اردو کے آغاز کے مختلف نظریئے

پروفیسر سید شفیق احمد اشرفی

صدر شعبئہ اردو، خواجہ معین الدین چشتی اردو عربی۔فارسی یونی ورسٹی لکھنؤ۔ اتر پردیش

                ارود زبان کی پیدائش کب، کہاں اور کیسے ہوئی۔ اس سلسلے میں لسانیات کے عالم اور ماہرین کے درمیان کافی اختلافات پائے جاتے ہیں۔ ماہرین لسانیات گارساں دتاسی،جارج گریسن،جیمز اور ڈاکٹر سنیتی کمار چٹرجی کی رائیں من و عن قبول نہیںکی جا سکتیں۔کیونکہ تحقیقی کام نے اس کی ایسی کڑیاں پالی ہیں جو ان ماہرین لسانیات کی تحقیق اور رائے سے آگے نکل گئی ہیں۔ پھر بھی مختلف محققین کی آراء کو مدّ نظر رکھتے ہوئے کسی خاص نتیجے پر پہنچا جا سکتا ہے۔

اردو کی ابتدا کے متعلق میر امن سے جمیل جالبی تک محققین کی طویل فہرست ہے جنہوں نے اپنے اپنے طور پر اردو کی جائے پیدائش اور سنہ پیدائش مقرر کرنے کی کوششیں کی ہیں۔ ان میں محمد حسین آزاد، سید سلیمان ندوی، نصیرالدین ہاشمی، حافظ محمود شیرانی، اختر اورینوی،محی الدین قادری زور، شوکت سبزاوری اور مسعود حسین خاں کے نظریئے توجہ کے مستحق ہیں۔

آب حیات میں مولانا محمد حسین آزاد نے اردو کی ابتدا سلطان غیاث الدین بلبن کے عہد سے  بتائی ہے،اور اردو کا ماخذ برج بھاشا کو بتایا ہے۔ لکھتے ہیں: ”اتنی سی بات ہر شخص جانتا ہے کہ ہماری اردو زبان برج بھاشا سے نکلی ہے اور برج بھاشا خاص ہندوستانی ہے”۔(آب حیات ص25)

                جب کہ سید سلیمان ندوی کا یہ خیال ہے کہ اردو کی ابتداء باضابطہ طور پر ہندوستان میں محمد بن قاسم کے حملہ سندھ 711ء یا 712ء کے بعد ہوئی۔ چونکہ مسمان فاتح عربی النسل تھے اور جو زبان ساتھ لیکر آئے تھے وہ عربی تھی اور تقریباً 300 سو سال تک وادئی سندھ ہی میں مقیم ر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سید سلیمان ندوی اپنی کتاب ”نقوشِ سلیمانی” میں۔اردو کی جائے پیدائش سندھ قرار دیتے ہیں:

”مسلمان۔سب سے پہلے سندھ میں پہنچتے ہیں۔ اس لئے قرین قیاس یہی ہے کہ جس کو ہم آج اردو کہتے ہیں اس کا ہیولٰی وادئی سندھ میں تیار ہوا ہوگا”۔

لیکن لسانیاتی نقطئہ نظر سے دیکھا جائے تو مندرجہ ذیل بالا بیان میں صداقت نہ کے برابر ہے یہ صحیح ہے کہ اس زمانے میں عربوں نے کوئی نئی زبان کی اختراع نہیں کی، بلکہ اس خطہ کی زبان کو متاثر ضرور کیا۔

دسویں صدی کے ربع آخر میں دوسری بار غزنی کے بادشاہ امیر سبکتگین کی سربراہی میں درّہ خیبر سے ہو کر پنجاب میں وارد ہوئے۔امیر سبکتگین کی وفات997ء کے بعد اس کے فرزند سلطان محمود غزنوی (متوفی 1030ء) کے پنجاب اور ہندوستان پر پے در پے حملوں کا سلسلہ شروع ہوا۔(1001ء تا 1027ء)دھیرے دھیرے مسلمان پنجاب میں پھیل گئے۔ یہ لوگ اپنے ساتھ فارسی زبان لے کر آئے تھے،ان میں سے کچھ ترک نزاد بھی تھے،خود سلطان بھی ترکی النسل تھا۔ اس لئے ان میں سے کچھ کی زبان ترکی بھی تھی۔ دوسو سال تک مسلمانوں نے پنجاب میں حکومت کی اور گہرے روابط سماج سے پیدا کئے۔اسی بنیاد پر محمود خاں شیرانی نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ وہ زبان جسے ہم”اردو” کہتے ہیں پنجاب میں پیدا ہوئی اور دہلی پہنچی۔لکھتے ہیں:

”اردو دہلی کی قدیم زبان نہیں بلکہ وہ مسلمانوں کے ساتھ دہلی جاتی ہے اور چونکہ مسلمان پنجاب سے ہجرت کرکے جاتے ہیں اس لئے ضروری ہے کہ وہ پنجاب سے کوئی زبان لے کر گئے ہوں”_

اپنے اس بیان میں مضبوطی پیدا کرنے کیلئے محمود شیرانی نے بعض تاریخی شواہد اور دلائل بھی پیش کئے۔پنجابی اردو اور دکنی اردو کی مشترک لسانی خصوصیات کا بھی ذکر کیااور اس نتیجہ پر پہنچے کہ اردو اور پنجابی کی جائے ولادت ایک ہی مقام ہے۔ دونوںنے ایک ہی جگہ تربیت پائی، اور جب سیانی ہو گئی تب دونوں میں جدائی واقع ہوئی ہے۔

نصیرالدین ہاشمی اردو کی تلاش دکن کی سنگلاخ وادیوں میں کرتے ہیں تو ڈاکٹر شوکت سبزواری کے مطابق اردو کھڑی بولی یا ہندوستانی کی ترقی یافتہ شکل ہے ڈاکٹر مسعود حسین خاں شیرانی سے اختلاف کرتے ہیں۔کہتے ہیں:

”مسلمانوں کے ساتھ پنجاب سے جو زبان آئی وہ دہلی کے گرد ونواح میں بولی جانے والی کھڑی بولی میں مدغم ہو گئی اور ہریانوی کے ساتھ کھڑی بولی کاجو آمیزہ تیار ہوا وہی اردو زبان کے اولین نقوش ٹھہرے”_

اختر اورینوی کہتے ہیں کہ اردو کسی مخصوص زمانے اور جغرافیائی خطّے میں پیدا نہیں ہوئی بلکہ یہ مختلف تاریخی ادوار میں ہندوستان کے مختلف گوشوں میں الگ الگ علاقائی زبانوں سے اثر انداز ہو کر آزادانہ طور پر پروان چڑھی اور ایک مخصوص تاریخی موڑپر سارے ملک کی زبان بن گئی۔

ڈاکٹر شوکت سبزواری نے اردو کی پیدائش کا مسئلہ مسلمان کی آمد سے قبل چھیڑا ہے لکھتے  ہیں:

 ” اردو یا ہندوستانی اُپ بھرنش کے اس روپ سے ماخوذ ہے جو گیارہویں صدی عیسوی کے آغاز میں مدھیہ (پردیش)پردیش میں رائج تھی۔ یا یوں کہئے کہ اردو نے قدیم مغربی ہندی سے ترقی پاکر موجودہ روپ اختیار کی۔” (داستان زبان اردو)

سبزاوری کی بات میں وزن تو ہے لیکن کئی جگہ وہ خود اس کی تردید بھی کرتے ہیں۔لھذا وہ کسی فیصلہ کن نتیجہ پر پہنچنے کے بجائیخود کو اور قاری کو الجھا دیتے ہیں۔

سید سلیمان ندوی کے مطابق، عربو ںکی آمد کے بعد سندھ میں الفاظ کے لین دین سے اردو کا ہیولٰی تیار ہوا،اس طور پر قابلِ قبول نہیں کہ زبانوں کی تشکیل کا عمل افعال اور ضمائر سے ہوتی ہے۔ ورنہ آج دنیا کی بیشتر زبانیں انگریزی کے اثر سے اپنی حیثیت کھو دیتی۔ اختر اورینوی بھی کم وبیش اسی دائرے میں۔چلے ہیں نصیرالدین ہاشمی کا یہ کہنا کہ اردو دکن میں پیدا ہوئی، لسانی غلط فہمی پر مبنی ہے کیونکہ دکن میںمسلمانوں کا واسطہ دراویدی خاندانوں سے پڑاعربی اور دراویدی کے اختلاط سے اردو کا معرضِ وجود میں آنا محض قیاس آرائی ہو سکتی ہے۔

محمود شیرانی اور مسعود حسین خاں ہمراہ  چلتے ہیں لیکن منزل قریب آنے سے قبل دونوں مختلف اور متضاد راہوںپر چل پڑتے ہیں۔ڈاکٹر شیرانی کا یہ کہنا کہ ” مسلمان جب 1192ء میں دہلی میں داخل ہوئے اور اپنے ساتھ پنجابی لے کر آئے جو بعد میں ترقی کر کے اردوہو گی” اور پھر مزید یہ کہنا  کہ ”سعد سلمان کے وقت اردو زبانکا جنم پنجاب میں ہوا ”(پنجاب میں اردو دیکھئے)اب تک اس خیال کی کوئی ٹھوس بنیاد نہں مل سکی ہے کہ محمد بن قاسم کی سندھ فتح کے وقت ہی اردو زبان کا ہولٰی تیار ہو چکا تھا۔ ممکن ہے کہ برسوں کی محنت اور عرق ریزی کے بعد کوئی ایسی گم شدہ کڑی مل جائے جو تمام شکوک وشبہات دور کر سکے۔فی الحال مسعود حسین خاںیا شیرانی کے خیالات کی تردید کو مدّ نظر رکھتے ہوئے۔ لکھتے ہیں:

” مسلمان جو زبان اپنے ساتھ دلی لائے تھے وہ یہاںکی فضا میں گھٹ گھٹ کر فنا ہوگئی اور مسلمانوںکی زبان پر مضافات کی زبان ہریانوی اور کھڑی بولی کا تسلط ہو گیا اور یہی زبانیں آپسی میل جول کے بعد رفتہ رفتہ ترقی کرتی گئیں،اور اردو کا جنم ہوا”۔

” اردو کے آغاز کو دو منزلوں میں ڈھونڈھنا چاہئے۔ اول کھڑی بولی کا آغاز اور دوسرے کھڑی بولی میں عربی وفارسی کا شمول، جس کا نام اردو ہو جاتا ہے” ۔

                میر امن سے مسعود حسین تک نے دوسری منزل کے بارے میںبات کی ہے،جب کہ سہیل بخاری اور شوکت سبزواری نے پہلی منزل پر زور دیا ہے۔ماہرین لسانیات کے ان نظریات کی روشنی میں ہم اس نتیجہ کو اخذ کرسکتے ہیں۔کہ اس بات پر بیشتر لسانیات کے عالم اور ماہر متفق ہیں کہ اردو شمالی ہند میں پیدا ہوئی ا ور شمال سے ہی جنوب (دکن) گئی۔اس زبان کو ادبی قالب میں ڈھالنے والے جنوبی ہند کے وہ مسلمان تھے جو محمد بن تغلق کے ہمراہ ہجرت کر کے دولت آباد(دیوگیری) گئے تھے۔ایک خیال یہ بھی ہے کہ تیرہویں صدی عیسوی میں ریختہ مبہم شکل میں موجود تھی،اور امیر خسرو(1253 ء تا 1335ء)کے کلام میں اس کی جھلک ملتی ہے۔کچھ کہہ مکرنیاںاور پہیلیاں ہیں جو ان سے منسوب کی جاتی ہیں، اور انہیں کی بنیاد پر آب حیات کے مصنف محمد حسین آزادنے اردو کی ابتداسلطان غیاث الدین بلبن کے عہد سے استوار کیا ہے۔ مسعود حسین خاں کا یہ کہنا کہ  اردو آج بھی دو آبے کی زبان ہے، بہت اہمیت کا حامل ہے۔ کیونکہ پیڑ پودوں کی طرح لسان کی جڑیں بھی مخصوص علاقوں پرگہرے طور پر پیوست ہوتی ہیں۔اردو کی ابتدا کے متعلق ابھی تحقیق  کی اور بھی منزلیں ہیں جہاں تک لسانیات کے عالم کو جانا ہے۔

٭٭٭

Leave a Reply

2 Comments on "اردو کے آغاز کے مختلف نظریئے"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
trackback

[…] اردو ریسرچ جنرل […]

trackback

[…] اردو ریسرچ جنرل […]

wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.