کھول دو: سعادت حسین منٹو

منٹو کے ابتدائی دور کے افسانوں کا تجزیاتی مطالعہ

سعادت حسن منٹو اورراجندر سنگھ بیدی

ڈاکٹر محبوب حسن
سعادت حسن منٹو اورراجندر سنگھ بیدی
(’’کھول دو‘‘ اور’’لاجونتی‘‘کی روشنی میں)

سعادت حسن منٹو اور راجندر سنگھ بیدی اردو فکشن کے دامن آسمان پر چمکتے ہوئے دو ستاروں کی مانند ہیں۔دونوں کے ذکر کے بغیر اردو فکشن کی محفل بے رونق معلوم پڑتی ہے۔ان دونوں قلم کاروں کا تعلق ایک مخصوص عہدکے یکساں سماجی،سیاسی،اقتصادی اورتہذیبی صورت حال سے رہاہے۔منٹو اور بیدی نے سماج کی بوسیدہ روایات،توہم پرستی،ناانصافی اورظلم و استحصال کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی۔ان دونوں کی تخلیقات میں انسانی دردو غم اوربے بسی و لاچاری کی زیریں لہریں موجود ہیں۔منٹو نے اپنے افسانوں میں زخم خوردہ طوائفوں کی زندگی کے مختلف رنگ و روپ کو سفاک اندازمیں پیش کیا ہے۔ان کے فن پاروں میں جنسی موضوعات کو مرکزیت حاصل ہے۔ بیدی نے منٹو کی طرح جنسی موضوعات ومسائل کو خصوصی توجہ نہیں دی۔موصوف کے افسانوں میں انسانی،اخلاقی اور تہذیبی قدروں کی خوبصورت عکاسی موجود ہیں۔وہ زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں،امنگوں اور نازک جذبات و احساسات کوافسانے ڈھالنے کا ہنر جانتے ہیں۔ایک دفعہ سعادت حسن منٹو نے بیدی سے سوال کیا کہ ’’تم سوچتے بہت ہو۔لکھنے سے پہلے سوچتے ہو،بیچ میں سوچتے ہواوربعد میں بھی سوچتے ہو ‘‘۔منٹو کی اس بات کاجواب دیتے ہوئے بیدی نے کہا تھا کہ ’’سکھ اور کچھ ہوں یا نہ ہوں،کاریگر اچھے ہوتے ہیں اور جو کچھ بناتے ہیں ٹھوک بجا کر اور چول سے چول بٹھا کر بناتے ہیں۔‘‘بیدی کا یہ جواب ان کے منفرد تخلیقی رویے اور ان کی جدت پسند طبیعت کی جانب اشارہ کرتا ہے ۔ 
تقسیم ہند برصغیر کی تواریخ کا نہایت الم ناک سانحہ رہا ہے۔اس المیے نے انسانی زندگی کے دوسرے شعبوں کے دوش بہ دوش زبان و ادب کو بھی غیر معمولی پر متاثر کیا۔ تاریخ شاہد ہے کہ تقسیم ہند کے المیے نے اردو فکشن کو بھی بے انتہا متاثر کیا۔اردو فکشن میں تقسیم کے حادثات و واقعات کی جیتی جاگتی تصویریں نظر آتی ہیں۔اردو افسانہ نگاروں نے تقسیم کے جلو میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات،قتل و غارت گری،اغواو آبرو ریزی،بے بسی اور ہجرت کی چیرہ دستیوں کی حقیقی ترجمانی کی ہے۔تقسیم و ہجرت کے رنج و الم اوردردو غم کو افسانوی روپ دینے والے فن کاروں میں منٹو،بیدی ،کرشن چندر ، عصمت، قدرت اللہ شہاب،عبداللہ حسین،خدیجہ مستور،بلونت سنگھ،قرۃالعین حیدر،انتظار حسین اورجوگندر پال وغیرہ خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں۔مذکورہ قلم کاروں نے تقسیم ہندکے خارجی وداخلی موضوعات پرمشتمل متعدداہم افسانے تخلیق کیے ۔خاص طور پرسعادت حسن منٹو اور بیدی نے تقسیم ہندکے دردوغم اور کرب و اضطراب کو جس تخلیقی حسن کے ساتھ آئینہ دکھایا ہے،اس کی مثال خال خال نظر آتی ہے۔
سعادت حسن منٹو بذات خود تقسیم ہند کے مصائب کا شکار ہوئے۔انھوں نے ہجرت اور نقل مکانی کے پس منظر میں کئی اہم وشاہکار افسانے تخلیق کیے ہیں۔’’کھول دو‘‘’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘’’ٹھنڈا گوشت‘‘’’موذیل‘‘ اور ’’سہائے‘‘ وغیرہ میں اس مخصوص عہد کی ہولناک صورت حال کی حقیقی ترجمانی کی گئی ہے۔انسانی دردو الم میں ڈوباافسانہ ’’کھول دو ‘‘ منٹو کا ایک لازوال فن پارہ ہے ۔یہ افسانہ سرحد کی دونوں جانب پیدا شدہ وحشت ناک ماحول کی زندہ تصویریں پیش کرتا ہے۔ ظلم وبربریت پر مشتمل یہ افسانہ ہمیں ایک انجانے دردوسوز سے آشنا کر دیتا ہے۔زیر بحث افسانے میں انہوں نے تقسیم ہنداور ہجرت کے نتیجے میں رونما ہونے والے جنسی جبروتشدد کو ایک نئے تخلیقی تیور کے ساتھ پیش کیا ہے۔
قابل غور ہے کہ اس افسانے کا عنوان ہی انتہائی بربریت اور جبروتشدد کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ افسانہ ’’کھول دو‘‘ چیخ چیخ کر تقسیم کے دردوستم کو بیان کر رہا ہے۔منٹو نے سکینہ کی زندگی کی تباہی وبربادی کے پس پردہ نام ونہاد مہذب سماج ومعاشرے کو آئینہ دکھایا ہے۔سراج الدین کی بیٹی سکینہ کا اجتماعی آبرو ریزی در حقیقت پوری انسانیت کی آبروریزی ہے۔سکینہ کی لاچاری و بے بسی میں انسانی زندگی کی لاچاری و بے بسی جھلکتی ہے۔ سراج الدین کی بیٹی سکینہ تقسیم ہند اور نقل مکانی کے طوفان میں کہیں بھٹک جاتی ہے۔تقسیم ہند کے ہنگامہ خیز حالات میں سراج الدین اپنی بیٹی سکینہ کی تلاش میں ہوش وحواس کھو بیٹھتا ہے۔وہ آس پاس کے مہاجر کیمپوں میں بھی تلاش کرتاہے۔ لیکن اسے ہر جگہ ناکامی ہاتھ لگتی ہے۔تقسیم ہند کی ہنگامہ خیزی کا ایک خاموش منظر ملاحظہ ہو:
’’یوں تو کیمپ میں ہر جگہ شور برپا تھا لیکن بوڑھے سراج الدین کے کان جیسے بند تھے۔اسے کچھ سنائی نہیں دیتا تھا۔کوئی اسے دیکھتا تو یہی خیال کرتا کہ وہ کسی گہری فکر میں غرق ہے۔مگر اس کے ہوش وحواس شل تھے۔اس کا سارا وجود خلا میں معلق تھا۔
۔۔۔لوٹ آگ،بھاگم بھاگ،اسٹیشن ،گولیاں،رات اور سکینہ! سراج الدین ایک دم کھڑا ہو گیا۔ اور پاگلوں کی طرح اس نے اپنے چاروں طرف پھیلے ہوئے انسانوں کے سمندر کو کھنگالنا شروع کیا۔
پورے تین گھنٹے وہ سکینہ سکینہ پکارتا کیمپ کی خاک چھانتا رہا مگر اسے اپنی جوان اکلوتی بیٹی کا کوئی پتہ نہیں ملا۔چاروں طرف ایک دھاندھلی سی مچی تھی۔‘‘
(منٹو کے نمائندہ افسانے،مرتبہ اطہر پرویز،ص:۱۷۲)
یہ اقتباس ملک کے بٹوارے کے بعد پیش آنے والے ہجرت کے حالا ت و واقعات کاایک ہلکا سا خاکہ پیش کرتا ہے۔واضح رہے کہ اس افراتفری اور ہنگامہ خیز ماحول میں نہ جانے کتنی سکینہ جبرو تشدد کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں؟منٹو کا یہ افسانہ خود غرض سیاسی رہنماؤں کے گال پر ایک زور دار طمانچہ ہے۔انسانی زندگی کی تلخی و کرواہٹ سے لبریز یہ افسانہ آج بھی تقسیم اور ہجرت کی تہہ در تہہ پرتوں کو کھولتا ہوا نظر آتا ہے۔تقسیم ہند اور ہجرت کے موضوعات پر بے شمار افسانے لکھے گئے۔لیکن منٹو نے افسانہ ’’کھول دو‘‘ میں تقسیم اور ہجرت کے دردوغم کو جس شدت سے بیان کیا ہے،اس کی مثال خال خال نظر آتی ہے۔ منٹو کا یہ افسانہ پلاٹ کی اختصارپسندی،کردارکی چستی،اسلوب کی عمدگی اور اپنے آغاز واختتام کی اثر انگیزی کے اعتبار سے نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔سعادت حسن منٹو کو عام سی بات میں بھی کوئی خاص نکتہ پیدا کرنے کا ہنر آتا ہے۔بعض اوقات وہ اپنے قارئین کو چونکاتابھی ہے۔ 
دوسری اہم بات یہ کہ سعادت حسن منٹو نے اپنے تجربات ومشاہدات کی روشنی میں ہی کردارخلق کیے ہیں۔اس کے کردار افسانے کے پلاٹ سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہوتے ہیں۔ اس افسانے میں کسی طوائف کا کردار نہیں ملتا۔’’ہتک‘‘ کی سوگندھی اور ’’کالی شلوار‘‘ کی سلطانہ سے قطۂ نظر’’کھول دو‘‘کی سکینہ حالات کی ستائی ہوئی ایک ایسی لڑکی ہے،جوغربت ومفلسی میں اپنے جسم کا سودا نہیں کرتی۔وہ ہجرت کے دوران اپنے باپ سے بچھڑ کر رضاکارنوجوانوں کے ہتھے چڑھ جاتی ہے۔اس کے ساتھ ہونے والا وحشیانہ سلوک زمانے اور حالات کی ستم ظریفی کو پیش کرتا ہے۔منٹو نے اس افسانے میں سکینہ کی آبرو ریزی کے خوف ناک منظر کی تصویر کشی راست طورپر نہیں کی ہے۔ بلکہ افسانے کا فن کارانہ اختتام ہمیں اس قابل رحم صورت حال سے دوچار کرتا ہے۔ اس افراتفری کے ماحول میں سکینہ بے ہوشی کی حالت میں یکایک مل جاتی ہے۔ علاج کے لیے اسے ڈاکٹر کے پاس لے جایا جاتا ہے۔سکینہ کے والد سراج الدین بھی اس کے ساتھ ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر سراج الدین سے کھڑکی کھولنے کے لیے کہتا ہے۔لیکن ڈاکٹر کی آواز سن کر سکینہ کا اپنے بے جان ہاتھوں سے ازار بند کا کھولنا افسانے کا Climax ہے۔ اس افسانے کا اختتام پیش خدمت ہے:
’’داکٹر نے اسٹیچر پر پڑی ہوئی لاش کو دیکھااور اس کی نبض ٹٹولی اور سراج الدین سے کہا۔’’کھڑکی کھول دو‘‘
سکینہ کے مردہ جسم میں جنبش ہوئی۔بے جان ہاتھوں سے اس نے ازار بند کھولا اور شلوار نیچے سرکا دی۔بوڑھا سراج الدین خوموشی سے چلایا۔’’میری بیٹی زندہ ہے‘‘
ڈاکٹر سر سے پیر تک پسینے میں غرق ہو گیا۔‘‘(ایضاً،ص۱۷۶)
ڈاکٹر کے پسینے میں غرق ہونے کوپوری انسانیت کے شرمندہ ہونے سے تعبیر کیا جا سکتا ہے ۔ سکینہ کا اپنے نیم جان ہاتھوں سے ازار بند کھولنا اس کے ساتھ کی گئی جنسی بربریت کو چیخ چیخ کر بیان کر رہا ہے۔اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ اس افسانے کے ایک ایک لفظ سے حیوانیت ودرندگی آشکارا ہے۔ 
تاریخ شاہد ہے کہ ملک کی تقسیم کا المیہ دو قومی نظریے کی بنیاد پر پیش آیا۔ مسلمانوں کے لیے مملکت خداداد یعنی پاکستان کا قیام عمل میں آتا ہے۔ ملک کے بٹوارے کے بعد مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان چلی جاتی ہے۔ٹھیک اسی طرح سے پاکستان سے بھی ہندواور سکھ مذہبی طبقے کے لوگ ہجرت کر کے ہندوستان چلے آتے ہیں۔ہجرت کایہ سلسلہ سرحد کی دونوں جانب جاری تھا۔زیر مطالعہ افسانہ اسی صورت حال کا ترجمان ہے۔اس افسانے میں ہجرت کے پرانتشار منظرکوفنی خوبیوں کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔امرتسر سے اسپیشل ٹرین مہاجرین کو لے کر مغل پورہ پہنچتی ہے۔ مغل پورہ پاکستان کا سرحدی علاقہ ہے۔ سراج الدین اپنی بیٹی سکینہ کے ہمراہ پاکستان ہجرت کر جاتا ہے۔لیکن افسوس کہ مملکت خداداد میں رضاکار کمیٹی کے ممبران ہی سکینہ کو اپنی ہوس کا شکار بناتے ہیں۔یہاں یہ سوال قائم ہوتا ہے کہ جب ملک کا بٹوارہ مذہب کی بنیاد پر ہوا تو اپنے ہی مذہبی طبقے کے لوگوں نے ایسی گھنونی حرکت کیوں کی؟انسانیت اور انسانی قدروں کا پجاری منٹوبلا تفریق مذہب و ملت اپنے طنز کا نشتر چلاتا ہے۔اس کے افسانوں میں کسی قسم کی مصلحت پسند اور طرف داری کا احساس نہیں ہوتا۔منٹونے اپنے افسانوں میں انسانی روح کی غلاظت اور ذہن کی گندگی کو نفسیاتی آگہی کے ساتھ پیش کیا ہے۔منٹو کی یہی روش اسے دوسرے قلم کاروں سے ممتازبناتی ہے۔رضاکار و فلاحی تنظیم کی عیاری و شیطنت کی جھلک دیکھیے:
’’آٹھ رضاکار نوجوانوں نے ہر طرح سکینہ کی دلجوئی کی۔اسے کھانا کھلایا،دودھ پلایااور لاری میں بٹھا دیا۔ایک نے اپنا کوٹ اتار کر اسے دے دیا کیوں کہ دوپٹہ نہ ہونے کے باعث وہ بہت الجھن محسوس کر رہی تھی۔اور بار بار باہوں سے اپنے سینے کو ڈھانپنے کی ناکام کوشش میں مصروف تھی۔‘‘(ایضاً،ص:۱۷۴)
پیش کیے گئے اس اقتباس سے سکینہ کی قابل رحم زندگی کے کئی پہلو نمایاں ہیں۔ منٹو کا افسانہ ’’کھول دو‘‘ اس عہد کی اخلاقی پستی، معاشرتی زوال اور مذہبی شکست وریخت کو سفاک وحقیقت پسندانہ انداز میں سامنے لاتا ہے۔اس طرح سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ پیش نظر افسانہ فکری اور فنی اعتبار سے منٹو کی تخلیقی عظمت وانفرادیت کی ٹھوس دلیل فراہم کرتا ہے۔
راجندر سنگھ بیدی نے مختلف موضوعات مسائل پر طبع آزمائی کی ہے ۔کنہیا لال کپور نے انھیں بجا طور پرتھیم کا بادشاہ کہا ہے۔ تقسیم ہند کاالمیہ بھی بیدی کی آنکھوں سے اوجھل نہیں رہا۔لیکن انہوں نے تقسیم کی اشتعال انگیزی اورہنگامی صورت حال پر بہت زیادہ توجہ صرف نہ کی ۔ چند ایک افسانوں میں ہی تقسیم کی آنچ محسوس ہوتی ہے۔تقسیم کے موضوع پر مبنی ’’لاجونتی‘‘ جیسا کسک آمیز افسانہ آج بھی اس المیے کے دردوغم کو تازہ کر دیتا ہے۔ اس افسانے کے مطالعہ کے بعد قاری جذبات و احساسات کے سمندر میں غوطہ لگانے پر مجبور ہوتا ہے۔اسے افسانے کی ہیروئن لاجونتی کے دردو غم میں اپنا دردو غم اور اس کے دل میں اٹھنے والی ٹیس میں اسے اپنی بے بسی و لاچاری محسوس ہوتی ہے۔ بیدی کے یہاں تقسیم کا المیہ مقصد بن کر نہیں ابھرتا۔ انہوں نے اس حادثے کے جلو میں ہونے والے مذہبی قتل وخون اور تشددکی تصویرکشی راست طور پر نہیں کی ہے۔بلکہ تقسیم ہند کو پس منظر کے طور پر استعمال کر کے ایک عورت کے داخلی و نفسیاتی کرب واضطراب کوتخلیقی گویائی عطا کی ہے۔
راجندر سنگھ بیدی نے اس افسانے کے پلاٹ کا تانا باناتقسیم ہند کے نتیجے میں رونما ہونے والے حادثات و واقعات سے تیار کیا ہے۔ یہ افسانہ مرکزی کردارلاجونتی کے پس پردہ انسانی زندگی کاناقابل فراموش درد بیان کرتا ہے۔ تقسیم کے نتیجے میں اٹھنے والے ہجرت کے طوفان میں لاجونتی کہیں بھٹک جاتی ہے۔’’دل میں بساؤ ‘‘کمیٹی کے تحت مغویہ عورتوں کی بحالی کی امیدیں ایک بار پھر سے جاگ اٹھتی ہیں۔سندر لال کواس کمیٹی کا سکریٹری منتخب کیا جاتا ہے۔لوگوں کو بیدار کرنے کی غرض سے جلوس وپربھات پھیریاں نکالی جاتی ہیں۔ہجرت کاطوفان تھم جانے کے بعدحسن اتفاق سے لاجونتی دوبارہ مل جاتی ہے ۔اس کا شوہر سندرلال اسے اپنے گھر میں پناہ دیتا ہے۔لیکن افسوس کہ وہ لاجوکو اپنی بیوی کے روپ میں قبول نہیں کرتا۔سندرلال لاجو کی عزت اور احترام ایک دیوی کی طرح کرتا ہے۔لیکن اسے بیوی کی محبت دینے سے قاصر ہے۔اس طرح لاجو جیتے جی پتھر کی مورت بنا دی جاتی ہے۔لاجونتی اپنے تباہ شدہ وجوداور اپنی زخم خوردہ زندگی کوازسرے نو سمیٹنا چاہتی ہے۔ اپنی خوشیوں اور اپنے ارمانوں کی ان بکھری ہوئی کرچیوں کو چننا چاہتی ہے مگر سندرلال کی بے اعتنائی اسے یکسرتوڑ کر رکھ دیتی ہے۔ دونوں کی گفتگو کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
’’کون تھا وہ؟اچھا سلوک کرتا تو وہ؟‘‘
’’ہاں!‘‘
’’مارتا تو نہیں تھا؟‘‘
لاجونتی نے اپنا سر سندرلال کی چھاتی پر سرکاتے ہوئے کہا’’نہیں…‘‘اور پھر بولی’’وہ مارتا نہیں تھا،پر مجھے اس سے زیادہ ڈر آتا تھا۔تم مجھے مارتے بھی تھے پر میں تم سے ڈرتی نہیں تھی…اب تو نہ ماروگے؟‘‘
سندر لال کی آنکھوں میں آنسو امڈآئے۔اور اس نے بڑی ندامت اور بڑے تاسف سے کہا’’نہیں دیوی! اب نہیں …نہیں ماروں گا…‘‘
’’دیوی!‘‘ لاجونتی نے سوچا اور وہ بھی آنسو بہانے لگی۔
اور اس کے بعد لاجونتی سب کچھ کہہ دینا چاہتی تھی لیکن سندر لال نے کہا ’’جانے دو بیتی باتیں! اس میں تمہارا کیا قصور ہے۔اس میں قصور ہے ہمارے سماج کا جو تجھ ایسی دیویوں کو اپنے ہاں عزت کی جگہ نہیں دیتا۔وہ تمہاری ہانی نہیں کرتا اپنی کرتا ہے۔‘‘
اور لاجونتی کی من کی بات من ہی میں رہی۔وہ کہہ نہ سکی ساری بات اور چپکی چپکی دبکی پڑی رہی اور اپنے جسم کی طرف دیکھتی رہی جو کہ بٹوارے کے بعد اب ’دیوی‘ کا بدن ہو چکا تھا۔لاجونتی کا نہ تھا۔وہ خوش تھی بہت خوش لیکن ایک ایسی خوشی میں سرشار جس میں ایک شک تھا اور وسوسے۔وہ لیٹی لیٹی اچانک بیٹھ جاتی جیسے انتہائی خوشی کے لمحوں میں کوئی آہٹ پاکر ایکا یکی اس طرف متوجہ ہو جائے…‘‘
(راجند سنگھ بیدی اور ان کے افسانے،مرتبہ،اطہر پرویز،ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ،۲۰۰۶، ص: ۱۷۴)
پیش نظر اقتباس لاجونتی کی نفسیاتی بے بسی اور اس کے سینے میں امڑنے والے جذبات و احساسات کے اتھاہ سمندرکو آشکارا کرتا ہے۔ لاجونتی در حقیقت قسمت کی ماری ہوئی ایک ایسی عورت کا تصور ہے، جو دوبارہ بس جانے کے بعد ایک بارپھر سے اجڑ جاتی ہے۔وہ اپنی بے گناہی کے باوجودناکردہ گناہوں کی سزا بھگتنے کے لیے مجبور ہوتی ہے۔زیر مطالعہ افسانہ کے مرکزی کردار لاجونتی کے توسط سے تقسیم اور ہجرت کے طوفان میں بھٹکنے والی ہزاروں اور لاکھوں بدنصیب عورتوں کی مظلومیت اور ان کی قابل رحم زندگی کا گاتھاپیش کرتا ہے۔
راجندر سنگھ بیدی کا افسانہ ’’لاجونتی‘‘ تقسیم ہند پر تخلیق شدہ افسانوں میں اپنی مثال آپ ہے۔ بیدی نے اس افسانے میں طہارت کا مسئلہ پیش کرتے ہوئے مرد اساس معاشرے کی غیر انسانی ذہنیت کا پردہ چاک کیا ہے۔یہ افسانہ آج بھی مرد کی بالا دستی اور اس کے تعصب آمیز رویے سے جواب کا طلب گار نظر آتا ہے۔افسانہ ’’لاجونتی‘‘اپنے موضوع اور انداز پیش کش کے اعتبار سے آج بھی Relevant ہے۔بیدی کا یہ افسانہ نام نہاد مرد اساس معاشرے کی متعصبانہ ذہنیت اوراس کے غیر انسانی سلوک کو بے نقاب کرتا ہے۔ تقسیم اور ہجرت کی غم ناک صورت حال میں سرحد کی دونوں جانب بے گناہ عورتوں اور خواتین کی آبرو کوسربازار نیلام کیا جاتا ہے۔یہ تلخ حقیقت ہے کہ عورتیں بلا تفریق مذہب و ملت حیوانیت اور جنسی درندگی کا شکار ہوتی ہیں۔ایسے جاں سوزحالات میں ان اغوا شدہ عورتوں کا کیا قصور تھا؟کیا انھیں اپنی عزت اور اپنی عصمت کے تار تارہونے کا ملال نہ تھا؟ بیدی نے لاجونتی کے توسط سے درد و غم سے نڈھال ہزاروں لاکھوں عورتوں کی زندگی کی بے بسی اور لاچاری کا پردہ چاک کیا ہے۔
قابل غور ہے کہ زیر مطالعہ افسانہ بنیادی طور پر مغویہ عورتوں کی باز آبادکاری کے مسائل کو سنجیدگی سے پیش کرتا ہے۔بیدی نے اس افسانے میں شعوری طور پر فرقہ وارانہ فسادات اور قتل و غارت کا منظر پیش نہیں کیا ہے۔سطحی جذباتیت اور شدید مقصدیت کے برعکس بیدی نے سماج و معاشرے کے لیے ایک ایساتخلیقی آئینہ خلق کیا ہے ،جس میں غیر انسانی اور غیر اخلاقی رسم و رواج کا بد نما داغ صاف طور پرنظر آتا ہے۔اس افسانے کوسیتا ہرن کے سیاق میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔سیتا کو بھی اپنی پاک دامنی کا امتحان دینے کے لیے آگ سے گزرنا پڑا تھا۔ اس طور پر کہا جا سکتا ہے کہ تقسیم اور ہجرت کے ستائے ہوئے خواتین طبقے کی زندگی متعدد بار بستی اور اجڑتی ہے۔ بیدی نے اس جانب بھی اشارہ کیا ہے کہ مغویہ عورتوں اور خواتین کوان کے شوہر کے علاوہ ماں باپ اور بھائی بہن بھی پہچاننے سے صاف انکار کر دیتے ہیں۔ان قابل رحم حالات میں مغویہ عورتوں کے پاس خود کشی کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ باقی نہیں رہتا۔یہ تلخ حقیقت ہے کہ حوا کی بیٹیوں کے ساتھ ظلم اور نا انصافی کا رویہ اختیار کرنے میں پورا انسانی معاشرہ پیش پیش تھا۔ ایک عبرت ناک اقتباس ملاحظہ ہو:
’’ مغویہ عورتوں میں ایسی بھی تھیں جن کے شوہر وں، جن کے ماں باپ، بہن اور بھائیوں نے انھیں پہچاننے سے انکر کر دیا تھا۔ آخر وہ مر کیوں نہ گئی؟ اپنی عفت اور عصمت کو بچانے کے لیے انہوں نے زہر کیوں نہ کھا لیا؟ کنویں میں چھلانگ کیوں نہ لگا دی؟ وہ بزدل تھیں جو اس طرح زندگی سے چمٹی ہوئی تھیں۔سینکڑوں اور ہزاروں عورتوں نے اپنی عصمت لٹ جانے سے پہلے اپنی جان دے دی لیکن انھیں کیا پتہ کہ وہ زندہ ر ہ کرکس بہادری سے کام لے رہی ہیں۔کیسے پتھرائی ہوئی آنکھوں سے موت کو گھور رہی ہیں۔ایسی دنیا میں جہاں ان کے شوہر تک نہیں پہچانتے پھر ان میں سے کوئی جی ہی جی میں اپنا نام دہراتی ہے۔سہاگ ونتی۔۔۔سہاگ والی۔۔۔اور اپنے بھائی کو اس جم غفیر میں دیکھ کر آخری بار اتنا کہتی ۔۔۔ تو بھی مجھے نہیں پہچانتا بہاری؟ میں نے تجھے گودی کھلایا تھارے۔۔۔!!‘‘ (ایضاً،ص:۱۶۴)
مذکورہ بالا اقتباس کا ایک ایک لفظ ہماری روح کو مضطرب کرنے کی قوت رکھتا ہے۔اس عبارت سے بے بس اور لاچار عورتوں کاشدید دکھ درد آشکارا ہے۔در اصل بیدی کایہ افسانہ انسانی معاشرے پرگہرے طنزاور تازیانے کی حیثیت رکھتا ہے۔انسانیت کو تار تار کرنے والا یہ منظر ہمیں تادیرذہنی کچوکے لگاتا ہے۔راجند سنگھ بیدی نے نہایت تخلیقی آب و تاب کے ساتھ عورتوں کے درد نہاں کو قوت گویائی عطا کی ہے۔
مذکورہ بالا مباحث کی روشنی یہ بات بلا تردد کہی جا سکتی ہے کہ سعادت حسن منٹوکے افسانہ ’’کھول دو‘‘ اور راجندر سنگھ بیدی کے ’’لاجونتی‘‘ میں تقسیم ہند اور ہجرت کے اندوہناک حالات و مسائل بالخصوص عورتوں اور خواتین کی اذیت ناک زندگی کی پردرد تصویر کواچھوتے اندازمیں پیش کیا گیا ہے۔ ’’کھول دو‘‘ کی سکینہ اور’’لاجونتی‘‘کی لاجوکی قابل رحم زندگی قاری کے دل کو مغموم کر دیتی ہے۔پیش نظر دونوں افسانوں کے پلاٹ کا تاناباناسکینہ اور لاجوکے درد نہاں سے تیار کیا گیا ہے۔ سکینہ سراج الدین کی بیٹی ہے جبکہ لاجوسندر لال کی بیوی۔سکینہ اپنے والد کی خوشیوں اور امیدوں کا مرکز ہے تو لاجو اپنے شوہر سندر لال کے لیے حسن و محبت کا پیکر۔سکینہ اور لاجوکی سماجی حیثیت جداگانہ ہوتے ہوئے بھی دونوں کی زندگی کا غم یکساں ہے۔دونوں کے سینے میں اٹھنے والی درد والم کی ٹیس ایک جیسی ہے۔ منٹو اور بیدی نے ان فن پاروں میں مذہبی وفرقہ وارانہ جبروتشددسے قطؤ نظراپنی تمام تر توجہ عورت ذات کی زخمی روح اور اس کے جھلستے ہوئے جذبات و احساسات پر مرکوز کی ہے۔دونوں ہی افسانوں کا اختتام نہایت بلیغ اور فکر انگیز انداز میں ہوتا ہے۔مختصر یہ کہ’’کھول دو‘‘ اور ’’لاجونتی‘‘ اپنے موضوع اور انداز پیش کش کے اعتبار سے تقسیم ہند پر تخلیق شدہ افسانوں میں اپنا جواب نہیں رکھتے۔ 
***

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz