کچھ یادگار شہر ستم گر ہی لے چلیں : ناصر کاظمی

سید ناصر رضا کاظمی اور ان کی شاعری — ایک سرسری مطالعہ

(بہ تناظر “ایک شام بیاد_ ناصر کاظمی” بتاریخ 18 نومبر 2016، بزم_ اردو قطر)

بقلم: سید فیاض بخاری کمال~

بچپن ہی سے مشہور غزلیں گنگنانا شاید فطری بات تھی۔ کبھی موسیقی لبھا گئی تو کبھی الفاظ کی چاشنی کے نشاط سے جھوم اٹھے۔ کبھی ردیف و قافیہ کبھی سلاست و روانی دل و دماغ پر حاوی ہوئے۔ مگر شاید اس وقت اشعار کو سمجھنے کی صلاحیت میں پختگی تھی اور نہ استعارات و تشبیہات کا فہم و ادراک۔ مگر جیسے جیسے ہوش سنبھالا، دیوان خانہ میں بیٹھے مہمانوں کی خاطر تواضع کرتے کرتے بات کرنے کے سلیقے کے ساتھ ساتھ محفل میں ہونے والی گفتگو اور بر محل استعمال ہونے والے اشعار نے غور و فکر کی دعوت دی ۔ اسی طرح اردو ادب میں دلچسپی بڑھتی گئی۔ مگر حالات نے اس شوق اور دلچسپی کو زیادہ دیرتک قائم رہنے نہیں دیا۔ وہ غزلیں جو بچپن میں زیر_ لب گنگناتے رہے آج بھی اس زمانے کی یاد کو تازہ کرتی ہیں۔ ان غزلوں میں ناصر کاظمی کی غزلیں بہت جلد دل کو بھاجاتی تھیں۔ حال آنکہ اس وقت ہمیں اس بات کا قطعی علم نہیں تھا کہ یہ کس شاعر کی غزلیں ہیں۔ ان غزلوں کے دل کو بھانے کی ایک بڑی وجہ شاید زبان و بیان کی سلاست و روانی تھی۔ ان غزلوں کی کچھ مثالیں یہاں پیش کی گئی ہیں:

اپنی دھن میں رہتا ہوں
میں بھی تیرے جیسا ہوں

نیت_ شوق بھر نہ جائے کہیں
تو بھی دل سے اتر نہ جائے کہیں

یاد آتا ہے روز و شب کوئی
ہم سے روٹھا ہے بے سبب کوئی

دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
وہ تری یاد تھی اب یاد آیا

یہ ان مشہور_ زمانہ غزلوں کی چند مثالیں ہیں جو بچپن میں نوک_ زبان پر ہوا کرتی تھیں۔ بزم اردو قطر کی اس گراں قدر کوشش(“ایک شام بیاد_ ناصر کاظمی” بتاریخ 18 نومبر 2016) نے ایک زمانہء دراز کے بعد ناصر کاظمی کو پڑھنے اور سمجھنے پر اکسایا ہے۔

سید ناصر رضا کاظمی، نہ متقدمین شعرائے اردو میں سے ہیں اور نہ ہی دور_ جدید کے شعراء کی صف سے، بلکہ آپ کا شمار اردو ادب کے متوسط دور کے مشہور شعراء میں ہوتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ناصر کاظمی کی شاعری میں کلاسیکی اقدار کے علاوہ جدیدیت کی نمایاں خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ آپ 1923 سنہء کو انبالہ میں پیدا ہوئے اور 1972 میں اس دار_ فانی سے رخصت ہوئے۔ مگر آپ کی شاعری نے آپ کی یاد کو اب تک زندہ و پائندہ رکھا ہے۔

آپ چند ایک رسائل کے ادارت کے فرائض بھی انجام دیتے رہے۔ آپ کی تخلیقات میں : برگ_ نے، دیوان، پہلی بارش، نشاطِ خواب (نظمیں) اور سر کی چھایا(منظوم ڈرامہ)، سوکھے چشمے کے کنارے (مضامین ) کے علاوہ کلیات_ ناصر کاظمی، اور انتخاب_ میر، ولی، انشاء، داغ اور نظیر اکبر آبادی وغیرہ شامل ہیں۔

وہ ایک فطرت شناس شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے مضمون نگار کی حیثیت سے بھی پہچانے جاتے ہیں۔ انسانی ذہن میں جو باتیں ابھرتی ہیں ان کی حقیقت بیانی اور عکاسی سے ان کی شاعری بھری پڑی ہے۔ مثلا، ایک غزل کے چند چنندہ اشعار ملاحظہ فرمائیں :

فکر_ تعمیر_ آشیاں بھی ہے
خوف_ بے مہری_ خزاں بھی ہے

خاک بھی اڑ رہی یے رستوں میں
آمد_ صبح کا سماں بھی ہے

رنگ بھی اڑ رہا ہے پھولوں کا
غنچہ غنچہ شررفشاں بھی ہے

اوس بھی ہے کہیں کہیں لرزاں
بزم_ انجم دھواں دھواں بھی ہے

کچھ ترا حسن بھی ہے ہوش ربا
کچھ مری شوخیء بیاں بھی ہے

وجہہ تسکیں بھی ہے خیال اس کا
حد سے بڑھ جائے تو گراں بھی ہے

زندگی جس کے دم سے ہے ناصر
یاد اس کی عذاب_ جاں بھی ہے

ان کی شاعری میں انسانی ذہن کی عکاسی کے علاوہ رومانیت، رفاقت و قربت، فرقت و جدائی وغیرہ کی بھی حسین پیرائے میں واقع نگاری پائی جاتی ہے۔ درج ذیل اشعار، انہیں خوبیوں کا ایک نمونہ ہیں:

اک رخسار پہ زلف گری تھی
اک رخسار پہ چاند کھلا تھا

تھوڑی جگمگ شیشے میں
ہونٹوں کا سایہ پڑتا تھا

چندر کرن سی انگلی انگلی
ناخن ناخن ہیرا سا تھا

واقعہ نگاری اور شاعری یا یوں کہیں کہ شاعری میں واقع نگاری ایک بہت ہی مشکل فن ہے۔ مگر سید ناصر رضا کاظمی اس میں بھی بڑے ہی کامیاب نظر آتے ہیں:

تو جب میرے گھر آیا تھا
میں اک سپنا دیکھ رہا تھا

تیرے بالوں کی خوشبو سے
سارا آنگن مہک رہا تھا

چاند کی دھیمی دھیمی ضو میں
سانولا مکھڑا لو دیتا تھا

تیری نیند اڑی اڑی تھی
میں بھی کچھ کچھ جاگ رہا تھا

میرے ہاتھ بھی سلگ رہے تھے
تیرا ماتھا بھی جلتا تھا

رات گئے سویا تھا لیکن
تجھ سے پہلے جاگ اٹھا تھا

تشبیہات و استعارات کے موزوں استعمال ساتھ ساتھ سلاست و روانی کی چاشنی ان کے حصے میں تھی:

ہرے گلاس میں چاند کے تکڑے
لال صراحی میں سونا تھا

چاند کے سینے میں جلتا سورج
پھول کے سینے میں کانٹا تھا

کاغذ کے دل میں چنگاری
خس کی زباں پر انگارہ تھا

دل کی صورت کا اک پتا
تیری ہتھیلی پر رکھا تھا

جب غم_ عشق ستانے لگتاہے بلکہ یوں کہا جائے کہ معشوق ستانے لگےاور امید و یاس کے علاوہ کچھ باقی نہ رہے تو شاعر یوں گویا ہوتا ہے:

سر میں جب عشق کا سودا نہ رہا
کیا کہیں زیست میں کیا کیا نہ رہا

رہ نورد_ بیابان_ غم صبر کر صبر کر
کارواں پھر ملیں گے بہم صبر کر صبر کر

شاعر کو جہاں محبوب کی جدائی برداشت نہیں وہیں اپنی خودداری کو بھی ٹھیس لگا نا منظور نہیں، تو شاعر کہہ اٹھتا ہے:

وہ دل نواز ہے لیکن نظر شناس نہیں
مرے علاج مرے چارہ گر کے پاس نہیں

تڑپ رہے ہیں زباں پر کئی سوال مگر
مرے لئے کوئی شایان_ التماس نہیں

غم_ عشق کے علاوہ غم_ زندگی، غم_ معاش کی الجھن بھی شاعری میں صاف نظر آتی ہے:

ایسا الجھا ہوں غم_ دنیا میں
ایک بھی خواب_ طرب یاد نہیں

میں اس جانب تو اس جانب
بیچ میں پتھر کا دریا تھا

دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
وہ تری یاد تھی اب یاد آیا

آج مشکل تھا سنبھلنا اے دوست
تو مصیبت میں عجب یاد آیا

بیٹھ کر سایہء گل میں ناصر
ہم بہت روئے وہ جب یاد آیا

سید ناصر رضا کاظمی ایک خوش فکر و خوش مزاج شاعر بھی تھے۔ وہ انقلابی پیغام کو بھی جابجا پہنچاتے رہے:

یہ کس خوشی کی ریت پر غموں کو نیند آگئی
وہ لہر کس طرف گئی، یہ میں کہاں سما گیا

گئے دنوں کی لاش پر پڑے رہوگے کب تلک
الم کشو اٹھو کہ آفتاب سر پہ آگیا

بدل سکو تو بدل دو یہ باغباں ورنہ
یہ باغ سایئہ سرو سمن کو ترسے گا

ہوائے ظلم یہی ہے تو دیکھنا اک دن
زمین پانی کو سورج کرن کو ترسے گا

اشارہ کرے جو نئی زندگی کا
ہم اس خودکشی کو روامانتے ہیں

اس زمانے کے حالات کے علاوہ انہیں ناقدرئی زمانہ کے ساتھ ساتھ زبان و ادب کے معیار کا غم، سخن دانواں اور سخن فہموں کی کمی بہت متاثر کرتی رہی:

زباں سخن کو سخن بانکپن کو ترسے گا
سخن کدہ مری طرز_ سخن کو ترسے گا

انہیں کے دم سے فروزاں ہیں ملتوں کے چراغ
زمانہ صحبت_ ارباب_ فن کو ترسے گا

جنھیں ہم دیکھ کر جیتے تھے ناصر
وہ لوگ آنکھوں سے اوجھل ہوگئے ہیں

سید ناصر کاظمی کے اس شعر کے ساتھ میں اپنی بات کو تمام کرنا چاہوں گا کہ:

ناصر تیرا میت پرانا
تجھ کو تو یاد آتا ہوگا

ناصر کاظمی کو اپنے محبوب نے یاد کیا ہوگا یا نہیں کیا ہوگا یہ تو ہم نہیں جانتے مگر بزم_ اردو قطر نے انہیں، اور ان کے کلام کو یاد ہی نہیں کیا بلکہ خراج_ تحسین پیش کیا ہے۔ ہم بزم اردو قطر کے سارے معزز اراکین و سامعین کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے ہمیں یہ موقع ہمیں فراہم کیا ہے۔ ہم اللہ سے دعاگو ہیں کہ اللہ تعالٰی سید ناصر رضا کاظمی کے چھوٹے بڑے گناہوں کو معاف فرمائے اور ان کی مغفرت فرمائے ۔ اور انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے ۔ آمین۔ بجاہ_ سید المرسلین ۔

(سید فیاض بخاری کمال~)

بشکریہ:

https://www.facebook.com/karwaneurduqatar/posts/1280185128707242/

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.