لکھنوی تہذیب اورمعرکہ ٔ حیوانات: امتیاز و انفراد

محمد اظہار انصاری

استاد ریاستی مڈل اسکول ،پوکھریا ، بہار

MOB:7320836823

 لکھنؤ اپنی خاص وضع قطع ، رہن سہن ، خور د و نوش ، لباس و پوشاک ، تفریح و تعیش ، رقص و موسیقی ، مصوری و خطاطی اور اردو زبان و ادب کے لیے پوری دنیا میں اپنی ایک الگ شناخت رکھتا ہے ۔ ابتدا میں یہ اودھ دربار ہی کا ایک حصہ ہو ا کرتا تھا۔ بعد میں فیض آباد سے اودھ کا دربار لکھنؤ منتقل ہوگیا۔ لکھنؤ کی تعمیر و ترقی میں شاہان ِ اودھ نے بڑی دلچسپی لی اور پورے خلوص سے اسے سجایا سنوارا ، یہی وجہ ہے کہ لکھنؤ دربار کے لُٹ جانے کے باوجود پون صدی تک اس تہذیب کی تابانی قائم رہی ۔ مرزا جعفر حسین لکھتے ہیں :

 ’’ لکھنؤ کی تہذیب اپنی جگہ پر ایک ایسی حسین و جمیل اور پُر کیف دنیا تھی جس کو شاہان ِ اودھ کے دور ِاقتدار میں بسایا اور آباد کیا گیا تھا ۔ ان حکمرانوں نے اس کی بنیاد کچھ ایسی ہنر مندی اور اتنے خلوص و انہماک سے رکھی تھی کہ انتزاع ِ سلطنت کے تخمیناً اسی برس بعد تک اس کے آثار موجود تھے ‘‘ ۔ (قدیم لکھنؤ کی آخری بہار ، مرزا جعفر حسین ، قومی کونسل برائے فروغ ِ اردو زبان ، نئی دہلی ( 1998) دوسرا ایڈیشن، ص:8)

 لکھنؤ کی وہ خاص تہذیب جس میں تصنع و تکلف اور تعیش وتفریح کا عنصر حاوی ہے ۔ بہت سے دانشوران نے اس تہذیب کو منفی زاویے سے دیکھا ہے اور اسے زوال پذیر تہذیب بتایا ہے اور اس کے اسباب و عوامل بھی بیان کیے ہیں،اور دیگر کئی حضرات نے اس سے مثبت اور تعمیری عناصر بھی نکالے ہیں۔ اسے ہندوستان کی نو آبادیاتی کلچر کے تناظر میں بھی دیکھا جا سکتا ہے اس لیے کہ انگریز نے بھی ہندوستان میں بہت سی چیزوں کا آغاز اپنی تجارت کو آگے بڑھانے کی غرض سے کیا تھا لیکن بعد میں وہی چیزیں ہندوستانیوں کی ضرورت بن گئی اور ملک کو اس سے فائدہ پہنچا ۔ ریل گاڑی کی مثال ہمارے سامنے ہے ۔ ٹھیک اسی طرح شاہان اودھ نے جب اپنی تفریح کے لیے مختلف چیزیں ایجاد کیں ، خاص طور سے لباس و پوشاک ، رقص و سرود اور زبان و ادب کی ایک نئی روایت کی بنیاد دالی تو یقینا یہ سامان ِ تعیش ان کے زوال کا باعث ہوئیں اور شاہانِ اودھ کی اصل زندگی کی حرارت میں بھی کمی آئی؛ تاہم تفریح تفریح ہی میں بہت سی چیزوں کو فن کا درجہ حاصل ہو گیا۔ ضمناً تفریح کے یہ وسائل صنعت کی شکل اختیار کر گئے اور بہت سے لوگوں کے لیے معاش کا ذریعہ بھی بنے ۔

 سر ِ دست اس مضمون میں لکھنؤ دربار کے جملہ ذرائع ِ تفریح میں درندوں ، چو پایوں اور پرندوں کی معرکہ آرائیاں موضوع ِ بحث ہیں۔ یہاں شیروں اور بُٹیروں کی لڑائیاں دکھانا مقصود نہیں ؛ یہاں معرکہ ٔ حیوانات کے زیرِ اثر اس تفریحی عناصر کو اجاگر کرنا ہے جس میں لکھنؤ کی حذاقت اور استاذی شہرہ ٔ آفاق ہے اوریہی چیزیں لکھنؤ کلچر کی شناخت بھی۔

 بطور ِ تفریح جانوروں اور چوپایوں کی لڑائی کی روایت بہت قدیم ہے ،رومیوں میں یہ ذوق پایا جاتا تھا ۔اہل ِ یوروپ کے زیر ِ اثر ہندوستان میں اس کا آغاز لکھنؤ سے ہوا ، لکھنؤ نے اس سلسلے کو استحکام بخشا اور کچھ ایسی نئی چیزوں کا اضافہ کیا جو لکھنؤ ہی کے ساتھ خاص ہے ۔ درندوں اور چوپایوں میں شیر ، چیتے ، تیندوے ، گینڈے ، ہاتھی ، اونٹ ، گھوڑے ، مینڈھے اور بارہ سنگھے جیسے جانوروں کو لکھنؤ دربار میں کبھی تو باہم لڑا یا جاتا تھا اور کبھی مخالف جنسوں سے ۔ مولانا عبد الحلیم شرر لکھتے ہیں :

 ’’ درندوں کے لڑانے کا مذاق قدیم ہندوستان میں کہیں یا کبھی نہیں سنا گیا تھا ۔ یہ اصلی مذاق پرانے رومیوں کا تھا جہاں انسان اور درندے کبھی باہم اور کبھی ایک دوسرے سے لڑائے جاتے تھے ۔ مسیحیت کے عروج پاتے ہی وہاں بھی یہ مذاق چھوٹ گیا تھا مگر اب تک اسپین میں اور بعض دیگر ممالک ِ یورپ میں وحشی سانڈ باہم اور کبھی کبھی انسانوں سے لڑائے جاتے ہیں ۔ لکھنؤ میں غازی الدین حیدر بادشاہ کو غالبا ً ان کے یورپین دوستوں نے درندوں کی لڑائی دیکھنے کا شوق دلایا ، بادشاہ فوراً آمادہ ہو گئے ‘‘ ۔ ( گذشتہ لکھنؤ ، عبد الحلیم شرر لکھنوی ، مکتبہ جامعہ لمٹیڈ ، نئی دہلی (2011)ص : 194)

 یہ سلسلہ غازی الدین حیدر کے عہد (1814-1827) تک بڑی شان و شوکت سے جاری رہا ۔ بادشاہ نے اس خوب صورت مشغلے کے لیے موتی محل کے پاس دو نئی کوٹھیاں تعمیر کرائیں ، ایک مبارک منزل دوسری شاہ منزل ۔ ٹھیک اسی کے بالمقابل دریا کے دوسرے کنارے پر ایک وسیع و عریض سبزہ زار خطے کو منظم کیا گیا تھا ، اس میں جانوروں کے الگ الگ کٹھرے تیار کرائے گئے تھے اور اسی میں جانوروں کے لڑنے کا میدان بھی ہموار کیا گیا تھا ۔ شاہ منزل سے بادشاہ جانوروں کی خوں ریز لڑائیوں کو دیکھ کر لطف اندوز ہوتا تھا ۔(ایضاً ، ص : 194)آج کے تناظر میں میدان اور کوٹھیوں کے مجموعے کو اس زمانے کا اسٹیڈیم کہہ سکتے ہیں اور ایک طرح سے اس میدان کو چڑیا گھر بھی سمجھا جا سکتا ہے ۔ آج یہی میدان نشاط گنج کہلاتا ہے ۔ ((قدیم لکھنؤ کی آخری بہار ، ص : 146)

 جانوروں اور چوپایوں کی لڑائیاں تین طرح سے ہوتی تھیں۔ اول تو ہم جنس جانوروں کو باہم لڑایا جاتا تھا اور کبھی غیر جنس کو ایک دوسرے سے لڑایا جاتا اور کبھی درندوں ہی میں شیر کو تیندوے اور چیتے سے بھی لڑا دیا جاتا ۔ اسی طرح کبھی ہاتھی کو ہاتھی سے ، مینڈھے کو مینڈھے اور کبھی گھوڑے کو بھنسے اور ہاتھی کو گینڈے سے بھی بھڑا دیا جاتا۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ آزمائشوں سے بے چارے شیر کو گزرنا پڑتا ، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاہان ِ اودھ نے اپنی ذمہ داری جنگل کے بادشاہ کے کاندھے ڈال دی تھی اس لیے شیر کو کبھی شیر سے ، کبھی چیتے ، تیندوے ، ہاتھی اور کبھی گینڈے اور گھوڑے سے لڑایا جاتا لیکن لطف کی بات یہ ہے کہ وہ اول الذکر چاروںسے شکست کھانے کے ساتھ ساتھ گھوڑے سے بھی ہار جاتا ۔ جنگل کے اس بادشاہ کی شکست خوردگی کا عالم بھی وہی تھا جو لکھنؤ کے شاہوں کا تھا ۔

 اسی طرح کبھی گھوڑے کو بھینسے سے ، ہاتھی کو گینڈے سے اور گینڈے کو ہاتھی ، شیر اور تیندوے سے بھی لڑا دیا جاتا ۔ ہاں اونٹ ، بارہ سنگھا اور مینڈھے کو مخالف جنسوں سے نہیں لڑایا جاتا تھا ۔ اس خوں ریز مقابلے میں بسا اوقات جانور زخمی ہو کر موت کے گھاٹ اتار دیاجاتا اور کبھی سخت زخمی ہوجاتا ، ان میں سب سے مضبوط گینڈا واقع ہوا تھا ، اس پر بمشکل ہی کوئی غالب آپاتا ، ہاتھی تک کو وہ اپنے ناکی سینگ سے پھاڑ ڈالتا اور شیر بھی اس سے پناہ مانگتے تھے ۔ ان میں سب سے سیدھا اونٹ اور سب سے نازک بارہ سنگھا ہوا کرتے تھے ۔

 اس حیوانی معرکے میں جانوروں کو لڑائیوں پہ اکسانا بھی ایک آرٹ تھا اور سخت خوں ریزی کے وقت انھیں کنٹرول کرنا اور ان پہ قابو پانا بھی الگ فن تھا ۔ آخر الذکر مرحلہ انتہائی دشوار گزار ہوتا ، مہارتیوں اور استادوں کو جان جوکھم میں ڈال کر اس خطرناک صورت ِ حال پر قابو کرنا پڑتا ۔ اس فن میں اہل ِ لکھنؤ اس قدر مہارت رکھتے تھے کہ یورپین سیاحوں نے بھی ان کے فن کا لوہا مانا ہے ۔ مولانا شرر رقم طراز ہیں :

 ’’ یہاں کے لوگ اس خوف ناک کام میں اس قدر ہوشیار ہو گئے تھے کہ اس وقت جو یورپین سیاح دربار میں موجود تھے خود اپنی تحریروں میں اقرار کرتے ہیں کہ وحشی جانوروں کے پالنے ، سدھانے اور ان کی داشت اور سنبھال کرنے والے آدمی لکھنؤ سے بہتر دنیا بھر میں کہیں نہیں ہیں ۔ یہی لوگ ہاتھیوں اور درندوں کو لا کے چھوڑتے ، ان کو اپنے بس میں رکھتے ، ان کے ہارتے وقت غالب و مغلوب دونوں درندوں کو اپنے قابو میں کرتے ۔ اس کام کے لیے سیکڑوں سانٹے مار اور بلم بردار مقرر تھے جو انھیں مارتے اور اپنے آپ کو ان کے حملوں سے بچاتے۔ لوہے کی دہکتی ہوئی سلاخوں اور آتش بازیوں سے ان کو جدھر چاہتے موڑتے اور جہاں چاہتے ہنکا لے جاتے ۔ شیروں اور تیندوئوں کو کٹھروں میں بند کرتے ۔ غرض ان لوگوں کی پھرتی ، چالاکی اور چلت پھرت اور ہوشیاری خود جانوروں کی لڑائی سے زیادہ دل چسپ اور حیرت انگیز تھی ‘‘ ۔ ( گزشتہ لکھنؤ ، ص: 195-194)

 جہاں تک پرندوں کی بات ہے تو اس سلسلے میں بھی لکھنؤ کا امتیاز و انفراد مشہور ِ عالم ہے ۔مرغ اور بٹیرکی لڑائی تو معروف ہے لیکن تیتر ، لَوے ، گُلدُم ، لال ، کبوتر اور توتے جیسے معصوم پرندوں کی باضابطہ معرکہ آرائی چشم ِ فلک نے لکھنؤسے پہلے شایدہی کہیں دیکھی ہو ۔اس مشغلے میں نوابوں کی دل چسپی کم اور عوام کی دل چسپی زیادہ تھی ، اس لیے کہ درندوں کی طرح چڑیوں کی معرکہ آرائی برپا کر نے کے لیے بہت زیادہ تام جھام کی ضرورت نہیںہوتی ، ایک کشادہ کمرہ یا صحن اس معرکے کے لیے کافی ہوتا تھا ۔

 ان میں مرغ اور بٹیر کے سوا بقیہ پرندے طبعی طور پر اس کھیل کے لیے موزوں نہ ہوتے لیکن اہل لکھنؤ انھیں بھی تختہ ٔ مشق بناکے رہے ۔ تیتروں کو جوش ِ مقابلے لیے دیمک کھلائی جاتی ، لوئوں کو غصہ دلانے کے لیے ان کے مادوں کا پنجرہ سامنے رکھ دیا جاتا اور گل دم کو دانوں کے ذریعے لڑایا جاتا ۔ لال اور توتے کو لڑانا تو بہت ہی مشکل کام تھا اس لیے کہ پنجرے سے باہر ان دونوں پر قابو پانا تقریباً نا ممکن تھا تاہم لکھنؤ کے اہل کمال نے ان پہ بھی قابو پالیا تھا ۔ گزشتہ لکھنؤ میں لکھا ہے : ’’ میر صاحب موصوف نے خدا جانے کس تدبیر سے ان کی فطرت بدل دی تھی کہ دس بارہ توتوں کی ٹکڑی اڑاتے اور مجال کیا کہ وہ سیٹی بجاکے ’’ آ ‘‘ کریں اور وہ آسمان سے اتر کے سیدھے پنجرے میں نہ چلے آئیں ‘‘ ۔ (ایضاً ، ص : 218)

 ان پرندوں میں مرغوں اور بٹیروں کی معرکہ آرائی خصوصیت کے ساتھ قابل ِ ذکر ہیں ۔ یہاں درندوں کی طرح جنس مخالف سے مقابلہ نہیں ہوتا تھا ، مرغ کو مرغ ہی سے لڑایا جاتا اور بٹیر کو بٹیر سے ۔ان دونوں پرندوں کی لڑائی کی روایت بھی قدیم زمانے سے چلی آرہی ہے لیکن لکھنؤ نے اس فن کو مزید صیقل کیااور اس سلسلے میں بھی اپنی ایک الگ پہچان بنائی ۔

 مرغ کی بھی ایک سے زائد نسلیں ہوتیں لیکن سب سے اعلیٰ نسل ’ اصیل ‘ کہلاتی تھی اور اس پرندے کی خوبی یہ ہے کہ لڑنے میںدیگر جانوروں کی بنسبت اس قدر جری ہوتا ہے کہ مر جائے لیکن پیچھے نہ ہٹے ۔ مرغ باز مرغوں کو عجیب و غریب انداز میں سدھاتے اور لڑائی سے پہلے انتہائی اہتمام سے اس کی تیاری کرائی جاتی ، مخصوص آوازوں اور لفظوں کے ذریعے انھیں پینترے سکھائے جاتے اور میدان ِ مقابلہ میں اتارنے کا بھی ایک الگ ہی فن ہوتا ، مرغ بازوں کی کوشش یہ ہوتی کہ ان کا مرغ پہلے حملہ آور ہو ۔لڑائی کے دوران میں اگر مرغ زخمی ہوجاتے تو باتفاق ِ فریقین انھیں اٹھا لیا جاتا ۔ شرر لکھتے ہیں :

 ’’ یہ اٹھا لینا ، مرغ بازی کی اصطلاح میں ’ پانی ‘ کہلاتا ہے ۔ اس وقت مرغ باز ان کے زخمی سروں کو پونچھتے ، ان پر پانی کی پھہاریں دیتے ، زخموں کو اپنے منہ سے چوستے اور ایسی ایسی تدبیریں کرتے کہ چند منٹ کے اندر مرغوں میں پھر نیا جوش پیدا ہوجاتا اور تازہ دم ہوکے دوبارہ پالی میں چھوڑے جاتے ‘‘ ۔

(ایضاً ، ص : 206)

 اس طرح اس معرکے کا سلسلہ آٹھ آٹھ دنوں تک جاری رہتا اتنے ایک مرغ ادھ مرا نہ ہو جاتا شکست و فتح کا اعلان نہ ہوتا ۔مولانا شرر نے مرغوں کے سدھانے کا بڑا عمدہ نقشہ کھینچا ہے ۔ لکھتے ہیں :

 ’’ لڑائی کے لیے مرغوں کی تیاری میں مرغ باز کے کمالات ، غذا اور داشت کے علاوہ اعضاء کی مالش ، پھوئی یعنی پانی کی پھُہار دینے ، چونچ اور خار بنانے یا خار کے باندھنے اور کوفت کے مٹانے میں نظر آتے ہیں۔ اس اندیشے سے کہ زمین پر دانہ چگنے میں چونچ کو نقصان نہ پہنچ جائے ، اکثر انھیں دانہ ہاتھ پر کھلایا جاتا ہے ‘‘ ۔

(ایضاً ، ص : 207)

 پرندوں میں بٹیر کی لڑائی سب سے دل چسپ ہوتی ۔ اس کی بھی دو قسمیں تھیں ایک گھاگس اور دوسری چننگ ۔ چننگ گھاگس سے قدرے چھوٹا اور نازک ہوتا اور زیادہ دل کش مقابلہ اسی کا ہوتا ، اس کا معرکہ ایک کمرے ہی میں ہوجاتا اس لیے اہل لکھنؤ کی تفریح کے لیے یہ بڑا دل چسپ مشغلہ تھا ۔

 بٹیروں کی تربیت کے بھی تین مرحلے ہوا کرتے تھے ۔ پہلا مرحلہ ابتدائی یعنی اگر بٹیر ابتدا میں جیت حاصل کر لیتا اور اس کے نئے پر نکل آتے تو اگلے سال یہ دوسرے درجے پر پہنچ جاتا جسے ’نوکار‘ کہا جاتا اسی طرح یہ سال بھی فتحیابی کے ساتھ گزر جاتا تو اب تیسرے سال ’ کریز ‘ کا اعلی منصب اسے حاصل ہوجاتا۔ اکثر بٹیر باز اسی اعلی درجے والے بٹیر کو کام میں لاتے ۔

 بٹیر کی لڑائی بھی تقریباً مرغ جیسی ہی ہوتی البتہ بٹیر مرغ کی طرح کئی دنوں تک لڑائی کی سکت نہیں رکھتا ؛ اس کی لڑائی پندرہ بیس منٹ اور آدھے گھنٹے ہی میں نمٹ جاتی ۔ بٹیر کے سدھانے کا طریقہ بھی بڑا اچھوتا تھا ۔ مولانا شرر نے لکھا ہے :

 ’’ اس کا کھیل یوں ہے کہ پہلے موٹھ یعنی پانی میں بھگو بھگو کے گھنٹوں ہاتھوں میں دبائے رہنے سے اس کی وحشت دور ہوجاتی ہے یہاں تک کہ وہ بولنے اور چونچیں مارنے لگتا ہے ۔ اس کے بعد بھوک دے کے اور دست آور اجزا جن میں مصری بہت مخصوص ہے ، دے دے کے اس کا جسم درست کیا جاتا ہے ، پھر رات گئے یا آدھی رات کو ان کے کان میں چلا کے ’’ کو‘‘ کہا جاتا ہے ، جسے کوکنا کہتے ہیں ۔ غرض ان تدبیروں سے چربی چھنٹ جاتی ہے ، بھدا پن دور ہوجاتا ہے اور جسم نہایت ہی پھرتیلا اور قوی ہوجاتا ہے ۔ یہی بٹیر کی تیاری ہے ‘‘ ۔

(ایضاً ، ص : 209)

 بٹیروں میں جوش پیدا کرنے کے لیے کبھی کبھی انھیں نشہ آور گولیا ں بھی دی جاتیں اور اہل ہنر بڑی ہنر مندی سے بیکار سے بیکار اور بیمار سے بیمار بٹیر کو کام میں لے آتے ۔

 اس تفریحی مشغلے میں کئی چیزیں تو ایسی ہیں جو عمومی حیثیت کی حامل ہیں لیکن کچھ ایسی خصوصیات بھی ہیں جو لکھنؤ دربار کو دوسرے درباروں سے ممتاز کرتی ہیں ۔ ایک امتیاز تو یہ ہے کہ اہل لکھنؤ نے درندوں کو جنس ِ مخالف سے بھی لڑا دیا ، دوسری خصوصیت یہ ہے کہ مرغ و بٹیر کے علاوہ کئی ایسے معصوم پرندوں کو بھی لڑائی کے لیے سدھا لیا تھا جو طبعاً لڑائی کا مزاج نہیں رکھتے ۔ تیسری خوبی یہ ہے کہ اس زمانے میں اگر کسی دوسرے خطے میں کسی نواب یا رئیس کو اس طرح کا شوق چراتا تو ان کے لیے بھی استاذ لکھنؤ ہی سے تشریف لے جاتے تھے ۔

 درندوں اور چوپایوں کی لڑائیوں کا سلسلہ غازی الدین حیدر کے عہد (1814-1827)کے بعد تقریباً ختم ہو گیا ۔شاید بعد کے شاہان یا تو اس طرح کے با ذوق ثابت نہیں ہو پائے یا اس ذوق طرح کی نزاکتوں کا تحمل نہ کر سکے ۔

 اسی طرح پرندوں کی لڑائیوں کا تفریحی مشغلہ بھی لکھنؤ دربار کے انحطاط کے ساتھ ساتھ زوال پذیر ہو گیا ۔ مرغ بازی اور کبوتر بازی بعد کے زمانے میں بھی جاری رہی اور نوعیت کی تبدیلی کے ساتھ آج بھی بہت سے مقامات پریہ سلسلہ جاری ہے ۔

 ٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.