جن رپورٹس کی مدد لی گئی ہے اس میں سب سے اہم سچر کمیٹی رپورٹ جو 2006 ء میں حکومت ہند کی ایما پر تشکیل دی گئی تھی۔ اور جس کی مسلمانوں کی سماجی و تعلیمی رپورٹ پر سارے ہندوستان میں تہلکہ مچ گیا۔ سچر کمیٹی رپورٹ نے ’’ مسلمانوں کی تعلیمی حالت ST اورSC سے بھی بدتر بتائی ‘‘ ۱۸؎۔
سچر کمیٹی رپورٹ جس کی بنیاد 2001 ء مردم شماری کے ڈاٹا اور 2004-05 کے نیشنل سیمپل سروے آرگنائیزیشن (NSSO)کے اعداد و شمار تھے ۔ اس کی بنیاد پر سوشل ریلیجیس کمیونٹی (SRCs ) میں مسلمان گریجویٹ 6.3 فیصد تھے اور ڈپلومااور سرٹیفکٹ پانے والوں کی تعداد 6.8 فیصد تھی۱۸؎ ۔ جو SC اورST کے 8.3 گریجویٹ اور10.2 ڈپلوما اورسرٹیفکٹ سے کم تھے ۔ ہندوستان کی معیاری تعلیم گاہوں جسے آئی آئی ٹی اور ایمس میں مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی۔ آئی آئی ٹی میں پی۔ ایچ۔ ڈی میں 4.2 PG میں 4 اورUG میں 1.7 تھے ۔ جبکہ ایمس میں صرف 1.4 فیصد کے قریب طلبہ تھے ۲۰؎۔
نیشنل سیمپل سروے آرگنائیزیشن (NSSO) کے 2009 کے اعداد و شمار کے مطابق مسلمانوں کی تعلیمی ترقی آگے نہیں بڑھی جیسا کہ بڑھنا چاہیے اوردوسری کمیونٹیوں سے بہت کم تھی، مسلمانوں کی کل نمائندگی اعلیٰ تعلیم میں گروس اینرولمینٹ ریشو (GER) کے حساب سے 11.3 فیصد تھی۔
2011ء کی مردم شماری کی رو سے مسلمانوں کا آبادی کی فیصد 14.2 یعنی 17 کروڑ ہے ۔ مسلمان ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیت ہے ۔
2011 ء کی مردم شماری رپورٹ کی بنیاد پر مسلمانوں کی خُواندگی کی شرح 57.3 ہے جبکہ سب سے زیادہ عیسائیوں کی74.73 ، بدھسٹوں کی 71.8 ، سکھوں کی 67.3 ہے اورہندوئوں کی63.6 ہے ناخواندگی کی سب سے زیادہ شرح مسلمانوں کی یعنی 42.2 ہے ۔ تمام کمیونٹیوں میں مسلمان سب سے زیادہ ناخواندہ ہیں ۔ اس کے بعد ہندو(36.4)، پھر سکھ(32.5)، پھربدھسٹ(28.2) اور پھر عیسائی (25.6) ہے ۲۱؎۔
منسٹری آف ہیومن ریسورس ڈیولپمینٹ (MHRD) کی رپورٹ جو نیشنل سیمپل سروے آرگنائیزیشن NSSO) (کی 2009-10 کے اعداد و شمار پر ہے اس کی رو سے مسلمانوں کی اعلیٰ تعلیم میں نمائندگی اگیارہ فیصد تھی۔ جبکہ دھاتوں میں یہ نمائندگی صرف 6.7 فیصد تھی۔۲۲؎
آل انڈیا سروے آف ہائر ایجوکیشن (AISHE ) 2015ء کی رپورٹ کے مطابق اعلیٰ تعلیم میں مسلمانوں کی شرح4.7 فیصد ہے یہ اعداد شمار اعلیٰ تعلیمی اداروں کے اعدادوشمار کی بنیاد پر لئے گئے ہیں ۔ جو AISHE اکٹھا کرتی ہے ۲۳؎۔
ان سب تعلیمی اعداد و شمارے کودیکھنے کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ علی گڑھ تحریک جو کہ ایک تعلیمی تحریک تھی، اورہندوستانی قوم یعنی مسلمانوں کے لئے شروع کی گئی تھی مسلمانوں کو تعلیمی طور پر آگے بڑھانے کے لیے کیا کرسکی ہے ؟ ہندوستانی مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے لئے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جوابدہ ہے ۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ایکٹ کی دفعہ5,1(c) میں صاف لکھا ہے کہ ’’ہندوستانی مسلمانوں کی تعلیمی اور ثقافتی ترقی کو بڑھاوا دینا‘‘ یونیورسٹی کی ذمہ داری ہے ۲۴؎۔
’’ جس پر ہندوستان کی پارلیامنٹ نے 1981 ء میں اپنی مہر بھی لگادی ہے اسی کی بناد پر سید حامد صاحب مرحوم نے سینٹر فار پروموشن آف ایجوکیشنل اینڈ کلچرل ایڈوانسمینٹ آف مسلمس آف انڈیا (CPECAMI )کا قیام کیا تھا جس کا مقصد تھا کہ مسلمانوں کی تعلیم سے متعلق اعداد وشمار مہیا کرنااوراس کی روشنی میں تعلیم کو بڑھانے کے لئے منصوبہ بندی کرنا مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے علی گڑھ نے اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی نہیں نبھایا۔ جس طرح سے سرسیداحمد خاں رحمۃ اللہ علیہ نے شہر علی گڑھ کے مع اس کی تحصیل کی آبادی کے اعداد وشمار نیز اس کے تعلیمی اعدادوشمار شائع کئے اگر یہ کام آزادی کے بعد علی گڑھ والے بھی کرتے رہتے تو مسلمانوں کو2006 ء کی سچر کمیٹی کی رپورٹ کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی اور مسلمان بہتر طور پر تعلیمی منصوبہ بندی کرسکتے تھے ۔
کسی بھی مسئلہ کو حل کرنے کے لئے اس مسئلہ کا اعدادوشمار کی روشنی میں تجزیہ کیا جاتا ہے پھر اس کی روشنی میں اس کے حل کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے لیکن افسوس کہ علی گڑھ نے اس پر کوئی دھیان نہیں دیا۔ کاش یہ یونیورسٹی 1947ء کے بعد کے اعداد وشمار کو سالانہ شائع کرتی چلی آتی تو آج مستند اعداد وشمار مسلمانوں کی تعلیم کے متعلق مہیا ہوتے ۔ پھر ان اعداد وشمار کی بنیاد پر ہر ضلع میں علاقائی لوگوں کے تعاون اور علیگ کمیونٹی کے تعاون سے تعلیم کے بندوبست کیے جاتے جس کا اِلحاق یونیورسٹی کے ڈائریکٹوریٹ آف اسکول ایجوکیشن (Directorate of School Education) سے ہوتا۔ اور ان تمام اسکولوں کو یونیورسٹی کے نظام سے جوڑ دیا جا تاتاکہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو طلبہ کی سپلائی کے ساتھ علی گڑھ تحریک کے کا م کو بھی پھیلایا جاسکتا اور لوگوں کو فائدہ پہنچایا جاتا اب جب کہ یونیورسٹی اپنا ڈائریکٹوریٹ آف اسکول ایجوکیشن (Directorate of School Education) بنا چکی ہے تو ضروری ہے کہ نئے اسکو ل کھولے جائیں اور تمام اسکولوں کو درجہ 12 تک یا پھر پالیٹکنیک تک بنایا جائے تاکہ فارغ ہونے کے بعد طلبہ یونیورسٹی میں داخلہ نہ ملنے کی صورت میں کم سے کم خواندگی سے اوپر تو اٹھیں ۔ علی گڑھ تحریک کے مقصد کی تکمیل تب تک نا مکمل رہے گی جب تک کہ ہندوستان کا ایک بچہ بھی ناخواندہ ہے خاص کر مسلمانوں کا ۔
ادھر کچھ سالوں سے حکومت کی اعلیٰ تعلیمی پالیسی کا رخ کئی محاذوں پر بدلا ہے ۔ 2014 ء کے بعد جہاں ایک طرف حکوت اعلی ٰ تعلیم کے لیے ایک نئی تعلیمی پالیسی کو فائنل کرنے لگی ہے ۲۵؎۔ تو دوسری طرف اس نے تعلیمی میدان میں کئی تبدیلیاں کی ہیں پہلی تبدیلی یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے لئے تعلیمی خرچ کو حکوت کی طرف سے تعلیم حاصل کرنے والوں پر ڈالنا۔ دوسری تبدیلی یونیورسٹی کو پرفارمنس کی بنیاد پر خود مختاری دینا۔ تیسری تبدیلی اعلیٰ معیار کی یونیورسٹی بنانا جو عالمی سطح پر ملک کی نمائندگی کرسکے اور باہری ملکوں سے طلباء کو ہندوستان لاسکے ۔ چوتھی تبدیلی یونیورسٹی کو وطن پرستی کے نام پرایک خاص رنگ میں رنگنا۔ جس کے لیے اس کے نصاب تعلیم (Curriculum) میں بھاری بدلائو کیا جارہاہے ۔ پانچویں تبدیلی اقلیتی تعلیمی اداروں کو عوامی ٹیکس کے بہانہ اقلیتی ہاتھوں سے نکال کر مکمل طورپر حکومتی تحویل میں دینا اوران کے کردار کو مکمل طور پرتباہ و برباد کردینا۔ چھٹی تبدیلی تعلیم کے معیار کو بڑھاوادینا جس سے اعلیٰ تعلیم کے میدان میں کچھ نمایاں کام ہوسکے ۔ نئی تعلیمی پالیسی (New Education Policy) کے ان چیلنجوں کے تناظر میں اگر ہم علی گڑھ تحریک کو اور بالخصوص علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو دیکھیں تو ہندوستانی مسلمانوں کی تعلیم کے لئے بہت بڑے بڑے مسائل کھڑے ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ اگر ہم یونیورسٹی کی ہی بات کریں تو تعلیم کی نجی کاری ہونا اور اعلیٰ تعلیم کا بلامُعَاوضہ مہیا نہ ہونا کم تشویش کی بات نہیں ہے ۔ ایک تو مسلمانوں کی معاشی حالت ویسے ہی کمزور ہے اور دوسرے اس کے پاس کوئی اپنا مضبوط Middle کلاس بھی نہیں ہے جو تعلیم کے میدان میں بنیادی اور خاص کر اعلیٰ تعلیم میں ان کی نمائندگی کرے ۔ اسکولی تعلیم میں سچر کمیٹی کے مطابق لگ بھگ 25 فیصد بچے اسکول سے ڈراپ ہوجاتے ہیں ۲۶؎۔ اعلی تعلیم میں ان کی نمائندگی اسکالرشپ اور کمیونٹی کی مدد سے لگ بھگ 5 فیصد کے قریب پہنچی ہے اگر تعلیم کے خرچ کا بوجھ ان پر ڈال دیاجاتا ہے تو اعلیٰ تعلیم کے گروس اینرولمینٹ ریشو (GER) میں گراوٹ آئے گی۔ دوسرا مسئلہ ہے یونیورسٹی کا اپنے تعلیمی معیار کو بلند کرنے اور مسلمانوں کے Mass Educationکے بیچ کا ہے ۔ علی گڑھ تحریک کو اسے فعال بنا کے بنیادی سطح پر تعلیمی کام کئے جائیں اور اعلیٰ تعلیم کی سطح پر یونیورسٹی کو آزادی دی جائے لیکن افرادی قوت کے حساب سے علی گڑھ معیاری تعلیم کا بھی انتظام کرے ۔Mass Education کو معیاری تعلیم کے لئے بہترین طلبہ کے انتخاب کے لئے استعمال کیاجائے ۔۲۷؎
لڑکیوں کی تعلیم کا مسئلہ اہم ہے 2001ء کی مردم شماری کے مطابق خواتین کی خواندگی کی شرح 50.1 تھی جو 2011 بڑھ کر 50.9 ہوگئی ۲۸؎ ، 2011 کی مردم شماری کی رو سے مسلمانوں کی اعلیٰ تعلیم کا فیصد 2.75 ہے جس میں خواتین کی شرح 36.65 ہے ۲۹؎ ۔ یہ بات سچ ہے کہ سرسیدنے اپنے زمانے میں مذہبی قدامت پرست لوگوں کے دباؤ میں لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم کی طرف دھیان نہیں دیا، کیونکہ سرسید کے زمانے میں ہندوستانی مسلمان لڑکوں کو جدید تعلیم دلانا معیوب سمجھتے تھے چہ جائے کہ لڑکیوں کے لئے جدید تعلیم کے متعلق سوچتے ۔ سرسید مانتے تھے کہ بنا لڑکوں کی تعلیم کے لڑکیوں کی تعلیم کے کوئی معنی نہیں ہیں ۔ اب اکیسویں صدی میں جب لڑکیوں کی تعلیم عام ہوچکی ہے ۔ لہٰذا علی گڑھ تحریک کو بنیاد بنا کر لڑکیوں کی بنیادی اور اعلیٰ تعلیم کی طرف توجہ دینے کی سخت ضرورت ہے ۔ ہندوستان کی تمام یونیورسٹیوں کی طرح علی گڑھ میں لڑکیوں کا فیصد 40% کے اوپر ہے ۳۰؎ ۔ علی گڑھ تحریک کو لڑکیوں کی تعلیم کے لئے دوطرح کے اداروں کو بڑھاوا دینا چاہیے ۔ ایک تو فاصلاتی نظامی تعلیم (Distance Education System) کی شاخ ان تمام مسلم علاقوں میں ضرورقائم کرناچاہیے جہاں ان کی تعداد زیادہ ہے ۔ تاکہ لڑکیاں گھر بیٹھے ہی تعلیم حاصل کرسکیں ۔ اورعوامی سطح پر ایسے مراکز قائم کریں جہاں لڑکیوں کی تعلیم کا نظام خاص کر دینی تعلیم کا نظام ہو تاکہ مذہبی تربیت بچوں میں شروع سے آجائے ۔
دوسری طرح کے ادارے جن کو علی گڑھ تحریک کو بڑھاوا دینا چاہیے وہ ایسے کالجوں کا قیام ہے جو ٹیکنالوجی کے سہارے چلتے ہوں ۔ ٹیکنالوجی کی مدد سے دنیا میں بیٹھے کہیں سے بھی کلاس لی جاسکے ۔ مسلم اکثریتی علاقوں میں ویب ٹکنالوجی (Webcam Technology) یاسیٹلائٹ (Satelite Based) ٹیکنالوجی کی مدد سے لڑکیوں کے لئے کلاس لی جائے ۔ ان کی Counseling کی جائے ۔ جس سے لڑکیوں کے اندر تعلیمی جذبہ اور ماحول پیدا ہوسکے ۔ آج لڑکیوں کے لیے ادارے کی کمی نہیں ہے بلکہ کمی ہے لڑکیوں کو ان اداروں تک پہنچانے کی ہے جس کے لئے مقامی اور ملکی سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے جانکاری اور گائیڈینس دی جائے ۔ اس کے لئے مقامی سطح پر کوچنگ اور ٹیوشن کا انتظام کیا جائے ۔ علی گڑھ میں مرکز قائم کرکے وہاں کے اساتذہ کے ذریعہ پورے ملک میں درس و تدریس کا کام آسانی سے کیا جاسکتا ہے ۔
علی گڑھ تحریک کو مسلمانوں میں اعلیٰ تعلیم کو فروغ دینا چاہیے ۔ مختلف اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ ان کی اعلیٰ تعلیم یعنی گریجویشن یا اس سے اوپر کسی بھی حال میں 6 فیصد سے زائد نہیں ہے ۔ پی۔ ایچ۔ ڈی میں تو یہ تعداد کم سے کم ہوتی ہے ۔ اس لئے ضروری ہے کہ قوم کے ایسے بچوں کو بلاتعصب بڑھاوادیاجائے جو ذہین اور محنتی ہیں اور علم کے میدان میں اہم کارنامہ انجام دے رہے ہیں ان کے لئے یونیورسٹی کی سطح پر اسکالرشپ کا انتظام کیاجائے اوران کو تعلیمی اداروں میں ہی شامل کرنے کی کوشش کی جائے کیونکہ ایک بہترین ٹیچر 30 سے 40 سال تک بہترین طالب علم پیدا کرتا ہے ۔ مگر افسوس اس بات کا ہے کہ بہت ہی کم صلاحیت والے افراد ادارے کی زینت ہیں جو قوم اور ان کے بچوں کو تعلیمی اعتبار سے کمزور کرتے نظر آتے ہیں ۔ اس طرح کی پالیسی کسی بھی طرح سے مسلمانوں کی تعلیم کے لئے فائدہ مند نہیں ہے کیونکہ یہ صرف ذہین طلبہ میں مایوسی ہی نہیں پیدا کرتی ہے بلکہ ایک ایسی فضا قائم کرتی ہے جس میں تعلیم کی طرف سے بے رغبتی پیدا ہوتی ہے اورجس قوم کے نوجوانوں میں تعلیم کی طرف سے بے رغبتی پیداہوجائے تو پھر اسے کوئی طاقتور نہیں بناسکتا۔اور نہ کوئی معزز بنا سکتا ہے جو سرسید کے مشن کے بالکل خلاف ہے ۔
مشورے :
(۱) محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کو پھر سے زندہ کیا جائے اوراس کو سارے ہندوستان میں پھیلایاجائے ۔ اورریاستی سطح پر ہر ایک ضلع کے مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے اعدادوشمار اکٹھا کئے جائیں ۔ اس کار خیر میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اولڈبوائز سے مالی تعاون لیا جائے ۔ جو جس علاقے کے ہوں وہ اس کی دیکھ بھال کریں ۔
(۲) علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہرسال مسلمان لڑکے اور لڑکیوں کے اعدادوشمار جاری کرے جس سے پتہ چلے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی داخلہ لینے کی استعداد (Capacity)کتنی ہے اور کتنوں نے درخواست دی ہے اور کتنی استعداد بڑھانے کی ضرورت ہے ۔ ساتھ ہی ساتھ یونیورسٹی دوسرے اقلیتی تعلیمی اداروں سے شراکت کرکے ان بچوں و بچیوں کو داخلہ دلوانے میں مدد کرے ۔ یہ کام یونیورسٹی اپنے داخلہ جاتی امتحان کے اسکور کو دوسرے تعلیمی کالجوں کے ساتھ شراکت کرکے کرسکتی ہے ۔
(۳) مسلمانوں کی تعلیم کے فائنانس کے لئے ضروری ہے کہ مسلمانوں کے پاس دینے کے لئے موجودہ زکوٰۃ کا جو بڑا نظام ہے اس کا صرف 10 فیصد تعلیمی مد میں دیا جائے ۔ یہ کام علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے وابستہ لوگ کریں تو زیادہ بہتر ہوگا۔ زکوٰۃ کے روپیے کا شمار ایک تخمینہ کے مطابق 10000 کروڑ ہے 29 اگر 10 فیصد بھی جمع کرلیا جائے تو علی گڑھ تحریک کئی کالج، یونیورسٹیاں اوراسکول اور مدارس کھول سکتی ہے ۔
(۴) یونیورسٹی دوسرے اقلیتی کالجوں اور اسکولوں کے اساتذہ کے معیارِ تعلیم کو بڑھاوا دینے کے لئے کانفرنس، سمینار وغیرہ کا انتظام کرے خاص کر دینی مدارس کے ساتھ مل کر ان کو ٹیکنالوجی کی مدد سے معیاری درس و تدریس قائم کرنے میں مدد کرے ۔کتابوں کی دستیابی اور علمی بحث و مباحثہ کرنے میں مدد کرے یونیورسٹی نے مدارس کے اساتذہ میں سائنسی رجحان پیدا کرنے کے لئے جوادارہ کھولاتھا اس کو فعال بنانے کی ضرورت ہے ۔
(۵) لڑکیوں کی تعلیم کے لئے بہتر سے بہتر انتظام کیا جائے ۔ کوئی بھی قوم کیسے ترقی کرسکتی ہے جس کی نصف آبادی تعلیمی طور پر پچھڑی ہوئی اور جاہل ہو اور جس کی گود میں قوم کے مستقبل کی پرورش کی ذمہ داری ہو۔ اس سے بڑی غفلت کیا ہوگی کہ جاہل مائوں کی گود سے علم کے سر چشمہ کی امید کی جائے ۔
(۶) علی گڑھ تحریک کے ذریعہ پھرسے تمام ہندوستانی مسلمانوں کو تعلیم کے لئے جوڑا جائے ۔ مشرقی، اسلامی تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید تعلیم کو بھی گردانتے ہوئے جگہ جگہ ایسے مراکز قائم کیے جائیں جہاں لوگوں کو خواندہ بنایا جاسکے ۔ خاص کر خواتین کوخواندہ اور تعلیم یافتہ بنایا جائے ۔ آج پھر علی گڑھ تحریک کو نئے نقطہ نگاہ، سوچ اور افرادی قوت کے ساتھ فعال بنانے کی ضرورت ہے ۔ تاکہ اکیسویں صدی میں یہ تحریک ہندوستانی مسلمانوں کی تعلیم کو بڑھاوا دینے میں اہم رول ادا کرسکے ۔ موجودہ صدی میں علی گڑھ تحریک کو تمام مسلمانوں کو خواندہ بنانے اور اعلیٰ تعلیم میں بہتر کارکردگی دینے کی ذمہ داری لینی ہی ہوگی۔
محمد علام
پوسٹ گریجویٹ ٹیچر (منٹو سرکل)
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ ۔۲۰۲۰۰۲ (انڈیا)
Email: mohammad_allam@rediffmail.com
حواشی
۱- علی گڑھ کی علمی خدمات، پروفیسر خلیق احمد نظامی۔ صفحہ، ۶۶
۲- پروفیسر رشید احمد صدیقی Sir Syed’s Concept of westen Education and its implementation at Aligarh صفحہ، ۱۷
۳- ڈاکٹر علی احمد ، Foreward: Sir Syed Ahmad Khan on Education، ، صفحہ، VIII
۴- تاریخ تعلیم ہند۔ سید نوراللہ اور جے پی نائک صفحہ،۱۰
۵- The Census of British India 1871-72 www.jstor.org/stable/2339124? Seq=1#pages.scan-tab-contents.صفحہ ۱۶
۶- https://rularindiaonline.org/resources/memorundum=on-the-census-of-british-india-of-1871-72/
۷- فکرو نظر-سرسید نمبر ، ضلع علی گڑھ کی تعلیمی مردم شماری پر سید کا نایاب رسالہ، صفحہ، ۸۲
۸- فکرو نظر-سرسید نمبر ، ضلع علی گڑھ کی تعلیمی مردم شماری پر سید کا نایاب رسالہ، صفحہ، ۸۴-۸۳
۹- فکرو نظر-سرسید نمبر ، ضلع علی گڑھ کی تعلیمی مردم شماری پر سید کا نایاب رسالہ، صفحہ، ۸۸
۱۰- http.//ruralIndiaonline.or/resources/memorundum-on-the-Census-of-BritishIndia-of-1871-72/
صحفہ 37
۱۱- www.amu.ac.in/iqac.jsp? did=10182shid= useful%20statictistics
۱۲- www.amu.ac.in/iqac.jsp? did=10182shid= useful%20statictistics
۱۳- www.amu.ac.in/iqac.jsp? did=10182shid= useful%20statictistics
۱۴- www.amu.ac.in/iqac.jsp? did=10182shid= useful%20statictistics
۱۵- www.amu.ac.in/iqac.jsp? did=10182shid= useful%20statictistics
۱۶- www.amu.ac.in/iqac.jsp? did=10182shid= useful%20statictistics
۱۷- مردم شماری: مذہب، 2001
۱۸- سچر کمیٹی رپورٹ، 2006، صفحہ ۶۴
۱۹- سچر کمیٹی رپورٹ، 2006، صفحہ ۶۴
۲۰- سچر کمیٹی رپورٹ، 2006، صفحہ ۶۹-۶۸
۲۱- www.dnaindia.com/report-only-11-in-100-muslims-take-up-higher-education-1796343
صحفہ 21
۲۲- انڈین ایکپریس ستمبر 01، 2016 کی رپورٹ
۲۳- آل انڈیا سروے آف ہائر ایجوکیشن (AISHE)2015 کی رپورٹ
۲۴- علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ایکٹ 1920، Update-صفحہ ۵
۲۵- Censusindia.gov.in/Ad-Campaign/drop_in_articles/04-Distribution_by_Religion.pdp صفحہ 3
۲۶- http://thewire.in/6328/Census-litracy-religion/
۲۷- indianexpress.com/article/India/india-news/india/muslims-literacy-rate-india-Census-
report-education-3006798/
۲۸- نئی تعلیمی پالیسی، منسٹری ہیومن ریسورس ڈپلومینٹ، گورنمنٹ آف انڈیا
۲۹- سچر کمیٹی رپورٹ، صفحہ ۵۸
۳۰- NIRF-2016 علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اعداد و شمارے
Leave a Reply
Be the First to Comment!