انڈیا میں اُردو

 *مصنف:                 ڈیوڈ میتھیوز

Click Here for PDF File

Click Here for PDF File

مترجم:                  ڈاکٹر محمد سلمان بھٹی۔اسسٹنٹ پروفیسر ،شعبہ اردو،

               لوئر مال کیمپس، یونیورسٹی آف ایجوکیشن ،لاہور ۔پاکستان۔

 msalman@ue.edu.pk

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شاید اس مقالے کا آغازایک مختصر سر گزشت سے کرنیکی جسارت کو درگزر کر دیا جائے۔یوں میں اس قابل ہو سکوں گا کہ میرے کہے کو درست تصور کیا جائے اور میں انڈیا میں اردو زبان کی موجودہ صورتحال کو خاص تناظر میں بھی پیش کر سکوں۔

میں نے اُردو زبان ۱۹۶۰ ء کی دہائی کے وسط میں سیکھنا شروع کی ۔اس کی ابتدا ہندستانی اور پاکستانی طلباء کے ساتھ خالصتاً لسانیاتی شوق کی بنیاد پراُس وقت ہوئی جب میں کیمبرج یونیورسٹی میں قدیم یونانی تاریخ کی تحقیق میں مصروف تھا۔ انڈین زبان کے ساتھ میری ابتدائی شنا سائی اتفاقیہ تھی، لیکن رفتہ رفتہ ’’انڈین‘‘ زبان سیکھنے کا امکان میرے لیے پرکشش بن گیا۔ اُس وقت تومجھے یہ بات معمولی لگی کہ میرے نئے رفقاء اُردو زبان سے آشنا ہیں،حالانکہ وہ بر صغیر کے مختلف علا قوں سندھ ، بنگال ، گجرات ، پنجاب ، اُتر پردیش اور بیہار سے تعلق رکھتے تھے،یہ انتخاب اُس وقت درست ثابت ہواجب مجھے 1965میں لندن یونیورسٹی کے سکول آف اورینٹل اینڈ افریکن سٹڈیزSchool of Oriental and African Studies میں صوتیات کے لیکچرارکے طور پرتعینات کیا گیااور مجھے مشورہ دیا گیا کہ میں مزید تحقیق کے لیے اردو زبان ہی کوبنیاد بناؤں۔یہ برطانوی یونیورسٹیوں کے پھلنے پھولنے کا زمانہ تھا جہاں اُس وقت غیر ملکی زبانوں کے ماہراساتذہ کو دلجمعی سے تراشا گیا۔ میرے دیرینہ ساتھی اورسرپرست رالف رسل Ralph Russell کی قیادت میں 1SOAS ترقی کر رہا تھا اور غالباً اس زبان نے دیگر کئی تدریسی زبانوں کے طلباء کو بھی اپنی جانب متوجہ کر لیا جو بھارتی ، پاکستانی اور ’’سیلون‘‘ ۲کے شعبہ جات میں پڑھائی جاتی تھیں۔یہ تاثر عام تھا کہ یونیورسٹی آف لند ن میں جہاں گراہم بیلے اُردو کی مخصوص نشست پر براجمان پہلے شخص ہیں، وہاں اُردو کی نگہداشت کا مناسب بندوبست ہے ،اُن کی موجودگی میں اردو کا مستقبل بحثیت ایک اہم تعلیمی مضمون کے کسی بھی شک وشبہ سے بالا تر دکھائی دیتاتھا۔ چنانچہ اگلے سال مجھے صوتیات کے لیکچرار کے عہدے سے مستعفی ہونے اور خود کو اردو کے لیے مکمل وقف کر دینے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہ ہوئی۔

قومی سطح پر بھی اُردو کے حق میں کئی اقدامات ہوتے دکھائی دے رہے تھے۔ اُس وقت BBC ۳ نے پہلا ریڈیو اور ٹیلی ویژن پروگرام پیش کیا جسے سلیم شاہد اور مہندرہ کول نے تیار کیا۔یہ پروگرام برطانیہ میں روز افزوں بڑھتی ہوئی انڈین اور پاکستانی آبادی کے لیے پیش کیے جا رہے تھے جن میں انتہائی عقلمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسی اُردو زبان کو چنا گیا جس میں ہندی کی معمولی آمیزش تھی۔ میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ انگریزی کے علاوہ دیگر زبانوں میں تیار کردہ اپنی نوعیت کے اولین پروگرام تھے جوBBCکے نیشنل نیٹ ورک سے مسلسل قسط وار نشر ہوئے ۔

 برطانیہ کے دیگر شہروں میں جہاں زیادہ تر مہاجر آباد تھے وہاں اُردو زبان کے حوالے سے کئی دیگر عوامل بھی سر گرم عمل تھے۔ بلا ناغہ مشاعرے منعقد ہوتے جیسے آج بھی ہوتے ہیں جنہیں سننے کے لیے سامعین کا جم غفیر امڈ آتا ۔اسلامی کلچرل سنٹر جس کی جگہ اب مشہور Regent Park Mosqueہے وہاں ہماری نئی’’ انجمن ترقی اردوبرطانیہــ‘‘ کی لگاتار کئی محفلیں منعقد ہو ئیں جس کے صدرراجہ صاحب محمود آباد(مرحوم) تھے۔اُردو ادب کے مختلف پہلووں پر مبنی کتب میں بر طانوی پبلشروں نے بھی گہری دلچسپی ظاہر کی۔رالف رسل اور خورشید الاسلام نے Three Mughal PoetsاورGhalib life and Letters جیسی کلاسیکی تصانیف دیں جنہیں مشہور زمانہ پبلشرز جارج ایلن اوران ون نے شائع کیا۔ کچھ برسوں بعد میں اور میرے ساتھی کر سٹو فر شیگل نے اپنی کتاب Anthology of Classical Urdu Love Lyrics کو شائع کروانے کے لیے University Press Oxford والوں کومعمولی سی تگ و دو کے بعد راضی کر ہی لیا۔

اس سے بڑھ کرایک اہم بات یہ تھی کہ مقامی تعلیمی حکام نے اُردو زبان کو مستقلاً تدریسی اعتبار سے بر طانیہ کے سیکنڈری سکولوں میں متعارف کروانے کے منصوبے پربھی غور کرنا شروع کر دیا۔جس کے نتیجے میں خاص اعداد و شمار کے مطابق اردو زبان برطانیہ میں فرانسیسی ، جرمنی اور ہسپانوی زبانوں کے بعد سب سے زیادہ پڑھی جا نے والی چوتھی زبان بن گئی۔

میں برصغیر پہلی مرتبہ 1968ء میں گیا جب مجھے یونیورسٹی کی جانب سے ایک سال کی تعلیمی رخصت دی گئی۔ میرے بھارت اور پاکستان کے سفر کا مقصدیہ تھا کہ میں اپنے شعبہ کے ممتاز محققین سے ملاقات کروں اوراردو زبان کے متعلق اپنی استعداد بڑھاؤں جس کے لیے میں نو آموز تھا ۔اُس وقت ان دونو ں ممالک میں علیحدگی اور خود مختاری کے بیس برس گزرچکے تھے۔ لیکن میرے نزدیک دونوں ممالک میں اُردو زبان کی ترویج کا عمل اُسی طرح جاری تھا جیسا کہ ابتداء میں تھا۔ فیضؔ ، جوش ملیح آبادیؔ، احمد علیؔ، کرشن چندرؔ، فراق گورکھ پوریؔ ، راجندر سنگھ بیدیؔ، قرۃ العین حیدرؔ اور عصمت چغتائی ٖؔبیسویں صدی کے چند ممتاز ادیب تھے جو اُس وقت حیات اور فعال تھے ۔ میں ابتداء میں بہت حیران تھا اوراُن کا شکر گزار بھی ،کہ یہ نابغہ ء روزگار ایک ایسے شخص کے ساتھ باآسانی ملاقات پرکیسے آمادہ ہو گئے جس کا اُردو زبان کے متعلق علم واجبی تھا۔ اُس وقت کراچی، دلی، علی گڑھ، لکھنو اورحیدر آباد کی جامعات ایسے محقیقن سے بھری پڑی تھیں جو بعد میں اُردو کا سرمایہ افتخار بنے ۔ اُس وقت کئی جولانی تصورات اورمنصوبوں پر فکری کام جاری تھا اور یوں محسوس ہوتا تھا کہ یہ تمام منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچیں گے۔جہاں گردی میں ،ہر شعبہ زندگی کے افراد سے تبادلہ خیال کیا ، ادبی محفلوں اور انجمنوں میں شرکت کی، تعلیمی اداروں میں مباحث بھی سنے ،اُس سال بھارت اور پاکستان میں غالب کی وفات کے سلسلے میں خصوصی طور پر صد سالہ تقاریب منعقد کی جا رہی تھیں۔میرے اس تاثر کو شاید نظر انداز کر دیا جائے کہ اردو ایسی صورتحال میں بھی کبھی مـغلوب نہ ہو گی اور اُس کا مستقبل ایسی صورت میں ماضی سے زیادہ تابناک ہو گا جب انڈیامیں وہ سرکاری زبان ہندی کے مدمقابل ہو۔یہاں یہ بیان بھی خارج از بحث نہیں کہ ہندی زبان کے اصل مقام کا اندازہ اکثر غلط فہمی اورغیر یقینی صورتحال پر مبنی ہے۔ دراصل ہندی کا شمار (دستور ہند کے حصے XVIIباب Iپیرا گراف 343کے مطابق) اُ ن اٹھارہ تسلیم شدہ زبانوں میں سے ایک کے طور پر ہوتا ہے جسے یوں بیان کیا گیا ہے ۔ـ’’دیوناگری رسم الخط میں متحدہ ہندستان کی سرکاری زبان ‘‘۔یہ منطقی طور پر عمومی لیکن اس غلط خیال کو تقویت دیتا ہے کہ ہندی بھارت کی قومی زبان ہے اور اسی نکتہء نظر کو ہندی کے معاونین بڑھاوا دیتے ہیں جس کی وجہ سیاسی یا کچھ اور بھی ہو سکتی ہے۔اُردو زبان کو ہندی سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا، اس سلسلے میں برصغیرکے حوالے سے اپنے کئے گئے کام کا میں ہمیشہ قائل رہا ہوں لہذا میں نے جلد ہی اس بات کو اپنامقصد بنا لیا کہ میں ’دیو ناگری‘ رسم الخط بھی اُسی طرح سیکھوں جیسے میں نے ’اردو ‘رسم الخط سیکھاتھا۔ اپنی قابلیت کے مطابق میں نے ’تُلسی‘ اور ’جیسی ‘کی تصنیفات اور میرؔ وغالب ؔکے دیوان کے مطالعہ کی کوشش شروع کی۔ اور مجھے معلوم ہوا کہ ذاتی گفتگو کے لیے مجھے سنسکرت یا پھر عربی اور فارسی سے نکلے ہوئے الفاظ کے استعمال میں کسی طرح کی دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ہندی پر گرفت کے حوالے سے بسا اوقات میری تعریف کی جاتی ہے اور اب تو میں نے عرصہ دراز سے یہ وضاحت کرنابھی ترک کر دی ہے کہ میں جو بول رہا تھا وہ ہندی نہیں اُردو تھی۔

یقیناً ہندی اور اُردو زبان کے درمیان تعلق انتہائی پیچیدہ ہے اور زبان جیسے حساس موضوع پردلائل دیتے ہوئے تواکثر اوقات یہ غیرمعمولی طور پر آسان دکھائی دیتا ہے۔زبانوں کے دیگر گروہ جیسا کہ سکینڈنیوین، سربیائی اورکروشیائی زبانوں کے ساتھ کچھ عمومی مماثلت بھی دیکھی جا سکتی ہے لیکن تاریخ شاہد ہے کہ زبان کے معاملے میں ایسی مماثلتیں کن مشکلات اور آفات کے دہانے تک لے جا سکتی ہیں۔اگر رسم الخط کے فرق کو نظر انداز کر بھی دیا جائے تو ہندی اور اُردو تقریبا ً ایک ہی سی زبانیں ہیں جنہوں نے ہمیشہ سے جنوبی ایشاء کی مختلف قومیتوں کو خواہ وہ کہیں بھی آباد ہوں باہم متصل کرنے میں قابل قدر خدمات انجام دی ہیں۔ایک خاص سطح پرپہنچ کریہ دونوں زبانیں ضرور ایک دوسرے سے مختلف ہو کر الگ الگ طریقے سے مطالعہ کا تقاضا کرتی ہیں۔ ہندی اور اُردو بولنے والوں کو فلموں میں ان دونوں زبانوں کی آمیزش سے کوئی دقت پیش نہیں آئی اسے وہ رجحان کے مطابق ہندی یاپھر اُردو میں سے کوئی بھی نام دے لیں ، تاہم انھیں ایک دوسرے کی خبروں کے پروگرام سمجھنے میں دقت کا سامنا ہو گا،لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لا محالہ دونوں زبانیں علیحدہ ہو ں گی اور ان کے درمیان بنیادی اعتبار سے یکسانیت بھی کم ہو جائے گی جتنی آج ہے۔

تیس سال قبل جب میں نے انڈیا کا پہلادورہ کیا تو ہندی ایک نوارد زبان تھی۔اور تمام علاقوں اور قومیتوں کے لوگوں کے لیے وہ طرز بیان فطری تھا جسے ہم عمومی طور پر اُردو سے منسوب کرتے ہیں۔ سنسکرت زبان کے کئی الفاظ ہندی زبان میں بہت عجیب، نقلی ،حتیٰ کہ مضحکہ خیز لگتے ہیں۔اس جگہ مجھے یہ بھی محسوس ہوا کہ اُردو بولنے والے جو خود کو اہل زبان سمجھتے تھے اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ فارسی کی جگہ سنسکرت کو دینے کا رواج فروغ نہ پا سکے گااوربالفرض ایسا ہو بھی جائے تو اس سے اُردو کی صحت پر کو ئی خاص اثر نہیں پڑے گا۔ اگرماضی کی جانب مراجعت کریں تو ہمیں یاد پڑتا ہے کہ ترکی میں بیس کی دہائی میں زبان کی اصلاحات کے بعد متعدد قدامت پرست سماجی حلقوں نے خوف سے آواز بلند کی جب اُن کا واسطہ ایک نئے رسم الخط میں ایسی زبان سے پڑا جس میں سے کلاسیکی عربی کے الفاظ کو خارج کر دیا گیا۔ اَسی برس بعداب ترکو ں نے یہ سیکھا ہے کہ سرکاری دباؤ کے سامنے ایسا عوامی رد عمل بے سودہوتا ہے ۔

اس لیے نسبتاً ایک جدید تقابل(اگرچہ تقابل کسی نہ کسی حد تک گمراہ کن ضرور ہوتے ہیں) سابقہ سوویت یونین سے بننے والی نئی ریاستوں کا کیا جا سکتا ہے۔ ذاتی وابستگی کی بدولت یوکرائن سے میرے مضبو ط مراسم ہیں۔ یوکرائنی زبان(لسانی اعتبار سے یہ روسی زبان کے بہت قریب ہے ) قدیم اور شاندار روایت کی حامل ہے۔ سوویت دور میں اس زبان کو کسی طرح بھی دباؤ کا سامنا نہ تھا ۔درحقیقت اس کے ادبی اداروں کومالی اور اخلاقی لحاظ سے مرکزی حکومت کی جانب سے خاطر خواہ معاونت ملتی رہی ، دیگر مثالوں کی طرح پھریہاں بھی روسی زبان عملی لحاظ سے انتظامیہ اور اعلیٰ تعلیم کی واحد زبان بن گئی۔ یو کرائن میں جہاں یہ وسیع پیمانے پر بولی جانے والی مادری زبان تھی وہاں روسی زبان بولنے والی نمایاں آبادی نے یو کرائنی زبان کو کبھی سنجیدگی سے لیا ہی نہیں۔ لیکن 1990ء کے بعدحالات اچانک یکسر تبدیل ہوگئے۔ آج یو کرائنی زبان جمہوریہ کی سر کاری زبان بن چکی ہے اور روسی زبان کی حیثیت راتوں رات خارجی زبان کی ہو کر رہ گئی ہے۔ روسی زبان کا استعمال کرنے والوں کی جانب سے کچھ عرصہ تو مظاہرے ہوتے رہے لیکن آخر کار انھیں اس حقیقت کا ادارک ہو گیا کہ زندگی بسر کرنے کے لیے حالات کو من و عن قبول کرنا ہو گا۔

 جہاں تک میرا خیال ہے بھارت میں اِس وقت Three Language formula (سہ لسانی فارمولا )ہے اس میں کتنی ہی تبدیلیاں یا اصلا حات کر دی جائیں یہ ایسے ہی چلتا رہے گا اور لو گوں کو بالآخراس کے ساتھ سمجھو تہ کرنا پڑے گا ۔اس پر بحث کی جا سکتی ہے کہ اُتر پر دیش اور ممکنہ بیہار میں اُردو کا جو درجہ اس وقت ہے اُسے کسی حد تک سر کاری درجہ دینے کے ساتھ ساتھ سکول نصاب میں بھی شامل کر لیا جائے ۔لیکن اگر ایسا ہو گیا توپھر سنسکرت کا کیا ہو گا؟ اگر اُردو کو شامل ِنصاب کر لیا جا تا ہے تو کیا یہ صرف اُن بچوں کو پڑھا ئی جائے گی جو اُردو بولنے والے خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں ( جس کا مطلب اور مقصد صرف مسلمان ہیں ) یا پھر سب کو ؟ اور کیا بھارت کے پاس معاشی طور پر اور اساتذہ کی صورت میں اتنے وسائل موجود ہیں کہ وہ ان آسائشوں کا متحمل ہو سکے۔

اس بات کی کوئی خاص اہمیت نہیں کہ شمالی بھارت کی دیگرریا ستوں کے بورڈ نصاب میں خصوصاً اتر پردیش میں سنسکرت جو کہ ہندی نصاب کا ایک اہم جزو ہے اُسے تیسری جماعت سے لیکر بارھویں جماعت تک لازمی مضمون کی حیثیت سے پڑھایا جا تا ہے ۔ اس کے بعد کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ سہ لسانی فارمولا کے تحت جدید اُردوزبان بھی پڑھی جائے۔جو لوگ اُردو کو اپنی مادری زبان سمجھتے ہیں اُن کا کہنا ہے کہ انھیں اپنی زبان کی تعلیم کے حصول سے محروم کر دیا گیا ہے۔

ہم بخوبی آگاہ ہیں کہ تاریخی اعتبار سے اُردو اور ہندی کو جدا نہیں کیا جا سکتا اور ایک زبان کا صحیح مطالعہ دوسری زبان کے متعلق کچھ علم رکھے بغیرممکن نہیں۔ یہ طریقہ کارامریکہ اور یورپ کی چند جامعات میں اپنایا گیا جہاں دونوں زبانوں کا ایک ساتھ پڑھنا لازم و ملزوم تھا۔ مثلاً،آسلو یونیورسٹی میں یہ بات لائق تحسین ہے جہاں ہندی اور اُردو کے طالبعلموں کو عربی ، فارسی اور سنسکرت میں تعلیم لینے کو کہا جا تا ہے جس کی وجہ سے عالمی سطح پر ہندستانی علوم اور شخصیات پر کام کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ مزیداس نکتہ کی وضاحت بھی کرتا چلوں کہ ناروے دنیا کے ایسے چند خوش حال ترین ممالک میں سے ایک ہے جس کی جامعات کے شعبہ جات محدود تعداد میں طلباء کے لیے تمام ضروری وسائل بھی فراہم کر سکتے ہیں ۔ وہاں ماسٹرز ڈگری کے حصول کے لیے سات سال یا پھر اس سے بھی زیادہ کاوقت درکار ہوتا ہے کیونکہ وسائل کی فراوانی کی بدولت دیگر ممالک کی طرح یہاں کے طلباء تعلیم سے فراغت کے بعد ملازمت کے حصول کے لیے بے تاب نہیں ہوتے۔

یہاں یہ ذکر خارج از بحث نہیں کہ لند ن میں ہم اس طرح کی آسائش کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ اورویسے بھی اس طرح کے مشترکہ نصاب پڑھائے جانے کی تجاویز زیادہ کامیاب نہیں ہوئیں اور نہ ہی ان کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ ہمارے ا ُردو کے طلباء کی اکثریت مسلمان ہے جن کا تعلق خصوصاً پاکستان سے ہے اور ہم انہیں اس بات پرقائل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے کہ ہندی کا مطالعہ بھی اُن کی تعلیم سے متعلق ہے ۔ جیسا زیادہ تربھارت میں ہو تاہے اسی طرح لندن میں بھی ہندی اور اُردو زبان کے رستے جدا جدا ہیں۔

 1968ء میں اپنی پہلی تعلیمی رخصت کے دوران مجھے کئی باربھارت جانے کا موقع ملا اور میں نے اُس وقت اپنی امید و مسرت بھلے وہ حقیقی تھی یا فرضی اُسے بتدریج مایوسی میں بدلتے دیکھا۔ اورسب اس بات سے اتفاق کریں گے کہ اُردو کے علمبرداروں پربھی مایوسی کے مہیب سائے لہرا رہے تھے۔اردو کی بقاء کے متعلق مسلسل سوال اُٹھایا جاتا ہے اور اس ناقابل حل مسئلے کے حل کی کوششیں تاحال جاری ہیں۔آج بھی ایسے چند افراد باقی ہیں جو ۶۰ء کی دہائی کے اواخر کی جھوٹی امید پر ٹکے ہیں ۔

حالیہ بحث کے حوالے سے سب سے مناسب وضاحت رالف رسل کے اُس مقالے میں تھی جو اُنھوں نے جنوری 1999 میں Economic and Political weekly میں لکھا۔انھوں نے اپنا نقطہ نظر اپنی روایتی سادگی اور بصیرت کے ساتھ پیش کیا اور اس پر کافی رد عمل سامنے آیا۔کئی قابل فہم تحفظات جن کا اظہار سید شہاب الدین ،سلمان خورشید، علی عمران زید، دانیال لطیفی اور دیگر نے کیا،اس کے باوجود مقالے کے بنیادی خیال کو عمومی قبولیت حاصل ہوئی۔ اگرچہ میں اس مسئلے کا ختمی حل پیش کرنے سے قاصر ہوں لیکن شاید اس موقع پر میرا تبصرہ بے جا نہ ہو گا۔

 درحقیقت اُردو کے حق میں ایسے کئی عوامل ہیں جنہیں مثبت طور پرنمایاں ہونا چاہیے۔ پہلا نکتہ نظر یہ کہ اُردو زبان ایک عظیم اور اہم ادبی ذخیرے کی حامل زبان ہے جو برصغیر کی دیگر جدید زبانوں میں ممتاز حیثیت رکھتی ہے۔ ایسا شاید اس لیے ہے کہ یہ شہرو ں اور درباروں کے اُن اشرافیہ کی پیداوار ہے جو چار صدیوں سے زائدتک حکمران بھی سمجھے جاتے رہے ۔ غزل کے شاعر جیسے محمد قلی قطب شاہؔ ، میر تقی میرؔ اور مرزا غالبؔ ایسے شاعر ہیں جن کے متعلق اکثر کہا جاتا ہے کہ اُن کی شاعری نہ صرف خوبصورت اور دلگدازہے بلکہ یہ اُس عہد کی اہم معلومات فراہم کرنے کا ذریعہ بھی ہے جس دور میں یہ شاعر موجود تھے۔ انیسویں صدی کے عظیم نثر نگاروں جیسا کہ سر سید احمد خان ، شبلی نعمانی اور نذیر احمد کے نثر پاروں کی اہمیت کو پس پشت ڈالنا ایسا ہی ہے جیسا ہندستان کی حالیہ تاریخ کے متعلق اہم دستاویزی شواہد کو نظر انداز کر دینا۔ یہ ادبی شہ پارے ہی انڈین ادب ہے جو ملک کا متنوع اور قیمتی ورثہ ہیں۔ماسوائے چند مستثنیات کے اُردو ادب میں معیاری ادب پاروں کے شاذ ہی کوئی ایسے اچھے ایڈیشنز یا جائزے موجود ہیں اور یہ بھی تقریباً نا ممکن ہے کہ کوئی ایسا مخطوطہ ہاتھ لگ جائے جو مکمل طور پربوسیدہ نہ ہو اور قابل اعتباربھی ہو ۔ایسے ادب پاروں کے جائزوں اور تراجم کے لیے جامعات میں ایسے فعال شعبہ جات قائم کرنے کی خاص ضرورت ہے جہاں مستقبل کے محققین کو اُن پیچیدہ صلاحیتوں سے مزین کیا جا سکے جو ایسے علوم کے مطالعے کے لیے لازم ہیں۔

جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا کہ اُردو کے ساتھ ساتھ ہندی زبان بھی فطری لحاظ سے پورے برصغیر میں رابطہ کی زبان کا درجہ رکھتی ہے اوراس وجہ سے یہ دورِ حاضر میں یہ زیادہ قبولیت کی حقدار ہے ۔کسی نہ کسی طرح اردو بولنے والے طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کو سستی اور مایوسی سے چھٹکارا حاصل کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ صرف یہی لوگ دوسروں کو قائل کرسکتے ہیں کہ اُن کی وراثت قابل تحفظ ہے تاکہ اُسے فروغ دیا جاسکے ۔بد قسمتی سے عام طور پر اہم عہدوں پر فائز لوگوں کی جانب سے اُردو کے حق میں اکثر لایعنی اور خوشامدی بیانات ملتے ہیں۔ اس کی مثال جسٹس ونکت چالیہ کا ایک تبصرہ ہے جس کا حوالہ دانیال لطیفی نے اردو کے متعلق اپنے حالیہ مقالے Nation and the World (UP) Agu, 1999. میں دیا ہے۔

 اُردو زبان انڈیا میں خاص مقام رکھتی ہے ۔ اُردو زبان میں جذبا تی احسا سات سے روحانی اور رومانوی سے دنیاوی خیالات تک متاثر

 کرنے تاثرات اجاگر کرنے اور بلحاظ گروہ وسعت کی صلاحیت موجود ہے ۔۔۔۔۔موسیقی، زندگی کی اداسی اور انسانی تعلقات کا

 وسیع دائرہ۔یہ عظیم ادب علم کے خزانے کی بہترین فکرا ور اسرارکا گھر ہے۔یہ بذاتِ خود تہذیب و ثقافت ہے۔ ۴

میں یہ بات قبول کرنے کو تیار ہوں کہ جسٹس ونکت چالیہ اُس نا انصافی کے مشاہدہ کی کوشش کر رہے تھے جو اُردو زبان کے ساتھ ہوئی۔ اور انکے مشاہدات دوسروں کی رہنمائی کے لیے تھے۔ اگر اُردو زبان واقعی ہی ایک شاندارمظہرکی حامل ہے جیسا کہ مندرجہ بالا اقتباس میں کہا گیاہے تو کوئی بھی وجوہات کی بنیاد پریہ پوچھ سکتا ہے کہ پھر ا س زبان کی خاطر اتنا کم کام کیوں ہوا ؟

شاید یہ نوشتہ دیوار ہے لیکن پھر بھی اس بات پر زور دیا جانا چاہیے کہ اگر لوگوں کو اپنی ملک پر فخر ہے اور اُس کی ترویج کے لیے اگرعملی طور پر اُن کی حوصلہ افزائی کی جائے تو غالب امکان ہے کہ وہ اس روایت کو زندہ رکھنے کے لیے اپنی بھر پور کوشش کریں گے۔

 یہ امر بھی قابل غور ہے کہ اُردو نے بین الاقوامی سطح پردیگرجنو بی ایشیائی زبانوں سے زیادہ پذیرائی حاصل کی ہے۔ نا صرف یہ کہ اُردو دنیا کے کئی ممالک میں بولی جا تی ہے بلکہ اس کو سر کاری پذیرائی بھی حاصل ہے۔ خاص کربرطانیہ میں جہاں کے سر کاری عہدے دار اس بات کوماننے پر آمادہ ہیں کہ یہ قومی تعلیم کا ایک اہم جزو ہے۔

تاہم ہمیں اس کے عالمی معیار کے متعلق مبالغہ آرائی سے اجتناب کرنا چاہیے جو کانفرنسوں کا ایک اہم موضوع بن چکا ہے ۔ ہم اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ ایسی قرار دادوں کو پذیرائی نہیں ملے گی جو کہ اس طرح کی کانفرنسوں کے موقع پر پیش کی جاتی ہیں مثلا اُردو زبان کو اقوام متحدہ کی ساتویں زبان یابرطانیہ کی دوسری زبان بنا دینا چاہیے۔ تاہم ایسے مباحث اُن لوگوں کو اُردو کی اہمیت جتلانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جو اُردو کے وجود سے بھی ناواقف ہیں۔

اردو کے لیے اب بھی بہت کچھ کرنا باقی ہے ۔اور اس لحاظ سے انڈیا اُن اولین خواہشات کی عملی تکمیل کے لیے بہتر وسائل کا حامل ملک دکھائی دیتا ہے حالانکہ سطحی لحاظ سے پاکستان پر اُردو زبان کے فطری وطن ہونے کا گمان گزرتاہے۔

اس سلسلے میں ایک مثال کافی ہو گی۔ میرا زیادہ رجحان دکن کے دورِ وسطی کے ادب سے رہا ہے جو سولہویں اور سترھویں صدی میں گولکنڈہ اور بیجا پورکے درباری عہدمیں حکمرانوں کی سرپرستی میں تخلیق ہوا۔اس صدی کے پہلے نصف میں۵ اس ادب کے اُن بیش قیمت نمونوں کے بڑے حصوں کوجن پر صدیوں سے گرد کی دبیز تہہ چڑھ چکی تھی ،عبد الحق، محی الدین قادری زور، نصیر الدین ہاشمی اور دیگر محقیقن نے از سر نو دریافت کیا اور تدوین کے بعد انہیں شائع کروایا ۔ ولیؔ کو اُردو کا پہلا شاعر تصور کیا جاتا ہے لیکن اس تدوین اور اشاعت سے اردو ادب کی تاریخ ولی کے عہد سے کئی زمانے پیچھے چلی گئی ۔یہ عہد ساز تحقیقات اُس دور میں منصہ شہو د پر آئیں جب درحقیقت عالمانہ تحقیق کے طریقہ کار نہ تو موجودہ جدید خطوط پر استوارتھے اور نہ ہی وسائل لا محدود ۔ایسی صور ت میں یہ کوششیں کلیدی حیثیت کی حامل ضرور ہیں اورکوئی بھی ان کی خدمات سے انخراف نہیں کر سکتالیکن یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ دورِ حاضر میں ان محققین کی خدمات کو سنجیدہ نظرثانی کی ضرورت ہے۔ دکنی ادب کے تقریبا تمام متن قابل قبول ادبی معیار سے کہیں کمتر ہیں اور اصل متن کے متعلق زیادہ سے زیادہ ایک خام سا تاثر ہی دیتے ہیں۔لیکن ایسے کاموں کی تدوین سے کوئی ایک شخص عہدہ براں نہیں ہو سکتا جو تن تنہا ہی گوشہ تنہائی میں محنت کرتا رہے۔ایسے کاموں کا لسانیاتی بنیادوں پر تجزیہ کر نے کے لیے ہمیں نہ صرف اُردو ، عربی، فارسی بلکہ سنسکرت ، مراٹھی اور دیگر انڈین زبانوں کے ایسے قابل محقیقین بھی درکار ہیں جن کی مہارتوں پر مکمل بھروسہ کیا جا سکے۔ سترکی دہائی کے اوائل میں حکومت آندھرا پر دیش کی سرپرستی میں ایک دکنی لغت شائع کی گئی جس میں اس سے قبل شائع کردہ لغت کے متن کا صرف کچھ ہی حصہ شامل کیا گیا تھا ۔ مرتبین نے شایداُن الفاظ کو حذف کر دیا جن سے وہ خود ناواقف تھے یا پھر جن کی تحقیق سے وہ تھک یااُکتا چکے تھے۔ ایسی ’’لغت‘‘ یقینابے کارہی تھی۔ میرے خیال میں ایسے اہم موضوعات پر تحقیقی کام صرف انڈیا کے تعلیمی اداروں ہی میں ہونا چاہیے جہاں قابل محقیقن ہمہ وقت موجود ہیں۔انڈین تاریخ و ثقافت کے متعلق جس سے ہم فی الوقت مکمل طور پر ناواقف ہیں اُس پر کی جانے والی محتاط تحقیق ہم پر کئی انکشافات کے در وا کرے گی اور اُس پر زیادہ لاگت بھی نہیں آئی گی۔

 اہم اور لازمی چیزوں کی فہرست لا متناہی ہے۔حتیٰ کہ دوسرے ہزاریے کے آغازپر ہمیں تحقیق کرنے کے حوالے سے کئی بنیادی سہولتوں کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ اُردو کی کامل صحت پر مبنی لغت موجود نہیں ،نہ ہی اس ادب کی کوئی درست تاریخ اور نہ ہی اس کی گرامر کاکوئی مستندحوالہ، صرف چندمستثنیات کے ،بس کچھ گنے چنے بہترین لکھاریوں کے کاموں کے علاوہ کوئی قابل قدر کام موجود نہیں ۔ تاہم اخبارات و رسائل میں کئی بے بنیادبحثیں ضرورہیں مثلا دکنی کو ہندی کہا جائے یا اردو،اور یہ کہ زبان کاماخذاُس ، یاپھر دیگر پراکرتوں کے حوالے سے تلاش کیا جائے؟بسا اوقات تویہ ایسے ’’محقیقن ‘‘کی تحریریں ہوتی ہیں جو دیو ناگری رسم الخط کو سمجھنے سے بھی قاصر ہیں۔ یہ تحقیق انتہائی محتاط منصوبہ بندی اور تعاون کا تقاضا کرتی ہے جو مختلف مکاتب فکر کے محقیقن سے مالی معاونت سے زیادہ خصوصی توجہ کی متقاضی ہے۔شیکسپیئر کو ایک بے ہنگم اور ناقابل فہم حالت میں عوام تک پہنچا کر کیا ہم واقعی انگریزی زبان کے مستقبل اور مقام کے متعلق کوئی سنجیدہ مباحثہ کر سکتے ہیں؟

ایک اہم نکتہ جو رالف رسل کے EPW ۶ میں تحریر کردہ مقالے سے اُبھرتاہے وہ اُردو رسم الخط سے متعلق ہے۔ یہ بات کس حد تک فائدہ مند ہے کہ اردو زبان کو دیوناگری رسم الخط میں لکھا جائے ؟

میری ذاتی رائے ہے کہ اُردو کو اس کے رسم الخط سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا اور اس حوالے سے میں سیّد شہاب الدین کی رائے سے متفق ہوں۔ اُردو اپنے رسم الخط کے بغیر اُردو نہیں ہے؛ یہ ہندی کا ایک انداز بن جا تی ہے۔ اُردو اپنے رسم الخط کے بغیر جلدمعدوم ہو جائے گی اس کے برعکس اُردو یورپی زبانوں کی طرح نہیں جن کا ایک جیسا ہی رومن رسم الخط ہے ۔ اور انڈین زبان جس میں دیو ناگری رسم الخط مشترک ہے اُ س کا کوئی وطن نہیں مزید براں ایسا کرنے سے اُردو اپنا قیمتی روثہ سے رابطہ کھو دے گی۔ کیونکہ یہ نا ممکن ہے کہ تمام کلاسیکی اور جدید ادب دیو ناگری رسم الخط میں لکھا جائے۔۷

جہاں تک ممکن ہوہمیں اُردو کے ادبی کاموں کا ترجمہ یا لفظی ترجمہ(نقل حرفی) دیو ناگری ، ہندی ، انگریزی زبان یا پھر دنیا کی کسی بھی زبان کے رسم الخط میں کر لینا چاہیے ۔ اس سے اُردو کو فائدہ ہی ہو گا اور یہ اد ب اُن شائقین کے لیے باآسانی میسر ہو سکے گا جو اسے اب تک نہیں پڑھ پائے ۔تاہم میری رائے ہے کہ سادہ نقل حرفی کچھ زیادہ مفید نہیں ہوتی بھلے اس سے میرؔ اور غالب ؔکے الفاظ دیوناگری پڑھنے(با الفاظ دیگرہندی خواندہ)والے مسلمان جو اُردو بولتے ہیں انہیں میسر آجائیں،تو کیا یہ انہیں الفاظ کے حقیقی معنی سمجھنے کے قابل بناد ے گی ؟ ایسے ادب پاروں کے لیے لامحالہ لغات ، وضاحتوں اور تبصروں کی بھی ضرورت ہو گی۔جب لوگ اُردو کے رسم الخط سے واقف ہی نہیں ہوں گے اور انہیں بنیادی تعلیم ہندی میں دی گئی ہو گی جو ادبی اعتبار سے اُردو سے مختلف ہے تو وہ اُن روایات سے اپنا تعلق کھو بیٹھیں گے جو اُردو کے ادراک اور سمجھ بوجھ کے لیے لازم ہے ۔ ہزاروں انڈینزکو یقیناً غالب کے دیوان کا پہلا شعر ضرورازبر ہو گا،بھلے انھوں نے نقل حرفی میں پڑھا ہو یا پھر ریکارڈنگز کی صورت میں سنا ہو۔ لیکن میرے نزدیک معدودے چند ہی ہوں گے جنہیں یہ اچھا تو محسوس ہو ا ہو گا لیکن وہ اس کے معنی و مفاہیم سے یکسر نابلد ہو ں گے ۔

چلیں اسے بالائے طاق رکھیں،لیکن اس حقیقت کے باوجود ماضی میں اُردو زبان بولنے والی کمیونٹی کے کچھ نمایاں اراکین نے اس کے رسم الخط کو تبدیل کرنے کی سفارش کی جس کی قبولیت کے امکانات محدود تھے جس کی وجہ سے یہ سوال کم سنجیدہ اورغور طلب ہے ۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اس سمت میں لیے گئے اقدام کوغیض و غضب یا اس سے بھی بُرے حالات کا سامنا کرنا پڑتا۔

جہاں تک اُردو زبان کے معیار کا تعلق ہے میرا خیال ہے کہ موجودہ صورتحال میں ہمیں حالات کی حقیقت کو قبول کر لینا چاہیے ۔ شمالی ہندستان کے ایسے علاقے جہاں اُردو بولنے والے مقامی لو گوں کی تعداد زیادہ ہے وہاں اُردو زبان کی حیثیت ہندی زبان کے مقابلے میں ثانوی رہے گی۔ یہی معاملہ یو کرائن میں روسی زبان پربھی لا گو ہوتا ہے جس کا تذکرہ پہلے کیا جا چکا ہے۔ ویلز جہاں حال ہی میں پارلیمنٹ کا قیام عمل میں آیا،وہاں ویلش کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ درپیش ہے ۔لیکن اس سے مایوس نہیں ہو نا چاہیے۔

جیسے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ انڈیا میں اُردو زبان کی بقا یا بحالی کا راز تعلیم میں مضمر ہے۔میعاری سکول نہ ہو نے کی بدولت مدارس اُردو زبان کی تعلیم کے لیے پہلے ہی سے مناسب اقدامات کر رہے ہیں لیکن وہ اس سے بھی بہتر کر دار ادا کر سکتے ہیں۔ یہ ان کے ارباب اختیار کے لیے زیادہ مشکل عمل نہیں ہو گا کہ وہ اپنا گھسا پٹانصاب تبدیل کر کے اُسے جدیدتقاضوں سے ہم آہنگ کریں ۔ یہ تجویزدو سال قبل جامعہ اردو علی گڑھ کے رجسٹرار نے میرے سامنے رکھی تھی جو کہ اس نکتہ نظر پر میری رائے لے رہے تھے ۔لیکن بعد ازاں لند ن آئے ایک وفد سے ابتدائی ملاقاتوں کے دوران کی ہوئی گفتگو کے بعد اس کے متعلق مزید کچھ نہیں سنا۔

رالف رسل کا یہ نکتہ نظر درست ہے کہ ایسے سر کاری ادارے جنہیں حکومتی یا نجی معاونت حاصل ہوتی ہے انھوں نے اس میدان میں کوئی خاص پیش رفت نہیں کی ۔اور وہ خوش گمانی پر مبنی یہ مشورہ دیتے ہیں کہ یہ ذمہ داری اردو زبان بولنے والوں پر ہی عائد ہوتی ہے ۔والدین کو اس بات پر اکسانا کہ وہ بچوں کو ایک متوازی نظام تعلیم مہیا کریں ایک نیک خیال ہے ۔ لیکن جیسا کہ شہاب الدین نے بتایا کہ وہ لوگ جو ملک کے سب سے غریب اور محروم علاقوں کے باسی ہیں ایسے اقدامات نہیں اُٹھا سکیں گے ۔ ہم بخوبی جانتے ہیں کہ مدارس کی حالیہ تنظیم نو اور یکجائی کے باعث اُردو بولنے والوں کے لیے اُس معمولی تعلیم سے فائدہ حاصل کرنا بھی محال ہو چکا ہے جو مدارس میں دی جاتی تھی ۔ تمام انڈیا میں کئی محنتی اورقابل اساتذہ موجود ہیں اور اگراُنھیں موقع فراہم کیا جائے تو وہ ’’اپنی مدد آپ ‘‘ کے تحت کام کر نے پر رضامند ہوجائیں گے ۔ یہ ایسے افراد ہیں جنہیں ہمارا ہدف ہونا چاہیے ۔اور جو اپنے اُن شاگردوں کو سکھانے کی کوشش میں مصروف ِ عمل ہیں جنہیں بہتر تعلیم کی ضرورت ہے ۔

انڈیا میں خالصتاً انڈین میڈیم سکولز اور یونیورسٹیاں جن میں سے ایک کی حال ہی میں تجویز دی گئی ہے ،میری رائے میں نا مناسب ہے ،اگر اُردو میڈیم (اردو زریعہ تعلیم )سے مراد ایسے ادارے ہیں جہاں تمام مضامین صرف اُردو زبان میں پڑھائے جائیں گے تو اُس کے لیے شمس الرحمن فاروقی شاید حد سے تجاوز کر جاتے ہیں اور اس کو ’’جہالت میں پڑے رہنا ـ‘‘ کے طریقے سے تعبیر کرتے ہیں اس سے ہم باآسانی اس کا مطلب سمجھ سکتے ہیں۔ ہم رومانوی انداز میں اُس عہد پارینہ کی جانب رجوع کر سکتے ہیں جب نظاموں کے دور حکومت میں عثمانیہ یونیورسٹی نے مطلقاً اُردو زبان میں نصاب ترتیب دیا۔ لیکن یہ یقینا دورِ حاضر میں طویل المیعادعملی اورحقیقت پسندنظریہ نہیں ۔یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ بغور جائزہ لینے پر جامعہ عثمانیہ کے تدریسی نظام میں کئی نمایاں کمیاں دکھائی دیتی تھیں اور اسی وجہ سے وہ طویل المیاد نہ ہو سکا اور اب محض ایک تاریخی دستاویز ہے ۔

اس کا بہترین حل یہ ہو گا کہ اس بات کا اعتراف کر لیا جائے کہ خصوصاً انڈیا کی شمالی ریاستوں میں اُردو زبان ہندی بولنے والے ہندوؤں کے لیے اتنی ہی اہم ہے جتنی کہ اُردو زبان بولنے والے مسلمانوں کے لیے ہندی۔ دونوں زبانوں نے ہمیشہ ایک دوسرے پر انحصار کیا ہے اور ان کا آپس میں گہراربط رہا ہے ۔ اگر کسی طرح اُردو زبان کو اُتر پر دیش اور بیہار کے سکولوں کے تدریسی نصاب میں صحیح مقام دے دیا جائے تو زبان کے کئی مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے ۔ یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ اُردو لکھاریوں کی ایک کثیر تعداد مسلمان تھی اور اب بھی ہے ۔ اُردو زبان صرف مسلمانوں کی محفوظ کردہ زبان نہیں ہے جس کامقصد صرف اسلامی تعلیمات کی ترویج ہو۔

یہ ایک مکمل زبان ہے جس کی جڑیں انڈیا میں ہیں اور اس نے انڈیا کی ثقافت، معاشرت اور تاریخ میں اتنا ہی کردار ادا کیا ہے جتنا دوسری زبانوں نے ۔ یہ ایک مثالی صورتحال ہے لیکن اس انقلابی لائحہ عمل کو عملی جامہ کیسے پہنایا جائے؟ یہ تجویز پیش کرنا میرے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔

مختصراً ،میرے خیال میں اس سلسلے میں ذیل کے چند نقاط پر زور دینا ضروری ہے۔

۱۔           اُردو انڈین زبان ہے جس کا ادب اس سرزمین کی صدیوں پر پھیلی تاریخ اور ثقافت کا آیئنہ دار ہے ۔ انڈیا کے بارے میں اُس وقت تک کچھ بھی نہیں لکھا جا سکتاجب تک عربی اور فارسی زبان کے ساتھ ساتھ اردو کے متعلق بھی خاطر خواہ معلومات موجود نہ ہوں۔

۲۔ اُردو کو جمو ں اور کشمیر کی ریاستی زبان کا درجہ دینا ،سنسکرت کو اُردو بولنے والے افراد کے لیے ’’جدید‘‘ انڈین زبان تصور کرنا ،اور ایسے لوگوں کو پروفیسر لگانا جنہوں نے اُردو صرف دیوناگری رسم الخط میں پڑھی ہے کسی بھی معقول شخص کو احمقانہ لگے گا۔ایسے عجیب و غریب فیصلوں کی واحدتوضیح یقینا اُردو کو تباہ کرنے کی مخفی خواہش ہی دکھائی دیتی ہے۔میرے رائے میں یہ ایک بہت بڑا المیہ ہو گا۔

۳۔ انڈیا کے کئی دانشو روں نے صرف اردو زبان ہی میں لکھا ہے۔ ان کی کوششیں کسی طورکمترنہیں اور نہ ہی انہیں نظر انداز کیا جا سکتاہے۔ اسی لیے یہ بہت ضروری ہے کہ مستقبل کے محقیقن کو اِسی زبان میں تر بیت دی جائے تاکہ ُان کے خیالات کی گہرائی کوسمجھا جا سکے۔

۴۔          اُردو زبان و ادب کے تمام پہلو ؤں پر (حتی کہ بنیادی سطح پر ) خاطر خواہ کام کر نے کی ضرورت ہے۔ بہت ساکام صرف انڈیا میں ہی کیا جا سکتاہے جس کی یونیورسٹیاں اور ادارے اس طرح کی تحقیق کیلئے موزوں ہیں۔

۵۔          انڈیا میں بہت زیادہ آبادی اُردو بولنے والے لو گوں کی ہے ۔اور اس وجہ سے یہ اُن کا بنیادی حق ہے کہ ان کی مناسب تعلیم بھی ان کی اپنی ہی  زبان میں ہو ۔

میں اپنی گفتگو کو برطانیہ میں اردو کے حوالے سے مکمل کر کے ختم کردوں گا جس کے متعلق بحث شاید میرابنیادی مقصد ہے ۔

 جیسا کہ میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ بر طانوی تعلیم میں اردو زبان کی گنجائش ہے اور اس کا درجہ حالیہ طور پر عام فہم Community language سے بڑھا کر Taught foreign language کر دیا گیا ہے جو عملی طور پر اس کے درجے کو فرانسیسی ، جرمن اور ہسپا نوی زبان کے مساوی کر دیتا ہے۔ عملی طور پر عوامی امتحانات میں شرکت کرنے والے طلباء کا تعلق زیادہ تر اُردو یا پنجابی زبان بولنے والوں سے ہو تا ہے۔ لیکن اردو زبان کی تعلیم ایسے طلباء کے لیے بھی ہے جن کا جنوبی ایشیا سے کوئی تعلق نہیں ۔ مزید یہ کہ کئی انڈین اور پاکستانی بچے جو کہ برطانیہ کے سکو لوں میں زیر تعلیم ہیں اورجن کا تعلق وہاں آبادہونے والے لوگوں کی دوسری یا تیسری نسل سے ہے اور اُن کی بنیادی زبان انگریزی بن چکی ہے ، لہذا اُن میں سے کئی طالب علم اُردو زبان کو مکمل طور پر ایک بیرونی زبان کے طور پرہی پڑھ رہے ہیں۔

ہمیں زبان کی تعلیم میں جن مسائل کا سامنا ہے وہ اُن سے مختلف نہیں جو انڈیا کو درپیش ہیں ۔ ان میں پہلا اور سب سے سنجیدہ مسئلہ سکولوں میں استعمال کی جانے والی مناسب کتب کی عدم دسیتابی ہے ۔ ماضی میں اساتذہ کو بہت زیادہ محنت کر نا پڑتی تھی کیونکہ وہ تدریس کے لیے عام اور پہلے سے دسیتاب مواد کاہی استعمال کرتے جس میں کئی خامیاں تھیں۔گزشتہ سال لندن کے پبلشر، Hodder and stoughton” ”نے Teach yourself Urdu (میتھیو اینڈدلوی لندن۔۱۹۹۹)شائع کرنے پر رضا مندی ظاہر کی جو اپنے محدوددائرہ کار کے باوجود مارکیٹ میں موجود خلا کو پُر کررہی ہے۔ اسی دوران آسلو یونیورسٹی کی Ruth Laila-Schmidt کی لکھی ہوئی ایک مختصر اُردو حوالہ جاتی گرامر بھی Routledge نے شائع کی۔ اسکے علاوہ سیکنڈری سکول میں استعمال کے لیے تین بنیادی ٹیکسٹ بکس کے منصوبے بھی زیر تکمیل ہیں جنہیں اُن خطو ط پر استوار کیا جائے گا جس طرح فرانسیسی پڑھانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ Hodder and stoughtonاور Routledgeجیسے معروف ناشروں کا اس حوالے سے دلچسپی ظاہر کرنا حوصلہ افزا ہے ۔اور یہ برطانیہ میں اُردو بولنے والی آبادی میں یہ یقین بیدارا کرنے کا باعث ہے کہ اُن کی زبان کی بھی کچھ اہمیت تو ضرور ہے۔

ہمیں یقینا اس مغالطے میں مبتلا نہیں رہناچاہیے کہ اُردو یورپ کی سب سے اہم زبانوں میں سے ایک زبان بن رہی ہے یا یہ کہ جب اسے مناسب مترجمین میسر آجائیں گے تو غالبؔ اور اقبال فوراًآفاقی شہرت حاصل کر لیں گے۔ تاہم یہ خیال اچھا ہے کہ اُردو کو سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے اور اسے صحیح معنوں میں اپنے آبائی گھر سے بہت دوربھی زندہ رکھا جا رہا ہے ۔اس بات کا سہرا اُردو بولنے والی کمیونٹی کو جا تا ہے جو اپنے مقصد کے حصول کی خاطر بڑے پیمانے پر وقت نکال رہی ہے۔

انڈیا میں اُردو کے ساتھ عمومی رویہ کا احاطہ اس معمولی سے واقعہ سے ظاہر ہوجائے گا جو میں بغیر کسی معذرت کے یہاں بیان کر رہا ہوں۔

کچھ سال قبل مجھے مدراس جانے کا اتفاق ہوا اورمیرا قیام ایک بہت اچھے سبزی خور ’’ہندو ‘‘ہوٹل میں ہوا۔ جب میں اپنے کمرے میں ٹھہرا تومیں نے بیرے کو بلایا، جو فوراً حاضر ہو گیا۔ اس بات کا خیال کر تے ہوئے کہ میرا انگریزی میں چائے کہنا بے کار ہو گا میں نے اسے اُردو میں مخاطب کیا اور اس کا نام دریافت کیا ۔ مجھے اندازہ تھا کہ کرشناکچھ بے سکونی محسوس کر رہا ہے لیکن نرم خوئی کے ساتھ گفتگو کے بعد اس میں پُر اعتمادی پیدا ہو گئی اور اُس نے مجھے کہا ’’صاحب یہ ’’سنائے‘‘ ہے یہاں ہام ’’تامل‘‘ بولتا ہے ،ہمی ہندی پسندناہی ہے ۔‘‘

میں نے فوراً جواب دیا ’’کرشنا جی میں تو ہندی نہیں بول رہا یہ تو اُردوزبان ہے۔کرشنا کا چہرہ موہوم سی مسکراہٹ سے چمک اٹھا، اچھا صاحب ! اُردو بوہوت میٹھا بھاشا ہے ۔ مجھے اس کا گجل بوہوت پسند ہے ۔ خاص طور پروہ ’’تو نہیں والا ‘‘ اس کا اشارہ فلم ’بوبی‘ کے گانے ’میں شاعر تو نہیں‘ کی طرف تھا۔ آخر کاراردو نے مدراس میں ایک شخص کو حلقہ بگوش اُردو تو کر ہی لیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حواشی و حوالہ جات

*یہ مقالہ’’ David Matthews‘‘کے تحریر کردہ انگریزی مقالے ــ’’Urdu in Indiaـ‘‘کاترجمہ ہے جوAnnual of Urdu Studies,Vol 17 ,2002 میں شائع ہوا۔ڈیوڈ میتھوز کا یہ مقالہ اُن کے ذاتی مشاہدات و تجربات کا نچوڑ ہے ۔ ۲۰۰۲ ء میں شائع ہونے والے اس مقالے میں شامل اعداد و شمار اور دیگر حقائق دور ِ حاضر میں خصوصاً بر صغیر پاک و ہند کی سیاسی و سماجی ، مذہبی و لسانی تغیرات کی بدولت بہت حد تک بدل چکے ہیں ۔لہذا مصنف کی رائے سے اختلاف ہو سکتا ہے ۔انڈیا میں اردو زبان کے فروغ اور اس کے فروغ میں رکاوٹ کا باعث بننے والی تحاریک کو سمجھنے کے لیے یہ مقالہ کلیدی حیثیت کا حامل ہے۔ مقالہ کا ترجمہ عین متن کے مطابق کرنیکی کوشش ضرور کی ہے ۔لیکن اگر کہیں غیر ارادی طور پرمصنف کے تحریر کردہ متن کی روح مجروح ہوئی ہو تو اُس کے لیے مصنف سے معذرت کا طلب گار ہوں ۔

*’’ڈیوڈ میتھیوز‘‘،سکول آف اورئینٹل اینڈ افریکن سٹڈیز، یونیورسٹی آف لندن میں نیپالی اور اردو زبان کے سینئرلیکچرارکے طور پر خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔

۱۔           School of Oriental and African Studies سکول آف اورئینٹل اینڈافریکن سٹڈیز،یونیورسٹی آف لندن

۲۔           سری لنکا کا پرانا نام

۳۔          برٹش براڈ کاسٹنگ سنٹر، انگلینڈ

۴۔          یہ حوالہ دانیال لطیفی کے مضمون Nation and the Worldسے لیا گیا ہے جو اُتر پردیش سے اگست ۱۹۹۹ میں شائع ہوا تھا۔ڈیوڈ میتھیوزنے مقالے میں مقام اشاعت تو لکھا ہے لیکن کسی ایسے ذریعے کا ذکر نہیں کیا جہاں سے یہ حوالہ نقل کیا گیاہے۔اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ حوالہ ڈیوڈ میتھیوز نے اُردو سے انگریزی میں ترجمہ کیا ہے یا پھرانگریزی ہی سے حرف بہ حرف نقل کیا ہے۔لہذا اس حوالے کے ترجمے سے بحث نہیں۔

۵۔          ’’اس صدی کے ابتدائی نصف میں ‘‘سے مراد بیسوی صدی عیسویں ہے ۔

۶۔           EPWسے مراد) (Economic and Political Weekly ہے ۔اس ہفت روزہ رسالہ کا اجراء ۱۹۴۹ء میں بمبئی سے ہوا جو تاحال جاری ہے۔ اس میں انڈیا کے سیاسی ،معاشی ، معاشرتی ، ثقافتی ،علاقائی،لسانی وادبی موضوعات پرماہرین کے مضامین شائع کیے جاتے ہیں۔مصنف کی مراد رالف رسل کا وہ مضمون سے ہے جو اس مجلے میں شائع ہوا۔

۷۔          اکنامکس اینڈ پولیٹیکل ویکلی) (Economic and Political Weeklyص۵۶۶، ۶ مارچ ۱۹۹۹

Leave a Reply

3 Comments on "انڈیا میں اُردو"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
Saleem Akhater
Guest

sir thanks, ap ka ye artical dake kar kushi hoi kue ky mar kaam kafi assan ho gia hye bohat help meli heye muje.job sey time nahi milta wrna ap se help layni thi drama ki samaj ni a rahi

Rasheed Ahmed
Guest

Aap ka mazmoon padna chahatahoon
rasheed ahmed s.h

wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.