شاہین”………………فکشن اور تاریخی استناد”

Click Here for PDF File

Click Here for PDF File

فردوس احمد بٹ

 ریسرچ اسکالر،

شعبۂ اردو ،کشمیر یونی ورسٹی،سری نگر کشمیر۱۹۰۰۰۶

………………………………………………………………………………………………………………..

’’شاہین‘‘فن اور تاریخ دونوں اعتبار سے نسیم حجازی کا ایک عمدہ تاریخی ناول ہے۔یہ ۱۹۴۸ء میں منظرِ عام پر آیا۔اس میں اندلس کے شہر غرناطہ کے ایک خاص عہد کو موضوع بنایا گیا ہے ۔جب اندلس کے تمام بڑے شہروں پر عیسائیوں نے اپنا قبضہ جمایا تو صرف غرناطہ ایک ایسا شہر تھا جو مسلمانوں کے لیے پناہ گاہ بنا ہوا تھا ۔یہاں تمام حریت پسند اور مجاہدین ِ اسلام جمع ہوئے اور اس کی حفاظت کے لیے آخری دم تک جدو جہد کرتے رہے ۔کئی اسلامی ہیروز نے اپنی شاندار تاریخ کو زندہ رکھنے کے لیے اپنی جانیں نچھاور کیں۔

shaheen naseem hijazi

’’اندلس میں اب آخری حصار صرف غرناطہ کی سلطنت تھی یہ علاقہ کوہ سیرانوید اور ساحل کے قریب المریہ سے لے کرجبل الطارق تک پھیلا ہوا تھا ۔غرناطہ میں قریباً اڑھائی صدیاں اور مسلمانوں کی حکومت رہی۔مفتوحہ شہروں اور ممالک کے بہت سے لوگ اسے اپنے دفاع کا آخری مورچہ سمجھ کر غرناطہ میں آگئے اور انہوں نے اپنی خدمات غرناطہ کے حکمرانوں کو پیش کیں ،لیکن مسلمان امراء کی وہ تلوار جو بڑی سے بڑی طاقت کو خاطر میں نہ لایا کرتی تھی ۔اب نیام میں جاچکی تھی۔

قریباً ڈیڑھ صدی تک غرناطہ کی سلطنت خود غرض امراء کے باہمی خلفشار اور اس کے سرحدی علاقے عیسائیوں کی لوٹ مار اور قتل و غارت کا نشانہ بنے رہے۔بعض موقعوں پر غرناطہ کے بیدار مغز اور دور اندیش حکمرانوں نے عیسائیوں کو شکستیں دیں ،لیکن غرناطہ کی ایسی اولوالعزم شخصیت کی رہنمائی سے محروم رہا جو عیسائیوں کی طرف سے پیش آنے والے خطرات کا پورا پورا سدِباب کرتی۔‘‘۱؂

بدر بن مغیرہ کا غرناطہ کا وہ جان باز سپاہی ہے جو دن رات اس شہر کی حفاظت کے لیے جدو جہد کرتے ہیں ۔وہ اور اس کے ساتھی ایک پہاڑی علاقہ میں رہتے ہیں جہاں سے وہ منصوبہ بند طریقے سے دشمنوں پر حملے کرتے ہیں اور ان میں اکثر وہ کامیاب ہو جاتے ہیں۔بدر بن مغیرہ کی بہادری اور حیرت انگیز کارناموں کی وجہ سے وہ عوام میں ’’عقاب‘‘کے نام سے مشہور ہو جاتے ہیں۔دشمنوں میں بھی وہ اسی نام سے جانے جاتے ہیں:

’’بدر بن مغیرہ کو قسطلہ کے امراء اور عوام سرحدی عقاب کے نام سے یاد کرتے تھے۔قسطلہ کی حملہ آور افواج کے خلاف وہ اپنی غیر متوقع کامیابیوں کی بدولت غرناطہ میں بھی اسی نام سے مشہور ہو گیا تھا۔یہ سات میل لمبا ،چالیس میل چوڑاپہاڑ اور جنگل ایک مدت سے ان آزاد لوگوں کا مسکن تھا جو غرناطہ کے متعلق غیر جانبدار اور پڑوس کی عیسائی سلطنتوں سے برسرِ پیکار چلے آتے تھے۔‘‘۲؂

غرناطہ میں ولی عہد ابو عبداﷲ کی بغاوت سے انتشار پیدا ہوگیا ۔یہ سلطنت اس وقت ابوالحسن اور ابو عبداﷲ کے لیے آپسی رسہ کشی کا میدان بن گئی جب ابوالحسن سے شکست کھانے کے بعد فرڈیننڈ نے ابو عبداﷲ کو لالچ دے کر اپنے باپ کے خلاف بغاوت پر اُکسایا،لیکن اس وقت بدر بن مغیرہ نے مجاہدین کی قیادت سنبھالی اور عیسائی افواج کو پہاڑوں میں مشغول رکھا۔

ناول میں اندلس کے مسلمانوں کے عروج و زوال کے دلکش و دل سوز مرقعے پیش کیے گئے ہیں ۔طارق بن زیاد ،موسیٰ بن نصیر اور عبدالرحمٰن جیسے جان بازوں نے جس دھرتی کو اپنے خون سے سینچا تھا ،مسلمانوں کی بے حسی اور آپسی انتشار کی وجہ سے اس پر زوال کے بادل منڈلانے لگے:

نسیم حجازی

نسیم حجازی

’’مسلمانوں کے اندلس پر قابض ہوئے تقریباً آٹھ صدیاں گزر چکی تھیں ۔ان آٹھ صدیوں کی تاریخ ایک عظیم الشان قوم کے عروج اور زوال کی داستان ہے جس کا پہلا باب عرب فاتحین اموی خاندان کے جلیل القدر حکمرانوں نے اپنے خون اور پسینے سے قلمبند کیا ۔اب وہ عظیم الشان قوم جس کی سطوت بحیرۂ روم کی سرکش لہروں پر سکوت طاری کردیا کرتی تھی۔جس کی اولوالعزمی کے سامنے کوہ پیر ینیز کی بلند چوٹیاں سرنگوں ہو جایا کرتی تھیں ،بیکسی کے آنسوؤں کے ساتھ اپنی تاریخ کا آخری باب لکھ رہی تھی ۔تہذیب و تمدن کا وہ درخت جسے طارق بن زیاد اور موسیٰ بن نصیر کے جانبازوں اور عبدالرحمٰن کے جا نشینوں نے پروان چڑھایا تھا ،اب خزاں کے تند اور سرکش جھونکوں کا سامنا کر رہا تھا۔ ‘‘۳؂

ناول’’شاہین‘‘ کا آغاز بدر بن مغیرہ کی سرگرمیوں سے ہوتا ہے ۔وہ پہاڑوں میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ رہ کراندلس کی حفاظت کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔وہ جانتے ہیں کہ عیسائیوں کے ناپاک قدم اس سرِ زمین کی اور بڑھ رہے ہیں ،کیوں کہ وہ ان شہروں کا دورہ کرچکے تھے جن پر عیسائیوں نے اپنا جابرانہ قبضہ جمایا تھا ۔وہ مظلوم مسلمانوں پر عیسائیوں کی جانب سے ڈھائے جارہے مظالم کو اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے تھے لہٰذا وہ ان کی توجہ ان جنگلوں اور پہاڑوں کی طرف مبذول کرتے ہیں تاکہ اس دوران اندلس کے مسلمان متحد اور منظم ہوکر مضبوطی سے دشمنوں کا مقابلہ کر سکیں:

’’مغیر جب ان شہروں کا دورہ کرنے کے بعد واپس آیا تو وہ زیادہ پُر امید نہ تھا ۔تیس شہروں میں قریباً چار ہزار مسلمانوں نے اس کے ہاتھ پر جہاد کی بیعت کی۔تاہم وہ مایوس نہ تھا اور اس نے عہد کیا کہ وہ اندلس کے ہر شہر میں جہاد کا پیغام پہنچائے گا ۔اسے یہ بھی احساس تھا کہ جب تک غرناطہ سے کوئی زندہ دل حکمران بغاوت کا جھنڈا بلند نہیں کرتا ،اندلس کے مسلمانوں کی نشاۃثانیہ کا خواب ادھورا رہے گا۔اس کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ غرناطہ کا حکمران عیسائیوں کے خلاف اعلان جہاد کر لے اور وہ سر فروشوں کی جماعت کے ساتھ اس کی فوج میں شامل ہو جائے،لیکن غرناطہ کا تخت خود غرض دعویداروں کی رزمگاہ بنا رہا ۔ان حالات کے باوجود مغیرہ نے ہمت نہ ہاری اور ہر سال بھیس بدل کر اندلس کے شہروں میں جاتا اور لوگوں کو جہاد کے لیے تیار کرتا ۔اپنی قیام گاہ میں واپس آکر بھی وہ اپنا زیادہ وقت اندلس کے شہروں کی خفیہ جماعتوں کے نام خطوط لکھنے میں گزارتا۔‘‘۴؂

بدر کی خواہش کے برعکس غرناطہ کے امراء جدو جہد کرنے کے بجائے دشمن کے ساتھ معاہدہ کر لیتے ہیں۔جہاد سے ان کا یہ فرار اس عظیم سلطنت کے زوال کا سبب بنتا ہے کیوں کہ دشمن ان کی کمزوریوں کو بھانپ لیتا ہے اور بڑی چالاکی سے اس وسیع سلطنت کو اپنے قبضے میں کر لیتا ہے ۔غرناطہ کی یہ عظیم سلطنت جو اسلامی علم و ثقافت اور تہذیب و تمدن کا گہوارہ تھی۔عیسائیوں کے قبضے میں چلی گئی۔

قسطلہ کی عیسائی فوج فرڈیننڈ کی قیادت میں جب لا محدود وسائل اور پوری قوت کے ساتھ مسلمانوں کے ساتھ جنگ میں مصروف تھی تو ابوالحسن ،موسیٰ بن غسان ،عبداﷲ الزغل اور بدر بن مغیرہ جیسے سر فروشوں کے ہاتھوں انہیں کئی معرکوں میں ہزیمت اٹھانی پڑی ،لیکن مسلمانوں کے درمیان انتشار اور غداروں کی سازشوں سے یہ جدو جہد کمزور پڑ گئی۔غرناطہ کے امراء کی آپسی رسہ کشی ،عوام کی نسلی تفریق ،شورشیں ،ہنگامے اور سازشی عناصر کی ملت فروشی جیسے عناصر اس عظیم سلطنت کے زوال کی وجوہات بنیں۔نہ صرف غرناط بل کہ اس کے علاوہ جتنے بھی علاقے عیسائیوں کے قبضے میں آگئے تھے ان کے زوال کے اسباب بھی یہی عناصر تھے ۔

title-Shaheen

ناول میں بدر بن مغیرہ کو بنیاد بنا کر اندلس کی تاریخ کے ایک طویل عہد کو پیش کیا گیا ہے جو ۱۲۳۸ء سے شروع ہوکر ڈیڑھ سو سالہ عروج و زوال کے واقعات کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔بدر ایک ذہین اور بہادر مجاہد ہے وہ نت نئے طریقے تلاش کرکے اور اپنی تمام ذہنی و جسمانی صلا حیتوں کو بروئے کار لاکے غرناطہ کی آزادی کو دوام بخشنے میں مصروف نظر آتے ہیں ،مصنف نے ان کے کردار کی مدد سے اُس دور کے مجاہدین اسلام کے کارناموں سے عوام کو روشناس کرایا ہے اور ساتھ میں یہ عندیہ بھی دیا ہے کہ نیت میں خلوص ہو اور ارادہ پختہ ہو تو انسان کسی بھی رکاوٹ کو بہ آسانی پار کر سکتا ہے ،لیکن یہاں یہ نکتہ بھی سامنے آتا ہے کہ اکیلا انسان کسی قوم کو مشکلات سے نجات دلانے کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر تو لے سکتا ہے مگر اسے اپنے مشن میں تب تک کامیابی نصیب نہیں ہو سکتی جب تک نہ قوم اس کا ساتھ دے۔

ناول میں مغیرہ کے ساتھ ساتھ تاریخی اہمیت کے حامل دوسرے متحرک اور جان دار کردار بھی ہیں ،جو اندلس کی حفاظت کی خاطر ہر وقت پیش پیش رہے ،لیکن کچھ ایسے کردار بھی ہیں جن کے ذاتی مفادات ،ہوس اقتدار اور بزدلی کی وجہ سے غرناطہ کی سلطنت عیسائیوں کے ہاتھوں میں چلی گئی ۔اس سلسلے میں ابو داؤد کا کردار توجہ طلب ہے ۔اس کی ساری زندگی غرناطہ کے خلاف سازشوں میں گزری ۔اندلس کے زوال میں اس کا بھی بڑا ہاتھ رہا،لیکن عیسائی گورنر کے ہاتھوں اس کی بیٹی کی عزت پر حملے نے آخر اس کے دل میں بھی عیسائیوں کے خلاف نفرت پیدا کی۔

’’شاہین‘‘اگر چہ اندلس کی آٹھ سو سالہ تاریخ کے پسِ منظر میں لکھا گیا ہے تاہم نسیم حجازی نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ اسے اپنے دور سے منسلک کر دیا ہے ۔ اس ناول سے ان کے وہ سبھی مقاصد پورے ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں جن کے پیشِ نظر انہوں نے اس کی تخلیق کی ہے ۔ناول میں جگہ جگہ پر مسلمانوں کو اپنے مٹتے ہوئے تشخص کو بچانے کے اشارے دیے گئے ہیں۔اس میں حالات و واقعات کو اس انداز سے ابھارا گیا ہے کہ قارئین متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے۔

نسیم حجازی نے ایک سنجیدہ فن کار کی طرح اندلس کی تاریخ کا مطالعہ و مشاہدہ کیا اور پھر اپنے تجربوں اور فن کا رانہ صلاحیتوں کی مدد سے ایک طویل عہد کو بڑی ہنر مندی سے ناول کے قالب میں ڈھالا ہے انھوں نے نہ صرف اس عظیم اور شان دار تاریخ کو دہرایا ہے بل کہ عصری تقاضوں کو مدِ نظر رکھ کر قارئین میں ایک نیا جذبہ اور شعور پیدا کرنے کی کوشش بھی کی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ مصنف نے ناول کے آغاز میں اندلس کی عظمت سے متعلق سوالات اٹھائے ہیں:

’’اموی امارت کا زمانہ اندلس کی تاریخ کا سنہری زمانہ تھا ۔آج بھی ایک سیاح جب اس جاہ و جلال اور شان و شوکت کا تصور کرتاہے جو قرطبہ ،اشبیلیہ اور قسطلہ کے کھنڈروں میں دفن ہے ،تو وہ حیران ہوکر یہ سوال پوچھتا ہے کہ کیا یہی وہ مسلک ہے جس کی خوشحالی دیکھ کر شار ئین کے سفیر دنگ رہ جاتے تھے؟کیا موجودہ اسپین عربوں کا وہی اندلس ہے جس کی زمین سونا اُگلتی تھی ۔جہاں غربت اور افلاس کا نام و نشان تک نہ تھا ۔جس کی تجارت روس ،ایران اور چین تک پھیلی ہوئی تھی ۔جس کی یونیورسٹیاں دنیا بھر میں مشہور تھیں ۔جس کے علماء کے سامنے ارسطو اور افلاطون کے جانشین گھٹنے ٹیکتے تھے۔‘‘۵؂

نسیم حجازی آگے ان سوالوں کا جواب یوں دیتے ہیں:

’’اندلس کے مؤرخین کی ارواح جو شاید ہر شام ان ویرانوں کا طواف کرتی ہیں نہایت مغموم انداز میں ہمیں ان سوالات کا جواب دیتی ہے ۔ہاں اسپین عربوں کا وہی اندلس ہے جس کی سطوت کی داستان قصۂ پارینہ بن چکی ہے ۔یہ جبل الطارق وہی ہے جہاں طارق بن زیاد کے جہاز لنگر انداز ہوتے تھے ۔یہ قرطبہ وہی شہر ہے جہاں عبدالرحمٰن ثالث کے دربار کی شان و شوکت دیکھ کر دنیا کے بڑے بڑے شہنشاہوں کے سفیر دم بخود رہ جاتے تھے ۔یہ اندلس پایہ اسپین وہی ہے لیکن وہ عظیم الشان قوم جس نے اپنے خون اور پسینے سے اس کی خاک کو زندگی اور رعنائی عطا کی جا چکی ہے ۔ان کھنڈروں کے نیچے ان جلیل القدر معماروں کی لاشیں دفن ہیں جنہوں نے اس ملک کو باقی یوروپ کے لیے روشنی کا مینار بنا دیا تھا۔‘‘۶؂

اس سوال و جواب میں اندلس کی عظمت اور بربادی کے وہ پہلو سامنے آتے ہیں جو قاری کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتے ہیں ۔ان میں پورے ناول کا لب لباب نظر آتا ہے ۔ناول میں مصنف نے اندلس کی عظمت اور زوال و تباہی کو جس انداز سے پیش کیا ہے وہ قابلِ تعریف ہے ۔اندلس کی تاریخ کے نقوش اس خوبصورتی کے ساتھ ابھارے گئے ہیں کہ قاری خود کو اس کا حصہ تصور کرتا ہے۔

ناول میں تاریخ کی بازگشت ہے لیکن یہ خالص تاریخ نہیں ۔اس میں تخیل کے سہارے فکشن اور تاریخ کے درمیان توازن برقرار رکھنے کی سعی جگہ جگہ نظر آتی ہے ۔اکثر تاریخی ناولوں میں یہ سعی اس صورت میں نظر آتی ہے کہ ایسے کردار یا واقعات تخلیق کیے گئے جو قارئین کی دلچسپی کا باعث بنیں،لیکن اس عمل سے تاریخ کے مجروح ہونے کا اندیشہ زیادہ بڑھ جاتا ہے ۔جہاں تک حجازی کا سوال ہے تو انہوں نے ناول میں ایسے کردار اور واقعات تخلیق کیے ہیں جو تاریخ کو مجروح نہیں ہونے دیتے۔’’شاہین‘‘مستند تاریخی واقعات کے آئینے میں لکھا گیا ہے ۔ناول کے تقاضوں کو مدِ نظر رکھ کر اس میں پلاٹ،واقعہ نگاری،کردار نگاری،منظر نگاری اور زبان و بیان پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔چند نمائندہ تاریخی شخصیات کی زندگی اور اہم کارناموں کے ذریعے پلاٹ کی فطری تعمیر عمل میں لائی گئی ہے ۔شروع سے آخر تک ناول کے بہاؤ میں کسی طرح کی کوئی رکاوٹ محسوس نہیں ہوتی۔ہر واقعہ اپنے فطری تسلسل کے ساتھ آگے بڑھتا ہے۔ مصنف اس بات سے بخوبی واقف نظر آتے ہیں کہ وہ محض تاریخ نہیں بل کہ تاریخی ناول لکھ رہے ہیں۔کہانی کے انداز میں تاریخ کو بیان کرنے کے فن کے وہ ماہر ہیں ۔انھوں نے جن تاریخی واقعات کا بھی بیان کیا ہے ان کے پسِ پشت عوامل کی دل فریب تصویریں آنکھوں کے سامنے لائی ہیں ۔کرداروں کے ظاہری حرکات و سکنات کے ساتھ ساتھ ان کے جذبات و احساسات کو بھی کامیابی سے پیش کیا ہے ۔حجازی نے زبان و بیان کے دلکش استعمال سے بھی تاریخ میں ادبیت پیدا کی ہے ۔انھوں نے زبان و بیان کا ایسا جادو جگایا ہے کہ قاری اس کے سحر میں مسحور ہو جاتا ہے۔ناول کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کوئی مصوّر اندلس کی تاریخ اور وہاں کی سرِ زمین کی خوبصورت تصویریں لے رہا ہو ۔مثال کے طور پر ناول کے آغاز کی یہ عبارت دیکھئے:

’’پچاس سوار پہاڑ کے دامن سے اتر کر گھنے جنگل میں سے گزرتے ہوئے ایک ندی کے ٹوٹے ہوئے پل کے سامنے رکے۔ندی کے پار یہ جنگل اور بھی گھنا تھا۔اس وادی میں جنگلی درختوں کے ساتھ ساتھ انگور کی بیلیں ،سیب ،انار اور مختلف اقسام کے پھلدار درخت اس بات کی گواہی دیتے تھے کہ یہ جنگل کبھی ایک باغ تھا ۔پل کے پار ٹوٹی پھوٹی سڑک کے دونوں کناروں پر تناور درختوں کی شاخیں آپس میں مل کر ایک چھت کا کام دیتی تھیں ،سر سبز گھاس اور خود رو بیلیں جو کناروں سے آگے بڑھ کر سڑک کے پتھروں کو اپنی آغوش میں لے رہی تھیں،اس بات کا ثبوت تھیں کہ انہیں مسلنے والے پاؤں شاذ و نادر ہی اس سڑک کا رُخ کرتے ہیں۔‘‘۷؂

نسیم حجازی نے فکشن کے تقاضوں کو مدِ نظر رکھ کر ناول میں ایک عشقیہ داستان بھی تخلیق کی ہے ۔ناول میں ربعیہ اور اینجلا دو اہم نسوانی کردار ہیں جو ابو داؤد کی لڑکیاں ہیں ۔ابو داؤد اپنی لڑکیوں سے غرناطہ کے خلاف سازشوں میں مدد چاہتا ہے،لیکن ربعیہ جو اسلام پسند اور حب الوطنی کے جذبے سے پر ہوتی ہیں،بدر سے متاثر ہوتی ہیں اور اسے محبت کرنے لگتی ہیں۔وہ اپنے باپ کا ساتھ دینے کے بجائے بدر کو آنے والے خطرے سے آگاہ کرتی ہیں :

’’ربعیہ نے اضطراری طور پر آگے بڑھ کر اس کے گھوڑے کی باگ پکڑتے ہوئے کہا’’خدا کے لیے یہ نہ سمجھئے کہ مجھے اپنا خوف ہے ۔میرا اضطراب صرف آپ کے لیے ہے ۔آپ قوم کی پونجی ہیں ۔آپ اندلس کے مسلمانوں کی سرمایۂ حیات ہیں ۔کاش میں آپ کو اپنے خواب سے متاثر کرنے کے بجائے کچھ اور کرسکتی ۔کاش میں ان سرفروشوں میں سے ایک ہوتی جو آپ کے دروازے پر پہرہ دیتے ہیں ۔لیکن میں صرف ایک توہم پرست لڑکی ہوں جس کے پاس آپ کے لیے خوابوں اور دعاؤں کے سوا کچھ نہیں۔‘‘ربعیہ کی آواز بیٹھ گئی ۔اسکی آنکھوں میں آنسو اُمڈ آئے ۔بدر بن مغیرہ کے لیے دیر تک یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ اسے کیا کہنا چاہئے۔انتہائی سادگی عجزو انکسار کے باوجود ربعیہ کے چہرے پر ایک ایسی متانت ،سنجیدگی اور وقار تھا کہ بدر بن مغیرہ متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔اس نے نادم سا ہوکر کہا۔’’مجھے افسوس ہے کہ آپ کو میرے الفاظ سے صدمہ پہنچا ،میرا مقصد یہ نہ تھا ۔میں آپ کا شکر گزار ہوں۔اچھا خدا حافظ!‘‘

ربعیہ گھوڑے کی باگ چھوڑ کر ایک طرف ہٹ گئی۔بدر نے گھوڑے کو ایڑ لگا کر ندی میں ڈال دیا۔ربعیہ اس کی طرف دیکھتے ہوئے بار بار خدا حافظ!خدا حافظ!!‘‘کہہ رہی تھی۔‘‘۸؂

اس کہانی کا مقصد ناول میں رومانوی رنگ اور دلچسپی پیدا کرنا ہے لیکن یہ رومان تاریخی واقعات پر غالب نہیں آتا۔

’’شاہین‘‘نسیم حجازی کا ایک کامیاب تاریخی ناول ہے ۔اس میں جہاں اندلس کے حکمرانوں کی عیش کوشی،امراء کی آپسی رسہ کشی ،علماء کی بے ضمیری ،عوام کے اضطراب اور معاشی و معاشرتی بدحالی کا رونا رویا گیا ہے، وہاں بدر بن مغیرہ اور اس کے ساتھیوں کا تذکرہ بھی بڑے ولولہ انگیز انداز میں کیا گیا ہے ۔اس طرح یہ ناول اندلس کی یک رخی تصویر کے بجائے ایک مکمل اور ہمہ جہت تصویر پیش کرتا ہے ۔ناول میں نہایت ہی خوبصورتی کے ساتھ اندلس کے سیاسی اور سماجی حالات و واقعات ،تہذیب و تمدن اور تاریخی شخصیات کو پیش کیا گیا ہے ۔پلاٹ ،واقعہ نگاری،کردار نگاری ،منظر نگاری اور زبان و بیان کے اعتبار سے یہ ایک بہترین ناول ہے ۔اس میں نہ صرف فکشن کے لوازمات کو برتا گیا ہے بل کہ تاریخی استناد کو بھی ملحوظِ نظر رکھا گیا ہے ۔جذبات کے باوجود مصنف نے فن اور تاریخ کے دامن کو ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دیا ہے ۔دونوں کو نہایت ہی سلیقہ مندی کے ساتھ شیر و شکر کرکے فنی بصیرت کا مظاہرہ کیا گیا ہے ۔

’’شاہین‘‘تخلیقی صلاحیتوں اور صحت مند تاریخی عناصر کی وجہ سے اردو کے تاریخی ناولوں میں منفرد حیثیت رکھتا ہے ۔یہ نسیم حجازی کا بے حد مقبول ناول ہے جسے اندلس کی تاریخ پر لکھے گئے دوسرے ناولوں سے بالکل الگ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔مصنف نے تخیل اور تاریخی واقعات سے ناول کو دل کش و فکر انگیز بنایا ہے۔اس میں ہسپانیہ کی تاریخ اور تہذیب کو تمام تر محرکات کے ساتھ پیش کیا گیا ہے ۔یہ تاریخ کی باز گشت اور اپنے زمانے کے مسائل کی دستاویز کے ساتھ ساتھ فنِ ناول کا ایک بہترین نمونہ ہے۔

٭٭٭٭

حوالہ جات:

۱۔نسیم حجازی ،شاہین،ادبی دنیا ،دہلی،۲۰۰۱ء،ص ۱۹۔۲۰

۲۔ایضاً،ص ۲۱

۳۔ایضاً ،ص۱۵۔۱۶

۴۔ایضاً،ص ۲۳۔۲۴

۵،۶۔ایضاً،ص ۱۷

۷۔ایضاً،ص۳

۸۔ایضاً،ص ۹۴۔۹۵

FIRDOUS AHMAD BHAT

Research Scholar,Deptt. Of Urdu,

University Of Kashmir, Srinagar,190006

Mobile:-09797964917

Leave a Reply

1 Comment on "شاہین”………………فکشن اور تاریخی استناد”"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
trackback

[…] شاہین”………………فکشن اور تاریخی استناد”← […]

wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.