انجم عثمانی :بحیثیت افسانہ نگار

عمران احمد، ریسرچ اسکالر

یونی ورسٹی آف حیدرآباد

فون۔9652559916

ای میل۔imranhcu13@gmail.com

                دور حاضرکے افسانہ نگاروں کی فہرست میںانجم عثمانی ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔انھوں نے اپنے تجربات کی روشنی میںدہی زندگی اور شہری زندگی کے مابین کشمکش جیسے منفرد موضوعات پر کہانیاں تخلیق کی ہیں۔ عموماََان کیسبھی کہانیاں گائوں اورقصبوں کے مسائل کو پیش کرتی ہیں۔انھوں نے ان کہانیوں کے ذریعہ معاشرے میں ہونے والی تبدیلیوں اور طرز معاشرت سے واقف کرایاہے۔

                 انجم عثمانی کی ادبی زندگی کاباقاعدہ آغاز 1970ء کے بعد سے ہوتا ہے۔پہلا افسانوی مجموعہ ’’شب آشنا‘‘شائع ہوا ۔یہیں سے ان کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ ان کے دوسرے افسانوی مجموعہ میں ’’سفردرسفر‘‘، ’’ٹھہرے ہوئے لوگ‘‘ اور ’’کہیں کچھ کھو گیا ہے‘‘ اہمیت کی حامل ہیں۔جو دہی زندگی کی سماجی طرز زندگی کی ناگفتہ حالات کی عکاسی کرتی ہیں ۔ انہوںنے اپنی کہانیوں کے ذریعہ  گاؤں اور قصبوں کے مسائل پر روشنی ڈالی ہے۔ اور  ساتھ ہی سماجی وسیاسی حالات کی عکاسی بھی کی ہے۔انہوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ گاؤں اورقصبوں میں پائی جانے والی تہذیب و تمدن منفرد حیثیت رکھتی ہے ۔انجم عثمانی نے گاؤں، قصبوں اور شہروں کے مابین معاشرتی و تہذیبی تصادم جیسے موضوعات کا انتخاب کیا ہے۔ان کیکہانیوں کے موضوعات میں ہجرت ،شہری آبادی میں اضافہ، ایک تہذیب پر دوسرے کا غلبہ،غریبوں کا استحصال،دولت کی حصولیابی کے لئے جدوجہد اور تنگ ذہنی نظریات، اقلیتوں کے اپنے خدشات اور بے چینی، اور خاص کر میڈیا کا کردارکافی اہمیت رکھتے ہیں۔انہوںنے خاص طور پر اپنے افسانوں میں متوسط مسلم گھرانوں کے معاشرتی طرز زندگی سے روشناس کرایا ہے اور قدیم  و جدید تہذہب کے کشمکش کی منظر کشی کے علاوہ گائوں سے شہرکی طرف ہجر ت کرنے والے لوگوں کے مسائل کی عکاسی بھی کی ہے ۔ گائوں قصبوں میں بسنے والے لوگ اپنی طرز زندگی کو بھول نہیں پاتے اور دوسری طرف شہر کی روز مرہ زندگی کو کسی بھی طرح چھوڑنے پر آمادہ نہیں۔

                انجم عثمانی کا افسانہ ’’ چھوٹی اینٹ کا مکانــ‘‘ یہ ان لوگوں کی کہانی ہے جو گائوں سے شہر کی طرف ہجرت کر کے چلے گئے ہیں۔ ایسے لوگ شہر میں رہ کر بھی اپنے آپ کو اجنبی محسوس کرتے ہیں۔در اصل وہ لوگ گائوں قصبوں میں پائی جانے والی منفردتہذیب و تمدن کوبہت دور چھوڑ آئے ہیں۔جہاں پر والدین کی بوڑھی آنکھیں ان کے واپس آنے کی راہ تک رہی ہیں۔جس وقت گھر ،خاندان اور سماج ومعاشرے کوہماری سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے تو ہم انھیں ان کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں۔وہ درسگاہیںجہاں سے نئی نئی کرنیں پھوٹتی تھیں وہ آج اپنی بے بسی پر کراہ رہی ہیں۔وہ پکارتی ہیں کہ آج ہمیں ایسی حالت پر نہ چھوڑ کر جائو۔انجم عثمانی نے اسی تہذیبی کشمکش کو کہانی کی شکل میں قاری کے سامنے پیش کیا ہے۔

ــ’’ہمیں معلوم ہے کہ تم لوٹ کر آنے کے لیے نہیںگئے ہو لیکن شاید یہ بتادینا میرا ایک اور فرض ہے کہ جو عمارت تم بنانا چا ہتے ہو اس میں بغیرچھوٹی اینٹ کے پائیدار ی اور سچائی نہیں آسکتی ،اب بھی وقت ہے کہ لوٹ آئو اور ان کی گرتی دیواروں کو نئی اینٹیں لگا کرتھام لو جن کو سنبھالے سنبھالے بوڑھے کاندھے تھک گئے ہیں اور یہ عمارت گر گئی تو کسی نئی عمارت کے لیے آثار تک نہ ملیں گے۔۔۔۔‘‘   1؎  ( چھوٹی اینٹ کا مکان)

                انجم عثمانی کے افسانوں کا مطالعہ کرنے سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ان کے یہاںگائوں قصبوں اور شہری زندگی کے د رمیان تصادم  بدرجہ اتم موجود ہے۔ان کا ایک اورافسانہ ’’ایک ہاتھ کا آدمی‘‘ہے ۔ اس افسانے  میں انھوںنے ایک تہذیب دوسرے تہذیب پر کس طرح غالب ہونا چا ہتی ہے ،جیسے حالات کی منظرکشی کی ہے۔  گائوں،قصبوں اور شہروں میں کس طرح لوگ مغربی تہذیب کی طرز زندگی کو اپنی روز مرہ زندگی میں شامل کرتے جا رہے ہیں؟مغربی تہذیب کا اثرور سوخ  ہمارے معاشرے میں دن بدن بڑھ رہا ہے۔امیر غریب پر، ایک مذہب دوسرے مذاہب پر اور شہروں کی دیواریں  گاؤں اور قصبوں کی طرف تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے۔گائوں اور قصبوں کے لوگ جو ایک دوسرے کے خوشی و غم میں شریک ہوتے تھے۔ مگراس مغربی تہذیب نے سب کو اونچی اونچی عمارتوں کے ایک چھوٹے  فلیٹ میں محدود کر دیا ہے۔انجم عثمانی نے ان تمام حالات و واقعات سے قاری کو باور کرانے کی کوشش کی ہے۔

’’ایسے لوگ جھوٹے،وہمی اور بیمار ہیں اس طرح کا عذاب نازل ہونے کی کوئی خبر نہیں ہے،ہر آدمی اپنے دائیں ہاتھ کا کام دائیں ہاتھ سے اور بائیں کا کام بائیں سے انجام دے رہا ہے،بستی کے ہر فرد کا دائیاں ہاتھ سلامت ہے۔نہ دایاں بائیں سے تعارض کر رہا ہے اورنہ بایاںدائیں سے‘‘  2؎(ایک ہاتھ کا آدمی)

                درج بالا اقتباس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ دایاں ہاتھ نیکی کی علامت ہے، جس پر بایاں ہاتھغالب ہوتا جا رہا ہے، جو بدی کی علامت ہے ۔ انجم عثمانی نے اسی کرب کو افسانے کے ذریعہ قاری کو باور کرانے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے اس کہانی میںطبقاتی نوعیت کے استحصال کو پیش کیا ہے۔جہا ں پر ایک طبقہ دوسرے طبقے پر سبقت حاصل کرنے میں مصروف ہے۔انجم عثمانی نے اپنی کہانیوں میں گھریلوماحول کی عکاسی کی ہے۔ان کی  کہانیوں کا مرکزی خیال سماج و معاشرہ ہے۔ان کا  ایک افسانہ ’’اغوا‘‘اسی خیال کو پیش کرتا ہے ۔   ا س کہانی کا آغاز جہاز کے اغوا کی خبر سے ہوتا ہے ۔مسٹر کاظمی جواس افسانے کا ایک اہم کردار ہے ، جن کی شہرت ایک دولت مند شخصیت کے طور پر ہوتی ہے۔اس جہاز میں مسڑ کاظمی کے موجودگی سے ان کے گھر پر لوگوں کاجمع ہونا شروع ہو جاتا ہے۔مسڑکاظمی کی اہلیہ کا تعلق ایک اعلی خاندان سے ہے،جہاں پر بچوں کی تعلیم و تربیت اسلامی طور طریقہ سے کی جاتی ہے۔  شادی سے پہلے مسز کاظمی کے اندر وہ تمام خوبیاں تھیں جو ایک مہذب خاتون میں ہونی چاہئے۔جب وہ مسٹر کاظمی کے گھر آئیں تو اپنے ساتھ دینداری بھی لائیں۔لیکن بہت جلد ہی مغربی تہذیب کا اثر ان پر غالب ہوگیا۔ افسانہ نگار نے اس کہانی کے ذریعہ سے مغربی تہذیب کے کھوکھلے پن کو منفرد انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔

’’مسز کا ظمی شروع سے ایسی نہ تھیں بلکہ وہ تو ایسے خاندان سے تھیں جنہیں جہیز میں دیگر قیمتی چیزوں کے ساتھ دعائیں اور بہشتی زیور بھی ضرور دیا جاتا تھا جسے کہیں رکھ کر وہ کب کا بھول چکی تھیں اور اب تو شاید انہیں یہ بھی یاد نہیں ہوگا کہ وہ گھر کے کس کونے میں رکھا ہے۔حالانکہ وہ گھر کو سجانے میں کافی سلیقہ مند مشہور تھی‘‘    3؎(اغوا)

                انجم عثمانی نے سماج کے سبھی طبقوں کے مسائل سے واقف کرانے کی کوشش کی ہے ۔’’ سیمینار جاری ہے‘‘ان کاایک افسانہ ہے۔ اس افسانے میں دولت مندلوگ  غریب بچوں کا استحصال کرتے نظر آتے ہیں۔ معاشرے کے امیر دولت مند گھروں میں گھریلوں ملازمین کو ان کے حقوق نہیں دیئے جاتے۔ عہد حاضر میں بچوں کے خرید و فروخت کا سلسلہ اپنے عروج پر ہے ۔ان کی یہ کہانی انہی حالات و واقعات کی عکاسی کرتی نظر آتی ہیں۔ انجم عثمانی نے اپنی فنکارانہ مہارت اور چابک دستی کی وجہ سے موضوعات کو نئے نئے طریقہ سے استعمال میں لاتے ہیں ۔وہ موجودہ دور کے ایسے افسانہ نگار ہیں جن کی نگاہ اور سوچ و فکر میں بڑی گہرائی ہے۔ان کے مطالعہ اور تجربہ کی وجہ سے کہانیوں میں حقیقت پسندی نظر آتی ہے۔افسانہ ’’چھنگا‘‘ انہیں کہانیوں میں سے ایک ہے ۔ جس میں ایک خاندان کے دو فرد کے بیچ پیدا ہونے والی تنگ ذہنی جیسی کیفیت کو پیش کیا گیا ہے۔

’’وطن پہنچ کر اپنا ارادہ ظاہر کیا تو یہ معلوم ہو کر بھونچکا رہ گیا کہ مکان کے اس کے والے حصے کو ان لوگوں نے آپس میں بانٹ لیا ہے اور پچھلے کئی برسوں میں مختلف بہانوں سے اس کے دستخط حاصل کر کے یہ مکان اس سے خرید لیا گیا ہے اور وہ اب اپنے مکان میں نہیں اپنے بھائیوں کے مکان میں مہمان ہے‘ ‘   4؎(چھنگا)

                درج با لااقتباس سے پتہ چلتا ہے کہ خاندان اور گھر کے فریبی لوگ مختلف بہانوں سے بھائی کے حصے کے جائداد کو اپنے نام کروا لیتے ہیں۔جب وہ شہر سے گائوں واپس آتا ہے تو فریبی بھائی اسے اپنے ہی گھر میں مہمان بنا دیتے ہیں۔انجم عثمانی کی باریک بینی نظر کی عکاسی اس کہانی کے ذریعہ سے معلوم ہوتی ہے۔اس کہانی میں انہوں نے بھائیوں کے بیچ جائیدادکی لالچ اور ان کے درمیان پیدا ہونے والے تنازع سے روشناس کرایا ہے ۔ان تمام حالات واقعات کو انجم عثمانی نے اپنے ارد گرد کے معاشرے میں بہت قریب سے دیکھا ہے۔انہوں نے اس افسانہ کے ذریعہ دو ذہنوں کی پیداوار ،سوچ و فکر کو ہمارے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔اس کے علاوہ انھوںنے اس افسانہ میں ماضی اور حال دونوں کیفیتوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے حالات حاضرہ پر تبصرہ بھی کیا ہے۔

                انجم عثمانی کی کئی ایک بہترین کہانیاں منظرعام پر آ چکی ہیں۔ ان میں سے کچھ نفسیاتی کہانیاں بھی ہیں جو ان کی افسانہ نگاری کی بہترین مثال ہے۔ ان کی ایک کہانی ’’بک شیلف‘‘ہے۔افسانہ نگار نے اس افسانے کے ذریعہ سے ایسے شخص کے جذبات و احساسات کی عکاسی ہے ،جو اس جدید دور میں اپنے آپ کو Adjust تو کر لیتا ہے، مگر وہ اپنی تعلیم و تمدن کو نہیں بھول پاتا ہے۔ اس کہانی کے ذریعہ پوری صدی کی ٹریجڈی کے منظر نامے کو پیش کر نے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔تخلیق کار نے موجودہ سماج میں ہونے والی تبدیلیوںکی طرف اشارہ کیا ہے۔ دور حاضر کے لوگوں میںنئے طور طریقہ کو اپنانے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔نئی نسل کے بچے اپنی تہذیب وتمدن اور اپنے اسلاف سے بے خبرنظر آتے ہیں۔ وہ اپنی کہانیوں میںسماج و معاشرہ جیسے موضوعات کے علاوہ حالا ت حاضرہ پر بھی گفتگو کی ہے ۔ا ن  کا نمائندہ افسانہ’’ورثہ‘‘  انہی حا لات واقعات کی عکاسی کرتا ہے۔انجم عثمانی ان حالات واقعات سے بخوبی واقف ہیں،جو کئی دہائیوںسے اقلیتوں میں بے چینی کا سبب بنی ہوئی ہے۔اس کہانی میں انہی تمام مسائل کو زیر بحث لایا گیا ہے۔  آج کے دور میںمسلم اقلیت کن کن مسائل سے دوچار ہے۔خاص کر مسلم نوجوان جنھیں معمولی وجوہات کے بنا پر بھی قید و بند کی زندگی گزارنی پڑتی ہے۔ حا لات اس قدر ناہموار ہو چکے ہیں کہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعدادپولیس کی زیادتی کا شکار ہو کر ملک کے مختلف قید خانوں میںبند ہیں ۔ان مسلم نوجوانوں کو اپنی پاک دامنی کو ثابت کرتے کرتے زندگی کا ایک طویل عرصہ گزرجاتاہے۔اس درمیان انھیں مختلف ناموں سے بھی پکارا جاتا ہے۔ملک کے مختلف علاقوں میںاب مسلم اقلیت کے ساتھ معاشرتی سطح پر تفریق برتی جانے لگی ہے۔ انجم عثمانی انھیں تمام حالات واقعات کواپنی کہانی کے ذریعہ قاری کو باور کرانے کی کوشش کی ہے۔

’’ہم بھی کیا کریں بابوجی! آپ کو تو پتہ ہے آج کل کے حالات کا،ہماری ڈیوٹی ہے کہ ہم ہر آنے جانے والے کو چیک کرے۔یہ آدمی بند راستے سے جا رہا تھا ۔ہم نے آواز دی تو رکا نہیں۔تب ہم نے اسے پکڑ لیا ۔اب ہم اس سے دیر سے سر مار رہے ہیں کہ تلاشی دے مگر یہ بڈھا پوٹلی کو  اپنی بغل میں ایسے دبوچے ہوئے ہے جیسے میلے میں کوئی اپنی اکلوتی اولاد کو۔کسی طرح یہ پوٹلی ہمارے حوالے کرنے کو تیار نہیں۔ مجبوراََ ہمیں اس سے دوسرے طریقے سے نمٹنا ہوگا۔‘‘  5؎  ( ورثہ )

                انجم عثمانی اپنے افسانوںکے ذریعہ سماجی مسائل کے مدنظر میڈیا کے کردار کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے۔موجودہ دور میں میڈیا چاہے وہ Electronic ہو یا Print ،حق و انصاف کی آواز کو بلند کرنے کے بجائے پروپگنڈہ کی تشہیر کرتے نظر آتے ہیں۔عہد حاضر میںحق و انصاف کی آواز کوبلند کرنے والے لوگ مختلف حالات سے نبرد آزماہیں۔سماج کے مختلف مسائل پرموجودہ دور میںمیڈیا کا کردار اطمنان بخش نہیں ہے۔جس طرح ذرائع ابلاغ میں مسلمانوں کے حالات گردش کررہے ہیں شاید اس سے پہلے کبھی نہ تھے۔آج کل مسلمانوں کے تعلق سے چھوٹی سی خبر کو بھی بڑابنا کر پیش کیا جاتاہے ۔لیکن حقیقت کی تصویر کوئی نہیں پیش کرناچاہتا ۔چاہے وہ ملک کے مختلف شہروں میں ہونے والے فسادات،گجرات جہاں ساری اخلاقی حدیں پار کر دی گئی تھیں۔بوسنیا کے مسلمانوں کے قتل کی داستان ہو یا پھر افغانستان اورعراق نام نہادامن پرستوں نے لاکھوں لوگوں کو موت کی نیند سلا چکے ہیں ۔انجم عثمانی نے اپنی کہانیوں میں ان تمام موضوعات پر روشنی ڈالی ہے ۔

’’تم نے مجھے میڈیا کے ٹھیکے داروں کی طرح حادثوں کا تاجر سمجھ رکھا ہے ،جن کے لئے بوسینیا ہو،افغانستان ہو یاعراق،کشمیر ہو یا گجرات سب کمائی کے ذریعہ ہیں ۔میں مانتاہوں ،کہانیاں زخموں سے بھی جھانکتی ہیں، پھولوں اورمسکانوں سے بھی ۔مگر کہانیوں میں زخموں اورمسکراہٹوں کا کاروبار نہیں ہوتا،ٹھیک ہے کہانی کہیں سے خود بھی مل جاتی ہے،کبھی کبھی تم جیسوںسے بھی مل جاتی ہے ۔مگر اس کا مطلب یہ نہیں تم کہانی ڈکٹیٹ کروگے۔‘‘ 6؎(کہیں کچھ کھو گیا ہے)

                  ا نجم عثمانی عہد حاضر کے ایک ایسے افسانہ نگار ہیںجو گائوںاور قصبوں میں پھیلنے والی فرقہ وارانہ ذہنیت سے قارئین کوواقف کرانے کی کوشش کی ہے۔عہد حاضر میںاس طرح کی ذہنیت سے اقلیتی طبقہ مختلف دشواریوں سے نبرد آزماں ہیں۔کچھ عرصہ پہلے گاؤںاور قصبوں میں تمام مذاہب کے لوگ مل جل کر رہتے تھے۔ان میں آپسی بھائی چارہ تھی ، ایک دوسرے کے خوشی و غم میں برابر شریک ہوتے تھے۔ایک طرف مسلمان رام لیلہ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے ،تودوسری طرف ہندو بھائی بھی محرم کی تعزیہ اور ماتم میں برابر شریک ہوتے تھے۔ہولی کی پچکاری کے لئے کوئی سرحد نہ تھی۔عید کے موقع پر ایک دوسرے کے گلے ملتے تھے۔مگر اب کچھ خاص لوگوں کی وجہ سے بھائی چارہ اور اخوت و محبت کی ہوا تبدیل ہو کر نفرت کی آندھی بن چکی ہے۔یہ وہ آندھی ہے جو آج کل گاؤں قصبوں اور شہر بہ شہر چل رہی ہے ۔ اس آندھی نے کسی کو نہیں بخشا،ان لوگوں کو بھی نہیںجو معاشرے میں ایک ساتھ رام لیلہ کھیلتے تھے ۔آخرکاران کے بھی گلستاں راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہو گئے۔ اس آندھی نے سب سے زیادہ اقلیتی طبقے کو نقصان پہچایاہے۔ایسا ہی ایک افسانہ ’’شہر گریاں کا مکیں‘‘ہے۔انجم عثمانی اس افسانے کے ذریعہ آج کے حالات پر روشنی ڈالنے کی سعی کی ہے۔اقتباس ملاحظہ ہو:

                                ’’  بیٹا وہ آندھی۔۔۔۔۔۔۔‘‘

                                ’’  توکیا یہاں بھی۔۔۔۔۔۔۔‘‘

                                ’’  مگر ماموں تو رام لیلا۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘

                                ’’  ہاں بیٹا پھر بھی۔۔۔۔۔۔۔اچھا ہوا تو آگیا اب کم ازکم اپنے گھر میں۔۔۔۔۔۔‘‘  7؎  (شہر گریاں کا مکیں )

                مذکورہ بالا اقتباس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ہمارے ملک میں فرقہ وارانہ ذہنیت کو روز بروزفروغ دینے کی کوششیں جاری ہیں۔ اس کہانی میںافسانہ نگار موجودہ دورکے حالات سے واقف کرانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔انجم عثمانی کی بعض کہانیوں میں مولسری کا ایک پیڑ بھی اگتا ہے۔جس کے پھولوں کے رنگت اور بھینی بھینی خوشبو سے گھر آنگن اور پورا معاشرہ مہک اٹھتا ہے۔ افسانہ ’’کہیں کچھ کھوگیا ہے‘‘ کے ذریعہ تہذیب کے عروج وزوال کا منظرنامہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اس لیے ان کی کہانیوں کو قدیم وجدید تہذیبوں کا سنگم کہا جاتاہے ۔

                انجم عثمانی نے اپنے ارد گرد جو کچھ دیکھا اور محسوس کیا، ان ہی کو موضوعات کی شکل میں پیش کر دی ہے ۔ چاہے وہ سماجی تبدیلی ہو ،یاعورتوں کاجدید طرز زندگی ،مٹتی ہوئی تہذیب، اخلاقی قدروں کا فقدان ،اقلیتو ںکے معاشرتی مسائل ،دیہات سے قصبوں کی طرف Migration ،شہر کی دوڑبھاگ زندگی وغیرہ ۔انھوں نے سادہ ، سیلس اورعام فہم زبان کا استعمال کیا ہے،اور خاص کر زیادہ تر مسلم معاشرے میں بولی جانے والی زبان کو استعمال کیا ہے ۔ان کے افسانے کو پڑھتے وقت قاری کو اپنے ذہن پر زور نہیں دینی پڑتی ہے۔ بلکہ زبان ایسی ہے جو کہانی پڑھتے ہی دل ودماغ دونوں کو متاثر کرتی ہے۔ ان کا افسانہ کی ان ہی کی باطنی اور داخلی فکر کا آئینہ ہے۔ان کے افسانوں کے کردار عوامی ہوتے ہوئے بھی خصوصی اہمیت کے حامل ہیں ۔ان  کی کہانیاں مختصر ہونے کے ساتھ ساتھ تمام خوبیوں سے آراستہ پیراستہ ہوتی ہیں۔

                کتابیات

                1؎             ٹھہرے ہوئے  لوگ(افسانوی مجموعہ )۔ص49,50  انجم عثمانی ۔تخلیق کار پبلیشرز نئی دہلی1998؁ٔٔٔٔٔٔ؁ٔٔ؁ٗٗء

                2؎             سفر در سفر  (افسانوی مجموعہ )۔ص 21,22 انجم عثمانی۔جمال پریس دہلی1984 ء

                3؎             کہیں کچھ کھو گیا  ہے(افسانوی مجموعہ )۔ص 30 ۔انجم عثمانی۔موڈرن پبلیشنگ ہاوس نئی دہلی 2011ء

                4؎             کہیں کچھ کھو گیا ہے(افسانوی مجموعہ )۔ ص  85  انجم عثمانی۔موڈرن پبلیشنگ ہاوس نئی دہلی 2011ء

                5؎             ٹھہرے ہوئے لوگ(افسانوی مجموعہ )۔ص172 ۔انجم عثمانی ۔تخلیق کار پبلیشرز نئی دہلی 1998 ء

                6؎             کہیں کچھ کھو گیا  ہے(افسانوی مجموعہ )۔ص 91 ۔انجم عثمانی۔موڈرن پبلیشنگ ہاوس نئی دہلی 2011ء

                7؎             ٹھہرے ہوئے لوگ(افسانوی مجموعہ )۔ص 25 ۔انجم عثمانی ۔تخلیق کار پبلیشرز نئی دہلی 1998

٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.