سیّد رفیق حسین کے افسانوں میں حیوانات

محمد سرفرا ز

لیکچرر شعبہ اردو، گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ کالج سمندری، فیصل آباد(پاکستان)

Muhammad Sarfraz

Lecturer Department of Urdu, Govt. Postgraduate College Samundri.

Animals in sayyid Rafique Hussain’s short stories.                                   

“It is a fact that literature mirrors life but the description of animals is rarely found in it despite the reality that animals have been close partners of human beings since the earlist generations. Social animal continued forgetting animals after he bade farewell to his primitive jungle life. Western literature is rich with the tradition of animal characterization but Urdu short story has only a few names with Sayyid Rafique Hussain at top of the list. His short stories collection “Aaena-a-Hairat” has a number of animal characters. This article deals with the introduction, research and criticism of his stories. Though, unlike the western and few Urdu writers, He has not depicted his animal characters symbolically, yet many of his animal characters symbolize human figures. Sayyid Rafique Hussain has deep observation about animals.”

            اُردو شاعری میں جو قبولیت غزل کے حصے میں آئی وہی قبولِ عام اردو فکشن میں افسانے کو حاصل ہوا۔ اس مقبولیت کی ایک وجہ غالباً یہ بھی ہے کہ اُردو افسانہ اپنے آغاز سے موجودہ عہد تک مواد، ہیئت، اسلوب اور تکنیک کے اعتبار سے ارتقا پذیر رہا ہے۔ عالمی ادبی تحریکوں سے اگر مسابقت نہیں رہی تو اُردو افسانہ ان کا مقلد ضرور رہا ہے۔ ابتدائی دور کی مقصدیت اور اصلاح پسندی سے لے کر علامتی اور تجریدی رجحانات تک افسانہ تنوع کا نمونہ پیش کرتا رہا ہے۔ اس میں علاقائی، جغرافیائی اور معاشرتی تبدیلیوں کی بازگشت بھی سنائی دیتی ہے اور عہد بہ عہد رونما ہوتی مغربی تحریکوں اور رجحانات مثلاً ترقی پسندی(Progressivism)، مارکسزم(Marxism)، رومانویت(Romanticism)، فطرت پسندی (Naturalism)،علامت پسندی (Symbolism)، تاثریت (Expressionism)، وجودیت (Existantionalism)، تجریدیت (Abstractionism) وغیرہ کے اثرات نظر آتے ہیں۔ اسی بوقلمونی نے قارئین اور ناقدین کی توجہ اس صنف کی جانب مبذول کروائے رکھی۔

            حیوانات ہمیشہ سے انسان کے ہمدم اور ساتھی رہے ہیں لیکن جنگل سے نکل آنے کے بعد انسان نے ان کی طرف شاید ہی مڑ کے دیکھا ہے۔ بہت کم لکھنے والوں نے ان کے جذبات و احساسات کو محسوس کرنے کی کوشش کی ہے۔ اردو افسانے میں اگر اسی قسم کی کوئی باضابطہ کوشش کسی نے کی ہے تو وہ سید رفیق حسین (۱۸۹۴ء تا ۱۹۴۴ء)(۱)ہیں۔ انہوں نے اردو افسانے میں نئے باب کا اضافہ کیا۔ ڈاکٹر انوار احمد نے بجا طور پر انہیں اُردو افسانے کا اکلوتا قرار دیا ہے۔(۲)کیونکہ انھوں نے جس راہ کا انتخاب کیا وہ کم ز کم اردو کے لیے نئی تھی۔ سید رفیق حسین نے پہلی مرتبہ حیوانات کو افسانے میں مرکزی کرداروں کی صورت میں پیش کر کے ان کے جذبات، محسوسات کو سمجھنے اور سمجھانے کی سعی کی لیکن یہ کردار نہ تو بعض افسانہ نگاروں کی طرح علامتی طور پر پیش ہوئے ہیں اور نہ یہ شکاریات قسم کی تحریریں ہیں، جو مہم جوئی کے واقعات پر مبنی ہیں۔ دراصل انہوں نے دوپایہ حیوان کی بڑھتی ہوئی آبادی سے معدوم ہوتی جنگلی حیات کے چند نمونے اپنے بھرپور مشاہدے کی روشنی میں پورے تخلیقی رچائو کے ساتھ صفحۂ قرطاس پر مرتسم کر کے پالتو اور جنگلی حیوانات سے کچھ سیکھنے اخذ کرنے کا سامان مہیا کیا ہے اور باور کروایا ہے کہ بظاہر لاقانون نظر آنے والا جنگل دراصل بعض قاعدوں کا پابند ہے اور شقاوت کی جو مثالیں قانون کے پابند معاشرے میں اکثر اوقات دیکھنے میں آتی ہیں جنگل میں نہیں ملتیں۔ ایک افسانے کے حاشیے میں لکھتے ہیں:

’’اصلیت یہ ہے کہ دہلی اور بمبئی سے کہیں زیادہ محفوظ جنگل میں پھرنا ہوتا ہے۔‘‘(۳)

            سید رفیق حسین کی افسانوی کاوشیں اوّل اوّل شاہد احمد دہلوی کے ماہوار رسالے ’’ساقی‘‘ دہلی کے توسط سے منظرِعام پر آئیں۔ ان کا پہلا افسانہ ’’کفارہ‘‘ کے عنوان سے اسی رسالے میں فروری ۱۹۳۹ء کے شمارے میں طبع ہوا۔(۴)اس کے بعد یہاں ان کے افسانے اور مضامین یکے بعد دیگرے شائع ہوتے رہے۔ ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’آئینۂ حیرت‘‘ کے نام سے ۱۹۴۴ء میں ساقی بک ڈپو دہلی سے چھپا۔ اس میں حیوانات کے متعلق ان کے آٹھ افسانے ’’کفارہ‘‘، ’’کلوا‘‘، ’’بیرو‘‘، ’’گوری ہو گوری‘‘، ’’آئینۂ حیرت‘‘، ’’ہر فرعونے را موسیٰ‘‘، ’’شیریں فرہاد‘‘ اور ’’بے زبان‘‘ کے عنوانات کے تحت شائع ہوئے۔ یہی افسانوی مجموعہ بعد میں مختلف شہروں سے مختلف عنوانات سے چھپا۔ کراچی میں اردو اکیڈمی سندھ نے اپریل ۱۹۵۲ء میں ’’گوری ہو گوری‘‘ کے نام سے شائع کیا۔ راول پنڈی سے ان کے بھتیجے میجر جنرل شاہد حامد نے ’’بے زبان‘‘ کے عنوان سے شائع کروایا اور ’’چوتھی بار کتاب کار پبلی کیشنز یوپی بھارت سے ’’شیر کیا سوچتا ہو گا‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔‘‘(۵) 

            ’’نیا دور‘‘ کراچی کے شمارہ نمبر ۴۵، ۴۶ جون ۱۹۶۸ء میں ان کے افسانوں اور مضامین کا انتخاب شائع ہوا۔ اسی شمارے میں ایک ادھورا ناولٹ ’’فسانۂ اکبر‘‘ کے نام سے چھپا اس ناولٹ کی ابتدا میں ان کی خودنوشت سوانح بھی ہے۔ ۲۰۰۲ء میں آج کراچی نے ان کی کلیات ’’آئینۂ حیرت اور دوسری تحریریں‘‘ کے عنوان سے اور ۲۰۰۴ء میں سنگِ میل لاہور نے مجموعہ سید رفیق حسین کے نام سے طبع کی۔ حال ہی میں الحمد پبلی کیشنز لاہور نے ان کی افسانوی کلیات “سید رفیق حسین کے بے مثال افسانے” کے عنوان سے شایع کی ہے۔تاہم ساقی دہلی میں بالترتیب مارچ، اگست، اکتوبر ۱۹۳۹ء کے شماروں میں چھپے ان کے مضامین ’’ریورس گیئر‘‘، ’’چائے بازی‘‘ اور ’’پریشانیاں‘‘ کسی مجموعے میں شامل نہیں ہیں۔

            ان کا اصل کارنامہ ’’آئینۂ حیرت‘‘ میں شامل افسانے ہی ہیں۔ باقی افسانے اور مضامین اس پائے کے نہیں کہ ان کو اچھوتے موضوعات کے حامل کہا جا سکے۔ تاہم ناولٹ تکنیک کے اعتبار سے منفرد ضرور ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ حیوانات کا ذکر کتب سماوی اور مذہبی کتابوں میں بھی کثرت سے ملتا ہے اور داستانوں، لوک کہانیوں میں بھی لیکن ادب میں ان کا تذکرہ خال خال نظر آتا ہے اور جہاں کہیں ذکر ہوا ہے خاص طور پر مشرقی ادب میں تو وہ بھی لوک دانش کے اظہار کے ایک ذریعے کے طور پر۔ جانوروں کی نفسیات، طرزِ زندگی، اصول و ضوابط، پسند ناپسند، بہت کم زیربحث آیا ہے۔ مصوری نے البتہ نقش ہائے رنگ رنگ میں حیوانات کو زیادہ اہمیت کا حامل گردانا ہے۔ انگریزی زبان میں جس کا مرہونِ منت اردو افسانہ ہے اس حوالے سے شاعری میں چوسر (Parliment of Foulst)، اڈمنڈاسپنسر (The Faerie Queen)، ملٹن (Paradise Lost)، کے نام پیش کرتی ہے جبکہ نثر میں کپلنگ (The Jungle Book)، آسکروائلڈ (The Happy Prince)، ارنسٹ ہیمنگوے (The Old Man and the Sea)، جارج آرول (Animal Farm)، ریمن گیرے (The Roots of Heaven)جوناتھن سوئفٹ(Gulliver’s Travels)، بن جانسن، رچرڈ ایڈمز، سی ایس لیوس، جیک لنڈن، جیمز ہیریٹ، بیلجیئن مصنف ماترلنک وغیرہ بڑے نام ہیں۔

            اردو افسانے میں اس نوع کی اکادکا سرسری مثالیں کچھ افسانہ نگاروں مثلاً راشدالخیری، یلدرم، ابوالفضل صدیقی، خان فضل الرحمن، اوپندرناتھ اشک، اشفاق احمد، بانو قدسیہ، انتظار حسین کے ہاں مل جاتی ہیں۔ تاہم اس موضوع پر تواتر اور خوبصورتی سے سید رفیق حسین نے ہی لکھا ہے۔ اس کے باوجود ہماری افسانوی تنقید نے انہیں وہ پذیرائی نہیں دی جس کے وہ مستحق ہیں۔ اگرچہ ان کا عملی طور پر شعبہ انجینئرنگ تھا لیکن انھیں سیرو شکار کا بھی تجربہ تھا۔ اس لیے جنگل اور جانوروں سے کافی واسطہ رہا۔ شکار سے زیادہ وہ جانوروں کے عادات و خصائل کا مشاہدہ کرتے تھے۔ جانوروں سے ان کی خصوصی دلچسپی اور لگائو کی تصدیق ان کے عزیزوں نے کئی جگہوں پر کی ہے ان کے بھانجے فضل قدیر کا کہنا ہے:

’’وہ یقینا شکار میں اتنی گہری دلچسپی نہیں رکھتے تھے جتنی جنگل میں جانوروں کو دیکھنے اور ان کے نفسیات کا مشاہدہ کرنے میں رکھتے تھے۔ کانپور میں زندگی کے آخری ایام میں یہ بات انہوں نے زور دے دے کر خود مجھ سے کہی کہ میں کوئی بڑا شکاری نہیں تھا اور نہ ایسا سمجھتا ہی ہوں میں نے اکثر راتیں پیڑ پر صرف اس لیے گزار دیں کہ دیکھوں شیر ادھ کھائے شکار کو دوسرے دن کس طرح کھاتا ہے۔‘‘(۶)

            ان کی اس محویت اور وارفتگی کو بعض اوقات بائولے پن اور سنکی پن پر محمول کیا جاتا جس کا ادراک انہیں خود بھی تھا اپنی خودنوشت سوانح کے آغاز میں اپنے متعلق لوگوں کی رائے کا اظہار خود بھی کر چکے ہیں۔ مستنصر حسین تارڑ ان کی بھانجی معروف ناول نگار اور افسانہ نویس الطاف فاطمہ کے حوالے سے لکھتے ہیں:

’’الطاف کو رفیق حسین کے ساتھ میرے قلبی لگائو کا علم تھا کہ میں بھی جانوروں اور پرندوں سے بہت قربت محسوس کرتا تھا۔ چنانچہ اکثر ان کا ذکر چھڑ جاتا کہ کیسے مستقل مزاجی ان کی خصلت میں نہ تھی۔ کبھی ملازمت چھوڑ دیتے، غائب ہو جاتے، کبھی کسی ایک مکوڑے پر پہروں جھکے رہتے کہ یہ حرکت کیسے کرتا ہے، اس کی بناوٹ کیسی ہے، کھاتا کیا ہے اور پھر الطاف ہنس کر کہتیں وہ تھوڑے بائولے تھے۔‘‘(۷)

            دراصل جس موضوع کا انتخاب انہوں نے کیا تھا وہ اس ژرف نگاہی، مشاہداتی قوت، باریک بینی کا متقاضی تھا اور انہوں نے بھی حیوانات کی عادات اور خصلتوں کے مشاہدے، مطالعے اور بعد میں اظہار کا حق ادا کر دیا۔ وہ جانوروں کی نفسیات تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کرتے تھے اور اس میں کامیاب بھی ٹھہرتے تھے جو جانور بھی ان کے افسانے کا مرکزی کردار بنا ہے، اس کا طرزِ زندگی، عادات و اطوار بڑی حد تک آشکار ہو گئے ہیں۔ حیوانی زندگی کے مطالعے اور مشاہدے پر مبنی یہ مرقعے دلچسپ بھی ہیں اور حقائق پر استوار بھی۔ اظہار کا سلیقہ بھی ان کے ہاں بدرجہ اتم پایا جاتا ہے۔ اگرچہ بعض جگہوں پر جب وہ حیوانی زندگی کو انسانوں کے ساتھ آمیز کرنے لگتے ہیں یا تقابل کرنا چاہتے ہیں تو جوشِ خطابت میں افسانے کے فنی خصائص کو نقصان پہنچا جاتے ہیں۔ بقول اختر حسین رائے پوری:

’’وہ انسان کی ظلم پسندی اور خودغرضی سے اس قدر نالاں ہیں کہ قصہ سناتے سناتے رک کر بیچ بیچ میں اس کی تنبیہ کرنے لگتے ہیں اور افسانہ کے آخر میں عموماً اسے نصیحت کا تازیانہ لگا دیتے ہیں۔ یہ ایک فنی نقص ہے جس سے کاش وہ احتراز کرتے۔‘‘(۸)

            جس زمانے میں سید رفیق حسین لکھ رہے تھے وہ دور ہی دراصل اصلاح پسندی اور مقصدیت کے بار کو اُٹھائے ہوئے تھا وہ بھی ان اثرات سے محفوظ نہ رہ سکے۔ تاہم حیوانی زندگی کے پہلو بہ پہلو انسانی زندگی کو لے کر چلنا منفرد تخلیقی تجربہ ہے۔ آخر کسی تخلیق کار نے تو شہری دیہی زندگی سے آگے ایک قدم جنگل کی طرف نگاہ اُٹھا کر دیکھا یا اپنے اردگرد صدیوں سے موجود پالتو جانوروں کی بے زبانی کو زبان دی۔ جنگل اور اس کے مناظر ان افسانوں میں سرگوشیاں کرتے محسوس ہوتے ہیں۔ عام آدمی جنگل کے بارے میں جو گمان رکھتا ہے اور جنگل کے اصل حقائق میں جو تفاوت ہے وہ ان کے افسانے ’’کفارہ‘‘ میں کھل کر سامنے آتا ہے۔ ’’کفارہ‘‘ اور ’’ہرفرعونے را موسیٰ‘‘ جنگل اور شکار کے متعلق ان کی معلومات کے حوالے سے شاہکار افسانے ہیں لیکن وہ جنگل اور جنگلی حیات کو محض ایک شکاری کی نظر سے نہیں بلکہ تخلیق کار کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ’’جو چیز رفیق حسین کے افسانوں کو محض شکاری یا جنگل کے مشاہدات سے بلند کر کے بڑی سے بڑی اور حسین سے حسین تخلیق بنا دیتی ہے وہ ان کا وہ طرزِاحساس اور منفرد اندازِنظر ہے جو زندگی کے اعلیٰ ترین شعور، نفسیاتی پیچیدگیوں کی آگہی اور سیاہ و سفید، گناہ و ثواب، جرم و سزا، نیکی و بدی اور عدل و انصاف کو ابدی صداقتوں کے پیمانے پر اسی طرح پیش کرتا ہے کہ اس میں ادب کی اعلیٰ ترین صفات پیدا ہو جاتی ہیں۔‘‘(۹)وہ حیوانات کو جنگل کے قوانین کے حوالے سے پرکھتے ہیں۔ حیوان اگرچہ کئی جگہوں پر ان کے ہاں فوقیت رکھتے ہیں مگر انسان کی عظمت مقدم ہے۔ حیوانات بجاطور پر اس کے معترف ہیں۔ ’’کفارہ‘‘ میں قتل کا مرتکب مفرور بہاری جب شیروں کا شکار کردہ بچا گوشت چرانے کی پاداش میں شیرنی کے غضب کا شکار ہو کر لقمۂ اجل بنتا ہے تو شیر، شیرنی سے یوں کنارہ کش ہوتا ہے:

’’شیر انسان سے نہ ڈرتا تھا لیکن جنگل کے قوانین اس طرح شکن ہوتے دیکھ کر تھرا گیا، وہ آہستہ سے گھوما اور خوں، خوں، خوں، خوں غراتا ہوا شیرنی کو ہمیشہ کے واسطے چھوڑ کر ایک طرف روانہ ہو گیا۔‘‘(۱۰)

            ان کےمطابق انسان، انسان کی عظمت کا قائل نہ ہوا ورنہ درندے بھی اس سے لرزہ براندام ہیں۔ ’’کفارہ‘‘ افسانہ جنگل کے مناظر، جنگل کے قوانین، جنگلی حیات کی تصویر کشی کے علاوہ شیر کے شکار کے لیے اپنائے جانے والے طریقوں اور اس کی نفسیات پر روشنی ڈالتا ہے۔ شیر کے شکار کرنے اور انسان کے شکار کرنے میں بہت فرق ہے جنگل کے جانور اس درندے سے اتنا خوفزدہ نہیں ہوتے جتنا مہذب انسان سے ہوتے ہیں کیونکہ ’’شیر باوجود درندہ ہونے کے جنگل کا رہنے والا ان کا ہمسایہ ہے جس کی موجودگی ان کو چار و ناچار گوارا کرنی پڑتی ہے۔ وہ جنگل کا بادشاہ ہے جس کو ہر ہفتے ان کے گلے میں سے کسی ایک کی جان کا خراج دینا ہوتا ہے لیکن وہ انسانوں کی طرح ظالم نہیں ہے۔ وہ بلاضرورت محض جان لینے اور خون بہانے کے واسطے کبھی شکار نہیں کرتا۔ جب اس کا پیٹ بھرا ہوتا ہے تو وہ ان کے سامنے تک نہیں آتا اور اگر سامنا بھی ہو جائے تو فوراً ہٹ جاتا ہے اس کو چوپائوں کو بلاوجہ ڈرانے کی عادت نہیں… جنگل کو کھلبلا دینا اور جانوروں پر ہیبت طاری کر دینا اس کا کام نہیں یہ گلوں کو اپنی ملکیت سمجھتا ہے اور ان میں سے بالکل اسی طرح خوراک حاصل کرتا ہے جیسے کہ ایک دوراندیش مالی اپنے کھیتوں میں سے ترکاری بتدریج نکالتا ہے گوشت کو برباد اور ضائع کرنے سے اسے نفرت ہے۔‘‘(۱۱)اس کے برعکس انسان کا جنگل میں شکار کا طریقہ وہ ان لفظوں میں بیان کرتے ہیں:

’’برخلاف اس کے جس وقت انسان قتل اور غارت کے جذبے سے بھرا ہوا جنگل میں گھس آتا ہے تو یہاں کی دنیا ہی خوف ہراس سے درہم برہم ہو جاتی ہے وہ بلاضرورت اور بلاامتیاز جانیں لیتا ہے۔‘‘(۱۲)

            باوجود اس کے دوٹانگوں والا حیوان مہذب ہونے کا دعویدار ہے۔ ’’کلوا‘‘ کا مرکزی کردار ’’کلوا‘‘ نامی کتا ہے۔ پطرس کے ’’کتے‘‘ کی طرح اس کے بھی بعض حصے علامتی نظر آتے ہیں۔ افسانے سے کتوں کی عادات، جبلت، سوچ، مشکل زندگی کی عکاسی ہوتی ہے۔ ’’کلوا‘‘ کی داستانِ حیات دائروی انداز سے چلتی ہے۔ وہ منن کے ہاتھوں میں زندگی کے ابتدائی ایام گزارتا ہے۔ بالآخر اس کی محبت میں اس کی جان بچا کر اپنی جان دے دیتا ہے۔ ’’کلوا‘‘ منن کے سخت گیر باپ کی وجہ سے گھر سے نکالا گیا۔ کہار کی لونڈیا چندو کی نگہداشت میں آیا۔ چندو نے بڑے چائو سے اسے رکھا اور کلوا کا نام دیا۔ چندو کے ایک ناکام عاشق بھوریا کی مخاصمت کی بنا پر یہ در بھی چھوٹا۔ مدت بعد صعوبتیں سہتا چندو کی محبت میں واپس لوٹا تو وقت کافی آگے نکل چکا تھا جس طرح وہ خود آوارہ پلے سے خونخوار قد آور کتا بن چکا تھا۔ دلہن چندو اسے بھول چکی تھی لیکن وہ ابھی تک اسے یاد رکھے ہوا تھا۔ کلوا کی انسانوں سے محبت اور وفاداری ظاہر کرتی ہے کہ انسان تو فراموش کر دیتے ہیں مگر جانور نہیں۔ کتے کی فطرت کے متعلق ان کا یہ بیان صداقت پر مبنی ہے:

’’جفاکاری میں بھینسا کتے کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ استقلال میں پتھر کی سل کتے کے آگے گھس جائے گی۔ خونخواری اور دلیری میں جس وقت کتے سے مقابلہ پڑتا ہے تو شیر بھی پیچھے ہٹ جاتے ہیں لیکن محبت کی ایک چھوٹی سی چمکاری میں کتا پیروں پر گر پڑتا ہے اور اس وقت وہ حلم، عاجزی، انکساری اور خاکساری ایسی رقیق چیزوں کی جیتی جاگتی تصویر ہوتا ہے۔‘‘(۱۳)

            ان عادات کی بدولت کلاسیکی پنجابی شاعری میں بھی کتا بہ نظر ِاستحسان دیکھا گیاہے۔ رفیق حسین کے افسانوں کا مطالعہ کرتے ہوئے ان کی قوتِ مشاہدہ باربار چو نکاتی ہے۔ آوارہ کتوں کی علاقے تقسیم کرنے اور ان کی بھرپور حفاظت کرنے کی جو تصویر انہوں نے نے اس افسانے میں دکھائی ہے وہ حقیقت پر مبنی ہے ان کے خیال میں انسانوں کے برعکس کتا انسانی چہرے سے خوشی، غم، محبت کے جذبات پڑھ لینے کی اہلیت رکھتا ہے۔ ’’کلوا‘‘ میں کتوں کی چھینا جھپٹی اور طرزِ زندگی معاشرتی زوال کی علامت بھی ہے اور زوال آمادہ معاشرے کے چند کرداروں کی بھی۔

            ’’بیرو‘‘ سانڈ کے کردار کو پیش کرتا ہے جو نیل گایوں کی محبت میں گرفتار ہے لیکن پالتو ہونے کی وجہ سے ناک اور گلے میں غلامی کے دو نشانات کی وجہ سے جنگل کے فطری طور پر آزاد جانوروں کے لیے قابلِ قبول نہیں ہے۔ رفیق حسین کے نزدیک عشق حیوانی جذبہ ہے جو انسان اور حیوان دونوں پر جنون طاری کر دیتا ہے۔ بیرو، شیر اورریچھ کو اس جنونی کیفیت میں پچھاڑ کر موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔ بیرو اس وقت کے محکوم معاشرے اور موجودہ غلام ذہنیت کے حامل معاشرے میں بلیغ علامت نظر آتا ہے۔

            ’’گوری ہو گوری‘‘ اور طویل مختصر افسانہ ’’آئینۂ حیرت‘‘ مامتا کے جذبات کی عمدہ عکاسی ہیں۔ اوّل الذکر کا مرکزی کردار گائے ہے اور ثانی الذکر کا بندریا۔ گائے کے کردار کے پس پشت گئوماتا والی فکر کارفرما ہے۔ بسنتی اپنی بیٹی رمکلیا کو سیلاب میں مرنے کے لیے چھوڑ آتی ہے مگر گوری ممتا کے جذبات سے مملو بچھڑے اور رمکلیا دونوں کو بحفاظت بچا لاتی ہے۔ افسانے کے آخر میں گوری کے یہ الفاظ انسانوں کے لیے معنی خیز ہیں:

’’تم۔ ماں آں ھ۔ ہم ماں آں ھ‘‘(۱۴)

            افسانے میں سیلاب کی علامت معاشرتی خودغرضی، بے حسی کے تموج میں گم ہوتی بنیادی انسانی جبلّتوں کی نوحہ خوانی ہے جو افسانے کی معنویت کو دو چند کرتی ہے۔

            ’’آئینۂ حیرت‘‘ انسانی تکبر، غرور بے حسی، منافقت، ضعیف الاعتقادی، توہم پرستی کے درمیان ممتا کی جدوجہد اور وابستگی کی داستان ہے جو اپنا بچہ نہ ملنے کی صورت میں انسانی بچے کو سینے سے چمٹا کر اس کی حفاظت کرتے مر جاتی ہے۔ دیگر انسانوں کی طرح افسانہ نگار یہاں بھی انسانوں پر حیوان کی اخلاقی برتری ثابت کرتا ہے اور ماہر فنکار کی طرح اس کا قلم بشری کمزوریوں کی نوحہ گری کرتا محسوس ہوتا ہے۔ ڈاکٹر انوار احمد کے بقول:

’’یہ خیال نہیں کیا جانا چاہیے کہ رفیق حسین کی جانوروں اور جنگلوں میں دلچسپی فن برائے فن قسم کی کوئی چیز ہے، وہ جانوروں کے ہاں اصول پسندی، مامتا، ایثار اور احساسِ رفاقت کو اس طرح اُبھارتے ہیں کہ ہماری دنیا کی تہی دامنی اور نمایاں ہو جاتی ہے۔‘‘(۱۵)

            ’’ہرفرعونے را موسیٰ‘‘ فطرت کی ظالم قوتوں کے مقابلے میں انسانی جدوجہد کی کہانی ہے۔ مرکزی کردار کانا ہاتھی انسانوں جانوروں اور درندوں تک کے لیے خوف دہشت کی علامت بن کر دندناتا پھرتا ہے اور اس کا خاتمہ بیٹے کے قتل کے انتقام میں سلگتے بوڑھے باپ ماہر شکاری کے ہاتھوں ہوتا ہے۔ افسانہ مصنف کے جنگل کے رمز شناس ہونے، شکار کی باریکیوں سے آگاہ ہونے کے علاوہ چڑی مار قسم کے شیخی بازوں، بزدلوں پر گہرا طنز ہے۔ انگریز افسر میجر بوسٹ جیسے سطحی لوگ بالآخر بے نقاب ہوتے ہیں۔

            ’’شیریں فرہاد‘‘ بلی اور بلے کی داستانِ حیات کو ظاہر کرتا ہے۔ انجام ڈرامائی اور بھیانک ہے۔ بلا جبلت کا غلام دکھایا گیا ہے جو بھوک کے عالم میں ہم جنس کو کھا جانے کے بعد اسے گلیوں گلیوں ڈھونڈتا پھرتا ہے۔ افسانہ انسانی پشیمانی کی علامت بھی ہے۔

            کتا اور گھوڑا پالتو جانوروں میں سب سے زیادہ وفادار سمجھے جانے والے جانور ہیں۔ بے زبان کے مرکزی کردار سرکس کی منہ زور گھوڑی اور گونگی لڑکی ہیں۔ دونوں کی یکساں بے بسی، کسمپرسی افسانے کے عنوان سے عیاں ہوتی ہے۔ افسانہ اشرافیہ کی بے راہ روی اور اس کے نتیجے میں لازمی زوال کی عکاسی کے ساتھ گھوڑی کی لڑکی سے انمٹ محبت، خلوص، وفاداری کا عکاس ہے۔ انجام ڈرامائی اور غیر منطقی ہونے کے باوجود بھی افسانہ تاثیر کا حامل ہے۔

            سید رفیق حسین نے حیوان اور انسان کی نفسیات کشائی کرتے ہوئے ان دلچسپ مرقعوں کو بھرپور تخلیقی انداز سے پیش کیا ہے۔ موضوع کی انفرادیت کی وجہ سے اگرچہ ان کے اسلوبِ بیان پر نگاہ کم جاتی ہے لیکن جنگل کے مناظر کی تصویر کشی اور جزئیات نگاری ان کے ادیبانہ رنگ اور زبان و بیان پر مہارت کی غماز ہے۔ مصوری کے فن میں عملاً سدھ بدھ رکھنے کے علاوہ ان کی لفظیاتی مصوری بھی کمال کی ہے۔ بقول فردوس انور قاضی:

’’رفیق حسین کا اسلوب دلچسپ ہے۔ تحریر میں پختگی ہے اور سب سے بڑی چیز جو انہیں افسانہ نگاری میں منفرد اور اہم مقام بخشتی ہے وہ اردو افسانہ نگاری کو ایک نئے رجحان سے روشناس کرانا ہے۔‘‘(۱۶)

            اگرچہ رفیق حسین نے ایک منفرد موضوع سے اردو ادب کو مالامال کیا لیکن یہ رجحان نہیں بن سکا ان کے بعد بہت کم افسانہ نگاروں نے اس طرف توجہ کی۔ شاید اس موضوع کو گرفت میں لانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔

            رفیق حسین کے افسانے بزعم خود برتر اور مہذب ہونے والے انسان کی غلط فہمیوں کا چشم کشا بیان ہیں۔ انسان نے بستیاں اور شہر بسا کر انسانیت کو ترقی دینے کی بجائے فطری اچھی خصلتوں کو گم کر دیا ہے اور برتر ہونے کے برعکس کمتر ہوتا جا رہا ہے۔ انسانی عقل ہی اسے گمراہ کرتی ہے۔ ان کے مطابق:

’’جانوروں کو انسٹنکٹ (Instinct) کا مادہ دیا گیا ہے۔ جس میں غلطی کا احتمال ہی نہیں اور ہم کو عقل! جوہر قدم پر ٹھوکر کھاتی ہے۔‘‘(۱۷)

            سید رفیق حسین نے حیوانات کو اچھائیوں اور برائیوں سمیت پیش کر کے ثابت کیا ہے کہ بہت سارے معاملات میں انسان اور حیوان یکساں ہیں۔ انسان نے خود ہی برتری کے تمام مراحل عبور کر لیے ہیں۔ حیوانات اس کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔ یہ کبھی ہم نے پوچھا ہی نہیں۔ حیوانات ان کے افسانوں میں جہاں محبت، خلوص، مامتا، ایثار، قربانی، رفاقت، وفا کا مظاہرہ کرتے ہیں وہیں طاقت، نفرت، انتقام، غصے کے مظہر بھی ہیں۔ کردار نگاری، فطرت نگاری، منظر نگاری، جذبات، نفسیات کی عکاسی غرض کئی حوالوں سے یہ افسانے منفرد ہیں۔ انسانی کرداروں کے جھرمٹ میں حیوانی کردار کی پیشکش مصنف کی انفرادی سوچ کی غماز بھی ہے جو انھیں افسانے کی روایت میں ہمیشہ زندہ و جاوید رکھے گی۔

حوالہ جات و حواشی

۱۔       ’’فسانہ اکبر‘‘ میں خود انہوں نے اپنا سال پیدائش ۱۸۹۴ء لکھا ہے۔ ڈاکٹر انوار احمد نے ان کی وفات کا سال ۱۹۴۶ء لکھا ہے جبکہ ان کی بھانجی الطاف فاطمہ نے جو خاکہ اپنے ماموں کا ’’خزاں کے رنگ‘‘ کے عنوان سے لکھا اس میں بتایا ہے کہ ان کی کتاب ’’آئینۂ حیرت‘‘ ان کی وفات کے چند روز بعد شائع ہوئی۔ یہ کتاب چونکہ ۱۹۴۴ء میں شائع ہوئی تھی اس لیے ان کی وفات کا سال ۱۹۴۴ء بنتا ہے۔

۲۔      انوار احمد، ڈاکٹر، اردو افسانہ ایک صدی کا قصہ، فیصل آباد: مثال پبلشرز، ۲۰۱۰ء، ص:۴۱۹

۳۔      رفیق حسین، سید، مجموعہ سید رفیق حسین، لاہور: سنگ میل پبلی کیشنز، ۲۰۰۴ء، ص:۲۲

۴۔      ڈاکٹر انوار احمد کو تسامح ہوا ہے۔ ان کے خیال میں سید رفیق حسین کا پہلا افسانہ ’’کفارہ‘‘ ساقی میں ۱۹۴۰ء میں شائع ہوا۔ شاید اسی کو بنیاد بنا کر مرزا حامد بیگ نے ’’اردو افسانے کی روایت‘‘ میں اس روایت کو دہرا دیا ہے۔ مذکورہ افسانہ اسی رسالے میں فروری ۱۹۳۹ء کے شمارے میںشائع ہوا تھا۔

۵۔      حامد بیگ، مرزا، اردو افسانے کی روایت، اسلام آباد: دوست پبلی کیشنز، ۲۰۱۴ء، ص:۸۰۵

۶۔      فضل قدیر، کچھ میری زبانی، مشمولہ: مجموعہ سید رفیق حسین، ص:۳۴۳

۷۔     مستنصر حسین تارڑ، دستک نہ دو، الطاف فاطمہ (کالم) مشمولہ: روزنامہ ۹۲نیوز، فیصل آباد، جلد۲، شمارہ ۹ا۱، ۱۳جنوری ۲۰۱۹ء، ص:۱۰

۸۔      اختر حسین رائے پوری، حیوان اور انسان، مشمولہ: نیا دور (مدیران: قمر سلطانہ، جمیلہ ہاشمی، شمیم احمد) شمارہ ۴۵، ۴۶، کراچی: پاکستان کلچرل سوسائٹی، جون ۱۹۶۸ء، ص:۹۳

۹۔      شمیم احمد، انوکھا افسانہ نگار، مشمولہ: نیا دور، ص:۱۱۵

۱۰۔    رفیق حسین، سید، مجموعہ سید رفیق حسین، ص:۲۱

۱۱۔     ایضاً، ص:۴۴

۱۲۔    ایضاً، ص:۴۵

۱۳۔    ایضاً، ص:۳۴

۱۴۔    ایضاً، ص:۶۱

۱۵۔    انوار احمد، ڈاکٹر، اردو افسانہ ایک صدی کا قصہ، ص:۴۲۰

۱۶۔    فردوس انور قاضی، ڈاکٹر، اردو افسانہ نگاری کے رجحانات، لاہور: مکتبہ عالیہ، ۱۹۹۰ء، ص:۴۳۳

۱۷۔    رفیق حسین، سید، مجموعہ سید رفیق حسین، ص:۳۵

٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.