ترسیلی جہات
نام کتاب: ترسیلی جہات
مصنف : سلمان فیصل
صفحات: 206
قیمت: 175
مبصر: ڈاکٹر عزیر اسرائیل
ملنے کا پتہ: دارالاشاعت مصطفائی، D1/16 انصاری روڈ دریاگنج، نئی دہلی-110002، فون: 011-45678285
ترسیلی جہات “میں کل پندرہ مضامین ہیں۔ اگر پیش لفظ کو شامل کرلیں تو یہ تعداد 16 ہوجائے گی۔ 3 مضامین (اردو محققین کے پیش رو: سرسید احمد خان، اقبال اور ٹیگور اور شبلی نعمانی اور عبدالسلام ندوی) کو چھوڑ کر سبھی مضامین میڈیا پر ہیں۔ “حرف اول” میں سلمان فیصل نے اردو صحافت کے بدلتے منظرنامہ اور خاص کر جدید ٹکنالوجی کی وجہ سے صحافت میں آئی تبدیلیوں پر گفتگو کی ہے۔ پہلا مضمون آزادی سے پہلے کی مذہبی صحافت پر ہے جس میں انہوں نے اردو صحافت کی ابتدا پر عمومی طور پر روشنی ڈالی ہے۔ انہوں نے مولانا امداد صابری کے حوالے سے اردو کا پہلا رسالہ “خیر خواہ ہند” قرار دیا ہے جو عیسائی مشنریوں نے مرزا پور سے 1837 میں نکالا تھا۔ بہت محنت سے تیار کی گئی اس فہرست میں عیسائی ، ہندو اور مسلم سبھی مذاہب کی تبلیغ کے لیے نکالے گئے مذہبی رسائل کی روداد ہے۔ یہ رواد یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ آزادی سے پہلے اردو عام بول چال کی زبان سے ترقی کرکے علمی اور ادبی زبان کا درجہ اختیار کرچکی تھی۔ سبھی مذاہب کے علما اسی زبان کو تبلیغ کے لیے استعمال کرتے تھے۔ یہ تفصیلی مضمون آزادی سے پہلے لکھنے والےقلم کاروں، مدیروں اور اس وقت کی رائج مذہبی بحثوں کا بھی احاطہ کرتا ہے۔ ہر رسالہ کسی نہ کسی مکتبہ فکر کا ترجمان ہوتا ہے۔ اس کے لکھنے والے اسی فکر کی ترجمانی کرتے ہیں۔ یہ مضمون اس کتاب کا ماحصل ہے ۔زیر نظر کتاب میں اردو صحافت سے وابستہ ہستیوں مثلا مولانا ظفر علی خاں، مولانا امداد صابری اور ڈاکٹر ابوالحیات اشرف پر خصوصی مضامین ہیں۔ مولانا ظفر علی خان کو روزنامہ زمیندار کی وجہ سے نہ صرف اردو دنیا میں بلکہ اپنی جارحانہ تحریروں کی وجہ سے آزادی ہند کے متوالوں میں کافی شہرت حاصل ہے۔ بیسویں صدی کی ابتدائی دہائی میں اس اخبار کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ لوگ دو پیسے میں اخبار خریدتے تھے اور ایک آنے میں پڑھوا کر سنتے تھے۔ مولانا امداد امام صابری کی صحافت پر دو اہم کتابیں ہیں، ایک تاریخ صحافت اردو ” جس میں 1900 تک کے اخبار و رسائل کا ذکر ہے ۔ یہ کتاب تین جلدوں پر مشتمل ہے۔ دوسری کتاب “روح صحافت ہے جس میں صحافت کے آغاز و ارتقا سے بحث کی گئی ہے۔ سلمان فیصل نے اس کے موضوعات کا تعارف کراتے ہوئے لکھا ہے:
‘”جن موضوعات پر انہوں نے قلم اٹھایا ہے ان میں اردو اخبارات ورسائل کا آغاز، اردو اخبارات کے ابتدائی عہد کے حالات و وسائل، قدیم علمی و صنعتی انجمنوں کے اخبارات ورسائل، انگریزوں کا ہندوستانیوں کے ساتھ توہین آمیز سلوک، ہندوستانی اخبارات قانونی شکنجہ میں اور حجاز کی صحافت قابل غور ہیں۔”
امداد صابری کی اس کتاب پر تفصیلی مضمون لکھنے کی وجہ مصنف نے یہ بتائی ہے کہ یہ کتاب اہم ہونے کے باوجود کمیاب ہے۔ عام قاری کی پہنچ سے دور ہونے کی وجہ سے اس کتاب کی اہمیت و افادیت سے قاری کو روشناس کرانا ضروری تھا۔ تیسری شخصیت ڈاکٹر ابوالحیات اشرف کی ہے۔ اردو دنیا ان کے نام سے کم ہی واقف ہے۔ لیکن جو لوگ نوائے اسلام کے “السلام علیکم” کے قاری رہے ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ نوائے اسلام کے خریداروں کی ایک بڑی تعداد صرف اسی کالم کو پڑھنے کے لیے اس ماہنامے کو خریدتی تھی۔ اس مضمون میں سلمان فیصل نے اسی کالم کے حوالے ڈاکٹر ابوالحیات اشرف کا تعارف اردو قاری سے کروایا ہے۔
کتاب میں تین مضامین اردو رسائل کے تعارف پر مشتمل ہیں یہ رسالے ہیں “اسلام اور عصر جدید”، “معارف ” اور “ہمدرد صحت” لیکن یہاں بھی سلمان فیصل نے اپنے آپ کو صرف ان رسائل کے تعارف تک محدود نہیں رکھا ہے۔ ان کی کوشش یہ رہی ہے کہ وہ ان رسائل کے کسی اہم پہلو پر روشنی ڈالیں۔ چنانچہ ماہنامہ “معارف” پر مضمون “اردو کا مسئلہ اور رسالہ “معارف” کے شذرات” کے عنوان سے ہے ۔ یہ مضمون اس دور کی روداد ہے جب اردو کی بساط سمیٹی جارہی تھی اس کی جگہ پر ہندی زبان کو رائج کیا جارہا تھا۔ تعلیمی اداروں، مقننہ اور عدلیہ سے اردو کے خاتمہ کا اعلان کیا جارہا تھا۔ ایسے میں اردو کو بچانے کی جدوجہد اور اس کے حوالے سے کی جانے والی کوششوں کو ہم اس مضمون میں دیکھ سکتے ہیں۔
ایک مضمون “ٹی وی کی زبان” پر بھی ہے اس مضمون میں اردو اور ہندی کے مقبول عام سیریلوں اور پروگراموں کی زبان کا جائزہ لینے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ “فلم یا سیریل کی زبان کے تعین میں ناظرین کے علاوہ اس فلم یا سیریل کی کہانی، اس کے کردار، اس کا سماجی پس منظر اور اس کے کرداروں کی تہذیب کو ملحوظ خاطر رکھا جائے گا۔” مصنف کو ڈی ڈی اردو کے دستاویزی پروگراموں کی زبان سے شکایت ہے ،ان کے مطابق ان کی زبان بھی عوامی ہونی چاہیے۔
موبائل ، کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی وجہ سے اردو صحافت میں آن لائن صحافت، بلاگنگ اور سوشل میڈیا جیسے موضوعات بھی توجہ کا موضوع بنے ہیں۔ سلمان فیصل نے ان میں سے ہر ایک پر تفصیل سے لکھا ہے۔ بلاگنگ کے حوالے سے اردو دنیا کی سردمہری کی شکایت بجا ہے۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ اردو دنیا روایتی چیزوں سے آگے جب سوچتی ہے تب تک وہ بھی روایتی چیزوں کے زمرے میں آجاتی ہے۔
اردو ادب کے افق پر نمودار ہونے والے نئے چہروں میں سلمان فیصل نے اپنی تحریروں کے ذریعہ بہت جلد اپنی پہچان بنا لی ہے۔ ان کی تحریروں میں پائی جانے والی پختگی اور شعور کی بالیدگی گہرے مطالعے کا پتہ دیتی ہے۔ اس وقت سلمان فیصل ادب کی مختلف اصناف پر طبع آزمائی کررہے ہیں۔ وہ کسی ایک جہت میں سمٹ کر رہنا نہیں چاہتے۔ ترسیلی جہات بھی ان کی اسی کوشش کا مظہر ہے جہاں ایک طرف وہ ہمیں اردو کے قدیم ادبی اور مذہبی رسائل سے واقف کراتے ہیں وہیں سوشل میڈیا اور آن لائن صحافت جیسے صحافت کے جدید فارم پر بھی گفتگو کرتے ہیں۔ بلاشبہہ سلمان فیصل کا قلم اردو کے لیے کسی نوید سے کم نہیں ہے۔
٭٭٭
Leave a Reply
Be the First to Comment!