ایک لڑکا: اخترالایمان
اخترالایمان کی نظم’’ ایک لڑکا
زائرحسین ثالثی
اخترلایمان کی شہرۂ آفاق نظم’’ایک لڑکا‘‘ان کے اکثرناقدوں کے لئے توجہ کامرکزبنی رہی ہے۔شایداس لئے کہ اس معصوم لڑکے کی صورت میں،جواس نظم کامرکزی کردار ہے،انہوں نے خوداخترالایمان کی زندگی کے نشیب وفرازدیکھے ہیں۔یہ نظم اظہار ذات کابہترین نمونہ ہے،اس کاموضوع بیک وقت ماضی کی سادگی بھی ہے، عہد طفولیت کی بازیابی بھی ہے اورحال کی ریاکاری بھی۔
نظم کی ابتدا یادوں کی صدائے بازگشت سے ہوتی ہے۔تلخ حقالق اورواقعات سے متصادم ہوکرشاعرنے اپنے شخصی لاشعورکی آسودگی کے لئے عہدطفولیت کی بازیابی کی ہے۔وہ بچپن کے اس دورکی یادوں کوتازہ کرتاہے جب وہ آزاد،محفوظ اورفطرت کی آگوش میں بہت زیادہ مطمئن تھا۔اس نظم کے محرکات اورپس منظرکوسمجھنے کے لئے خوداخترالایمان کی رائے کونقل کرنابہترہوگا۔وہ نظم ’’ایک لڑکا‘‘کے متعلق یادیں کے دیباچے میں لکھتے ہیں؟
’’نظم ایک لڑکا،پہلی بارمیں نے ایک موضوع کے طورپرمحسوس نہیں کی تھی، تصویرکی شکل میں دیکھی تھی۔مجھے اپنے بچپن کاایک واقعہ ہمیشہ یادرہاہے اوریہ واقعہ ہی اس نظم کامحرک ہے۔ہم ایک گاؤں سے منتقل ہوکردوسرے گاؤں جارہے تھے۔اس وقت میری عمرتین چارسال کی ہوگی۔ہماراسامان ایک بیل گاڑی میں لادا جارہا تھا اور میں گاڑی کے پاس کھڑااس منظرکودیکھ رہاتھا۔میرے چہرے پرکرب اوربے بسی تھی ۔اس لئے کہ میں اس گاؤں کوچھوڑنانہیں چاہتاتھا۔کیوں؟یہ بات میں اس وقت نہیں سمجھتاتھا۔اب سمجھتاہوں۔وہاں بڑے بڑے باغ تھے ،باغوں میں کھلیان پڑتے تھے، کوئلیں کوکتی تھیں،پپیہے بولتے تھے۔وہاں جوہڑ تھے، جوہڑ میں نیلوفر کے پھول کھلتے تھے۔وہاں کھیتوں میں ہرنوں کی ڈاریں کلیلیں کرتی نظرآتی تھیں۔وہاں سب تھا،جوذہنی طورپرمجھے پسندہے۔مگروہ معصوم لڑکااس گاڑی کوروک نہیں سکا۔میں اس گاڑی میں بیٹھ کرآگے چلاگیا،مگروہ لڑکاوہیں کھڑارہ گیا‘‘۔
اخترالایمان کے بچپن کا ایک بڑاحصہ مشرقی یوپی کے دیہاتوں میں گزراتھا جہاں چاروں طرف لہلہاتے کھیت ،گھنے جنگل،پرندے تالاب اورجھیلیں تھیں۔یہ فطری ماحول ان کونہایت پسندتھا جہاں بے چین روح کوسکون اوراطمینان حاصل ہوتاتھااورجہاں فطرت ایک شفیق ماں کی طرح چارہ سازتھی۔لیکن عملی زندگی میں ہجرت کاپڑاؤشاعرکواس پرسکون آبائی وطن سے دورلے جاتاہے اوروہ معصوم لڑکاجسمانی سطح پرنقل مکانی کے باوجودذہنی نظم پر اپنے آپ کواس کواس گاؤں سے الگ نہ کرسکا۔نظم میں اخترالایمان نے نئے اوراجنبی ماحول میں عام شمولیت کے سبب سابقہ زندگی سے جڑی خوش گواریادوں کی تخلیقی سطح پرباریافت کی ہے اوراپنے آبائی وطن سے شدیدجذباتی اوروابستگی مظاہرہ کرکے یوں ناسٹلجیا کاظہار کیاہے:
دیار شرق کی آباد یوں کے اونچے ٹیلوں پر
کبھی آموں کے باغوں میں،کبھی کھیتوں کی مینڈوں پر
کبھی جھیلوں کے پانی میں ، کبھی بستی کی گلیوں میں
کبھی کچھ نیم عریاں کم سنوں کی رنگ رلیوں میں
سحر دم ، جھٹپٹے کے وقت ، راتوں کے اندھیرے میں
کبھی میلوں میں ، ناٹک ٹولیوں میں ، ان کے ڈیرے میں
تعاقب میں کبھی گم تتلیوں کے ، سوٗنی راہوں میں
کبھی ننھے پرندوں کی نہفتہ خواب گاہوں میں
بچپن میں اخترالایمان کوجس طرح ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونا پڑا اور اپنی پسندیدہ فضااوراشیاء کو ترک کرناپڑا،اس سے لاشعوری طورپروہ بے حد متاثر ہوئے اورعمربھروہ واقعات انھیں یادآتے رہے۔
شاعر نے یہاں ایک لڑکے کے مظہرودوربینی سے اپنے ہی تشخیص کوبیان کیاہے۔اس نے آگے چل کریہ بھی قبول کیاہے کہ
’’میں نے اس لڑکے کی شخصیت کوروشن کرناچاہااورایک لڑکا،ضمیرانسانیت کاعلامیہ بن گیا۔۔۔۔۔۔۔ایک سال گزرگیا،دوسال،تین سال، چارسال ۔۔۔ پھرایک دن رات کے ایک بجے کے قریب میری آنکھ کھل گئی۔ذہن میں ایک مصرع گونج رہاتھا۔یہ لڑکاپوچھتاہے،’’اخترالایمان تم ہی ہو؟‘‘۔۔۔۔۔۔۔’’اخترالایمان کی شخصیت دوحصوں میں تقسیم ہوگئی تھی۔ایک یہ لڑکا،جومعصوم تھا،دوسراوہ،جس نے دنیاکے ساتھ سمجھوتہ کرلیاتھا۔میں نے نظم کاپہلابندلکھا اورسوگیا۔
شاعر کی ادب شناس شریک حیات سلطانہ ایمان نے ’کلیات اخترالایمان‘کے ’پیش لفظ‘میں لکھاہے کہ ’’مشہورزمانہ مصورجناب مقبول فداحسین نے ازراہ کرم اپنے ہم عصراخترالایمان کے آخری مجموعے’زمستاں سردمہری کا‘کے گردپوش (سرورق، title)کے لئے ایک نہایت خوبصورت تصویر بنائی تھی۔اس تصویر کو ہم نے ’کلیات‘ کے گردپوش کے لئے بھی چناہے۔غورسے دیکھنے پرایسا لگتاہے کہ یہ تصویرنہ صرف اختر الایمان کی نظم’’ایک لڑکا‘‘کی عکاسی کرتی ہے،بلکہ ان کی نظموں کی طرح علامتی بھی ہے۔مثلاًتصویر میں سرخ رنگ خوٗن کے رنگ کی مناسبت سے ہمیں زندگی کی علامت دکھائی دیتاہے اورسیاہ ٹکڑاہمارے قلب کی سیاہی کی عکاسی کرتانظرآناہے،جس کی نفی
اخترالایمان کی شاعری اور فن پر ایک اہم مباحثہ سننے کے لیے اس ویڈیو کو دیکھیں:
اخترالایمان کی نظم گوئی
تحریر:
ڈاکٹر شمیم احمد
اخترالایمان کی شاعری قدامت سے جدت، پابندی سے آزادی اور وسعت سے بے کرانی کی طرف سفر ہے۔ ان کی نظموں میں نئی زندگی اور نئے ماحول کی ترجمانی نظر آتی ہے وہ ان موضوعات کی طرف توجہ کرتے ہیں جن کا بیان اُن سے پہلے نہیں ہوا ہے۔ انسان کی ذہنی اور جذباتی کیفیات، اس کی داخلی اور خارجی دنیا، انفرادی اور اجتماعی زندگی کے مختلف معاملات و مسائل ان کی نظموں کے نمائندہ موضوعات ہیں۔ وہ روایتی قسم کے رومانی موضوعات پر توجہ نہیں کرتے اس کے برعکس ان کی نظموں میں اپنے عہد کی سماجی زندگی سے مایوسی کا اظہار نظر آتا ہے۔ اپنے عہد کے انسان کی خود غرضی، تشدد اور جارحیت پسندی سے انھیں خاص کد ہے۔ ان کی شاعری کا متکلم ایسا شخص ہے جس نے دنیا میں امن و سکون اور محبت و عافیت کی خواہش کی تھی، جو اپنے خوابوں کی دنیا کا شیش محل سجانا چاہتا تھا، جس کی آرزو تھی کہ یہ دنیا گلوں کا مسکن ہو، زمین کے سینے سے شگوفے پھوٹیں، نئی بہاریں قائم ہوں، فرازِ کوہ سے تیز اور تند آبشاریں بہیں۔ کوئی ایسا ہو جس کی آغوش میں اسے سکون مل سکے۔ لیکن جب اخترالایمان نے اپنے خوابوں کی اس دنیا کو ٹوٹتے پایا تو خدا سے شکوہ کیا:
مگر مجھے کیا دیا یہ تو نے
شباب اک زہر میں بجھا کر
خراب آنکھیں لہو رُلا کر
خدائے عالم، بلند و برتر
نہ ایک مونس بھی ایسا بخشا
کہ جس کی آغوش میں تڑپ کر
سکون کے ساتھ مر سکوں میں
ایک مخلص اور ایمان دار شاعر کی طرح اخترالایمان ہر وہ بات بیان کرتے چلے جاتے ہیں جو ان کے دل پر گزرتی ہے۔ کسی تحریک کا کوئی منشور، کسی رجحان کا کوئی ضابطہ ان کے اس شعری خلوص میں مانع نہیں آتا۔ وہ تقلید کے قائل نہیں اپنی راہ الگ بنانا چاہتے ہیں اور انھیں اس بات کا سلیقہ بھی ہے کہ اپنے موضوعات کو کس طرح طاقتِ پرواز دی جائے کہ دل سے نکلی ہوئی بات پر اثر بھی بن جائے۔ اخترالایمان کے ہاں رمزیت بھی ہے اشاریت بھی جن سے معنی و مفہوم کی ایک دنیا آباد ہو گئی ہے جو قاری کو نئے نئے جلوے دکھاتی ہے اور ان کی نظموں میں تہہ داری پیدا کرتی ہے۔ ان کی نظموں کے مطالعے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ نہ خود سے مخاطب ہیں نہ دوسروں سے۔ یہ ایک سچے شاعر کا خلوص پر مبنی اظہار ہے کہ اس نے دنیا کو جیسا دیکھا اور برتا اس کو اسی طرح پیش کر دیا۔ اس پیشکش میں کچھ اشارے بالواسطہ طور پر پائے جاتے ہیں جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے اس قدر بلیغ ہیں کہ پڑھنے والے کو محسوس ہوتا ہے کہ انھیں اس نے دریافت کیا ہے۔ جمیل جالبی نے اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر اخترالایمان کی شاعری کے متعلق لکھا ہے کہ ’’ان کے یہاں سماجی شعور کا احساس بہت شدید ہے اور اس کا اثر ان کے مزاج میں اس قدر رچ بس گیا ہے کہ قاری تو ان احساسات اور جذبات کو محسوس کر لیتا ہے لیکن خود شاعر کو وہ نظر نہیں آتے۔
یہ بات صحیح ہے کہ اخترالایمان نے اپنی شاعری کے لیے خام مواد بیشتر اپنی زندگی سے لیا۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ ان کی آپ بیتی ہیں۔ انھوں نے اپنے مشاہدات اور جذبات کے اظہار میں ایسی قوت کا استعمال کیا ہے ان کی شاعری وسیع تر تہذیبی شعور کی آئینہ داربن گئی ہے۔ اخترالایمان کی سب سے مشہور نظم ’ایک لڑکا‘ میں مرکزی کردار اپنے بچپن کی گل شگفتگیوں ، چھوٹی بڑی خوشیوں، شرارتوں، محرومیوں اور خوابوں کا ذکر کرنے کے بعد ہر بند میں یہ سوال پوچھتا ہے کہ ’اخترالایمان تم ہی‘ ہو۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اخترالایمان اپنی زندگی کی روداد لکھ رہے ہیں۔ لیکن اگر یہ صرف اُن کی زندگی کی روداد ہوتی تو اس نظم کی آفاقی اپیل مجروح ہو کر رہ جاتی۔ اس نظم کا ہر قاری نظم کے مرکزی کردار میں اپنی جھلک محسوس کرتا ہے۔ ہر بند کے آخر میں وہ اخترالایمان کی جگہ اپنا نام رکھ کر پوچھتا ہے کہ کیا تم وہی شخصیت ہو جو بچپن میں بے حد سادہ اور سچی ہوا کرتی تھی اور زندگی کی مختلف مرحلوں پر تم نے اپنے ضمیر کے خلاف کام کرنا سیکھ لیا اور یہ ہنر بھی آگیا کہ خلافِ طبیعت کاموں کو کسی طرح نئی نئی توجیہات سے چھپایا جائے اور جائز قرار دے دیا جائے۔ نظم کے پہلے بند میں بچپن کی جو تصویر پیش کی گئی ہے وہ میری اور آپ کی زندگی سے ہم آہنگ ہے اور اگر ایسا نہیں ہے تو کم از کم یہ تو ہے ہی کہ ہم اور آپ ایسا ہی بچپن گزارنے کی آرزو کریں۔ چند ایک مصرعے دیکھیے :
دیارِ شرق کی آبادیوں کے اونچے ٹیلوں پر
کبھی آموں کے باغوں میں کبھی کھیتوں کی مینڈوں پر
کبھی جھیلوں کے پانی میں کبھی بستی کی گلیوں میں
کبھی کچھ نیم عریاں کم سنوں کی رنگ رلیوں میں
سحردم جھپٹے کے وقت، راتوں کے اندھیرے میں
کبھی میلوں میں ناٹک ٹولیوں میں ان کے ڈیرے میں
تعاقب میں کبھی گم تتلیوں کی سونی راہوں میں
لفظوں میں بیان کردہ ان تصویروں میں جس لڑکے کی روداد بیان کی جا رہی ہے وہ بڑا ہو کر زندگی کی تلخ حقیقتوں کے آگے خود کو بے بس پاتا ہے اور اپنے سارے آدرش، سارے مقاصد کو پسِ پشت ڈال دیتا ہے اور حالات سے سمجھوتا کر لیتا ہے لیکن یہ آدرش زندہ رہتے ہیں ان سے صرف نظر خواہ کتناہی کر لے لیکن یہ زندہ رہتے ہیں۔ یہ مرکر بھی مرتے نہیں۔ بار بار سر اٹھا کر اپنی موجودگی کا احساس کراتے ہیں۔ اخترالایمان کی یہ نظم اس کشمکش کا اشاریہ بن گئی ہے جس کی کسک ہر حساس انسان محسوس کرتا ہے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ شاعر نے یہ سب کچھ اپنی زبان سے نہیں کیا ہے اس نے تو صرف تصویروں کا ایک مجموعہ بنا کر پیش کر دیا ہے جس کی اثر آفرینی ہمیں ان معنی تک خود بخود پہنچا دیتی ہے۔ اخترالایمان نے اپنی ذات کو محور بنا کر کائنات کی تفہیم کے سلسلے کو دراز کیا ہے۔
شمیم حنفی نے لکھا ہے کہ ’’اخترالایمان کی اصل الجھن یہ نہیں کہ شہر سے پھر گاؤں کی طرف کس طرح واپس جایا جائے بلکہ یہ کہ انسانی فطرت کی اندھا دھند بربادی اور تخریب کے چنگل سے اپنے آپ کو کیسے نکالے۔‘‘
اختر الایمان کی نظم میں موضوع کے اعتبار سے یہ انفرادیت بھی نظر آتی ہے کہ اس میں خارجی مشاہدات و تجربات ہیں اور داخلی واردات اور ذاتی کیفیات بھی۔ وہ خارجی مشاہدات و تجربات کو نظم کا پیکر عطا کرنے کا ارادہ اس وقت کرتے ہیں جب وہ ان کے داخلی محسوسات سے پوری طرح ہم آہنگ ہو جائے۔ اس سلسلے میں خود انھیں کا بیان ہے۔
میں داخلیت اور خارجیت کو دونوں کو ملا کر بات کرتا ہوں۔ خارجی چیزیں آتی ہیں وہ پھر اور کہیں داخلیت پر ختم ہو جاتی ہیں۔ میں ہر چیز کو، خارجیت کو بھی ذاتی تجربہ بنا کر پیش کرتا ہوں۔ میری شاعری کا خاص امتیازی نشان یہ ہے کہ جب تک وہ چیز میرے لیے خبر رہتی ہے۔ شاعری نہیں بنتی۔ جب خبر سے بڑھ کر، ہٹ کر میرا داخلی تجربہ ہو جاتا ہے تب وہ نظم ہو جاتی ہے۔
اختر الایمان کے یہاں احساس کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ وہ خارجی چیزوں کو جوں کا توں بیان نہیں کر دیتے بلکہ اپنے جذبات اور احساسات کی شمولیت سے اس کے رنگ گہرے کر دیتے ہیں۔ بے رنگ خارجی تصویر ان کی قلم کے زیر اثر رنگین، دیدہ زیب اور دلچسپ ہو جاتی ہے۔ یہ تصویریں اس قدر پراثر، قوی اور واضح ہوتی ہیں کہ اس سے شاعری فرسودہ نہیں ہوتی وہ ہمیشہ تازہ اور نئی رہتی ہے۔ اختر الایمان شعری پیکر کی اس خصوصیت سے خوب واقف ہیں اور اسے برتنا بھی جانتے ہیں۔ وہ لفظوں کی مدد سے ایسے پیکر تراشتے ہیں کہ شاعر کے ذہن کی تصویر قاری کی آنکھوں کے سامنے پھر جاتی ہے۔ ضروری نہیں یہ تصویر خارجی مظاہر کی ہو، شاعر اپنے اندرون کار فرما پیکروں کو اپنی تخلیقی قوت سے زندہ جاوید تصویروں یا پیکروں کا روپ دے دیتا ہے۔ ان کی نظم مسجد کے یہ پیکر ملاحظہ ہوں :
دور برگد کی گھنی چھاؤں میں خاموش و ملول
جس جگہ رات کے تاریک کفن کے نیچے
ماضی و حال گنہگار نمازی کی طرح
اپنے اجمال پہ رو لیتے ہیں چپکے چپکے
ایک ویران سی مسجد کا شکستہ کلس
پاس بہتی ہوئی ندی کو تکا کرتا ہے
اور ٹوٹی ہوئی دیوار پر یہ چنڈول کبھی
گیت پھیکا سا کوئی چھیڑ دیا کرتا ہے
ہم جانتے ہیں کہ لفظوں کے مفہوم بڑی حد تک محدود ہوتے ہیں۔ اپنے ماضی الضمیر کے اظہار اور قاری تک ان کی رسائی کے لیے ادیب لفظوں کی جستجو کرتا ہے۔ اخترالایمان کے یہاں یہی الفاظ ہاتھ باندھے کھڑے نظر آتے ہیں۔ وہ انھیں زیادہ وسعت، درد مندی اور تہہ داری کے ساتھ استعمال کرتے ہیں جس سے اُن کی شاعری میں گہرائی اورگیرائی پیدا ہو جاتی ہے۔ وہ ایک نئے لہجے کی جستجو میں رہتے ہیں۔ اپنے قاری کو چونکانے اور حیرت زدہ کرنے کے لیے وہ ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں جن کا استعمال شاعری میں ناپسندیدہ رہا ہے۔ اسی لیے اخترالایمان خشک اور کھردرے لہجے کے شاعر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ اسی لہجے سے اُن کے یہاں اکثر طنز اور تلخی بھی ابھر آئی ہے۔ لیکن یہ لب و لہجہ قاری کو ناگوار نہیں گزرتا۔ اس سے نظم کی تاثیر میں کمی نہیں آتی بلکہ نظم کا تجسس بڑھ جاتا ہے۔، نظم احتساب کے یہ تین مصرعے دیکھیے :
تو کیا تم نے فیصلہ کر لیا، میں گنہ گار ہوں
چلو میں نے گردن جھکا دی، اٹھو میری مشکیں کسو
چوبِ خشک اور پر خار سے باندھ کر تم مجھے ٹانگ دو
جمیل جالبی نے اخترالایمان کی نظموں کا فنی جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے :
“اس کی نظموں سے یہ احساس ہوتا ہے کہ نظم کا ارتقا خود بخود نہیں ہوتا بلکہ وہ پہلے سے سوچ سمجھ کر اس کے اٹھان پر غور کرتا ہے اور زبان کے مطالعے، آہنگ، قافیوں، ترتیب اور ساخت اور موقع و محل کے ادلتے بدلتے نقش و نگار تجنیسِ صوتی اور غیر صوتی کے (آہنگ اور قافیہ پر) اثر کو بھی پہلے سے سوچ لیتا ہے۔ اسی وجہ سے اس کے طرزِ بیان میں ایجاز پیدا ہو گیا ہے جسے کچھ لوگ غلطی سے ابہام کا نام دینے لگتے ہیں۔ جب خیالات واضح اور گہرے ہوں، طرزِ بیان میں اختصار کی کوشش کی جائے تو شاعری میں ہمیشہ ابہام نظم کے حسن میں اضافہ ہی کرے گا۔”
آزاد اور معّرانظم کی ہئیت کو برتنے اور اس میں منفرد اور نئے موضوعات بیان کرنے کے باوجود اخترالایمان ایک ایسے شاعر ہیں جنھوں نے نظم کی وحدت اور اس کی فنی تکمیل پر خصوصی توجہ دی ہے۔ ان کی نظم میں الفاظ، تراکیب، تشبیہات اور استعارات اور پیکر اس طرح نمایاں ہوتے چلے جاتے ہیں جیسے وہ موضوع اور اظہار کا ایک لازمی جزو ہوں۔ اخترالایمان کا ماننا تھا کہ نظم کی شاعری میں جسم اور روح دونوں ہونے چاہئیں۔ انھوں نے شعوری طور پر ایسی کوشش کی کہ وہ زبان استعمال کی جائے جو عام فہم اور بولنے کی زبان سے قریب ہو۔ نظم یادیں کا یہ بند دیکھیے :
شہرِ تمنا کے مرکز میں لگا ہوا ہے میلا سا
کھیل کھلونوں کا ہر سو ہے ایک رنگیں گلزار کھلا
وہ اک بالک جس کو گھر سے اک درہم بھی نہیں ملا
میلے کی سج دھج میں کھو کر باپ کی انگلی چھوڑ گیا
ہوش آیا تو خود کو تنہا پاکے بہت حیران ہوا
بھیڑ میں راہ ملی نہیں گھر کی اس آباد خرابے میں
دیکھو ہم نے کیسے بسر کی اس آباد خرابے میں
اخترالایمان کی نظمیں کوئی خواب نہیں دکھاتیں، کوئی امید نہیں جگاتیں، ماضی کا نوحہ نہیں کرتیں لیکن سکون عطا کرتی ہیں۔ ان کی شاعری بتاتی ہے کہ اس دنیا میں محبت بھی ہے، اچھائی بھی اور انسانیت بھی۔ وہ زخموں کو کریدتی نہیں لیکن دلاسا ضرور دیتی ہے کہ ہاں ظلم ہوا ہے، زخم لگے ہیں۔ دلاسا دینے کے اس عمل سے زخم خواہ مندمل ہوں یا نہیں طمانیت کا احساس ضرور ہوتا ہے۔ وقت کا تصور اخترالایمان کی نظموں پر حاوی ہے جیسے یہ ان کی ذات کا ہی حصہ ہو۔ بنت لمحات کے دیباچے میں انھوں نے اعتراف کیا ہے کہ وقت کا تصوران کی نظموں کے ساتھ رہتا ہے۔ کبھی یہ گزرتے ہوئے وقت کا علامیہ بن جاتا ہے، کبھی خدا بن جاتا ہے کبھی نظم کا ایک کردار۔ اخترالایمان کے نزدیک افراد یا عوام کی سماجی اور تہذیبی زندگی میں جو تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں وہ ایک ناگزیر تاریخی عمل ہے گویا وقت کی تحریر ایسے اٹل فرمان کا حکم رکھتی ہے جس کے سامنے کوئی قوتِ مدافعت کام نہیں کرتی۔
وقت کی اس اٹل تحریر نے اخترالایمان کو آمادہ کیا کہ وہ روایتی شاعری کا جمود توڑ دیں اور ایک ایسی جدید اور منفرد شاعری کی بنیاد رکھیں جو مستقبل کا پیش خیمہ ثابت ہو۔ اخترالایمان روایت کا گہرا شعور رکھتے تھے۔ اس کی اثر پذیری پر انھیں بھرپور اعتقاد تھا۔ لیکن روایت کے جس جس پہلو سے انھوں نے انحراف کیا اور موضوع، ہئیت اور طرزِ اظہار کے جن منفرد پہلوؤں سے اردو شاعری کو متعارف کرایا وہ نئی روایتوں کے قیام کا سبب ہے۔
٭٭٭
Leave a Reply
Be the First to Comment!