مجبوریوں کا شاعرفانی بدایونی
محمد امتیاز
ریسرچ اسکالر، شعبہ ااردو جامعہ ملیہ اسلامیہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذکر جب چھڑ گیا قیامت کا
بات پہنچی تیری جوانی تک
شوکت علی خان فانی بدایونی 13 /ستمبر 1879 ء ،27/اگست 1941 ء /نیچرل شعرا ء کی کھیپ میں ایک اہم حیثیت کے مالک ہیں ۔ ان کی زندگی میں ان کے کلام کے چار مجموعے (1) دیوان فانی 1921 ء (2) باقیات فانی 1922 ء (3) عرفانیات فانی 1938ء ( 4)وجدانیات فانی /1940 ء شائع ہوئے ہیں وفات کے پانچ سال بعد (1946ء ) حیرت بدایونی نے “کلیات فانی ” شائع کیا ۔ گوکہ فانی کا مرتبہ بہت بڑے شعرا ء میں تو نہیں مگر اہم شعرا ء کی فہرست سے ان کا نام ہٹایا بھی نہیں جاسکتا ۔ انیسویں صدی کے آواخر اور بیسویں صدی کے آوائل میں جن اہم شعرا نے اردو غزل کا چراغ روشن کیا ان میں جگر ؔ ، اصغر ؔ اور حسرت ؔ کے ساتھ ساتھ ہی فانی ؔکا نام نامی بھی لیا جاتا ہے بلکہ بہت سے ناقدین نے ان کا نام اس دور کے ارکان اربعہ کے طور پر لیا ہے جن میں قاضی عبد الغفار اور ظہری احمد صدیقی کا یہ بیان ہے :
“جدید اردو غزل جن چار ستونوں پر قائم ہے ان میں فانی کا نام امتیازی حیثیت رکھتا ہے ان کو دوسرے ہم عصروں حسرت ، اصغر اور جگر پر کئی اعتبار سے امتیازحاصل ہے ۔ فانی کے جذبات اور خیالات میں ایک ایسا نکھار ہے جو دوسروں کے یہاں نہیں پایا جاتا۔”1
میں فانی کو مخلص شعرا ء کی فہرست میں شامل کرتا ہوں ۔ مخلص شعراء سے میری مراد یہ ہے کہ وہ شاعر ہی بننا پسند کرتے تھے اور شاعری ہی ان کی غذا ان کی محبت تھی وہ دنیا کے جھمیلوں سے ہمیشہ دور بھاگنے کی کوشش کرتے رہے اور شاعری کی دنیا میں پناہ لینے کے لیے آگئے ۔ شاعری ان کے لیے پناہ گاہ تھی پر سکون و پر کشش ؛مگر !انسان کے فطری تقاضوں اور بنیادی ضرورتوں سے کوئی مستثنا نہیں ہے ۔ اگر کسی شخص کو یہ استثنا مل سکتی تو فانی ضرور بالضرور اس استثنا کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے اور اپنی تمام زندگی شاعری کے لیے وقف کرتے ، مگر ایسا ناممکن تھا ؛ قاضی عبد الغفار ، مقدمہ میں لکھتے ہیں کہ:۔
“یہ مقدمہ اپنے اس دعوے سے شروع کرتا ہوں کہ میں کسی دوسرے شاعر کو نہیں جانتا جس نے اپنی شاعری کو اپنی زندگی کے تاثرات ، اپنی حقیقی واردات قلب اور تمام تر انسانی احساسات کا اس قدر صحیح آئینہ دار بنایا ہو۔ فانی کی شاعری یکسر خود فانی کی مجروح روح ہے ! اس شاعری کو فانی کی روح سے الگ کر لیجیے یا فانی کی شاعری کو اس سے خارج کر دیجیے ۔تو رہ بھی کیا جاتا ہے ان اوراق میں سوائے ایک وحشت زدہ اور ویران خلا کے ۔”2
اس بات سے تو کسی بھی طرح انکار نہیں کیا جاسکتا کہ فانی کے ہاں یاس وافسردگی ان کے اندروں اور رگ و ریشے میں سرایت کر چکی ہے وہ اگرچہ خود فانی مگر ان کے مصائب و آلام ، رنجش و غم لافانی تھے ۔ وہ عجیب قسم کی ذہنی الجھنوں کے شکار تھے ۔ ایک ہی طرح کے مصائب کا سامنا کرتے رہے جو کہ رنگ و روپ ، چہرہ و صورت بدل بدل کر بار بار ان کے سامنے آجاتے تھے ۔آل احمد سرور اورمحامد علی عباسی نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے :۔
“فانی کی غزل واقعی کسی زخمی غزال کی یا د دلاتی ہے ۔ اس لیے ان کے ذریعہ غزل کی روح سے ہم آشنا ہوتے ہیں ۔”3
“فانی کی شاعری بھی از اول تا آخر ان کی محرومیوں اور مایوسیوں اور بے زاریوں کی آئینہ دار ہے ۔ وہی مایوسی اور بے چینی جو زندگی بھر ان کے ساتھ رہی ان کی شاعری کی جان ہے ۔”4
وہ اس سے فرار کی ہر ممکن کوشش کرتے رہے مگر حالات نے ان کا بار بار تعاقب کیا وہ جہاں بھی جاتے یہ ” ایک لڑکا ” کی طرح ان کے پیچھے پیچھے چلے آتے جس کے لیے وہ دروازہ بھی بند نہیں کر پاتے تھے یہ ان کی زندگی کے ساتھ چمٹ کر رہ گیا تھا اس لئے اس سے فرار کی کوئی صورت ممکن ہی نہ ہو سکی اور یوں ان حالات کو ان کے ساتھ ہی دفنانا پڑا کہ :
مر کر تیرے خیال کو ٹالے ہوئے تو ہیں
ہم جان دے کے دل کو سنبھالے ہوئے تو ہیں
اگر جان دینے کا یہ نسخہ انہیں بہت پہلے مل جاتا تو وہ راحت پا تے مگر ہم ایک شاعر کھو دیتے ۔ میں نے اوپر جو بحث کی ہے اس کا خلاصہ یہی ہے کہ بار باران کے ہاں ایک ہی موضوع در آیا ہے کہ ذہنی الجھن سے کس طرح چھٹکارا پا یا جائے انہوں نے بہترے کوشش کی مگر شاعری بھی اس کا مداوا نہ کر سکی تو گھما پھرا کر ان کی شاعری کا محور تو بس یہی ایک ہے مگر جس کے گرد مخصوص مضامین گردش کرتے رہے جن میں حسرت ، افسردگی ، افسوس ، حشر ، قیامت ، آرزو ، جنون ، اضطراب ، انکار ، نہیں ، آشنا، بے تابی ، جبر ، وحشت ، دشواری ، اذیت ، ظلم ، فریب ، ماتم کدہ ، مرگِ ناگہانی ، برق ، آشیاں ، قاتل ، فنا ، ہستی ، آئینہ ، دشت ، صحرا ، موج ، ساحل وغیرہ، ان کی منزل مراد بس یہی طواف ہے وہ اس وجہ سے کہ دائرہ میں تو راہ کا ہی تعین ہوتا ہے اور نہ ہی منزل کا! اسوجہ سے یہ ان دونوں سے مستثنا ہوکر ماورائیت و فنائیت کے الگ جہاں میں چلے جاتے ہیں جہاں نہ تو کوئی شوق ہی جنم لیتا ہے اور نہ ہی کسی چیز کے پانے کی خواہش ہوتی ہے بس راضی برضائے یار :
بے گانہ اختیار ہو جا راضی برضائے یار ہو جا
میری آشفتہ حالیاں نہ گئیں دل کی نازک خیالیاں نہ گئیں
وفا چاہتے ہیں وفا چاہتاہوں
وہ کیا چاہتے ہیں میں کیا چاہتا ہوں
کہا جاسکتا ہے کہ فانی اور ان کی اندرونی خلش ایک دوسرے سے بر سر پیکار ہیں اور اسی بر سر پیکاری کا نتیجہ ان کی شاعری ہے جو ان دونوں کی درمیان دار ہے کبھی اس طرف کبھی اس طرف :
ہمیں تیری محبت میں فقط دو کام آتے ہیں
جو رونے سے کبھی فرصت ہوئی خاموش ہو جانا
دل میں فانی اک نہ اک ہنگامہ برپا ہی رہا
شوق تھا جب تک کسی کے شوق کا ماتم نہ تھا
دل سراپا درد تھا وہ ابتدائے عشق تھی
انتہا یہ ہے کہ فانی درد ابدل ہو گیا
مٹا دیا غم فرقت نے ورنہ میں فانی
ہنو ز ماتمئی مرگ ناگہاں ہوتا
اور تسلی سے سوا ہوگیا
درد جگر یہ تجھے کیا ہو گیا
نذر درد دل غم دنیا کیا
اک مٹایا داغ اک پیدا کیا
مگر ہم فانی کے ہاں درد و ہجر کا رونا نہیں دیکھتے نہ ہی انہیں محبوب کی بے وفائی غم ہے ۔ وہ عشق میں تو چوٹ کھائے ہوئے ضرور ہیں مگر اس کے لیے وہ روایتی نالہ و شیون کا طریقہ کار اختیار نہیں کرتے بلکہ وہ ہنسی کو مسکراہٹ ، غم کو صداؤں ، رونے کوہچکیوں میں دبانے کے قائل ہیں یہی وجہ ہے کہ یہ دبی دبی سسکیاں ، آنسو ؤں کی لڑیا ں ، آہ وفغاں کی جلن ، اضطراب کی بھٹی ،موت کی تمنا ،اور مایوسی کے اندھیرے وغیرہ تقریبا تمام اداسیاں اس دنیا میں اپنا ڈھیرا ڈالی ہوئی ہیں کہ انہوں نے اپنا بہترین ٹھکانہ اس شاعری میں پایا ہے جو فانی کی ہے ۔ اس کے نالے ،نالہ نا رسا ہیں ، اس کی فریاد ، فریاد رسی کے قابل نہیں ، عشق وصل سے محروم ہے ، مقدر جبر سے لبریز ہے ، آہیں بے اثر ہیں :
آسماں سر پر اٹھا لینے کی ہمت اب کہاں
لب تک آئیں بھی اگر آہیں تو آکر رہ گئیں
ہجر و وصال دونوں میرے حق میں قہر ہیں
یہ امتحان کا رنگ ،وہ صورت عتاب کی
جفا پر صبر کرنا ، غم سے گھلنا ، جان دے دینا
وفائیں کیجیے گا رفتہ رفتہ امتحاں میری
وہ تم کہ تم نے جفا کی تو کچھ برا نہ کیا
وہ میں کہ ذکر کے قابل نہیں وفا میری
ایک غم سو راحتیں اک عشق سو کیفیتیں
یاس کی لذت جدا ، کچھ اور حسرت کے مزے
آنسوؤں پے رونا منحصر نہیں
عاشقوں کیاشک باریس اور ہے
فانی عشق یا معشوق کو قصور وار نہیں ٹھہراتے ،وہ زندگی سے بیزار تو نظر آتے ہیں لیکن ساتھ ہی وہ مقدر کے فیصلوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جہاں ایک طرف وہ اس کی غلبگی کو تسلیم کرتے ہیں تو دوسری طرف وہ اس کو محض صبر اور مجبوری کے طور پر لیتے ہیں :
جسم آزادی میں پھونکی تو نے مجبوروں کی روح
خیر جو چاہا کیا لیکن بتا ہم کیا کریں
ساری دنیا سے انوکھی ہے زمانے سے جدا
نعمت خاص ہے اﷲ رے قسمت میری
زندگی جبر ہے اور جبر کے آثار نہیں
ہائے اس قید کو زنجیر بھی درکار نہیں
مجبور عریاں کو یہ خلعت مختاری
اﷲ رے کرم ہم اور توفیق گنہگاری
مختار ہوں کہ معترف جبر دوست ہوں
مجبور ہوں کہ یہ بھی کوئی اختیارہے
مجبور شکایت ہوں تاثیر کو کیا کہیے
تدبیر مقدر تھی تقدیر کو کیا کہیے
جبر کو کیوں کر نہ سمجھوں اختیار
تم نے باندھا ہے مجھے زنجیر سے
ہوں مگر کیا ! یہ کچھ نہیں معلوم
میری ہستی ہے غیب کی آواز
یہی وجہ ہے کہ عالم خوندمیری نے لکھا تھا:۔
“فانی کا شاعرانہ وجدان ، انہیں زندگی اور موت سے بلند تر ہوجانے کی جانب مائل کرتا ہے ۔”5
اور مغنی تبسم نے نتیجہ اخذ کیا کہ :-
“فانی نے زندگی کی بے ثباتی کو اپنے مشاہدے اور تجربے میں محسوس کیا اور زندہ رہنے کی بنیادی ضرورت کی تکمیل اور اس کے جواز کے لیے بقا کی خواہش کی ۔انکی نرگسی شخصیت میں خود بینی اور خود نمائی کا جذبہ بہت ہی تیز تھا ۔”6
فانی کے ہاں موضوعات کی تنگ دامانی طرحی مشاعروں کی بدولت در آئی ہے ۔ ان کے مضامین کی تو بات ہی نہیں بلکہ کئی کئی اشعار تو میرؔ و غالب ؔ و مومن ؔ کے معلوم ہوتے ہیں اگر ان اشعار کو الگ سے لکھ دیا جائے اوروہ شخص جو میرو غالب کا پرستار ہو تو ان کو بلا دریغ ان کے اشعار گردانے گا ۔ اس وجہ سے وہ قاری جن کا واسطہ پہلی دفعہ فانی سے پڑتا ہے تو ان کی غزلوں میں کوئی جدت (مضامین و موضوعات ، ردیف قافیہ کے حوالے سے ) نہیں پا تا اور نتیجتا وہ فانی کو ایک دفعہ پڑھ کر چھوڑ دیتا ہے اور مایوسی کے سوا اس کو کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔ مگر جو غزلیں فانی نے آمد ، دل کی اندرونی آواز ، اوار جذبہ حسن وعشق ، ہجر و ملال تحت لکھی ہیں ان میں وہ بڑے شعرا ء کے مراتب کے قریب پہنچے ہیں اور ان کے یہ اشعار ایک بار پڑھ کر بار بار پڑھنے کو دل چاہتا ہے اور بار بار پڑھ کر برابر ذہن میں گونجتے رہتے ہیں جب تک کہ نہ کوئی دوسرے مد مقابل اشعار مل جائیں :
دل سے کچھ امیدیں تھی وہ بھی اب انہی کا ہے
کاش عشق میں ہوتا دل ہی راز داں اپنا
زمانے نے مگر آئین مظلومی بدل ڈالا
کہ اب قاتل تو ملتے ہیں کوئی بسمل نہیں ملتا
ہم ہوئے جاتے ہیں قائل آہ کی تاثیر کے
اس نے کیا کہہ کر بڑھادی آج شان اضطراب
ہم دل کو ان الفاظ سے کرتے ہیں مخاطب
اے جلوہ گہ انجمن آرائے قیامت
میری ہوس کو عیش دو عالم بھی تھا قبول
تیرا کرم کہ تونے دیا دل دکھا ہوا
فانی کو یا جنوں ہے یا تیری آرزو ہے
کل نام لے کے تیرا دیوانہ وار رویا
بنتی نہیں ہے صبر کو رخصت کئے بغیر
کام ان کی بے قرار نگاہوں سے پڑ گیا
میر و غالب کی شاعری کی یہ خوبی ہے کہ اس کو پڑھ کر قاری نہ صرف ان کے عشق میں گرفتار ہوجاتا ہے بلکہ ان کے ساتھ حد درجہ ہمدردری بھی ہوتی ہے اور وہ اپنے آپ کو ان کا برابر شریک کار سمجھتا ہے ان کے ساتھ اپنائیت سی محسوس کرتا ہے ۔ جبکہ فانی اپنے کلام میں یہ خوبی پیدا نہ کرسکے قاری اس کا ہمدرد و غمخوار بننے کے لیے تیار نہیں ہوتا بلکہ اس کے حوالے سے محض اس کو افسوس ہوتا ہے اس کی مثال بعنہ ٖ ایسی ہے کہ کسی شخص کا اپنا عزیز یا رشہ دار مرجائے تو دکھ کاجو احساس اور تکلیف کی جو شدت اس کو محسوس ہوتی ہے وہ اس وقت پیدا نہیں ہوتی جب کوئی دوسرا مرجائے جس کو وہ محض جانتا ہو ۔ میر و غالب و اقبال و جگر اور کئی شعرا اس رشتہ کو بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں بہت سے شعرا ء جن میں فانی بھی ہیں اس میں کامیابی حاصل نہ کر سکے جب رشتہ ہی استوار نہ ہو سکا تو ظاہر ہے کہ ان کے دکھ درد ، سانحہ و المیہ کو محسوس کرناکیسا اور اظہار ہمدردی کہاں کی ، محض اظہار افسوس ہی ہو سکتا ہے ۔حالانکہ عالم خوندمیری نے اس کی کچھ اور توجیہ کی ہے کہ :۔
” فانی کا شمار ان چند شاعروں میں کیا جاسکتا ہے جنھوں نے لفظ کو لفظ کی خاطر نہیں ، بلکہ معنی کی جہت کو پیش نظر رکھ کر برتا ، ان کی فکر تخیلی ہے اور تخیل، فکری۔ اور چوں کہ ان کی شاعری میں سطحی جذباتیت نہیں ، اسی لئے ، ان کی شاعری کا لہجہ ، بیشتر موقعوں پر جذباتی Emotive نہیں بلکہ تخیلی Imaginativeہو جاتا ہے ،و وہ جذبے کو بیدار نہیں کرتے بلکہ وہ اپنے تخیلی فکر میں ، قاری کو شریک ہونے کی جانب مائل کرتے ہیں ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری کو قبول عام نہ ہو سکا ۔”7
اس کے با وجود بھی میرے لئے فانی کا غیر معمولی شاعر ہونا اس لئے بھی قابل قبول ہے کہ اکثر ان کا تقابل میرو غالب سے کیا جاتا ہے ۔ میرو غالب کجا اور فانی کجا وہ جو یوسف کے خریداروں میں اس سوت کاتنی والی بوڑھی اماں کا بھی نام بھی لیا جاتا ہے ۔ فانی بہرحال اسی فہرست میں داخل ہیں خصوصا رشید احمد صدیقی نے میریات و غالبیات اور یوسف سرمست نے میریات میں ان کا شمار کراکر ہم جیسے طلاب کے ” تنقیدی منہ ” ہی منہ بند کردیے اس وجہ سے فانی کا شاعرانہ اعتراف ان اکابر ادب پر ہی اعتراض ہو سکتا ہے جس کی کوئی اہمیت ہی نہیں ؛ابتدا ء میں جب قیامت کا ذکر چھڑ گیا تھا تو بات فانی کی جوانی اور شاعری تک پہنچی تھی اور آخر پر :
جب کسی نے لیا تمہارا نام
گریہ بے قصد و اختیار آیا 8
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مراجع
1 ظہیر احمد صدیقی ،مشمولہ کلیات فانی (دلی : قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ، 1993ء) 27
2 قاضی عبد الغفار ، مقدمہ مشمولہ کلیات فانی ، مرتب ، فارق ارگلی ( دلی : فرید بکڈپو )45
3 آل احمد سرور ، فانی کی معنویت ، مرتبین ، عبد المحمود ، مغنی تبسم ،مشمولہ نذر فانی بدایونی ( حیدر آباد :ایچ ای ایچ دی نظامس اردو ٹرسٹ لائبری 1981ء)53
4 محامد علی عباسی ، خطبہ استقبالیہ ، مرتبین ، عبد المحمود ، مغنی تبسم ،مشمولہ نذر فانی بدایونی ( حیدر آباد :ایچ ای ایچ دی نظامس اردو ٹرسٹ لائبری 1981ء)11
5 عالم خوندمیری ،فانی کا شعور زیست اور تصور مرگ ، مرتبین ، عبد المحمود ، مغنی تبسم ،مشمولہ نذر فانی بدایونی ( حیدر آباد :ایچ ای ایچ دی نظامس اردو ٹرسٹ لائبری 1981ء) 59
6 مغنی تبسم ، فانی بدایونی ــــــ حیات شخصیت اور شاعری کا تنقیدی مطالعہ (حیدرآباد :نیشنل بک ڈپو ،1969)184
7 عالم خوندمیری ،فانی کا شعور زیست اور تصور مرگ ، مرتبین ، عبد المحمود ، مغنی تبسم ،مشمولہ نذر فانی بدایونی ( حیدر آباد :ایچ ای ایچ دی نظامس اردو ٹرسٹ لائبری 1981ء)55
8 ظہیر احمد صدیقی ، کلیات فانی (دلی : قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ، 1993ء)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ: اردو ریسرچ جرنل میں شائع مضامین کی دوبارہ اشاعت پیشگی اجازت کے بغیر منع ہے۔ ایساکرنا قانوناً جرم ہے۔
Muhammad Imtiyaz Ahmad
Research Scholar @Dept. of URDU
Jamia Millia Islamia (Central University)
New Delhi, India 25.
Leave a Reply
2 Comments on "مجبوریوں کا شاعرفانی بدایونی"
تصویری اردو سے اردو زبان کا بہت نقصان ہوا ہے۔ اردو بیش بہا خزانہ انٹرنیٹ پر موجود ہونے کے باوجود سرچ انجمن کی پہنچ سے باہر ہے۔ ہم اور آپ ہی یونی کوڈ کے حق میں آواز بلند کرسکتے ہیں۔