اقبال اور فیض اتحاد و افتراق کے چند زاویئے
پروفیسر سید شفیق احمد اشرفی، خواجہ معین الدین چشتی اردو عر بی فارسی یونی ورسٹی، لکھنؤ
اردو شاعری کی تاریخ میں جن شعرا کے ساتھ عظمت کا تصور وابستہ ہے ان کا آغاز میر تقی میر سے ہوتا ہے اور اختتام غالب پر۔ غالب کے بارے میں ارباب تنقید کا اجتماع ہے کہ وہ ہمارے آخری بڑے کلاسیکی شاعر ہیں اور پہلے بڑے جدید شاعر۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اس پہلے جملے میں عظمت کے پہلے تصور کو ۱۹/ویں صدی کے نصف اول پر ہی اقبال کو نظر انداز کر دیا گیا۔تو اقبال بلا شبہ عظم شاعر ہیں لیکن ان سے قبل کے تمام عظیم شعراء کے یہاں غالب رنگ غزل کا ہے جب کہ اقبال کی عظمت میں ایک اور صنف سخن جو بیسویں صدی اور ما بعد کی خاصی پسندیدہ با وقار اورعمق کی حامل صنف قرار پائی یعنی نظم بھی شامل ہے ۔اس بات کو یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اگر ہم غزل کے حوالے سے بات کریں تو کہہ سکتے ہیں کہ جس شاعر نے کلاسیکی عہد کو جدید عہد سے جوڑنے کا کام کیا وہ بلا شبہ غالب ہیں۔لیکن اگر ہم غزل کے ساتھ نظم کو بھی معرض بحث میں لائیںتو ہمیں کہنا پڑے گا کہ جدید زمانے کے شعرا کو جس شاعر نے غزل کے ساتھ نظم کی روایت کو نیا رنگ دیا اور اسے آگے بڑھانے کا بنیادی فریضہ انجام دیا وہ اقبال ہیں۔اقبال کی شاعری جس عہد میں ہمارے ادبی معاشرے کے مرکز میں جلوہ افروز ہوئی وہ عہد کے اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے۔اس عہد میںسیاسی، سماجی اور ادبی صورت حال جس طرح سامنے آتی ہے اس کی تفصیل میں جانے کا یہاں موقع نہیں۔البتہ اتنا اشارہ کر دینا ضروری ہے کہ اس وقت دنیا جن تیز رفتار تبدیلیوں سے دو چار ہورہی تھی اور جس کے نتیجے میں فکر و اظہار کے نئے نئے اسالیب صورت پذیر ہورہے تھے اس کے پیش نظر اگر ہم دیکھیں تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ان تبدیلیوں کو اقبال نے سب سے زیادہ موثر انداز میں فکری اور فنی دونوں سطحوں پر اپنی شاعری کا حصہ بنایا اور صرٖ ف حصہ ہی نہیں بنایا بلکہ انھوں نے ایسے نئے راستے تلاش کیے جو آنے والے زمانے میں شاعروں کے لیے حد درجہ معاون ثابت ہوئے۔ یہی وہ زمانہ ہے جب با لخصوص حالی کے خیالات کے زیر اثر اس بات پر شدو مد کے ساتھ اصرار کیا جانے لگا کہ ادب و شعر محض فنی اظہار کا نام نہیں ہے بلکہ اس کے ذریعہ دنیا یا معاشرے کی تصویر بھی ہمارے سامنے آنی چاہیے۔ اس تصور کو بیسویں صدی کی ابتدائی دہائیوں میں اور تقسیم ہند کے زمانے میں ترقی پسند مصنفین نے نہایت زور و شور سے پھیلایا۔لیکن ان کی شدت پسندی نے بحیثیت مجموعی ادب کو شاید اتنا فائدہ نہیں پہنچایا جس کی ہمیں ضرورت تھی۔ البتہ ترقی پسند حلقے میں بھی کچھ نام ایسے ضرور ہیں جنھوں نے شعر وادب کی اصل روح کا لحاظ رکھتے ہوئے نئے خیالات اور تصورات سے اردو شاعری کے دامن کو وسیع کیا ۔ اس بات کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ جن نئے راستوں کا اقبال نے سراغ لگایا تھا ان راستوں پر ان جدید عہد کے شعرا نے قدم بڑھایا انھیں میں ایک اہم نام فیض کا ہے۔ فیض نے نہ صرف اقبال کے ذریعے کیے گئے راستوں پر اپنے نشانات امتیاز قائم کیے گئے بلکہ اپنا رشتہ اسی روایت سے جدید شعرا میں سب سے زیادہ مستحکم طریقے سے قائم کیا جو عظیم کلاسیکی شعرا کی روایت تھی۔ اور لطف کی بات یہ ہے کہ فیض صاحب نے اپنی نظموں میں بھی خود بہت زیادہ بلند آہنگ vocalاورloudنہیں جسے بالواسطہ طور پر کلاسیکی شعرا اور براہ راست اقبال کا فیضان نظر کہا جاتا ہے۔حالی کے اثر سے جس طرح شاعری کو محض فنی اظہار سے آگے معاشرے کی تصویر ،مسائل کے تئیں رد عمل، حالات و حوادث کے بیان وغیرہ سے عبارت کرنے کا چلن پڑا۔ اس کا اظہار ہمیں اقبال کی شاعری میں بھی نظر آتا ہے۔مثلاََمری نوائے پریشاں کو شاعری نہ سمجھکہ میں ہوں محرم راز درون مے خانہشاعر مشرق کا محرم راز دون مے خانہ ہونابسر و چشم تسلیم لیکن بقول شاعر ’’ ماورائے سخن بھی ہے اک بات‘‘اور وہ بات یہ ہے کہ اگر ان کی نوائے پریشاںواقعی محض نوائے پریشاں ہوتی تو آج اقبال عظمت کے اس بام پر نہ ہوتے۔ یہ سچ ہے کہ ان کے یہاں روح عصر بولتی ہوئی نظر آتی ہے ۔ لیکن اس کا لہجہ با تمکین ،اس کا آہنگ باوقار اور اس کی گفتگو ایک خاص بلندی سے ہوتی ہے اور یہ وہی چیزیں ہیں جنھیں محاسن شعر اور فن شاعری کے رمزشناسوں نے اعلیٰ شاعری کی بنیادی خصوصیات سے تعبیر کیا ہے اور اقبال کے یہاں یہ خصوصیات اور بیان کو شاعری بنانے والی دوسری تمام خصوصیات اپنے تمام و کمال کے ساتھ پائی جاتی ہیں۔ہم پرورش لوح قلم کرتے رہیں گےجو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گےتو ان کے ذہن میں ’’ پرورش لوح و قلم‘‘کے ایک واضح معنی ایک بہت بسیط مکمل تصور لازماََ موجود ہے۔ اور جو دل پہ گزرتی ہے اسے رقم کرنے کے سلسلے میں حزم و احتیاط کا دامن وہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ واردات کو تخلیقی تجربہ بنا کر اور اسے تراش خراش کر خاصے تکلف کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔عرض کرنے کا مدعا یہ کہ جن خطوط پر (عصر اور روح عصر کے حوالے سے بالخصوص)اقبال نے اپنی شاعری کی عمارت قائم کی اور مجھے یہ کہنے میں قطعی حجاب نہیں کہ اسے ہر حال میں خالص شاعری کے ادا شناسوں کے ذوق کے مطابق بھی عمداََ رکھا۔انھیں خطوط پر کچھ اسی طرح سے فیض نے بھی اپنی شاعری کی عمارت کی بنیاد رکھی۔ اپنے اس معروضے کی مثال کے طور پر ہم فیض کی اس نظم کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہیں گے۔ جو انھوں نے اقبال کو خراج عقیدت کے طور پر لکھی ہے۔ملاحظہ ہو اس نظم کا اقتباس ۔آیا ہمارے دیش میں اک خوش نوا فقیرتھی چند ہی نگاہیں جو اس تک پہنچ سکیںپر اس کا گیت سب کے دلوں میں اتر گیااس گیت کے تمام محاسن ہیں لازوالاس کا وفور،اس کا خروش،اس کا سوزو سازیہ گیت مثل شعلہ جوالہ تند وتیزاس کی لپک سے باد فنا کا جگر گداز اس کا وفور،اس کا خروش،اس کا سوزو سازجیسے چراغ وحشت ِ صرصر سے بے خطریا شمع بزم صبح کی آمد سے بے خطران اشعار کو محض خراج عقیدت کے طور پر نہیں بلکہ فکر اقبال سے واقفیت رکھنے والے اسی قبیلے کے ایک دوسرے فرد کے مثبت رد عمل کے طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ فیض نے صرف برائے شعر گفتن اقبال کے گیت کو سب کے دلوں میں مقیم اور اس کے تمام محاسن کو لازوال نہیں کیا بلکہ اقبال کے موقع بہ موقع شعری اظہارات (جو ہمارے موضوع کی مناسب سے عہد اقبال با الفاظ دگر بیسویں صدی کے نصف اول تک محدود ہیں)کی توسیع اپنے عہد کے تناظر میں کرکے اقبال کے تعلق سے اپنے خیالات و جذبات کا عملی اظہار بھی کیا۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں:رلاتا ہے ترا نظارہ اے ہندوستاں مجھ کوکہ عبرت خیز ہے تیرا فسانہ سب فسانوں میںدیا رونا مجھے ایسا کہ سب کچھ دے گیا گویالکھا کلک ازل نے مجھ کو تیرے نوحہ خوانوں میںیہ خاموشی کہاں تک لذتِ فریاد پیدا کرزمیں پر تو ہو،اور تیری صدا ہو آسمانوں میں(تصویردرد)اقبال
اب بھی خزاں کا راج ہے لیکن کہیں کہیںگوشے رہ چمن میں غزل خواں ہوئے تو ہیںٹھہری ہوئی ہے شب کی سیاہی وہیں مگرکچھ کچھ سحر کے رنگ پر افشاں ہوئے تو ہیںہاں کج کرو کلاہ کہ سب کچھ لٹا کے ہماب بے نیاز گردش دوراں ہوئے تو ہیں (اگست۵۲،فیض)ان دونوں اقتباسات میں مضمون اور طرز فکر اور کسی حد تک اظہاری صورتوں کی مطابقت ظاہر ہے۔ بعد زمانی ضرور ہے لیکن دونوں شعرا کو اپنے اپنے زمانوں میں جن حالات کا سامنا ہے ان کی ایک تصویر نظروں کے سامنے آجاتی ہے ۔ ارباب نظر واقف ہیںکہ اقبال کی نظم تصویر درد بیسویںصدی کے اوائل کی ہے۔ جب کہ فیض کی اس نظم کا عنوان ہی اگست ۵۲ ء ہے۔ یعنی آزادی کے بعد کی نظم ہے۔ اقبال کے اقتباس کا بطور خاص آخری شعر یاد کیجیے ۔یہ خاموشی کہاںتک؟لذت فریاد پیدا کرزمیں پر تو ہوں اور تیری صداہو آسمانوں میںاور اب فیض صاحب کے اقتباس کا آخری شعر پڑھئے۔ہاں کج کرو کلاہ کہ سب کچھ لٹا کے ہماب بے نیاز گردش دوراں ہوئے تو ہیںزمیں پر دی گئی صدا کی گونج آسمانوں میں کرنے کی جو دعوت اقبال دیتے نظر آتے ہیں اس کا سب کچھ لٹا کر بھی کلاہ کج کرنے کے فیض صاحب کے اصرار کے درمیان رشتہ فنی اور تخیلاتی سطح پر نظر آیا ہے۔ اقبال کے شعر میں رجائیت اگر براہ راست صورت میں سامنے آتی ہے تو فیض کے یہا ں یہ پہلو رجائی ہوتے ہوئے بھی پوری طرح واضح نہیں کہا جاسکتا۔ اس فرق کو بھی ہمیں زمانی فاصلے کو سامنے رکھ کر دیکھنا چاہئے۔ اقبال جس زمانے میں یہ باتیں کہہ رہے ہیں اس کا تقاضہ یہ تھا کہ افراد کو امید و رجا کی تلقین کی جائے۔ جب کہ آزادی کے بعد کی صورت حال میں امید کی اس روشنی کو قدر معدوم کر دیا۔ اس کی ایک اور صورت ہمیں ان دونوں شعرا کی ہم عنوان نظموں میں بہت واضح انداز میں نظر آئی ہے۔جو آغاز میں پیش کیے گئے خیالات کو استحکام بخشتی ہے۔ملاحظہ ہوں۔تنہائی شب میں حزیں کیا؟انجم نہیں تیرے ہم نشیں کیا؟یہ رفعت آسمان خاموشخوابیدہ زمین،جہان خاموشیہ چاند، یہ دشت ودر،یہ کہسارفطرت ہے تمام نسترن زارموتی خوش رنگ پیارے پیارےیعنی ترے آنسوؤں کے تارےکس شے کی تجھے ہوش ہے اے دلقدرت تری ہم نفس ہے اے دل(تنہائی)اقبال
پھر کوئی آیا دل زار، نہیں کوئی نہیںراہرا ہوگا، کہیں اور چلا جائے گاڈھل چکی رات ، بکھرنے لگا تاروں کا غبارلڑکھڑانے لگے ایوانوں میں خوابیدہ چراغساگئی راستہ تک تک کے ہر اک راہگزاراجنبی خاک میں دھندلا دیے قدموں کے سراغگل کرو شمعیں بڑھادو مے و مینا و ایاغاپنے بے خواب کواڑوں مقفل کرلواب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا(تنہائی)فیضملاحظہ کریں نظم’’ تنہائی ‘‘ میں اقبال نے جہاں اپنی بات ختم کی ہے فیض نے وہیں سے اپنی بات شروع کی ہے عموماََ ایسا جملہ کہنے کا مطلب یہ ہوتا کہ ثانی الذکر اول الذکر کے مقابلے میں ہر لحاظ سے بڑا ہے۔ ہمارا مقصد ہر گز ایسا نہیں ہے اور اسے کسی ذہن میں اس خدشے کو سر نہیں ابھارنا چاہیے۔ ہم تو صرف دونوں ہم عنوان نظموں کے درمیان مطابقتوں کی نشاندہی ایک طالب علم کی حیثیت سے کرنا چاہتے ہیں۔ سب سے پہلی بات یہ کہ دونوں نظموں کا لینڈ اسکیپ ایک ہے یعنی تنہائی شب۔ اقبال کے یہاں آخیر تک آتے آتے شاعر اپنے دل سے مخاطب ہوکر اس کی توجہ امید کے سب سے بڑے مرکز کی جانب مبذول کر دیتا ہے ۔ جب کی فیض یاس و نا امیدی کی عجیب وغریب منزل پر کھڑے ہوکر دل سے گفتگو کرتے ہیں۔اقبال کی اس رجائیت کے پس پشت ان کے زمانے کے حالات ہیں جب کہ فیض کی نظم کی کیفیت ان کے عہد کی سوز وسا ز اوردرد و داغ سے عبارت ہے۔اوپر کی گفتگو سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ اقبال اور فیض کے سلسلے میںمطابقتوں کے کئی پہلو تلاش کیے جاسکتے ہیں۔ جن میں سے چند کی طرف اشارے کیے گئے ۔ مطابقت کے ان پہلوؤ ں کو سامنے رکھ کر اور دونوںشعرا کے فکر واظہار کی صورتوں کو الگ الگ انفرادی صورت میں دیکھنے پر ہم کہہ سکتے ہیںکہ اقبال اور فیض کے تخلیقی سرچشمے اگر چہ پوری طرح ایک نہیں ہیں۔ لیکن دونوں کا تعلق فکری اعتبار سے ان تصورات سے بھی ہے جو بیسویں صدی کے ابتدائی زمانے کے حاوی تصورات تھے۔ لہٰذا ان کے طرز فکر اور انسان اور دنیا کے بارے میںان کے رویے میں ایک حد تک مماثلت ضرور دیکھی جاسکتی ہے۔اقبال اور فیض کے یہاں مطابقت اور مماثلت کے ان مذکورہ پہلوؤ ں کی نشاندہی کرتے ہوئے ہمیں یہ بات ضرور پیش نظر رکھنی چاہیے کہ اس سے دونوں شاعروں کا پوری طرح یکساں ہونا یا ان کے فکر وفن کی دنیا کا ایک ہونا ثابت نہیںہوتا ۔ جہاں اقبال کا رشتہ جدیدزمانے سے قائم کرتے ہوئے ہم ان کے مخصوص نظام فکر کو مرکزی حیثیت دیتے ہیں۔اور جس کا رشتہ اسلامی افکار و تصورات اور انسان و کائنات ، خدااور تقدیر وغیرہ سے جوڑتے ہیں ۔ وہیں فیض کی شاعری کو سامنے رکھتے ہوئے اس نظریہ حیات کو ضرور سامنے رکھنا چاہیے جسے اشتراکی تصور سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ہر بڑا اور اہم شاعر اپنے عہد کے غالب رجحان سے پوری طرح سے چشم پوشی نہیں کرتا بلکہ اس رجحان کو اپنی نظر سے دیکھتا ہے اور اس کے بارے میں نقطہ نظر پیش کرتا ہے۔چنانچہ اقبال کی شاعری میں جہاں ہمیں ترقی پسند فکر کے عناصر نظر آتے ہیں ۔ انھیں ہم کو اس زاویے سے دیکھنا چاہیے۔اقبال کے بعد یہ ترقی پسند فکر دراصل فیض کی شاعری میں ہی پوری قوت سے ظہور پذیر ہوئی ہے اور یہی بات فیض اور اقبال کے حوالے سے پیش کی گئی اس تحریر کا جواز ہے۔
Leave a Reply
Be the First to Comment!