دلّی کا درویشانہ ماحول اور دردؔکی شاعری

  ڈاکٹر احمد امتیاز

شعبۂ اردو، دہلی یونیورسٹی

Mob: 9899754685

Email: imteyaz.urdu@gmail.com

ہندوستان میں صوفیائے کرام کی آمد کا سلسلہ باضابطہ طور پر تیرہویں صدی عیسوی(ساتویں صدی ہجری) سے شروع ہوتا ہے۔ اگرچہ گیارہویں صدی عیسوی میں بھی بعض صوفیائے کرام کے آنے کی روایت موجود ہے۔ حضرت امام قشیریؒ کے’ رسالۂ قشیریہ‘ میں محمود غزنوی کے عہد میں حضرت عثمان علی ہجویریؒ کے لاہور آنے اور مستقل طور پر قیام پذیر ہونے کی اطلاع موجود ہے۔ عارف جامی نے بھی اپنی کتاب’نفحات الانس‘ میں محمود غزنوی کے حملوں کے زمانے میں خواجہ محمد چشتی اور دیگر درویشوں کے لاہور آنے کی بات رقم کی ہے۔ اِن صوفیائے کرام کی پیش قدی اور روحانی تصرفات سے ہندوستان کے بعض خطّوں میں مذہبِ اسلام کا پرچم بلند ہوا لیکن پنجاب سے آگے بڑھ کر پہلے پہل جس بزرگ نے تہذیبی آلائشوں کو اپنے انوارِ باطنی سے دور کیا وہ خواجہ معین الدین چشتی ؒتھے۔ جو مدینۂ منورہ سے سفر کرتے ہوئے پہلے دلّی تشریف لائے پھر اجمیر کا رخ کیا۔ دلّی سے اجمیر چلے جانے کے متعلق عبد الحلیم شرر نے اپنی کتاب’خواجہ معین الدین چشتی  ؒ ‘ میں لکھا ہے کہ

’’۔۔۔آپ کی بارگاہِ فیض میں اہلِ دہلی کا اِس قدر ہجوم ہوا کہ مجبوراََ آپ کو بہت ہی جلد دہلی چھوڑ کے اپنے اصلی مستقر یعنی شہر اجمیر کی طرف توجہ کرنی پڑی۔‘‘(ص۳۱)

حضرت معین الدین چشتی ؒ کے دلّی اور اجمیر میں قیام کے حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ آرنلڈ نے بھی اپنی کتاب “Preaching of Islamمیں درج کیا ہے(اردو ترجمہ):

’’ وہ دلّی جس پر اہل دلّی کا تصرف تھا اور کفر والحاد کی ہوا پوری فضا میں بکھری ہوئی تھی، حضرت خواجہ کے چند روزہ قیام میں سات سو سے زیادہ ہندو اُن کے فیض سے مشرف بہ اسلا م ہوئے اور اجمیر میں جو پہلی جماعت اُن کے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام ہوئی اُن میں راجہ کا پجاری اور گرو بھی تھا۔ (ص۲۸۱)

اُس زمانے میں اجمیر اور دلّی کا راجہ رائے پتھورا تھا۔ خواجہ معین الدین چشتی  ؒ کے فیوض و برکات سے دونوں شہرکی عوام متقی اور پرہیزگار بن رہی تھی لیکن یہاں رائے پتھورا کی اس رواداری کو بھی فراموش نہیں کیاجاسکتا کہ ایسے دور میں جبکہ ہندوستان پر غوریوں کے حملوں کا خطرہ منڈلا رہا تھا، ایک مسلمان درویش کو اجمیر میں قیام کرنے کی اجازت دی اور خواجہ اجمیری ؒ کی تبلیغی سرگرمیوں پر کسی قسم کا تعرّض نہیں کیا۔

دلّی کے درویشانہ ماحول کو قائم اور شمعِ ہدایت کو فروزاں کرنے والے بزرگوں میں حضرت قطب الدین بختیار کا کی ؒ اور حضرت نظام الدین اولیاؒ کا نام بھی بہت عزت سے لیا جاتا ہے۔ حضرت قطب الدین بختیار کا کی ؒ جس زمانے میں دلّی والوں کو رُشد و ہدایت اور فیوض و انوار سے مستفیض کر رہے تھے اُس زمانے میں وسط ایشیا میں منگولوں کا طوفان امنڈ رہا تھا۔اِسی سبب بہت سے بادشاہ، اُمراء ،مشائخ اور علماء، چنگیز خاں کے خوف سے اپنی ریاستوں اور علاقوں سے ہجرت کر کے دلّی کا رُخ کر رہے تھے۔چنانچہ اُس زمانے میں دلّی کی حیثیت بین الاقوامی شہر کی سی ہو گئی تھی۔بادشاہ التمش خود عبادت و اطاعت کا دلدادہ اور عجزو انکسار کا پیکر تھا۔جس کی نظر میں اولیاء کی بڑی قدر و منزلت تھی۔وہ حضرت قطب الدین بختیار کا کی ؒ سے بے حد محبت اور عقیدت رکھتا تھا۔ بادشاہ سے لے کر عوام تک کی اِسی عقیدت و محبت اور شہرت کو دیکھ کر شیخ نجم الدین صغریٰ  ؒکے سینے میں رقابت کی آگ بھی بھڑکی تھی ۔ میرخورد نے’سیرالاولیاء‘ میں لکھا ہے کہ

’’شیخ نجم الدین صغریٰ نے خواجہ معین الدین چشتی  ؒسے شکایت کی کہ تمہارے مرید نے میری شیخی ختم کردی۔ خواجہ معین نے فرمایا- اچھا میں قطب الدین کو اجمیر لے جاؤں گا۔ خواجہ غریب نواز جب بختیار کا کی  ؒ کو ساتھ لے کر دلّی سے اجمیر روانہ ہوئے تو شہر میں غل مچا۔ سب کی آنکھوں میں جہان تیرہ و تاریک ہوگیا۔ سلطان اور تمام شہر ہمراہ ہو کر پیچھے دوڑے۔آپ کے قدموں کی خاک چہروں سے ملتے اور روتے چلے جاتے تھے۔ جب خواجہ معین الدین چشتی  ؒ نے خلقِ دلّی کی یہ حالت دیکھی تو فرمایا- باباقطب الدین، جا دلّی میں رہ ، کیوں کہ یہ تمام دلّی تیرے جانے سے بہت رنجیدہ ہے ۔ اتنے دلوں کو دکھانا نہ چاہیئے۔ جا تجھ کو خدا کے سپرد کیا اور دلّی کو تیرے حفظ و امان میں چھوڑا۔‘‘(ص ۵۴)

حضرت نظام الدین اولیاء ؒ نے بھی دلّی کے حدود سے باہر تک اپنی روحانی تجلی اور اخلاقی بصیرت کو پھیلایا۔ حضرت نظام الدین نے بیعت کا دروازہ اور تبلیغ و تبشیر کا مدرسہ کھول رکھا تھا۔ گنہگاروں سے عہدِ تو بہ لے کر اُس کو مقامِ ولایت تک پہنچاتے اور خرقۂ خلافت سے سرفراز کرتے۔ ملک کا بچہ بچہ آپ کا گرویدہ تھا۔ سلطان علاؤالدین خلجی بھی آپ کا معتقد تھا۔ یہ آپ ہی کی شخصیت تھی جن کی وجہ سے ہندوستان کے ہزاروں تاریک دلوں کو آفتابِ عرفان ملاتھا ۔ علّامہ اقبال نے آپ کی شان میں دو نظمیں لکھی ہیں اور انھیں مسیح وخضر سے بھی اونچا مقام دے دیا ہے۔

تری لحد کی زیارت ہے زندگی دل کی

مسیح و خضر سے اونچا مقام ہے تیرا

حقیقتاََ یہ شعر خلافِ شرع اور مبالغہ آمیز ہے۔ صحابی کسی بھی انبیاء کے مقام کو نہیں پہنچ سکتے اور نہ ہی ولی اللہ یا صوفی کسی صحابی کے مرتبے کو پا سکتے ہیں۔ اِس لیے کسی صوفی کو انبیاء پر ترجیح دی ہی نہیں جاسکتی ۔تاہم میرا یہ خیال ہے کہ اقبالؔ کا یہ مبالغہ دلی عقیدت اور صحبت کا مبالغہ ہے لہٰذا اُن کے حق میں ہم یہی دعا کرسکتے ہیں کہ شریعت کے خلاف ہونے کے باوجود اللہ انہیں معاف کردے۔

حضرت نظام الدین اولیاءؒ کے بعد اُن کے خلیفہ حضرت نصیرالدین چراغ دلّی کی برکتوں سے دلّی میں درویشانہ ماحول قائم رہا۔ سلطان محمد شاہ عادل نے آپ کو حد سے زیادہ پریشان کیا لیکن آپ کے لب پر ایک حرفِ شکایت بھی نہ آیا۔ آپ نے صبر و استقلال اور توکل و استغناء کے دامن کو کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ دلّی کی روحانی دنیا اور صوفیانہ ماحول کی بھرپور سرپرستی کی اور ایک ایسی فضا تیار کردی جس کا اثر آج بھی قائم ہے۔

دلّی کے درویشانہ ماحول کو قائم دائم رکھنے والے بزرگوںمیں چشتیہ سلسلے کے بزرگوں کے علاوہ دیگر سلاسل مثلاََ قادریہ، سہروردیہ،فردوسیہ،نقشبندیہ وغیرہ کے بزرگوں نے بھی گراں قدر کردار ادا کیا۔دیگر سلاسل سے قطعِ نظر ہندوستان میں نقشبندی سلسلے کا آغاز عہدِ اکبری کی ابتداء میں حضرت خواجہ باقی باللہ سے جاری ہوا۔ اُن کے مریدین مثلاََ- حضرت مجدّد الفِ ثانی، شیخ احمد سرہندی، حضرت محمد معصوم عروۃ الوثقیٰ، خواجہ محمد زبیر، شاہ سعداللہ گلشن، مرزا مظہر جانِ جاناں، محمد ناصر عندلیب، خواجہ میر درد، حضرت شاہ ولی اللہ ، شاہ عبدالعزیز وغیرہ نے اِس سلسلے کو پورے ملک میں شہرت دلائی۔ یہ صوفیائے کرام پورے ملک میں مبلغِ اسلام اور مبلغِ انسانیت بن کر ابھرے اور توجہ، توکّل ،تزکیۂ نفس، فقر،توبہ ،شریعت، ذکر و فکر اور عرفانِ الٰہی کے دیگر موضوعات کا درس دے کر درویشانہ ماحول کو استحکام بخشا۔ دلّی اِن بزرگانِ دین کا بڑا مرکز تھی، جن کی موجودگی سے دلّی کی پوری فضا درویشانہ بن گئی تھی۔ دلّی کی اہمیت ہر زمانے میں رہی۔ دلّی کی زبان و ٹکسال ہی نہیں، یہاں کی تہذیب و ثقافت بھی دوسرے خطوں کے لیے قابلِ تقلید تھی۔اِس لیے اٹھارہویںصدی کے بیشتر شعراء کسی نہ کسی خانقاہ ، تکیوں اور دائروں سے وابستہ تھے۔ اردو شعراء کے تذکروں میں تفصیل سے اس وابستگی کی طرف اشارے ملتے ہیں۔ یہ خانقاہیں دراصل شاعروں کی پناہ گاہیں تھیں جو شاعروں کے لیے اطمینان اور سکونِ قلب کا ذریعہ بھی تھیں۔ یہ جائے مشقِ سخن بھی تھی جہاں شاعری پروان چڑھتی تھی۔ اِس دور میں شاہ تسلیم کے تکیے کی بڑی شہرت تھی۔ شاہ تسلیم ایک فقیر صفت شاعر تھے، جہاں شاہ حاتم،ؔ سعادت یار خاں رنگینؔ اور دیگر شعراء پابندی سے حاضر ہوا کرتے تھے۔’’آبِ حیات‘‘ میں محمد حسین آزاد نے اُن کے تکیے کے تعلق سے لکھا ہے کہ

’’چوں کہ اُن کا تکیہ ایک دل کشا اور بافضا مقام تھا اس لیے اکثر شعر و سخن کے شائق صبح و شام وہاںجاکر بیٹھا کرتے تھے۔ جو لوگ ملک کی سیاسی، معاشرتی اور اقتصادی حالات سے بے زار تھے وہ بھی تکیوں اور دائروں میں سکون تلاشی کے لیے آجایا کرتے تھے۔ جنہوںنے ترکِ روزگار کیا تھا وہ بھی یہاں سکون پاتے تھے۔ ‘‘(ص ۱۱۴ حاشیہ)

شاہ تسلیم کی طرح میربادل علی شاہ کا تکیہ بھی مشہور تھا۔ شاہ تسلیم کے تکیہ پر بیٹھنے سے پہلے شاہ حاتمؔ، علی شاہ ہی کے تکیہ پر بیٹھا کرتے تھے۔میربادل علی شاہ کے تکیہ کے قریب ہی قلندرانہ طبیعت والے میر محمد یار خاکسار کا تکیہ بھی تھا جہاں شعر و سخن کا ہنگامہ رہا کرتا تھا۔ یہ وہی میر محمد یار تھے جو عرفِ عام میں کَلّو کے نام سے مشہور تھے اور جنہوں نے میر تقی میرؔ کے تذکرہ’’نکات الشعراء‘‘ کے مقابلے میں ایک تذکرہ ’’معشوق چہل سالۂ خود‘‘ لکھا تھا اور اسی کی وجہ سے میرؔ کو اُن سے ذاتی پر خاش ہوگئی تھی۔ دلّی میں شاہ کاکل دہلوی کا بھی تکیہ تھا۔ جو تکیۂ کاکل سے مشہور تھا۔ یہاں بھی شہر کے شعراء حاضر ہوتے اور سخن سازی میں مصروف رہتے۔ اِس سلسلے میں مرزا مظہر جانِ جاناں کی خانقاہ کی بھی بڑی شہرت تھی جہاں رُشدو ہدایت کا سلسلہ رہتا ، مجلسیں ہوتیں اور شعر و شاعری پروان چڑھتی۔ شرف الدین مضمونؔ اور انعام اللہ خاں یقینؔ خصوصی طورپر یہاں حاضر ہوتے تھے۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ اٹھارہویں صدی کی دلّی میں یہ مذکورہ مسکن جہاں ایک طرف درویشانہ ماحول اور آدابِ درویشی سے سجے رہتے تھے وہیں دوسری طرف ان میں فنِ شاعری کو بھی فروغ ملتا تھا۔

اٹھارہویں صدی عیسوی کی دلّی وہ دلّی تھی جس نے حادثات کے اتنے خوفناک چہرے دیکھے تھے کہ مدّتوں حواس باختہ رہی۔ عروس البلاد کہلانے والی دلّی پر جب اُس عہد میں مصائب ٹوٹے تو اِس کی شان و شوکت ، تہذیب و ثقافت، شرافت ونجابت، سب ملیا میٹ ہوگئی۔ اِس اُجڑے دیار پر اُمراء و شرفاء ہی نے آنسو نہیں بہائے بلکہ شعراء و اُدباء اور علماء وصوفیاء کی آنکھیں بھی نم ہو گئیں اور امن و سکون اور تلاشِ روزگار میں ہجرت کا سلسلہ شروع ہوا ۔یہ وہی دلّی تھی جہاں صوفیائے کرام کے قافلے قیام کیا کرتے تھے، یہ وہی دلّی تھی جہاں صوفیائے کرام کے رُشدو ہدایت سے چہار طرف عشقِ الٰہی اور عشقِ رسولؐ کے نغمے سربلند ہوا کرتے تھے۔ یہ وہی دلّی تھی جہاں کے درویشانہ ماحول نے سب کو پیارو محبت کے بندھن میں باندھ رکھا تھا۔ ذرا غور کیجئے کہ جس دلّی نے سیکڑوں برس سے دل پر حکمرانی کی تھی اُس دلّی کا چہرہ اب ماتمی کیوں اور کیسے ہوگیا!جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ دلّی میں ولیؔ دکنی کی وجہ سے اردو شاعری کو شہرت ملی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب دلّی چاروں طرف سے آفات کا نشانہ بنی ہوئی تھی۔ دلّی ہی نہیں پورے ملک میں انتشار پھیلا ہوا تھا۔ زندگیاں مصائب بہ آغوش تھیں اور ہر انسان اپنے مستقبل کو مخدوش و تاریک ہی پاتا تھا۔ تباہی و بربادی کا یہ سلسلہ ستر ہویں صدی نصف سے شروع ہوکر بیسویںصدی نصف تک جاری رہا۔ اِس انتشار نے خصوصاََ دلّی میں ویسا ہی عبرت انگیز ماحول پیدا کردیا تھا جیسا کہ کسی زمانے میں چنگیز اور ہلاکو کے حملوں نے ایران اور دوسرے قریبی اسلامی ممالک میں پیدا کیے تھے۔ دلّی کی یہ تباہی تیمور، نادر اور ابدالی کے بعد جاٹوں، مرہٹوں، روہیلوں اور انگریزوں کے ہاتھوں ہوئی اور جس طرح تاتاریوں کے حملوں نے فارسی شعراء کو صوفی منش بنایا تھا اُسی طرح اندرونی اور بیرونی فتنوں نے اردو شعراء کو بھی نخلستانِ تصوف کی چھاؤں میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا۔اِس میں کوئی شک نہیں کہ تیموری شہنشاہ درویشانہ زندگی بسر کرنے والے مجاہد تھے لیکن اُن کی اولادیں شمشیر و سناں سے کھیلنے کے بجائے چنگ و رباب سے کھیلنے لگیں۔اورنگ زیب کے وفات پاتے ہی شہزادوں کی تلواریں اپنوں ہی کے خلاف بے نیام ہو گئیں اور دلّی کی سر زمین دشمنوں کے خون سے کیا پٹتی، اپنوں ہی کے خون سے پٹ گئی۔

اِن رقیبانہ جنگوں میں دلّی کے سبزہ زار، ویرانوں میں تبدیل ہو گئے۔ سیاسی شورش، معاشرتی انحطاط اور اقتصادی زبوں حالی کی وجہ سے عام اخلاقی معیار بھی بہت پست ہوگیا۔ وہی دلّی جس کے گلی کوچوں اور بازاروں میں چہل پہل اور بہار رہا کرتی تھی، ویران ہوگئی۔ وہی دلّی جو صوفیائے کرام کی آماج گاہ تھی ایسی تاراج ہوئی کہ خود دلّی کا رہنے والا اسے مایوس نظروں سے دیکھتا تھا ۔دلّی کے اِس بدلے ہوئے ماحول میں لوگوں کی زندہ دلی رخصت ہوگئی۔ اُس کی جگہ غم و اندوہ اور مایوسی و قنوطیت نے لے لی۔ اِس درماندگی اور زبوں حالی میں تصوف کے وہی پہلو سامنے آئے جو ان مغموم اور اُجڑے دلوں کے لیے ذہنی تسکین کا سہارا بن سکتے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں کے دلوں میں دنیا کی بے ثباتی، دنیا سے لاتعلقی، زندگی کی بے اعتباری، صبر و قناعت ، نالہ و فریاد، سوزوفراق اور انسانی زیست کی ناپائیداری کا گہرا احساس پیدا ہوا اور درویشانہ مسلک کی طرف اُن کی طبیعت خود بخود مائل ہونے لگی۔ یوں تو اُس پورے عہد میں جو لودھیوں کے زمانے سے لے کر مغلیہ دورِ زوال تک پھیلا ہوا ہے، جوگ ، بیراگ اور درویشی کا عام چرچا رہا لیکن اورنگ زیب کی وفات کے بعد یہ خیالات جس وسیع پیمانے پر پھیلے وہ پوری تاریخ میں ہمیں کہیں نظر نہیں آتے۔ اِس قسم کے اجتماعی احساسات صرف رعایا تک ہی محدود نہیں تھے بلکہ بادشاہ،وزراء، امراء اور دیگر اراکینِ سلطنت بھی اُن سے متاثر تھے، جس کے ثبوت میں بہت سی تاریخی شہادتیں پیش کی جاسکتی ہیں مثلاََ- بزرگوں کی آمد پر دارا شکوہ کا استقبال کے لیے جانا، اُس کی لکھی ہوئی مختلف تصانیف جس کا تعلق تصوف سے ہے، محمد معظّم کا کابل سے لاہور پہنچنے پر پہلے داتا گنج بخش کے مزار پر حاضر ہونا، بہادر شاہ کا محمد صاحب کا معتقد ہونا، جہاں دارشاہ کا حضرت ابولمعالی کے ہاتھ پر بیعت ہونا، امیروں اور وزیروں کے علاوہ بادشاہ کی بیگمات کا فقیروں کی طرف رجوع رکھنا، حتیٰ کہ بادشاہ اپنی بیٹیاں اُن درویشوں کے عقد میں دینے کو باعثِ سعادت سمجھتے تھے اور اُن سے جو اولادیں ہوتی تھیں انہیں’’مرشدزادہ‘‘کہتے تھے۔ اِن کے علاوہ بادشاہ بزرگانِ دین کے مقبروں میں دفن ہونے کو بھی اپنی نجاتِ اُخروی تصو کرتے تھے۔ محل کی عورتیں بھی خاص طور پر یہ حسرت رکھتی تھیں کہ اُن کی قبر کسی مشہور بزرگ کے احاطے میں بنے۔

اِس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ دلّی میں اعلیٰ پائے کے درویش اور خاندانِ درویش بڑی تعداد میں موجود تھے۔ مرزا مظہر جانِ جاناں اور اُن کا سلسلہ، بلگرام کے اولیائے کرام کا گروہ ، خواجہ میر دردؔ اور اُن کا خاندان ، شاہ ولی اللہ محدّث دہلوی اور اُن کی اولادیں اور بہت سے دوسرے بزرگ جن کی فیضِ نظر اور اثرِ صحبت سے لاتعداد مخلوقِ خدا کو نورِ بصیرت اور کلیدِ معرفت حاصل ہوا۔ فارسی شعراء کی طرح اردو کے بہت سے شاعر یا تو خود درویش تھے یا پھر کسی درویش خاندان سے اُن کا رشتہ تھا۔ آبروؔ، شاہ محمد غوث گوالیاری کی اولاد میں سے تھے۔ مضمون،ؔحضرت گنج شکر کی اولاد میں سے تھے۔ خان آرزو بھی شیخ شاہ محمد غوث گوالیاری کی اولاد میں سے تھے۔ دردؔ اور اثرؔ، محمد ناصر عندلیب کے بیٹے تھے۔ یقین،ؔنبیرۂ شیخ مجدد دالفِ ثانی تھے۔ بہت سے شاعر کسی درویش کے خاندان سے تو نہیں تھے لیکن درویشی اور فقیری کا راستہ اختیار کر لیا تھا۔ رندؔ، ضاحکؔ اور حاتمؔ کا نام اس سلسلے میں خصوصیت کے ساتھ لیا جاسکتا ہے۔ اردو شاعروں کے اِس صوفیانہ رحجانات کی بدولت اٹھارہویں صدی کی شاعری تصوف کے خیالات سے مالا مال ہوگئی اور فقیرانہ طرزِ فکر تقریباََ ہر چھوٹے بڑے شاعر کے مزاج کا حصہّ بن گئی۔

۔۔

اٹھارہویں صدی کے شعراء میں خواجہ میر دردؔ کا نام بے حد اہم ہے ۔ اُن کی صوفیانہ اور شاعرانہ عظمت ہی کے سبب اُن کی شاعری اور شخصیت دونوں میں اُس پورے عہد کی عکاسی ملتی ہے۔ عام طور پر ہمارا سروکار اُن کی شاعری سے ہوتا ہے اس لیے انہیں ایک بڑے شاعر ہی کی حیثیت سے ہم جانتے پہچانتے ہیں۔ حالانکہ خود اُن کے عہد کے لوگ انہیں ایک باکمال، باعمل اور نظریہ ساز صوفی کی حیثیت سے زیادہ پہچانتے تھے۔ مختصر مگر جامع’’دیوانِ درد‘‘ اُن کے شعری کمالات کی دلیل ہے اور اُن کے راسخ العقیدہ ہونے کی دلیل یہ بھی ہے کہ اُن کے بیشتر معاصرین گردشِ روزگار سے گھبرا کر دلّی سے ہجرت کرگئے مگر دورِ ابتلا میں بھی دردؔ کے پایہ ٔ استقلال کو جنبش نہیں ہوئی اور وہ اپنے سجّادہ پر بیٹھے صاحبانِ ذوق کے لیے حسبِ معمول محفلیں سجاتے رہے۔ جہاں بادشاہِ وقت شاہ عالم ثانی آفتاب بھی حاضری دیا کرتے تھے۔ اس زمانے میں اورنگ زیب کی بہوشہزادی مہر پروربیگم نے انہیں شہر پناہ کے اندر محفوظ مقام پر آنے کی دعوت بھی دی تھی تاکہ نادر شاہ کے ظلم و ستم سے بچا جاسکے۔ پہلے تو دردؔ نے یہ دعوت ٹھکرادی مگر باربار شہزادی کے اصرار کرنے پر قبول کرلیا۔ شہزادی نے عقیدتاََ اُن کے لیے کوچہ چیلان میں رہائشی مسکن، مسجد، عبادت خانہ، مجلسِ غنا، مجلسِ مشاعرہ اور عرس کی تقریبات کے لیے ایک جگہ بنوائی تھی جس کے آثار ۱۹۴۷ء تک قائم رہے، بہ استشنٰی مسجد کے جو آج بھی ’’مسجدبارہ دری ‘‘ کے نام سے قائم ہے اور فرندانِ توحید سے آباد ہے۔خواجہ میر درد کی قبر بستی میر درد میں نزد ذاکر حسین دلّی کالج موجود ہے۔قبر کے نزدیک ہی ایک تہہ خانہ ہے جو کسی زمانے میں اُن کا حجرہ ہوا کرتا تھا لیکن اب بند کر دیا گیا ہے کیوں کہ برسات کے موسم میں اُس میں پانی جمع ہو جاتا ہے۔اسی حجرہ سے نکل کر دردؔ بارہ دری میں قیام پذیر ہوئے تھے۔

خواجہ میر دردؔ کا اردو کلام عشقیہ اور عارفانہ دورنگوں سے عبارت ہے ۔ عشقیہ وہ رنگِ شاعری ہے جسے مجازی لب ولہجہ بھی کہہ سکتے ہیں اور عارفانہ کلام وہ ہے جسے حقیقی لب و لہجہ کا نام دیاگیا ہے۔اُن کی شاعری کا جو اردو دیوان ہمیں میسّر ہے وہ انہیں دونوں قسم کے شعری تجربے اوردل پذیر اسلوب کی بنا پر متاثر کرتا ہے ۔میر حسن نے اپنے’ تذکرۂ شعرائے اردو‘ میں لکھا ہے کہ

’’ دیوان گرچہ مختصر ہے لیکن دیوانِ حافظ کی طرح سراپا انتخاب۔‘‘(ص۴۹ ۔مرتبہ سید شاہ عطاء الرحمٰن عطا کاکوی۔۱۹۷۱ء)

اِس مختصر دیوان میںصوفیانہ واردات کا تذکرہ بھی ہے اور عشقیہ کیفیات کا بیان بھی۔صوفیانہ واردات سے قاری عموماً نا واقف ہوتے ہیں اِس لیے ایسے شعری تجربے اکثر قاری کو گہرے سنجیدہ فکر میں ہی نہیں بلکہ امتحان میں مبتلا کر دیتے ہیں۔دوسری طرف عشقیہ کیفیات سے ہم عموماً مانوس ہوتے ہیں اِس لیے ایسے شعری تجربے فوراً ہمارے دل و دماغ کا حصّہ بن جاتے ہیں۔ حالاں کہ دردؔ کے شعری تصور کو سمجھنے میں یہ دونوں تجربے ہماری رہنمائی کرتے ہیں۔صوفیانہ اشعار کی مثال دیکھیں:

اخفائے رازِ عشق نہ ہو آبِ اشک سے

یہ آگ وہ نہیں جسے پانی بجھا سکے

وحدت نے ہر طرف ترے جلوے دکھا دیے

پردے تعینّات کے جو تھے، اٹھا دیے

دونوں جگہ میں معنیِ مولیٰ ہے جلوہ گر

غافل! ایاز کون ہے، محمود کون ہے

 ہر جز کو کُل کے ساتھ،بہ معنی ہے اِتصال

دریا سے دُر جدا ہے پہ ہے غرق آب میں

نظر میرے دل کی پڑی دردؔ کس پر

جدھر دیکھتا ہوں، وہی روبرو ہے

ملاؤں کس کی آنکھوں سے میں اپنی چشمِ حیراں کو

عیاں جب ہر جگہ دیکھوں اُسی کے نازِ پنہاں کو

تیرا ہی حسن جگ میںہر چند موجزن ہے

تس پر بھی تشنہ کامِ دیدار ہیں تو ہم ہیں

ہم کسی راہ سے واقف نہیں، جوں نورِ نظر

رہنما تو ہی تو ہوتا ہے، جدھر جاتے ہیں

آواز نہیں قید میں زنجیر کی ہرگز

ہر چند کہ عالم میں ہوں، عالم سے جدا ہوں

گر معرفت کا چشمِ بصیرت میں نور ہے

تو جس طرف کو دیکھئے، اُس کا ظہور ہے

جگ میں آکر اِدھر اُدھر دیکھا

تو ہی آیا نظر جدھر دیکھا

ارض و سما کہاں تری وسعت کو پا سکے

میرا ہی دل ہے وہ کہ جہاں تو سما سکے

صوفیانہ اشعار کے ساتھ ساتھ دردؔ کے یہاں اِس قسم کیعشقیہ اشعار بھی ملتے ہیں :

یوں تو ہے دن رات میرے دل میں اُس کا ہی خیال

جن دنوں اپنی بغل میں تھا سو وہ راتیں کہاں

واشد کبھو تو درد کے بھی ساتھ چاہیئے

بندِ قبا سے کھول ٹُک اے گل بدن گرہ

تو چونکتا عبث ہے کسی بات کے لیے

میں آ گیا ہوں صرف ملاقات کے لیے

ان لبوں نے نہ کی مسیحائی

ہم نے سو سو طرح سے مر دیکھا

ذکر میرا ہی وہ کرتا تھا صریحاً لیکن

میں جو پہنچا تو کہا خیر یہ مذکور نہ تھا

آگے ہی بن سنے، تو کہے ہے، نہیں نہیں

تجھ سے ابھی تو ہم نے وہ باتیں کہیں نہیں

کچھ ہے خبر بھی تجھ کو کہ اٹھ اٹھ کے رات کو

عاشق تری گلی میں کئی بار ہو گیا

جوں جوں وہ کٹے ہے، تو یہی آتی ہے جی میں

پھر چھیڑیے اور باتیں سنا کیجئے اُس سے

دونوں جہان کی نہ رہی پھر خبر اُسے

دو پیالے تیری آنکھوں نے جس کو پلا دیے

جی کی جی ہی میں رہی،  بات نہ ہونے پائی

ایک بھی اُس سے ملاقات نہ ہونے پائی

دردؔ کے یہاں اظہار کی یہ دونوں صورتیں موجود ہیں۔اُن کے یہاں ایک طرف متصوفانہ کلام کے ذریعے جہاں کائنات کے بنیادی مسائل پر روشنی ڈالی گئی ہے وہیں انسان کی عظمت کو بھی ظاہر کیا گیا ہے۔اِن کے علاوہ بے ثباتیِ عالم، کم مائیگی،صبر و توکّل،خودی اور استغنٰاء،اخلاق اور اخلاقی بصیرت کو بھی خصوصی موضوع بنایا گیا ہے۔دوسری جانب عشقیہ کلام کے ذریعے یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ عشقیہ جذبات و کیفیات کے بغیر انسان، انسان نہیں کہلا سکتا۔عشق کا جذبہ انسان کی بنیادی جبلّت ہے۔اِس لیے دردؔ حقیقی اور مجازی قلبی واردات و کیفیات کوملا کر ایک مکمل صورت میں ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔اُن کی یہی کوشش اُن کا امتیاز بھی ہے اور اسی انضمامی صورت سے دردؔ کی شخصیت علاحدہ علاحدہ نہیں ابھرتی بلکہ ایک ہی مرکز پر ابھرتی ہے اوراُس مرکز کا بنیادی محورعشق ہے کیوں کہ دردؔ کا خود بیان ہے کہ’’ عشق ہی نظامِ کائنات کی اصل ہے‘‘۔دردؔ کی دیگر تحریروں کے مطالعہ سے بھی یہ اندازہ ہوتا ہے کہ عشقِ مجازی، عشقِ حقیقی کا محض ابتدائی زینہ ہے۔انہوں نے خالص عشقِ مجازی کو کہیں ’دماغ کا خلل‘ تو کہیں’ رسوائی کا باعث‘ قرار دیا ہے۔جب کہ عشقِ حقیقی ہی اُن کی نظر میں اہمیت کا حامل ہے۔اِس لیے انہوں نے عشقِ حقیقی کو کبھی’ دل و دماغ کی شادابی‘ تو کبھی’ مشعلِ افروزِ رہنمائی‘ کا نام دیاہے۔

درد ؔ کی شاعری پر گفتگو کرتے ہوئے ہمارے ناقدین نے عموماََ اُن کی عارفانہ یا صوفیانہ شاعری کو ہی موضوعِ بحث بنایا ہے اور مجازی رنگ کو اُن کی شخصیت کے منافی سمجھ کر اُن کی شخصیت سے وابستہ کرنے سے گریز کیا ہے۔ تاہم اُن کے کلام کاایک بڑا حصّہ اِس بات کی گواہی دیتا ہے کہ دردؔ کے یہاں عشقِ مجازی کا عنصر موجود ہے۔ اِس تعلق سے یہ بات ضرور کہی جاسکتی ہے کہ دردؔ کی عشقیہ شاعری اِس معنی میں معیوب اور معتوب نہیں ہے کہ وہ اخلاقیات کی حدوں کو پارنہیں کرتی بلکہ اظہارِ عشق میں توازن اور ظاہر و باطن کا ایک خوبصورت انضمام پیش کرتی ہے ۔اِس لیے دردؔ کی شخصیت کے یہ دونوں کردار یعنی عا شقانہ کردار اور صوفیانہ کردار،قاری کے دل و دماغ میں منفی اثرات پیدا نہیں کرتے بلکہ یوں کہنا چاہیئے کہ وہ اپنی شاعری سے اپنا ایک تہذیبی کردارپیش کرتے ہیں جس کے پس منظر میں ہم انہیں اور اُس عہد کی  تصویر کو بخوبی دیکھ سکتے ہیں ۔ دردؔ نے خود اِس بات کا اعتراف کیا ہے کہ

’’ وہ کبھی کسی رسمی عشق بازی میں گرفتار نہیں ہوئے اور نہ ہی کسی محبوب سے اُن کا سابقہ رہا۔ البتہ بے تکلف دوستوں کے درمیان وقت ضرور گزارا ہے‘‘ ۔( علم الکتاب بحوالہ مقدمہ حبیب الرحمن خاں شیروانی)

دردؔ کے اس اعتراف سے ہم اس نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں کہ اُن کی شاعری کا مجازی رنگ عین فطری ہے جو حقیقی رنگ تک پہنچنے کا ذریعہ ہے نیز اُن کے صوفی اور شاعر دونوں ہونے کی دلیل ہے۔

ہمارے بعض ناقدین کو دردؔ کے صوفیانہ خیالات میں تصوف کے فلسفیانہ تحلیل کی کمی نظر آتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ دردؔ نے جس خوبصورتی اور دلکشی کے ساتھ فلسفہ اور تصوف کو اپنے اشعار میں تحلیل کیا ہے وہ نہایت موزوں اور مناسب ہے۔تاہم دردؔ کے کلام پر ناقدانہ نظر رکھنے والوں نے کم و بیش اِس بات کا اعتراف کیا ہے کہ دردؔ نے تصوف اور عرفان کے پیچیدہ مسائل کو بڑی خوبصورتی اور صفائی کے ساتھ پیش کیا ہے نیز اردو کلام میں باطنی دلکشی اور دل آویزی کے عناصر شامل کیے ہیں۔ کلیم الدین احمد نے دردؔ کے کلام کی بوقلمونی کو سراہتے ہوئے اُن کی شانِ خودداری کو مرعوب کن بتایا ہے(اردو شاعری پر ایک نظر۔ص ۲۸۔۱۲۵)۔وحید اختر نے دردؔ کی درویشانہ بے نیازی اور شاعرانہ خودداری کی تعریف کی ہے(دردؔ کا نظریۂ تصوف اور اُن کی شاعری۔ ص۳ )۔وزیر آغا نے دردؔ کے صوفیانہ تصورات کو اُن کی شخصی زندگی کے تجربات سے موسوم کرتے ہوئے انہیں جذبہ اور روح کا امتزاج قرار دیا ہے(اردو شاعری کا مزاج ۔ ص ۲۴۸)۔انور سدید نے دردؔ کی شاعری کو ایک ایسا آئینہ قرار دیا ہے جس میں صاحبِ سخن کی دیدار نمائی ہوتی ہے(اردو ادب کی مختصر تاریخ۔ ص ۱۴۹)۔جمیل جالبی نے دردؔ کو مفکر شعراء میں شامل کیا ہے اور اُن کے شعری تجربے کو تخلیقی انفراد قرار دیتے ہوئے اسے روحانی بصیرت کا وسیلہ بتایا ہے(تاریخِ ادبِ اردو۔ص ۴۴۔۷۴۳)۔ اسی طرح تبسّم کاشمیری نے بھی دردؔ کو اٹھارہویں صدی کی روحانی، تہذیبی اور شعری علامت قرار دیا ہے(اردو ادب کی تاریخ۔ ص ۳۵۷)۔

دردؔ کی شاعری پر گہری نظر ڈالنے سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ اُن کی شاعری بنیادی طور پر باطنی بصیرت کی عکاس ہے اور قلب و نظر پر گزرنے والے مشاہدات اور کشف کی حالتوں کوبیان کرتی ہے۔ اُن کی شاعری صوفیانہ مسائل کی توضیح و تشریح یا تعبیر ہی کو پیش نہیں کرتی بلکہ زندگی کے بے شمار اہم مسائل کو بھی تخلیقی سطح پر ظہور میں لاتی ہے۔ خدا، انسان اور کائنات کے بارے میںاُن کے یہاں تصورات کی ایک وسیع دنیا آباد ہے ۔ انہوں نے حیات و کائنات کو جس صوفیانہ زاویے سے دیکھا وہ فارسی شاعری کا بہت پرانا اور روایتی اسلوب تھا لیکن دردؔ کا امتیازیہ ہے کہ انہوں نے پہلی بار صوفیانہ خیالات اور عرفان کے مختلف موضوعات کو اپنے کلام میں بیان کرکے سنجیدگی سے ہماری فکر کو متحرک کیا۔ ’’نالۂ درد‘‘ میں جن خیالات کا اظہار انہوں نے کیا ہے مثلاََ:-

’’فقیروں کا بوریا بادشاہوں کے تخت پر فوقیت رکھتا ہے‘‘۔

’’ درویشوں کی گردن بادشاہوں کے سامنے نہیں جھکتی‘‘۔

 خبردار! اِن بلند مقام لوگوں کے سامنے بے ادبی سے نہ آ‘‘۔

’’ اِن نازک مزاج لوگوں کے سامنے عجزو انکسار کے سوا کسی چیز کا اظہار نہ کر اور اپنے خالق کے سوا کسی سے سروکار نہ رکھ‘‘۔

’’فقراء کی بساط پر گستاخی و بے باکی سے قدم نہ رکھ کیوں کہ اِن بلند مقام لوگوں نے بہت سے بادشاہوں کا غرور توڑا ہے۔‘‘ (ص ۱۰۷۔ ترجمہ)

وہ دردؔ کے شعری و فکری بصیرت کو سمجھنے میں ہماری مدد کرتے ہیں۔

                دردؔ کی صوفیانہ شاعری کا رخ وحدۃ الوجود سے زیادہ وحدۃ الشہود کی طرف ہے۔وہ زمین،آسمان اور کائنات کی ہر شئے میں اسی ذاتِ واحد کی جلوہ گری دیکھتے ہیں۔اُن کا خیال ہے کہ کائنات میں ذاتِ باری کی تجلّیات کے لا متناہی سلسلے جاری رہتے ہیں اور ذاتِ خداوندی ہر بار ایک نئی شان میں جلوہ گر ہوتا ہے۔اِس نئی شان اور جلوہ گری کو دردؔ نے’’آئینہ‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ آئینہ ،قلب سے گہری مشابہت بھی رکھتا ہے اِس لیے دردؔ نے قلب کی صفائی پر بہت زور دیا ہے۔

ائے دردؔ مثالِ آئینہ ڈھونڈ اُس کو آپ میں

بیرونِ در تو اپنی قدم گاہ ہی نہیں

مٹ جائیں ایک آن میں کثرت نمائیاں

ہم آئینہ کے سامنے جب آ کے ہو کریں

وحدت میں تیری حرفِ دوئی کا نہ آ سکے

آئینہ کیا مجال تجھے منھ دکھا سکے

آئینے کی طرح غافل کھول چھاتی کے کواڑ

دیکھ تو ہے کون بارے تیرے کاشانے کے بیچ

ائے دردؔ کر ٹک آئینۂ دل کو صاف تو

پھر ہر طرف نظّارۂ حسن و جمال کر

دردؔ کی شاعری کائنات میں انسانی وجود کے حقیقی رابطوں کو تلاش کرنے والی شاعری ہے۔ دردؔ کے فکر و خیال کا زاویہ چونکہ بلیغ ہے اِس لیے اُن کی شاعری کا معیار بھی بلند ہے۔صوفیانہ شاعری جن چیزوں سے عروج پاتی ہے وہ وجدانی کیفیت اور والہانہ جذب و مستی ہے۔دردؔکے یہاں اِن دونوں کے ساتھ فکر و خیال کی بھی آمیزش کی گئی ہے۔دردؔ نے اپنے معاصرین میں سب سے زیادہ اردو شاعری کو صوفیانہ خیالات سے قریب کیا اور متصوفانہ فکر کی تحلیل کی۔انہوں نے صوفیانہ خیالات میں جس قسم کی دلآویزی پیدا کی وہ بہ استثنیٰ میرؔ کے کسی دوسرے کے یہاں نظر نہیں آتی۔دردؔ کے یہاں ضبط اور صبر و تحمل عین اُن کے مزاج کے مطابق ہے۔اُن کی شاعری میںزندگی خود بقائے زندگی کا استعارہ ہے اِس لیے اُن کے یہاں زمانے کا ماتم نظر نہیں آتا۔انہوں نے اپنی شاعری میں متصوفانہ فکر کو تحریک کی صورت عطا کرنے کی کوشش کی جس سے انسان اور کائنات کا باہمی رشتہ واضح ہوا ۔ دردؔ کی شاعری میں جو فکری رحجان پوشیدہ ہے اُس کا لب لباب یہ ہے کہ انسان کو کائنات اور اپنی ذات کا ادراک حاصل کرنا چاہئے اور اسے اپنی لمحاتی زندگی میں اِس بات کے انجام سے بھی باخبر رہنا چاہیے کہ وہ اِس دنیاوی سفر میں عدم تک پہنچنے کا سامان کیسے تیار کرے گا۔

٭٭٭

Leave a Reply

1 Comment on "دلّی کا درویشانہ ماحول اور دردؔکی شاعری"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
عبدالباری قاسمی
Guest
بہت خوب
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.