ڈاکٹر ابوالحیات اشرف کی کالم نگاری ’السلام علیکم‘ کے حوالے سے
سلمان فیصل
سینئر ریسرچ فیلو
شعبہ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے مقالے کا عنوان پڑھ کر آپ بالکل یہ اندازہ نہ لگائیں کہ میں یہاں کسی مذہبی کالم پر گفتگو کرنے یا سلام کلام کے فضائل و مسائل بیان کرنے حاضر ہوا ہوں۔ ذہن میں یہ خیال بھی نہ کوندے کہ یہاں تو اردوزبان و ادب کی باتیں ہونی تھیں اور میں خواہ مخواہ قیل و قال کرنے چلا آیا۔ میں بھی اس رسالے کے آداب بجا لاتے ہوئے اردو ادب کے حوالے سے گفتگو کروں گا ، نہ کہ قرآنی آیات اور احادیث کی تفسیر و تشریح۔ لیکن یہ عنوان ذرا مذہبی ہے اور ایک خالص مذہبی ، دینی و علمی رسالے سے نکل کر اس محفل میں وارد ہو ا ہے اور اردو ادب کی دنیا میں اپنی ادبی حیثیت مسلم کرانے آیا ہے، میں تو بس ایک ذریعہ ہوں۔
دلی کی مشہور شاہجہانی جامع مسجد کے نزدیک ایک تنگ و تاریک گلی چاہ رہٹ ہے جہاں سے ایک دینی ماہنامہ رسالہ ’’نوائے اسلام‘‘ مئی ۱۹۸۴ سے شائع ہو رہا ہے ۔ اس کے مدیر اعلی عزیز عمر سلفی ہیں۔یہ رسالہ اپنے آغاز سے اب تک پابندی سے شائع ہو رہا ہے۔ یہ ایک خالص اسلامی مذہبی رسالہ ہے ۔اس رسالے کے مشمولات پر نظر ڈالی جائے تو اس میں مختلف موضوعات پرمختلف نوعیت کے مضامین نظر آئیں گے۔ اس کے کچھ مستقل کالم بھی ہیں جو ہر شمارے میں شائع ہوتے ہیں۔
اسی رسالے میں ایک بزرگ قلم کارڈاکٹر ابوالحیات اشرف کے قلم سے لکھا جانے والا ایک مشہور کالم ’’السلام علیکم‘‘ ہے جو کم و بیش دس سال تک پابندی سے شائع ہوتا رہا۔ اس کا اسلوب بہت شگفتہ، ظر یفانہ اور طنزیہ ومزاحیہ ہوتا تھا۔ اس میں دینی امور سے متعلق کسی مسئلے پراظہار خیال کیا جاتا یا مسلمانوں کے مسائل پر گفتگو کی جاتی ۔ اس کالم کی تمہیدبہت ہی دلچسپ ہوتی تھی۔ اس کے تحت پیش کی جانے والی ہر تحریر کا عنوان ’’السلام علیکم‘‘ ہوتا۔یوں تو یہ نثر ی تحریر ہوتی لیکن اس میں شعری صنف قصیدے کے اجزائے ترکیبی کی شبیہ صاف طور پر دیکھی جاسکتی ہے۔ اس کالم کا ابتدائیہ قصیدے کے تشبیب کی مانند ہوتا ۔ اس کے بعد گریز، پھر مدعا اور آخر میں عرض حال ہوتا۔ اس کے علاوہ اس پورے کالم پر طنزو مزاح، اور انشائیہ جیسی اصناف نثرکی خصوصیات کا غلبہ رہتا ۔ بات سے بات نکلتی چلی جاتی اور موضوع اپنے کلائمکس تک پہنچ جاتا۔ مزید بر آں یہ کالم مضمون نویسی کی خصوصیات سے بھی مملو ہوتا۔تمہید، نفس موضوع اور پھر خلاصۃ البحث کے عناصر اس میں پوشیدہ ہوتے۔اس کالم کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ کسی بھی مسئلے پر مدلل گفتگو کی جاتی۔
اس کالم کو پڑھتے ہوئے یہ خیال آتا ہے کہ اردو ادب کے فروغ میں اس نے بھی اپنی خدمات انجام دیں ،خصوصاً طنز و مزاح اور کالم نویسی کے میدان میں۔لیکن ناقدین کی توجہ ابھی تک اس کالم کی طرف مبذول نہیں ہوئی ہے۔ اس کی ادبی خصوصویات نے مجھے اکسایا کہ اردو ادب کے قارئین اور ناقدین کو اس کالم سے متعارف کراؤں۔ دینی و مذہبی رسالوں میں طنزو مزاح اور انشائیہ جیسی اصناف کے پیرایہ اظہارمیں دینی اور مسلم مسائل کو پیش کرنابھی ایک فن ہے۔ خصوصی طور پر اس کالم کی وجہ سے دینی رسالہ ’’نوائے اسلام‘‘ اسلامی رسائل کے قارئین کے ایک خاص گروپ میں بہت مقبول ہوا۔ کالم نگار ڈاکٹر ابو الحیات اشرف اس شگفتہ اور دلچسپ کالم میں باتوں باتوں میں بہت پتے کی باتیں کہہ جاتے اور نئی نئی معلومات اور حقائق قارئین کے گوش گذار کرجاتے ۔
آئیے ا س کالم کا تجزیہ کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کیا اس کے اندر وہ خصوصیات ہیں جن کی وجہ سے اس کالم کو اردو ادب کے ذخیرے کا حصہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ ناپ تول کر یہ بھی معلوم کرنے کی کوشش کریں گے کہ ادب کی کسوٹی پریہ کالم کتنا کھرا اترتا ہے اور اس کی تحریریں ادبی معیار کے سانچوں میں کس قدر ڈھل پاتی ہیں۔دسمبر ۲۰۰۷ کے شمارے میں جو ’’السلام علیکم‘‘ شائع ہوا ہے ، اس میں قدیم اور جدید دور کی خواتین کے اوصاف بیان کیے گئے ہیں۔ ان کی خوبیوں کو خامیوں کے لبادے میں لپیٹ کر اور خامیوں کو خوبیوں کا جامہ پہنا کر پیش کیا گیا ہے تاکہ قدیم سے جدید دور تک کے سفر میں جو تغیر و تبدل ہوا، معاشرتی اور سماجی تبدیلیوں کے پیش نظر ان خواتین پر جو نمایاں اثرات مرتب ہوئے ، اخلاق و آداب کے اصولوں میں کس طرح تبدیلی آئی اور کس طرح مخرب اخلاق نے مکارم اخلاق کی جگہ لی، ان باتوں سے قاری آگاہ بھی ہو جائے او ریہ سوچنے پر مجبور ہو کہ اس قسم کی تبدیلیاں کس حد تک درست اور کتنی غیر درست ہیں۔ اب ذرااس کالم کا ابتدایہ دیکھتے ہیں کہ کس انداز سے بات شروع کی گئی ہے:
پرانے زمانہ میں عورتیں نہ ناچتی تھیں نہ گاتی تھیں۔ ان میں رقص و سرود کے جراثیم نہیں ہوتے تھے۔ اس لئے پریمی جوڑوں کو بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے تھے۔ آہیں بھرنا، شب بیداری اور ستارے گننا ان کا مشغلہ ہوتا تھا۔ لیکن ان کے اندر مردوں کو انگلیوں پر نچانے کا جرثومہ بالافراط پایا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ ان مردوں کو بھی انگلیوں پر نچا لیتی تھیں جو بازاروں میں بھالو اور بندر نچاتے تھے یا سرکس میں شیروں سے کرتب کراتے تھے۔ وہ اس شعر کی مجسم تصویر ہوتی تھیں۔
اگر دنیا میری شوخی پہ آئے
نچادوں انگلیوں پر اس جہاں کو
کہا جاتا ہے کہ عورتیں کبھی نازک ہوا کرتی تھیں اس لئے وہ صنف نازک کہلاتی تھیں۔
یہ تھا ابتدائیہ، بالکل قصیدے کے تشبیب کی مانند کہ قاری کو مزید پڑھنے پر اکسائے اور وہ تحریر کی سحر انگیزی میں اس قدر گرفتار ہو کہ قرأت کا دریا پار کیے بغیر اس کے ہاتھ سے چپو نہ چھوٹے۔بات پرانے زمانے کی عورتوں کے اوصاف سے شروع ہوکر ان کے صنف نازک ہونے کی وجہ پر آ کر ٹکی ۔ اب یہاں سے زمانۂ قدیم کی خاتون کے اوصاف سے جدید دور کی ناری کی ہمہ جہت خصوصیات کی طرف گریز دیکھیے:
لیکن اب ایسا نہیں ہے ۔ عورتوں نے مرد کا لباس پہن لیا ہے۔ چال ڈھال بدل لیا ہے۔ مردانہ ہیئراسٹائل اپنا لیا ہے۔ اب وہ قمیض و جینس پہنتی ہیں۔ ٹائی باندھتی ہیں۔ وکالت کرتی ہیں۔ فوج و پولیس میں ملازمت کرتی ہیں۔ ہوائی جہاز اڑاتی ہیں۔ طب و انجینئرنگ کے شعبوں میں کمال دکھاتی ہیں۔ مردوں پر ایسا رعب جماتی ہیں کہ بے چارہ مرد صنف نازک کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔
ڈاکٹر اشرف جدید عہد کی ماڈرن ویمن کی مردانہ خوبیوں کا ذکر کرنے کے بعد اب اپنے اصل مقصد کی طرف آتے ہیں یعنی نفس موضوع پر اظہار خیال شروع ہوتاہے۔ یہاں اب کچھ خواتین کا ذکر کرتے ہیں اور ان کے تعلق سے کچھ حقائق سے قاری کو روشناس کراتے ہیں۔ و ہ لکھتے ہیں:
ایسی ہی عورتوں میں ایک بنگالی مصنفہ ہیں۔گستاخ رسول، دینی شعائر سے عاری، اپنی جنسی رازوں کو بے باکانہ بیان کرنے والی، داڑھی والوں کو منہ چڑانے والی، کلین شیو اور پینٹ والوں پر مسکرانے والی اور خشخشی داڑھی والوں کو دزدیدہ نگاہوں سے دیکھنے والی……..پیشہ میں ڈاکٹر لیکن افلاطون و سقراط کی طرح اخلاقیات، سماجیات اور جنسیات پر فلسفہ بیان کرنے والی……. یہ ہیں تسلیمہ نسرین یعنی مائی ڈیئر تسلیمہ نسرین‘‘ میں ان کو اچھا لگتا ہوں۔میرا ڈیل ڈول، قدوقامت، صحت اور خوبصورتی ان کو لبھاتی ہے ۔ میں نے چودہ سال پہلے ان کو نکاح کا پیغام دیا تھا، لیکن شاید کسی سیاسی دباؤ اور اپنی بے باکانہ مزاج کی بنا پر آج تک میری پیشکش کا جواب نہیں دے سکیں۔ خیر ان کی مرضی !! تسلیمہ نسرین کی خوبیوں میں ایک یہ بھی ہے وہ ’’تحریک نسواں‘‘ کی عالمی قائد بن گئی ہیں۔ فرماتی ہیں کہ ’’خواتین کا سرڈھانکنا ایسا ہی ہے کہ ان کی عقل پر پردہ ڈالنا تاکہ وہ حرکت و عمل سے قاصر رہیں۔‘‘ ایک بار ’’آؤٹ لک‘‘ میگزین کو انٹر ویودیتے ہوئے کہاتھا کہ ’’برقعہ جلا دو تاکہ عورتیں آزاد فضا میں سانس لے سکیں۔ ‘‘ اس لئے یہ کہنا بجا ہے کہ اکیسویں صدی سے پہلے کی عورتیں مردوں کو اپنی انگلیوں پر نچاتی تھیں، آج کی عورتیں مردوں کو اشاروں پر نچاتی ہیں اور مرد بے چارہ (عقل کا مارا) اس کے ابرو پر بند ر اور بھالو کی طرح ناچتا ہے۔
ابھی حال ہی میں مکیش امبانی نے اپنی بیوی نیتا امبانی کو اس کے یوم پیدائش پر ۱۹۷ کروڑروپئے کا ایک ہوائی جہاز تحفتاً پیش کیا۔ شاہ رخ خان (فلمی ہیرو) نے فرح خان (فلمی ڈائریکٹر) کو اس کے یوم پیدائش پر ایک مر سید یڈیز کا ر کانذرانہ پیش کیا۔‘‘
ا س طرح ڈاکٹر ابوالحیات اشرف مختلف واقعات اور حقائق کے سہارے اپنا مدعا بیان کرجاتے ہیں اور دینی مسئلہ بھی واضح کردیتے ہیں۔ عورتوں کی آزادی او ران کی عزت و آبرو کے حوالے سے اسلامی نقطہ نظر بھی سامنے آجاتا ہے۔ ان تمام چیزوں کے ساتھ ساتھ ان کی تحریر میں جو ادبیت پیدا ہوتی ہے وہ قاری کو گرویدہ بنا لیتی ہے ۔ ان کی تحریروں کا اسلوب نہایت ہی سادہ اور سلیس ہوتاہے۔ سیدھے سادے انداز میں موضوع پر روشنی ڈالی جاتی ہے ۔ کوئی پیچیدگی یا معمہ نہیں ہوتا۔ زبان کی شیرینی، نثر کی روانی اور اسلوب کی رنگینی قاری کے ادبی ذوق کی تسکین کا سامان فراہم کرتی ہیں۔ یہ تحریریں قاری کو قلبی حظ پہنچاتے ہوئے اس کے لاشعور کو بھی جھنجھوڑتی ہیں اور معاشرے میں پائی جانے والی اس صورت حال پرقاری اپنے نقطہ نظر سے سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ یوں تو یہ ایک مذہبی رسالہ ہے لیکن اس میں تسلیمہ نسرین کا بھی ذکر ہے اور ’’آؤٹ لک‘‘ میگزین کا بھی۔ اس میں شارخ خاں بھی نظر آتے ہیں اور فرخ خان بھی۔ لیلی مجنوں، شیریں فرہاد اور سونی مہیوال کا تذکرہ بھی ہوتا ہے۔ ڈاکٹر اشرف اس طرح بین السطور میں تہذیبی روایت کے زوال کی کہانی سناجاتے ہیں۔
اس کالم کا آخری پیراگراف بھی بہت ہی عمدہ اور نصیحت آموزہوتا تھا۔ اس میں ڈاکٹر صاحب بہت پتے کی باتیں کہہ جاتے اور طنز و مزاح کا پہلو بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ وہ مذکورہ بالا اقتباس والے کالم کے آخر میں لکھتے ہیں:
آخری سطروں میں یہ بتاتا چلوں کہ قدیم عورتیں اپنی زندگی کی آحری سانسیں اپنے سرتاج کے قدموں میں گزارنا چاہتی تھیں۔ ان کا احترام کرتی تھیں۔ ان کی مرضی کو ترجیح دیتی تھیں اور زیادہ تر وقت باورچی خانہ میں گزارکر اپنے شوہر کے پیٹ، زبان اور ذائقہ پر خاص دھیان دیتی تھیں۔ وہ ہندستانی مردوں کی کمزوری سے واقف تھیں کہ پھر بھی پیٹ ہے ہندوستانی ایک ضروری نکتہ رہ گیا۔ وہ یہ کہ عورتوں میں ایک کمزوری تھی کہ وہ اپنے شوہروں کانام لینے سے بخالت سے کام لیتی تھیں کہ شاید نکاح فسخ نہ ہو جائے۔ اگر کسی کا نام رحمت اللہ ہوا اور راشن والے نے پوچھ لیا کہ آپ کے شوہر کا نام کیا ہے تو محترمہ گھونگھٹ سے جواب دے دیتیں کہ وہی جو نماز کے اخر میں السلام علیکم کے بعد آتا ہے ۔ آج بھی اس زمانے میں کہ کچھ عورتیں زندہ ہیں جو سو روپئے کا نوٹ دیکھ کر گاندھی جی کی تصویر سے پردہ کرتی ہیں اور سر سید کا فوٹو دیکھ کر گھونگٹ ڈال لیتی ہیں اور السلام علیکم کہتی ہیں‘‘
اس آخری پیراگراف میں ڈاکٹر اشرف نے ہندوستانی مشرقی خاتون کے اوصاف حمیدہ کا ذکر بہت ہی شگفتہ انداز میں کیا ہے کہ کس طرح وہ اپنے شوہروں کا احترام کرتی ہیں اور ان کا خاص خیال رکھتی ہیں۔ اور گھونگھٹ کے لفظ سے یہ بتانے کی کوشش کی ہے پردہ گھونگٹ میں بھی ہو جاتا ہے جو آج کل کے فیشن ایبل نقاب یا اسکارف میں نہیں ہوپاتا۔
’’السلام علیکم ‘‘ کے ایک دوسرے کالم پر نظر ڈالتے ہیں۔ یہ جنوری ۲۰۰۱ کے شمارے میں شائع ہوا۔ اس میں ڈاکٹر اشرف نے اپنے وطن مالوف کے سفر کا تذکرہ کیا ہے۔ وہ جب اپنے وطن گئے تو ان کی یادوں کے جھروکوں کے سامنے پورا منظر نامہ آگیا اور وہ ’’یاد ماضی عذاب ہے یارب‘‘ کے تحت انھیں بھول جانے کی کوشش کرتے۔ انھوں نے اس کالم میں رفتار زمانہ کی زد میں پیدا شدہ تبدیلیوں کا بھی ذکر کیا اور پرانے اور نئے مزاج کا موازنہ بھی کیا۔ انھوں نے اپنے وطن مالوف کا رخت سفر باندھنے کا تذکرہ بہت ہی دلچسپ انداز میں بیان کیا ہے۔ملاحظہ کیجیے اس کالم کی تشبیب:
میرے دوستوں میں ایک مولانا محمد طاہر ہیں، میرے ہم عمر ہیں اور مدرسہ احمدیہ سلفیہ دربھنگہ میں استاد ہیں، وہ نیک نیت و مخلص ہیں اور بے لاگ گفتگو کرتے ہیں۔ پندو نصائح کرنے کے عادی ہیں اور مجھے مادر وطن جانے کی تلقین کرتے رہتے ہیں۔ ان کی تلقین سے مجھے جگر مراد آبادی کا ’’بچپن مجھ کو یاد‘‘ کا خیال آتا ہے۔ یا جوشؔ ملیح آبادی کا ’’یادوں کی برات‘‘ کی یاد آتی ہے۔ یا مجازؔ لکھنوی کا ’’اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں‘‘ کا دھیان آتا ہے یا علامہ اقبالؔ کا ’’کس کو اب ہوگا وطن میں آہ، میرا انتظار‘‘ ذہن کے پردہ پر کوند جاتا ہے۔ ایک بار مولانا مجھ سے فرمانے لگے: ’’اہل وطن کا آپ پر حق ہے ان کے لیے آپ پر کچھ فرائض ہیں۔‘‘ میں نے ان کی نصیحت کو ایک شعر پڑھ کرسنی ان سنی کردی:
حضرت ابو ہریرہ سے بلی نہ چھٹ سکی
ڈاکٹر حیات اشرف سے دلی نہ چھٹ سکی
اگرچہ مولانا کی نصیحت وقتی تھی مگر دیرپا اثر رکھتی تھی۔ مگر ۱۴؍ اکتوبر کو اپنی بچی کی شادی کے بعد وطن جانے کے لیے بے قرار ہوگیا اور کاغذات سفر تیار کرنے لگا۔ مولانا محمد طاہر مجھے نصیحت تو کر گئے لیکن میرے لیے غیر معمولی درد سر چھوڑ گئے۔
اس کالم میں ڈاکٹر صاحب نے دوران سفر کی صعوبتوں اور پریشانیوں کا نقشہ بھی مزاحیہ انداز میں کھینچا ہے۔ سفر میں موتی ہاری سے اپنے گاؤں تک کا سفر جیپ سے طے کیا تھا۔ انھوں نے اس جیپ کے سفر کی جو عکاسی کی ہے وہ منظر نگاری اور نفسیات شناسی کی ایک اچھی مثال ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’دوستیا میری پیدائش کی جگہ ہے۔ ۲۱؍ اکتوبر کو مظفر پور ، موتی ہاری اور ڈھاکہ (چمپارن) ہوتے ہوئے وطن پہنچا۔ موتی ہاری سے ڈھاکہ تک کا سفر جیپ سے طے کیا۔ جیپ میں میرے ساتھ کئی جانگلی، افیمچی، زغلول اور جمھورے قسم کے بارہ مسافر ٹھونس دیے گئے۔ ایسا لگا کہ ہم خلائی لباس پہن کر مریخ پر جارہے ہیں۔ اپنی مرضی سے نہ گردن گھما سکتے ہیں اور نہ ہاتھ پاؤں سیدھا کرسکتے ہیں۔ روڈ ایسا کہ کبھی پانچ فٹ کی گہرائی میں اترتے تھے اور کبھی دس فٹ کی اونچائی پرچڑھتے تھے۔ کبھی آلو کے کھیت سے گزرتے او رکبھی لالو جی کے روڈ پر سرکتے تھے۔ معلوم ہورہا تھا کہ ہم ترکی کے شمال میں کوہ ارارت کے بے ترتیب اور بے ہنگم علاقوں سے گزر رہے ہیں۔‘‘
اس کالم میں ڈاکٹر اشرف نے اپنے گاؤں کی سیر کرائی ہے۔ انھوں نے اپنے گاؤں کے لوگوں، خصوصاً اپنے قریبی حضرات کا مختصر خاکہ پیش کرتے ہوئے ان سے اپنی محبت ، انسیت اور لگاؤ کو جذباتی انداز میں بیان کیا ہے۔ اپنے گاؤں کے کھیتوں، کھلیانوں، مسجدوں اور قبرستانوں کا تذکرہ کرتے ہوئے اشکبار بھی ہو ئے اور یاد ماضی انھیں عذاب میں مبتلا کرنے کی کوشش کرتا رہا۔
ڈاکٹر ابوالحیات اشرف نے اپنے ا س کالم ’’السلام علیکم‘‘ کے ذریعہ عصر حاضر کے واقعات کا تجزیہ بہت ہی بے باکانہ انداز میں کیا ہے۔ کسی بھی بڑے واقعے کو مسلمانوں کے حالات سے جوڑ کر دیکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ جولائی ۲۰۰۶ کے شمارے میں اپنے کالم میں اصل اور نقل کے فارمولے پر برڈ فلو، نقلی مسلم دہشت گری اور آم کے موضوع پر خامہ فرسائی کی ہے۔ اس کالم میں انھوں نے بتایا ہے کہ ہر چیز کے اندر اصل اور نقل پائی جاتی ہے۔ برڈ فلو کے مسئلے پر اظہار خیال کرنے سے قبل مرغیوں کی اصل اور نقل یعنی دیسی اور پولیٹری فارم میں پلی مرغیوں کے اوصاف بہت دلچسپ انداز میں بیان کیا ہے۔ اسی طرح آم کی مختلف اقسام کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کچھ اعداد و شمار پیش کیا کہ کس طرح باہر کے ملکوں میں ہندوستان سے کتنا زیادہ آم برآمد کیا جاتا ہے۔ یہاں بھی اصل اور نقل میں امتیاز کرتے ہوئے انھو ں نے بتایا کہ اصلی آم کو ایکسپورٹ کردیا جاتا ہے اور نقلی آم گھر والوں کے لیے رکھ لیا جاتا ہے تاکہ اس کو کھا کر یہاں کے عوام بیمار ہوں اور آبادی میں کچھ کمی آئے۔ کالم کے آخر میں وہ پتے کی بات کہتے ہوئے رخصت ہوئے اور کہا کہ اصل اصل ہے اور نقل نقل ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
’’آخری سطور میں میں یہ لکھتا چلوں کہ کسی چیز کی چمک دمک ، کشش اور آرائش و زیبائش پر نہ جائیے۔ اس کا قوی امکان ہے کہ نظر آنے والی چیز ویسی نہ ہو جیسی آپ سمجھ رہے ہیں۔ اکثر ایسی چیزیں نہ صرف آنکھوں کو دھوکہ دیتی ہیں بلکہ عقل و خرد پر بھی پردہ ڈال دیتی ہیں۔‘‘
مذکورہ بالا تجزیے کی روشنی میں یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ ڈاکٹر ابوالحیات اشرف کا یہ کالم ’’السلام علیکم‘‘ ادبی خصوصیات کا حامل ہے۔ اس کا اسلوب سادہ ، سلیس اور طنز مزاح کے عناصر سے پُر ہے۔ زبان میں شیرینی اور نثر میں روانی ہے۔ پیراےۂ اظہا ر میں تجسس کا رنگ موجود ہے جو قاری کو قرأت کے حصار سے نکلنے نہیں دیتا ۔زندگی کے حقائق کی سچی تصویر کشی کی جاتی ہے۔ ایک مذہبی رسالہ ہونے اور دینی و مسلم مسائل پر گفتگوکے باوجود یہ کالم ادبی عناصر سے بھرپور ہوتا ہے۔یہ کالم اپنی ادبی صفات کی وجہ سے ناقدین کی صرفِ نظر کا منتظر ہے۔ *****
Leave a Reply
1 Comment on "ڈاکٹر ابوالحیات اشرف کی کالم نگاری ’السلام علیکم‘ کے حوالے سے"
[…] […]