دو فرلانگ لمبی سڑک :کرشن چندر

دو فرلانگ لمبی سڑک ۔۔۔۔۔۔۔۔کرشن چندر

 تجزیہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔سلام بن رزاق

سرسید کی اصلاحی تحریک کے بعداردو ادب میں ترقی پسند تحریک سب سے توانا اور فعال رہی ہے۔اس تحریک نے فرسودہ سماجی ،تہذیبی اور اخلاقی روایات سے انحراف کرتے ہوئے اردو ادب کے زمین آسمان ہی بدل دئے۔اس میں کرشن چندر،اوپیندرناتھ اشک، خواجہ احمد عباس،راجندرسنگھ بیدی،حیات اللہ انصاری اور عصمت چغتائی جیسے فکشن نگاروں کے نام نمایاں تھے۔البتہ کرشن چندر اپنے رومانی اسلوب نگارش،اشتراکی اورانقلابی نظریے کے سبب ترقی پسندوں کے محبوب افسانہ نگار بن گئے۔

اس حقیقت سے انکار کرنا مشکل ہے کہ پریم چند کے بعد اردو فکشن کو ثروت مند بنانے میں کرشن چندر کا سب سے بڑا حصہ ہے۔کرشن چندر نے ۴۰ سے ۶۰ تک اردو افسانے کے قارئین کے دلوں پر حکومت کی ہے۔اس لئے انہیں قلم کا بےتاج بادشاہ کہا جاتا تھا۔پریم چند کے بعد سماجی حقیقت نگاری کا بےلاگ فنکارانہ استعمال کرشن چندر کے سوا کسی اور کے ہاں نہیں ملتا۔وہ اردو فکشن کے ایک جری سپاہی تھے جنھوں نے سماجی کمزوریوں،اقتصادی ناہمواریوں اور سیاسی جبرواستحصال کے خلاف قلمی جہاد کیا ہے۔انھوں نے مزدور ،فقیر ،چمار،بھنگی،کلرک جیسے سمان اور نچلے طبقے کے مفلوک الحال لوگوں کو حاشیے سے اٹھا کر اپنے فن کے مرکز میں لاکرکھڑا کردیا ان کے افسانوں کا کینواس پریم چند سے ہی نہیں بلکہ اردو کے تمام ادیبوں سے زیادہ وسیع ہے۔وہ ساری زندگی حق و انصاف کے لئے لڑتے رہے اور ایک نئے سماج کی تعمیر نو کو اپنے فن کی اساس بنایا۔وہ عوام کے ادیب تھے اور عوام کی کہانیاں عوام کے لئے لکھتے تھے۔خود ان کا کہنا تھا:

’’میرا فن عوام کی دین ہے‘‘۔

اس زمانے میں کرشن چندر کی معمولی سی معمولی تحریر بھی ادب کے میزان میں سونے چاندی کے بھائو تولی جاتی تھی۔نوجوان نسل تو ان کے افسانوں اور ناولوں کی طرف یوں لپکتی تھی جیسے پروانے شمع کی طرف اور بھونرے پھولوں کی طرف لپکتے ہیں۔

کرشن چندر شروع سے اشتراکیت کے حامی رہے ہیں۔

ممبئی میں گودی کے مزدوروں سے متاثر ہوکر انہوں نے ’’تین غنڈے‘ لکھا اور تقسیم کے بعد فسادات کے موضوع پر ’’پشاور ایکسپریس ‘‘،’’ہم وحشی ہیں‘‘ اور ’’امرتسر آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد‘‘جیسے افسانوں نے انہیں شہرت کی بلندی پر پہنچا دیا۔’’کالو بھنگی‘‘اور ’’مہالکشمی کا پل‘‘جیسے افسانے بھی ا س زمانے کی یادگار ہیں۔

اس دوران کرشن چندر اور ان کے فن پر جو مضامین لکھے گئے ان میں سے بیشتر تاثراتی تنقید کے زمرے میں آتے ہیں جو مبالغہ آمیز تعریف و توصیف کی چاشنی میں لپٹے ہوئے ہیں۔شہرت اور مقبولیت کی چکاچوند میں ان کے اچھے افسانوں کی چمک ماند پڑ گئی اور کرشن چندر ترقی پسندی اور اشتراکیت کا اشتہار بن کر رہ گئے۔

ایسا نہیں ہے کہ ترقی پسندوں کو کرشن چندر کی کمزوریوں کا علم نہیں تھا مگر اس زمانے میں ترقی پسندوں کو کرشن چندر جیسے لکھاری کی ضرورت تھی جو ادب کے نام پر ان کے نظریات اور خیالات کو عوام تک پہنچاسکے۔کرشن چندر نے یہ فریضہ نہایت خندہ پیشانی سے انجام دیا اور اپنے فن کو ترقی پسند نظریے کی تبلیغ و اشاعت کے لئے وقف کردیا۔

کوئی بھی تحریک جاویدانی نہیں ہوتی۔۶۰     ؁ کے بعد ترقی پسند تحریک کی چمک دمک ماند پڑنے لگی تھی۔ادھر جدیدیت اپنے پر پُرزے نکال رہی تھی۔ اردو افسانوں میں علامتوں ،استعاروں اور ابہام کی گرم بازاری شروع ہوگئی تھی۔

یہ وہ زمانہ تھا جب کرشن چندر کو نظر انداز کیا جانے لگا۔اس زمانے میں کسی بھی جدید نقاد نے کرشن چندر کو قابل اعتنا نہیں سمجھا اور انہیں اس طرح فراموش کردیا گیا جیسے وہ اردو افسانے کا ایک بھولا بسرا باب ہو۔

اردو کے اس عظیم افسانہ نگار کے سامنے المیہ یہ تھا کہ ترقی پسند نقاد انہیں سر آنکھوں پر بٹھا رہے تھے اور جدیدیت کے حامی ان سے چشم پوشی کررہے تھے ۔ اس طرح تنقید کے دو متضاد رویوں نے کرشن چندر کو بہت نقصان پہنچایا۔

وارث علوی جو ترقی پسند وں اور جدیدیے دونوں سے نالاں تھے ۔ انہوں نے کرشن چندر کی موت کے بعد ان پر ایک طویل مضمون لکھا۔توقع تھی کہ وہ منٹو اور بیدی کی طرح کرشن چندر پر بھی کوئی ایسی کتاب یا مضمون لکھیں گے جس سے ان کے افسانوں کی صحیح قدرپیمائی کی جاسکے ۔انھوں نے ایک طویل مضمون تولکھا مگر اپنے تنقید ی مزاج کے مطابق شروع میں تعریف و توصیف کی جھڑی لگادی ۔صنائع بدایع کا استعمال کیا۔ایک سے بڑھ کر ایک فقرہ تراشا۔پھر دھیرے دھیرے اپنے اصلی رنگ میں آگئے اور ایک ایک افسانے کو ایسا ادھیڑا کہ قصاب کیا بکرے کو ادھیڑتا ہوگا۔اس پر ستم یہ کہ ان کے بہتر ین افسانوں سے صرف نظر کیا یا پھر انہیں دوچار فقروں پر ٹرخا دیا۔

کرشن چندر کا فن آج بھی منتظر ہے ایک ایسے نقاد کا جو ان کے بہترین افسانوں کا ایک دقیع انتخاب کرکے ترقی پسندوں کے جذباتی تاثرات اور جدیدیوں کے بےجا تعصبات سے بلند ہوکر ان کے فن کا ایسا بھرپور جائزہ پیش کرے جس سے اس کے فن اور آرٹ کے نئے ابعاد روشن ہوں اور ہماری ملاقات ایک ایسے کرشن چندر سے ہو جو اب تک ہمارے نگاہ کم بین سے اوجھل تھا۔

اب آئیے! ’’گاہے گاہے باز خواں ‘‘کے تحت ان کی ایک مشہور کہانی ’’دوفرلانگ لمبی سڑک‘‘کا مختصراً جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔

یہ کہانی کرشن چندر کی نمائندہ کہانیوں میں سے ایک ہے۔اردو کے ہر نقاد نے اس کہانی کو ان کی بہترین کہانیوں میں شمار کیا ہے مگر کسی نے بھی اس پر تفصیل سے گفتگو نہیں کی البتہ پروفیسر گوپی چند نارنگ نے اس کہانی کے تعلق سے چند وضاحتی جملے ضرور لکھے ہیں۔وہ رقمطراز ہیں:

’’یہ کہانی اردو کے سخت سے سخت انتخاب میں جگہ پانے کے قابل ہے۔کہانی میں سڑک خود ایک کردار ہے۔اس میں تمثیلی پیرایہ بھی آگیا ہے جس کی مدد سے سماج کے استحصالی پہلوئوں کی استعاراتی ترجمانی کی گئی ہے۔

اوپر بیان کیاجاچکا ہے کہ اردو کے تمام نقادوں نے بیک زبان کرشن چندر کو’’رومانی بیانیہ‘‘کا بادشاہ تسلیم کیا ہے مگر وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ کرشن چندر نے نہ صرف بیانیہ کے کشت زار میں اپنے فن کا ہل چلایا ہے بلکہ تجریدیت اور ابہام کی بھول بھلیوں میں بھی اپنے کف پا کے نقش چھوڑے ہیں۔

’’دوفرلانگ لمبی سڑک‘‘ایک ایسا ہی افسانہ ہے جو پہلی قرأت میں چھوٹے چھوٹے واقعات کا محض ملغوبہ معلوم ہوتا ہے مگر ذرا نظریں گاڑ کر پڑھیں تو معنی و مفہوم کے کئی در وا ہوتے نظر آتے ہیں۔اگرچہ افسانوں کی ہیئت اور تکنیک میں تجربوں کی شروعات جدیدیت کے زمانے میں ہوتی مگر اس سے پہلے کرشن چندر نے اپنے کئی افسانوں میں تکنیک کے تجربے کئے ہیں۔’’غالیچہ‘‘، ’’کالو بھنگی‘‘، ’’پانی کا درخت‘‘،’’مہالکشمی کا پل‘‘اور’’دوفرلانگ لمبی سڑک‘‘اسی نوعیت کی کہانیاں ہیں۔’’دوفرلانگ لمبی سڑک‘‘کو لاژیامونتاژکی تکنیک میں لکھا ہوا افسانہ ہے۔اگرچہ اس تکنیک میں احمد علی بھی ’’ہمارے گل‘‘ کے نام سے ایک افسانہ لکھ چکے ہیںتاہم ’’ہمارے گل‘‘میں واقعات کی اس قدر بہتات ہے کہ ہر واقعہ پانی کے بلبلے کی طرح ذہن کی سطح پر ابھرتا ہے اور لمحے بھر میں معدوم ہوجاتا ہے۔کرداروں کا ایسا ہجوم ہے کہ ہر کردار ذہن پر کوئی گہرا نقش ثبت کئے بغیر گزر جاتا ہے۔اس کے علاوہ افسانے کی طوالت بھی اس کی اثر پذیری میں مانع ہے جبکہ ’’دوفرلانگ لمبی سڑک‘‘میں جو واقعات بیان کئے گئے ہیںیا جو منظرکشی کی گئی ہے وہ اس قدر جامع ہے کہ ذہن پر نقش ہوجاتی ہے۔

’’سڑک ایک جامد ،منحوس ،سخت اور بےحس معاشرے کی صور ت حال کا استعارہ بن کر ابھرتی ہے۔ہم نے داستانوں میں جام جہاں نما کے بارے میں پڑھا ہے جس میں دنیا کے حالات کو ٹی وی اسکرین کی طرح دیکھا جاسکتا تھا۔افسانہ نگار نے ’’دوفرلانگ لمبی سڑک‘‘کو ایک اعتبار سے جام جہاں نما کی تمثیل بنادیا ہے جس میں پورے ملک کے مجموعی حالات کی ایک واضح جھلک پیش کی گئی ہے۔ افسانے میں کوئی پلاٹ نہیں اس لئے کہانی آغاز اور انجام سےبےنیاز ہے۔ البتہ وقت کے ساتھ کیلی ڈوسکوپ(Kaleidoscope)کی طرح منظر بدلتے رہتے ہیں۔افسانے میں چھوٹے بڑے کم و بیش بارہ واقعات یا مناظر پیش کئے گئے ہیں ۔ہر واقعہ عبرت آموز اور ہر منظر چشم کشا ہے۔افسانے میں جو کردار چلتے پھرتے یا حرکت کرتے نظر آتے ہیں وہ سب کسی abstractفلم كی پرچھائیاں معلوم ہوتی ہیں۔

بھیک مانگتےمعذوربھکاری،فٹن میں بیٹھا ہوس پرست بوڑھا سیٹھ،فٹن کے پہیوں تلے کچل جانے والا کتّا، بدعنوان پولس والا، ظالم انگریز، غربت، افلاس اور بیماری کی مار سے پریشان مزدور،اُپلوں کا ٹوکرا سر پر اٹھائے کانپتی ٹانگوں کے ساتھ دوڑتی بوڑھی عورت کسی بڑے آدمی کے استقبال کے لئے دھوپ میں کھڑے بھوکے پیاسے معصوم اسکول کے طلبہ،مرا ہوا بھکاری،یہ اور ایسے مختلف مناظر ہیں جو قاری کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتے ہیں لیکن سخت اور بےحس سڑک پر ان دلدوز مناظر کا کوئی اثر نہیں ہوتا جو معاشرے کی بےحسی کا اشاریہ ہے۔ایسا لگتا ہے برسوں بلکہ صدیوں سے حالات جوں کے توں ہیں اور ان کے تبدیل ہونے کا کوئی امکان بھی نظر نہیں آتا۔

افسانے کا آخری جملہ حالات کی سنگینی میں مزید اضافہ کرتا ہے۔ ’’سڑک خاموش اور سنسان،بلند ٹہنیوں پر گدھ بیٹھے اونگھ رہے ہیں‘‘۔

اونچی ٹہنیوں پر بیٹھے گدھوں کا ذکر افسانے میں کئی بار آیا ہے۔گدھ جو نحوست ،تباہی اور موت کی علامت ہیں۔اونچی ٹہنیوں پر بیٹھے گدھ ان سیاست دانوں اور سرمایہ داروں کا استعارہ بھی ہوسکتا ہے جو اونچے مناصب پر بیٹھے عوام کا خون چوس رہے ہیں۔

یہ افسانہ غالباً ساٹھ ستر برس پہلے لکھا گیا تھا مگر افسوسناک بات یہ ہے کہ افسانے میں بیان کئے ہوئے واقعات اور پیش کردہ مناظر آج بھی شب و روز ہماری نظروں کے سامنے سے گزرتے رہتے ہیں۔

کرشن چندر ترقی پسند نظریہ کے حامی تھے ۔انہوں نے اپنے افسانوں میں ہمیشہ بغاوت اور انقلاب کی باتیں کی ہیں مگر اس افسانے میں کرشن چندر نے واشگاف انداز میں اپنے انقلابی نظریے کا اظہار نہیں کیا بلکہ معاشرے کی سنگین صورتحال کو اشاروں ،کنایوں میں کچھ اس طرح پیش کیا ہے کہ افسانے کے اختتام پر قاری کو اچانک محسوس ہوتا ہے کہ وہ ابھی ابھی جس دوفرلانگ لمبی سڑک سے گزر کر آیا ہے اس کے نیچے تو بارود بچھی ہوئی تھی اور وہ ایک نامعلوم قسم کے اضطراب میں مبتلا ہوجاتا ہے۔

یہ افسانہ موضوع کے اعتبار سے ترقی پسند ہے مگر تکنیک کے لحاظ سے جدید طرز اظہار کا نمونہ ہے لہٰذا اسے کرشن چندر کا جدید ترقی پسند افسانہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔

بشکریہ تریاق

http://taryaq.blogspot.com/2018/03/blog-post.html

 

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.