اردو میں ترقی پسند ادبی تحریک —آغاز و ارتقاء

پروفیسر سید شفیق احمد اشرفی، خواجہ معین الدین چشتی اردو عر بی فارسی یونی ورسٹی، لکھنؤ
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیںکہ اردو میں جو دو بڑی تحریکیں شروع ہوئیں۔ اور جنھوں نے اردو زبان کی سمت و رفتار کا تعین کیا۔ ان میں علی گڑھ تحریک کے بعد دوسری اہم تحریک ترقی پسند ادبی تحریک ہی ہے۔ اس تحریک کے زیر اثر ادب میں نہایت اہم اور دوررس انقلابات رونما ہوئے۔ بقول ڈاکٹر خلیل الرحمان اعظمی:۔
’’یہ پہلی ادبی تحریک تھی جس نے نہ صرف یہ کہ پورے ملک کے ادیبوں کو ایک نظریاتی رشتہ میں منسلک کرنے کی کوشش کی بلکہ ہندوستان کی دوسری تمام زبانوں میں بھی اتحاد واشتراک کا ایک وسیلہ بن گئی۔‘‘(اردو ادب میں ترقی پسند ادبی تحریک)
علی گڑھ تحریک جہاں تک ہم دیکھتے ہیںبنیادی طور پر تبلیغی انداز میں شروع ہوئی تھی اور اس کی اساس کافی حد تک سیاسی تھی۔ اس تحریک کا رشتہ تحریک آزادی سے بھی آگے چل کر استوار ہوا۔ لیکن ترقی پسند ادبی تحریک شروع شروع میں خالص ادبی اور تہذیبی انداز لئے ہوئے تھی۔ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ اس تحریک کے تحت بعد میں بہت بڑی تعداد میں تبلیغی ادب کی اشاعت عمل میں آئی۔ لیکن علی گڑھ تحریک کے مقابلے میں ترقی پسند ادبی تحریک میں تبلیغی پہلو اس قدر نمایاں نہیں تھا۔ یہ بات الگ ہے کہ بعد کے مصنفین نے اس پہلو کو اس قدر نمایاں کردیا کہ سوا ئے تبلیغ کے اور کچھ رہ ہی نہیں گیا ۔
’’ترقی پسند ادبی تحریک ‘‘ جیسا کہ معلوم ہے اپنے وقت کی پیداوار ہے اور اس پر اپنے معاشرے کے مسائل کی گہری چھاپ ہے۔ اس کی کیا ضرورت تھی اور اس تحریک کو ہندوستان میں پنپنے کا موقع کیوں ملا؟ ان مسائل پر نظر ڈالتے ہوئے ترقی پسند تحریک کے سب سے اہم رہنما سجاد ظہیر نے یوں روشنی ڈالی ہے۔
’’اگر کسی قوم میں یا قوم کے ایک بڑے حصے میں بھوک ، غریبی ،افلاس یا جہالت پھیلی ہو یا اس قوم کو کسی دوسری قوم کے کچھ لوگوں نے غلام بنا لیا ہو، اگر وہ قوم جاہلیت ، لوٹ اور غارت گری کا شکار ہو، یا بڑے پیمانے پر ہلاکت کا کوئی خطرہ درپیش ہو تو ظاہر ہے اس قوم میں ادیبوں پر بھی ان کیفیات کا اثر پڑے گا اور ان کے فن میں بھی اس کی جھلک ہوگی۔‘‘(ترقی پسند تحریک کے معترضین۔سجاد ظہیر)
گویا سجاد ظہیر کی زبان میں ترقی پسند ادبی تحریک اپنے معاشرے کے مسائل کی عکاسی ہے ۔ اس کی ضرورت اس سے محسوس ہوئی ہے کہ قوم غلامی کا جبر برداشت کر رہی تھی۔ اور استحصالی قومیں قوم کی عام جہالت کا پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے لوٹ رہی تھیں ادیب چونکہ معاشرے کا انتہائی حساس فرد ہوتا ہے۔ اس سے وہ ان مسائل سے آنکھیں بند کرکے جی ہی نہیں سکتا۔ ان کا عکس اس کے ادب میں واضح طور پر دکھائی دے گا چنانچہ اس تحریک کا جنم ہندوستان میں اس لیے ہوا کہ انگریزوں نے اس ملک کو اپنے استحصال کا شکار بنا کر بھوک، افلاس اور غریبی کو اس حد تک پہنچا دیا تھا۔ جہاں پہنچ کر معاشرہ میں فطری طورپر ردِ عمل کاجذبہ ضرور بیدارہوتا ہے۔ اس طرح سے سجاد ظہیر ظاہر یہ کرنا چاہتے ہیں کہ ترقی پسند ادبی تحریک معاشرے کے فطری تقاضوں کی پیداوار ہے۔ اس کے لئے کوئی خاص کوشش نہیں کرنا پڑی بلکہ یہ فطری طورپر ہوا۔

پسِ منظر
کوئی ادبی تحریک ایک دم سے بلندی تک نہیں پہونچ جاتی بلکہ اس میں بہت کچھ ایسے عوامل ہوتے ہیں جو اس کی نشوونما کا باعث بنتے ہیں۔ ترقی پسند ادبی تحریک بھی اردو میں یا ہندوستان کی دوسری زبانوں میں ایکدم سے نہیں پیدا ہوئی۔ ا س کا تعلق تحریک آزادی سے بھی بہت گہرا ئی سے جڑا ہوا ہے۔ یہ ایک ایسے دور میں شروع ہوئی جب تحریک آزادی اپنے فیصلہ کن مرحلے میں پہنچ چکی تھی۔ گاندھی جی نے ’’کرویامرو‘‘کا نعرہ دے دیا تھا۔ بھارت چھوڑو آندولن اور ترک موالات کی تحریک کے ذریعہ قوم میں زبردست بیداری دوڑ چکی تھی، دوسری طرف پہلی جنگ عظیم کی ہولناکیوں اور جلیان والا باغ کے عظیم سانحے نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ گاندھی جی کے عدم تشدد کے نظریے کے ساتھ ساتھ بنگال کے دہشت پسندوں اور انقلابیوں کی پسپائی نے بھی پوری قوم کو بے اندازہ متاثر کیا تھا۔ اور ایسے میں انڈین نیشنل کانگریس میں سبھاش چندر بوس کی سرکردگی میں کانگریس میں بائیں بازو کو تقویت ملی، پنڈت جواہرلال نہرو خود اشتراکی نظریات سے کافی متاثر نظرآتے تھے۔ اور ترقی پسند تحریک کی حمایت کرنا ضروری سمجھتے تھے۔
اردو ادب ان تبدیلیوں سے بچ نہیں سکتا تھا۔ شاعری میں پنڈت برج نرائن چکبست اور ڈاکٹر اقبال نے ان نئی تبدیلیوں کو زبان عطا کی تو افسانہ اور ناول میں پریم چند نے ان نظریا ت کے فروغ میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیا۔ صحافت میں مولانا ابوالکلام آزاد کا ’’الہلال‘‘ مولانا محمد علی کا ’’ہمدرد‘‘، ظفر علی خاں کا ’’زمیندار‘‘ ابھرتے ہوئے جذبوں کی ترجمانی کررہا تھا۔ ان اثرات سے متاثر ہوکر جوشؔ، ساغرؔ، حفیظؔ اور احسان دانشؔ وغیرہ نے شعری دنیا میں نئے نظریا ت کا اظہار کیا۔ نثر میں نیاز فتح پوری اور قاضی عبدالغفار وغیرہ نے ان نئے نظریات کو فروغ دینے کی کوشش کی۔
آخر ۱۹۳۲ء؁ آتے آتے ’’انگارے‘‘ کی اشاعت عمل میں آئی اور اس نے ان نئے اور انقلابی رجحانات کو سب سے زیادہ موثر انداز میں پیش کیا۔ کہنے کو تو ’’انگارے‘‘ مختصر افسانوں کا ایک مجموعہ تھا جس میں سجاد ظہیر، احمد علی، رشید جہاں اور محمود الظفر کے چند افسانے شامل تھے لیکن ان افسانوں میں سرکشی اور احتجاج کاجو انداز نمایاں ہوا اس نے آگے چل کر ادبی تحریک کی بنیاد کے لئے سامان فراہم کیا۔
تحریک کا آغاز
ترقی پسند ادبی تحریک کا آغاز باضابطہ طور پر ہندوستان سے بہت دور لندن میں ہوا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب دنیا پر دوسری جنگ عظیم کے بادل منڈلا رہے تھے۔ او رہٹلر کا فاشزم سارے یورپ کو کچلنے کے ارادے سے بھیانک روپ اختیار کررہا تھا۔ اُن دنوں سجاد ظہیر (جنھیں اس تحریک کا بانی رہنما قرار دیا جاسکتا ہے) وکالت کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے لندن میں قیام پذیر تھے۔ اُن کے کمرہ میں چند پڑھے لکھے ہندوستانی طالب علم یکجا ہوکر دنیا کے سیاسی نقشے پر غور کرتے، استحصالی قوتوں اور ان کے بڑھتے ہوئے اثرات کا بغور جائزہ لیتے اور یہ سوچتے کہ ان حالات میں ادیبوں کا رویہ کیا ہونا چاہیے؟
جب سجاد ظہیر کی ملاقات والف فاکس اور لوئی آراگواں جیسی ممتاز انقلابی شخصیتوں سے ہوئی اور ان کے انقلابی نظریات کا سجاد ظہیر کو علم ہوا تو وہ ان سے بے حد متاثر ہوئے اور انھوں نے یہ طے کرلیا کہ ہندوستانی ادیبوں کو بھی ان حالات میں محض خاموش تماشائی بن کر نہیں رہنا ہے ۔ کیونکہ بہ حیثیت مجموعی ہم دنیا کے حالات، خاص طور پر نازی فاشزم کے بڑھتے ہوئے اثرات کے محض خاموش تماشائی نہیں رہ سکتے۔ بلکہ ان حالات کے خلاف آواز احتجاج بلند کرنا ہمارا بھی خاص مقصد ہونا چاہئیے۔
چنانچہ ان ہندوستانی طالب علموں نے مل کر سب سے پہلے سجاد ظہیر کے کمرہ میں ایک جلسہ کرکے ادیبوں کی ایک انجمن کی بنیاد ڈالی ۔ پہلے پہل اس انجمن کے اراکین میں سجاد ظہیر کے علاوہ ملک راج آنند، ڈاکٹر محمد دین تاثیر، جیوتی گھوش، پرمود سین گپتا شامل تھے۔ ان لوگوں نے مل کر لندن میں ایک مشہور ریسٹوراں میں ایک نام Indian Progressive Writers Association کی بنیاد ڈالی جسے اردو میں ترقی پسند ادیبوں کی انجمن کے نام سے یاد کیا گیا۔ اس انجمن کے پہلے صدر ملک راج آنند مقرر کئے گئے۔
اس طرح ترقی پسند مصنفین کی انجمن کا قیام عمل میں آگیا۔ ان ہندوستانی نوجوانوں کے سامنے کوئی واضح لائحہ عمل نہیں تھا۔ لیکن اس زمانے میں (جولائی ۱۹۳۵ء؁) پیرس میں تمام ادیبوں کی ایک کانفرنس ہوئی جسمیں مکسم گورکی، رومان رولاں ، ٹامس مان اور آندرے مالرو جیسی ممتاز ہستیاں شریک تھیں۔ اس کانفرنس میں اتفاق رائے سے پایا گیا کہ ادیبوں کو اپنی ذات کے نہاں خانوں سے نکل کر اجتماعی مفادات کے تحفظ کے لئے رجعت پرست قوتوں کا مقابلہ کرنا چاہئے۔ اس کانفرنس نے نوجوان ہندوستانی ادیبوں کو بے حد متاثر کیا۔ اور ان نوجوانوں نے اپنی تحریک کا پہلا مینی فیسٹو جاری کیا۔ جس پر سجاد ظہیر اور ملک راج آنند کے علاوہ ڈاکٹر تاثیر ، ڈاکٹر جیوتی گھوش، ڈاکٹر کے۔این لاٹ اور ڈاکٹر ایس سنہا کے بھی دستخط تھے۔ اس مینی فیسٹو کے ذریعہ ان ادیبوں نے یہ عہد کیا تھا کہ ہندوستانی سماج میں جو دوررس تبدیلیاں واقع ہورہی تھیں انھیں ملک کی ترقی و تعمیر کے کاموں میں لگانے کے لیے ادیبوں کو بھی موثر کردار ادا کرنا ہے۔ اس مینی فیسٹو کے ذریعہ ان ادیبوں نے ترقی پسند ادبی تحریک کے حسب ذیل مقاصد مقرر کئے:
(۱) تمام ہندوستانی زبانوں کے ادیبوں میں انجمن قائم کی جائے اور ان میں باہمی ربط و ضبط پر زور دیا جائے
(۲) ایسے ادیبوں کو یکجا کرنا جو ان کے نظریات سے اتفاق کریں۔
(۳) ایسے ادب کی تخلیق کرنا جو صحت مند نظریا ت پر مبنی ہو اور جس کے ذریعہ ملک کو ترقی کی راہ پر آگے لے جایا جا سکے۔
(۴) ہندوستانی کو قومی زبان اور رومن رسم الخط کو قومی رسم الخط تسلیم کرنا۔
(۵) فکر ونظر اور اظہار خیال کی آزادی کے لئے جدوجہد کرنا۔
(۶) ادیبوں کے مفادات کا تحفظ کرنا۔
یہ مینی فیسٹو جب ہندوستان پہنچا تو جس ادیب نے اس کا سب سے پہلے کھلے دل سے استقبال کیا وہ اردو کے ممتاز افسانہ نگار منشی پریم چند تھے۔ پریم چند نے اس مینی فیسٹو کو اپنے رسالے ’’ہنس‘‘ میں شائع ہی نہیں کیا بلکہ اس کی تائید میں ایک اداریہ بھی سپرد قلم کیا۔

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.