سماج، کہانی کار اور کہانی

سماج، کہانی کار اور کہانی

عمران عراقی

موبائل نمبر: 9540243689

ahmedimran435@gmail.com

                یہ کہنا بے  حد مشکل ہے  کہ کہانی کار کے  ذہن میں  تخلیق فن سے  پہلے  کون سے  اصول متشکل ہوتے  ہیں  جن کے  تحت فن تخلیق کے  مرحلے  طے  کرتا ہے ۔ کہانی کار کے  کن طے  شدہ اصولوں  پر کہانی اپنے  وجود کو ممکن بناتی ہے ۔ باوجود اس کے  جو ایک بات کہی جا سکتی ہے  وہ یہ کہ موضوع کے  انتخاب کے  ساتھ کوئی نہ کوئی خاکہ یا ایک پیٹرن کہانی کار کے  ذہن میں  اپنی شکل اختیار ضرور کرنے  لگتا ہے ۔ لیکن اس خاکہ یا پیٹرن کو ہم موضوع کے  ساتھ پلاٹ، کردار، اور ابتدا کا نام دے  سکتے  ہیں ۔ اس کے  علاوہ جو کچھ بھی ہوتا ہے  وہ غیر واضح ہوتا ہے ۔ کہانی جوں  جوں  آگے  بڑھتی ہے  مکالمے ، کلائمکس اور انتہا اپنی اجتماعیت میں  ایک واضح شکل اختیار کرنے  لگتی ہے ۔ اسی کے  ساتھ ساتھ کہانی کار تکنیک کے  اصول بھی مرتب کرتا جاتا ہے  اور کردار کو بااثر اور پر معنی بنانے  کے  لیے  اس کے  مختلف شیڈس نکھارنے  کی کوشش بھی کرتا ہے ۔ ایسے  میں  سوال قائم ہوتا ہے  کہ کیا فکشن میں  موضوع، پلاٹ، کردار اور ابتدا کے  علاوہ مکالمے ، کلائمکس اور انتہا پہلے  سے  طے  نہیں  ہوتے ؟ کیا کہانی کار پہلے  سے  طے  شدہ تکنیک کا استعمال نہیں  کرتا؟ اور مزید یہ کہ کیا موضوع کے  ساتھ مواد بھی طے  شدہ ہوتے  ہیں  یا کردار کی ضرورت کے  مطابق مواد کو یکجا کیا جاتا ہے ؟ ان بنیادی سوالوں  کے  جواب گر نفی میں  ہیں  تو ان صورتوں  میں  کہانی پوری طرح سے  کہانی کار کی توقعات پر اتر جائے  یہ ممکن نہیں ۔ اور اگر ممکن ہو جائے  تو اسے  نہ موضوع کے  مناسب ترین پہلوؤں  کا مثبت رویہ کہا جا سکتا ہے  اور نہ ہی اسے  ہم کردار، کلائمکس اور انتہا کا فطری پن کہہ سکتے  ہیں ۔ ان باتوں  پر غور کیا جائے  تو مزید یہ سوال بھی قائم ہوتا ہے  کہ، کیا کسی بھی فن پارے  یا متن کی پرکھ کسی پہلے  سے  متعینہ اصولوں  یا پیمائش پر کرنا مناسب ہے ؟ کیا ایک مخصوص سماجی اور تہذیبی تناظر میں  پرورش پانے  والا فن پارہ اس سے  مختلف تناظر میں  تشکیل شدہ اصولوں  پر پرکھا جا سکتا ہے ؟ ممکن ہے  دو مختلف تہذیبیں  یا معاشرتی اور سماجی تناظرات کے  چند پہلو مشترک ہوں  اور اس تناظر میں  تشکیل پانے  والے  اصولوں  کا انطباق بھی ایک دوسرے  پر ہوتا ہو لیکن ہر دو صورتوں  میں  فن پارہ اپنے  وجود کے  ساتھ وہ میزان بھی لاتا ہے  جس کے  پلڑے  پر رکھ کر فن پارے  کو پرکھا جا سکے ۔ پہلی صورت اس معاشرے  کی ہے  جس تناظر میں  فن پارہ اپنا وجود مکمل کرتا ہے  اور دوسری اس نقطہ ٔ  نظر کی ہے  جس کے  تحت فن کار فن پارے  کے  وجود کو مکمل کرتا ہے ۔ ان دونوں  صورتوں  کو ملحوظ رکھا جائے  تو اس میزان کی تلاش آسان ہو جاتی ہے ۔

                بیسویں  صدی کی تیسری دہائی میں  جب پریم چند نے  ادب میں  حسن کے  میعار کے  بدلنے  کی بات کہی تھی، تو مقصد لسانی، فکری، تہذیبی اور سماجی تناظر میں  حسن کی معنویت اور اس کی نوعیت کو سمجھنا اور برتنا تھا۔ اس دور کے  اس پس منظر میں  اچھا خاصا ادب وجود میں  آیا جس کا ایک بڑا حصہ فکشن پر محیط ہے ۔ اور اس میں  بھی ایک بڑا حصہّ افسانے  پر مشتمل ہے ۔ گو کہ ادب پروپگنڈہ کا آلہ بھی بنا لیکن اس سے  بھی انکار نہیں  کیا جا سکتا کہ اس عہد میں  نظریاتی سطح پر ہو یا آزادانہ ، جو ادب وجود میں  آیا وہ اپنے  عہد کا اعلیٰ ادب تھا۔ اس ادب کی پرکھ بھی اسی تناظر میں  تشکیل پانے  والے  اصولوں  پر ہی کی گئی۔ اس دور میں  جو سب سے  اہم نظریہ کام کر رہا تھا وہ مارکسی نظریہ تھا۔ گو کہ یہ نظریہ غیر ملکی ضرور تھا لیکن اس نظریے  نے  اولاً فکری سطح پر ملک میں  اپنے  اثرات مرتب کئے  جس کے  لئے  ملک کی آب و ہوا نے  زمین ہموار کر رکھی تھی۔ گویا اس دور میں  مارکسی نظریہ کے  پھیلنے  کے  وہ تمام اسباب پہلے  سے  موجود تھے ۔ اور ہوا بھی یہی کہ اس نظریہ نے  نہ صرف اچھا ادب تخلیق کیا بلکہ تنقیدی سطح پر بھی بہتر اصول تشکیل کئے ۔ لیکن یہاں  سوال یہ ہے  کہ ساٹھ کی دہائی میں  اور اس کے  بعد اچانک سماجی، لسانی اور تہذیبی سطح پر ایسا کون سا نظریہ پرورش پاتا ہے  جس کے  اثرات سے  اردو ادب میں  جدیدیت اور مابعدجدیدیت جیسی تھیوری پیش کی گئی؟ اور تقسیم بندی کے  نام پر ادب کو مختلف خانوں  میں  بانٹ کر رکھ دیا گیا۔ جب کہ ان مختلف خانوں  کے  ادیب ایک دوسرے  کی سرحدوں  کو عبور بھی کرتے  رہے ۔ دلچسپ یہ بھی ہے  کہ ان تھیوریز کے  سرے  ہندوستان کے  سماجی اور تہذیبی پس منظر میں  دور دور تک دیکھنے  کو نہیں  ملتے ۔ ماسوائے  یہ کہ ایک نظریہ کی مخالفت یا اس سے  مختلف (جو بعض اوقات ایک ہی طرح کی روش سے  اکتاہٹ یا محرومی کی شکل میں  کی جاتی ہے ) ایک نئی راہ تلاش کرنے  کی کوشش کی گئی۔

                سیاسی سطح پر دیکھا جائے  تو ستّر کی دہائی یعنی (1975)   میں  ایمرجنسی نافذ ہوئی تھی، اور اس سے  قبل ملک میں  ایک قسم کی افرا تفری اور خوف کا ماحول بھی تھا۔ 1974میں  جے  پرکاش نارائن کی قیادت میں  بہار کی طلبہ یونین کے  ذریعے  Bihar Movementکی ایک بڑی تحریک چلائی گئی جس نے  کچھ ہی وقتوں  میں  ملکی سطح پر  Total Revolution کی شکل اختیار کر لی اور اسے  J P Movementکے  نام سے  بھی موسوم کیا جاتا ہے ۔ اس کے  فوراً بعد ہی 1977  میں  ملک کے  عوامی انتخاب میں  پہلی بار کوئی غیر کانگریسی سیاسی پارٹی اقتدار حاصل کرتی ہے ۔ اور ان سب سے  قبل ہندوستان کی سیاست میں  Turning Pointکی حیثیت رکھنے  والا واقعہ 1966   میں  رونما ہوتا ہے  جب پہلی بار ایک خاتون ملک کی وزیر اعظم منتخب کی جاتی ہے ۔ یہاں  غور کرنے  والی بات یہ ہے  کہ کیا اردو ادب اور خاص طور سے  اردو فکشن میں  اس سیاسی ماحول کے  زیر اثر پیدا ہونے  والی سماجی اور معاشرتی تبدیلیوں  کی عکاسی دیکھنے  کو ملتی ہیں ؟ کیا اس عہد کے  اردو ادب میں  ایسا کوئی افسانہ یا ناول وجود میں  آتا ہے  جو بہار موومنٹ، ایمرجنسی کے  نفاذ، قیام بنگلہ دیش یا بنگلہ دیش کے  پس منظر میں  ہند و پاک کے  درمیان ہونی والی جنگ اور اس وقت کی سیاسی اور سماجی صورت حال کی ترجمانی واضح شکل میں  کرتا ہو؟ یا ان تمام واقعات کے  تناظر میں  اقتصادی مسائل کو ہی موضوع بنایا گیا ہے ؟ اردو فکشن کا بغور جائزہ لیں  تو ان سوالات کے  جوابات آپ کو نفی میں  ہی ملتے  ہیں ۔ جہاں  تک افسانے  کی بات ہے  تو افسانہ کسی واقعہ کے  رد عمل کی شکل میں  فوری طور پر ضرور وجود میں  آ جاتا ہے  اور یہی وجہ ہے  کہ ہمارے  پاس افسانہ نگاروں  کی ریلم پیل بھی ہے ۔ ہر چھوٹے  اور بڑے  واقعات کے  لیے  فوری طور پر کوئی نہ کوئی افسانہ ہمارے  سامنے  آ ہی جاتا ہے ۔ خواہ کہ وہ معروف افسانہ نگاروں  کے  ذریعے  ہو یا غیر معروف۔ ایسے  میں  یہ کہنا تھوڑا دشوار ضرور ہے  کہ مذکورہ موضوعات یا مسائل کو کسی افسانے  میں  نہیں  برتا گیا ہو۔ لیکن یہاں  سوال یہ ہے  کہ کیا کسی ایک افسانے  میں  سیاسی واقعات کے  زیر اثر سماجی سطح پر رونما ہونے  والی متعدد تبدیلیوں  کے  مختلف شیڈش کو دکھایا جا سکتا ہے ؟ قومی مسائل، اقتصادی بحران، انسانی ترجیحات، اقتدار اور اقدار کی شکست و ریخت جیسے  مختلف پہلوؤں  کی عکاسی کسی ایک افسانے  میں  کی جا سکتی ہے ؟ اور ان سب مسائل کے  درمیان افسانوی فضا کو بھی برقرار رکھتے  ہوئے  حسن اور زندگی کی معنویت کو بھی پیش کرنا، کیا کسی ایک افسانے  میں  ممکن ہے ؟

                دراصل افسانے  کا اختصاص چونکہ بلیغ اشارے ، رمزیہ کلمات اور استعاراتی بیانیہ کے  ذریعے  کہانی یا واقعات کی ترسیل اور اس میں  معنویت پیدا کرنے  کی کوشش ہے ، اس لیے  کسی بھی موضوع کے  مختلف پہلوؤں  کو واضح انداز میں  دکھا پانا، یا واقعات کے  مختلف شیڈش کو تفصیل کے  ساتھ پیش کر پانا، افسانے  میں  ممکن نہیں ۔ جبکہ ناول میں  مذکورہ تمام لوازمات کے  ساتھ بھی اس کے  بیانیہ میں  اتنی گنجائش ہوتی ہے  کہ کسی بھی واقعات کی پیش کش میں  تفصیل سے  کام لیا جا سکے ۔ یہی سبب ہے  کہ اردو میں  معاشرتی ناول میں  بھی تاریخ کی ورق گردانی کر لی جاتی ہے ۔ یا ایک عہد کے  واقعاتی تناظر میں  بھی زمانی بُعد کی کئی تہوں  کو بڑی خوبصورتی کے  ساتھ کھنگال لیا جاتا ہے ۔ ایسے  میں  کیوں  نہ سماجی اور معاشرتی مسائل کے  لیے  ناول کے  باب میں  خصوصی توجہ دی جائے  لیکن ہمارا المیہ یہ ہے  کہ ہم نے  کئی اہم واقعات یا قومی مسائل پر ناول لکھنا تو کجا، اس پر بات کرنے  سے  بھی گریز کیا ہے ۔ گریز کا یہی پہلو ہے  جس کی تلافی افسانے  کے  ذریعے  کی جاتی رہی ہے ۔ لیکن غور طلب یہ ہے  کہ کسی بھی چھوٹے  بڑے  واقعات کے  لیے  افسانہ لکھ لینا کمال نہیں ۔ کمال تو یہ ہے  کہ کسی عہد میں  کوئی اہم واقعہ سماج و معاشرت کو کس طرح تبدیل کرتا ہے ، کوئی ایک سیاسی حکمت عملی یا ملکی اور ریاستی سطح پر منظر عام پر آنے  والی تحریکات، ملک کی اقتصادیات کو کس طرح متاثر کرتی ہیں  اور اس سے  سماج میں  بسنے  والی عام زندگیاں  کیا اثر قبول کرتی ہیں ، انہیں  فکشن کے  قابل میں  ڈھالنا ہے ۔ دراصل یہی وہ عمل ہے  جو کسی بھی زبان کے  قلم کاروں  کا اولین فریضہ بھی ہے ۔ اور اس فریضے  کی انجام دہی کے  لیے  ناول کا متبادل کیا ہو سکتا ہے ؟ ناول میں  کسی ایک مرکزی موضوع کے  تحت سماج و معاشرت کے  وہ تمام شیڈش دکھائے  جا سکتے  ہیں ، جن کا ذکر پہلے  کیا جا چکا ہے ۔ اس مقام پر پہنچ کے  یہ سوال پھر سامنے  آتا ہے  کہ کیا اردو کے  ناولوں  نے  اپنے  اس فرائض کی انجام دہی میں  چوک و چوبند نظر آتے  ہیں ؟ خاص طور اکیسویں  صدی سے  قبل کی چند دہائیوں  کا جائزہ لیا جائے  تو کیا ہمارے  پاس واقعتا ایسے  ناول موجود ہیں  جنہوں  نے  سماجی ضروریات کو پورا کیا ہو؟ سماج و معاشرے  کا حقیقی آئینہ بننے  کی کوشش کی ہو؟ تقسیم ہند، فسادات، ہجرت، جاگردارانہ معاشرے  کے  عروج و زوال اور خانگی مسائل جیسے  موضوعات تو ہمارے  بیشتر ناولوں  کا حصہ بن چکے  ہیں  لیکن کیا یہ حیرت کی بات نہیں  کہ قحط بنگال جیسے  دل سوز موضوع کو اردو کا صرف ایک ناول ’’خون جگہ ہونے  تک‘‘ پیش کرتا ہے ؟ البتہ تقسیم ہند اور ہجرت کے  ضمن میں  بھی غور کیا جائے  تو کیا یہ تشویش ناک امر نہیں  کہ اردو کے  ناول جس طرح سے  اتر پردیش، پنجاب اور دہلی کو اپنا موضوع بناتے  ہیں ، بہار و بنگال کے  تہذیبی اور ثقافتی شناخت اور وہاں  کے  معاشرتی مسائل نظر انداز کر دیئے  جاتے  ہیں ۔ اردو کے  کتنے  ایسے  ناول ہیں  جن میں  ہجرت اور تقسیم کے  موضوع پر بحث کرتے  ہوئے  مشرقی پاکستان کا نقشہ کھینچا گیا ہو۔ یا یہ کہ بہار و بنگال کے  معاشرتی اور تہذیبی امتیازات کو مشرقی پاکستان کے  آئینے  میں  دیکھنے  کی کوشش کی گئی ہو؟ اردو ناول کا حیرت انگیز المیہ تو یہ ہے  کہ 1857 کی پہلی جنگ آزادی کی تصویر کو ڈیڑھ سو سال بعد ’’ایوانوں  کے  خوابیدہ چراغ‘‘ (2013) میں  پینٹ کرنے  کی کوشش کی گئی۔ 1982ء میں  ایمرجنسی کے  موضوع کو ’’کانچ کا بازی گر‘‘ کی شکل میں  پورٹریٹ کرنے  کی کوشش کی گئی لیکن یہ کوشش محض تجربہ بن کے  رہ گئی۔ جس کی تفہیم عام قارئین کے  لیے  اتنا ہی مشکل ہے  جتنا کہ کانگریس کے  مخالفین کے  لیے  خود کو روپوش کرنا تھا۔ طبقاتی تصادم کے  مختلف پہلوؤں  کو متعدد ناولوں  میں  دکھانے  کی کوشش کی گئی لیکن حیرت ہے  کہ دلتوں  کے  مسائل اور نکسلوادی تحریک جیسے  اہم موضوعات کو اکیسویں  صدی میں  ’’دویہ بانی‘‘ (2000) اور  ’’تخم خون‘‘ (2016) جیسے  ناولوں  نے  پیش کیا۔ ان کے  علاوہ بھی کئی ایسے  قومی مسائل یا موضوعات ہیں ، جن کی آواز عالمی سطح پر سنی جانے  کے  باوجود، اردو کے  ناول نگاروں  نے  انسنی کر دی۔ عالمی جنگ کے  تناظر میں  لکھا گیا ہمارے  پاس کوئی ایسا ناول نہیں  جسے  ہم نظیر کے  طور پر پیش کر سکیں ۔

                میں  یہاں  سیاسی پہلوؤں  کو اس لئے  بھی نمایاں  کر رہا ہوں  کہ سیاست کسی بھی خطہ یا ملک کی صورت حال، معاشی اور سماجی سطح پر ہونے  والی تبدیلیوں  میں  اہم رول ادا کرتا ہے ۔ اور ادب، خواہ کسی زبان کا ہو، انہیں  تبدیلیوں  سے  اپنے  لیے  مواد حاصل کرتا ہے ۔ اس لیے  جب بات فکشن اور خصوصاً ناول کی آ جاتی ہے  تو براہ راست اس کا تعلق سماجی سروکاروں  سے  ہوتا ہے ۔ ایسے  میں  سماجی سروکاروں  کے  ساتھ ان تمام تحریکات و رجحانات پر بھی باتیں  ہونی چاہئے  جن سے  ادب نے  اپنے  لیے  غذا حاصل کی۔ اردو ادب نے  60کی دہائی میں  اپنے  لیے  جو مواد حاصل کیا وہ جدیدیت کی تحریک کے  زیر اثر تھا۔ دلچسپ یہ ہے  کہ جدیدیت کی شروعات 60  کی دہائی میں  ہوتی ہے ۔ اور جدیدیت کے  زیر اثر جن صورت حال یا کیفیات کو پیش کیا جا رہا تھا ، سماجی سطح پر وہ صورت حال اور کیفیات ملک کو ستّر کی دہائی میں  پیش آتی ہے ۔ تو کیا اس سے  یہ سمجھا جائے  کہ ادب پہلے  وجود میں  آ رہا تھا اور سماج کی صورت حال اس کے  تحت تبدیل ہو رہی تھی؟ جب کہ ہونا تو یہ چاہئے  تھا کہ سماج کے  تبدل کے  ساتھ ادب وجود میں  آئے ۔ اس ادب میں  تبدیل شدہ سماج کی بہتر تصویر کشی کی جائے  یا ان تمام امکانات کی طرف پیش قدمی کرنے  میں  ادب اپنا رول ادا کرے  جو مستقبل کے  گربھ میں  مخفی تھیں ۔ کیونکہ ادب ماضی اور حال کی تصویر کشی کرنے  کے  ساتھ مستقبل کے  امکانات کو پیش کر سکتا ہے ، نہ کہ صورت حال کو۔ ادب یا آرٹ سماج میں  پھیلے  ان راسخ العتقاد کو توڑنے  کا کام کرتا ہے  جن کی جڑیں  ماضی سے  جڑی ہوتی ہیں ۔ ادب اپنے  ماضی اور حال سے  مستقبل کا شعور تو حاصل کر سکتا ہے  لیکن صورت حال کی عکاسی ممکن نہیں ۔

                در اصل ادب کا یہ بدلتا منظر نامہ پروجیکٹیڈ تھا جس کی اساس غیر ملکی تھیوریز پر تھی۔ جس کے  تحت نظریہ اور تنقید، ادب پر حاوی ہو چکی تھی۔ پہلے  تنقید کے  اصول مرتب کئے  جا رہے  تھے  اور بعد میں  ادب کی تخلیق ان اصولوں  پر کی جا رہی تھی۔ گویا تنقید تخلیق پر حاوی ہو چکی تھی۔ اس صورت حال میں  جو چیزیں  سامنے  آئیں  ان کی شباہت دھندلی اور غیر مبہم ہی رہی۔ یہ کس قدر حیرت انگیز ہے  کہ ستّر کی دہائی میں  ملک کی صورت حال یا سماجی اور معاشرتی تصویر کشی کا جو نمونہ افسانے  اور ناول کے  ذریعے  پیش کیا گیا، وہ کسی اعتبار سے  قابل اعتنا نہیں  تھا۔ exceptionکہ کوئی افسانہ اپنی تمام تر علامتوں  اور تجریدی رویوں  کے  باوجود موضوع کی ترسیل کرنے  میں  کامیاب رہا ہو۔ لیکن کم از کم اردو کا کوئی ایسا ناول نظر نہیں  آتا جس نے  قارئین کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے  میں  کامیابی حاصل کی ہو۔ اس کی بڑی وجہ یہ بتائی گئی کہ 60/70کی دہائیوں  میں  علامتوں  اور تجریدی رویوں  نے  فکشن کو اس قدر متاثر کیا کہ فکشن نے  اپنی اساس ہی کھو دیا۔ فکشن سے  کہانی پن غائب ہو چکا تھا۔ دراصل کہانی پن ہی نہیں  بلکہ وہ تمام سماجی سروکار بھی عنقا ہو چکے  تھے ، جن سے  فکشن کو غذا حاصل ہوتی تھی۔ فکشن کی معنویت میں  اضافہ ہوتا تھا۔ اس لیے  یہ کہا جا سکتا ہے  کہ ادب جب تک اپنے  ادبی زیورات سے  آراستہ ہو کے  اپنے  عہد کی ترجمانی نہیں  کرتا، وہ اپنے  وقت کی صورت حال کا ایک دھندلا سا عکس لئے  تاریخ کے  کسی اوراق میں  کہیں  گُم ہو جاتا ہے ۔ اسے  ہم اس عہد کا ترجمان نہیں  کہہ سکتے ۔ ساٹھ کے  بعد کی دہائی اور خاص طور سے  ایمرجنسی کی صورت حال پر لکھے  گئے  جو دو ایک ناول یا افسانے  ملتے  ہیں ، وہ اسی دھندلے  عکس کی طرح ہے ۔

                نئی صدی کی ابتدا سے  قبل کے  ادبی ماحول (جدیدیت، مابعدجدیدیت، ساختیات، پس ساختیات، نوآبادیات اور ہیت پرستی وغیرہ جیسی تھیوریز) سے  بغاوت نے  فکشن کے  لئے  ایک بار پھر زمین ہموار کی۔ کہانی اور قاری کا جو رشتہ منقطع ہو گیا تھا وہ دوبارہ بحال ہوا۔ حتیٰ کہ جو کہانی کار اپنی ہی بوجھل اور مبہم تحریروں  سے  اکتاہٹ کے  شکار ہو گئے  تھے  انہوں  نے  اپنی پوری توانائی کو یکجا کر دوبارہ کہانی کی طرف رجوع کرنا ہی بہتر جانا۔ یہ ایک بڑی وجہ تھی کہ اکیسویں  صدی کو فکشن کا عہد کہا گیا۔

                اکیسویں  صدی سے  قبل (خاص طور سے  اسّی کی دہائی تک) کا ادب عمومی طور پر اور فکشن خصوصی طور پر کچھ مخصوص نظریہ اور موضوعات ہی کا احاطہ کرتا ہے ۔ اس دوران ناول کے  جو غالب موضوعات رہے ، ان میں  تقسیم ہند، تاریخی واقعات، بدلتی قدروں  کا المیہ، انحطاط پزیر زمیندارانہ نظام خاص طور سے  برتے  گئے ۔ ان موضوعات کو برتنے  میں  خاص بات یہ رہی کہ فن کار پوری طرح سے  موضوع کے  تابع ہونے  کی بجائے ، اسے  اپنے  مشاہدے  اور مطالعے  کے  ذریعے  حاصل کی گئی حقیقتوں  کے  مطابق تحریر کرتا ہے ۔ ایک ایسی حقیقت جس میں  ادراک کا کم اور مشاہدے  کا دخل زیادہ ہوتا ہے ۔ ایسی صورت میں  جہاں  موضوع کے  انتخاب کے  ساتھ فن کار فن کی ابتدا تو کرتا ہے  وہیں  وہ کلائمکس، کرداروں  کی نشو و نما اور انتہا کو بھی پہلے  سے  طے  کر لیتا ہے ۔ واقعات، کردار کے  گردن میں  ایک لگام ڈالے  رکھتا ہے ۔ جس سے  اس کا موضوع اور صورت حال کے  مطابق فطری پن ختم ہو جاتا ہے  اور اختتام بھی کسی طے  شدہ اصولوں  کے  مطابق ہی ہوتا ہے ۔ اس صورت حال میں  کردار کا اپنا کوئی وجود نہیں  رہ جاتا ماسوائے  یہ کہ وہ فن کار کا عکس نظر آئے ۔ اور نہ ہی ان صورتوں  میں  کہانی کی بُنت میں  ایسی کوئی دنیا آباد ہو پاتی ہے  جس کے  مطالعے  سے  قاری خود کو سیراب محسوس کر سکے ۔ سیرابیت قاری کی پہلی ضرورت ہوتی ہے  جو اسے  فن کی طرف مائل کرتی ہے ۔ اگر تقسیم یا تاریخ کو ہی جاننا یا سمجھنا ہے  تو کوئی ادب کا معالعہ کیوں  کرے ؟ ادب کے  علاوہ ایسی بے  شمار کتابیں  موجود ہیں  جن کے  ذریعے  ان واقعات کو بخوبی جانا اور سمجھا جا سکتا ہے ۔ قدروں  یا زمیندارانہ نظام کو اگر جاننا اور سمجھنا ہوتو ادب ہی کیوں ؟ تہذیب اور سماج پر ایسی بے  شمار کتابیں  ہیں  جن کے  مطالعے  سے  ان باتوں  کو جانا اور سمجھا جا سکتا ہے ۔ ایسے  میں  ادب اور خاص طور سے  فکشن کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے ؟ ایسی کوئی تحریر جو فکشن کے  قالب میں  ڈھلی ہو، اسے  پڑھ کے  کسی جہان دیگر کی سیر نہ کرنا اور کسی روشنی سے  معمور نہ ہونا، اسے  ما سوائے  الفاظ کے  ڈھیر کے  کچھ بھی نہیں  کہا جا سکتا۔

                اکیسویں  صدی میں  فکشن کی دونوں  اصناف (افسانہ اور ناول) میں  جس قدر ناول نے  ترقی کی منزلیں  طے  کیں  اس کا اندازہ اسی سے  لگایا جا سکتا ہے  کہ صرف دو دہائیوں  (جو فی الوقت انیس برسوں  پر محیط ہے  ) کے  اس مختصر سے  عرصے  میں  کم و بیش اسّی (80) ناول لکھے  جا چکے  ہیں  (یہ تعداد صرف ہندوستان میں  لکھے  گئے  ناولوں  پر مبنی ہے )۔ جب کہ بیسویں  صدی کے  طویل عرصے  میں  تقریباً ڈھائی سو (250)  ہی ناول لکھے  گئے ۔ جو اکیسویں  صدی کے  مقابلے  میں  اوستاً کم ہے ۔ یہ اعداد و شمار اپنے  آپ میں  ناول کی اہمیت اور مقبولیت کا اعتراف کرتے  ہیں ۔ دلچسپ یہ بھی ہے  کہ بیسویں  صدی میں  (ابتدائی تین دہائیوں  کو چھوڑ کے  ) ایک بڑی تعداد ان ناول نگاروں  کی تھی جن کی حیثیت بنیادی طور پر ایک افسانہ نگار کی رہی۔ جب کہ اکیسویں  صدی میں  ایسے  فکشن نگار سامنے  آئے  جو بنیادی طور پر ناول نگار کی حیثیت سے  تسلیم کیے  جا چکے  ہیں ۔ ان میں  غضنفر ، شموئل احمد، مشرف عالم ذوقی، رحمٰن عباس خاص طور سے  قابل ذکر ہیں ۔ یہ فہرست اُن ناموں  کے  ساتھ مزید طویل ہو سکتی تھی جنہوں  نے  اکیسویں  صدی میں  بھی ناول لکھے  ہیں ۔ لیکن ان ناموں  کی شناخت بیسویں  صدی میں  ہی ایک کامیاب افسانہ نگار کی بن چکی ہے ۔ اور میں  سمجھتا ہوں  کہ ان کی شناخت کو ایک اور نام دینے  میں  عجلت پسندی سے  کام نہیں  لینا چاہئے ۔ تاہم انہیں  ان کے  مشہور ناولوں  سے  بھی یاد کیا جاتا رہے  گا۔

                یہ اندازے  مزید دلچسپی کا باعث اس وجہ سے  بھی ہے  کہ ہم نے  داستان سے  ناول کی طرف رُخ کیا اور بعد میں  افسانے  اور پھر افسانچے  کی طرف۔ گویا انسان فرصت سے  عدیم الفرصت کی طرف رُخ کرتا ہے ۔ بدلتے  سماج کے  ساتھ انسان کی طرز زندگی بھی بدلتی ہے  اور موجودہ صدی میں  انسان بے  انتہا مصروف یا یوں  کہہ لیجئے  عدیم الفرصت ہو گیا ہے ۔ ایسے  میں  ان سے  ناول پڑھنے  یا لکھنے  کی توقعہ کرنا کتنا مناسب ہے ؟ ساتھ ہی افسانے  کا مختصر پن اور تحیر اس کی مقبولیت میں  جہاں  چار چاند لگاتا ہے  وہیں  کہیں  نہ کہیں  ناول کی اہمیت اور عوام کی قبولیت میں  بھی حائل نظر آتا ہے ۔ ان سب کے  باوجود اکیسویں  صدی کا قاری ایک بار پھر ناول کی طرف مائل ہے ۔ ایک ایسی صنف کی طرف جو وقت طلب ہے ۔ لیکن اس وقت میں  انسان کی سانسوں  کے  زیروبم کو بھی محسوس کیا جا سکتا ہے ۔ ناول میں  بیک وقت زندگی کے  کئی دھارے  بہتے  ہیں ۔ ایک تحیر آمیز جہانِ دیگر آباد ہوتا ہے ۔ ایک ایسا طلسم آباد ہوتا ہے  جس میں  کھونے  کے  بعد انسان خود کو پاتا ہے ۔ سماجی، سیاسی اور تہذیبی صورت حال کے  طلسم کو توڑنے  کی صلاحیت محسوس کرتا ہے ۔ آج کا قاری عدیم الفرصت ہونے  کے  باوجود اس دھارے  کے  ساتھ بہنا چاہتا ہے ، اس سے  سیراب ہونا چاہتا ہے ۔ دراصل سیرابیت کی یہی چاہت ہے  جو اسے  ناول کی طرف مائل کر رہی ہے ۔ لیکن سوال یہ ہے  کہ کیا اکیسویں  صدی کا ناول نگار ناول کے  ان تقاضوں  کو پورا کر رہا ہے ، جو قاری کی توقعات میں  شامل ہے ؟ کیا واقعی آج کا ناول پڑھ کر ایک قاری اُس جہاں  کی سیر کر سکتا ہے  جسے  اس نے  دیکھا تو نہیں  لیکن دیکھنے  کی چاہت ناول پڑھنے  کے  بعد بڑھ جائے ؟ کیا آج کا ناول ایک قاری کو اپنے  سماج، تہذیب، سیاست اور طبقاتی کشمکش کا شعور عطا کر سکتا ہے ؟ کیا آج کا ناول انسان کے  اندرون میں  منجمد برف کو توڑنے  کی صلاحیت رکھتا ہے ؟ کیا آج کا ناول پڑھ کر ایک عام قاری یہ کہہ سکتا ہے  کہ ’’ہاں  ہم نے  اس دنیا کو دیکھا ہے  جہاں  میں  اب تک نہیں  گیا؟ یہ ایسے  بنیادی سوالات ہیں  جن کے  درمیان سے  ناول کی خصوصیات، اس کے  حسن اور آرٹ کی معنویت عیاں  ہوتی ہیں ۔

                مذکورہ ناول نگاروں  کے  علاوہ اکیسویں  صدی میں  جن قلم کاروں  نے  بھی ناول لکھے  ہیں  ان میں  عبدالصمد، حسین الحق، پیغام آفاقی، کوثر مظہری، خالد جاوید، شمس الرحمٰن فاروقی، شائستہ فاخری، ترنم ریاض، صلاح الدین پرویز، علی امام نقوی، ثروت خان، صادقہ نواب سحر، احمد صغیر، نورالحسنین، سلیم شہزاد، احمد صغیر، سید محمد اشرف، جتیندر بلو، بلند اقبال اور صغیر رحمانی وغیرہ خاص طور سے  قابل ذکر ہیں ۔ اکیسویں  صدی کے  حوالے  سے  ان کے  علاوہ بھی کئی ایسے  نام لیے  جا سکتے  ہیں  جنہوں  نے  ناول نگاری کے  میدان میں  قدم رکھا ہے ۔ لیکن سب سے  اہم اور خوش آئند بات یہ ہے  کہ ان بڑے  قلم کاروں  کے  علاوہ نئی نسل میں  بھی ناول نگاری کی طرف رجحان دیکھنے  کو مل رہے  ہیں ۔ ان میں  سلمان عبدالصمد، سفینہ بیگم، عمران عاکف خان اور معروف سلیمانی قابل ذکر ہیں ۔

٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.