ٹوبہ ٹیک سنگھ: سعادت حسن منٹو

ٹوبہ ٹیک سنگھ افسانے کا مطالعہ

(طلبا اس اوبر دینئے گئے لنک کو خاص طور پر کلک کریں اور اس مضمون کو پڑھیں۔)

 

ٹوبہ ٹیک سنگھ کا تجزیاتی مطالعہ PDF

منٹو کی افسانہ نگاری

اردو کے صف اول کے افسانہ نگاروں میں منٹو کا شمار ہے۔ منٹو بہت بڑے افسانہ نگار تھے۔ افسانے لکھنے کا اہتمام نہیں کرتے تھے قلم برداشتہ لکھتے تھے۔لکھتے کیا تھے یوں سمجھئے کہ افسانہ ان پر نازل ہوتا تھا۔وہ سچ ہی کہتے تھے میں افسانہ نہیں لکھتا افسانہ مجھے لکھتا ہے۔سعادت حسن منٹو خود لکھتے ہیں کہ افسانہ میرے دماغ میں نہیں جیب میں ہوتا ہے کیونکہ میں افسانے کے پیسے پیشگی  لے چکا ہوتا ہوں۔
مرنے سے کچھ ہی دن پہلے اٹھارہ اگست 1954ء کو انہوں نے اپنی قبر کا کتبہ آپ لکھا تھا۔ملاحظہ فرمائیے۔ “یہاں سعادت حسن منٹو دفن ہے اس کے سینے میں افسانہ نگاری کے سارے اسرار و رموز دفن ہیں وہ اب بھی منوں مٹی کے نیچے سوچ رہا  ہے کہ وہ بڑا افسانہ نگار ہے۔”
انسانی زندگی اس عظیم فنکار کے افسانوں کا موضوع تھا۔انہوں نے ہر طبقے اور ہر طرح کے انسانوں کی زندگی کو بہت قریب سے دیکھا تھا۔کلرک ، مزدور ،نیک، بدکار ،طوائف، دلال مولوی ،استاد،  ہر طرح کے لوگ ان کی نظر میں تھے۔ان کا اصل میدان جنس ہے  اور جنس کا بھی صحت مند اور فطری پہلو انہیں اپنی طرف متوجہ نہیں کرتا۔جنسی کجروی  انہیں اپنی طرف کھینچتی ہے  اور وہ بے محابہ اس پر لکھتے ہیں۔ان پر فحش نگاری کے جرم میں مقدمے چلے  اور انھیں عریاں نگار کہا گیا۔
منٹو حقیقت نگار تھے انسان کے جتنے اصلی روپ ہو سکتے ہیں منٹو ان سب کے رمز شناس ہیں۔منٹو کو اعتراف ہے کہ چکی پیسنے والی عورت جو دن بھر کام کرتی ہے اور رات کو اطمنان سے سو جاتی ہے میرے افسانوں کی ھیرو نہیں ہو سکتی۔میری ہیروئین چکلے کی ایک رنڈی ہوسکتی ہے جو رات کو جاگتی  ہے اور دن کو سوتے میں کبھی کبھی یہ ڈراؤنا خواب دیکھ کر اٹھ بیٹھتی ہے کہ بڑھاپا اس کے دروازے پر دستک دینے آیاہے۔
جنسی کجروی  ان کے نزدیک زندگی کی تلخ حقیقتوں میں ںسے ایک ہے۔منٹو کے افسانوں میں جو عریانی نظر آتی ہے اور جس کے سلسلے میں ان پر مقدمے بھی چلے وہ ان کی اپنی پیدا کی ہوئی نہیں ہے۔وہ سوسائٹی میں پہلے سے موجود ہے منٹو جب اس سوسائٹی کی تصویر کھینچتے ہیں تو عریانی کو پردوں میں کس طرح چھپا سکتے ہیں۔انہوں نے ایک جگہ لکھا  ہے کہ زمانے کے جس دور سے ہم گزر رہے ہیں اگر آپ اس سے ناواقف ہیں تو میرے افسانے پڑھیے۔
منٹو کا فن منٹو کے موضوعات سے زیادہ اہم ہے۔ ان کا اصل سبب یہ ہے کہ ان کے افسانوں میں مواد اور فن دونوں گھل مل گے ہیں۔ انسانی نفسیات پر منٹو کو مکمل عبور حاصل ہے۔  اپنے کرداروں کی ذہنی کیفیت پر منٹو کی تہہ رس نگاہیں جمی رہتی ہیں۔  ان کے بعض افسانے تو اسی مقصد سے لکھے گئے ہیں کہ کسی کردار کی نفسیاتی حقیقت کو بے نقاب کیا جائے۔  جن افسانوں میں یہ مقصد پیش نظر نہیں رہا وہاں بھی قدم قدم پر نفسیاتی حقائق کی ترجمانی نظر آتی ہے۔
تلخ مصلحانہ طنز منٹو کے افسانوں کی بےحد نمایاں خصوصیت ہے۔منٹو کے افسانوں میں طنز و ظرافت تلاش کیجئے تو یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ ظرافت کم ہے اور طنز زیادہ۔ اور طنز بھی بہت شدید نشتر کی سی کیفیت لئے ہوئے ہے۔ ایک بد نام افسانہ نگار کی حیثیت سے منٹو نے بہت شہرت پائی۔ انہوں نے جنسی موضوعات پر بڑی بے باکی سے قلم  اٹھایا۔ سماج، رشتے ناسوروں کو سفاکی سے بے نقاب کیا ۔
منٹو کے افسانوں پر کہیں بناوٹ کا گمان نہیں ہوتا۔ محسوس ہوتا ہے کہ وہ سیدھے سادے انداز میں کوئی کہانی، کوئی واقعہ سنا رہے ہیں، اپنی طرف سے اس میں کوئی کمی بیشی نہیں کر رہے ہیں۔ بس اتنا ہے کہ ان کا فن بالکل غیر محسوس طور ان کے افسانوں میں کام کرتا ہے اسی میں ان کی عظمت کا راز پوشیدہ ہے۔

بشکریہ:

https://www.punjnud.com/Articlesdetail.aspx?ArticleID=9375&ArticleTitle=Saadat%20Hasan%20Manto%20Ki%20Afsana%20Nigari%20Ka%20Aik%20Jaiza

 

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.