اردو غزل کے روایتی کردار، نو آبادیاتی تناظر میں
محمد رؤف
شعبۂ اردو، گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج، سمن آباد، فیصل آباد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کلاسیکی اردو غزل میں عام طور پر محفل، میکدہ، گلستاں اور قید خانے سے متعلقہ کردار ہی مرکزی معنیاتی تفاعل نبھاتے رہے ہیں۔ مزید تخصیص برتی جائے تو کہہ لیجیے کہ محبت کی تثلیث یعنی عاشق، معشوق اور رقیب کے کردار اس تخلیقی بساط کے مرکزی مہرے ہیں۔ البتہ یہ صنفِ سخن عشقیہ مضامین سے خصوصی تلازم رکھنے کے باوجود اپنے ایمائی طرزِ اظہار کے باوصف سماج کے دیگر معاملات سے بھرپور علاقہ رکھتی ہے اور غزل کے اولین خالق حکیم سنائی غزنوی نے بھی اسے سماجی صنف کے طور پر ہی متعارف کروایا تھا (۱) لیکن نو آبادیاتی دور میں مہر و محبت کی جمالیاتی لفظیات میں معاصر سیاسی و سماجی جدلیات کی ایمائی ترجمانی سے صرف نظر کرتے ہوئے اس’صنف ہزار شیوہ‘ (۲) کو تفہیمی سطح پر مکتبی تعریفوں ’سخن بازناں گفتن (۳) غَزَلاً بالنِّسَاءِ (۴) ‘لھو مع النساء’ (۵) اور “Flirtation” (۶) وغیرہ کے حصار میں مقید کرکے غزل گو شعرا کو محض سانڈے کا تیل بیچنے والوں کی صف میں لاکھڑا کیا گیا اور یوں ہمارے صدیوں پرانے ثقافتی خزینوں کی آئینہ دار یہ صنفِ شعر معاصر حالات سے مبینہ عدم مطابقت کی بنا پر قابلِ گردن زدنی قرار پائی۔ در حقیقت یہ ادبی سانحہ نو آبادیاتی دور کے مقتدر کلامیے کی پیداوار تھا۔ استعمارکار غزل کے رمزیہ اسلوب سے خائف ہوکر اسے یک سطحی اظہار کا پابند دیکھنا چاہتے تھے ۔ نیچرل شاعری کی ترویج اور مولانا حالی کے مقدمۂ شعر و شاعری کی بے پناہ سماجی پذیرائی کا ایک اہم محرک نو آبادیاتی کلامیہ بھی تھا۔ سوال یہ ہے کہ نیچرل شاعری کی تحریک بہ جا سہی مگر اسی ضمن استعماری معبدوں کو غزل کا بلیدان لینا ہی کیوں مرغوبِ خاطر تھا؟ وجہ یہ ہے کہ اس صنفِ سخن میں کار فرما عشق وعاشقی کا مرکزی معنیاتی تفاعل ایک ایسا باطنی عمل ہے جو اخلاص، آزادی اور بے باکی جیسے خواص سے ترتیب پاتا اور مزاحمتی سرگرمیوں کی نشوونما و ارتقا کا سامان کرتا ہے ۔ حیاتیاتی لفظیات میں عشق و عاشقی کے تعاملات کو اس صنف کا DNA قررا دیا جاسکتا ہے ۔ میر تقی میر نے اپنی مثنوی ’معاملات عشق‘ میں اس جذبے کو ‘مظہر العجائب’ قرار دیا ہے اور اسی تناظر میں شعرا نے اسے جذبِ حسین، دمِ جبرائیل، خدا کا رسول ﷺ اور حتی کہ خدا تک کہا ہے ۔ گویا صنفِ غزل میں ایک ایسا ذہنی رویہ کار فرما ہوتا ہے جو استحصالی فضا میں استعماری قوتوں سے پر امن بقائے باہمی کا معاملہ روا نہیں رکھ سکتا۔ یہ نظامِ فکرہمارے صدیوں کے پروردہ اجتماعی لاشعور کا ماحصل ہے۔ غزل میں ’غیر‘ یا ’رقیب‘ سے صلح جوئی کی منطق نکالنا اور’زمانہ باتو نہ سازد تو بازمانہ بساز‘ کی غیر مشروط تبلیغ کرنا استعماری نظام کی ہم نوائی کے مصداق ہے ۔ اس ضمن میں سجاد باقر رضوی لکھتے ہیں:
’’پاک و ہند میں مسلمانوں کی تہذیب کی بنیاد ہی عشق اور جہاد پر ہے ۔ مگر عشق اور جہاد دو الگ الگ رویے ّ نہیں، ایک ہی سکّے کے دو رخ ہیں۔ مجاہد اور عاشق دونوں راضی بہ رضا ہتھیلی پر سر لیے پھرتے ہیں۔‘‘(۷)
غزل کا بنیادی وظیفہ عشقیہ طرزِ اظہار (Erotics) کا مقتضی ہے جب کہ نیچرل شاعری تعبیر و ترجمہ (Hermenutics) کی منہاج اختیار کرتی ہے ۔ یہ جدید کلامیے ہی کا اثر تھا کہ اُردو غزل صدیوں پرانے شعریاتی نظام اور رمز و کنایہ کی اقدار کو تج کر تفسیر حیات اور ترجمانی احوال کی ایسی رہ چل نکلی جو اسے اپنی اساسی ماہیت سے بہت دور لے گئی۔ ابو الکلام قاسمی نئی تنقیدی شعریات کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’حالی بھی جس طرح پیروئی مغرب کو اردو شاعری اور نئی معیار بندی کا پیمانہ بناکر پیش کرتے ہیں وہ بھی غیر شعوری طور پر امپیریل ایجنڈا کی تکمیل میں تعاون دینے کے سوا اور کچھ نہیں۔‘‘(۷)
چلیے اسے عصری تقاضا کہیں یا حالات کی ستم ظریفی مگر افسوس ناک امر یہ ہے کہ ہمارے بعض ناقدین نو آبادیاتی دور کے غزل گو شعرا کو معاصر صورت حال سے بے نیازی برتنے اور عشق و عاشقی کی بے وقت راگنی الاپنے جیسے طعنوں تشنوں سے مطعون کرتے رہتے ہیں جو بہ ہر حال محل نظر ہے ۔ اصل میں جب مغربی کلامیے کی پروردہ شعریات کی روشنی میں اس دور کی روایتی غزل کا جائزہ لیا جاتا ہے تو نتائج اسی طرح کے نکل سکتے ہیں۔ ایک مثال لیجیے :
اسی خاطر تو قتلِ عاشقاں سے منع کرتے تھے
اکیلے پھر رہے ہو یوسفِ بے کارواں ہوکر (وزیرؔ)
قتلِ عشاق کے بہ موجب محبوب کو سرد بازاری کا طعنہ دینے پر وزیرؔ بے چارے کو ایک معروف تنقیدی کتاب شعر الہند میں (جس کسی نے بھی وہ لکھی ہو) ‘بے غیرت شعرا’ کی صف میں کھڑا کردیا گیاہے ۔ (۹)
عاشق ہوئے ہیں آپ بھی اک اور شخص پر
آخر ستم کی کچھ تو مکافات چاہیے (غالبؔ)
محبوب کا کسی اور شخص پر عاشق ہوکر کربِ ہجر کا مزا چکھنا اور ایسے میں اس کے اپنے عاشق نامراد کا اس امر پر اظہارِ اطمینان ‘دیوثانہ خیال’ قرار پاتا ہے ۔ (۱۰) یہ اور اس طرح کی دیگر تنقیدات ایسی جدید شعریات کے متعین کردہ زاویۂ نظر کا سرمایۂ التباس ہیں جو یہاں کی روایتی تخلیقات کو ان کے مخصوص اظہاری قرینے سے بے نیاز رہ کر دیکھنے کا نتیجہ تھیں۔ ڈاکٹر طارق ہاشمی اس نوع کی واماندگیٔ تعبیر کے ضمن میں لکھتے ہیں:
‘‘غزل کے سیاسی کردار کو اس وقت تک نہیں سمجھا جاسکتا جب تک کہ اس صنف کے اسلوب، علامتی نظام اور اظہار کے دیگر قرینوں کا شعور نہ ہو۔ اور یہی المیہ اردو تنقید کا ہے کہ ناقدین وہ password یا تو جانتے نہیں یا معلوم ہونے کے باوجود اسے استعمال نہیں کرتے جس سے غزل کے سماجی کردار کی windowsبہ آسانی کھل جاتی ہیں۔’’ (۱۱)
امر واقعہ یہ ہے کہ اس دور میں نو آبادیاتی کلامیے کی تحسین و تنقیص ، ردو وقبول اور مفاہمت و مزاحمت کے سلسلے میں غزل کی روایتی لفظیات اور فکری سرمائے کو نئے نظام خیال سے جوڑا گیا تھا جس کا صحیح تر مفہوم متعلقہ سیاق اور تناظر کی تعین اور جدید تنقیدی قرینوں کے اطلاق سے ہی ممکن بنایاجاسکتا ہے ۔ اکبرؔ الہ آبادی نے اپنی غزل میں بہ جا فرمایا تھا:
نظمِ اکبرؔ سے بلاغت سیکھ لیں اربابِ عشق
اصطلاحاتِ جنوں میں بے بہا فرہنگ ہے
(کلیاتِ اکبر، ص ۱۶۲)
نو آبادیاتی تناظر میں یہ اصطلاحاتِ جنوں اپنے معنوی انسلاکات میں کچھ یوں بیان کی جاتی ہیں: عاشق (انقلابی) معشوق (وطن، مقامی حکمران، نوآبادکار) رقیب (نو آبادکار) وصل (حصول آزادی) ہجر (حالاتِ استحصال) حسن (سماجی انصاف) گل (نصب العین، سیاسی آدرش) عندلیب (انقلابی ادبا) گل چیں، صیاد (آزادی مخالف قوتیں) وغیرہ
اس فرہنگ نامے کی رو سے اردو غزل کی روایتی لفظیات محض کلیشے سے نکل کر معاصر سیاست کا تاریخی بیانیہ بن جاتی ہے ۔ یہاں ہم شاعر کو جبراً عاشق فرض کرنے کے بہ جائے اسے ایک استعمار زدہ معاشرے کا مضطرب فرد خیال کرتے ہوئے اس کے تخلیقی اظہاریوں کا جائزہ لیتے ہیں۔ واضح رہے کہ ایسی تعبیری کاوش محض تفہیم کا ایک ممکنہ راستہ نہیں بل کہ یہ بہ قول شمس الرحمان فاروقی ‘مطالعہ کا افقِ مطلق (Absolute Horizone)) ہے ۔’’ (۱۲)
مرزا غالب نے اس دور کے فلسفۂ محبت کا یوں تجزیہ کیا ہے :
مجبوری و دعواے گرفتاریٔ الفت
دستِ تہہ سنگ آمدہ پیماں وفا ہے
(دیوانِ غالب ، ص ۱۹۴)
یہاں ہندوستانی قوم کے دستِ ناتواں پر نو آبادکار کے سنگ گراں کی عمل داری اور حالتِ مجبوری میں مقتدر قوت سے عہد وفا ، حقیقت حال واضح کردیتی ہے ۔ مرزا نے اپنے ایک خط میں غزل کے روایتی محبوب کی نایابی پر کہا تھا:
‘‘غزل کا ڈھنگ بھول گیا۔ معشوق کس کو قرار دوں جو غزل کی روشن ضمیر میں آوے ۔ (۱۳)
اردو غزل میں ‘سیاست اور غزل کے مابین اشارے کی صفتِ مشترک (۱۴) مزاحمتی بیانیے کے اظہار میں بہت ممد ثابت ہوئی ہے ۔ لہذا نو آبادیاتی دور میں عتاب شاہی سے بچتے ہوئے شعرا نے بالخصوص غزلیہ کرداروں کی معنیاتی قلب ماہیت کرتے ہوئے اپنے سماجی فرائض نبھائے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس دور کی غزل اپنے عمومی بیانیے کے لحاظ سے مغرب کو مرکوز ہے ۔ یہاں ہمیں حسن و عشق کی غیر روایتی وارداتیں ، بعض مسلمات متعارفہ سے گریز اور عاشق و معشوق کی غیر معمولی باتیں اور گھاتیں سننے دیکھنے کو ملتی ہیں۔ مثلاً نو آبادیاتی معشوق سے متعلق یہ اشعار دیکھیے :
کفار فرنگ کو دیا ہے
تجھ زلف نے درس کافری کا
(کلیاتِ ولی ، ص ۹۴)
سانوے رخسار اوپر کھول کر زلفوں کے تئیں
ہند میں کافر نے عالم کو کیا قیدِ فرنگ
(دیوان زادہ، ص ۸)
خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں
(مہتاب ِ داغ، ص ۱۸۳)
تونے ایسے بگاڑ ڈالے ہیں
ایک کی ایک سے نہیں بنتی
(یادگار ِ داغ، ص ۲۰۱)
تیار رہتی ہیں صفِ مژگاں کی پلٹنیں
رخسار یار ہے کہ جزیرہ فرنگ کا
(کلیاتِ آتش، ص ۲۲۰)
یہ نہ سمجھے اور ہی شاطر نے شہ دی تھی انھیں
زعم میں اپنے سلاطین آپ کو شَہ کر گیے
(دیوان درد، ص ۷۵)
تجھے خط غلامی لکھ دیا یار اپنے ہاتھوں سے
ہوئے ہم اور بھی تیرے گرفتار اپنے ہاتھوں سے
(کلیاتِ ظفر، ص ۵۲۳)
چمکے ہیں بزمِ جم میں اب گیسوئے طلائی
سکہ نیا بٹھایا گردوں کی پالسی نے
(کلیات اکبر، ۷۴)
ہے تیری جنسِ حسن میں تاثیر زہر کی
جس کی نظر پڑی وہ خریدار مرگیا
(آفتاب داغ، ص ۵۱)
مجھ سے نفرت کس قدر ہے اس بتِ بے مہر کو
گجفے میں بھی ورق رکھا نہ میری یاد کا
(یادگار داغ، ص ۵۱)
ولیؔ اور شاہ حاتمؔ کے بالترتیب پہلے تین اشعار سے لے کر شَہہ شطرنج کو بساط سیاست سے ہٹانے کے ترجمان بہادر شاہ ظفرؔ کے شعر تک انگلستانی محبو ب کی مختلف اور بسا اوقات غزل کے روایتی محبوب سے متبائن خصوصیات اور نو آبادیاتی گھاتیں بہ آسانی سمجھی جاسکتی ہیں۔ انھی چند اشعار سے نو آبادیاتی صورت حال کے بہ تدریج ارتقا کے اشارے بھی ملتے ہیں۔ ایسے میں پروفیسر فتح محمد ملک کا یہ شکوہ کہ ہم نے میر و مرزا اور ناسخؔ و آتشؔ کی غزل میں تصور فرنگ کے ارتقائی سفر پر غور کرنے میں کوتاہی برتی اور نتیجتاً ۵۷ء کے کسی شہید کو اس انداز سے بھی یاد نہ کیا جیسے برسوں قبل سراج الدولہ کو کیا تھا (۱۵) بالکل بہ جا ہے ۔ امر واقعہ یہ ہے کہ ولیؔ سے داغؔ تک کی اردو غزل میں انگریز قوم کی بہ طور تاجر آمد ، مقامی معاشرت میں ایک ماتحت کی سی رہت بہت، در پردہ عسکری صلاحیت کا حصول، علاقائی سیاست میں عمل دخل، لگائی بجھائی اور دھونس دھاندلی سے سیاسی بساط پر آنے اور پھر شاہِ ہند کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے جیسے تمام عوامل بہ خوبی بیان ہوئے ہیں۔ بعض شعرا نے اس بدیسی معشوق کا کھلے لفظوں میں بھی اظہار کیا ہے :
ہند میں شہرہ ہے اس کے حسن کا
ہے بتانِ ہند کا بازار سرد
(دیوانِ ولاؔ، ص ۱۷۹)
زمیں سے وہ گئے تو آسماں سے تم اتر آئے
جگہ خالی نہ رہنے پائے عیسیٰ بن مریم کی
(کلیات سخاؔ، ص ۳۹)
کھل گیا مصحفِ رخسارِ بتانِ مغرب
ہوگیا شیخ بھی حاضر نئی تفسیر کے ساتھ
(کلیاتِ اکبر، ۲۷۳)
حلقہ ہائے موئی پیچاں سے بناکر پھانسیاں
اک فرنگی زاد نے کتنے ہی عاشق گل دیے
(کلیات ظفر، ص ۶۲۵)
غضب ہے توپ پر عاشق کو رکھ کر
فرنگی زاد تیرا فیر کرنا
(کلیاتِ ظفر، ص ۲۱)
اسی طرح نو آبادیاتی دور کا عاشق بھی غزل کے روایتی عاشق سے بدلا بدلا محسوس ہوتا ہے ۔ وہ اگر اپنے مقامی معشوق (علاقائی حکمران یا شاہِ ہند) سے مخاطب ہے تو اس کی غیر (مراد بدیسی اقوام) سے شناسائی اور سیاسی پینگیں بڑھانے پر شکوہ کرتے ہوئے اسے انجام کار سے متنبہ کرتا ہے :
سر اپنا عشق میں ہم نے بھی یوں تو پھوڑا تھا
پر اس کا کیا کریں غیروں کا اعتبار ہے آج
(کلیات میر، ص ۵۵۴)
ہرجائی اپنے وحشی کو کس منہ سے کہتے ہو
کیا آپ کا نشان قدم کو بہ کو نہیں
(شیفتہؔ : گلشن بے خار، ص ۹۷)
تو اور سوئے غیر نظر ہائے تیز تیز
میں اور دکھ تری مژہ ہائے دراز کا
(کلیاتِ غالب، ص ۲۵۰)
خط غیر کا پڑھتے تھے جو ٹوکا تو وہ بولے
اخبار کا پرچہ ہے ، خبر دیکھ رہے ہیں
(مہتابِ داغ، ص ۲۴۶)
جب یہی عاشق بدیسی معشوق (نوآبادکاری) سے مخاطبہ کرتا ہے تو اس کا لہجہ ، لفظیات اور انداز روایتی طرز سے جدا ہوتا ہے :
قتل عاشق کسی معشوق سے کچھ دور نہ تھا
پر ترے عہد سے آگے تو یہ دستور نہ تھا
(دیوان درد، ص ۲۴)
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
تمھی کہوں کہ یہ انداز گفت گو کیا ہے
(کلیات غالب، ص ۲۹۸)
عاشق ہوں پہ معشوق فریبی ہے مرا کام
مجنوں کو برا کہتی ہے لیلیٰ میرے آگے
(کلیات غالب، ص ۳۲۶)
جلوہ زار آتش دوزخ ہمارا دل سہی
فتنۂ شورِ قیامت کس کی آب و گل میں ہے
(کلیات غالب، ص ۲۷۳)
سمجھ سوچ کر دل دیا ہم نے ان کو
کوئی آفتِ ناگہانی نہیں ہے (یادگار داغ، ص ۲۲۰)
(جاری)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حواشی
۱۔ طارق ہاشمی، ڈاکٹر، اردو غزل۔ نئی تشکیل، اسلام آباد، نیشنل فاؤنڈیشن، ۲۰۰۸، ص ۱۸
۲۔ مختار صدیقی، غزل اور شہزاد کی غزل، مشمولہ فنون(جدید غزل) لاہور، ۱۹۶۹، ص ۳۸۶
۳۔ دہخدا، علی اکبر(مولف) لغت نامہ دہخدا، ش: ا، حرف غ، تہران، ۱۳۳۵ خورشیدی
۴۔ المنجد، کراچی: دارلاشاعت، ۱۹۶۲، ص ۸۷۵
۵۔الیاس انطون (مولف): القاموس العصری، قاہرہ: المطبع العصریہ، طبع ہشتم، ۱۸۵۷، ص ۳۷۶
۶۔ ایضاً
۷۔ سجاد باقر رضوی۔ معروضات، لاہور: پولیمر پبلی کیشنز، س۔ ن۔ ص ۵۹
۸۔ابوالکلام قاسمی: معاصر تنقیدی روے، علی گڑھ: ایجوکیشنل بک فاؤنڈیشن، ۲۰۰۷، ص ۷۰
۹۔ عبدالسلام ندوی، شعرالہند، حصۃ دوم، طبع چہارم، اعظم گڑھ، معارف، ۱۹۵۴، ص ۳۲۱
۱۰۔ ایضا
۱۱۔ طارق ہاشمی، ڈاکٹر: اردو غزل اور نیرنگی سیاست دوراں، مشمولہ: جنرل آف ریسرچ، ملتان: بہاء الدین زکریا یونی ورسٹی، دسمبر ۲۰۱۱، ص ۴۱
۱۲۔ شمس الرحمن فاروقی: تعبیر کی شرح، کراچی: اکادمی بازیافت، ۲۰۰۴، ص ۱۷۶
۱۳۔ نامہ غالب بنام چودھری عبدالغفور خاں سرور، مشمولہ: خطوط غالب، مرتبہ: غلام رسول مہر، لاہور: پنجاب یونی ورسٹی، ۱۹۶۹، ص ۵۵۰
۱۴۔ طارق ہاشی، ڈاکٹر: اردو غزل اور نیرنگی سیاست دوراں، ص ۴۶
۱۵۔ فتح محمد ملک، پروفیسر: تعصبات، لاہور: سنگ میل پبلی کیشنز، ۱۹۹۱، ص ۳۶
Leave a Reply
1 Comment on "اردو غزل کے روایتی کردار، نو آبادیاتی تناظر میں"
[…] اردو غزل کے روایتی کردار، نو آبادیاتی تناظر میں […]