لوک ادب اوراس کی روایت

پروفیسر ابن کنول

 سابق صدر ، شعبہ اردو، دہلی یونی ورسٹی، دہلی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

           کسی بھی زبان کے لوک ادب کی تاریخ اس زبان کی تاریخ کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے، زبان کی ابتدائی شکل بولی کی صورت میں پہلے گلی کوچوں  میں وجود میں آتی ہے ،زبان عوام کی گود میں پل کر محلوں اور دیوان خانو ںمیں پہنچتی ہے خواص تک پہنچنے کے بعدزبان کی تشکیل میں عوامی کردار کو فراموش کردیا جاتا ہے یعنی زبان اپنی جڑوں کو نظر انداز کردیتی ہے۔ اردو کی ابتدا گلی کوچوں میں ہوئی ،کئی صدیوں تک اردو کے لوک ادب کو قابل توجہ ہی نہیں سمجھا گیاخواص نے اسی لیے اسے ریختہ کا نام بھی دیا،حد تویہ ہے کہ اٹھارہویں صدی کے عوامی شاعرنظیر اکبرآبادی کی  شاعری کو بھی قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا گیا دراصل سن  بلوغ کوپہنچنے کے بعد اردو  شہروں تک محدود ہوگئی جبکہ حقیقت  یہ ہے کہ اردو میں لوک ادب کی روایت آج بھی بہت مضبوط ہے۔

فنون لطیفہ کی بیشتراصناف کی تعریف جس طرح ایک جملے میں کرنا مشکل ہے اسی طرح ادب کی بھی کوئی متعین تعریف بیان کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ بعض مغربی ناقدین نے ادب کو ’لطف اندوزی‘ کا ذریعہ بتایا ہے اور بعض اسے منطقی تنقید اور خشک سائنٹفک اصولوں پر رکھتے ہیں۔ ادب کی تعریف کے بیان میں ان دونوں نظریات کو بیان تو کیا جاسکتا ہے لیکن ان پر بس نہیں کیا جاسکتا۔ ادب در اصل زندگی کی تصویر کو پیش کرتا ہے اور زندگی پر لطف بھی ہے اور خشک بھی۔ اس لیے محض یہ کہہ دینا کہ لطف اندوزی ادب کا بنیادی مقصد ہے، مناسب نہیں معلوم ہوتا۔ اردو کے ایک ناقد نے ادب کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھا ہے :

 ’’ادب اس تحریر کو کہتے ہیں جس میں روز مرہ کے خیالات سے بہتر خیالات اور روز مرہ کی زبان سے بہتر زبان کا اظہار ہوتا ہے۔ ادب انسانی تجربات کا نچوڑ پیش کرتا ہے۔‘‘ (ادب کا مطالعہ، ص30)

اس تعریف میں تحریر کا لفظ ادب کو محدود کردیتا ہے کیونکہ ادب کا ایک بڑا حصہ ایسا بھی ہے جو صدیوں سے سینہ بہ سینہ محفوظ چلا آرہا ہے اورجس کا کوئی حصہ تحریری شکل میں نہیں ملتا۔ اگر ہم تحریر کی پابندی لگائیں گے تو ہمیں ہزاروں کہانیوں اور گیتوں کو ادب سے خارج کرنا ہوگا۔ یہ بات بھی کچھ مناسب نہیں معلوم ہوتی کہ روز مرہ کے خیالات سے بہتر خیالات اور روز مرہ کی زبان سے بہتر زبان کا ہونا ادب کے لیے لازم ہے۔ اگر ایسا ہوگا تو ادب ایک محدود طبقہ کی عکاسی کرے گا اور محدود طبقہ کے لیے محدود ہوجائے گا۔ ادب تو زندگی کی لامحدود تصویر ہے جس میں ہر طبقے اور ہر فرد کو اپنی شکل دکھائی دیتی ہے۔

جس طرح زندگی مختلف طبقوں میں بٹی ہوئی ہے، ادب کو بھی تقسیم کرنا ہوگا۔ ایک وہ ادب جو تحریری شکل میں ملتا ہے اور ایک خاص طبقہ میں پڑھا جاتا ہے یعنی خواص کا ادب۔ جسے ادبِ عالیہ کہاجاتاہے۔ دوسرا ادب کا وہ حصہ ہے جو لوگوں کے سینوں میں محفوظ ہے اور جس کی کوئی تحریری شکل نہیں۔ یہ ادب عوام کے دلوں میں پروان چڑھتاہے، عام اور بڑا طبقہ اس سے محظوظ ہوتا ہے، اسے عوامی یا لوک ادب کہتے ہیں۔ اکثر ادبِ عالیہ کی مقبولیت ایک خاص ماحول اور عہد تک باقی رہتی ہے۔ لیکن عوامی یا لوک ادب ہر ماحول اور ہر زمانہ میں مقبول رہتا ہے۔ عوامی ادب کی ایک پہچان یہ بھی ہے کہ ادبِ عالیہ کی طرح یہ کسی مصنف یا شاعر کے نام سے منسوب نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا کوئی ایک مصنف نہیں ہوتا اور ہوتا بھی ہے تو وہ کہیں کھوجاتا ہے کیونکہ اس کا نام پکّی سیاہی سے نہیں چھپتا اور پھر ہر طبقہ اسے اپنے رنگ اور انداز میں ڈھال کر پیش کرتا ہے۔ دادی یا نانی جب بچے کو چڑیا چڑے یا پریوں کی کہانی سناتی ہیں تو یہ نہیں کہتیں کہ اس کا خالق فلاں شخص ہے یا مختلف تقریبات میں ڈھولک کی تھاپ پر جب گیت گائے جاتے ہیں تو یہ نہیں بتایا جاتا کہ گیت کا ر کون ہے یا کس زمانے اور شہر کا رہنے والا ہے۔ اس نہ بتانے کی وجہ یہ ہے کہ سنانے یا گانے والا خود نہیں جانتا ہے کہ یہ کس کی تخلیق ہے، اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ہر کہانی سنانے اور گیت گانے والا خود اس کا خالق ہے کیونکہ وہ اپنی مرضی سے ماحول کے مطابق اس میں تبدیلی بھی کرلیتا ہے۔ پروفیسر محمد حسن نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ :

’’عوامی ادب اجنتا اور اہرامِ مصر ہے جس کے تخلیق کار گم نام ہیں اور جن کی فنی وجاہت اہل نظر سے خراج وصول کرتی ہے اور یہ ادب اتنا اہم ہے کہ اسے ادب کی بنیاد کہا جائے تو بے بنیاد نہ ہوگا۔‘‘ (اردو میں لوک ادب ۔ص ۲۴)

بہر حال ادب عالیہ ہو یا عوامی- یہ انسانی تجربات اور تجربات سے پیدا ہونے والے احساسات کا آئینہ دار ہے۔ اور یہ بات بڑے یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ انسانی جذبات کا جس فراخدلی سے بیان لوک ادب میں ہوتا ہے وہ ادب اشرافیہ میں نظر نہیں آتا۔ لوک ادب کے موضوعات کو بیان کرتے ہوئے پروفیسر قمر رئیس نے لکھا ہے کہ:

’’لوک ادب المیہ اور حُزنیہ بھی ہوتا ہے اور طربیہ بھی۔ یہ عوام کی ذہانت کا تخلیقی اظہار بھی ہوتا ہے اور ان کی تفریح و تفنن کا ذریعہ بھی – اس میں ہنسی، مذاق، ٹھٹھولی، طنز و تعریض، مذہبی عقیدت، دشمنوں سے نفرت، وطن دوستی، مظاہر فطرت سے محبت، جنسی جبلّت، الغرض ہر طرح کے جذبات و احساسات اور واردات کا اظہار ہوتا ہے۔ (اردو میں لوک ادب، ص  ۷)

لوک ادب کی روایت انسان کی تاریخ کی طرح قدیم ہے۔ جب کسی ماں نے پہلی بار اپنے بچے کو سلانے کے لیے کچھ گاکر سنا یا جب کسی نے دل بہلانے اور لوگوں کو سنانے کے لیے کوئی قصہ گڑھا تو لوک ادب کا آغاز ہوا۔ قدیم دیؤوں اور پریوں کی داستیانیں، قصے ، حکایتیں، پنج تنتر کی کہانیاں، موسموں کے گیت، لوریاں، شادی بیاہ اور دوسری تقریبات میں گائے جانے والے گیت جو سینہ بہ سینہ چلے آرہے ہیں جو باقاعدہ تحریری شکل میں نہیں ملتے، جن کا کوئی ایک فرد خالق نہیں، بلکہ پورے معاشرے نے جنہیں جنم دیا، سب لوک یا عوامی ادب کی مختلف اصناف ہیں۔

بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ اردو میں لوک ادب ناپید ہے ، تعجب ہے کہ اس طرح کے دعوے لوگ کس بنیاد پر کردیتے ہیں۔ شاید ان کی تنگ نظری علم اس کی وجہ ہوسکتی ہے۔ زبانیں کتابی ادب سے زندہ نہیں رہتیں بلکہ عوامی ادب انھیں زندہ رکھتا ہے جو کتابوں میں نہیں ملتا۔ ہندوستانی تہذیب جس طرح کئی تہذیب کا مجموعہ ہے، اسی طرح اردو زبان بھی کئی زبانوں کے اشتراک کا نتیجہ ہے۔ شمالی ہند میں جو علاقہ ہندی کا ہے وہی اردو کا بھی ہے۔ اسی علاقائی اشتراک کے سبب دونوں زبانوں کی تہذیب بھی مشترک ہے۔ امیر خسرو سے منسوب جو گیت اردو سماج میں مقبول ہیں وہی ہندی تہذییب بھی اپنائے ہوئے ہیں۔ جو قصے کہانیاں، لوریاں، شادی بیاہ کے گیت ہندی عوام میں سنائے اور گائے جاتے ہیں وہی تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ اردو عوام میں موجود ہیں۔ مثلاً بچہ کی پیدائش پر گایا جانے والا یہ گیت:

آج پیدا ہوئے نند لال               برج میں دھوم مچی

یا اس طرح کی لوریاں:

چندا ماما دور کے                  بڑے  پکائیں بور کے

آپ کھائیں تھالی میں               منّے کو دیں پیالی میں

پیالی گئی- ٹوٹ                      منّا گیا – روٹھ

پیالی آئی –  اور                      منّا آیا دوڑ

——–

سوجا سوجا میرے راج دُلارے سوجا

سوجا سوجا میرے راج دُلارے سوجا

نندیاری نندیاری — آبھی جا

میرے راجا کی انکھین میں گھل مل جا

——–

للّا للّا لوری            دودھ کی کٹوری

دودھ میں بتاشا        منّا کرے تماشا

 یا جب بچہ کھیلنا شروع کرتا ہے تو اس طرح کے کھیل کھیلتا ہے:

اکّڑ بکّڑ بمبے بو    اسّی نوّے پورے سو

سو میں لگاتاگا        چور نکل کے بھاگا

یہ اس مشترکہ تہذیب کا لوک ادب ہے جس میں ہندی اور اردو، ہندو اور مسلمان کو الگ الگ کرکے نہیں دیکھا جاتا۔ اردو کا لوک ادب دوسری علاقائی زبانوں اور بولیوں سے بھی متاثر ہے۔ کہیں کھڑی بولی کا رنگ ہے تو کہیں اودھی کا۔ کسی جگہ بھوجپوری اور برج کا اثر دکھائی دیتا ہے تو بعض جگہ پنجابی اور ہریانوی کا۔ اپنے اپنے مزاج اور لہجہ کے مطابق لوک گیتوں کو ڈھال لیتے ہیں۔ دیہات اور شہر کے گیتوں میں بھی کچھ فرق دکھائی دیتا ہے۔ آجکل شہروں کے لوک گیتوں میں فلمی انداز در آیا ہے بلکہ مختلف تقریبات میں فلمی گیت گائے جانے لگے ہیں۔ مثلاً:

بھیگا بھیگا ہے سماں              ایسے میں ہے تو کہاں

ٹیکا لایاہوں تجھے  جھومر لایا ہوں تجھے

جھومر کی جھلک دکھلاجا                     کالج کے بہانے آجا

——–

میری پیاری بہنیاں                  بنے گی دلہنیاں

سج کے آئیں گے دلہے راجا  بھیا بجائے گا باجا

ایک طرف عورتوں نے بعض فلمی گیتوں کو اپنے انداز پر ڈھال لیا تو دوسری جانب لوک گیتوں کی مقبولیت اس قدر بڑھی کہ فلم والوں نے انھیں فلموں کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا مثلاً:

جھوٹ بولے کوّا کاٹے           کالے کوّے سے ڈریو

میں میکے چلی جاؤں گی      تم دیکھتے رہیو

——–

جو میں ہوتی راجا بَن کی کوئلیا            کہک رہتی راجا تورے بنگلے میں

نجرلاگی راجا تورے بنگلے میں

جو میں ہوتی راجا بیلا چمیلیا                چٹک رہتی راجا تورے بنگلے میں

نجر لاگی راجا تورے بنگلے میں

——–

رنگ برسے بھیگی چُنر والی رنگ برسے

لونگ الائچی کا بیڑا لگائے                   کھائے گوری کا یار – بلم ترسے – رنگ برسے

——–

ہم دونوں کی تکرار میں جھمکا گرا رے

بریلی کے بجار میں جھُمکا گرا رے

——–

تیری دو ٹکیا کی نوکری                        مرا لاکھوں کا ساون جائے

(تیری دو ٹکیاں دی نوکری   تے میرے لاکھوں دا ساون جائے)

——–

اس طرح کے بے شمار لوک گیت فلمی دھنوں پر بجنے لگے ہیں۔

لوک گیتوں کی شرکت اور مقبولیت زندگی کے ہر شعبہ میں رہتی ہے۔ سیاسی، سماجی اور مذہبی ہر طرح کے معاملات میں لوک ادب یا گیتوں کا دخل رہا ہے۔ اس ادب کے ذریعہ عوام نے اپنی خوشیوں اور دکھوں کا اظہار کیا ہے۔ مغل بادشاہ اورنگ زیب دکن میں بر سرپیکار تھا اور اس کے ساتھ شمالی ہند کے ہزاروں سپاہی تھے۔ اس وقت دلّی کی عورتیں اپنے شوہروں کو یاد کرکے اپنے دکھ کو اس طرح بیان کرتی تھیں:

دلّی سہر سہاونا اور کنچن برسے نیر                    سب کے کنٹھ بٹور کے لیے گیے عالمگیر

بیٹھی رہو کرار سے من میں لاکھوں دھیر           اب کے بچھڑے تب ملے جب بہوریں عالمگیر

بنتی کرو اس سائیں سے کہ بہوریں عالمگیر

1857  اور اس عہد کے انگریزوں کے مظالم پر بے شمار لوک گیت مقبول ہوئے جو اس عہد کے سیاسی اور سماجی حالات پر روشنی ڈالتے ہیں۔ مثلاً:

چار ٹکے پر نوکر رکھ کے   دین ایمان مٹاویں

دانتوں سے کرتوس توڑواویں               چربی سور کھلاویں

چار ٹکے پر نوکر رکھ کے   دین ایمان مٹاویں

بھوسا گھاس بیچ بیچ کے        بن گئے شاہ فرنگی

بن گئے شاہ فرنگی بھائی!     دیکھ وقت کی بلیہاری

محلوں کی رہنے والی                            پھریں بزار بچاری

چار ٹکے پر نوکر رکھ کے   دین ایمان مٹاویں

گورے بندر تن تن کے           سہزادوں کو ناچ نچاویں

چار ٹکے پر نوکر رکھ کے   دین ایمان مٹاویں

سماج میں ایک انسان کی حیثیت پیدائش کے وقت سے شروع ہوجاتی ہے اور موت تک باقی رہتی ہے۔ پیدائش اور موت کے اس درمیانی عرصہ میں بے شمار گیت اور کہانیاں زندگی کے ساتھ جڑی رہتی ہیں۔ بچہ کی جب ولادت ہوتی ہے تو خوشی کے گیت گائے جاتے ہیں۔ جب بچہ ذرا بڑا ہوجاتا ہے تو اسے کہانیاں اور لوریاں سنائی جاتی ہیں۔ پھر شادی پر طرح طرح کے گیت گائے جاتے ہیں۔ ان کے علاوہ زندگی میں اس طرح کے بہت سے مواقع آتے ہیں جن میں اپنی خوشی یا غمی کا اظہار لوک گیتوں کے ذریعہ کیا جاتا ہے۔

عوامی ادب کے ضمن میں  داستانیںسوانگ، نوٹنکی، چار بیت، بارہ ماسے، میلاد نامے، شہادت نامے کے علاوہ پہیلیوں، محاوروں اور کہاوتوں وغیرہ کا بھی ذکر آئے گا۔ہم اردو  والوںنے بعض بڑے شہروں کی زبان کو ہی معیار بنایا، جس کی وجہ سے ہم عوامی  سرمایہ سے محروم  ہوگئے جس نے عوام کے درمیان فروغ پایا۔ واقعہ یہ ہے کہ زبانیں عوام کے بیچ فروغ پاتی ہیں اور عوام کی وجہ  سے زندہ رہتی ہیں، جوزبانیںاپنے اطراف حصار قائم کرلیتی ہیں وہ ایک دن ختم ہوجاتی ہیں۔ آج اردو اس لیے زندہ ہے کہ اس کا رشتہ عوام سے بہت گہرا ہے اور اس کا عوامی ادب  ہندستان کی تہذیب کا حصہ بن گیا ہے۔ہندستانی فلموں کی زبان اس لیے اردو ہے کہ یہاں کے گزشتہ صدیوں کے لوک ناٹکوں کی زبان اردو تھی۔سوانگ منڈلیوں کی جدید شکل مغربی اثرات سے تھیٹرکی صورت میں سامنے آئی، اورتھیٹر ہی نے فلم کو جنم دیا۔وہی اداکاراور وہی انداز جو سوانگ ،نوٹنکی اور تھیٹرکے کلاکاروں میں تھا  پردے پر دکھائی دینے لگا پیش کش کے طریقے بدلتے رہے لیکن زبان وہی رہی جوعوام کی پسند تھی یا عوام میں مقبول تھی۔بلاشبہ یہ حقیقت ہے کہ اردو کے فروغ میں لوک اصناف ادب نے اہم کردار ادا کیاہے اورآج بھی کررہی ہیں بس ذرا اعتراف کرنے کی ضرورت ہے۔

٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.