بیانیہ :تعریف و توضیح
ریاض احمد کٹھو
ریسرچ اسکالر،شعبۂ اردو،کشمیر یونی ورسٹی،سری نگر ،کشمیر۱۹۰۰۰۶
………………………………………………………………………………………………..
بیانیہ کاجہاں تک تعلق ہے اردو کی مشہور تنقید نگار ممتاز شیریں اپنے مضمون’’تکنیک کا تنوع۔ناول او رافسانے میں ‘‘ میں لکھتی ہیں
’’بیانہ صحیح معنوں میں کئی واقعات کی ایک داستان ہوتی ہے جو یکے بعد دیگرے علی الترتیب بیان ہوتے ہیں‘‘ ۱
ممتاز شیریں کے اس قول سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ بیانیہ دراصل کسی تحریر یا فن پارے میں کوئی واقعہ یا مختلف واقعات کی ایک ترتیب ہوتی ہے جو یکے بعد دیگرے تہہ در تہہ کھلتے ہیں۔بیانیہ اسلوب میں مصنف کسی واقعہ‘ قصہ‘ مطالعہ یا مشاہدے کو حکایتی یا کہانی کے انداز میں پیش کرتاہے ۔بیانیہ میں کوئی بھی تجربہ جائز ہے ۔ بیانیہ میں مصنف کوئی واقعہ یا قصہ کرداروں‘مکالموں یا مختلف مناظر کے ذریعے پیش کرسکتا ہے یا پھر وہ کسی فن پارے میں بیانیہ کاپیرائیہ تیار کرنے کے لیے داخلی خود کلامیInternal Monologueکاسہارا بھی لے سکتا ہے ۔اگر بیانیہ ایک طرف اکہرا‘رومانوی یا حقیقت پسندانہ ہوسکتاہے تو دوسری طرف اس میں علامت او رتجرد کااستعمال بھی جائز ٹھہرتا ہے ۔بیانیہ سے فکشن کاپورا تانا بانا تیار ہوتاہے جس کے لیے کہانی ایک جُز یا حصے کی حیثیت رکھتی ہے جو بمعنیStory Lineکے بیانیہ میں جاری رہتی ہے اور آگے بڑھتی رہتی ہے اس سے کسی فن پارے یا تحریر کاپلاٹ تیار ہوتاہے اور یہ Story Lineفکشن میں کرداروں یاواقعات یا مکالموں یا مختلف مناظر کو تشکیل دیتی ہے اور یہ سب چیزیں مل کربیانیہ کی شکل متعین کرتی ہیں۔
بیانیہ کاایک سرا جہاں متھ(Myth) اساطیر‘ تمثیل ‘ حکایت‘ دیو مالا‘ کتھا کہانی وغیرہ جیسی قدیم لوک روایتوں سے ملتاہے تو دوسرا سرا ڈرامہ‘ ناول‘ افسانہ جیسی جدید اصناف سے ملتاہے ۔بیانیہ میں صنفی ‘موضوعاتی یا ہیئتی اعتبار سے کوئی قید نہیں ہے ۔بیانیہ کو واقعہ یا قصہ سے غرض ہے ۔مشہور نقاد و محقق شمس الرحمن فاروقی لکھتے ہیں:
’’بیانیہ سے مراد ہر و ہ تحریر ہے جس میں کوئی واقعہ یا واقعات بیان کئے جائیں‘‘ ۲
تاہم بیانیہ میں وقت کی قید ضرور ہے اور ہر بیانیہ وقت کا پابند ہوتاہے بقول شمس الرحمن فاروقی:
’’بیانیہ کا وجود ہی وقت پر منحصر ہے‘‘ ۳
گوپی چند نارنگ بیانیہ کے لیے وقت کی قید کو ضروری سمجھتے ہیں۔ان کے نزدیک بیانیہ کے لیے ضرور ی ہے کہ وہ ماضی سے تعلق رکھتا ہو۔نارنگ لکھتے ہیں:
’’ حال اور مستقبل میں Imperfectiveیعنی پیرایہ دیکھنے والی نظموں( شاعری) میں زیادہ تر بیانیہ نہیں فقط بیان ہوتا ہے ‘ یا پھر یہ منظر یہ ہوتی ہیں‘‘ ۴
بیانیہ میں وقت کی جو اہمیت ہے ‘ یہ صرف نظموں میں یا شاعری میں ہی نہیں بلکہ ہر بیانیہ چاہے وہ نثر میں ہو یانظم میں‘ اس میں وقت کی اپنی اہمیت ہے ۔جہاں فن پارے میں ماضی بطوروقت ہوگا وہاں بیانیہ کی گنجائش زیادہ ابھرتی ہے ۔جہاں حال ومستقبل بطور وقت استعمال میں آیا ہو وہاں بیانیہ کے پنپنے کے آثار نسبتاً کم ہوتے ہیں۔وقت اپنی جگہ اہم صحیح تاہم بیانیہ کااصل دارومدار قصہ یا کہانی پر ہے ‘جہاں واقعہ‘ قصہ یا کہانی کاعمل دخل ہو گاوہاں زیادہ سے زیادہ بیانیہ کی کارفرمائی ہوگی۔رہی بات شاعر ی جیسی نازک صنف کی تو یہاں مسئلہ کچھ پیچیدہ نظر آتا ہے اور بیانیہ کے حوالے سے یہاں خاصا الجھاؤ پایا جاتاہے۔کیونکہ شاعری کے اپنے کچھ اصول اور لوازمات ہوتے ہیں۔ شاعر ی کے متعلق عام طو رپر کہا جاتاہے کہ یہ ایک نازک فن ہے۔ جب کہ بیانیہ ٹھوس واقعیت او ذہنیت کا مطالبہ کرتاہے ۔اس لحاظ سے شاعر ی میں کوئی واقعہ یا کہانی بیان کرنا نا ممکن تو نہیں مشکل کام ضرور ہے ۔شاعری اس طرح کی بھی ممکن ہے کہ جس میں سرے سے کوئی واقعہ یا قصہ بیان نہ ہوا ہو‘ شمس الرحمن فاروقی کے مطابق’’ ایسی شاعری جس میں صرف کوئی تاثر کوئی فوری مشاہدہ یا کسی جذبے کا بیان یا اس کی طرف اشارہ ہو ۔ اس طرح کی شاعری میں کوئی واقعہ بیان نہیں ہوتا‘‘ تاہم ہزاروں سال پرانی شعر ی روایت کو دیکھئے پھر چاہے وہ مغربی و یونانی ٹریجیڈی و کامیڈی کی روایت ہو یا فارسی زبان کی قدیم مثنویاں یا پھر سنسکرت ادب سے جڑی شعری روایت مثلاً ’ کاویہ ‘ وغیرہ تو پتہ چلتاہے کہ ان میں روایتی بیانیہ کی پوری شان چھلکتی ہے اور یہ کام آج تک جاری و ساری ہے جس کا ثبوت ہمیں جدید شعراء کے کلام کا مطالعہ کرنے پر چلتاہے جہاں آج بھی بیانیہ کی روایت زندہ ہے ۔بیانیہ نہ صرف افسانوی ادب تک محدود ہے بلکہ غیر افسانوی ادب میں بھی اس کا پورا عمل دخل ہے ۔ مثال کے طور پر اخبار کی رپورٹ ہو یا کوئی تاریخی واقعہ‘ سفر نامہ ہویا سوانح عمری یا خودنوشت سوانح عمری یا کوئی ایسا خط جس میں کوئی واقعہ یا واقعات بیان ہو ‘ ان سب میں بیانیہ کی کارفرمائی کہیں نہ کہیں موجود رہتی ہے ۔آخر ان میں بھی تو کہیں نہ کہیں قصہ پن یا واقعہ موجود ہوتاہے۔یہ بات دوسری ہے کہ اافسانوی ادب کے مقابلے میں غیر افسانوی ادب میں حقیقت پسندی کاعمل دخل کسی حد تک زیادہ رہتاہے ۔لیکن اس بارے میں شمس الرحمن فاروقی لکھتے ہیں:
’’ بیانیہ میں یہ شرط نہیں ہے کہ اس میں جو واقعات بیان ہوں وہ لامحالہ فرضی ہوں اگر یہ شرط لگائی جائے توبہت سے ناول اورافسانے بھی بیانیہ کی سرحد سے باہر ٹھہریں گے ‘‘ ۵
اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ بیانیہ کو واقعات سے غرض ہے چاہے واقعات فر ضی ہوں یا سر تاسر حقیقت پر مبنی ہوں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتاکہ وہ واقعات کب ‘کہاں او ر کیسے اخذ کئے گئے ہیں ۔اگر بیانیہ پر فرضیت کی شرط مسلط کی جائے تو نہ صرف غیر افسانوی ادب کی درج بالا اقسام بلکہ اگر ہم ادبی روایت پر نظر ڈالیں تو بہت سے ایسے ناول اور افسانے ہماری نظر سے گذریں گے جن میں حقیقت پسندی سے کام لیا گیا ہے یا پھر سچ اور جھو ٹ کو کچھ اس قدر گھلا ملا کر پیش کیاگیا ہے کہ اس میں جھوٹ او رسچ کی تمیز او رفرق کرنا بہت مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن سی بات ہے پھر ایسے واقعات اور قصے بھی جو ہماری مذہبی کتابوں میں مذکور ہے جن کی صدیوں پرانی روایت ہے او رجن کے بارے میں ہمارا یہ عقیدہ او رمکمل یقین رہاہے کہ وہ واقعات اور قصے سر تاسر سچے اور مبنی بر حقیقت ہیں پھر کیاہم ان کو بیانیہ سے باہر کا حصہ مان لیں۔ جواب یقینا نفی میں آئے گا کیونکہ بیانیہ محض واقعہ یا واقعات پر مبنی ہوتاہے چاہے وہ واقعہ یا واقعات فرضی ہوں یا سر تاسر حقیقت سے تعلق رکھتے ہوں۔ ظاہر ہے معنیاتی تہہ داری کے جتنے نمونے ہوں گے بشمول استعارہ‘ تمثیل اور علامت کے ‘ بیانیہ سے ان کا جوڑ بہت پرانا ہے ۔
ان کے علاوہ ہمارے سامنے کئی ایسے اسلوب بھی ہیں جن میں واقعہ کو بیان نہیں کیاجاتا بلکہ ہمارے سامنے کرداروں کے ذریعہ او رمختلف مناظر کے ذریعے پیش کیا جاتاہے کیا ان کو بیانیہ کے دائرئے میں لایا جاسکتا ہے یا نہیں۔مثال کے طور پر مندرجہ ذیل اسالیب پر غور کرلیں تو یہ حقیقت ہمارے سامنے کھلتی ہوئی نظر آئے گی۔مثلاً فلم‘ ڈرامہ‘ رقص خاص کر وہ رقص جس میں کوئی واقعہ یا واقعات موجود ہوتے ہیں مثلاً کتھک اوربیلی ڈانس وغیرہ ۔ شمس الرحمن فاروقی لکھتے ہیں:
’’ظاہر ہے کہ ان تینوں(فلم ‘ ڈرامہ ‘ رقص) میں بیانیہ کاعنصر موجودہے بعض میں کم تو بعض میں زیادہ‘‘ ۶
اگر چہ فیچر فلم میں بیانیہ عنصر کی کارفرمائی بظاہر بہت کم نظر آتی ہے لیکن یہ بات بھی غور کرنے کے لائق ہے کہ کوئی بھی فیچر فلم ہواس میں نہ صرف کرداروں کے ذریعے بہت سے واقعات دکھائے جاتے ہیں بلکہ زبانی مکالمے کے ذریعے بہت سے واقعات پڑھے یا بیان کئے جاتے ہیں کچھ ایسا ہی معاملہ تقریباً ڈرامے کے ساتھ بھی ہے ۔جہاں واقعہ یا واقعات زبانی مکالمے کے بجائے کرداروں کے ذریعے اورمختلف مناظر کے ذریعے سامعین کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں۔رقص کامعاملہ فیچر فلم او رڈرامے سے بھی مختلف اور پیچیدہ ہے جہاں اکثر زبانی مکالمہ یا الفاظ تو سرے سے موجود نہیں رہتے لیکن کہیں نہ کہیں واقعہ کی موجودگی ضرور ہوتی ہے ۔اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ ان چیزوں کو بیانیہ کے زمرے میں لایا جاسکتا ہے یا نہیں ۔ اس بارے میں شمس الرحمن فاروقی اپنے مضمون’’ چند کلمے بیانیہ کے بیان میں‘‘ میں لکھتے ہیں کہ’’ ڈرامہ ‘ فلم ‘ رقص وغیرہ میں بیانیہ ہے یا نہیں یہ سوال بڑی حد تک پیش کردگی پر مبنی ہے‘‘ یعنی فلم‘ ڈرامہ یا رقص کو اس تناظر میں دیکھا جائے گاکہ ان میں واقعہ یا واقعات کو کرداروں‘مکالموں او رمختلف مناظر کے ذریعے کس حد تک بیانیہ کے اسلوب و ضوابط کے تحت برتا گیا ہے ۔اس پیش کردگی کے حوالے سے شمس الرحمن فاروقی نے اس مضمون میں آگے چل کر ایک مختصر سی بحث کی ہے ہم اس بار ے میں یہاں کوئی تبصرہ تو نہیں کریں گے لیکن سردست یہ بات بتاتا چلوں کہ بیانیہ نہ صرف تمام فکشن پر محیط ہے بلکہ اس کو انسانی زندگی کااستعارہ بھی کہہ سکتے ہیں۔بقول زوتان تاداروف ’’ بیانیہ برابر ہے حیات کے ‘‘۔
کہا جاسکتاہے کہ زندگی سے جڑا کوئی شعبہ نہیں جس میں بیانیہ کاعمل دخل نہ ہو۔لیوتار علم کے دو حصے بیان کرتے ہیں ایک کو وہ سائنسی علم کہتے ہیں اور ایک کو بیانیہ ۔ لیوتار کے نزدیک سائنس او ربیانیہ دو روایتی حریفوں کی حیثیت رکھتے ہیں جن میں ہمیشہ سے ہی تضاد اور کشمکش کا رشتہ رہا ہے ۔لیوتار یہ بھی کہتا ہے کہ سائنس او رٹیکنا لوجی کے یلغار کے باوجود بھی بیانیہ کاوجود ضروری ہے ۔جہاں سائنسی علوم میں ثبوت کی ضرورت پڑتی ہے وہیں بیانیہ کے لیے یہ شرط ضروری نہیں۔یہاں نہ تو دلیل دینے کی ضرورت ہے او رنہ ہی ثبو ت کی۔جہاں سائنسی روایت بیانیہ کو قدامت پسند ‘ پسماندہ‘ توہم پرست مان کر اس پر ہمیشہ معترض رہی ہے وہیں سائنسی روایت کو اپنی سند کو ثابت کرنے کے لیے ہمیشہ بیانیہ کے وجود کی ضرورت رہتی ہے۔
دوسرے لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بیانیہ کی کسوٹی سے ہی سائنسی روایت کی صحت اور عدم صحت یا صحیح او رغلط کی پہچان ہو تی ہے اور یوں سائنسی علم میں خود بخودبیانیہ کا عمل دخل شامل ہوجاتاہے۔
لیوتار کے نزدیک بیانیہ وہ صدیوں پر پھیلی ہوئی روایت ہے جس میں متھ‘ دیوما لا‘ اساطیر اور قصہ کہانیاں شامل ہیں۔لیوتار فلسفہ کی روایت کو بھی اس بیانیہ کاایک حصہ مانتے ہیں۔ بیانیہ کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے لیوتار لکھتے ہیں:
’’بیانیہ سے ہی معاشرتی کو ائف و روابط ‘نیک و بد‘ صحیح و غلط کی پہچان اور ثقافتی رویوں کے معیار طے ہوتے ہیں۔بیانیہ نہ صرف کسی بھی معاشرے میں انسانی رشتوں کے نظم و ربط کی نشاندہی کرتاہے بلکہ فطرت او رماحول سے انسان کے روابط کا بھی مظہر ہوتاہے کسی بھی معاشرے میں حسن‘ حق او رخیر کے معیار اس سے طے ہوتے ہیں اور عوامی دانش وحکمت بھی اسی سرچشمے کی دین ہیں ۔مختصر یہ کہ کسی بھی ثقافت میں معاشرتی کو ائف و ضوابط او رمعاشرتی رویوں کی تشکیل و تہذیب جس سرچشمہ فیضان سے ہوتی ہے وہ بیانیہ ہے ‘‘ ۷
لیوتار کے بیان سے یہ بات تو ظاہر ہوجاتی ہے کہ بیانیہ کاعمل دخل نہ صرف فکشن تک محدود ہے بلکہ حیاتِ انسانی سے جڑا کوئی ایسا شعبہ نہیں جس میں بیانیہ کاعمل دخل موجود نہ ہونیزیہ کہ بیانیہ پورے انسانی معاشرت او رثقافت پر اثر انداز ہے ۔اس سے معاشرے میں صحیح و غلط کاپتہ چلتاہے او رنیک و بد کی پہچان بھی اسی سے ہوتی ہے ۔یہاں تک کہ انسانی ثقافتی رویوں او راصولوں کے معیار بھی یہی بیانیہ طے کرتاہے ۔بیانیہ کی اسی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے فیڈرک جیمز نے کہا تھا کہ:
’’بیانیہ اتنا ادبی فارم نہیں ہے جتنا یہ ایک علمیاتی زمرہ یا ساخت ہے۔ زندگی کی حقیقت ہم تک اس زمرے میں ڈھل کر پہنچتی ہے یعنی ہم دنیا کو بیانیہ کے ذریعے سے ہی جانتے ہیں یہ سوچنا بھی محال ہے کہ دنیا کا کوئی تصور بیانیہ سے ہٹ کر ممکن ہیں‘‘ ۸
دیکھا جائے تو فیڈرک جیمز کا یہ بیان کہ ہم دنیا کو بیانیہ کے ذریعے سے ہی جانتے ہیں ‘ سراسر حقیقت پر منبی ہے کیونکہ ہزاروں سال پرانی روایت جو ہم تک پہنچتی ہے وہ انہی قصہ کہانیوں‘ لوک روایتوں کے ذریعے سے ہی پہنچتی ہے یعنی انسان کااٹھنا بیٹھنا‘ رہن سہن‘ چال و چلن‘ پہناوا غرض انسانی زندگی سے جڑا ہر ایک پہلو ‘ ہر ایک چیز ہم تک ان ہی قصہ کہانیوں‘ لوک روایتوں وغیرہ سے پہنچتا ہے جو بیانیہ کی اصل روایت سے جُڑی ہیں او رجن میں ہزاروں سا ل قدیم روایتی بیانیہ کے نقوش ہی نہیں بلکہ پوری تصویر نظر آتی ہے۔
ہزاروں سال پرانی ان روایتوں سے پتہ چلتا ہے کہ بیانیہ فکشن کاایک ناگزیر حصہ ہے جس کے بغیر فکشن کا تصور بھی نہیں کیاجاسکتا لیکن جدیدیت کے آتے آتے فکشن سے بیانیہ کا اخراج شروع ہوا۔ساختیاتی مفکر ژرار ژینت(Gerard Genette)لکھتے ہیں کہ’’نئے فکشن کے آتے آتے بیانیہ’’مصنف‘‘ کے اپنے ڈسکورس میں ڈوب گیا ‘ ‘ ۔فکشن میں قصہ کے بجائے کردار نگاری پر زور‘ مصنف کی جابجا مداخلت اور اپنے تاثرات بیان کرنے سے فکشن میں واقعہ یا قصہ کی اہمیت کم ہوتی گئی۔فکشن سے واقعہ دور ہونے کے سبب بیانیہ بھی تنزل کا شکار ہوا یا یوں کہیں بیانیہ فکشن سے آہستہ آہستہ غائب ہوتا گیا یہاں تک کہ بعض حلقوں کی جانب سے بیانیہ کی موت کااعلان بھی جاری کیا گیا۔ڈاکٹر قمر رئیس لکھتے ہیں:
’’نئے افسانے کے بارے میں عام طور پر اس تشویش کا اظہار کیاجاتاہے کہ اس کو روایت سے اﷲ واسطے کا بیر ہے ۔اس میں روایت شکنی کا رجحان ہے ۔ اس میں بیانیہ کی روایتی خوبیاں نہیں ہیں یا بہت کم ہیں۔ افسانے (فکشن) سے بیانیہ کے اخراج کا ذمہ دار جدیدیت کو ٹھہرایاگیا ہے یعنی جدیدیت کے جرائم کے فہرست میں بیانیہ کا قتل عام بھی شامل ہے ‘‘ ۹
ژرار ژینت او رڈاکٹر قمر رئیس کے بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ نئے فکشن کے آتے آتے بیانیہ فکشن نگاروں کے جبر کاشکار ہوا او رآہستہ آہستہ بیانیہ فکشن سے غائب ہوتاگیا فکشن نگاروں نے بیانیہ کی قدیم روایت سے انحراف کرکے بیانیہ کے لیے نئے معیار طے کئے جس میں قصہ یا واقعہ جس کو روایتی بیانیہ میں بنیادی اہمیت حاصل تھی‘ پسِ پشت ڈالا گیااور سارا زور کردار نگاری پر صرف ہونے لگا او رپھر فکشن نگاروں کافن پارے میں جابجا اپنی موجودگی کااحساس دلانا فکشن میں بیانیہ کے لیے موت کا فرمان ثابت ہوا۔
لیکن فکشن میں آہستہ آہستہ تبدیلی کے آثار رونما ہونے لگے او رفکشن نگاروں کا ذہن جدیدیت کی فیشن پرستی سے آزاد ہوکر نئی فضا میں سانس لینے لگا۔سوچ او رفکر نے نئی کروٹ لی او رفکشن میں بیانیہ کی واپسی کے امکانات پھر سے ظاہر ہونے لگے۔اب فکشن میں کردار کی جگہ قصہ یاواقعہ کو پھر سے اہمیت دی جارہی ہے جو روایتی بیانیہ کی شان تھی ۔شمس الرحمن فاروقی لکھتے ہیں:
’’ہمارے نئے افسانے(فکشن) جن میں کردار کو کوئی خاص اہمیت نہیں بلکہ جس میں واقعہ ہی تقریباً سب کچھ ہے بیانیہ کی اصل روایت سے نزدیک تر ہے اور جب میں نئے افسانے کی بات کرتاہوں تو میری مراد انتظار حسین کے افسانے نہیں جن میں داستانی رنگ ہر ایک کو نظر آتاہے میری مراد آٹھویں او رنویں دہائی کے افسانے ہیں جن میں باقاعدہ پلاٹ چاہے نہ بھی ہو لیکن ان میں واقعہ کی کثرت ہے ‘‘ ۱۰
یہاں بظاہر ڈاکٹر قمر رئیس اور شمس الرحمن فاروقی کے بیانات میں جو تضاد نظر آتاہے اس کی وجہ غالباً یہی ہے کہ جس افسانے کی بات قمر رئیس کررہے ہیں یہ دراصل پریم چند او راس کے فوراً بعد کازمانہ ہے جب فکشن نگاروں پر بقول شمس الرحمن فاروقی پریم چند فکشن کا بھوت سوار تھا اورفکشن میں قصہ کی جگہ کردار نگاری پر زور دیا جاتاتھا اورواقعہ کوثانوی حیثیت دی جاتی تھی لیکن دھیرے دھیرے فکشن نگار اس اثر کو توڑنے میں کسی حد تک کامیاب ہوگئے اور پھراس دور میں شامل ہوگئے جس کے متعلق شمس الرحمن فاروقی لکھتے ہیں کہ اس میں قدیم روایتی بیانیہ کی بازگشت سنائی دیتی ہے ۔اس دور کو ہم مابعد جدیدیت کے دور سے تعبیر کرسکتے ہیں حالانکہ گوپی چند نارنگ بھی فکشن میں قصہ یا کہانی کی واپسی کااعتراف توکرتے ہیں لیکن وہ اس کو فکشن میں بیانیہ کی واپسی سے تعبیر ہر گز نہیں کرتے۔جدیدیت کے ہاتھوں بیانیہ کی صدیوں پرانی روایت کے ساتھ جو بے روی برتی گئی اس کے متعلق پروفیسر گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں:
’’ جدیدیت کی بعض انتہائی شکلوں میں کوتاہی یہ ہوئی کہ علامتیت اور تجریدیت کو حرفِ آخر سمجھ لیا گیااور فیشن پرستی کی مقلدانہ روش کے تحت یہ لے اس قدر بڑھادی گئی کہ دوسرے تیسرے درجے کے بعض فنکاروں کے ہاتھوں کہانی کی صور ت مسنح ہوگئی۔ اس میں ا فسانے کے فن او ر صدیوں کے ثقافتی تقاضوں سے عمداًچشم پوشی بھی کی گئی۔اس زمانے کا ایک عام نعرہ تھا کہ جدید افسانے کو جدید بنانے کے لیے اس سے کہانی پن کا اخراج ضروری ہے ‘‘ ۱۱
لیکن وہ اس بات کے بھی قائل نہیں کہ ادب یا فکشن سے کبھی کہانی کا اخراج مکمل طور پر ہوا۔حالانکہ بعض فنکاروں کے ہاتھوں صدیوں پرانی روایت سے صرفِ نظر کرکے قصہ کہانی کے ساتھ کھلواڑ ضرور ہوا لیکن بعض فنکاروں کے یہاں یہ روایت ہمیشہ قائم رہی ۔جدیدیت کی آڑ میں قصہ پن کی بے حرمتی ضرور ہوتی رہی لیکن فکشن سے کبھی واقعہ یا قصہ پوری طرح ختم نہیں ہوا۔ بقول ِگوپی چند نارنگ :
’’کتھا کہانی اور حکایت کی جو روایت صدیوں سے ہمارے تہذیبی مزاج او راجتماعی لاشعور کاحصہ ہے اور ہمارے خون میں شامل ہے اسے نظر انداز کیاگیا ہر چند کہ کہانی پن افسانے سے کبھی پوری طرح غائب نہیں ہوسکا‘‘
بیانیہ میں کردار اور واقعہ یا قصہ کے حوالے سے پچھلے سو ڈیڑھ سو سالوں سے ایک نئی بحث چل نکلی ہے ۔جہاں ایک طرف ہزاروں سال پر پھیلی ہوئی روایت ہے ۔جس میں بقول تاڈا روف واقعہ ہی کردار ہے ۔وہیں ہنری جیمز کے خیالات نے بیانیہ میں کردار نگاری کی اہمیت کے حوالے سے ایک نئی او رمتضاد بحث کو جنم دیا۔ہنری جیمز کے یہاں روایت کے برعکس بیانیہ کی اصل روح کردار نگاری ہے قصہ یا واقعہ نہیں۔کردار کے ارد گرد قصہ پروان چڑھتاہے اور آگے بڑھتا رہتاہے ۔ہنری جیمز کی نظر میں بیانیہ میں کردار نگاری کی جو اہمیت ہے اس کا اندازہ ان کے مختلف بیانات کی روشنی میں بخوبی لگایا جاسکتا ہے جیمز لکھتے ہیں:
’’کردار کیا ہے ۔اگر وہ واقعہ کا تعین نہیں کرتا؟واقعہ کیاہے اگر وہ کردار کی وضاحت نہیں کرتا؟ کوئی تصویر یا کوئی کوئی ناول کیا ہے اگر وہ کردار کے بارے میں نہیں ہے ؟کردار کے علاوہ ناول یا تصویر میں ہم تلاش ہی کیا کرتے ہیں اور حاصل ہی کیا کرتے ہیں‘‘ ۱۲
ہنری جیمز کے اس بیان سے اس بات کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی نظر میں بیانیہ میں کردار کی کیااہمیت ہے ۔جیمز کی نظر میں کردار کے بغیر بیانیہ کاتصور بھی ناممکن ہے اور کسی فن پارے کا پورا تانا بانا کردار کے اردگرد ہی تیار ہوتاہے ۔انہوں نے ڈرامے کے طرزپر کردار نگاری کی حمایت میں کچھ اس قدر مبالغہ آرائی سے کام لیا کہ ناول او رافسانے(فکشن) کو ڈرامے کے قریب لا کھڑا کیا۔شمس الرحمن فاروقی اس بارے میں لکھتے ہیں کہ’’جیمز نے کردار کے اظہار میں اس قدر غلو کیا کہ اس نے اکثر جگہ ’’ ناول نگار‘‘ یا ’’ فکشن نگار‘‘ کالفظ استعمال ہی نہیں کیابلکہ ’’ ڈرامہ نگار‘‘ لکھا‘‘ ہنری جیمز کے یہاں ناول نگار (فکشن نگار) کی حیثیت ایک ڈرامہ نگار کی سی ہے ۔ جیمز کا خیال ہے کہ جس انداز سے ایک ڈرامہ نگار ڈرامہ میں اپنا سارا کام کرداروں سے لیتا ہے ٹھیک اسی طرح ناول نگار یا فکشن نگار بھی ناول میں مختلف واقعات کااظہار کرداروں کے ذریعے سے کرے ۔انہوں نے فکشن میں واقعات کے اسلوبی اظہار کے لیے دو نئی اصطلاحیں وضع کیں ایک کو انہوں نے منظری(Scenic) کانام دیااور دوسری اصطلاح کو وہ غیر منظری(Non Scenic) کہتا ہے۔منظری سے جیمز کی مراد وہ اسلوب یا طریقہ ہے جو ایک ڈرامہ نگار ڈرامہ میں استعمال کرتاہے جو اسلوب ڈرامہ سے قریب تر ہو او رجس میں کوئی واقعہ (Event)یا واقعات(Events)کرداروں کے ذریعے اس طرز پر پیش کئے جائیں جیسے کسی ڈرامے میں پیش کئے جاتے ہیں۔دوسری اصطلاح یعنی غیر منظری scenic(Non سے جمیز کی مراد وہ اسلوب ہے جو ڈرامہ سے بالکل مختلف ہو اور دور ہو یا جس میں کردار کے بجائے واقعات کو اہمیت دی جاتی ہو۔ ہنری جیمز نے ہمیشہ منظر ی اسلوب کوغیرمنظری پر نہ صرف فوقیت دی بلکہ موخرالذکر کو وہ تقریباً رد ہی کرتاہے۔ جیمز کردار نگاری کے حوالے سے ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
’’سچی بات یہ ہے کہ ایک بات مجھے بڑے زبردست طریقے سے پکی معلوم ہوتی ہے او روہ یہ کہ کسی تصویر میں جو لوگ ہیں یا کسی ڈرامے میں جوفاعل ہیں وہ اس حد تک دلچسپ ہیں جس حد تک وہ اپنی صورت حال کو محسوس کرتے ہیں کیونکہ جو پیچیدگیاں ظاہر ہوتی ہیں خودان کو اس کا شعور جس حد تک ہوتاہے اس حد تک ہمارا او ران کے شعور کا رشتہ قائم ہوسکتا ہے ‘‘ ۱۳
جیمز نے کردار نگاری کے حوالے سے کس قدر مبالغہ آرائی سے کام لیا۔اس کاصحیح اندازہ جیمز کے مضمون سے لی گئی اس عبارت سے بخوبی ہوجاتا ہے ۔ہنری جیمز لکھتے ہیں:
’’کسی مصنف کااولین فریضہ یہ ہے کہ و ہ روحوں کاعلاج کرے ۔ چاہے اس کے نتیجے میں اسے محاکات کو دبانا منہاں ہی کیوں نہ کرناپڑجائے۔ اس کو چاہیے کہ وہ اپنے کرداروں کی خبر رکھے۔اس کے محاکات اپنا معاملہ خودہی ٹھیک کریں گے ‘‘ ۱۴
ہنری جیمز کے نزدیک کردار نگاری بیانیہ کی اصل روح ہے اور کہانی یا واقعہ ہمیشہ کرداروں کے تابع ہوتے ہیں۔ جیمز تو یہاں تک کہتا ہے کہ کسی فن کار کو صرف اپنے کرداروں پر نظر اورمکمل پکڑ رکھنی چاہیے۔چاہے اس کے لیے فنکار کو واقعہ او رمحاکات کو دبانا ہی کیوں نہ پڑے ۔کرداروں کے ساتھ ساتھ کہانی یا قصہ اپنے آپ آگے بڑھتا اور پروان چڑھتا جائے گا۔ہنری جیمز کے یہ تصورات ہماری صدیوں پر پھیلی ہوئی بیانیہ کی قدیم روایت کے برعکس ہے دراصل جیمز جس بیانیہ کی پاسداری کررہے ہیں وہ ہماری روایتی بیانیہ کاحصہ نہیں ہوسکتا۔ہنری جیمز کے برعکس زیوتان تاڈاروف(Tzvtan Todoror)کا نظریہ وہی ہے جو صدیوں پر پھیلی ہوئی روایت پر مبنی ہے ۔ہنری جیمز کے خیالات سے اختلاف کرتے ہوئے تاڈاروف
بیانیہ کی اصل روایت کردار کو نہیں واقعہ یا قصہ کوقرار دیتاہے ۔جیمز کے خیالات کو رد کرتے ہوئے زیوتان تاڈار روف کہتے ہیں:
’’ہم نے شاید ہی کوئی ایسی مثال او ردیکھی ہو جس میں خودرائی نے خودکو ہمہ گیر حقیقت کے طور پر پیش کیاہو۔ ممکن ہے جیمز کا نظریاتی آدرش ایسا بیانیہ رہا ہو جس میں ہر چیز کرداروں کی نفسیات کے تابع ہو لیکن ادب میں ایک پورا ناقابل نظر اندازی رجحان موجود ہے جس کی رو سے واقعات اس لیے نہیں کہ وہ کردار کی وضاحت کرے بلکہ اس کے برخلاف و ہاں تو سارے کے سارے کردارہی واقعات کے تابع ہوتے ہیں‘‘ ۱۵
تاڈا روف کی نظر صدیوں پر پھیلی ہوئی بیانیہ کی روایت پر ہے جس میں قصہ یا واقعہ کو بنیادی اہمیت حاصل ہے ۔جہاں کردار کی اہمیت ثانوی ہے او رہر کردار واقع کا تابع ہوتاہے جس نظریہ کی پاسداری تاڈا روف کررہے ہیں وہ بیانیہ کی اصل روایت سے جڑا ہواہے ۔ تاڈا روف کے نزدیک قدیم روایتی بیانیہ میں ہنری جیمز کی کردار نگاری کے برعکس قصہ یا واقعہ ہی وہ چیز ہے جس کے اردگرد کردار ‘مکالمہ منظر نگار ی پروان چڑھتے ہیں اور یہ سب چیزیں قصہ یا واقعہ کے تابع ہوتے ہیں۔دراصل ان چیزوں کاوجود ہی قصہ یا کہانی سے قائم ہے ۔قصہ یا واقعہ کے بغیر ہم کردار نگاری کاتصو ربھی نہیں کرسکتے ۔کہانی کے ساتھ ساتھ کردار بھی سانس لیتے رہتے ہیں اگر کہانی رُک جائے تو کردار کاوجود باقی نہیں رہ سکتا بلکہ تاڈاروف تو یہاں تک کہتے ہیں کہ ’’روایتی بیانیہ میں واقعہ ہی کردار ہے ‘‘ جب کہ ہنری جیمز کے یہاں بیانیہ میں ہر چیز کرداروں کی نفسیات کے تابع ہے یہاں تک کہ واقع یا قصہ بھی۔ان کی نظر میں وہ شخص اہمیت کاحامل ہے جس پر کوئی واقعہ گزرا ہویعنی کرداراہم ہے واقعہ نہیں لیکن شمس الرحمن فاروقی کے مطابق’’قدیم روایت کی رو سے وہ شخص اہم نہیں ہے جس پر واقعہ گزرا ہو بلکہ واقعہ خوداہم ہے ‘‘اس بیان سے اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ ادب میں یہ بات اہم نہیں ہے کہ کسی شخص پر کیاگزر رہی ہے یا کرداروں کی نفسیات کس نوعیت کی ہے ۔اس پر کس طرح کے حالات گزررہے ہیں بلکہ اہمیت اس واقعہ کی ہے جو کردار کے ساتھ پیش آتاہے۔ یہی روایتی بیانیہ کی پہچان ہے یعنی بیانیہ کی قدیم روایت میں اہمیت اس شخص کی نہیں جس پر واقعہ گزررہا ہے بلکہ اہم وہ ہے جو پیش آرہا ہے یعنی واقعہ جو بیانیہ کی اصل روایت ہے کیونکہ واقعہ ہی بیانیہ کااصل پیرایہ ہے ۔پروفیسر گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں:
’’بیانیہ توفکشن کی زینت ہے کہانی اس کا جُز ہے بمعنیStory Lineکے جوبیانیہ میں جاری رہتی ہے یاجس سے پلاٹ بنا جاتا ہے یا جوکرداروں یا واقعات یامکالموں یا مناظر کی تشکیل کرتاہے ‘‘ ۱۶
یعنی بیانیہ میں ایک کہانی ہوتی ہے جس کے اردوگرد پھر ساراماحول تشکیل پاتاہے کہانی آگے بڑھتی رہتی ہے اور اس کہانی کے اردگرد پھر پلاٹ ‘کردار‘مکالمہ‘ مناظر وغیرہ کی خمیر تیار ہوتی ہے ۔یہ سب چیزیں کہانی کے لیے معاون ضرور ہیں لیکن بنیادی اہمیت قصہ کی ہی ہے۔ کہانی کے ساتھ ساتھ یہ چیزیں بھی چلتی رہتی ہیں او رسب مل کر بیانیہ کی تشکیل کرتے ہیں۔
بیانیہ کی روایت اگرچہ ہزاروں سال پرانی ہے تاہم یہ کبھی ماہرین کے درمیان موضوع بحث نہ بن سکا او رنہ ہی اس موضوع پر کوئی خاطر خواہ کام ہوسکا۔لیکن ساختیات کے منظر پر آنے سے بیانیہ کی تھیوری پر حالیہ برسوں میں بہت کچھ لکھا جاچکا ہے یہاں تک کہ بیانیہ اب ساختیات کا ناگزیر حصہ بن چکاہے چنانچہ کہانی ‘پلاٹ‘بیانیہ(Narrative)وغیرہ کے بارے میں روسی ہیئت پسندوں سے لے کر مابعد جدیدیت کے لکھنے والوں تک اب بیانیہ کاموضوع کافی اہمیت حاصل کرچکا ہے ۔تاہم ساختیات کے ماننے والوں نے بیانیہ کے موضوع پر خاص توجہ مرکوز کی شمس الرحمن فاروقی لکھتے ہیں:
’’معنیاتی نقادوں نے بیانیہ پر بہت توجہ صرف کی ہے شاید اس توجہ کے باعث بیانیہ کی تنقید اور اس کے نظریاتی مباحث یعنی بیانیات (Narratology)کو جدیدتنقید میں اہم ترین مقام حاصل ہے ‘‘ ۱۷
ساختیاتی فکر چونکہ بظاہر نظر نہ آنے والے متن کے داخلی ساخت کی کلی تجریدی نظام پر زور دیتی ا س وجہ سے بیانیہ کے مختلف اقسام کامطالعہ ساختیاتی فکر کے لیے خاص کشش رکھتا ہے اورساختیاتی مفکروں نے اس چلینج کو بخوبی قبول بھی کیا۔اب آخر پر چند اہم ساختیاتی نظریہ سازوں کا ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں جن کا کام بیانیہ کے حوالے سے بہت اہم سمجھا جاتا ہے۔
بیانیہ کی تھیوری پر کام کرنے والے اولین بنیاد گزاروں میں روسی مفکر ولادمیر پروپ(Viladmirpropp)کو اولیت کامقام حاصل ہے ۔پروپ بنیادی طور پر ہیئت پسندی سے تعلق رکھتا تھا انہوں نے روسی ہیئت پسندوں کی دین کاپورا فائدہ اٹھایا اور بیانیہ کے ساختیاتی مطالعہ کی سمت میں ایک اہم قدم اٹھایا۔انہوں نے اپنی معرکتہ الآرا کتاب(Morphology of the folk tale)جو ۱۹۲۸ء میں لینن گراڈ(Leningrad) سے شائع ہوئی جیسا کہ کتاب کے نام ہی سے ظاہر ہوتا ہے۔ پروپ نے اس کتاب میں روسی لوک کہانیوں کو موضوع بحث بنایا او ران پر اپنا تجزیہ پیش کرکے بیانیہ کی ساختیاتی مطالعہ کے لیے نئی راہیں ہموار کیں۔پروفیسر گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں:
’’ولاد میر پروپ نے جس طرح روسی لوک کہانیوں کی فارم کی گرہیں کھولی اور ان کی ساختوں کو بے نقاب کیا اس نے آگے چل کر بیانیہ کے ساختیاتی مطالعے کے لیے ایک روشن مثال کاکام کیا‘‘ ۱۸
پروپ کاکام نسبتاً آسان اورپیچیدگیوں سے پاک تھا اس لیے اس کا اثر آنے والی نسلوں پر دوسروں کے مقابلے میں زیادہ پڑتا رہا۔ پروپ کے مطابق بیانیہ اپنی بناوٹ کے اعتبار سے جملے کی افقی نحوی(Synlegmatic)ساخت کی پیروی کرتاہے ۔انہوں نے یہ بھی ثابت کیاکہ بیانیہ کی ساخت کاوحدانی عنصر مختلف قسم کے کرداروں اور بوقلمونی(یعنی صوتی کثرت) کی سطح پر نہیں بلکہ کرداروں کے تفاعل کی فونیمی سطح پر دریافت کیا جاسکتا ہے ۔پروپ کاکمال یہ ہے کہ اس نے اپنے نتائج اگرچہ لوک کہانیوں سے اخذ کئے لیکن اس کا اطلاق تمام بیانیہ پر ہو سکتا ہے ۔
پروپ کے بعد بیانیہ کے مطالعہ کے حوالے سے جس شخص کانام اورکام خاص اہمیت رکھتا ہے وہ ہے فرانسیسی ماہر بشریات کلاڈلیوی سٹراس(Claude Levi Strauss)۔ سٹراس نے بھی اگرچہ لوک کہانیوں کو اپنا موضوع بنایا۔ تاہم اس نے اپنی راہ الگ اور پروپ سے بالکل مختلف بنائی۔ سٹراس نے پروپ کی طرح لوک کہانیوں کی ہیئت کو نہیں ان کی اصل کو اپنا موضوعِ بحث بنایا۔ سٹراس چونکہ بنیادی طور پر بشریات کے ماہر تھے۔اس لیے ان کی نظر ثقافت کی جڑوں پر تھی ۔لیوی سٹراس کے کام کے حوالے سے پروفیسر گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں:
’’لیوی سٹراس کاطریقہ کار کچھ اس طرح کا ہے کہ وہ متھ کے بیانیہ کوچھوٹے چھوٹے واحدوں(Units)میں تقسیم کرتاہے جو ایک ایک جملے میں لکھے جاسکتے ہیں۔یہ پروپ کے ’’تفاعل‘‘ کے گوشوارے سے ملتے جلتے ہیں لیکن بعینہ ان کی طرح نہیں کیونکہ یہ افعال پر نہیں بلکہ رشتوں پر مبنی ہے ‘‘ ۱۹
بیانیہ کے حوالے سے سٹراس نے اپنے خیالات کااظہار اپنی شہرہ آفاق کتاب(Structual anthropology میں کیاجو۱۹۵۸ء میں پیرس سے شائع ہوئی۔ جن لوگوں نے ولاد میر پروپ کے نظریات کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ان میں اے جے گریما(A.J.Greima)کانام خاص اہمیت رکھتا ہے انہوں نے اپنی کتابSementique Structureجو ۱۹۶۹ء میں پیرس سے شائع ہوئی‘ اس کتاب میں گریما نے پروپ کے نظریات کی نئی وضاحت و صراحت پیش کی ۔اس کتاب میں گریما نے اپنے نظریات کی بنیاد بیانیہ کے معنیاتی تجزیے پر رکھی جہاں ایک طرف پروپ نے صرف لوک کہانیوں کو موضوع بنایا تھا۔ وہیں گریما نے بیانیہ کے متعدد اسالیب پر نظر ڈالی اور پورے بیانیہ کی شعریات کے تعین کی کوشش کی ۔گریما کاخیال ہے کہ :
’’عمل کی تفصیل بدلتی رہتی ہے اورکردار بدلتے رہتے ہیں ۔اظہار منظر نامہ بدلتا رہتا ہے لیکن فکشن کے اصول بنیادی ہیں اس کاتعین ساختیاتی فکر کی ذمہ داری ہے ‘‘ ۲۰
گویا کسی بھی فن پارے میں کردار‘ اظہار کے طریقے اورمناظر کہانی کی مناسبت سے بدلتے رہتے ہیں جس مناسبت سے کہانی تبدیلی کے منازل طے کر تی جاتی ہے اس کے کردار‘مناظر نیز اظہار کے طریقے بھی بدلتے رہتے ہیں لیکن جو چیز فکشن میں کبھی نہیں بدلتی وہ ہے اس کے اصول جو فکشن میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں اورکبھی بدل نہیں سکتے۔
فکشن کی شعریات کے سلسلے میں فرانسیسی ساختیاتی مفکر زیو تاں تاڈا روف (Tzevtan Todorov)کانام بہت اہمیت کاحامل ہے ۔اس دور کے ساختیاتی مفکروں میں زیو تاڈراروف کامقام بہت بلند اورسر فہرست ہے۔بیانیہ کی تھیوری پر تاڈرا روف کے مباحث کاسلسلہ ان کی دوشہرہ ٔ آفاق کتابوںGrammaire-du-Deca Meronاور Poetique-Dela-Prozeجو بالترتیب ۱۹۶۹ء اور ۱۹۷۱ء میں پیرس سے شائع ہوئیں ‘ میں جاری رہا ۔اس سے پہلے تاڈرا روف نے روسی ہیئت پسندوں کی تحریروں کا خود مطالعہ کیا اور ان کاانتخاب فرانسیسی میں پیش کیاجس کافرانس کے ادبی حلقوں میں کافی اثر دیکھنے کوملا۔ بیانیہ کے آفاقی گرائمر پر کام کرنا اور قرأت پر زور دینا زیوتان تاڈاروف کاسب سے اہم کارنامہ ہے ۔پروپ اور گریما سے ایک قدم آگے بڑھا کر تاڈا روف بیانیہ کو انسانی زندگی سے وابستہ کرتاہے اور یہاں تک کہتا ہے کہ انسان کے لیے بیانیہ زندگی ہے اورعدم بیانیہ موت:
“Narration equals life, the absence of Narration Death”(21)
آخر پر ہم ایک اوراہم ساختیاتی نظریہ ساز ژرا ژینتGerard Genetteکے بیانیہ کے حوالے سے کئے گئے کام پر مختصر سی بات کریں گے Frontier of Narrative ژرار ژینت کاایک بحث انگیز او ربیانیہ کے مطالعے کے حوالے سے ایک اہم مضمون ہے جو ۱۹۶۶ء میں منظر عا م پر آیا۔ بیانیہ کے حوالے سے جو بحث ژرار ژینت نے اس مضمون میں کی ہے ۔اس پر بعدکے آنے والے مفکرین بہت کم اضافہ کرسکے۔ ژرار ژینت نے بیانیہ کے بارے میں اپنا نظریہ مارسل پروست کے مطالعے کے تناظر میں پیش کیا۔ان کانظریہ اگرچہ پیچیدہ تصور کیا جاتا ہے تاہم بیانیہ کے حوالے سے ایک مستحکم اور پائیدار حیثیت رکھتاہے۔بیانیہ پر بحث کرتے ہوئے ژرار ژینت لکھتے ہیں:
’’بیانیہ کتنا خالص کیوں نہ دکھائی دے ‘ فیصلہ کرنے والے ذہن کی پرچھائی ضرور در آتی ہے ۔اس اعتبار سے بیانیہ ہمیشہ غیر خالص ہوتاہے ‘‘
ژینت کاخیال ہے کہ بیانیہ اپنے خالص پن کو ہمینگوے کے یہاں زیادہ سے زیادہ پاسکا ہے لیکن نئے فکشن Nouvean Romanکے آتے آتے ‘ بیانیہ مصنف کے اپنے ڈسکورس میں پوری طرح سے ڈوب گیا۔
لیکن جدید دور میں اب فکشن میں بیانیہ کی اہمیت کو تسلیم کیاجارہاہے اورماہرین کے درمیان اب بیانیہ ایک اہم اور دلچسپ موضوع بن چکا ہے اور اس پر کام بھی ہورہا ہے جو بیانیہ کی تھیوری کے لیے ایک خوش آئند قدم ہے ۔ تاہم جہاں تک اردو زبان وادب کاتعلق ہے۔ یہاں بیانیہ کے حوالے سے آج بھی کال ہے ۔بیانیہ اسلوب کے حوالے سے اردو میں آج تک جوبھی کام ہواہے وہ تقریباً نا کے برابر ہی ہے ۔ ہمارے نقادو محققین حضرات نے اس جانب کچھ کم ہی توجہ صرف کی ہے ۔اردو کی بات کریں تو آج تک جو تھوڑا بہت کام ہواہے اس کاسہرا صحیح معنوں میں گوپی چند نارنگ او رشمس الرحمن فاروقی کو جاتاہے ۔ان دونقاد ں نے بیانیہ تھیوری کے حوالے سے کچھ کام ضرور انجام دیاہے ۔ اس ضمن میں گوپی چند نارنگ کے کتاب’’ساختیات‘ پس ساختیات اور مشرقی شعریات‘‘ اور ’’ ترقی پسندی ‘ جدیدیت‘ مابعدجدیدیت‘‘ کا خاص طور پر ذکر کیا جاسکتا ہے ۔اگر شمس الرحمن فاروقی کی بات کریں تو ماہنامہ ’’شب خون‘‘ میں فاروقی صاحب کے چند ایک مضامین چھپ کر آئے ہیں جن میں بیانیہ تھیوری کے حوالے سے بحث کی گئی ہے ۔ان دونوں کے علاوہ اردو میں کوئی قابل ذکر نام نہیں جس نے بیانیہ تھیوری کے حوالے سے کوئی خاطر خواہ کام انجام دیاہو۔ یا کم سے کم میری نظر سے تو نہیں گزرا ہے ۔
اردو میں بیانیہ کے حوالے سے جو کام ہوا ہے وہ اگرچہ زیادہ نہیں اورنسبتاًپیچیدہ بھی ہے۔ پھر بھی کافی حوصلہ افزا اور امید افزا کہا جاسکتا ہے ۔امید ہے آج تک اردومیں بیانیہ تھیوری کے حوالے جو بھی کام ہوا ہے وہ آگے چل کر نئی نسل کے نقاد و محققین کے لیے رہنمائی کاکام انجام دے گا او رنئی پود کے لکھنے والوں کو پرانی روش سے ہٹ کر بیانیہ جیسے پیچیدہ مسائل کی طرف راغب کرے گا جس سے آگے آنے والے وقت میں بیانیہ کی تھیور ی پر اردو میں زیادہ اوربہتر ڈھنگ سے کام انجام دیا جاسکے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات :
۱۔شب خون ، مقام ِ اشاعت الہ آباد، جنوری ۲۰۰۰ء،ص ۶۵
۲۔ایضاً، جنوری ۲۰۰۲ء،ص ۶۵
۳۔ ایضاً،ص ۱۷
۴۔اردو نظم ۱۹۶۰ء کے بعد،اردو اکادمی دہلی،۲۰۰۶ء،ص ۳۶
۵۔شب خون ، مقام ِ اشاعت الہ آباد، جنوری ۲۰۰۲ء،ص۶۶
۶۔ایضاً
۷۔گوپی چند نارنگ ’’ساختیات ‘پس ساختیات ‘مشرقی شعریات،قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان دہلی،۱۹۹۳ء،ص۵۳۱
۸۔ایضاً،ص ۱۳۳
۹۔شب خون، مقام اشاعت الہ آباد ،مارچ ‘اپریل‘ مئی ۱۹۸۶ء،ص ۱۶
۱۰۔ایضاً،ص ۱۶
۱۱۔گوپی چند نارنگ ’’ترقی پسندی‘جدیدیت‘ مابعد جدیدیت،ایڈ شاٹ پبلی کیشنز ممبئی ۲۰۰۴ء،ص ۶۰۰۔۶۰۱
۱۲۔ بحوالہ شب خون، مقام اشاعت الہ آباد ،مارچ ‘اپریل‘ مئی ۱۹۸۶ء،ص ۱۸
۱۳۔ایضاً،ص ۱۹
۱۴۔ایضاً،ص ۱۸۔۱۹
۱۵۔ایضاً،ص ۱۸
۱۶۔گوپی چند نارنگ ’’ترقی پسندی‘جدیدیت‘ مابعد جدیدیت،ایڈ شاٹ پبلی کیشنز ممبئی ۲۰۰۴ء،ص ۶۰۰
۱۷۔شب خون ،مقام اشاعت الہ آباد۲۰۰۲ء،ص ۱۷
۱۸۔بحوالہ گوپی چند نارنگ ’’ساختیات ‘پس ساختیات ‘مشرقی شعریات،قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان دہلی،۱۹۹۳ء،ص۱۰۷
۱۹۔دیدہ ور نقاد :گوپی چند نارنگ، مرتبہ ڈاکٹر شہزاد انجم ،ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی ،۲۰۰۳ء،ص ۴۰۰
۲۰۔بحوالہ گوپی چند نارنگ ’’ساختیات ‘پس ساختیات ‘مشرقی شعریات،قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان دہلی،۱۹۹۳ء،ص۱۲۶
۲۱۔ایضاً،ص ۴۱۵
٭٭٭٭٭٭
REYAZ AHMAD KUTHOO
Research Scholar, Deptt. Of Urdu
University Of Kashmir, Srinagar 190006
Phone No.: 09797731503
E-mail ID: reyazurdu3@gmail.com
Leave a Reply
2 Comments on "بیانیہ :تعریف و توضیح"
[…] http://www.urdulinks.com/urj/?p=381 […]
[…] بیانیہ :تعریف و توضیح← […]