امانت لکھوی کی ڈرامہ نگاری:’’ اندر سبھا‘‘ کی روشنی میں
پروفیسر سید شفیق احمد اشرفی،
خواجہ معین الدین چشتی اردو عر بی فارسی یونی ورسٹی، لکھنؤ
سید آغا حسن امانت لکھنوی کی ولادت ۱۲۳۱ھ بمطابق۱۸۱۶ء کو لکھنؤ اترپردیش میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم روایت کے مطابق وہیں حاصل کیا۔ ۱۲۵۱ھ میں بعارضہ فالج قوت گویائی کھو بیٹھے۔تقریباََ دس سال تک یہ عارضہ لا حق رہا۔ قوت گویائی کے مفقود ہونے کے بعد قلم سے زبان کا کام لینے لگے ۔ امانت نے اپنی اس محرومی کا ذکر کئی اشعار میں بھی کیا ہے۔ بطور نمونہ ایک شعر ملاحظہ ہو:
دم بند ہے خموشی سے اس نیم جان کا
مشکل کشا ہو کھول دو عقدہ زبان کا
دوا و دعا کے بعد قوت گویائی لوٹنے کے بعد بھی فالج کا اثر بشکل لکنت باقی رہا۔ مجبوراََگوشہ نشینی اختیار کیا، کہیں آنے جانے سے احتراز کرتے۔ اس کا ذکر اندر سبھا کے دیباچہ میں ملتا ہے:
’’وضع کے خیال سے کہیں جاتا تھا نہ آتا تھا، زبان کی وابستگی سے گھر میں بیٹھے بیٹھے جی گھبراتا تھا۔‘‘
امانت نے پندرہ سال کی عمر سے ہی شعر کہنا شروع کر دیا تھا۔ ان کی شاعری کی ابتدا نوحے اور سلام سے ہوئی۔ پھر غزل میں بھی طبع آزمائی کیا۔ سفر عراق سے واپسی کے بعد مرثیہ گوئی سے رغبت ہوگئی تھی۔ اس عہد کے نامور مرثیہ گو ’’ میاں دلگیر‘‘کی شاگردی اختیار کی۔ استاد محترم نے ہی ان کا تخلص ’’امانت‘‘ تجویز کیا۔
امانت کے کلام میں مرثیے کی تعدادشاعری کی دوسری اصناف کے مقابلے زیادہ ہے۔ مرثیہ کے بعد غزل کا نمبر آتا ہے۔ان کے دیوانوں میں طولانی غزلوں کی تعداد کثیر کے علاوہ ایک عشقیہ خط مثنوی کی ہیئت میں ہے۔ کئی مخمس ،چندمسدس، ایک واسوخت، چند رباعیاں اور قطعات تاریخ بھی شامل ہیں۔ امانت نے ایک اور واسوخت تین سو بندوں کا تصنیف کیا ہے۔ امانت کے دیوان کا نام ’’ خزائن الفصاحت‘‘ ہے ۔ اور ان کا شعری مجموعہ ’’گلدستۂ امانت‘‘ کے نام سے منظر عام پر آیا۔ ۱۲۶۳ھ میں ایک مجلس میں امانت کے واسوخت کی بلند خوانی ہوئی جس سے امانت کی شہرت گھر گھر میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ پھر ۱۸۰۲ء میں انھوں نے ’’ اندر سبھا‘‘ تصنیف کی جس سے آج بھی ان کا نام زندہ و تابندہ ہے۔ نثری کارناموں میں مقدمہ’’شرح اندر سبھا ‘‘ کا ہی پتہ چلتا ہے۔ امانت لکھنوی کا ۱۸۰۸ء بمطابق ۱۲۷۵ھ میں لکھنؤ میں ہی انتقال ہوگیا۔اس وقت ان کی عمر ۴۴ سال تھی۔
اندر سبھا کا تعارف:
لفظ ’’ اندر سبھا‘‘ ہندوستان میں ایک بڑی مدت تک کچھ خاص معنوں میں استعمال ہوتا آرہا ہے۔ اس لفظ کو سب سے پہلے ڈراما کے لیے سید آغا حسن امانت لکھنوی نے استعمال کیا۔امانت کے ڈرامے ’’ اندر سبھا ‘‘ کا شمار اردو کے ابتدائی قابل ذکر ڈراموں میں ہوتا ہے۔ امانت نے یہ ڈراما۱۸۵۲ ء میں لکھااور ۱۸۵۴ء کو پہلی مرتبہ اسٹیج کیاگیا۔ اس ڈرامے کی کہانی زوال آمادہ تہذیبی روایات کی آئینہ دار ہے۔ اس قصہ کا تانا بانادیومالا ئی کردار، مثنوی گلزار نسیم اور سحرالبیان کے قصے سے تیار کیا گیا ہے۔اس میں غزل اور مثنوی کے ساتھ ٹھمری، بسنت، دوہے اور ہوری کو شامل کر کے ہر طبقے کی نمائندگی کیا ہے۔
امانت نے ’’ اندر سبھا‘‘ کی پیش کش میں بھی اس عہد کے عوامی روایتوں کا مکمل لحاظ رکھا ۔ چنانچہ برج اور اودھ میں بھانڈوںاور بھگت بازو ، بہروپیوں اوررام لیلا اور کرشن لیلا کے ذریعے روایات کو باقی رکھا۔ ساتھ ہی انھیں شہری روایتوں کو اپنایا جو مثنوی خوانی ، داستان گوئی کی نشستوںاور مجرے کی محفلوں سے عوامی تفریحی زندگی کا حصہ بنی ہوئی تھیں۔یہ ایک مکمل منظوم ڈراماہے جس کے مکالمے وغیرہ بھی منظوم ہیں۔
’’نور الٰہی ،و محمد صاحبان اور امتیاز علی تاج جیسے مستند ادیبوں کی غلط فہمیوںکی بنا پر ’’ اندرسبھا‘‘ سے متعلق مندرجہ ذیل باتیں مشہور ہوگئیں۔
۱۔اوپیرا کی نقل ہے یا اس کی طرز پر لکھی گئی ہے۔
۲۔یہ سب سے پہلے قیصر باغ میں کھیلی گئی۔
۳۔ واجد علی شاہ کے دربار میں کوئی فرانسیسی مصاحب تھا جس سے اوپیرا کی تعریف سن کر واجد علی شاہ نے ہندوستانی طرز کا اوپیرا تیار کرنے کا حکم دیا۔
۴۔ امانت واجد علی شاہ کے درباری تھے اور انھیں کی فرمائش پر امانت نے اندرسبھا کی تصنیف کی۔
مسعود حسن رضوی ادیب نے مذکورہ تمام غلط فہمیوں کا ازالہ اپنی کتاب’’لکھنؤ کاعوامی اسٹیج‘‘میں بہت ہی خوب صورتی کے ساتھ کیا ہے۔ تحقیقی بات یہ ہے کہ’’ اندرسبھا‘‘ خالص عوامی تمثیل ہے اور دربار سلطانی سے اس کا دور کا واسطہ نہیں ہے۔
پلاٹ:
اندر سبھا کی کہانی مثنوی سحر البیان اور گلزار نسیم کی کہانی سے ملتی جلتی ہے۔ امانت نے اسی کہانی کے رموز و اوقاف پر اس ڈرامے کی بنیاد ڈالی ہے۔ راجا اندر کے دربار میں بہت سی پریاں تھیں ، جو اپنے رقص وسرور سے راجا اندر کا دل بہلایا کرتی تھیں۔ سبز پری شہزادہ گلفام پر عاشق ہوگئی ۔ راجا اندر نے خفا ہوکر شہزادہ گلفام کو قید میں بند کر دیا۔اور سبز پری کے پر کاٹ کر دربار سے نکال دیا۔ سبز پری جوگن بن کر گلی گلی درد بھرے انداز میں گیت گانے لگی۔ راجا اندر نے اسے اپنے دربار میں بلوایا ۔ اس کے گیت سے خوش ہوکر اسے منھ مانگا انعام عطا کیا۔ اور اسے شہزادہ گلفام عطا کردیا گیا۔ یہ جوگن در اصل سبز پری تھی۔ اس کی غلطی کو معاف کر دیا گیا۔ ساتھ ہی شہزادے کو بھی رہائی مل گئی۔ عاشق و معشوق کے ملاپ پر کہانی ختم ہوجاتی ہے۔
یہ کہانی امانت کی اپنی تخلیق کردہ نہیں ہے کئی پہلو ؤں سے ظاہر اور ہوتا ہے۔ اس کہانی میں اندر سبھاکاتصور در حقیقت ہندو دیو مالائی تصور ہے۔ قصہ کا اکثر حصہ مثنوی سحر البیان اور گلزار نسیم سے ماخوذہے علاوہ جوگن والے قصے کے ،جوگن کا کردار عوامی قصوں سے لیا گیا ہے۔جو اس وقت بہت مشہور تھا۔ اور وہ ہندوستان کا روایتی کردار ہے۔ چنانچہ یہ بات ثابت ہوئی کہ امانت نے اپنی اندر سبھا کا قصہ مثنویوں، داستانوں اور اس عہد کے مروجہ عوامی قصے کہانیوں سے لیا ہے۔ فن ڈرامہ نگاری میں یہ کوئی عیب کی بات نہیں ہے۔
امانت کی فن کاری یہ ہے کہ قصے کے بکھرے ہوئے اجزا کو ایک لڑی میں پرو کر ڈرامائی صورت حال پیدا کیا ، پھر قصے کو شعری پیکر میں ڈھال کر زبان و بیان کا حسن پیدا کرکے شاعرانہ فن سے سجایا۔ اس کی غزلیں ، گیت اور منظوم مکالمے سب امانت کے اپنے ہیں۔ اس طرح سے امانت کا تخلیقی کارنامہ ہی کہا جائے گا۔
اندر سبھا کا پلاٹ اکہرا اور سادہ ہے، واقعات میں ربط و تسلسل ہے ، فطری انداز میں واقعہ آگے بڑھتا ہے۔ بعض ناقدین نے کہا ہے پلاٹ میں کہیں کہیں خلا ہے۔ ربط نہیں ہے۔ جیسے جب سبز پری سبھا میں آتی ہے تو راجا کو سویا ہوا دیکھ کر کہتی ہے :
راجہ جی تو سوگئے دیا نہ کچھ انعام
جاتی ہوں میں باغ میں یہاں میرا کیا کام
دوسرے مصرعے کے بعد کیا ہوا کیا نہیں، سبز پری باغ میں گئی یا نہیں اس کا اندازہ کسی بات سے نہیں ہوتا ۔ البتہ اس شعر کے بعد فوراََ بعد ہی سبز پری کالے دیو سے کہتی ہے:
جا تو سنگل دیپ سے اختر نگر میںہاں
سوتا ہے اک ماہ رو لال محل پر وہاں
چھلا میں دے آئی ہوں اپنا اسے نشان
سبز نگوں کی آب سے تو اس کو پہچان
سبز پری جیسے ہی یہ شعر ختم کرتی ہے کالا دیو کہتا ہے:
لایا میں شہزادے کو جا کر ہندوستان
تو اپنے معشوق کا سبز پری پہچان
یہاں یہ اعتراض ہوتا ہے کہ قاری کو کیسے یقین آئے گا کہ کالا دیو سبزپری کے منھ سے آخری لفظ سنتے ہی پرستان اختر نگر پہنچ جاتا ہے اور شہزادے کو ڈھونڈ کر آناََ فاناََسبز پری کے پاس لے آتا ہے۔ ان خامیوں کو محسوس کرتے ہوئے امانت نے اس کی شرح لکھ کر ان خامیوں کا ازالہ کر دیا جیسے شرح میں مذکور ہے۔ جب راجا اندر محفل میں آتا ہے۔ اور پکھراج پری کو یاد فرماتا ہے اس کے لیے شرح میں یوں لکھا ہے:
’’ دو دیو راس و چپ…ہمراہ محفل میں لے کر آتا ہے…پکھراج پری کو یاد فرماتا ہے۔ ایک دیو پیچھے کھڑا رہتا ہے دوسرا پری کے لینے کو جاتا ہے‘‘
چنانچہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہندوستانی ڈرامائی فن کے نقطۂ نظر سے اندر سبھا کا پلاٹ معیاری پلاٹ ہے۔ اس میں کہیں خلا نہیں ہے۔
اندر سبھا میں کردار نگاری:
اندر سبھا میں کل آٹھ کردار ہیں۔ راجا اندر، گلفام ، سبز پری، پکھراج پری، نیل پری، لال پری، کالا دیو اور لال دیو۔ امانت کے اندرسبھا میں دیومالائی راجا اندر کی بہت معمولی سی جھلک نظر آتی ہے۔ ان کی طرز زندگی میں اس عہدے کے لکھنوی معاشرت کی جھلکیاں کافی نمایا ہیں۔ وہ شالی رومال اوڑھتا ہے۔ سنگھاسن کے بجائے مغلیہ طرز کے تخت پر بیٹھتا ہے۔ جوگن کے گانے سے خوش ہوتا ہے تو اسے لکھنوی انداز میں گلوریاں پیش کرتا ہے۔ کالے دیو سے جوگن کی تعریف سن کر اسے ان الفاظ میں لانے کے لئے کہتا ہے۔
نہ کر دیر اے دیو بہر خدا
اکھاڑے میں میرے اسے جلد لا
لفظ ’’ بہر خدا‘‘ سے صاف صاف لکھنوی لب و لہجے کی عکاسی ہوتی ہے۔
اندر سبھا کا دوسرا اہم کردار شہزادہ گلفام ہے جو غیر معمولی وجیہہ اور حسین ہے لیکن اس کے حسن میں مردانہ وجاہت کے بجائے نسوانیت کی جھلک نظر آتی ہے۔ گلفام لکھنؤ کے ماحول کاپیداوار معلوم ہوتا ہے۔ وہ نہ تو عملی جدو جہد کا جذبہ رکھتا ہے، نہ حسن تدبیر، نہ سوجھ بوجھ اور نہ ہی سمجھداری۔ یہی وجہ ہے کہ سبز پری کی بات نہ مان کر اندر کی سبھا میں جاتا ہے اور اپنے آپ قید میں ڈالنے کے ساتھ ساتھ سبز پری پر آفت کا پہاڑ گرنے کا سبب بنتا ہے۔
اس ڈرامے کا تیسرا متحرک و فعال کردارسبز پری ہے۔ مصنف کی بہترین تخلیق ہے۔ پوری کہانی پر چھائی ہوئی نظر آتی ہے۔ گلفام پر فریفتہ ہونے کے بعد ایک سچے عاشق کا کردار ادا کرتی ہے۔ گلفام کی اندر سبھا میں جانے پر اصرار کرتا ہے تو اسے بڑی حکمت و مصلحت سے سمجھاتی ہے ۔ وہ قید ہوجاتا ہے تو بے قرار ہوجاتی ہے۔ پوری خود اعتمادی کے ساتھ اس کی تلاش میں نکل پڑتی ہے۔ راجا اندر کی جانب سے تمام تر آفات و مصائب کے بعد بھی حوصلے میں کچھ کمی نہیں آتی ہے ۔ آخر کار اپنی عقلمندی اور کمال فن سے محبوب تک رسائی حاصل کرتی ہے۔
باقی کردار ضمنی ہیں پکھراج پری، نیل پری، لال پری یہ تینوں پریاں رقص و سرور میں تنوع پیدا کرنے کے لئے ہیں ۔ دیو معمولی خدمت گار ہے، کالا دیو اہم کام انجام دیتا ہے۔ ایک پرستان میں عاشق و معشوق کے وصال کا سبب بنتا ہے ۔ دوسرا راجا اندر کی سبھا تک جوگن کی رسائی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔اندر سبھا کی کردار نگاری معیاری نہیں ہے۔ البتہ امانت کا کمال فن یہ ہے کہ ان فوق فطری کرداروں کی اندرونی کشمکش اور مختلف جذباتی تصادم کو عین فطرت کے مطابق دکھایا ہے جس کے سبب ڈرامے کی اندرونی فضا سے اکتاہٹ اور اجنبی پن کا احساس نہیں ہوتا ہے۔
اندر سبھا میں مکالمہ نگاری:
امانت نے اس ڈرامے میں بہت مکالماتی انداز گفتگو کو برتا ہے۔ اور یہی ڈرامے کی خوبی اور فن کا ر کی فن کاری بھی ہے کیوں کہ ڈراما میں ’’کیا کہا‘‘سے زیادہ اہم ’’ کیا کیا‘‘ہوتا ہے۔ البتہ جو بھی مکالماتی پہلو ہے اس کو امانت نے خوب سے خوب تر طریقے پر استعمال کیا ہے۔
اغوا اور کوہ قاف سے نکالے جانے کے بعدشہزادہ گلفام اور سبز پری کے درمیان بات چیت کی ایک جھلک جواغوا کے بعد کی ملاقات کے مناظر پیش کرتا ہے :
دیکھو تم میری طرف گھر کا مت لو نام
لونڈی مجھ کو جان کر ، کرو یہاں آرام
کنویں سے نکلنے کے بعد :
شہزادہ۔
میں ترے ہاتھ لگا تو مرے پھندے میں پھنسی
میرا مطلب ہوا امید بھر آئی تیری
سبز پری۔
ہے تمنا میرے دل میں کہ اب حشر تلک
فضل استاد سے دیکھو نہ جدائی تری
اس گفتگو کے سیاق وسباق سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ مکالمہ دربارمیںنہیں ۔ طوائف کے کسی کوٹھے پر ہورہا ہے۔
اندر سبھا میں زبان و بیان:
اندر سبھا کی غزلوں، غزل نما نظموں اور مکالموں کی زبان لکھنؤ کی ٹکسالی زبان ہے۔ راجا اندر، گلفام، پریاں اور دیو سب کے سب فصیح اردو استعمال کرتے ہیں۔ البتہ چند الفاظ اس میں ایسے بھی استعمال ہوئے ہیں جو فصاحت سے خارج ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں:
’’سن رے مورے دیورے‘‘،’’تیر کلیجے کھائی‘‘
اسی طرح چھندوں کی زبان بھی اردو ہے ان میں بھی بعض متروک الفاظ کا ستعمال ہوا ہے وہ یہ ہیں۔
’’چیری‘‘’’کرتار‘‘ ’’سبھا‘‘’’سروپ‘‘پندرہ گیتوں میں ’’ بھاگ‘‘ جیسے شہزادہ گاتا ہے۔ اردو میں ہیں۔ ایک ٹھمری جیسے پکھراج پری گاتی ہے نصف اردو میں ہیں۔ یعنی کچھ الفاظ دیہاتی تلفظ کے ساتھ ہے۔ ملاحظہ ہوں:
آتی ہوئی صبا میں چھانڈ کے گھر
کاہو کی نہیں ہے آج کھیر
چیری ہوں تیری راجا اندر
رکھنا دن رین دیا کی نجر
سایہ رہے پیر پیمبر کا
مولا کی سدا کی رہے نیک نظر
استاد یہ کہہ ہر سے ہردم
دنیا میں رہیں حجرت اکہتر
اندر سبھا کی گیتوں، غزلوں میں برج بھاشا اور پوربی زبان کا استعمال خوب ہوا ہے اور عمدہ طریقہ پر ہوا ہے۔
اندر سبھا کی پیشکش:
اندر سبھا کسی ہال یا کمرے میں نہیں کھیلی جاتی تھی۔ کھلی جگہ پر شامیانہ تان کر ایک طرف پندرہ بیس فٹ لمبی اور لگ بھگ اتنی ہی وسیع جگہ اسٹیج کے لیے مخصوص کر کے باقی جگہ تماشائیوں کے لیے چھوڑ دی جاتی تھی۔ اسٹیج کے داہنے کنارے پر (تماشائیوںکی طرف سے بائیں طرف)آگے کی طرف ایک چوکی یا تخت بچھائی جاتی جسے قالین ، گائو تکیے وغیرہ سے سجایا جاتا۔ اس کے پیچھے تین کرسیاں رکھی جاتیں ، کرسیوں کی بائیں طرف ایک قدم پیچھے سازندوں کی قطار بیٹھ جاتی۔ انھیں کے ساتھ گانے والے بھی بیٹھتے تھے۔ سازندوں کے پیچھے لال رنگ کا پردہ تانا جاتا تھا اور اداکارپردہ ہٹنے کے بعد سازندوں کے بائیں جانب سے اسٹیج پر داخل ہوتے تھے۔ راجا اندر کے اسٹیج پر آنے سے قبل سازندوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے مغنی ایک ساتھ مل کر پہلے راجا اندر کی آمد گاتے ہیں۔جب یہ عمل تکمیل کو پہنچتا ہے تو پردہ ہٹا دیا جاتا ہے۔ مہتاب کے چھٹنے کے بعد راجا اندر اسٹیج پر آتا ہے۔ پکھراج پری بلاتے وقت پھر سے سازندوں کے پیچھے پردہ تاناجاتا ہے۔ کورس پکھراج پری کی آمد گاتا ہے۔ اس کے اختتام پر پردہ ہٹتا ہے اور مہتاب چھٹتے ہی پکھراج پری اسٹیج پر آتی ہیں۔پریوں کے رنگ کے اعتبار سے اسٹیج پر روشنی بھی ہوتی ہے اسی طرح دیگر کردار بھی اسٹیج پر آتے ہیں۔
اندر سبھا کی پیش کش کے طور طریقے اسٹیج کی ترقی کے ساتھ ساتھ بدلتے رہے اور وہ مختلف ترقی یافتہ طریقوں سے بھی پیش کی گئی ۔ یہاں تک کہ پارسی اسٹیج کے ابتدائی دور یعنی ۱۸۷۳ء میں ’’ الفنسٹن ناٹک منڈلی‘‘نے اندر سبھا پیش کی تو اس کے لیے پرومے تیار کرائے اور مشینوں کے ذریعے سوتے ہوئے گلفام کو اڑا کر لانا دکھایا۔ گلفام کو قید کرنے کے لیے اسٹیج پر ایک تختہ کھسک کر کنواں بن جاتا۔ بعد میں اندرسبھا کے ڈرامے اسی رنگ میں پیش کیا جانے لگا۔
Leave a Reply
2 Comments on "امانت لکھوی کی ڈرامہ نگاری:’’ اندر سبھا‘‘ کی روشنی میں"