ترقی پسندتحریک کے اغراض ومقاصد
پروفیسر سید شفیق احمد اشرفی، خواجہ معین الدین چشتی اردو عر بی فارسی یونی ورسٹی، لکھنؤ
ترقی پسند نظریات میں سب سے زیادہ اہمیت اس چیز کو دی جاتی ہے کہ ادب محض حصول لذت کا ذریعہ نہیںہے۔ بلکہ زندگی کے مادی مسائل اور سماجی کشمکش کی ترجمانی ضروری ہے۔ چنانچہ اس کی وضاحت اس طرح کی گئی ہے کہ ادب اور مادی زندگی کو سمجھنے کی کوشش مادی زندگی ہی کی طرح ادب کو جامد اور اٹل ماننے کے بجائے ہر لمحہ متحرک، حادث اور ارتقا پذیر سمجھنا، مادی زندگی ہی کی طرح ادب میں مثبت و منفی قوتوں کے تصادم و پیکار کے جدلیاتی عمل کو پہچاننے اور اس سے شعوری طور پر عہدہ برآ ہونے کے لیے اپنی فہم بصیرت اور ادراک کو استعمال کرنا ترقی پسندی ہے۔ترقی پسندی کی اس تعریف کی تشریح سے قبل ادب سے متعلق قدیم نظریات کا جائزہ لینا مناسب ہوگا۔ اور عظیم یونانی فلسفی افلاطون نے سب سے پہلے ادب اور زندگی کے باہمی رشتے پر روشنی ڈالی تھی۔ اور حسن و قبح کے معیار کا تعین کیا تھا۔ افلاطون ایک عینی فلسفی تھا۔ اور وہ اصل ایک عالم مثال کو قرار دیتا ہے۔ اور اس کا نقطہ نظر ہے کہ تمام اشیاء کی اصل یا جوہر اس عالم حقیقی میں ہے اور دنیا اس کی نظر میں عالم سفلی ہے۔ افلاطون کا خیال تھا کہ حقیقت ایک ہے جس پر ماہ وسال کی گردش کا کوئی اثر نہیں پڑتا اور حقیقت تغیرات سے ماورا ہے حسن حقیقی ایک ہے۔ افلاطون نے فنون لطیفہ کو نقل کی نقل Imitaion of an Imitaion قرار دیا ہے۔ اور اس نے اپنی مثالی ریاست Ideal State میں شاعروں، ڈرامہ نگاروں اور دوسرے فنکاروں کو کوئی مقام نہیں دیا ہے۔ چونکہ افلاطون کا نقطہ نظر تھا کہ حقیقت صرف ایک ہے۔ اور فنکار حقیقت کی نقل کے سوا کچھ اور نہیں کرسکتے ہیں۔ اور یہ نقل بھی حقیقت سے تین درجے دور ہوتی ہے۔ اس نے اس سلسلہ میں چارپائی کی مشہور مثال دی ہے۔ اس کا خیال تھا کہ ایک چارپائی وہ جو عالم اعیان میں ہے اور ایک بڑھئی نے اس حقیقت کی نقل کی اور چارپائی بنائی۔ اب ایک شاعر اس چارپائی کا ذکر اپنی شاعری میں کرتا ہے۔ لہذا شعر میں جس چارپائی کا ذکر ہے وہ حقیقت سے تین درجہ دور ہے۔ اس طرح شاعری افلاطون کی نظر میں بے کار محض ہے اور شاعر خیر اور شر کو یکساں طور پر پیش کرکے جذبات انسانی کو متحرک اور برانگیختہ کرتا ہے۔ لہذا شاعری مخرب الاخلاق ہے اور ایک اچھے معاشرے میں اس کا وجود مناسب نہیں ہے۔
افلاطون کے شاگرد ارسطو نے افلاطون کے اس نظریہ شعر کی یکسر تکذیب کی ہے۔ اور اپنے استاد کا نام لئے بغیر اس کے دلائل کو مسترد کیا ہے۔ اور فنون لطیفہ کی اہمیت اجاگر کی ہے۔ ارسطو کی شہرہ آفاق تصنیف (Poetics) ادبی، نظری اور عملی تنقید پر دنیا کی پہلی کتاب ہے جس میں ادب کی ماہیت اور اس کی افادیت پر بطریق احسن روشنی ڈالی گئی ہے۔ ارسطو کی بحث کا محور اور مرکز ’’نقل ‘‘ ہی ہے۔ لیکن وہ افلاطون کی طرح نقل کی نقل کا قائل نہیں ہے اس کا خیال ہے کہ نقل کرنا انسانی جبلت (Human instinct) ہے۔ اور وہ جذبہ کو بالکل فطری قرار دیتا ہے۔ اس لئے اس کے نزدیک شاعری ذہن انسانی کا آزاد اور خودمختار عمل ہے۔ ارسطو افلاطون کے فلسفہ ’’نقل کی نقل‘‘ کے جواز کو چیلنج کرتے ہوئے بوطیقا میں رقم طراز ہے:۔
رزمیہ شاعری، ٹریجڈی (المیہ)، کامیڈی (طربیہ)، بھجن اور اسی طرح بانسری اور جنگ کے راگ اگر آپ بالکل عام نقطہ نظر سے دیکھئے تو یہ سب نقلیں ہیں پھر بھی یہ تین لحاظوں سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور وہ اس طرح سے کہ ان کے نقل کرنے کے ذریعہ مختلف ہیں موضوع مختلف ہیں اور طریقے مختلف ہیں۔
افلاطون اور ارسطو کے نظریات کی صدائے بازگشت آج بھی ادبی ایوانوں میں سنائی دیتی ہے۔ ان دو عظیم مفکروں کے علاوہ بعض دوسرے مفکرین اور فلسفیوں کے نظریا ت کا ادب پر براہ راست اثر پڑا ہے جس سے ادب میں بعض نئے رجحانات پیدا ہوئے جنھوں نے بعد میں باقاعدہ ایک تحریک کی شکل اختیار کرلی۔
جرمن فلسفی ہیگل نے افلاطون کے اس نقطہ نظر سے شدت کے ساتھ اختلاف کیا ہے کہ حقیقت صرف ایک ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی ہے۔ اس نے اپنے فلسفے کی بنیاد اس نقطہ نظر پر رکھی کہ دنیا کی ہر چیز لمحہ بہ لمحہ بدلتی رہتی ہے۔ اور اس کی ہر نئی صورت پچھلی شکل کی تردید یا ضد ہوتی ہے۔ اس نے کہا کہ پہلے (Thesis)پھر (Anti-thesis)پھر (Syn-thesis)منصہ شہود پر آتی ہے۔ ہیگل نے کہا کہ دنیا کی ہر چیز بدلتی ہے اور اس کی ہر نئی شکل پہلے سے زیادہ بہتر ہوتی ہے۔ اس کے خیال میں شعور مادہ سے مقدم ہے اس طرح سے ہیگل نے افلاطون کے فلسفیانہ افکار کو رد کیا مگر ہیگل کے فلسفہ کی بنیاد بھی تصوریت پر تھی۔ اس کا خیال تھا کہ دنیا میں صرف خیالات ہی حقیقت ہیں اور یہ خیالات ہی مختلف شکلوں میں ارتقا پذیر رہتے ہیں۔ ہیگل کا خیال تھا کہ تمام کائنات ایک پھیلے ہوئے دماغ کی طرح ہے۔ جو اپنے مخصو ص رنگ میں ارتقا کی لامحدود منزلیں طے کررہی ہے۔ ہیگل نے اپنے فلسفہ کی بنیاد قدیم یونانی خیالات پر رکھی تھی کہ کوئی شے ساکت نہیں ہے بلکہ ہر شے حادث اور متحرک ہے۔ ہیگل کے نظریہ کی بنیاد خیال کے تصادم پر ہے۔
ہیگل کے فلسفیانہ افکار ایک مدت تک بہت مقبول رہے اور خواہ ادب ہو یا سیاست ہر محاذ پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ اس جرمن فلسفی کے فلسفیانہ افکار میں تصوریت اور ماورایت کو بہت زیادہ اہمیت حاصل تھی۔ لہذا انیسویں صدی میں اس کے خلاف ردعمل شروع ہوا اور انیسویں صدی کے وسط میں کارل مارکس اور اینجلز نے ہیگل کے فلسفہ میں تبدیلی کرکے اس سے بظاہر ملتا جلتا نیا فلسفہ جدلیاتی مادیت Dialectical Materialismپیش کیا۔ ہیگل نے خیال پر بہت زیادہ زور دیا ہے اور خیال کے بننے بگڑنے، ٹکرانے اور ٹوٹنے اور پھر بننے کو ہیگل نے جدلیات کہا تھا لیکن اس کے شاگرد مارکس نے مادہ قرار دیا جو متحرک ہے، نمو کی قوت رکھتا ہے۔ اور ارتقا پذیر ہے مارکس نے اپنے فلسفہ کی بنیاد مادہ کے تصادم پر رکھی اور کہا کہ مادہ کی حرکت ارتقا پذیر ہے جو قانون جدلیت کے تحت اپنی ایک ہیئت کو ختم کرکے دوسری شکل کو پیداکرتی ہے۔ مارکس کا نقطہ نظر ہے کہ؎
جدلیت حرکت کے عام قوانین کے سائینس ہے جو خارجی دنیا اور انسانی فکر دونوں پر محیط ہے۔
مارکس کے اس نقطۂ نظرسے ادب کا مطالعہ کرنا ترقی پسندی ہے۔ ادب کو لمحہ بہ لمحہ بنتی بگڑتی زندگی کا عکاس سمجھنا ترقی پسندی کی اولین شرط ہے۔اس طرح ہم کہ سکتے ہیں کہ مارکس کے نظریات کی بنیاد پر ادب کی تخلیق کرنا ترقی پسندی ہے۔ ترقی پسند ادیب ادب کو سماج کی اصلاح میں ایک آلہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اور افادی نقطہ نظر کے حامی ہوتے ہیں۔
مارکس کی کتاب (Capital)نے دنیا میں ایک انقلاب برپا کردیا اور طبقاتی جدوجہد (Class Struggle)اور جدلیات مادیت(Dialectical Materialism) نے بڑی مقبولیت حاصل کی۔ ۱۹۱۷ء کے روس کے عظیم انقلاب کے بعد سرمایہ داری کا سفینہ ڈوبتا ہوا نظر آیا۔ اور صدیوں سے دبے کچلے اور مفلوک الحال عوام کے ہاتھوں میں اقتدار آیا روس کے انقلاب کا اردو ادیبوں پر بڑا گہرا اثر پڑا اور اس کے بعد ترقی پسند تحریک کا آغاز ہوا۔چنانچہ اس بنیاد پر ایک باقاعدہ ادبی تحریک کی ابتدا ہوئی جسے ’’انجمن ترقی پسند مصنفین‘‘ کے ذریعہ آگے بڑھایا گیا۔
ترقی پسند تحریک کا بنیادی مقصد یا نصب العین یہ تھا کہ ادبیات اور فنون لطیفہ کو قدامت پرستوں کی گرفت سے نجات دلا کر اور ان کو عوام کے سکھ دکھ اور جدوجہد کا ترجمان بناکر اس روشن مستقبل کی راہ دکھائے جس کے لئے انسانیت اس دور میں کوشاں ہے۔ ترقی پسند ادیبوں نے ادب کو محض جمالیاتی حظ یا وقت گذاری کے مشغلہ کے طور پر نہیں بلکہ انسانی زندگی کو زیادہ بہتر اور بامعنی بنانے کے وسیلے کے طور استعمال کرنے کی کوشش کی۔ صدیوں سے دبے کچلے ہوئے انسانوں کے دکھ و درد کو اپنا محور و مسکن بنایا۔ اور ادب کا تعلق عام زندگی سے جوڑا۔ زندگی کے بنیادی مسائل مثلاً بھوک، افلاس ، پستی، استحصال اور غلامی کو موضوع بنایا۔ اور ایسے ادیبوں کو کبھی پسند نہیں کیاجو تغیر پذیر زندگی کی حقیقتوں سے فرار کی راہ اختیار کرکے خیال اور خواب کی دنیا میں پناہ لیتے ہیں۔ اور سماجی ذمہ داریوں کے وجود سے انکار کرتے ہیں۔ ترقی پسند مصنفین کی پہلی کانفرنس میں منشی پریم چند نے ترقی پسند ادب کی غرض و غایت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا تھا:
’’ادب محض دل بہلاؤ کی چیز نہیں ہے۔ دل بہلاؤ کے سوا اس کا کچھ اور بھی مقصد ہے۔ وہ اب محض عاشق و عاشقی کے راگ نہیں الاپتا بلکہ حیات کے مسائل پر غور کرتا ہے۔ اور ان کو حل کرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جس ادب سے ہمارا صحیح ذوق بیدار نہ ہو، روحانی اور ذہنی تسکین نہ ملے، ہم میں قوت اور حرکت نہ پیدا ہو، ہمارا جذبۂ حسن نہ جاگے۔ جو ہم میں سچا ارادہ اور مشکلات پر فتح پانے کے لئے سچا استقلال نہ پیدا کرے وہ آج ہمارے لئے بیکار ہے۔ اس پر ادب کا اطلاق نہیں ہوسکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ہمیں حسن کا معیار بدلنا ہوگا۔ ابھی اس کا معیار امیرانہ اور عیش پرورانہ تھا۔ ہمارا آرٹسٹ امراء کے دامن سے وابستہ رہنا چاہتا تھا۔ انھیں کی قدردانی پر اس کی ہستی قائم تھی۔ اور انھیں کی خوشیوں اور رنجوں، حسرتوں اور تمناؤں ، چشمکوں اور رقابتوں کی تشریح و تفسیر آرٹ کا مقصد تھا۔ اس کی نگاہیں محل سراؤں اور بنگلوں کی طرف اٹھتی تھیں۔ جھوپڑے اور کھنڈر اس کے التفات کے قابل نہ تھے۔ انھیں وہ انسانیت کے دامن سے خارج سمجھتا تھا۔ اگر کبھی وہ ان کا ذکر کرتا تو مضحکہ اڑانے کے لئے۔ اس کی دہقانی وضع اور معاشرت میں ہنسنے کے لئیے اس کا شین قاف درست نہ ہونا یا محاوروں کا غلط استعمال ظرافت کا ازلی سامان تھا۔ وہ بھی انسان ہے۔ اس کا بھی دل ہے اس میں بھی آرزوئیں ہیں، یہہ آرٹسٹ کے ذہن سے بعید تھا۔‘‘ ۱؎ (ادب کی غرض وغایت پریم چند زمانہ اپریل ۱۹۳۶ء)
پریم چند نے پہلی انجمن ترقی پسند کانفرنس میں اپنے خطبۂ صدارت میں ترقی پسند تحریک کے مقاصد پر تفصیل سے روشنی ڈالی: ’’ہمارا مدعا ملک میں ایسی فضا پیدا کرنا ہے جس میں مطلوبہ ادب پیدا ہوسکے اور نشوونما پا سکے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ادب کے مرکزوں میں ہماری انجمنیں قائم ہوں اور وہاں کے ادب کے رجحانات پر باقاعدہ چرچے ہوں۔ مضامین پڑھے جائیں ، مباحثے ہوں تنقید ہوں جب ہی وہ فضا تیار ہوگی جب ہی ادب کے نشاۃ ثانیہ کا ظہور ہوگا ہم ہر ایک صوبہ میں ، ہر ایک زبان میں ایک ایسی انجمن کھولنا چاہتے ہیں تاکہ اپنا پیغام ہر ایک زبان میں پہونچائیں۔ یہ سمجھنا غلطی ہوگی کہ یہ ہماری ایجاد ہے۔ ہر زبان میں اس خیال کی تخم ریزی فطرت نے اور حالات روزگار نے پہلے ہی سے کررکھی ہے۔ جابجا اس کے انکھوے بھی نکلنے لگے ہیں اس کی آبیاری کرنا اس کے آئیڈیل کو تقویت پہونچانا ہمارا مدعا ہے‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہماری کسوٹی پر وہ ادب کھرا اترے گا جس میں تفکر ہوں۔ آزادی کا جذبہ ہو۔ حسن کا جوہر ہو، تعمیر کی روح ہو۔ زندگی کی حقیقتوں کی روشنی ہو۔ جو ہم میں حرکت ، ہنگامہ اور بے چینی پیدا کرے، سلائے نہیں کیوں کہ اب اور زیادہ سونا موت کی علامت ہوگی۔‘‘ ۱؎(ادب کی غرض و غایت ۔پریم چند زمانہ اپریل ۱۹۳۶ء )
اردو غزل کا احیا کرنے والے حسرت موہانی بھی ترقی پسند تحریک میں شامل تھے۔ اور انھوں نے ترقی پسند ادب کی تعریف ان الفاظ میں بیان کی ہے: ’’ہمارے ادب کو قومی آزادی کی تحریک کی ترجمانی کرنی چاہئے۔ اسے سامراجیوں اور ظلم کرنے والے امیروں کی مخالفت کرنا چاہئے اسے مزدوروں اور کسانوں تمام مظلوم انسانوں کی طرف داری اور حمایت کرنا چاہئے۔ اس میں عوام کے دکھ سکھ ان کی بہترین خواہشوں اور تمناؤں کا اس طرح اظہار کرنا چاہئے جس سے ان کی انقلابی قوت میں اضافہ ہواور وہ متحد اور منظم ہوکر اپنی انقلابی جدوجہد کو کامیاب بنا سکیں۔۔۔۔۔۔۔۔محض ترقی پسندی کافی نہیں، جدید ادب کو سوشلزم بلکہ کمیونزم کی تلقین کرنی چاہئے۔ اسے انقلابی ہونا چاہئے۔ اسلام اور کمیونزم میں قطعی کوئی تضاد نہیںاسلام کا نصب العین اس کا متقاضی ہے کہ ساری دنیا میں مسلمان اشتراکی نظام قائم کر نے کی کوشش کریں۔ چونکہ موجودہ دور میں زندگی کی سب سے بڑی ضرورت یہی ہے اس لئے ترقی پسند ادیبوں کو ان ہی خیالا ت کی ترویج کرنا چاہئے۔‘‘ ؎(بحوالہ روشنائی۔ سید سجاد ظہیر چوتھا باب ص۱۳۱)
نوبل انعام حاصل کرنے والے عظیم شاعر رابیندر ناتھ ٹیگور نے ’’مقاصد ‘‘ کی وضاحت اس طرح کی تھی ۔
’’ ادیب کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ ملک میں نئی زندگی کی روح پھونکے، بیداری اور جوش کے گیت گائے۔ ہر ایک انسان کو امید اور مسرت کا پیغام سنائے اور کسی کو ناامید و ناکارہ نہ ہونے دے ملک اور قوم کی بہی خواہی کو ذاتی اغراض پر ترجیح دینے کا جذبہ ہر بڑے چھوٹے میں پیدا کرنا ادیب کا فرض عین ہونا چاہئے قوم سماج اور ادب کی بہبودی کا سوگند جب تک ہر انسان نہ کھائے گا اس وقت تک دنیا کا مستقبل روشن نہیں ہوسکتا۔ اگر تم یہ کرنے کے لئے تیار ہو تو تمھیں پہلے اپنی متاع کھلے ہاتھوں لٹانی ہوگی اور پھر کہیں تم اس قابل ہوگے کہ دنیا سے کسی معاوضہ کی تمنا کرو۔ لیکن اپنے کو لٹانے میں جو لطف ہے۔ اس سے تم محروم نہ رہ جاؤ۔‘‘
اس طرح منشی پریم چند، حسرت موہانی اور رابیندر ناتھ ٹیگور کے نقطہ ہائے نظر کے مطابق ترقی پسند ادب کا مقصد معاشرتی اصلاح، بیداری اور عوام کے دکھ درد کو محورو مرکز بنانا ہے۔ ترقی پسند ادیب صرف خیالی طوطا مینا نہیں بناتا بلکہ زندگی کے ٹھوس حقائق اور مسائل پیش کرتا ہے۔ اور زندگی کو زیادہ بہتر اور بامعنی بنانے کی سعی کرتا ہے۔
Leave a Reply
Be the First to Comment!