اپنی بات

اردو کی بقا اور ترقی کا راستہ تعلیمی اداروں سے ہوکر جاتا ہے۔ اگر اسکول سے لے کر یونی ورسٹی کی سطح تک اردو کی تعلیم کا مناسب نظم نہ ہو تو اس کی بقا اور ترقی کے لیے کیے جانے والے سارے دعوے کھوکھلے ثابت ہوں گے۔  اس سمت میں کی جانے والی ساری کوششیں بھی اسی صورت میں کارگر ہوسکتی ہیں جب ہم میں سے ہر شخص اپنے آس پاس کے اسکولوں میں اردو کی تعلیم کو یقینی بنائے۔ ہمارے یہاں اس معاملے میں اگر تھوڑی بہت بیداری پائی جاتی ہے تو وہ صرف سرکاری اسکولوں کے حوالے سےہے۔ ہماری ساری گفتگو کا محور یہ ہوتا ہے کہ فلاں سرکاری اسکول میں اردو کی تعلیم کا نظم ہے کہ نہیں؟ لیکن ہم لوگ بہت کم اس معاملے پر غور کرتے ہیں کہ ہمارے بچے جن پرائیویٹ اسکولوں میں داخل ہیں ان میں اردو ہے یا نہیں؟ اور اگر اردو ٹیچر نہیں ہیں تو اس کے لیے کیا لائحہ عمل بنایا جائے ، اس معاملے میں مکمل طور پر خاموشی پائی جاتی ہے۔ میں سرکاری اسکولوں کے معاملے میں اس فکرمندی کو منفی نظر سے نہیں دیکھتا۔ یہ اچھی بات ہے ۔ لیکن اگر یہی فکر مندی ہمارے یہاں پرائیویٹ اسکولوں کے حوالے سے نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگاکہ ہم  اردو تعلیم کے نظم سے زیادہ اردو اساتذہ کی بحالی کے لیے فکر مند ہیں۔  ہم یہ چاہتے ہیں کہ اردو باقی رہے اس کو پڑھنے والے بھی باقی رہیں لیکن وہ طبقہ اردو پڑھے جو سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہم خود اپنی اس زبان کو سماج کے ان بچوں کے لئے پسند کررہے ہیں جو مہنگی فیس دے کر پرائیویٹ اسکولوں میں نہیں جاسکتے۔

پرائیویٹ تعلیمی ادارے ہماری ہی فیس کے پر چلتے ہیں۔ ہمارے بچوں کو ایڈمیشن دے کر وہ احسان نہیں کرتے ہیں۔ وہ جو تعلیم دیتے ہیں اس کی موٹی فیس بھی وصول کرتے ہیں۔ جب ہم گارجین ان کی ہر بات کو آنکھ بند کرکے تسلیم کرتے ہیں تو کیا وہ ہماری اتنی بات نہیں مان سکتے کہ ایک مضمون کے طور پر ہمارے بچوں کو اردو پڑھانے کا نظم کریں۔  یہ ہمارا حق ہے اس کو استعمال کرنا چاہئے۔  افسوس کی بات یہ ہے کہ لکھنؤ، دہلی، نوئیڈا اور حیدرآباد جیسے شہروں میں جہاں اردو والوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے، اردو آبادی کے قریب کے اہم پرائیویٹ اسکولوں میں اردو تعلیم کا نظم نہیں ہے۔ اردو والے اسی بات پر خوش ہوجاتے ہیں کہ انہوں نے ہمارے بچوں کو داخل کرلیا۔ اب  اس سے آگے ان کے سامنے مزید کوئی مطالبہ کرنا نہیں چاہتے۔

اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری آنے والی نسلیں بھی اردو سے واقف رہیں تو اس کے لیے ہمیں یہ کام اجتماعی طور پر کرنا ہوگا۔ ہم کسی بھی اسکول میں اپنے بچے کو داخل کرائیں تو پہلے ہی معلوم کرلیں کہ وہاں پر اردو کی تعلیم کا نظم ہے یا نہیں؟  اگر نہیں ہے تو پرنسپل سے بات کریں، پیرنٹس ٹیچر میٹنگ میں ان گارجین سے ملیں جن کی مادری زبان اردو ہے۔ ان کو ساتھ لے کر اپنی بات پرنسپل تک پہنچائیں تاکہ ان کے پاس یہ کہنے کو نہ رہے کہ اردو پڑھنے والے بچے مطلوبہ تعداد میں نہیں ہیں۔  اگر کوئی دوسرا شخص آپ کو نہ ملے جو اپنے بچے کو اردو پڑھانا چاہتا ہو تب بھی پرنسپل کے نام خط لکھ کر اس کی ایک کاپی اپنے پاس محفوظ کرلیں۔

ہمارے بہت سے دوست گھر پر اردو کے لیے ٹیوشن رکھ کر مطمئن ہوجاتے ہیں کہ انہوں نے اردو کا حق ادا کردیا ہے۔  سوال یہ ہے کہ اگر گھر پر ٹیوشن ہی اس مسئلہ کا حل ہے تو اسکولوں کی ضرورت ہی کیا تھی؟  اسکول بچوں کو ہوم ورک کے نام پر کاموں کی ایک بڑی فہرست تھمادیتے ہیں جن کو کرتے بچوں کا سارا وقت گزر جاتا ہے۔ ایسے میں بچے پر گھر میں الگ سے ایک نئی زبان کی تدریس ایک اضافی بوجھ کی طرح ہوگی۔  گھر پر اردو کی تدریس اسی صورت میں کی جائے اس کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہو۔

یاد رہے کہ مادری زبان ایک امانت  ہے جس کو آنے والی نسلوں تک منتقل کرنا ہمارا فرض ہے۔ لہذا ہم سب کو اس فرض کی ادائیگی کےلیے کمربستہ ہوجانا چاہیے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جدید ٹکنالوجی سے ہم زندگی کے ہر شعبے میں فائدہ اٹھارہے ہیں۔ تعلیم وتعلم کا شعبہ اس سے اچھوتا نہیں ہے۔  کتابوں کی ٹائپنگ سے لے کر ان کی چھپائی تک کا مرحلہ اب پہلے کے مقابلے میں بہت آسان ہوگیا ہے۔ لیکن ٹکنالوجی کسی دودھاری تلوار سے کم نہیں۔  ہارڈسک یا کمپوٹر خراب ہونے پر سارے کیے کرائے پر پانی بھی پھر جاتا ہے۔ اگرچہ کمپوٹر کی خرابی یا غلط بٹن دب جانے کی وجہ سے حذف شدہ مواد تک رسائی حاصل کرنے کے بھی راستے ہیں لیکن وہ کسی تیڑھی کھیر سے کم نہیں۔ اس وجہ سے اکثر معاملات میں افسوس کا اظہار کرنے کے بجائے کوئی دوسرا راستہ نہیں سجھائی دیتا ہے۔  اردو ریسرچ جرنل کے اس شمارے کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ پیش آیا۔ مضامین کا انتخاب اور  پروف ریڈنگ کے بعد بیسواں شمارہ تیار کرچکا تھا۔  اس شمارے کے لیے اداریہ بھی لکھ کر مکمل کرلیا تھا لیکن ویب سائٹ پر اپلوڈ کرنے سےپہلے ونڈو کرپٹ ہونے کی وجہ سے سب  کچھ ختم ہوگیا۔  میں تعلیم وتعلم سے متعلق  اپنی سبھی فائلوں کو احتیاط کے طور پرکلاؤڈ اسپیس “ون  ڈرائیو ” میں رکھتا ہوں۔ ہماری یہ احتیاطی تدبیر بھی رائیگاں گئی اس لیے کہ کمپیوٹر نے بیک اپ لیا ہی نہیں تھا۔  خلاصہ کلام یہ کہ ونڈو دوبارہ اپلوڈ کرنے کے بعد اسی کام کو دوبارہ کرنا پڑا۔ ای میل سے مضامین کو ڈاؤن لوڈ کرنے کے بعد ان کی پروف ریڈنگ، انتخاب اور ترتیب کے جاں سوز مرحلے سے دوسری مرتبہ گزرتے ہوئے یہ شمارہ آپ کی خدمت میں پیش کررہا ہوں۔ بہت ممکن ہے کہ جن مضامین کا انتخاب اس سے پہلے کے شمارے میں کیا گیا تھا اس شمارے میں اس سے مختلف ہو۔ دوبارہ پروف پڑھنے میں عجلت کی وجہ سے کچھ غلطیاں ہماری پہنچ میں آنے سے رہ گئی ہوں۔  لیکن یہ حادثہ ہمارے لیے بہت کچھ نصیحت کا سامان لے کر آیا ہے۔ ہم میں سے اکثر لوگ آسانی کی خاطر جس فائل پر کام کررہے ہوتے ہیں اس کو ڈیکس ٹاپ پر محفوظ کردیتے ہیں جو خطرے سے خالی نہیں ہے۔ چونکہ سی ڈرائیو کا سارا مواد ونڈوز خراب ہونے کے ساتھ ہی ختم ہوجاتا ہے اس لیے سبھی فائلوں کو ای یا ڈی ڈرائیو میں محفوظ کیا جانا چاہیے۔  اس کے ساتھ  اس فائل کو کسی کلاؤڈ اسپس میں بھی محفوظ رکھا جانا چاہئے تاکہ کمپوٹر پر حذف ہونے کے بعد بھی اس تک رسائی ممکن ہو۔

شمارہ حاضرہے۔ اس میں ادب کے کئی اہم گوشوں پر مضامین شامل ہیں۔ امید ہے کہ قارئین کو پسند آئے گا۔

Leave a Reply

1 Comment on "اپنی بات"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
Abdul Bari
Guest
بہت خوب مبارک ہو
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.