جا ں نثا ر اخترؔ کی انفر اد یت بحیثیت رْ با عی گو

Click Here for PDF File

Click Here for PDF File

عبدالرّب

شعبہ اْردو مو لا نا آزاد کا لج ،اور نگ آ باد۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جاں نثا ر اخترؔتر قی پسند شعرا ء کی فہر ست میں ممتا ز مقا م کے حا مل ہیں ۔جا ں نثا ر اخترؔایک عر صے تک اپنے حلقے میں اغما ض کا شکا ر رہے ۔خو د عزیز احمد نے اپنی تصنیف ’’تر قی پسند اد ب‘‘ میں تما م تر قی پسند شعرا ء کا ذکر کیا لیکن وہ جا ں نثا ر اخترؔکو فر امو ش کر گئے ۔’’پچھلے پہر‘‘اور ’’گھر آ نگن‘‘کی اشاعت کے بعد جا ں نثا ر اخترؔکی قدر و منز لت میں کا فی اضا فہ ہو ا۔جا ں نثا ر اخترؔکی پید ائش کے ایک صدی بعد ہی سہی سبھی اہلِ علم حضرا ت اْ ن کی اد بی خدمات و کما لا ت کا اعترا ف کھلے د ل سے کر ر ہے ہیں۔ آج جا ں نثا ر اخترؔ ترقی پسند شعرا ء او راُن کے د یگر ہمعصر شعرا ء میں بحیثیت ر با عی گو سب سے بڑ ے مقا م پر بر اجما ن ہیں ۔ جاں نثار اخترؔ کا خا صہ یہ ہے کہ انہو ں نے ر با عی کی رو ایت کو نہ صر ف فر و غ د یا بلکہ اس صنف کو نئے ابعا د سے رو شنا س کروایا۔وہ فنِ رباعی گوئی میں کئی مقا ما ت پر فراقؔ سے بھی آ گے د کھا ئی د یتے ہیں ۔ ہمارے پا س کسی بھی شا عر کو چا نچنے کا ایک پیما نہ یہ ہے کہ اْس نے اپنی اد بی ورا ثت سے کیا اخذ کیا ،اْس کی انفرا د یت کیا ہے اور اْس نے اد بی وراثت میں کو ن سا گر اں قدر اضافہ کیا؟زیرِ نظر مضمون میں یہ واضح کر نے کی کو شش کی گئی ہے کہ بحیثیت رْباعی گو جا ں نثا ر اخترؔکی انفر اد یت کیا ہے۔انہوں نے اپنی شاعر ا نہ وراثت سے کس نوع کا استفاد ہ کیا اور بحیثیت رْباعی گو جاں نثا ر اخترنے ؔاْردو شاعر ی کو کیا دیا ہے ۔

شاعر ی کا شوق جا ں نثا ر اخترؔ کو وراثت میں ملا تھا ۔جا ں نثا ر اخترؔکے جدّ امجد میر تفضّل حسین خا ں مرزا غالبؔکے دوست تھے ۔اُن کے خاندان کا ہر فرد علم و ادب اور شعر و سخن میں یکتائے روز گار تھا ۔سید تفضّل حسین کی اہلیہ سید النساء اپنے وقت کی مشہور شاعرہ تھیں اور حرماںؔ تخلص کرتی تھیں۔جاں نثار اخترؔ کے والد سید محمد افتخار حسین رضو ی مضطرؔ خیر آباد ی افتخا ر الشعرا ء کے نا م سے جا نے جا تے تھے۔ وہ ایک قا در الکلا م شاعر تھے اور انہو ں نے مختلف شعری اصناف میں ا پنی استاد ی کا ثبو ت بہم پہنچایا۔ مضطرؔ خیر آباد ی کی غز لو ں ،نظمو ں ،گیتو ں اور دو ہو ں میں اْ ن کے شاعرانہ جو ہر کھل کر دکھائی دیتے ہیں اور اْن کے کئی اشعار آج بھی زبا ن زد خاص و عا م ہیں،چند اشعار بطور نمو نہ پیش ہیں۔

اسیرپنجہ عہدِشباب کرکے مجھے

کہا ں گیا مرا بچپن خرا ب کرکے مجھے

کسی کی درد ِمحبت نے عمر بھر کے لیے

خدا سے ما نگ لیا انتخاب کر کے مجھے

علاجِ دردل تم سے مسیحا ہو نہیں سکتا

تم ا چھا کر نہیں سکتے میں اچھا ہو نہیں سکتا

جا ں نثا ر اخترؔنے ابتدا ئی کلا م پر ا پنے وا لد سے اصلا ح لی لیکن والد کے انتقا ل کے بعد اصلا ح کا سلسلہ بند ہو گیا ۔ اس کے بعد وہ تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے علی گڑھ چلے گئے اْن کی ذ ہنی تشکیل میں مسلم یو نیور سٹی اور تر قی پسند تحر یک کا اہم رو ل رہا ہے۔ترقی پسند تحریک اور علی گڑ ھ مسلم یو نیور سٹی نے مجازؔ،جذبیؔ ، علی سردار جعفریؔ ، کیفی ؔاعظمی ،احمد ند یمؔ قاسمی اور جا ں نثا ر اخترؔ جیسے کئی نو جوا ن شعراء و اد با ء کو دنیا ئے اد ب میں پیش کیا ۔مسلم یو نیور سٹی کی فضاء و ہا ں کی تہذ یبی عظمت اور اشتراکی نظر یا ت کے حا مل نو جوا ن کی صحبتو ں نے اْن کی شخصیت اور شاعر ی دو نو ں میں نکھار پیدا کیا ۔علی گڑ ھ کا قیا م جا ں نثار اخترؔکی اد بی زند گی کے لیے بہت اہم ثا بت ہوا ۔ علیگڑ ھ کی فضا ء میں پرورش پا کر جا ں نثا ر اخترؔانقلابی بن گئے اور اپنی شاعری میں اشتراکی خیالات و جذ با ت کا بر ملا اظہار کر نے لگے ۔جا ں نثا ر اخترؔکی شاعری میں ایک طر ف سیاسی وسماجی موضوعات پر انقلابی نظمیں ہیں تو دوسری طرف اْن کی غز لو ں میں حسن و عشق کی نر م آ نچ د کھا ئی د یتی ہے ۔ اختر ؔکی اس دور کی شاعر ی میں ترقی پسند شعرا ء کی تقلید بھی نظر آتی ہے۔اْن کی نظمو ں میں ’’میں اْن کے گیت گا تا ہو ں‘‘بگو لہ‘ ، ’شہنشا ہیت‘ ’اسٹالن ‘اور رو ما نی نظمو ں میں ’’کون سا گیت سنو گی انجم‘‘، ’’انتظار‘‘، ’’آج کی را ت ‘‘و غیر ہ میں ایسے خیالات ملتے ہیں جو اْن کے ہم عصر شعرا ء کے پاس بدر جہ اتم پا ئے جا تے ہیں۔مختصراََ جا ں نثا ر اخترؔ کی بہت سی نظمو ں کے عنوا نا ت و مو ضو عات میں فیضؔ، مخدو مؔ ،اختر الا یمانؔ ،مجازؔ و غیر ہ کی نظمو ں سے بہت حد تک مشا بہ دکھائی دیتی ہے لیکن اس کے با لمقا بل اگر ہم جا ں نثا ر اخترؔکی ر باعیو ں کا مطا لعہ کرتے ہیں تو اس صنف میں موضوعات و اظہار کے لحاظ سے وہ تما م ترقی پسند شعرا ء میں ممتاز نظر آ تے ہیں۔

رْ با عی اپنے فن کے لحا ظ سے ایک مشکل تر ین صنف سخن ہے ۔اختر نے صنف ر ْبا عی کا انتخا ب د یگر شعرا ء کی طر ح اپنی فنی مہا رت اور عر و ض دا نی کی صلا حیت کے اظہا ر کے لیے نہیں کیا بلکہ اس صنف سے اُنہیں فطری مناسبت تھی۔ اْردو میں رْباعی کا آغاز قلی قطب شاہ سے ہوا ولیؔ، سراجؔ، میرؔ، دردؔ ، سود اورؔ اْن کے ہمعصر شعراء کے علاوہ اُن کے تلامذہ کے پاس بھی رْباعیاں ملتی ہیں۔ اُس دور کی رْباعیو ں کے مطالعہ سے اندازہ ہو تا ہے کہ کسی بھی شا عرنے صنف ر ْباعی پر خصوصی توجہ نہیں کی مگر فنی طور پر ہر چھوٹے بڑے شاعر نے رْباعی کہی۔ انیس، دبیرؔ، ذوقؔ، غالبؔ اور مومن ؔنے غزل، مرثیہ، قصیدہ کے ساتھ ساتھ صنف ِرْباعی کو بھی فروغ بخشا۔ انیسؔو د بیر ؔکی کوششوں سے رْباعی عشق و تصوف کے دائرے سے نکل کر واقعات کربلا اور درس ِزندگی کی ترجمان بن گئی۔ اخلاقی قدروں کی ترجمانی کرنے کی وجہ سے حالیؔ و اکبرؔ نے بھی اس میں بیش قیمتی موضوعات کا اضافہ کیا۔ اسی قبیل میں جگت موہن لال رواں ؔنے و طنی، سیاسی اور مذہبی روایات کو بڑی خو بی کے سا تھ اپنی رْباعیو ں میں پیش کیا ۔

امجد ؔحید ر آبادی ،جو ش ؔملیح آبادی اور فراقؔ گور کھپوری نے اپنی رْباعیات کے ذریعہ اْردو شعری روایت میں گراں قدر اضافہ کیا۔ امجد ؔحیدر آبادی نے اس صنف کو خصوصی طور پر اپنایا اور اپنی ساری توجہ رْباعی کہنے میں صرف کی ۔اْن کی رْباعیات کا خاص موضوع تصوف و معرفتِ الٰہی ہے۔جوشؔ بیک وقت شاعر شباب بھی ہیں اور شاعر انقلاب بھی اْن کی رْباعیاں ہمہ گیر ی اور رنگارنگی کی وجہ سے اْردو کے شعری سرمایہ میں اہم اضافہ ہیں۔ جہاں امجدؔ نے اپنی رْباعیوں میں روحانیت پر اور جوشؔ نے رمو ز فطرت، شراب و شباب وغیرہ جیسے موضوعات پر اظہا ر خیال کیا وہیں فراق ؔنے ان دونوں راستوں سے ہٹ کر ایک نئی راہ نکالی۔ فراق ؔنے اپنی رْباعیات میں ہندوستان کی قدیم روایات اور کلچر کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا اور یہی راستہ اْن کی رْباعیات کا طرۂ امتیاز ہے ۔لیکن میرا یہ ماننا ہے کہ جاں نثار اخترؔنے اْردو رْباعی کو جن ابعاد سے رو شناس کروایا وہا ں تک خود فراقؔبھی نہیں پہنچ سکے ۔فر اقؔنے رْ باعیا ت میں جو جاذبیت، دلکشی اور سحر طرازی پیداکیں وہ یقیناقا بلِ قدرہے لیکن ہندوستانی روایات اور ہند ی لفظیات کو اْن سے پہلے کئی د کنی شعراء اپنی شاعری میں بڑی چابکدستی سے استعمال کرچکے ہیں اور جہاں محبوب کے حسن و جمال اور عشقیہ کیفیتوں سے لطف اندوز ی کا ذکر ہے اس کا استعمال کئی ہند ی شعرا نے سنگھار رس میں بڑ ی خو بی کے سا تھ کیا ہے ۔

 فلمی دْ نیا کی مصرو فیا ت کی و جہ سے جا ں نثا ر اخترؔکو شاعر ی میں اپنے فطر ی جو ہر د کھانے کا زیا د ہ مو قع نہیں ملا لیکن ۱۹۶۰؁ء کے بعدوہ اپنے اندر بیدار ہو چکے شاعر کو نہیں رو ک سکے۔ ۱۹۷۰؁ء میں ’’گھر آ نگن‘‘ ، ۱۹۷۴؁ء میں ’’خاک دل‘‘اور ۱۹۵۷؁ء میں ’’پچھلے پہر‘‘شائع ہوا ۔اِن تینو ں مجموعوں کی بنیا د پر اختر کی شاعر ی کی نئی جہت متعین ہو ئی ۔’’گھر آنگن‘‘ جا ن نثا ر اخترؔ کی رْ با عیا ت و قطعات کا مجمو عہ ہے جو ۱۹۷۱؁ء میں شا ئع ہو ا۔’گھر آ نگن‘ پر تبصرہ کر تے ہو ئے ڈاکٹر کشور سْلطا نہ جنھو ں نے جاں نثا ر اخترؔکی حیا ت و فن پر وقیع تحقیقی مقا لہ تحر یر کیا ہے ، رقمطراز ہیں کہ :

’’گھر آ نگن متوسط طبقے کے ایک ہندوستا نی گھرا نے کے سْکھ دْکھ کی منظو م جھا نکی ہے جس میں اْردو کی عا م روایات کے بر عکس ازدواجی زند گی کے روما ن کو نئے نئے زاویوں سے پیش کیا گیا۔‘‘۱؂

اختر کی رْباعیو ں کا امتیاز یہ ہے کہ انہو ں نے شادی شد ہ زند گی اور اس سے متعلقات، گھر کی چھوٹی چھوٹی با تیں، غرض شوہر و بیو ی کا پیار و تکرار اور نفسیات کا جس خو بصور تی سے اظہار کیا ہے وہ اْردو شاعر ی میں نایاب ہے جاں نثاراخترؔ خود اس بار ے میں رقمطراز ہیں کہ :

’’ اْردو کی رو ما نی شاعر ی میں روما ن یا تو محبو بہ کے وصل پر ختم ہو جا تا ہے یااس کی جدا ئی پر، عورت کا تصّور بحیثیت شر یک حیا ت بہت نا یا ب ہے اگر غور سے د یکھا جا ئے تو پتہ چلتا ہے کہ شادی شدہ زند گی کا اپنا ایک حسین کلچر ہے گھر کی چھوٹی چھوٹی خو بصو رتیاں اور شو ہر اور بیو ی کے با ہمی تعلقا ت کا حسن شاعر ی کے لیے خو بصور ت مو ضوعات دیتا ہے ۔‘‘۲؂

ہندوستا ن کی قد یم رو ایا ت سے لگا ؤ اور اْس کا شا عر ی میں اظہا ر کی رو ایت جا ں نثا ر اخترؔکو وراثت میں ملی تھی۔ جا ں نثار اخترؔنے ہند ی الفا ظ اور ہند ی تہذیب و ثقافت کی جھلک کو اپنی رْ با عیو ں میں بڑ ی مہا رت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ہندوستا نی رو ایا ت کا احترا م اور اْسکے اظہا ر پر قدر ت درج ذیل کی رْ با عیوں میں بخو بی د کھا ئی د یتی ہے۔

یہ سو لہ سنگھا ر اور یہ بارہ ابھرن

ہر طر ح سجی ہے پھر بھی بھرتا نہیں من

جب تک نہ پیا آٓن لے انکھیاں موندیں

رکھنے کی نہیں آج تو گوری درپن

ہندوستانی روایات اور ہندی الفاظ کا خوبصورت استعمال جاں نثار اخترؔ کی رُباعیوں میں واضح طور پردکھائی دیتا ہے۔

چو کھٹ پہ کو ئی نار سجاتی تھی ر نگولی

پو چھا کو ئی تہو ار ہے اٹھلا کے وہ بو لی

جس روز پیا آن بر اجے مرے دوارے

اس د ن ہی منےَ مری دیوا لی ،مر ی ہو لی

یہ تیرا سبھا ؤ یہ سلیقہ یہ سرو پ

لہجے کی یہ چھا ؤ ں گر م جذ با ت کی دھو پ سیتا بھی، شکنتلا بھی، رادھا بھی تو ہی

یگ یگ سے بد لتی چلی آ تی ہے تو رو پ

جا ں نثار اختر ؔکی شا عر ی میں ازوا جی زند گی کی چھو ٹی چھو ٹی خوشیاں ،کلفتیں،را حتیں اور ایک ایک یا د گار لمحے کو قید کر لیا گیا ہے ۔ایک اطاعت گذار بیوی اپنے شوہر کا خیال کس طرح رکھتی ہے ذیل کی رباعیوں میں ملاحظہ فرمائیے۔

وہ آ ئیں گے تو چادر بچھادوں کوری

پر دوں کی ذرا اور بھی کس دوں ڈوری

اپنے کو سنو ازنے کی سد ھ بد ھ کھو کر

گھر با ر سجا نے میں لگی ہے گور ی

کپڑو ں کو سمٹے ہو ئے اٹھی ہے مگر

ڈر تی ہے کہیں ان کو نہ ہو جا ئے خبر

تھک کر ابھی سوئے ہیں کہیں جاگ نہ جا ئیں

دھیر ے سے اْ ڑھا ر ہی ان کو چا د رگھر آ نگن

گھر آنگن کی ر باعیا ت میں ایک خاص با ت یہ بھی ہے کہ بعض رباعیاں ایسی ہیں جن میں شاعر اپنی زبا ن میں سے تا ثرات کا اظہار کر رہا ہے اور کچھ رْباعیاں ایسی ہے جس میں بیو ی اپنے تاثرات و خد شات کا اظہار کر رہی ہے اور بعض رْ باعیا ں مکا لمے کی شکل میں ہیں ۔اس طر ح کی رْ با عیا ں اخترؔکی ذ ہنی اخترا ع ہے جس کی و جہہ سے اْردو رْباعی کو مز ید وسعت حاصل ہوئی ۔ذیل میں چند رْ با عیاں درج ہیں جن میں بیو ی ا پنے جذ با ت و خدشات کا اظہار اپنی سہلیو ں سے کر ر ہی ہے:

دْنیا کی ا نھیں لا ج نہ غیر ت ہے سکھی

 اْن کا ہے مذاق میر ی آفت ہے سکھی

چھیڑ یں گے مجھے جا ن کے سب کے آگے

سچ، ان کی بہت بْر ی عادت ہے سکھی

میں اْن کا سکھی ہا تھ بٹا سکتی ہو ں

حا لا ت کو ہموا ر بنا سکتی ہو ں

وہ بو جھ اْٹھا ئیں گے اکیلے کب تک

میں خود بھی تو کچھ بو جھ اْٹھا سکتی ہو ں

 جا ں نثار اخترکی رْ با عیا ں روما ن اور تخیل پر مبنی نہیں ہیں بلکہ ایسا محسوس ہو تا ہے کہ وہ اْنکی نجی زند گی کے تجربات ہیں ۔ان رباعیوں کو پڑھ کر لگتا ہے جاں نثار اختر کی گھریلو زندگی بڑی خوشگوار تھی وہ فراقؔ کے بالمقابل اپنی شریکِ حیات سے بہت حد تک مطمئن تھے۔ اس کے علاوہ انہو ں نے اپنی رْباعیو ں میں حسن وعشق کے ایک ایک لمحہ کو قید کر د یا ہے اور اْنکی ر با عیو ں میں پیکر تراشی کے لیے بیش بہا نمو نے د کھا ئی د یتے ہیں ۔واردات عشق اور جما لیاتی احساس کا اظہار انہو ں نے اپنی رْبا عیو ں میں بڑ ی خو بصور تی کے ساتھ کیا ہے ۔

وہ جا ن کے بھی مجھ کو ستا تے ہیں کبھی

نکلو ں جو نہا کے تو ڈرا تے ہیں کبھی

آ ئینے کے آ گے نہ بد لنا کپڑے

آئینے میں عکس رہ بھی جا تے ہیں کبھی

مختصراََ جا ں نثار اخترکی ر باعیو ں کا سر ما یہ اْ نکی غز لو ں اور نظمو ں کے سرما ئے سے زیاد ہ اہم ہے ۔شو ہر اور بیو ی کی عشق و محبت کی کیفیات اور گھر یلو زند گی کے خو شگوار لمحے جس خو بصور تی کے سا تھ انہو ں نے اپنی ر با عیات میں پیش کیے ہیں اْن کے ہمعصر شعرا ء اِس سے قاصر ر ہے ۔جاں نثار اخترؔ کی ر با عیات اْردو شعر ی اد ب کا بیش بہا سر ما یہ ہے یہی اْن کی شاعرا نہ انفراد یت ہے جو د یگر رْ باعی گو شعراء کے با لمقا بل اُنہیں ایک ممتاز مقا م عطا کر تا ہے ۔

حوالہ جات:

۱)جاں نثار اختر( حیات و فن ) از۔ ڈاکٹر کشور سلطان مکتبہ ادب ، بھوپال۔ ۲۰۰۸؁ء صفحہ ۹۶

۲)جاں نثار اختر( حیات و فن ) از۔ ڈاکٹر کشور سلطان مکتبہ ادب ، بھوپال۔ ۲۰۰۸؁ء صفحہ ۲۴۴

کتابیات

۱)جاں نثار اختر( حیات و فن ) از۔ ڈاکٹر کشور سلطان مکتبہ ادب ، بھوپال۔ ۲۰۰۸؁ء

۲)فراقؔ گورکھپوری از۔ سےّدہ جعفر ساہتیہ اکادمی،نئی دہلی۔ ۲۰۰۶؁ء

۳)اُردو شاعری کا فنی ارتقاء از۔ ڈاکٹر فرمان فتحپوری ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس ، نئی دہلی۔ ۲۰۰۴؁ء

۴)گھر آنگن جاں نثار اختر مکتبہ شاہراہ، دہلی۔ ۱۹۷۱؁ء

۵) پچھلے پہر جاں نثار اختر جیبی کتابیں، نئی دہلی۔ ۲۰۰۶؁ء

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عبدالرّب

شعبہ اُردو ، مولانا آزاد کالج ڈاکٹر رفیق زکریا کیمپس اورنگ آباد۔

 email: abdulraburdu@gmail.com

نوٹ: اردو ریسرچ جرنل میں شائع مضامین کی دوبارہ اشاعت پیشگی اجازت کے بغیر منع ہے۔ ایساکرنا قانوناً جرم ہے۔

Leave a Reply

1 Comment on "جا ں نثا ر اخترؔ کی انفر اد یت بحیثیت رْ با عی گو"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
trackback

[…] جا ں نثا ر اخترؔ کی انفر اد یت بحیثیت رْ با عی گو […]

wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.